دعا مانگنے کا طریقہ
(شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ‘ حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ العالی کی تفسیرقرآن ’’اکرم التفاسیر‘‘ پارہ اول سے اقتسابات)
قرآن کی سب سے پہلی سورۃ‘ سورۃ فاتحہ ہے لیکن اس سورۃ میں تمام قرآن کریم کا خلاصہ موجود ہے۔ سورۃ فاتحہ جب نازل ہوئی تو اس کے شانِ نزول میں علماء کرام لکھتے ہیں کہ شیطان سر میں مٹی ڈالتا تھا اور روتا تھا کہ جو لوگ نماز پنجگانہ ادا کریں گے اور اس کی ہر رکعت میں اس سورۃ کو پڑھیں گے تو میرا ان پر کیا بس چلے گا!
سورۃ فاتحہ اللہ سے تعلق‘ اللہ پر اعتماد اور اللہ کریم سے اپنی حاجات مانگنے کا طریقہ بھی سکھاتی ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثنا ہے۔ اس کی ذات اور اس کی صفات جیسی ہیں‘ ان کے ساتھ اس کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ دوسرا حصہ یہ ہے کہ اے اللہ میں تیری ذات اور تیری صفات کو مانتا ہوں اور صرف تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ یعنی پہلے حصے میں عظمت الٰہی کا اظہار ہے‘ دوسرے حصے میں اپنی بندگی‘ اپنے عجز اور اپنے ضرورت مند ہونے کی بات ہے اور تیسرے حصے میں دعا مانگی گئی ہے۔ گویا دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے عظمت الٰہی بیان کی جائے‘ اپنے عجز کا اقرار کیا جائے اور پھر جو چیز مقصود ہے وہ طلب کی جائے۔
جس طرح ہر عدالت کا ایک ادب و احترام ہوتا ہے‘ ہر حکومت کا ایک ضابطہ ہے۔ آپ کو درخواست اس کے مطابق لکھنا ہے۔ ہائی کورٹ میں جاتے ہیں تو اس کے مطابق لکھنا پڑتی ہے۔ گورنر کے پاس گزارتے ہیں تو اس کا اسلوب الگ ہوتا ہے۔ اسی طرح جب آپ بارگاہ الوہیت میں درخواست گزار ہوتے ہیں تو اس کا طریق کار الگ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس کی حمد و ثنا کی جائے‘ اس کی عظمت کا اقرار کیا جائے‘ پھر دوسرے درجے میں اپنی عبودیت کا اظہار کیا جائے کہ میں تجھے مانتا ہوں‘ میرا ایمان ہے تیرے ساتھ اور میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ اب تیسرے درجے میں آ کر مدعا عرض کرے گا کہ بارِ الٰہا یہ میری ضرورت ہے‘ مجھے عطا فرما ۔
بعض حضرات نے بسم اللہ کو الگ قرار دیا لیکن اکثر علماء کے نزدیک سورۃ الفاتحہ کا حصہ ہے۔ اسی لئے ہم نمازکی ہر رکعت میں تعوذ کے بعد تسمیہ سے شروع کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں اگرچہ ثنا نہیں پڑھی جاتی لیکن سورۃ فاتحہ‘ بسم اللہ شریف سمیت پڑھی جاتی ہے اور خاموش پڑھی جاتی ہے۔ امام قرأت کر رہا ہو تو قرأت تو الحمد للہ سے شروع کرتا ہے لیکن دل میں ضرور پڑھتا ہے۔ اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں تو بھی ثنا اور تعوذ نہیں پڑھا جاتا لیکن بعد کی رکعتیں‘ خواہ ایک ہے‘ دو ہیں یا تین ‘ وہ بسم اللہ کے ساتھ شروع کی جاتی ہیں۔
میرے شیخ حضرت مولانا اللہ یار خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح سورۃ فاتحہ قرآن حکیم کا خلاصہ ہے‘ سورۃ فاتحہ کا خلاصہ ہے کہ ہر کام کی ابتدااس اللہ کے نام سے کرتا ہوں جو رحمن ہے اور رحیم ہے۔ پھر حضرت رحمۃ اللہ علیہ‘ اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں ہوں‘ فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ فاتحہ قرآن حکیم کا خلاصہ ہے‘ بسم اللہ شریف‘ سورۃ فاتحہ کا خلاصہ ہے اور اس کی پہلی ’’ب‘‘ سارے قرآن‘ سارے دین کا خلاصہ ہے کہ یہ ’’ب‘‘ تلبّس کی ہے‘ اللہ کے نام کے ساتھ جوڑنے کی ۔یہ جڑنا جسے عربی میں تلبّس کہتے ہیں‘ کسی چیز کو کسی کے ساتھ جوڑنا ‘ فرمایا یہ سارے دین کا خلاصہ ہے۔ سارے دین کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا بندہ اللہ کی ذات سے جڑ جائے۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی ہر آیت دنیا و آخرت کے سارے مسائل کا جواب دے دیتی ہے۔ اپنی اپنی وسعت نظر ہے کہ اللہ کس کو کتنا دیتا ہے۔ جب یہ صورت ہے تو اللہ تعالیٰ نے اتنا قرآن کیوں نازل کیا؟ یہ اس کا کرم ہے‘ یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں سے کلام فرمایا اور فرماتا چلا گیا۔ کلام میں متکلم کا اثر ہوتا ہے‘ اس کی ذات کا اثر ہوتا ہے۔ آپ کسی بندے کو کسی برے آدمی کے ساتھ بٹھا دیں اور وہ اس کی صرف باتیں سنتا رہے تو اس کی عادتیں بگڑنا شروع ہو جائیں گی‘ اس میں اس کی ذات کا اثر آئے گا۔ کسی آدمی کو کسی نیک بندے کے ساتھ بٹھا دیں اور وہ روزانہ اس کی گفتگو سنتا رہے تو نیکی کی طرف مائل ہو جائے گا‘ وہ اثر اس میں بھی آ جائے گا۔ چنانچہ اللہ جل شانہٗ نے یہ جو اتنی کتاب عطا فرمائی ‘ اس میں متکلم کا اثر کیوں نہ ہوگا!
علماء کہتے ہیں کہ طریقۂ ادب یہ ہے کہ بات مختصر ہو اور اس میں سارا مفہوم آ جائے۔ قرآن کریم کا کمال یہ ہے کہ چند لفظوں میں سارا مفہوم سمو دیتا ہے۔ پھر ادب یہ ہے کہ جو پوچھا جائے‘ وہ مختصر لفظوں میں عرض کر دیا جائے اور انبیاء علیہم السلام سے بڑا مؤدب کون ہو گا!
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے‘ کلیم اللہ تھے۔ مختصر سا سوال ہوا:
موسیٰ آپ کے ہاتھ میں یہ کیا ہے۔ بات ختم ہو گئی۔ ’یہ میرا عصا ہے‘ جواب ہو گیا لیکن وہ بات بڑھاتے چلے گئے۔ معلوم نہیں انہوں نے کتنی لمبی بات کی ہوگی؟ یہ میرا عصا ہے‘ میں اس سے سہارا بھی لیتا ہوں‘ اس سے ریوڑ بھی چراتا ہوں‘ اس سے او ر بہت سے کام لیتا ہوں اور کون سے کام انہوں نے گنے ہوں گے؟ قرآن نے تو اختصار کیا‘ وہ کام بتائے نہیں لیکن انہوں نے تو گنے۔ اور بہت سے کام لیتا ہوں۔ اس کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایک اللہ کا رسول علیہ السلام‘ اولوالعزم رسول اور کلیم اللہ‘ اب اس سے زیادہ مؤدب کون ہو گا! ‘ تو جواب ختم ہو گیا پھر انہوں نے اتنی لمبی بات کیوں کی؟ علماء فرماتے ہیں کہ جو متکلم ہوتا ہے‘ اور جو مخاطب ہوتا ہے اس کے مطابق بات کرنے کا ایک اپنا مزا ہوتا ہے‘ اگر کوئی محبوب سے بات کر رہا ہے توایسا بے خود ہو جاتا ہے کہ اب بات کا مزا لینے کے لئے اسے لمبا کر تا چلا جاتا ہے۔
بیک لفظے تو اں گفتن تمنائے جہانے را
شاعر نے کہا ہے کہ دنیا کی ساری باتیں ایک لفظ میں کہی جا سکتی ہیں۔ کوئی ایک گھنٹہ بات کرے‘ آپ ’ہاں‘ کہہ دیں تو جواب ہو گیا‘ آپ ’نہ‘ کہہ دیں تو جواب ہو گیا یعنی دنیا کی ساری باتیں ایک لفظ ’ہاں‘ یا ’نہ‘ میں ختم ہو جاتی ہیں۔ کوئی شخص سا را دن آپ سے بات کرتا ہے‘ آپ اسے کہہ دیں کہ مجھے نہیں منظور‘ بات ختم ہو گئی۔
بیک لفظے تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از بہرحضوری طول دادم داستانے را
میں نے حضوری کی‘ مزے کی بات کو لمبا کر دیا کہ بات کس سے ہورہی ہے۔ بات کرنے کا مزا آ رہا ہے‘ کرتے رہو۔
موسیٰ علیہ السلام چونکہ اللہ سے بات کر رہے تھے‘ مزے میں ایسے کھو گئے کہ منقطع کرنا نہیں چاہتے تھے تاکہ اللہ کے حضور بات جاری رہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ ﷺ پر یہ احسان فرمایا کہ اتنی باتیں کیں کہ قرآن مجید بن گیا۔ اب اس کے بعد بھی اگر کوئی نہیں سدھرتا تو اس کے سینے میں دل نہیں‘ پتھر ہے اور پتھر بھی چٹان جیسا۔ اللہ کریم فرماتے ہیں کہ قرآن سے جن کی اصلاح نہیں ہوتی‘ وہ پتھروں سے بھی گئے گزرے ہیں‘ اس لئے کہ پتھروں سے بھی نہریں اور چشمے جاری ہو جاتے ہیں‘ کچھ میں سے تھوڑا پانی نکل آتا ہے ورنہ غضبِ الٰہی اور عظمتِ الٰہی کے سامنے گِر کر چور چور ہو جاتے ہیں لیکن جن پر قرآن بھی اثر نہیں کرتا‘ وہ پتھروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔
یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے اتنی لمبی گفتگو فرمائی۔ قرآن کا سمجھنا‘ قرآن پر عمل کر نا فرضِ عین ہے۔ قرآن کا سمجھنا عمل کی نسبت سے فرضِ عین ہے‘ جانے گا نہیں تو عمل کیسے کرے گا۔ لیکن قرآن اگر سمجھ میں نہ بھی آئے تو قرآن کو اللہ کا کلام سمجھ کرپڑھتے رہنا بھی خالی نہیں جاتا۔ دلوں کو منور کر دیتا ہے‘ اس لئے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ایک شخص نے مجھ سے ایک واقعہ بیان کیا کہ ہمارا ایک آدمی مر گیا۔ ہم اس کے لئے قبر تیار کر رہے تھے۔ اوپر سے قبر کا نشان نہیں تھا لیکن جب کھدائی کی گئی تو نیچے پرانی قبر تھی۔ قدرتی طور پر آدمی کو تجسس ہوتا ہے کہ جب قبر کھل ہی گئی ہے اور اس کے پتھر آ گئے ہیں تو دیکھیں ۔ ہم نے ایک پتھر سرہانے سے ہٹایا تو وہ شخص یہاں تک درست تھا کہ ہم نے پہچان لیا کہ یہ تو گاؤں کا فلاں آدمی ہے۔ عجیب بات یہ دیکھی کہ کسی درخت کی ایک جڑ اس کے منہ کے اوپر سے گزر رہی تھی اور اس میں سے ٹپ ٹپ‘ قطرہ قطرہ‘ رس گِر رہا تھا۔ رس گرنا تو ختم ہو گیالیکن بڑی خوشبو تھی۔ ہم نے واپس پتھر رکھ کر قبر بند کر دی اور دوسری قبر بنا کر بندہ دفن کیا۔ واپس گئے تو اس کی بوڑھی اہلیہ جو ابھی زندہ تھی‘ اس سے پوچھا کہ تمہیں اپنے میاں کا کوئی عمل یاد ہے‘ کون سا ایسا نیک کام اس نے کیا ہے؟ وہ کہنے لگی کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح نماز روزہ ہی کرتا تھا اور اپنی مزدوری کرتا لیکن اس کی ایک بات خاص (منفرد) تھی‘ وہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن قرآن کھول کے بیٹھ جاتا اور ہر سطر پہ انگلی پھیرتے ہوئے کہتا‘ اللہ! یہ بھی تو نے سچ کہا‘ اللہ! یہ بھی تو نے سچ کہا‘ اللہ! یہ بھی تو نے سچ کہا! وہ اس طرح سارا قرآن پڑھا کرتا تھا۔ غرض ہمارے لئے یہ تیس(30)پارے اللہ کریم کا وہ انعام ہے جس کا شکر ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔