یہ کام آج سے کوئی دس سال قبل مولانا اکرم اعوان ؒ نے غالبا نوائے وقت اخبار میں لکھا تھا۔
آنے والے دور کی دھندلی سی اِک تصویر دیکھ
مولانا محمد اکرم اعوان امیر تنظیم الاخوان
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جب افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہوئی اور پاکستان نے بھی اسے قبول کیا۔ پہلی دفعہ افغان قوم کو غیر مسلح کیا گیا اور بندوق کے بغیر مثالی امن قائم ہوا جو ایک انتہائی درجہ کی بدامنی کے بعد ہوا اور ایک کرامت کے طور پر ہوا کہ ہر طرح کے جرائم ختم ہوگئے اگرچہ طالبان ابھی مصروف جہاد تھے اور ملک کے اندر جنگ لگی ہوئی تھی افغانستان کا بیشتر علاقہ طالبان کے زیر نگیں تھا اور ملا عمر ان کے سربراہ تھے۔
وہ جہاد کی پیداوار تھے اور ابھی تک حالتِ جہاد میں تھے مگر اسکے باوجود انہوں نے مثالی انصاف فراہم کیا جسکے نتیجے میں مثالی امن قائم ہوا گورنر اور اراکین حکومت عام آدمی کے ساتھ عوامی زندگی گزار رہے تھے اور ہر فرد کیلئے ہر وقت دستیاب تھے صرف وادی پنج شیر میں احمد شاہ مسعود ان کیخلاف نبرد آزما تھا باقی سارے ملک میں امن قائم ہو چکا تھا کہ امریکہ میں حادثہ ہوا جو 9/11 کے نام سے مشہور ہے یہ حادثہ اتنا بڑا ثابت ہوا کہ اس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا بظاہر تو ایک دھماکہ ہی تھا دو جہاز دو عمارتوں سے ٹکرائے اور وہ تباہ ہوگئیں مگر اس کا اثر برسوں بعد ابھی تک روئے زمین کو لرزہ براندام کئے ہوئے ہے۔
الزام القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے سر آیا یہ بحث الگ ہے کہ ٹھیک تھا یا غلط۔ اسکے نتیجہ میں افغانستان حکومت سے امریکہ نے اسامہ بن لادن کو مانگا جو اس وقت افغانستان میں مقیم تھا۔
افغان حکومت کا موقف یہ تھا کہ محض الزام پر ہم سے مطالبہ نہ کیا جائے ہاں اگر اسامہ کیخلاف کوئی ثبوت ہو تو ہمیں دیا جائے ہم ضرور حوالے کردینگے جس پر امریکہ بہت برافروختہ ہوا‘ اسے اپنی حیثیت کا گھمنڈ تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ افغانستان کی حیثیت کیا ہے ثبوت مانگ رہا ہے اسے بے چوں و چراں ہماری بات کی تعمیل کرنا چاہئے تھی ‘یہ تو ظاہری اسباب تھے اور وہ بات تھی جو دنیا کے سامنے تھی مگر اسکے اندر کی حقیقت کچھ اور تھی جو میری رائے میں یہ تھی کہ امریکہ نے ان چند سالوں میں یہ خطرہ بھانپ لیا تھا کہ اگر یہ حکومت جاری رہی تو پھر دنیا اسکو قبول کرلے گی اور شاید امریکن بحیثیت قوم اسے قبول کرنے لگ جائیں اور لوگ مسلمان ہونا شروع ہوگئے تو پھر اسلام غالب ہوگا اور ہماری نام نہاد تہذیب کا جنازہ نکل جائیگا میں نے یہ الفاظ امریکی صدر بش کی زبان سے ٹیلی ویژن پرسنے تھے کہ:
They were going to finish our culture arround the Globe.
کہ وہ ہماری تہذیب کو روئے زمین سے مٹانے جارہے تھے۔ یہ وہ بات ہے جو ہمارے دانشور شاید آج نہیں سمجھ سکے مگر امریکہ نے بہت پہلے اس وقت سمجھ لی تھی بہرحال صورتحال کشیدہ ہوتی گئی امریکہ کا اصرار بڑھتا گیا اور ساتھ امریکہ نے دنیا کی دوسری طاقتوں کو ساتھ ملانا بھی شروع کردیا جبکہ افغانستان اپنے اصولی موقف پر قائم رہا اور بات بگڑتی چلی گئی حتیٰ کہ امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوگیا۔
امریکہ کے بڑے بڑے ہوائی جہاز ہوا کی بلندیوں سے افغانستان پر بم برسا رہے تھے کہ بندہ کے پاس بھی امریکی ٹی وی ٹیم آئی 9/11 کے بارے میں‘۔ اس کا ایک سوال یہ بھی تھا کہ جلد ہی افغان حکومت گر جائیگی اور امریکی افواج افغانستان پر قابض ہو جائینگی تو کیا ہوگا تو میں نے عرض کیا تھا کہ پھر جنگ شروع ہوگی آج تو امریکہ ہوا سے آگ برسا رہا ہے مگر قبضہ کرنے کیلئے اسے زمین پر اترنا ہوگا اور جب تم بھی زمین پر ہوگے تو پھر جنگ ہوگی۔
اس سب کے باوجود میری خواہش بھی تھی کہ کاش ملا عمر تھوڑی سی مصلحت اندیشی اختیار فرماتے اور سیاسی زبان میں ڈپلومیسی کو کام میں لاتے اور اس نوزائیدہ چھوٹی سی غریب تر اسلامی ریاست کی دنیائے کفر سے ٹکر نہ ہوتی مگر کمال ایمان ہے اللہ کے اس بندے کا جس نے کہا زندہ رہے تو حق پر رہینگے ورنہ شہید ہو جائینگے اور ہمیں دونوں طرح اللہ کریم کی رحمت نصیب ہوگی۔
بہرحال جنگ ہوئی افغانستان کی حکومت گر گئی، امریکہ اور اسکے حلیف قابض ہوئے اور پورے ملک پر آتش و آہن کا جال بن دیا۔ پہلے دس سال امریکی جور و ستم کا نشانہ بننے والے افغان مسلمانوں کی جانیں مال آبرو بلاشبہ پھر سے امریکی نوک سناں پر تھی اور ملا عمر جو قصر صدارت میں بھی ایک دیہاتی ہی تھے کہ چٹائی پر بیٹھے قہوہ اور رس سے ناشتہ کر رہے ہوتے تھے۔ موٹر سائیکل پر دیہات میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے تھے‘ ہمارے سابق صدر پرویز مشرف مذاق اڑایا کرتے تھے کہ ملا عمر موٹر سائیکل پر بھاگ گیا لیکن ملا عمر اور اسکا موٹر سائیکل ابھی تک اس ملک میں انہی دیہات میں گھوم رہا ہے جبکہ جناب صدر خود بھاگ چکے ہیں۔
اس سارے قصے میں جو بات قابل فکر ہے وہ اس شخص کا اللہ پر اعتماد ہے کہ اگر امریکہ بھی آئے گا تو میرے ساتھ میرا اللہ ہے اور میں اسکے دین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں لڑ رہا ہوں انشاء اللہ امریکہ کو بھی شکست ہوگی۔ یہ بات اس وقت تو کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی بلکہ دیوانے کی بڑ لگتی تھی مگر آج برسوں بعد امریکہ شکست کھا رہا ہے نہ صرف امریکہ بلکہ امریکہ کے ساتھ اڑتیس ممالک شکست کھا رہے ہیں اور وہ فقیرخدا مست فاتح نظر آرہا ہے یہ سب کچھ ایک کرامت ہے اور معجزہ نبویؐ ہے اسکے علاوہ اسکی کوئی تعبیر نہیں بنتی۔
میں نے سرسری سا تذکرہ کرکے یہ عرض کرنا چاہا ہے کہ یہ کتنا بڑا حادثہ تھا امریکہ اوراسکے اتحادیوں کا حملہ اور افغانستان کی نوزائیدہ ریاست پر کمال ہے اس حادثہ کے اثرات نے ایک بار تو تاریخ انسانی کا رخ بدل دیا اور پوری دنیا کو متاثرکیا کس نے کیا کیا بھگتا میں اس بحث میں نہیں پڑتا۔ مگر یہ سب جانتے ہیں کہ اس کے باعث کتنی بڑی تباہیاں آئیں اور ابھی تک دنیا لرز رہی ہے۔
مگر اب ذرا یہ تصور کرکے دیکھئے کہ امریکہ بہادر اور اسکے ساتھی ممالک اپنا اپنا بوریا بستر سمیٹ رہے ہیں آخر ایک دن انہیں جانا ہے اور یہ نہیں کہ وہ اپنا کام مکمل کرکے جارہے ہیں بلکہ انہیں شکستِ فاش ہوئی ہے اور وہ سادہ منش دیہاتی موٹر سائیکل پر سفر کرنے والا فتح سے ہمکنار ہونے کو ہے جو بحمدللہ اسے ہو چکی‘ صرف تکمیل باقی ہے۔ اب اس تناظر میں ایک منظر نامہ بنتا ہے کہ امریکہ کے حملہ سے امریکہ کی شکست بہت بڑا دھماکہ ثابت ہوگی اور وہ بھی ایک تہی دست درویش کے ہاتھوں۔
ذرا سوچیں اس دھماکے کے اثرات کیا ہونگے اور کہاں تک جائینگے میری ذاتی رائے میں برصغیر پاک و ہند اور ایشیائی ریاستیں بھی براہ راست اسکی زد میں ہونگی اور ایک بہت بڑا انقلاب آئیگا جو حق و انصاف، امن اور عدل لائے گا اور بیگناہوں اور شہیدوں کا خون انسانی معاشرے میں اپنے رنگ بکھیرے گا پھر سے اسلام امن اور سلامتی کا بول بالا ہوگا ۔انشاء اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔