جد امجد نسبت اویسیہ
سیدنا حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ
جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ (النساء آیت 69)
قرآن حکیم میں انبیاء علیہم السلام سے متصل صدیقین کا ذکر ہوا اور اس کے بعد شہداء کا‘ یہ تینوں ہی شہادت کے مدارج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی‘ اس کی صفات اور اس کے پیغام پر کامل واکمل شہادت انبیاء علیہم السلام نے دی۔ اس کی تصدیق غیر انبیاء میں سے کامل واکمل درجہ میں صدیقین کے حصہ میں آئی اور ان کے بعد شہداء اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے منصب شہادت پر فائز ہوئے ۔ اس طرح غیر انبیاء میں بلند ترین درجۂ شہادت صدیقین کے حصہ میں آیا ہے جو شہداء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ صدیقین میں سے اکمل ترین درجہ صداقت صرف ایک ہستی کو اس پائے کا حاصل ہوا کہ کوئی اور اس درجہ تک نہ پہنچ سکا ‘ وہ تھے خلیفۃ ر سول اللہ ﷺ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حسب و نسب
قبیلہ قریش کی شاخ تمیم کے ابوقحافہ کے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکی پیدائش 571/572ء یعنی سال عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ہوئی‘ گویا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے عمر میں اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ قریش کی شاخ تمیم‘ خاص اہمیت اور مرتبہ کی حامل تھی کہ خون بہا اور تاوان کی رقم مقرر کرنا اس کے سپرد تھا۔ گھر والوں نے عبداللہ نام تجویز کیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی کنیت ابوبکر سے مشہور ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ابن ابی قحافہ کا نام بھی مستعمل ہے۔ ایک روایت میں حضورﷺ نے یہ نام بھی استعمال فرمایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’عتیق‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے جس کی تشریح آقائے نامدارﷺ نے یہ فرمائی کہ وہ جہنم سے آزاد ہیں‘ ھَذَا عَتِیْقُ اللّٰہِ مِنَ النَّاراَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں حضورﷺ سے جا ملتا ہے۔
رفاقت قبل از بعثت
قبیلہ قریش کی شاخ تمیم کے ابوقحافہ کے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکی پیدائش 571/572ء یعنی سال عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ہوئی‘ گویا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے عمر میں اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ قریش کی شاخ تمیم‘ خاص اہمیت اور مرتبہ کی حامل تھی کہ خون بہا اور تاوان کی رقم مقرر کرنا اس کے سپرد تھا۔ گھر والوں نے عبداللہ نام تجویز کیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی کنیت ابوبکر سے مشہور ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ابن ابی قحافہ کا نام بھی مستعمل ہے۔ ایک روایت میں حضورﷺ نے یہ نام بھی استعمال فرمایا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’عتیق‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے جس کی تشریح آقائے نامدارﷺ نے یہ فرمائی کہ وہ جہنم سے آزاد ہیں‘ ھَذَا عَتِیْقُ اللّٰہِ مِنَ النَّاراَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں حضورﷺ سے جا ملتا ہے۔
رفاقت قبل از بعثت
اعلانِ بعثت سے قبل بھی حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رحمت عالمﷺ سے مثالی رفاقت تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ حضورﷺ کے اخلاق و فضائل سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاص مماثلت رکھتے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بعثت کے موقع پر سیدہ خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضورﷺ کے متعلق جو الفاظ استعمال کئے کہ آپﷺ اقربا پر شفقت فرماتے ہیں‘ سچ بولتے ہیں‘ بیواؤں‘ یتیموں اور بے کسوں کی دستگیری کرتے ہیں‘ مہمان نوازی فرماتے ہیں‘ وہی الفاظ عرب کے ایک سردار ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف میں قریش مکہ کے سامنے ادا کئے۔ اس نے کہا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقرا و مساکین کے دستگیر ہیں‘ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ مہمان نواز ہیں‘ حق کی راہ میں جو لوگ مصائب جھیلتے ہیں ان کے مددگار ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادات حضورﷺ کے مزاج کا پرتو نظر آتی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن سے ہی اخلاقِ حمیدہ اور اوصاف جمیلہ سے متصف تھے۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں ہی انہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی تھی۔ اخلاق و فضائل کی مماثلت نے آپس میں تعلقات اس قدر بڑھا دیئے تھے کہ حضورﷺ صبح شام دونوں وقت حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر تشریف لاتے اور یہ دستور مکی زندگی میں اعلان بعثت کے بعد بھی عرصے تک جاری رہا۔
تصدیق و شہادت
نزول وحی کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں تھے۔ واپس آئے تو حاضر خدمت ہوئے۔ آقائے نامدارﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے اعلانِ بعثت فرمایا تو اقرار شہادت میں انہوں نے لمحہ بھر توقف نہ کیا۔ وہ تو پہلے سے ہی اعلانِ نبوت کے منتظر تھے۔
حضورﷺ کا فرمان ہے کہ میں نے جس کسی پر اسلام پیش کیا وہ متردّد ہوا لیکن ابو بکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے بلا جھجک اور بلا تامل میری تصدیق کی اور فوراً ایمان لے لائے۔ علامہ بیہقیؒ نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے ہی آثارِ بعثت اور دلائل نبوت کی تصدیق کر چکے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے رویائے صادقہ کے ذریعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیغمبر آخر الزمانﷺ کی بعثت کی خبر دی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح میں دو ایسی رویائے صادقہ کی خبر ملتی ہے۔پہلے خواب کی تعبیر میں بحیرا راہب نے انہیں خبر دی تھی کہ تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث ہوں گے۔ دوسرے خواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ ایک چاند مکہ معظمہ پر طلوع ہو کر مختلف حصوں میں بٹ گیا اور ان میں سے ایک ٹکڑا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں داخل ہوا۔ پھر تمام اجزا مل گئے اور پورا چاند آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں آگیا۔ اہل کتاب میں ایک تعبیر کرنے والے نے بتایا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس نبی آخر الزمانﷺ کی پیروی کریں گے جس کی آمد کا انتظار ہے اور اس کے تمام پیروکاروں میں سب سے فضیلت والے ہوں گے۔ حضرت سید علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صاحب مشاہدہ کہا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آقائے نامدارﷺ کی روشن پیشانی پر نورِ نبوت کی ضیا فشانی کا مشاہدہ کر رہے تھے اور اعلان نبوت کے منتظر تھے۔
حضرت جیؒ فرماتے ہیں:
’’صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ تو حضورﷺ کی بعثت سے پہلے ہی آپﷺ کے منتظر تھے اور حضورﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے ہی آپﷺ کی نبوت پر ایمان رکھتے تھے۔ چنانچہ جونہی حضورﷺ نے نبوت کا اعلان کیا‘ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایمان کا اظہار کر دیا۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصدیق و شہادت میں ایمان و تیقن کی وہ کیفیت نظر آتی ہے جس میں اول تا آخر کسی لمحہ‘ کسی دلیل یا وضاحت کی ضرورت پیش نہ آئی۔
لقب صدیق
حضورﷺ کا عالم بیداری میں معراج جسمانی ایک ایسا محیر العقول واقعہ ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ معراج شریف سے واپسی پر سرورِ کائناتﷺ نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ دنیا میں سب سے پہلے اس کی تصدیق کون کرے گا۔ جواب ملا: ’’ ابو بکر صدیق ‘‘ گویا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کا لقب ’’صدیق‘‘ سب سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے استعمال کیا۔
ابو جہل نے واقعہ معراج سنا تو طنزاً حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگا کہ آج آپ کے دوست نے عجیب بات کہی ہے کہ راتوں رات مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا سفر کیا ہے اور آسمانوں کی سیر کی ہے۔ حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر حضورﷺ نے کہا ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ آپﷺ نے یہ جواب سنا تو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لقب ’’صدیق‘‘ سے سرفراز فرمایا۔
سکینۃ الاولیاء میں محمد دارا شکوہ نے معراج کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول مزید کا ذکر کیا ہے:
’’اگر سرور عالمﷺ یہ فرماتے کہ مجھے تمام اہل خانہ سمیت معراج حاصل ہوا ہے تو یقیناًمیں قبول کرتا"۔
ایثار و قربانی
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایمان لانے کے بعد اپنا تن‘ من‘ دھن سبھی کچھ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لئے وقف کر دیا۔ جب مسلمانوں کی تعداد 39 ہوگئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورﷺ سے یہ عرض کرتے ہوئے بیت اللہ میں دعوت عام کی اجازت مانگی کہ انہیں یہ دیکھ کر قلق ہوتا ہے کہ کفار تو اعلانیہ بت پرستی کریں لیکن دین حق محجوب و مستور رہے۔ حرم کعبہ میں اسلام کے حق میں یہ سب سے پہلی تقریر تھی جس کا سخت ردعمل ہوا۔ ہجوم کفار نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قدر زدوکوب کیا کہ بیہوش ہوگئے اور خاندان والوں نے زخمی حالت میں گھر پہنچایا۔ اس کا صلہ یہ ملا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کو نبی رحمتﷺ کی دعا کے صدقے میں اسی وقت ایمان کی دولت نصیب ہوئی جبکہ والد ابوقحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ خصوصی اعزاز ہے کہ ان کی چار پشتیں صحابی تھیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام قبول کرنے کے موقع پر چالیس ہزار درہم سرمایہ کے تاجر تھے اور مکہ کے اہل ثروت لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ ابن ماجہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بیان نقل ہے کہ میں قریش میں سب سے بڑا اور متمول تاجر تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مال سے ان کنیزوں اور غلاموں کو خرید کر بکثرت آزاد کیا جو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں کفار کے ظلم کا شکار تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت سات صحابۂ کبار بھی ان میں شامل ہیں۔ سفر ہجرت کے اخراجات کے لئے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرمایہ کام آیا۔ مدینہ منورہ پہنچے تو پانچ ہزاررہم بچ گئے تھے۔ مسجد نبوی کی زمین دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی جو انہوں نے ہدیتہ پیش کر دی لیکن حضورﷺ نے اس کی قیمت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دلوائی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر گھر کا تمام اثاثہ پیش کر دیا اور جب آقائے نامدارﷺ نے دریافت فرمایاکہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے تو عرض کیا:
ان کے لئے اللہ اور رسول ﷺہی کافی ہیں۔
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مالی ایثار کا تذکرہ خطبۂ حجتہ الوداع میں بھی فرمایا گیا۔ محسن انسانیتﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں
’’رفاقت اور مال میں مجھ پر سب سے بڑا احسان ابوبکر کا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
اللہ تعالیٰ کی معیت ذاتی میں شرکت
سفر ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غارِ ثور میں حضورﷺ کی رفاقت کا جو منفرد اعزازحاصل ہے وہ صرف ان ہی کا حصہ ہے۔ آقائے نامدارﷺ سے ان کی روز اول سے رفاقت کے پیش نظر عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سفر ہجرت میں ان کو آپﷺ کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا تو یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کی اتنی بڑی سند ہے جس کی رو سے علماء کا اتفاق ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت و صحابیت قرآن مجید میں منصوص ہے اور اس بنا پر ان کی صحابیت کا منکر کافر ہے۔
وہ ساعتیں بھی کیا خوب تھیں جب اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ اور آپﷺ کے یارِ غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہم معیت ذاتی میں شریک تھے ‘کسی شرط کا ذکر نہ کسی صفت کا تذکرہ۔ یہ ان جذبوں کی پذیرائی تھی جن کا اظہار غار ثور کی تنہائیوں نے دیکھا۔ حبیب کبریاﷺ کا سرمبارک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکی گود میں تھا۔ آپ ﷺ محوِاستراحت تھے اور ان تنہائیوں کے رفیق سیدنا صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ جمالِ نبویﷺ میں کھوئے ہوئے تھے۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس خواب کی تعبیر تھی جو انہوں نے اسلام لانے سے قبل دیکھا تھا کہ پورا چاند ان کی گود میں آگیا ہے۔ اس عالم میں غارِ ثو ر کے آس پاس مکہ والوں کے قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔ یہ لوگ آقائے نامدارﷺ کی جان کے درپے تھے۔ حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ خوب جانتے تھے کہ کفار کی آمد کا مقصد کیاہے ۔ اپنی ذات کے بارے میں تو وہ ہر فکر سے بے نیاز تھے لیکن ایک بے کلی کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ گود میں حبیب کبریاﷺ کا رخ انور اوراطراف میں آپﷺ کے خون کے پیاسے کفارِ مکہ کے قدموں کی آہٹ۔ ایک طرف وہ ہستی جو باعث تخلیقِ کائنات ہے‘ رحمۃ للعالمین ہے‘ ان کفارِ مکہ کی بھلائی کے لئے مضطرب لیکن اب انہی کے ہاتھوں اپنے مولد و مسکن اور بیت اللہ کو چھوڑنے پر مجبور‘ دوسری طرف ناسمجھ کفارِ مکہ جو اپنے محسن اورخیرخواہ کی جان کے درپے ہیں۔
یقین تھا کہ حبیب کبریاﷺ کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے جس کے حکم سے مکہ مکرمہ چھوڑا اور اب ہجرت کی پہلی منزل‘ غار ثور میں تین رات کے لئے پڑاؤ ڈال رکھا تھا لیکن اس عالم میں حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیثیت ایک امین کی سی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پورا گھرانہ آقائے نامدارﷺ کی حفاظت اور خدمت پر مامور تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد بکریوں کے دودھ اور کھانے کی فراہمی تھی‘ غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بکریوں کا ریوڑ چراتے ہوئے پاؤں کے نشان مٹا دیتے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بات پر ابوجہل کے ستم کا نشانہ بنی تھیں کہ انہوں نے حضورﷺ اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کچھ بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ حفظِ امانت کے مکمل اہتمام کے باوجود دشمن غارثور تک آن پہنچا تھا اور مشرکین مکہ کی گھٹنوں سے نیچے ٹانگیں نظر آر ہی تھیں۔ اگر وہ جھک کر دیکھ لیں تو!
صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل کی بے کلی کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس کی محبت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبوں جیسی گہرائی رکھتی ہو‘ محبوب محمد رسول اللہﷺ جیسا بے مثل و بے مثال ہو اور دشمن ابوجہل سا ظالم اور کمینہ ہو۔ حفاظت کے اہتمام میں تو کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا تھا لیکن کسی نادانستہ کوتاہی کی وجہ سے حبیب پاکﷺ کو کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے! حفاظت الہٰیہ پر مکمل بھروسے کے باوجود یہی فکر لاحق تھی۔ دل کی بے قراری حد سے بڑھی تو ان کے چہرے سے عیاں ہو گئی۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر مکمل یقین کے باوجود اور انعام و اکرام کی خبر مل جانے کے بعد بھی دل اتنا ہی زیادہ بے قرار ہو جاتا ہے کہ مبادا اپنی طرف سے کوئی کمی رہ گئی ہو! غزوہ بدر میں فتح کی بشارت مل چکی تھی یہاں تک کہ آپﷺ نے ابوجہل اور دوسرے مشرکین مکہ کے مقتل کی نشاندہی بھی فرما دی تھی لیکن اس کے باوجود عریش بدر میں اللہ کے حضوردعا مانگتے ہوئے آپﷺ کا اضطراب اس قدر بڑھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دلاسا دینا پڑا کہ یقیناًاللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔
غارِ ثور میں کچھ اسی طرح کا معاملہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ درپیش تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ مبارک پر جب دل کی بے قراری کی جھلک دیکھی تو آقائے نامدار ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھارس کا یہ پیغام دیا:
فکرمند نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم دونوں کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حبیب پاکﷺ کے رفیق غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنی معیت ِ ذاتی کے ذریعے وہ سکینہ نازل فرما دی جس نے دو عالم سے بے نیاز کر دیا اور کوئی حزن باقی رہا نہ فکر۔
آقائے نامدارﷺ نے ایک مرتبہ اپنے ثناخواں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ تم نے میرے رفیق غار کی نسبت بھی کچھ کہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہﷺ! کہا ہے:
فکرمند نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم دونوں کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حبیب پاکﷺ کے رفیق غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنی معیت ِ ذاتی کے ذریعے وہ سکینہ نازل فرما دی جس نے دو عالم سے بے نیاز کر دیا اور کوئی حزن باقی رہا نہ فکر۔
آقائے نامدارﷺ نے ایک مرتبہ اپنے ثناخواں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ تم نے میرے رفیق غار کی نسبت بھی کچھ کہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہﷺ! کہا ہے:
وَثَانِیَ اثْنَیْنِ فِی الْغَارِ الْمُنِیْفِ وَقَدْ
طَافَ الْعَدُوُّ بِہٖ اِذْ صَاعَدَ الْجَبَلا
بلند غار میں رفاقت کرنے والے جو دو میں دوسرے تھے
ایسے وقت میں جب کہ دشمن پہاڑ پر چڑھ کر تلاش میں تھا
وَکَانَ حُبَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ قَدْ عَلِمُوْا
مِنَ الْخَلَا ءِقِ لَمْ یَعْدِلْ بِہٖ اَحَدَا
لوگ جانتے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کے دوست ہیں
(انبیاء کے بعد) خلائق میں ان کا کوئی ہمسر نہیں
حضورﷺ نے تبسم فرمایا اور کہا:
’’اے حسان تم نے سچ کہا‘ وہ ایسے ہی ہیں۔‘‘
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،جد امجد نسبت اویسیہ
1
|
2
|
3
|
4
|
5
|
6
|
7
|
8
|
9
|
10
|
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔