حضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ۔۔۔ احوال وآثار
ڈاکٹر آصفہ اکرم (پی ایچ ڈی اسلامیات)
کمپوزنگ: آصف الرحمن راولپنڈی
قلزم فیوضات حضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا وصال 15جمادی الاول 1404ھ کو ہوا۔ اس مناسبت سے آپ کی حیات مبارکہ پر یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔ مصنفہ نے آپ کی تصانیف پر ایک تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔
قلزم فیوضات حضرت العلام مولانا اللہ یار خان ؒ ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ آپ ایک جید عالم‘ ناقابل شکست مناظر اور صوفی کامل کی حیثیت سے مشہورومعروف تھے۔ آپ کو متعدد علوم متداولہ میں کمال دسترس حاصل تھی‘ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ واصول فقہ‘ ادب ولغت‘ عربیت اور کلام وغیرہ تمام علوم دینیہ آپ کی توجہات کا خاص مرکز رہے۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ مذاہب باطلہ کو بے نقاب کرنے میں گزرا۔ اس ضمن میں آپ کی نہایت گراں قدر تحقیقی تصانیف منظر عام پر آئیں‘ مثلاً تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین‘ الدین الخاص‘ ایمان بالقرآن‘ تحقیق حلال وحرام‘ الجمال والکمال اور نفاذ شریعت وفقہ جعفریہ وغیرہ۔ متذکرہ بالا کتب کے علاوہ حیات بزرخیہ‘ حیات النبی علیہ وسلم‘ اسرار الحرمین اور سیف اویسیہ آپ کی یادگار تصانیف ہیں۔
آپ متجہد فی التصوف اور سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے بانی شیخ تھے۔ تصوف وسلوک کے نام پر جاری بدعات کو آپ نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور عامتہ المسلمین کو صحیح اسلامی تصوف سے روشناس کیا۔ اس موضوع پر آپ کی شہرہ آفاق کتاب دلائل السلوک طالبین رشدو ہدایت کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ آ پ نے اپنی زیر نگرانی دارالعرفان منارہ کا قیام فرمایا۔ جواب تعلیم وتربیت کے حوالے سے بین الاقوامی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔آپ اردو کے علاوہ عربی‘ فارسی‘ ہندی‘ گرمکھی اور سنسکرت زبان پر مہارت تامہ رکھتے تھے اس کمال کے باعث آپ کی تصانیف اور تحقیقی مقالات کی قدروقیمت میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ ذیل میں آپ کے ا حوال وآثار قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔
خاندانی پس منظر:
خاندانی پس منظر:
حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ صاحب اعوان خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کے جد اعلیٰ محمد بن الحنفیہ تھے۔ جو حضرت علی کرم اللہ وجہ کے صاحبزادے تھے۔ فرقہ کیسانیہ نے انہیں حضرت علیؓ کے بعد امامت وخلافت کا حقدار قرار دیا۔ محمد بن الحنفیہ کی اولاد میں سے ساہو خان اور قطب شاہ نے افغانستان ہرات کے قلعہ پر قبضہ کیا اور پھر سلطان محمود غزنوی کے سپہ سالاروں میں شامل ہو گئے۔ سومنات کے حملہ میں ملک ساہو خان‘ قطب شاہ اور مسعود غازی نمایاں سالار تھے۔ مسعود غازی سومنات کے حملہ میں شہید ہو گئے اور قطب شاہ واپسی پر کالا باغ ضلع میانوالی میں مقیم ہوئے اور ان کی اولاد کوہستان نمک میں بہت پھیلی۔ اضلاع چکوال وخوشاب اعوان خاندان کا مرکز رہے ہیں جس میں نامور سپہ سالار‘ غیوروبہادر سپاہی‘ نابغہ روزگارعلماء‘ صلحاء ‘ دانشور‘ ادیب شعراء صوفیائے کرام اور اولیائے کرام پیدا ہوئے ہیں۔ سلطان العارفین محمد شال وسلطان العارفین سلطان باہو اسی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ ایسی ہی ایک نابغہ روزگار ہستی کا نام حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ ہے جن کے بارے میں خطیب اعلیٰ بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں:
جس طرح ملک ساہو خان‘ قطب حیدر اور سالار غازی مسعود نے سلطان محمود غزنوی کے ساتھ مل کر سومنات فتح کیا‘ ان کی اولاد میں حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ اور مولانا محمداکرم اعوان نے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا۔ صدیوں بعد اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اویسی سلسلہ کے مجدد حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ صاحب ظہور پذیر ہوئے۔
نام ونسب:
مولانا ۱۴۲۳۔۱۴۲۴ھ / 1904ء کو موضع چکڑالہ ضلع میانوالی کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام ذوالفقار تھا جو خاندان کے دیگر افراد کی طرح کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ والدہ کا نام عالم خاتون تھا۔ آپ کا خاندان چکڑالہ کے شمال میں اڑھائی تین میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹے سے ڈیرے پر قیام پذیر تھا۔ جہاں پر آپ کا بچپن کھیتی باڑی کے امور میں والد کا ہاتھ بٹاتے ہوئے گزرا۔ سنت انبیاء ؑ کی پیروی میں بکریاں چرانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ بچپن ہی سے صالح فطرطت کا عکس آپ کی شخصیت میں نمایاں تھا۔ فرمایا کرتے تھے: جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے حقہ‘ سگریٹ جیسی تمام خرافات سے محفوظ رہا۔ نماز کبھی قضا نہیں ہوئی۔ ہربرائی سے اللہ نے میرے دل میں نفرت پیدا کر دی تھی اور اسلام کی محبت کا جذبہ میرے دل میں موجزن تھا۔
تعلیم وتربیت:
پانچویں تک کا نصاب نہایت قلیل عرصہ میں ختم کرنے کے بعد آپ نے دیگر علوم مروجہ کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ اس دور میں باقاعدہ مدارس نہیں تھے۔ کسی گاؤں میں کسی فن میں کمال رکھنے والے استاد کے پاس جا کر طلباء وہ فن سیکھتے‘ ان کتابوں کی تکمیل کے بعد کسی اور کے پاس حاضر ہو جاتے۔ آپ نے بھی علم کی جستجو میں مسجد خواجگان ڈلوال‘ چکوال کے قریب انے والا موہڑہ‘ لنگر مخدوم کے قریب چک نمبر ۱۰ بھلوال جیسی کئی جگہوں پررہ کر صرف ونحو‘ فلسفہ ومنطق ‘ عربی علوم وفارسی کی نہ صرف تحصیل کی بلکہ ان میں کمال حاصل کیا۔
مدرسہ امینیہ میں:
مختلف اساتذہ سے استفادہ کے بعد آپ مدرسہ امینیہ دہلی دورہ حدیث کے لیے تشریف لے گئے۔ اس مدرسہ کی کفالت وسرپرستی مفتی کفایت اللہ صاحب فرما رہے تھے۔ ریشمی رومال تحریک کی وجہ سے وہاں کے اساتذہ یا تو قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے تھے یا ملک بدر کر دیئے گئے تھے اور جو انگریز کی دست برد سے بچ رہے ان میں سے اکثر مدرسہ امینیہ میں تعلیم وتدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے جن کی علمی قابلیت سے آپ نے بھرپور استفادہ کیا۔
علم طب کا حصول:
علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد آپ نے علم طب کی کتابیں پڑھیں اور چھ ماہ کے عرصے میں اس میں خوب مہارت حاصل کر لی۔ آپ کے رفقا کا کہنا ہے کہ آپ کی تشخیص درجہ کمال کی تھی۔ آپ خود فرمایا کرتے تھے۔
اگر میں طب کو بطور پیشہ اپناتا تو بڑا کامیاب حکیم ہوتا۔
۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۳ء تک سات آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں آپ نے اپنی تعلیم مکمل فرمائی۔
:تحصیل علم۔۔۔ چند نمایاں خصوصیات
تحصیل علم میں آپ کی چند نمایاں خصوصیات قابل ذکر ہیں۔ اللہ کریم نے آپ کو بلند پایہ ذہانت اور حافظہ کی بے پناہ قوت سے نواز رکھا تھا۔ استاد محترم سے سبق ایک مرتبہ سنتے ہی ازبر ہو جاتا ۔ دہرانے کی ضرورت شاذونادر ہی پیش آتی۔ کبھی کبھار طلبہ کے ساتھ مل کر دہراتے تو انہیں گمان ہوتا کہ آپ نے ساری کتابیں پہلے ہی پڑھ رکھتی ہیں۔ اب تو محض دہرائی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس خصوصی نعمت کی وجہ سے آپ نے کسی استاد کے پاس چھ ماہ سے زائد عرصہ نہیں گزارا۔
آپ کے مزاج میں تحقیق وجستجو کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جب تک سبق کی گہرائی میں نہ پہنچ جاتے استاد صاحب کو آگے نہ بڑھنے دیتے۔ حدیث جبرئیل کے بارے میں ایک مرتبہ فرمایا:
’’گھنٹہ یا دو گھنٹہ میں نے استاد صاحب کو آگے نہیں پڑھانے دیا جب تک صحیح مسئلہ کو سمجھ نہیں لیا۔‘‘
کتب بینی کی عادت کا یہ حال تھا کہ کہیں بھی سفر پر تشریف لے جاتے توچند کتب ساتھ ضرور ہوتیں۔ فرصت ملنے پر کتاب کا مطالعہ فرمانے لگتے۔ اچھی بھلی موٹی کتاب نصف صبح اور نصف شام پڑھ کر ختم کر دیتے۔ علماء سے آپ کو یہ شکوہ ہمیشہ رہاکہ نہ تو یہ لوگ مطالعہ کرتے ہیں نہ ہی باطل عقائد ونظریات کا علم سیکھتے ہیں۔
:حافظ غلام قادری صاحب کا بیان ہے:
آخر عمر تک ساتھیوں میں سے کوئی بیرون ملک جاتا تو وہاں سے ملنے والی کتابوں کے نام دیتے۔ ایران عراق کو کوئی جائے یا یورپ کتابوں کی تلاش اس کا پہلا کام ہوتا۔ کراچی اپنے قیام کے دوران نور محمد کارخانہ تجارت والوں سے کتنی کتابیں خود میری معرفت آپ نے منگوائیں۔
مختلف رفقا کے نام لکھے گئے آپ کے خطوط سے بھی حافظ صاحب کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے
آپ کی ذاتی لائبریری میں ہر مذہب وعقیدت کی کتابیں موجود ہوتیں۔ ہندوؤں کے وید‘ انجیل کے نسخے‘ مرزائیوں کی کتابیں اور شیعہ عقائد پر تو بے پناہ کتب آپ کی ذاتی لائبریری میں موجود تھیں۔ برصغیر پاک وہند میں اتنی بڑی ذاتی لائبریری شاید ہی کسی کے پاس ہو جس میں کتب کی قیمت کا اندازہ کئی لاکھ روپے ہے اور جو کئی ہزار نادر ونایاب کتب پر مشتمل ہے۔ ترجمہ کے بجائے آپ اصل زبان میں کتاب پڑھنا پسند فرماتے۔ اس لیے عربی زبان میں اکثر کتب موجود ہیں۔ عربی اور فارسی زبان کے علاوہ گرمکھی اور ہندی زبان بھی آپ نے سیکھی تا کہ ہندو ازم کا مطالعہ بھی کر سکیں۔ لائبریری میں کام کے دوران میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ کیا کہ آپ کی استعمال کردہ کتب میں سے کوئی کتاب ایسی نہ تھی جس کے ابتدائی یا آخری صفحات پر آپ نے نہایت سلیقے کے ساتھ مفصل یا مجمل نوٹس رقم نہ فرمائے ہوں۔ یہ نوٹس کتاب کے خلاصہ کے علاوہ مصنف کے خیالات ونظریات اور اس کتاب کے بارے میں دیگر مصنفین کی آراء پر مشتمل ہیں۔
:تحصیل سلورک واحسان
علوم ظاہری کے حصول کے سلسلے میں چک نمبر ۱۰ سرگودھا میں تھے کہ آپ ؒ کے استاد صاحب کے بیل چوری ہو گئے۔ باقی شاگردوں کے ساتھ آپ بھی تلاش میں نکلے اور لنگر مخدوم کے پاس ایک چوپال میں موجود لوگ کودیکھ کر آپ بھی وہاں جا بیٹھے کہ شاید باتوں میں چوری کا سراغ مل جائے۔ اس محفل میں سماع موتیٰ اور برزخی زندگی زیر بحث تھی۔ آپ اس وقت تک سماع موتیٰ کے منکر تھے اور وہاں بھی زیادہ تر لوگوں کے دلائل ایسے ہی نظریات کے مطابق تھے۔ محفل میں موجود ایک معمر شخصیت نے بحث کو سمیٹتے ہوئے فرمایا ’’میں آپ کو کیسے سمجھاؤں!مجھ سے تو وہ باتیں کرتے ہیں۔‘ ان کی یہ بات مولانا کے لیے نہایت حیران کن ثابت ہوئی اور آپ فوراً ان کے ساتھ ہو لیے۔ وہ بزرگ آپ کو سلطان العارفین کے مزار پر لے گئے۔ مراقبہ کیا اور آپ سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’بیٹا حضرت پوچھ رہے ہیں‘ مولوی صاحب عقیدتاً وارادتاً آئے ہیں یا امتحاناً۔ آپ نے جواب میں عرض کیا ’’ ارادتاً حاضر ہوا ہوں۔‘‘ ساتھ لے جانے والے بزرگ نے فرمایا ’ مولوی صاحب پشتو‘ انگریزی وغیرو کوئی بھی زبان سیکھنے اور پھر اس میں کلام کرنے کیلئے خاصاوقت لگتا ہے۔ خاصی محنت سے بندہ کلام پر قادر ہوتا ہے اور یہ تو برزخ کی زبان ہے‘ سیکھنے کیلئے کچھ وقت درکار ہو گا‘ پھر کچھ محنت ومجاہدہ بھی کرنا ہو گا۔‘‘ جب آپ تیار ہو گئے تو انہوں نے ذکر الہی کا طریقہ سکھایا اور کچھ عرصہ بعد صاحب قبر سے رابطہ کروا دیا۔
بظاہر یہ عام سا واقعہ آپ کی زندگی میں تصوف وسلوک کے باب کا پیش لفظ ثابت ہوا۔ ذکر الہی کی تعلیم دینے والے یہ بزرگ مولانا عبدالرحیم ؒ تھے جو علاقہ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ صاحب مزار سلطان العارفین حضرت اللہ دین مدنی ؒ ہیں جو دسویں صدی ہجری میں مدینہ سے ہجرت کر کے اس علاقہ میں تشریف لائے اور ۶۳ برس کی عمر میں یہیں ان کا نتقال ہوا۔ لنگر مخدوم میں تین سال قیام پذیر رہ کر مولانا نے حضرت اللہ دین مدنی ؒ کی معیت میں نسبت اویسیہ کے توسط سے برکات نبوت اور علوم باطنی حاصل کیے۔
:اساتذہ وشیوخ
کہاں اور کس کس جگہ مقیم رہ کر آپ نے تعلیم حاصل کی‘ اس کے متعلق تفصیلی معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ تاہم آپ کے اساتذہ میں مفتی کفایت اللہ ؒ جیسی قدآور شخصیت کا نام نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ علامہ انور شاہ کاشمیری ؒ سے بھی آپ نے چند دقیق علمی مسائل کی تحقیق کے سلسلے میں استفادہ کیا ہے مگر ان سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ ان سے بے حد متاثر تھے۔ فرماتے تھے’’اگر اللہ کریم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا عمل لائے ہو تو عرض کروں گا میں نے آپ کے ایک نیک بندے کی زیارت کی ہے اور وہ ہیں حضرت انور شاہ کاشمیریؓ۔‘‘ اساتذہ کے سلسلے میں قاضی شمس الدین ؒ پنڈی گھیب دارے والی مسجد کے خطیب ‘ جن کا انتقال ۱۹۸۸ء میں ہوا کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ محض غلط فہمی ہے۔ چند اسباق کی دہرائی آپ نے قاضی صاحب کے پاس کی جو کسی وجہ سے آپ کی عدم موجودگی میں پڑھائے گئے تھے جب کہ قاضی صاحب مرحوم نے مناظرہ رشیدیہ کی کتاب آپ سے سبقاً سبقاً پڑھی ہے۔
آپ کے شیوخ میں مولانا عبدالرحیم ؒ اور سلطان العارفین حضرت اللہ دین مدنی ؒ کا نام قابل ذکر ہے۔
:ذریعہ معاش
مولانا کی ملازمت کا آغاز میانوالی پولیس میں تعیناتی سے ہوا لیکن طبعی میلان کچھ اور ہی تھا۔ اس لیے وہ نوکری چھوڑ دی۔ پھر پشاور جیل کے عملے میں شامل ہو گئے لیکن وہاں کے ہندو داروغہ سے اس لیے نہ بنی کہ وہ راشی اور قیدیوں کو ملنے والی رقم غبن کرتا تھا۔ آپ نے تعاون نہ کیا اور اس ملازمت سے بھی سبکدوش ہو گئے اس کے بعد آپ نے کوئی ملازمت نہ کی۔ طبیعت کی سخاوت کی وجہ سے علم طب کو بھی آپ نے فلاح عامہ کیلئے عام کر رکھا تھا لہذا آپ کی گزر اوقات کا واحد ذریعہ آپ کا خاندانی پیشہ کاشتکاری تھا اور اس کی بھی کثیر آمدنی احباب سلسلہ کی خدمت کیلئے وقف تھی۔
:ازدواجی زندگی
مولانا نے تین عقد فرمائے۔ آپ کی اولاد دو صاحبزادوں اور دو صاحبزادیوں پر مشتمل ہے۔
:درس وتدریس
آپ نے اپنی حیات مستعاد کا ہر لمحہ درس وتدریس کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ کئی مدارس و مساجد میں آپ کے حلقہ ہائے درس قائم تھے۔ تاہم ملتان‘ چکڑالہ‘ لنگر مخدوم اور دارالعرفان منارہ کے عوام آپ کی تدریسی خدمات سے زیادہ مستفید ہوئے۔
:فتاویٰ
آپ ملکی سطح پر ایک معتبر عالم اور عظیم صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عوامی رہنما کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ لوگ اپنے ذاتی معاملات میں رہنمائی کے خواستگار ہوتے اور ان کے باہمی تنازعات میں آپ کا فیصلہ قول فیصل کا درجہ رکھتا تھا۔ پورے علاے میں کہیں بھی کوئی جھگڑا کھڑا ہو جاتا‘ اسے آپ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ آپ خود وہاں تشریف لے جاتے اور شریعت مطہرہ کی روشنی میں فریقین کی باہمی رضامندی سے تنازعہ حل فرماتے۔ آپ کے فیصلوں کو عدالتی فیصلوں پر فوقیت دی جاتی۔
حافظ غلام قادری صاحب لکھتے ہیں:
آپ کی شہرت عام ہوئی تو لوگ دور نزدیک سے مختلف مسائل کے بارے میں پوچھنے آتے۔ خصوصاً طلاق ونکاح کے مسائل کیلئے تلہ گنگ‘ اٹک‘ کالا باغ اور گردونواح سے لوگ آپ ہی کے پاس آتے جس کی ایک وجہ آپ کی علمی قابلیت واعتماد اور دوسرا آپ کا کردار کہ صرف اور صرف حق بات ہی آپ سے معلوم ہو گی۔ مولانا کے فتاویٰ کا ایک سرسری جائزہ لینے سے معلوم وتا ہے کہ آپ کی فتویٰ نویسی کسی خاص شعبہ زندگی تک محدد نہ تھی بلکہ ایمانیات‘ عبادات‘ معاملات‘ اخلاقیات‘ باطل فرقوں کی بے نقابی‘ حکومتی وریاستی امور غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں آپ نے عوام وخواص کی رہنمائی فرمائی۔ آپ بلاشبہ اپنے استاد محترم مفتی کفایت صاحب کے شاگرد رشید ثابت ہوئے۔
:بحیثیت مناظر
مولانا اپنی کتاب ’’ الدین الخالص‘‘ میں رقم طراز ہیں:
میں نے علوم ظاہری سے فارغ ہو کر علوم باطنیہ کی طرف توجہ کی۔ منازل سلوک طے کرتے ہوئے جب دربار نبوی تک رسائی ہوئی تو ارادہ کیا کہ اب بقیہ عمر تخلیہ میں بیٹھ کر یاد الہی کروں گا۔ ایک روز سحر کے وقت اپنے معمول میں دربار نبوی میں حاضر ہوا تو اچانک حضور نبی کریم ﷺ کی طرف سے یہ القائے روحانی میرے قلب پر شروع ہوا۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’اسلام کا مکان پتھروں اوراینٹوں سے تیار نہیں ہوا اس میں میرے صحابہؓ کی ہڈیاں لگائی گئیں۔ پانی کی جگہ میرے صحابہؓ کا خون لگایا گیا اور گارے کی جگہ میرے صحابہؓ کا گوشت لگایا گیا۔اب لوگ اس مکان کو گرانے پر لگے ہوئے ہیں۔ میرے صحابہؓ کی توہین کی جا رہی ہیں اور جو شخص اس کے انسداد کی قدرت رکھتے ہوئے خاموشی سے بیٹھا رہے کل قیامت میں خدا کے سامنے کیا جواب دے گا۔ ایک صوفی عارف عالم کو ہمیشہ خدا پر بھروسہ اور توکل چاہیے۔ جب تک خدا تعالیٰ نے اس کے وجود سے کام لینا ہے اس کو محفوظ رکھے گا۔ جب اس کی ڈیوٹی پوری ہو گئی اس کو بلا لے گا۔‘‘ مولانا کے بقول یہ واقعہ تقسیم ملک کے بعد پیش آیا۔ اس کے بعد سے آپ نے نہایست مستعدی کے ساتھ عظمت صحابہؓ کا دفاع کیا اور میدان مناظرہ میں مخالفین کو پے درپے فاش شکستوں سے دوچار کیا۔ مولانا کے ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں مناظرے ملتان‘ بہاولپور‘ میانوالی‘ کیملپور‘ چنیوٹ ‘ بھیرہ‘ جھنگ‘ سرگودھا‘ خوشاب‘ ساہیوال‘ سیالکوٹ‘ سندھ اور آزاد کشمیر میں ہوئے۔ ان تمام مناظروں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ حق کو غالب رکھا۔ جن لوگوں نے مولانا کے مناظرے دیکھے ہیں انہیں علم ہے کہ ہر میدان میں فتح وکامیابی نے آپ کے قدم چومے کیونکہ مولانا حزب اللہ کے سپاہی تھے جس کے متعلق حق تعالیٰ شانہ نے فرمایا ہے:
فان حزب اللہ ھم الغلبون
’’تحقیق یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی جماعت ہمیشہ غالب رہے گی۔‘‘ شیخ المکرم حضرت مولانا محمد اکرم اعوان صاحب مدظلہ جنہیں :آپ کی ربع صدی کی رفاقت نصیب رہی آپ کے بعض یادگار جلسوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
پنجند ایک مشہور قصبہ ہے وہاں قادیانیوں کا بہت اثر ہو گیا اور چند بڑے بڑے با اثر زمیندار قادیانی ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے وہاں خاتون مبلغہ بھی متعین کیں اور مردوں کا بھی پروگرام ترتیب دیا کہ یہاں سکول اور خیراتی ہسپتال بنایا جائے۔ ختم نبوت تحریک کے جلسے بھی زوروشور سے ہوتے تھے مگر کوئی تدارک نہ ہوپا رہا تھا۔ چنانچہ ایک بہت ہی غریب آدمی نے آ کر حضرتؒ کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے جلسہ کرنے کی دعوت دی۔ آپ وہاں پا پیادہ تشریف لے گئے ہم چند ساتھی ہمرکاب تھے۔ رات وہاں ٹھہرے آپ ؒ کے لئے روکھی سوکھی کا اہتمام کر کے ہمارے لیے گاؤں سے ٹکڑے مانگ کر لائے گئے اور رات ہم نے زمین پر لیٹ کر بسر کی۔ صبح جلسہ ہوا۔ حضرت ؒ نے فرمایا کہ یہ ان پڑھ لوگ ہیں علمی دلائل کو نہیں سمجھ سکتے اس لیے تحریک کے جلسے کوئی اثر پیدا نہیں کر پا رہے۔ چنانچہ آپ ؒ نے اس کی اپنی کتب اور سوانح سے اس کی شخصیت‘ کردار اور عقائد کا نقشہ کھینچا تو وہ لوگ تائب ہو گئے اور قادیانیوں کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ الغرض مولانا ؒ کے ۶۰ سالہ مناظرانہ دور کے شب وروز ایسے ہی درخشاں اور زریں کارناموں سے عبارت ہیں جو یقیناً آپ کی تبحر علمی‘ حاضر دماغی اور قوت ایمانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مذاہب باطلہ کا کوئی بھی فرقہ آپ ؒ کی ایمانی یلغار کے سامنے اپنے باطل عقائد ونظریات کو منوانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
مولانا نے ۱۹۵۰ ء میں اپنے شہر چکڑالہ ضلع میانوالی میں مدرسہ عالیہ دار التبلیغ قیام فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ شعبہ نشر و اشاعت کو بھی شامل کیا گیا جس کے تحت مولانا کی متعدد کتب اور رسائل شائع ہوئے۔ مثلاً:
ملا اسماعیل شیعہ کی کتاب \"براہین ماتم\" کا جواب بنام \"حرمت ماتم \" ، ملا علی نقی لکھنوی کی کتاب \" متعہ اور اسلام\" کا جواب بنام \" تحقیق حلال و حرام \" ، دامادِ علی، شکستِ اعدائے حسین، ایجاد مذہب شیعہ، ایمان بالقرآن وغیرہ کئی رسائل منظر عام پر آئے۔
۱۹۵۶ ء میں جب مدرسہ دار الہدیٰ چوکیرہ ضلع سرگودھا کے زیر تحت پندرہ روزہ رسالہ الفاروق کا اجراء کیا گیا تو الفاروق کی مجلس عاملہ کی درخواست پر جس کے امیر مولانا احمد شاہ محدث چوکیروی تھے۔ مولانا اللہ یار خان ؒ صاحب اول سے آخر ۱۹۵۸ ء تک معین اعلیٰ رہے اور صفحات الفاروق پر آپ کے بڑے قیمتی مضامین مثلاً مسئلہ تحریف قرآن، مسئلہ خلافت، مسئلہ فدک اور مسئلہ ماتم شیعہ شائع ہوئے تھے۔ جن لوگوں نے آپ کے مضامین دیکھے ہیں انہیں علم ہے کہ مولانا کا ایک ایک مضمون ایک ضخیم کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔
دعوت الی السلوک:
۱۹۵۲ ء کے قریب مولانا نے تصوف و سلوک کی طرف دعوت دینا شروع کی۔ آہستہ آہستہ آپ کا دائرہ اثر وسیع ہونے لگا اور دور و نزدیک سے خلق خدا آپ کے گرد جمع ہونے لگی۔
۱۹۶۲ ء کو پہلا اجتماع جنگل میں واقع ایک مقام ڈھوک ٹلیالہ پر منعقد کیا گیا جس میں چند افراد نے شرکت کی۔ ناکافی سہولتوں، پانی کی کمی او ر دشوار گزار پہاڑی راستوں کے باوجود مذکورہ مقام پر تقریباً آٹھ سال تک باقاعدگی سے اجتماع منعقد ہوتا رہا۔ ۶۳ ء سے ۸۰ ء تک تحریر کئے گئے مولانا کے مکتوبات سے اس دور کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
ڈھوک ٹلیالہ کے بعد ڈلوال، نور پور اور منارہ سکول میں بھی اجتماعات منعقد ہوتے رہے تاآنکہ ۸۰ ء میں دارالعرفان منارہ کی تعمیر ہوئی اور اسے جماعت کے مستقل مرکز کی حیثیت دے دی گئی۔
مولانا نے نہایت انہماک اور کمال دلسوزی کے ساتھ اپنے متوسلین کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ تحریر و تصنیف، ڈاک، فتاویٰ، مریضوں کی دیکھ بھال، خانگی امور وغیرہ جیسی بے پناہ مصروفیات کے باوجود آپ نے ہزار ہا میل کا سفر اختیار کر کے خلقِ خدا کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دیا۔ اس مقصد کے لئے آپ گلگت، کراچی، کوئٹہ، نوشکی، مستونگ، ژوب، حیدر آباد، نوشہرہ، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، رسالپور، مردان، گڑھی کپورہ، سکھر، شنکیاری کے قریب سم الہٰی منگ، واہ کینٹ، اٹک، پنڈی گھیپ، کھاریاں، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، ملتان، بہاولپور، راجنپور، کبیر والا، خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد، سرگودھا، جوہر آباد، بکھر بار، کوٹ میانہ، شمالی وزیرستان علاقہ غیر میں میر علی تک تشریف لے گئے۔
جہاں اور جن علاقوں میں آپ خود نہ پہنچ سکتے وہاں آپ اپنے مجازین کا تقرر فرماتے۔ اس طرح پاکستان کے قریہ قریہ، بستی بستی اور شہر شہر آپ کے جود و سخا کی اطلاع پہنچ گئی۔
تلامذہ:
مولانا کا پیغام حق و صداقت چونکہ کسی خاص طبقہ کے افراد تک محدود نہ تھا اس لئے آپ کے حلقہ ادارت و درس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ نظر آتے ہیں، جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچی ہوئی ہے۔ تاہم آپ کے تلامذہ میں سے جنہوں نے آپ کے دینی و علمی ترکہ کی حفاظت میں نمایاں کردار ادا کیا، موجودہ شیخ حضرت مولانا محمد اکرم اعوان صاحب مدظلہ کا نام سرِ فہرست ہے۔
تصانیف:
مولانا کو تحقیق و اجتہاد کا خاص ملکہ عطا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف اعلیٰ پائے کے تحقیقی جواہر پاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ تصانیف مصنف کے وسعتِ مطالعہ ، عمیق غور و فکر ، اجتہادی و تحقیقی فکر و نظر اور علم و فن کے ساتھ گہری وابستگی کا پتہ دیتی ہیں۔
مولانا کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ متکلمین کے نہج پر احقاقِ حق کی جدو جہد اور مذاہبِ باطلہ کی تردید میں گزرا ہے لہٰذا آپ کی اکثر تصانیف میں مناظرانہ رنگ نمائیاں ہے۔ آپ کا طرزِ استدلال نہایت پر زور، مدلل اور بعض اوقات جارحانہ رخ اختیار کر لیتا ہے۔ تاہم آپ زورِ کلام اور زورِ استدلال میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرتے کہ آپ کا اصل مقصد مصادر علوم اسلامیہ کی روشنی میں قاری کو صیحح اور درست نتیجہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
مولانا نے مختلف و متنوع عنوانات کے تحت اپنی تصانیف کو قلمبند کیا ہے۔ باایں ہمہ آپ کی تصنیفات کی تین جہات نمائیاں ہیں۔ اول صیحح اسلامی تصوف سے علمی حلقوں کو روشناس کرنا، دوم باطل فرقوں کی حقیقت سے عامۃ الناس کو آگاہ کرنا اور سوم حیات بعد الممات کے ضمن میں پیدہ کردہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا۔
مولانا کی ان تصانیف میں دلائل السلوک ، اسرار الحرمین، علم و عرفان، تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین، الدین الحالص، ایمان بالقرآن، نفاذ شریعت اور فقہ جعفریہ، تحقیق حلال و حرام، الجمال والکمال، حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیفِ اویسیہ نمایاں مقام کی حامل ہیں۔
مولانا کی یہ تمام تصانیف اعلیٰ پائے کی تحقیق کا شاہکار اور قیمتی معلومات کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں۔
شیخ المکرم حضرت مولانا محمد اکرم اعوان صاحب مدظلہٰ آپ کی تصانیف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
\"آپ کی تصانیف اعلیٰ تحقیق کا نمونہ ہیں، جن سے ایک پوری علمی دنیا استفادہ بھی کرتی ہے اور حوالہ جات بھی پاتی ہے اور انھیں دیکھ کر آپ کے علمی درجہ کا اندازہ ہوتا ہے۔\"
حضرت مولانا کی یہ جملہ تصانیف تقریباً ۱۹۳۵ ء سے ۱۹۸۰ ء تک کی درمیانی مدت میں منظر عام پر آئیں۔
اخلاق و کردار:
مولانا کے تذکرہ نگاروں اور ہم عصر علماء کے اقوال کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہایت اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ شفقت و مروت، جود و سخا، اعتدال و توازن اور شدتِ مجاہدہ جیسے اوصاف آپ کے مزاج کا خاصہ تھے۔ رعب و جلال کی صفات سے متصف ہونے کے باوصف آپ کی شخصیت سے اپنائیت کی خوشبو آتی۔ آپ کی آواز میں بلا کا سوز تھا۔ قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے تو سامعین پر سحر کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ آپ کی زندگی تکلفات سے پاک اور سادگی کا عمدہ نمونہ تھی۔
حضرت مولانا اکرم اعوان صاحب مدظلہٰ آپ کی سادہ مزاجی کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:
جہاں انہوں نے حضرت کو ٹھہرایا ہوا تھا وہ لوہاروں کا ایک گھر تھا۔ کچا اور معمولی سا، اس میں اوپر چھوٹی سی کوٹھڑی بنا رکھی تھی۔ اوزاروں اور ٹوٹے پھوٹے ناکارہ سامان کے لئے وہیں ایک کھردری سی چارپائی پر ایک پرانی سی دری بچھی ہوئی تھی اور ایک تکیہ رکھا تھا۔ حضرت نے ململ کا لباس پہنا ہوا تھا ۔ منہ پر بھی ململ کا پٹکا سا ڈالا ہوا تھا اور اس وقت قیلولہ فرما رہے تھے۔ اس پائے کے عالم یا مذہبی رہنما میں اس طرح کی سادگی میں نے پہلی بار دیکھی نہ کھانے میں تکلف نہ رہنے میں تکلف، لباس بھی سادہ غذا بھی معمولی، مگر جب بات کرے تو علم کے دریا بہا دے۔
آپ نمود و نمائش سے کوسوں دور رہتے اور علمائے ربانیین کی صحبت اختیار کرنا پسند فرماتے۔
جنرل ضیاء صاحب کے زمانہ میں ۱۹۸۰ ء کے قریب مشائخ کانفرنس ہوئی، ملک کے تمام مشائخ مدعو تھے، آپ کو بھی دعوت ملی کانفرنس میں چند لمحے بیٹھے اور چلے آئے فرمانے لگے بے دین لوگ اکٹھے ہوئے ہیں اور مشیخیت کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ ان کی تو شکلیں بھی سنت کے مطابق نہیں۔ کانفرنس سے سخت بیزار ہوئے۔
آپ اپنے متعلقین کے ساتھ نہایت حسن سلوک سے پیش آتے حتیٰ کہ ہر ایک یہ محسوس کرتا کہ آپ کے نزدیک وہی سب سے زیادہ قابلِ قدر ہے۔
تاج رحیم صاحب لکھتے ہیں:
آپ نہایت خوش مزاج تھے۔ جس محفل میں بیٹھے ہوتے وہاں یہ احساس نہ ہونے دیتے کہ آپ اور حاضرین میں کسی قسم کا فرق ہے۔ ہر سالک سے اتنے پیار و محبت اور بے تکلفی سے ملتے اور ان کے ذاتی دکھ درد میں ایسے شریک ہوتے کہ ہر فرد کو یہ احساس ہوتا کہ آپ اسے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ مہمان نوازی میں آپ کسی اور کو آگے بڑھنے نہ دیتے اور اکثر جو ساتھی آپ کے پاس حاضری دیتے ان کے لئے خود گھر سے کھانا لے کر آتے۔
مولانا عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں:
آپ نہایت کریم ہستی تھے۔ ہر آنے والے سے نے ھد محبت سے پیش آتے۔ میں جب کبھی ان سے ملا انھوں نے نہایت مودت کے ساتھ میرا استقبال کیا۔
مولانا کے اخلاق و کردار کی یہی خوبیاں تھیں جن کی بنا پر مخلوقِ خدا جوق در جوق آپ کی طرف کھنچی چلی آئی اور آپ کے متصوفانہ تعلیمات سے بہرہ مند ہو کر اصلاح احوال کی طرف مائل ہوئی۔
حافظ غلام قادری صاحب لکھتے ہیں:
زندگی کے ہر شعبے سے لوگ آپ سے حصول فیض (کیلئے) منسلک ہونے لگے۔ کوئی تو متلاشی تھے اور کچھ کو جونہی ان کی برکات کا یقین ہوا مصنوعی پیروں کے دام فریب سے نکل آئے۔۔۔۔ آپ کے پاس آنے والوں کی اصلاح۔۔۔۔ آپ کی روحانی قوت بلند منازل اور مناصب کی وجہ سے بڑی ہی تیزی سے ہوئی، دنیا انگشت بدنداں تھی۔ کسی بھی فرقے یا گروہ سے تعلق لے کر آنے والے سب کچھ بھول بھلا کر تزکیہ نفس، اتباعِ رسول ﷺ اور رضائے باری کو مقصد زندگی بنا کر سارے اختلافات بھلا کر کونوا عباد اللہ اخواناً کی عملی تفسیر بن جاتے۔
علمی مقام و مرتبہ:
مولانا کی علمیت پر شاہد آپ کی ۲۰ سے زائد تصانیف ہیں جن کے مطالعہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ علم و عرفان کا اشتراک گویا آپ کے خمیر میں گوندھ دیا گیا ہے۔
مولانا کی مجالس میں علم و حکمت کا سیل رواں جاری ہوتا اور ہر خاص و عام آپ کی علمی قابلیت کی داد دیئے بغیر نہ رہتا۔
حافظ غلام قادری صاحب کا بیان ہے:
علماء کی محفل میں ایک موضوع پر مصنفین کے خیالات و نظریات ان کے اساتذہ خاندان تاریخ پیدائش تاریخ وفات، ہم عصر علماء سے ملاقات میں کس سے متاثر ہوئے کتاب کی تحریر سناتے، سطر اور صفحہ تک کا حوالہ بھی بیان فرماتے۔ سننے والے حیرت زدہ رہ جاتے اور پھر جب یہ معلوم ہوتا کہ یہ کتابیں بھی آپ کے پاس موجود ہیں تو حیرانگی انتہا کو پہنچ جاتی۔
علمائے کرام نے بھی مولانا کی علمیت سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور آپ کو بحر العلوم کے لقب سے نوازا۔ اللہ دتہ تمیمی صاحب لکھتے ہیں:
\"ایک دفعہ حضرت جی ؒ کراچی تشریف لائے اور آپ گول مسجد کے قریب نیوی کے کوارٹر میں قیام پذیر ہوئے۔ چند نئے ساتھی جو کہ پہلے تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی کافی وقت لگا چکے تھے گول مسجد کے امام صاحب جو کہ مستند مانے ہوئے علماء دیو بند میں سے ہیں۔۔۔ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ ہمارے مرشد صاحب آئے ہوئے ہیں، آپ عالم دین ہیں آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے آئیں اور ہمیں بتا دیں کہ ہم جو ذکر و فکر کر رہے ہیں کہیں گمراہ لوگ تو نہیں ہیں۔ مولوی صاحب کہنے لگے کہ ۱۵ منٹ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتا، جب یہ حضرت جی ؒ کے پاس آئے اور علمی گفتگو شروع ہوئی تو یہ عالم دین جو ۱۵ منٹ کا وقت لے کر آئے تھے اٹھنے کا نام بھی نہ لیتے اور تقریباً ڈیڑھ یا دو گھنٹے علمی گفتگو میں مشغول رہے، جب جانے لگے تو کہنے لگے کہ آ پ کے شیخ علم کا ایک بڑا سمندر ہیں\"
ایک اور عالم دین نے فرمایا:
میں ڈیڑھ دو گھنٹے مجلس میں بیٹھا، آپ نے دوران گفتگو بہتر (۷۲) کتب کا حوالہ مع مصنف کے حالات دیا اور ان میں اکثر کتب ایسی بھی تھیں جن کا نام ہم نے پہلی بار سنا۔
مولانا کو زود نویسی میں کمال حاصل تھا، بہت جلد کتاب لکھ دیتے، حالانکہ مناظرانہ کتاب لکھنے کے لئے بہت وقت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اپنے اور مخالفین کے حوالہ جات کی پڑتال، حوالوں میں ترتیب کا خیال، مراتب کتب پر گہری نظر، تراجم عبارات میں مہارت، ماخذ کی نظر ثانی مگر چونکہ مولانا کا ابتداً حافظہ تیز تھا اس لئے ان سب امور کو بفضلہ تعالیٰ جلدی سے طے کر لیتے۔
اس عظیم الشان علمی قابلیت کے باوصف مولانا کی منکسرالمزاجی کا یہ عالم تھا کہ فرماتے تھے:
میرا قرآن کی تفسیروں کا مطالعہ اس قدر ہے کہ جب کسی تفسیر کی کسی آیت کی طرف خیال کرتا ہوں وہ صفحہ میرے سامنے کھل جاتا ہے، اس وقت بھی میرے پاس پینسٹھ (۶۵) تفاسیر موجود ہیں جو اکثر عربی اور فارسی میں ہیں اور صدیوں پرانی ہیں۔۔۔۔ میں حیران ہوں ان لوگوں پر جو اپنے آپ کو بڑا مفسر اور محدث لکھتے ہیں اور کہتے ہیں، حالانکہ میرا اتنا وسیع مطالعہ ہونے کے باوجود جب غور کرتا ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ ابھی تو الف ب بھی نہیں آتا۔
وفات:
۱۸ اگست ۱۹۸۲ء کو آپ نے بطور وصیت جامع ہدایات قلم بند کروائیں جو سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے جملہ امور کی انجام دہی کے لئے اصول و حتمی قوانین سلوک کا مقام رکھتی ہیں۔ اسی وصیت کے مطابق جانشین، ناظم اعلیٰ اور ممبران مجلس منتظمہ کا تقرر عمل میں آیا۔ آپ نے سلسلہ میں وراثت کی گدی نشینی کا فرسودہ تصور ختم کر کے مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کو سلسلہ کا شیخ اور اپناجانشین مقرر کیا۔
۱۵ جمادی الاول ۱۴۰۴ھ بمطابق ۱۸ فروری ۱۹۸۴ء بروز سنیچر اسلام آباد میں آپ نے رحلت فرمائی۔
شیخ المکرم حضرت مولانا محمد اکرم صاحب مدظلہ کے بقول جب آپ پردہ فرما گئے تو ولایت کا سب سے آخری اور اعلیٰ مقام \"عبدیت\" آپ کو نصیب تھا۔ جس کے متعلق مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ مراتب میں سے انتہائی مرتبہ مقام عبدیت ہے اور ولایت کے درجوں میں مقام عبدیت سے ادھر (آگے) کوئی مقام نہیں۔
مولانا اللہ یار خان ؒ کا عہد ۔۔۔۔۔ایک جائزہ:
ماضی قریب میں عقائد اور دین کے بنیادی نظریات میں لوگوں نے کج بحثیاں شروع کر دیں۔ روافض نے زور پکڑا، چکڑالوی مذہب نے سر اٹھایا، فتنہ پرویزیت نے قرآن و سنت کی نئی نئی تاولین گھڑیں، نبوت کے عینی شاہدوں پر اعتراضات ہونے لگے، اولیاء کرام کا درجہ بڑھا کر انہیں خدائی میں شریک کیا گیا یا پھر ان کی توہین کو توحید کا نام دے دیا گیا۔ فروعی اور معمولی اختلافات پر لوگ باہم دست و گریبان ہونے لگے، رسومات و بدعات نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل ہیئت کو ہی مسخ کر دیا۔ ایسے میں کھرے کھوٹے میں تمیز مشکل ہو گئی اور بے دینی یہاں تک پہنچی کہ حیاۃ انبیاء جیسے اجماعی اور متفقہ مسئلے کے بھی لوگ منکر ہونے لگے۔ تصوف جو دین کی روح ہے کا رشتہ اسلام سے ماننے کو تیار نہ رہے، ایسے میں نقالوں نے اپنی دکانیں سجا لیں، زاغوں نے عقابوں کے نشیمن پر قبضے جمائے، دین کے نام پر بھی لوٹ مار عام ہوگئی۔ درویشی بھی عیاری اور سلطانی بھی عیاری کا سماں پیدا ہو گیا۔ خدائے رحمان و رحیم نے ان حالات میں دین کی حقیقت کو عیاں کرنے، احیائے دین کے لئے دین کے ظاہر و باطن ، علوم نبوت اور فیوضات و برکات نبوت سے اسلام کے پیرو کاروں کو سرفراز کرنے، تمام فتنوں اور نظریات باطل کی بیخ کنی کرنے کے لئے اپنے جس بندے کو منتخب فرمایا وہ تھے مولانا اللہ یار خان ؒ جو مسلکاً حنفی اور مشرباً نقشبندی اویسی تھے۔
(ماخوذ از مقالہ مولانا اللہ یار خان ؒ کی تصانیف ، ایک تحقیقی جائزہ)
مولانا نے ۱۹۵۰ ء میں اپنے شہر چکڑالہ ضلع میانوالی میں مدرسہ عالیہ دار التبلیغ قیام فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ شعبہ نشر و اشاعت کو بھی شامل کیا گیا جس کے تحت مولانا کی متعدد کتب اور رسائل شائع ہوئے۔ مثلاً:
ملا اسماعیل شیعہ کی کتاب \"براہین ماتم\" کا جواب بنام \"حرمت ماتم \" ، ملا علی نقی لکھنوی کی کتاب \" متعہ اور اسلام\" کا جواب بنام \" تحقیق حلال و حرام \" ، دامادِ علی، شکستِ اعدائے حسین، ایجاد مذہب شیعہ، ایمان بالقرآن وغیرہ کئی رسائل منظر عام پر آئے۔
۱۹۵۶ ء میں جب مدرسہ دار الہدیٰ چوکیرہ ضلع سرگودھا کے زیر تحت پندرہ روزہ رسالہ الفاروق کا اجراء کیا گیا تو الفاروق کی مجلس عاملہ کی درخواست پر جس کے امیر مولانا احمد شاہ محدث چوکیروی تھے۔ مولانا اللہ یار خان ؒ صاحب اول سے آخر ۱۹۵۸ ء تک معین اعلیٰ رہے اور صفحات الفاروق پر آپ کے بڑے قیمتی مضامین مثلاً مسئلہ تحریف قرآن، مسئلہ خلافت، مسئلہ فدک اور مسئلہ ماتم شیعہ شائع ہوئے تھے۔ جن لوگوں نے آپ کے مضامین دیکھے ہیں انہیں علم ہے کہ مولانا کا ایک ایک مضمون ایک ضخیم کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔
دعوت الی السلوک:
۱۹۵۲ ء کے قریب مولانا نے تصوف و سلوک کی طرف دعوت دینا شروع کی۔ آہستہ آہستہ آپ کا دائرہ اثر وسیع ہونے لگا اور دور و نزدیک سے خلق خدا آپ کے گرد جمع ہونے لگی۔
۱۹۶۲ ء کو پہلا اجتماع جنگل میں واقع ایک مقام ڈھوک ٹلیالہ پر منعقد کیا گیا جس میں چند افراد نے شرکت کی۔ ناکافی سہولتوں، پانی کی کمی او ر دشوار گزار پہاڑی راستوں کے باوجود مذکورہ مقام پر تقریباً آٹھ سال تک باقاعدگی سے اجتماع منعقد ہوتا رہا۔ ۶۳ ء سے ۸۰ ء تک تحریر کئے گئے مولانا کے مکتوبات سے اس دور کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
ڈھوک ٹلیالہ کے بعد ڈلوال، نور پور اور منارہ سکول میں بھی اجتماعات منعقد ہوتے رہے تاآنکہ ۸۰ ء میں دارالعرفان منارہ کی تعمیر ہوئی اور اسے جماعت کے مستقل مرکز کی حیثیت دے دی گئی۔
مولانا نے نہایت انہماک اور کمال دلسوزی کے ساتھ اپنے متوسلین کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ تحریر و تصنیف، ڈاک، فتاویٰ، مریضوں کی دیکھ بھال، خانگی امور وغیرہ جیسی بے پناہ مصروفیات کے باوجود آپ نے ہزار ہا میل کا سفر اختیار کر کے خلقِ خدا کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دیا۔ اس مقصد کے لئے آپ گلگت، کراچی، کوئٹہ، نوشکی، مستونگ، ژوب، حیدر آباد، نوشہرہ، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، رسالپور، مردان، گڑھی کپورہ، سکھر، شنکیاری کے قریب سم الہٰی منگ، واہ کینٹ، اٹک، پنڈی گھیپ، کھاریاں، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، ملتان، بہاولپور، راجنپور، کبیر والا، خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد، سرگودھا، جوہر آباد، بکھر بار، کوٹ میانہ، شمالی وزیرستان علاقہ غیر میں میر علی تک تشریف لے گئے۔
جہاں اور جن علاقوں میں آپ خود نہ پہنچ سکتے وہاں آپ اپنے مجازین کا تقرر فرماتے۔ اس طرح پاکستان کے قریہ قریہ، بستی بستی اور شہر شہر آپ کے جود و سخا کی اطلاع پہنچ گئی۔
تلامذہ:
مولانا کا پیغام حق و صداقت چونکہ کسی خاص طبقہ کے افراد تک محدود نہ تھا اس لئے آپ کے حلقہ ادارت و درس میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ نظر آتے ہیں، جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچی ہوئی ہے۔ تاہم آپ کے تلامذہ میں سے جنہوں نے آپ کے دینی و علمی ترکہ کی حفاظت میں نمایاں کردار ادا کیا، موجودہ شیخ حضرت مولانا محمد اکرم اعوان صاحب مدظلہ کا نام سرِ فہرست ہے۔
تصانیف:
مولانا کو تحقیق و اجتہاد کا خاص ملکہ عطا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف اعلیٰ پائے کے تحقیقی جواہر پاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ تصانیف مصنف کے وسعتِ مطالعہ ، عمیق غور و فکر ، اجتہادی و تحقیقی فکر و نظر اور علم و فن کے ساتھ گہری وابستگی کا پتہ دیتی ہیں۔
مولانا کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ متکلمین کے نہج پر احقاقِ حق کی جدو جہد اور مذاہبِ باطلہ کی تردید میں گزرا ہے لہٰذا آپ کی اکثر تصانیف میں مناظرانہ رنگ نمائیاں ہے۔ آپ کا طرزِ استدلال نہایت پر زور، مدلل اور بعض اوقات جارحانہ رخ اختیار کر لیتا ہے۔ تاہم آپ زورِ کلام اور زورِ استدلال میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرتے کہ آپ کا اصل مقصد مصادر علوم اسلامیہ کی روشنی میں قاری کو صیحح اور درست نتیجہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
مولانا نے مختلف و متنوع عنوانات کے تحت اپنی تصانیف کو قلمبند کیا ہے۔ باایں ہمہ آپ کی تصنیفات کی تین جہات نمائیاں ہیں۔ اول صیحح اسلامی تصوف سے علمی حلقوں کو روشناس کرنا، دوم باطل فرقوں کی حقیقت سے عامۃ الناس کو آگاہ کرنا اور سوم حیات بعد الممات کے ضمن میں پیدہ کردہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا۔
مولانا کی ان تصانیف میں دلائل السلوک ، اسرار الحرمین، علم و عرفان، تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین، الدین الحالص، ایمان بالقرآن، نفاذ شریعت اور فقہ جعفریہ، تحقیق حلال و حرام، الجمال والکمال، حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیفِ اویسیہ نمایاں مقام کی حامل ہیں۔
مولانا کی یہ تمام تصانیف اعلیٰ پائے کی تحقیق کا شاہکار اور قیمتی معلومات کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں۔
شیخ المکرم حضرت مولانا محمد اکرم اعوان صاحب مدظلہٰ آپ کی تصانیف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
\"آپ کی تصانیف اعلیٰ تحقیق کا نمونہ ہیں، جن سے ایک پوری علمی دنیا استفادہ بھی کرتی ہے اور حوالہ جات بھی پاتی ہے اور انھیں دیکھ کر آپ کے علمی درجہ کا اندازہ ہوتا ہے۔\"
حضرت مولانا کی یہ جملہ تصانیف تقریباً ۱۹۳۵ ء سے ۱۹۸۰ ء تک کی درمیانی مدت میں منظر عام پر آئیں۔
اخلاق و کردار:
مولانا کے تذکرہ نگاروں اور ہم عصر علماء کے اقوال کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہایت اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ شفقت و مروت، جود و سخا، اعتدال و توازن اور شدتِ مجاہدہ جیسے اوصاف آپ کے مزاج کا خاصہ تھے۔ رعب و جلال کی صفات سے متصف ہونے کے باوصف آپ کی شخصیت سے اپنائیت کی خوشبو آتی۔ آپ کی آواز میں بلا کا سوز تھا۔ قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے تو سامعین پر سحر کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ آپ کی زندگی تکلفات سے پاک اور سادگی کا عمدہ نمونہ تھی۔
حضرت مولانا اکرم اعوان صاحب مدظلہٰ آپ کی سادہ مزاجی کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:
جہاں انہوں نے حضرت کو ٹھہرایا ہوا تھا وہ لوہاروں کا ایک گھر تھا۔ کچا اور معمولی سا، اس میں اوپر چھوٹی سی کوٹھڑی بنا رکھی تھی۔ اوزاروں اور ٹوٹے پھوٹے ناکارہ سامان کے لئے وہیں ایک کھردری سی چارپائی پر ایک پرانی سی دری بچھی ہوئی تھی اور ایک تکیہ رکھا تھا۔ حضرت نے ململ کا لباس پہنا ہوا تھا ۔ منہ پر بھی ململ کا پٹکا سا ڈالا ہوا تھا اور اس وقت قیلولہ فرما رہے تھے۔ اس پائے کے عالم یا مذہبی رہنما میں اس طرح کی سادگی میں نے پہلی بار دیکھی نہ کھانے میں تکلف نہ رہنے میں تکلف، لباس بھی سادہ غذا بھی معمولی، مگر جب بات کرے تو علم کے دریا بہا دے۔
آپ نمود و نمائش سے کوسوں دور رہتے اور علمائے ربانیین کی صحبت اختیار کرنا پسند فرماتے۔
جنرل ضیاء صاحب کے زمانہ میں ۱۹۸۰ ء کے قریب مشائخ کانفرنس ہوئی، ملک کے تمام مشائخ مدعو تھے، آپ کو بھی دعوت ملی کانفرنس میں چند لمحے بیٹھے اور چلے آئے فرمانے لگے بے دین لوگ اکٹھے ہوئے ہیں اور مشیخیت کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ ان کی تو شکلیں بھی سنت کے مطابق نہیں۔ کانفرنس سے سخت بیزار ہوئے۔
آپ اپنے متعلقین کے ساتھ نہایت حسن سلوک سے پیش آتے حتیٰ کہ ہر ایک یہ محسوس کرتا کہ آپ کے نزدیک وہی سب سے زیادہ قابلِ قدر ہے۔
تاج رحیم صاحب لکھتے ہیں:
آپ نہایت خوش مزاج تھے۔ جس محفل میں بیٹھے ہوتے وہاں یہ احساس نہ ہونے دیتے کہ آپ اور حاضرین میں کسی قسم کا فرق ہے۔ ہر سالک سے اتنے پیار و محبت اور بے تکلفی سے ملتے اور ان کے ذاتی دکھ درد میں ایسے شریک ہوتے کہ ہر فرد کو یہ احساس ہوتا کہ آپ اسے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ مہمان نوازی میں آپ کسی اور کو آگے بڑھنے نہ دیتے اور اکثر جو ساتھی آپ کے پاس حاضری دیتے ان کے لئے خود گھر سے کھانا لے کر آتے۔
مولانا عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں:
آپ نہایت کریم ہستی تھے۔ ہر آنے والے سے نے ھد محبت سے پیش آتے۔ میں جب کبھی ان سے ملا انھوں نے نہایت مودت کے ساتھ میرا استقبال کیا۔
مولانا کے اخلاق و کردار کی یہی خوبیاں تھیں جن کی بنا پر مخلوقِ خدا جوق در جوق آپ کی طرف کھنچی چلی آئی اور آپ کے متصوفانہ تعلیمات سے بہرہ مند ہو کر اصلاح احوال کی طرف مائل ہوئی۔
حافظ غلام قادری صاحب لکھتے ہیں:
زندگی کے ہر شعبے سے لوگ آپ سے حصول فیض (کیلئے) منسلک ہونے لگے۔ کوئی تو متلاشی تھے اور کچھ کو جونہی ان کی برکات کا یقین ہوا مصنوعی پیروں کے دام فریب سے نکل آئے۔۔۔۔ آپ کے پاس آنے والوں کی اصلاح۔۔۔۔ آپ کی روحانی قوت بلند منازل اور مناصب کی وجہ سے بڑی ہی تیزی سے ہوئی، دنیا انگشت بدنداں تھی۔ کسی بھی فرقے یا گروہ سے تعلق لے کر آنے والے سب کچھ بھول بھلا کر تزکیہ نفس، اتباعِ رسول ﷺ اور رضائے باری کو مقصد زندگی بنا کر سارے اختلافات بھلا کر کونوا عباد اللہ اخواناً کی عملی تفسیر بن جاتے۔
علمی مقام و مرتبہ:
مولانا کی علمیت پر شاہد آپ کی ۲۰ سے زائد تصانیف ہیں جن کے مطالعہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ علم و عرفان کا اشتراک گویا آپ کے خمیر میں گوندھ دیا گیا ہے۔
مولانا کی مجالس میں علم و حکمت کا سیل رواں جاری ہوتا اور ہر خاص و عام آپ کی علمی قابلیت کی داد دیئے بغیر نہ رہتا۔
حافظ غلام قادری صاحب کا بیان ہے:
علماء کی محفل میں ایک موضوع پر مصنفین کے خیالات و نظریات ان کے اساتذہ خاندان تاریخ پیدائش تاریخ وفات، ہم عصر علماء سے ملاقات میں کس سے متاثر ہوئے کتاب کی تحریر سناتے، سطر اور صفحہ تک کا حوالہ بھی بیان فرماتے۔ سننے والے حیرت زدہ رہ جاتے اور پھر جب یہ معلوم ہوتا کہ یہ کتابیں بھی آپ کے پاس موجود ہیں تو حیرانگی انتہا کو پہنچ جاتی۔
علمائے کرام نے بھی مولانا کی علمیت سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور آپ کو بحر العلوم کے لقب سے نوازا۔ اللہ دتہ تمیمی صاحب لکھتے ہیں:
\"ایک دفعہ حضرت جی ؒ کراچی تشریف لائے اور آپ گول مسجد کے قریب نیوی کے کوارٹر میں قیام پذیر ہوئے۔ چند نئے ساتھی جو کہ پہلے تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی کافی وقت لگا چکے تھے گول مسجد کے امام صاحب جو کہ مستند مانے ہوئے علماء دیو بند میں سے ہیں۔۔۔ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ ہمارے مرشد صاحب آئے ہوئے ہیں، آپ عالم دین ہیں آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے آئیں اور ہمیں بتا دیں کہ ہم جو ذکر و فکر کر رہے ہیں کہیں گمراہ لوگ تو نہیں ہیں۔ مولوی صاحب کہنے لگے کہ ۱۵ منٹ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتا، جب یہ حضرت جی ؒ کے پاس آئے اور علمی گفتگو شروع ہوئی تو یہ عالم دین جو ۱۵ منٹ کا وقت لے کر آئے تھے اٹھنے کا نام بھی نہ لیتے اور تقریباً ڈیڑھ یا دو گھنٹے علمی گفتگو میں مشغول رہے، جب جانے لگے تو کہنے لگے کہ آ پ کے شیخ علم کا ایک بڑا سمندر ہیں\"
ایک اور عالم دین نے فرمایا:
میں ڈیڑھ دو گھنٹے مجلس میں بیٹھا، آپ نے دوران گفتگو بہتر (۷۲) کتب کا حوالہ مع مصنف کے حالات دیا اور ان میں اکثر کتب ایسی بھی تھیں جن کا نام ہم نے پہلی بار سنا۔
مولانا کو زود نویسی میں کمال حاصل تھا، بہت جلد کتاب لکھ دیتے، حالانکہ مناظرانہ کتاب لکھنے کے لئے بہت وقت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اپنے اور مخالفین کے حوالہ جات کی پڑتال، حوالوں میں ترتیب کا خیال، مراتب کتب پر گہری نظر، تراجم عبارات میں مہارت، ماخذ کی نظر ثانی مگر چونکہ مولانا کا ابتداً حافظہ تیز تھا اس لئے ان سب امور کو بفضلہ تعالیٰ جلدی سے طے کر لیتے۔
اس عظیم الشان علمی قابلیت کے باوصف مولانا کی منکسرالمزاجی کا یہ عالم تھا کہ فرماتے تھے:
میرا قرآن کی تفسیروں کا مطالعہ اس قدر ہے کہ جب کسی تفسیر کی کسی آیت کی طرف خیال کرتا ہوں وہ صفحہ میرے سامنے کھل جاتا ہے، اس وقت بھی میرے پاس پینسٹھ (۶۵) تفاسیر موجود ہیں جو اکثر عربی اور فارسی میں ہیں اور صدیوں پرانی ہیں۔۔۔۔ میں حیران ہوں ان لوگوں پر جو اپنے آپ کو بڑا مفسر اور محدث لکھتے ہیں اور کہتے ہیں، حالانکہ میرا اتنا وسیع مطالعہ ہونے کے باوجود جب غور کرتا ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ ابھی تو الف ب بھی نہیں آتا۔
وفات:
۱۸ اگست ۱۹۸۲ء کو آپ نے بطور وصیت جامع ہدایات قلم بند کروائیں جو سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے جملہ امور کی انجام دہی کے لئے اصول و حتمی قوانین سلوک کا مقام رکھتی ہیں۔ اسی وصیت کے مطابق جانشین، ناظم اعلیٰ اور ممبران مجلس منتظمہ کا تقرر عمل میں آیا۔ آپ نے سلسلہ میں وراثت کی گدی نشینی کا فرسودہ تصور ختم کر کے مولانا محمد اکرم اعوان صاحب کو سلسلہ کا شیخ اور اپناجانشین مقرر کیا۔
۱۵ جمادی الاول ۱۴۰۴ھ بمطابق ۱۸ فروری ۱۹۸۴ء بروز سنیچر اسلام آباد میں آپ نے رحلت فرمائی۔
شیخ المکرم حضرت مولانا محمد اکرم صاحب مدظلہ کے بقول جب آپ پردہ فرما گئے تو ولایت کا سب سے آخری اور اعلیٰ مقام \"عبدیت\" آپ کو نصیب تھا۔ جس کے متعلق مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ مراتب میں سے انتہائی مرتبہ مقام عبدیت ہے اور ولایت کے درجوں میں مقام عبدیت سے ادھر (آگے) کوئی مقام نہیں۔
مولانا اللہ یار خان ؒ کا عہد ۔۔۔۔۔ایک جائزہ:
ماضی قریب میں عقائد اور دین کے بنیادی نظریات میں لوگوں نے کج بحثیاں شروع کر دیں۔ روافض نے زور پکڑا، چکڑالوی مذہب نے سر اٹھایا، فتنہ پرویزیت نے قرآن و سنت کی نئی نئی تاولین گھڑیں، نبوت کے عینی شاہدوں پر اعتراضات ہونے لگے، اولیاء کرام کا درجہ بڑھا کر انہیں خدائی میں شریک کیا گیا یا پھر ان کی توہین کو توحید کا نام دے دیا گیا۔ فروعی اور معمولی اختلافات پر لوگ باہم دست و گریبان ہونے لگے، رسومات و بدعات نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل ہیئت کو ہی مسخ کر دیا۔ ایسے میں کھرے کھوٹے میں تمیز مشکل ہو گئی اور بے دینی یہاں تک پہنچی کہ حیاۃ انبیاء جیسے اجماعی اور متفقہ مسئلے کے بھی لوگ منکر ہونے لگے۔ تصوف جو دین کی روح ہے کا رشتہ اسلام سے ماننے کو تیار نہ رہے، ایسے میں نقالوں نے اپنی دکانیں سجا لیں، زاغوں نے عقابوں کے نشیمن پر قبضے جمائے، دین کے نام پر بھی لوٹ مار عام ہوگئی۔ درویشی بھی عیاری اور سلطانی بھی عیاری کا سماں پیدا ہو گیا۔ خدائے رحمان و رحیم نے ان حالات میں دین کی حقیقت کو عیاں کرنے، احیائے دین کے لئے دین کے ظاہر و باطن ، علوم نبوت اور فیوضات و برکات نبوت سے اسلام کے پیرو کاروں کو سرفراز کرنے، تمام فتنوں اور نظریات باطل کی بیخ کنی کرنے کے لئے اپنے جس بندے کو منتخب فرمایا وہ تھے مولانا اللہ یار خان ؒ جو مسلکاً حنفی اور مشرباً نقشبندی اویسی تھے۔
(ماخوذ از مقالہ مولانا اللہ یار خان ؒ کی تصانیف ، ایک تحقیقی جائزہ)
Dr Asifa Akram ka taaruf ya in ka contact number mil sakta hay?
جواب دیںحذف کریںDr Asifa Akram ka taaruf ya in ka contact number mil sakta hay?
جواب دیںحذف کریںآپ ادارہ نقشبندیہ اویسیہ سے رابطہ فرمائیں
جواب دیںحذف کریں