گزشتہ روز مری روڈ سے مریڑ حسن راشد منہاس روڈ راولپنڈی پر واقع ائیسکو افس میں ایک دوست سےملنے گیا گپ شپ میں مریڑ حسن قبرستان کے مدفن کاذکر چھیڑ دیا ارمغان کو ساتھ لیا اور کھوجنے نکلے1965 کے پائلٹ شہید کا مرقد ،جسکا کئ بار ذکر جب بھی ملے ارمغان چھیڑ دیتا مگر وہ ایسا کام میں الجھ جاتااچھا پھر سہی کہہ کر اپنا اپنا رستہ ناپتے مگر آج وہ بضد ھوگیا کہ یہ پڑا ھے کام آج کھوجنے ھر حال میں نکلنا ھے ڈھوک چراغ دین کبھی یہاں تنگ سی ریلوے پلی ھوتی تھی جسمیں سزوکی ھائی روف تو پھنس کر ہی رہ جاتی تھی جو خیر بہت کھلی ھوچکی ھے "مریڑحسن سے واحد راستہ ڈھوک چراغ دین کو یہی جاتا آگے لئی پر عرصہ پہلے پل نے اور آسانی کردی خیر گلی نمبر دس سے دائیں ھاتھ اندر کی جانب چلتے جائیں۔۔۔ٹھہریں ذرا "ڈھوک چراغ دین کے ان قدیمی مدفن " تک آنے کے اور راستے
، اگر ٹیپو روڈ سے آئیں تو چمن زار سے ریلوے پھاٹک کراس کرکے آگے ڈھوک چراغ دین کینٹ ایریا میں گلی نمبر دس سے اندر جھنڈا چیچی سے ملحقہ وسیع وعریض رقبے پر پھیلا قدیمی قبرستان جہاں گوالمنڈی اور ان سب علاقوں کے آسودہ خاک شنید ھے کہ یہاں دوسوسال سے بھی پرانے مدفن تھے جو گردشوں میں دب گئے عصر حاضر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
125سالہ پرانا مزار سائیں حاجی فتح محمد دین قبرستان کے انتہائی ایک جانب چار مناروں پر گبند نما عمارت میں واقع جسکے آگے دس مرلہ سے زیادہ کھلی جگہ دیکھ کر کافی حیرانی ھوئی کھوجتے ھوئے ایک قبر پر نظر پڑی جس پر نام تو واضح تھا مگر کچھ مٹ چکا تھا" حاجی ملک عبدالقیوم بانی ٹوکیو مسجد جاپان" لکھا واضح پڑھا جاسکتا، دعائے مغفرت کی اور آگے بڑھنے سے قبل انکے بارے میں کھوج لگانے کی ذمہ داری ارمغان کے ذمہ لگائی اور چل دئیے ، ایک قدم آگے بڑھے ہی تھے ایک قتبہ پر نظر پڑی جہاں 1947 سے آسودہ خاک بابو محمد خورشید لکھا تھا تھوڑی تگ و دو کے بعد قبرستان کے دوسری جانب چاردیواری اے آگے گلی کی جانب ایک بند مزار گمان تھا کہ یہی شہید پائلٹ کا مرقد ھوگا ورطہ حیرت میں مبتلا ھوگئے کہ راستہ نہ جانے کیوں بند کردیا بتاتا چلوں قبرستان چھ سات ایکڑ سے زیادہ جگہ پر ھے مگر چاردیواریوں اور گھروں کے بیچوں بیچ کہیں دس کہیں بیس تو کہیں اسی نوے سے زیادہ قبریں ھیں جبکہ اس جگہ لگ بھگ چار سو زیادہ قبریں ھیں قبروں پر قبضہ گھر بنے دیکھ کر دل اداس ھوگیا کہ
"مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے "
کہیں تو چار فٹ گلی جہاں دن میں بھی سورج کی روشنی نہیں پہنچتی دو تین منزلہ مکان باھم جڑی بیرونی دیواریں تو کہیں قبروں پر ہی بنیادیں اٹھائی ھوئے گھر جنازہ گاہ کے احاطہ میں 1952 سے صاحب مزار قلندری خواجہ سائیں اللہ بخش، اور ساتھ میں ہی گلی کے اس پار بابا سید بخآری شاہ، سمیت اور دیگر کئی آسودہ خاک ھیں ۔۔۔ذکر کرر ہاتھا شہید پائلٹ کا
درجات کی بلندی کی دعائے مغفرت کے لئیے ھاتھ اٹھائے اور جالیوں سے کتبہ پر لکھی تحریر پڑھنے سے دل غمگین ھوگیا
بمشکل جالیوں میں سے۔۔۔۔ تصویر لی
جہاں تحریر تھا
پائلٹ آفیسر فاروق سلطان 21سال کی عمر میں "دادو" سندھ پر دوران پرواز جیٹ طیارے میں آگ لگ جانے سے جمعرات 14 جنوری 1965 ۔۔9 رمضان المبارک 1384 ہجری شہید ھوئے جنہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی شہید سمیت تمام آسودہ خاک پر پنے پیارے حبیب حضور نبی کریم روف ور حیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل جنت الفردوس کے اعلی و ارفا پر سرفراز فرما تے ھوئے قرب حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطاء فرمائے آمین یارب العالمین
"شہید ملت پائلٹ آفیسر فاروق سلطان "
خلف الرشید
شیخ محمد عبدالغفور صاحب جو ڈسٹری انجینیر راولپنڈی کی بجلی کمپنی کے فرزند ارجمند ۔۔۔۔
بچھڑ کر آج اہل کارواں سے
جگا کر ہم کو اےفاروق سلطان
ھمیشہ کے لئیے کیوں سو گیا تو
ہائے فاروق تھا ماہر پرواز بہت
زندگی میں ملتےریےاسےاعزازبہت
کتنا مجبور تھا مڑ کر بھی نہ دیکھا اس نے
لوگ روتے رہے دیتے رہے آواز بہت
۔۔۔۔ ساتھ ہی انکے والد ماجد علیہ رحمتہ کا مدفن بھی ھے
۔۔۔۔۔محبوب عالم کے قلم سے ۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔