نسبت اویسیہ
خطاب
حضرت امیر المکرم مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ العالی
دارالعرفان۔ مورخہ 21.06.2002
مَوْلَا یٰ صَلِّ وَسَلِّمْ دَاءِمًا اَبَداً عَلٰی حَبِیْبِکَ مَنْ زَانَتْ بِہِ الْعُصُرُو
ولایت عامہ
اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کے لئے اولیاء اللہ کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے اور اس کی وضاحت بھی فرمائی ہے کہ اللہ کے دوست کون ہیں یا اللہ کن کا دوست ہے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں‘ جو لوگ پختہ یقین اور دولت ایمان سے سرفراز ہوتے ہیں‘ اللہ ان کا دوست ہے اور اللہ کی دوستی کا ان کی زندگی پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور ان کی زندگی کا سفر ظلمت سے‘ تاریکیوں سے‘ گناہ سے اور نافرمانی سے فرمانبرداری کی طرف جاری رہتا ہے۔ جنہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا‘ ان کا دوست طاغوت یا شیطان ہوتا ہے۔شیطان کی دوستی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ان سے نیکی چھوٹتی جاتی ہے اور وہ برائی میں مزید دھنستے چلے جاتے ہیں۔
یہ اچھی طرح جان لو کہ جو اللہ کے اولیاء ہیں یا دوست ہیں‘ انہیں نہ آئندہ کا خوف ہو گا اور نہ گزشتہ کا دکھ۔ قرآن حکیم کی اصطلاح میں حزن دکھ کو کہتے ہیں جو کسی بات کے ہو جانے پر ہوتا ہے اور خوف کسی ہونے والی بات کا ہوتا ہے‘ آنے والے خدشے کا ہوتا ہے۔ فرمایا:انہیں نہ کوئی آئندہ کا خوف ہو گا نہ گزشتہ پر افسوس ہو گا کہ جو گزری وہ اللہ کی اطاعت میں گزری اور جو آئے گی وہ وصول حق کی نوید ہو گی۔
اصطلاحاً اولیاء اللہ کا لفظ صوفیوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے استعمال ہونے لگا جنہوں نے ذکر اذکار کے ذریعہ سینۂ اطہر رسول اللہﷺ سے کیفیات و برکات حاصل کیں۔ ایسے عظیم اور بزرگ صوفیوں کو ولی اللہ یا اہل اللہ کہا جانے لگا۔
حضورﷺ منبع کمالات کُل ہیں
نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام ان تمام صفات کے جامع تھے جو وصال نبویﷺ کے بعد مختلف افراد میں تقسیم ہوئیں۔ زمانہ اطہر میں فقیہ بھی حضورﷺ تھے‘ مفتی بھی حضورﷺ تھے‘ حکمران بھی حضورﷺ تھے‘ سپاہی بھی حضورﷺ تھے‘ گھر کے مالک اور بچوں کی پرورش کرنے والے بھی حضورﷺ تھے‘ تاجر بھی حضورﷺ تھے‘ لوگوں سے معاملات کرنے والے بھی حضورﷺ تھے‘ قرآن بتانا بھی حضورﷺ ہی کا منصب جلیلہ تھا اور قرآن سمجھانا بھی آپﷺ ہی کا منصب جلیلہ تھا۔ سب کچھ جو اللہ کی طرف سے نوع انسانی کو نصیب ہونا تھا‘ وہ ایک ہی ذات میں جمع ہو گیا۔
دین کے شعبوں کی تخصیص
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ اطہر میں اور آپﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کوئی صحابی فقہ میں مشہور ہوا تو کوئی تفسیر میں‘ کوئی عبادت اور زہد و تقویٰ میں‘ کوئی شجاعت و دلیری میں اور کوئی فاتح اور جرنیل کہلایا۔ یعنی وہ تمام صفات جو آپﷺ کی ذات میں جمع تھیں‘ دوسروں میں ان کی کرنیں نظر آئیں۔ اگر کوئی بہت بہادر بھی ہو تو ایسا بہادر نہیں ہو سکتا جیسے محمد رسول اللہﷺ تھے۔ کوئی بہت بڑا فقیہ بھی ہو خواہ صحابہ کرام میں سے ہو‘ وہ اس طرح کا فقیہ نہیں ہو سکتا جس طر ح حضور اکرمﷺ تھے۔ کوئی بڑا عابد و زاہد بھی ہو تو کما حقہٗ ویسا نہیں ہو سکتا جیسے حضور اکرمﷺ تھے۔ ہاں‘ ان اوصاف کی کرنیں‘ ان تجلیات‘ ان انوارات اور ان برکات کو اپنے آپ میں سمو کر اپنے ہم عصروں میں دوسروں سے ممتاز ہو گئے۔
ولایت خاصہ
ان میں ایک شعبہ ان لوگوں کا بھی تھا جنہیں اولیاء اللہ کہا جاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے علوم ظاہری کے ساتھ‘ قرآن کریم کی تفسیر و تعبیر کے ساتھ‘ حدیث مبارکہ اور سنت رسولﷺ کے ساتھ‘ اتباع حق کے ساتھ کیفیات قلبی بھی حاصل کیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات بابرکات کے انوارات سے ان کے قلوب میں وہ تبدیلیاں ہوئیں کہ ان کا تزکیہ ہو گیا۔ انہوں نے وہ کیفیات‘ جن سے قلوب کا تزکیہ ہو گیا‘ اس قدر حاصل کیں کہ دوسروں میں ممتاز ہو گئے اور ولی اللہ کہلائے۔
جس طرح فقہ کے عام مسائل تو دوسرے لوگ بھی جانتے تھے لیکن کسی نے اتنا کچھ سیکھا کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا بن کر فقیہ کہلایا‘ محدث کہلایا‘ مفسر کہلایا‘ اسی طرح ہر وہ بندہ جسے نور ایمان نصیب ہے‘ وہ کسی نہ کسی درجہ میں اللہ کا ولی ہے۔ اس آیت کریمہ میں لفظ میں کوئی قید نہیں ہے‘ جو بھی ایمان لایا اسے ولایت الٰہی حاصل ہو گئی۔ اب یہ اس پر ہے کہ وہ اپنے ایمان پر کتنا عمل کر کے اس ولایت کو مزید پختہ کرتا ہے اور اس طرح اس کا سفر نور کی طرف جاری رہتا ہے یا بدبختی میں آ کر ایسے لوگوں میں شامل ہو گیا جن کا ایمان بھی ضائع ہوا‘ مرتد بھی ہوئے اور دین سے پھر گئے۔ آج کے عہد میں یہ کوئی عجیب بات بھی نہیں ہے کہ مسلمان گھروں میں کتنے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو دین کو چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔
قرآن بذریعہ توارث پہنچا
قرآن حکیم ہم تک توارث کے ذریعے پہنچا‘ ایک سے دوسرے کو پہنچا‘ دوسرے سے تیسرے تک پہنچا۔ ہم نے تو نہیں سنا‘ ہم سے پہلوں نے نہیں سنا‘ ان سے پہلوں نے نہیں سنا لیکن صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ واحد جماعت ہے جنہوں نے رسول پاکﷺ سے قرآن سنا اور رسول اللہﷺ وہ واحد ہستی ہیں جن پر قرآن نازل ہوا۔ نزول قرآن کا کوئی دوسرا گواہ نہیں ہے جو کہے کہ میں بھی سن رہا تھا اور یہ آیت ایسے ہی نازل ہوئی تھی‘ ایسا کہنے والا کوئی نہیں ہے۔ حضورﷺ سے صحابہ نے‘ صحابہ سے تابعین نے‘ تابعین سے تبع تابعین نے‘ علیٰ ھذٰا القیاس توارث اور وراثت کے طور پر مسلمان اپنے پہلوں سے حاصل کرتے آئے اور 3 ہمارے پاس مِن و عَن وہی قرآن حکیم ہے جو محمد رسول اللہﷺ پر نازل ہوا اور اس کی ترتیب بھی وہی ہے جو نبی اکرمﷺ نے دلوائی۔ آیات کا نزول مختلف مواقع پر ہے‘ سورتوں کا نزول مختلف مواقع پر ہے۔ ترتیب میں بعض مدنی سورتیں پہلے آ جاتی ہیں اور بعض مکی سورتیں بعد میں ہیں۔ بعض مکی آیات مدنی سورتوں میں ملتی ہیں اور بعض مدنی آیات مکی سورتوں میں ملتی ہیں۔ آیات اپنے اپنے موقع محل پہ نازل ہوتی رہیں لیکن جب قرآن مکمل ہو گیا تو اس کی ترتیب خود محمد رسول اللہﷺ نے بتائی۔ ہمارے پاس وہ قرآن ہے جس کی سورتوں اور آیات تک کی ترتیب وہ ہے جو آقائے نامدارﷺ نے دلوائی۔ 3! ہمارے پاس ہر آیت کا شان نزول‘ اس کا موقع و محل‘ اس کی تاریخ‘ یہ سارا کچھ محفوظ ہے۔
قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ کریم نے لے لیا۔ ہم نے ہی یہ قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے‘ ہم اس کے محافظ ہیں۔ قرآن پاک کی ایک زیر‘ زبر یا نقطہ گھٹایا یا بڑھایا نہیں جاسکا۔ جس کسی نے تحریف کرنے کی کوشش کی وہ قرآن حکیم کے ترجمے میں تحریف کرتا رہا لیکن کسی آیت‘ کسی لفظ کو چھیڑنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوئی۔
حدیث کا ذریعہ بھی توارث ہے
اسی طرح توارث سے ہم تک احادیث پہنچیں۔ اب قرآن حکیم اور حدیث نبویﷺ میں ایک فرق ہے کہ حدیث پاک میں اس درجے کا تحفظ نہ تھا جو قرآن حکیم کو حاصل ہے۔ لہٰذا حدیث پاک میں آمیزش بھی کی گئی اور حدیثیں اپنے پاس سے گھڑ کر بھی بیان کی گئیں حالانکہ آپﷺ کا ارشاد عالی ہے مَنْ کَذَّبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ اَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا‘ اس کا ٹھکانہ دوزخ میں ہے۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد عالی کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جو میری ذات پر جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے‘ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے لیکن اس کے باوجود منافقین اور بے دین لوگوں نے دنیا کمانے‘ فرقے بنانے اور لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کے لئے احادیث گھڑیں۔ اللہ تعالیٰ نے حدیث کو بھی تحفظ دیا اس لئے کہ حدیث بھی قرآن ہی کے مفاہیم بیان کرتی ہے اور حفاظت الٰہی کے زمرے میں آتی ہے۔ اللہ نے اگر قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تو صرف قرآن کے الفاظ کا ذمہ ہی کافی نہیں ہے‘ جب تک اس کے مطالب اور مفاہیم بھی محفوظ نہ ہوں۔ لہٰذا حدیث کے تحفظ کے لئے اللہ کریم نے مسلمانوں کو ایسے ایسے اولوالعزم اور عظیم شخص عطا فرمائے جنہوں نے ایک حدیث کی جانچ کے لئے سترہ فنون ایجاد کئے۔
اسماء الرجال
یاد رہے کہ حدیث کو پرکھنے کے لئے‘ حدیث نبوی کی جانچ کے لئے سترہ فنون ہیں جن میں سے ایک فن اسماء الرجال کا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے سوا یہ فن کسی قوم کے پاس نہیں ملتا۔ اسماء الرجال میں حروف تہجی کی ترتیب سے ہر اس شخص کا نام ملتا ہے جس نے حدیث بیان کی۔ پھر صرف نام ہی نہیں ملتا بلکہ یہ تفاصیل بھی ہیں کہ ان کا خاندان کیسا تھا‘ کاروبار کیسا تھا‘ مزاج کیسا تھا‘ لوگوں میں ان کی شہرت کیسی تھی‘ عملاً وہ نیک تھے یا غیر صالح تھے‘ دیانت دار تھے یا نہیں‘ ہمیشہ سچ بولتے تھے یا کبھی جھوٹ بھی بول لیتے تھے۔ یہ ساری تفصیلات اسماء الرجال کی کتب میں موجود ہیں۔ اگر کسی راوئ حدیث پر ذرا سا بھی اعتراض وارد ہو جائے تو جب تک کوئی دوسرا مستند اور کھرا آدمی اسی حدیث کو بیان نہ کرے‘ محدثین اس راوی سے حدیث نہیں لیتے۔
امام بخاریؒ نے مدینہ منورہ میں قیام فرما کر احادیث کا سب سے مستند ذخیرہ ’’بخاری شریف‘‘ جمع کیا اور ایک ایک حدیث کے لئے آپؒ نے بڑے سفر کئے۔ وہ پیدل چلنے کا زمانہ تھا‘ اونٹ گھوڑے کا زمانہ تھا لیکن جہاں پتہ چلتا کہ کسی ملک میں‘ کسی شہر میں‘ کسی ایک آدمی کے پاس ایک حدیث ہے تو آپؒ وہاں تشریف لے جاتے اور اس سے حدیث حاصل کرتے۔ ایک حدیث کے لئے مصر تشریف لے گئے۔ راوی کو تلاش کیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنے باغ یا کھیتی میں ہے۔ آپؒ وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ شخص گھوڑے کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس طرح سے جھولی بنائی ہوئی ہے جس طرح اسے دانہ کھلانے جا رہا ہو۔ گھوڑا اس جھولی پہ آیا تو اس نے گھوڑے کو پکڑ لیا اور جھولی چھوڑ دی۔ امام بخاریؒ واپس چل دیئے۔ اس شخص نے پکارا کہ بھئی کون ہو‘ کہاں سے آئے ہو اور کیوں آئے ہو؟ بنا ملاقات واپس کیوں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں فلاں شخص ہوں‘ مدینہ منورہ سے آیا ہوں‘ اس لئے آیا ہوں کہ مجھے پتہ چلا تھا کہ تمہارے پاس نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث ہے۔ اس نے کہا: ہے‘ آپ آئیں اور سنیں۔ امام بخاریؒ نے فرمایا: نہیں‘ میں نے دیکھا ہے کہ تیرے دامن میں غلہ نہیں تھا‘ تو نے جانور سے جھوٹ بولا۔ ایسے جھوٹے آدمی سے میں نبی اکرمﷺ کے کلمات سننے کو تیار نہیں ہوں۔
مدینہ سے مصر تک کا سفر اکارت گیا۔ فرمایا: یہی حدیث مجھے کسی کھرے اور سچے آدمی سے مل جائے گی لیکن تم سے حاصل نہیں کروں گا۔ اسی لئے ’’بخاری شریف‘‘ کو کہتے ہیں اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتٰابِ اللّٰہِ اَلْبُخَارِی یعنی قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب ’’بخاری شریف‘‘ ہے اور ’’صحیح بخاری‘‘ اس کا نام ہے۔ باقی پانچ بھی صحاح ستہ میں معروف ہیں کہ حدیث کی یہ چھ کتابیں صحیح ترین ہیں لیکن پھر بھی ان کا معیار جانچا پرکھا جاتا ہے‘ قرآن کی طرح آنکھیں بند کر کے ان پر یقین نہیں کیا جاتا۔
احادیث کا سلسلہ روایت
ان سب احادیث میں ایک مضبوط سلسلہ روایت کا ہے کہ کس نے یہ حدیث بیان کی‘ اس نے کس سے سنی‘ اس نے کس سے سنی اور اس نے کس سے سنی۔ یہ سلسلہ روایت بالآخر نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تک جا کر مکمل ہوتا ہے کہ فلاں صحابی نے حضورﷺ سے سنی‘ اس سے اس کے بیٹے یا اس کے شاگرد یا فلاں نے سنی اور اس طرح ہر حدیث کا سلسلہ روایت چلتا ہے تاآنکہ وہ حدیث سلسلہ روایت کے ساتھ کتب حدیث میں محفوظ کر دی گئی۔ پھر ہر کسی نے اس کتاب سے پڑھی۔ یہ سلسلہ روایت احادیث کے بارے میں تحقیق کا سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ سارے راویوں کے نام اسماء الرجال میں مل جاتے ہیں‘ ان کے حالات اور زمانے مل جاتے ہیں۔ ایک اصول یہ بھی ہے کہ حدیث بیان کرنے والا کب پیدا ہوا‘ کب فوت ہوا اور جس سے روایت کر رہا ہے‘ اس کے زمانے میں تھا بھی یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اُس کا وصال پہلے ہو گیا ہو اور یہ شخص بعد میں آیا ہو لیکن روایت کر رہا ہو۔ اس طرح ایک ایک حدیث کی ساری جانچ پرکھ ملتی ہے۔ اللہ کریم نے حدیث کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کے سینے کشادہ کر دیئے اور انہیں ایسے ایسے اہل علم عطا فرمائے جن کا سورج کی طرح روشن علم دنیا کو منور کر گیااور ایک ایک حدیث کی ساری جانچ پرکھ ملتی ہے۔
سلاسل اولیاء کرام بمثل سلسلۂ روایت
اسی طرح سے اولیاء اللہ کے سلاسل بھی چلے۔ جس طرح روایت حدیث ہے‘ اسی طرح جسے شجرہ یا اولیاء اللہ کا سلسلہ کہتے ہیں‘ یہ بھی چلے کہ کس نے کس سے برکات نبویﷺ حاصل کیں‘ کس کی صحبت میں گیا‘ اس نے کس کا زمانہ پایا‘ کہاں اس سے ملا اور اس سے وہ کیفیات قلبی حاصل کیں‘ اسے شجرہ یا سلسلہ کہتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ’’انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ‘‘ ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے قریباً ایک درجن سلسلوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پھر یہ فرمایا کہ صرف یہی سلسلے نہیں ہیں۔ بے شمار لوگوں سے سلسلے جاری ہوئے‘ کچھ ختم ہو گئے‘ کچھ ایسے بھی تھے جو غیر معروف رہے او رکتابوں میں نہ آ سکے لیکن ان تک جو معلومات پہنچیں‘ ان کے مطابق انہوں نے اس کتاب میں ترتیب دے دیئے۔
سلاسل کا طریق یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں حاضر ہو کر سینہ اطہر سے انوارات و کیفیات اپنے سینوں میں انڈیلیں۔ تابعین نے صحبت صحابہ میں رہ کر وہ کیفیات حاصل کیں‘ تبع تابعین نے تابعین سے حاصل کیں۔ اس طرح برکات صحبت نبویﷺ کی ترسیل کا سلسلہ چلا۔ آج جہاں بھی کوئی سلسلۂ تصوف ہے‘ آپ دیکھیں گے کہ ان کے پاس اپنا شجرہ یا اپنا سلسلہ ہو گا جو ا س بات کا گواہ ہو گا کہ کس نے کس سے برکات حاصل کیں۔
نسبت اویسیہ
شاہ ولی اللہ ’’انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ‘‘ میں ایک نسبت کا بھی ذکر فرماتے ہیں۔ یاد رہے! سلسلہ ہوتا ہے فرد سے فرد تک لیکن نسبت ان کیفیات اور تعلق کو کہتے ہیں جو قلب سے قلب کو ہو جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے بارگاہ نبویﷺ میں حاضر ہو کر وہ نسبت حاصل کی لیکن عہد نبویﷺ میں قرن کے رہنے والے ایک شخص سیدنا اویسؒ تھے جنہیں اویس قرنیؒ کہتے ہیں۔ ان کے حالات میں یہ ملتا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے مدینہ منورہ کی حاضری بھی دی لیکن حضورﷺ سے شرف ملاقات حاصل نہ کر سکے۔ حضورﷺ کسی سفر مبارک پر تھے اور انہیں ضعیف والدہ کی دیکھ بھال کی وجہ سے جلدی تھی‘ واپس آئے اور پھر وصال نبویﷺ تک بارگاہ نبویﷺ میں حاضری نصیب نہ ہوئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ملے‘ عہد نبویﷺ کو پایا لیکن تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی کیفیت یہ تھی کہ نبیﷺ نے وصیت فرمائی کہ میرے بعد تم میں سے اگر کسی کی اویس قرنیؒ سے ملاقات ہو تو اس سے کہنا کہ میری امت کیلئے مغفرت کی دعا کرے۔
اس ارشاد کو لے کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ان سے ملے اور انہیں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سلام اور یہ پیغام پہنچایا۔ ان کا بدن‘ ان کا وجود‘ ان کا ظاہری جسم بارگاہ نبویﷺ میں حاضر نہ ہو سکا لیکن ان کے دل نے قلب اطہرﷺ سے وہ قرب حاصل کر لیا کہ جو برکات انہوں نے دور رہ کر حاصل کیں‘ غائبانہ حاصل کیں‘ ان کی روح نے قلب اطہرﷺ سے جو اکتساب فیض کیا‘ انہوں نے کتنی برکات لیں اور ان کا مقام کیا تھا‘ اس پر نبیﷺ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے۔ شاہ ولی اللہ بھی ’’انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ‘‘ میں رقمطراز ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ایک نسبت اویسیہ ہے جس میں ملاقات شرط نہیں ہے۔ اویسیہ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حصول فیض کا وہ طریقہ ہے جو حضرت اویس قرنیؒ کا تھا کہ بدن بارگاہ نبویﷺ میں پہنچ نہ سکا‘ ظاہری ملاقات نہ ہوئی لیکن روح نے دور رہ کر بھی وہ برکات حاصل کر لیں کہ سیدنا فاروق اعظم اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہ کو نبیﷺ کا پیغام لے کر ان کے پاِس جانا پڑا۔ اگر کسی دل کو یہ قوت نصیب ہو جائے کہ روحانی طور پر اس کی روح پہلے بزرگوں سے یا بارگاہِ نبویﷺ سے براہ راست برکات و فیوضات حاصل کر لے تو اس طریقے کو نسبت اویسیہ کہیں گے۔
ہمارے ہاں برصغیر میں چار سلسلے معروف ہیں۔ چشتی‘ قادری‘ نقشبندی اور سہروردی۔ اب یہ چاروں سلسلے بہت بعد کے ہیں لیکن یہ ایسے ہیں جیسے فقہ میں چار ائمہ نے اجتہاد کا حق ادا کر دیا کہ فقہی مذہب چار پر آ کر رک گئے۔ اسی طرح حصول برکات قلبی میں اور روحانی کیفیات میں ان چاروں سلاسل نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ ان کے ناموں پر آ کر چار سلسلے بن گئے۔
نقشبندیوں میں پھر دو ہیں۔ ایک وہ ہے جس میں ملاقات شرط ہے‘ شیخ کی صحبت میں رہ کر فیض حاصل کرنا شرط ہے اور دوسری نسبت اویسی ہے۔ اویسی میں یہ شرط نہیں ہے کہ ملاقات ہو بلکہ صدیوں بعد بھی اگر کسی سے کوئی فیض حاصل کرنے کی اہلیت و استعداد پاتا ہے تو وہ اسے حاصل کر لیتا ہے۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ نسبت اویسی کی کیفیت یہ ہے کہ جس طرح دریا یا پانی کسی صحرا میں گم ہو جاتا ہے اور اس کا کوئی نشان نہیں ملتا‘ زیر زمین چلا جاتا ہے‘یہ نسبت اسی طرح گم ہو جاتی ہے اور دو دو‘ تین تین‘ چار چار سو سال اس نسبت کا حامل کوئی شخص نظر نہیں آتا لیکن پھر کہیں سے یہ زمین کو پھاڑ کر نکل آتی ہے اور جب یہ نکلتی ہے تو جل تھل کر دیتی ہے۔ پھر ہر طرف اسی کاشور سنائی دیتا ہے اور ہر طرف یہی لوگ نظر آتے ہیں۔ پھر یہ انسانی قلوب پر چھا جاتی ہے۔ جو بھی سعید ہوں‘ جنہیں اللہ نے قبول کر لیا ہو‘ جن پر اللہ کا کرم ہو‘ وہ سارے اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ سمندر بن جاتا ہے اور ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ لہٰذا نسبت اویسیہ کا شجرہ بھی عجیب ہے۔
نسبت اویسیہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلتی ہے
فیوضات و برکات کی یہ واحد نسبت ہے جو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاری ہوتی ہے۔ یاد رکھیں! تمام سلاسل نبی کریمﷺ سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ ان سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ ان سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتے ہیں اور ان سے آگے آ کر مختلف سلسلے بن جاتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگردوں میں کتنے لوگ صاحب سلسلہ ہوئے اور سوائے نسبت اویسیہ کے باقی جتنی نسبتیں ہیں وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے چلتی ہیں۔ اس کی وجہ میں عرض کر چکا ہوں کہ نبی کریمﷺ کی برکات جس قدر سیدنا ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاصل کیں ان میں کوئی دوسرا ان کا ثانی نہیں ہے۔ ان کے بعد جس طرح سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاصل کیں پوری امت میں پھر ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ان کے بعد جس درجے میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاصل کیں پوری امت میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ان کے بعد جس درجے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاصل کیں ان کے بعد ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ایسے مشائخ عظام بھی ہیں جن کے سینے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے سے منور ہوئے اور پھر انہوں نے آگے برکات منتقل کیں اور خود صاحب سلسلہ بن گئے لیکن نسبت اویسیہ ایک ایسی نسبت ہے کہ جو براہ راست نبیﷺ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے برکات حاصل کرتی ہے‘ اس لئے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: میرے سینے سے ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے میں جو کچھ انڈیلا گیا ہے وہ سوائے ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ اگر عہد نبویﷺ میں نصیب نہیں ہوا تو اس کے بعد کسی کو نصیب نہیں ہو سکتا۔
منقبت سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
علامہ باذل ایرانی ایک بہت بڑے شیعہ عالم ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ اسلامی فارسی میں منظوم کی ہے۔ اس کتاب کا نام ’’حملۂ حیدری‘‘ ہے جو نایاب ہے۔ الحمد للہ! ہماری لائبریری میں یہ کتاب موجود ہے لیکن بعد میں حملۂ حیدری کے نام کی کئی منظوم کتابیں چھپ کر مارکیٹ میں آ گئیں جن میں تحریف کر دی گئی۔ جو اصل کتاب ہے اس میں ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب ہجرت کے لئے مجبور کر دیا گیا تو آپﷺ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر جلوہ افروز ہوئے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سفر کا اہتمام اور سانڈنیوں کا انتظام پہلے سے کر رکھا تھا جو بعد میں غارِ ثور میں پہنچائی گئیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی نے اپنا دوپٹہ پھاڑ کر ستو اور راشن باندھ کر ہمراہ کر دیا۔ محمد رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عازم سفر ہوئے اور غارِ ثور میں جا کر جلوہ گزیں ہوئے۔ یہ منظر کشی کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
چوں رفتند چندیں بدامان دشت
قدوم فلک سایہ مجروح گشت
آپﷺ نے کچھ دور تک صحرا میں‘ دشت میں سفر فرمایا تو آپﷺ کے قدوم مبارک زخمی ہو گئے۔
ابوبکر آنگہ بہ دوشش گرفت
ولے ایں حدیث است جائے شگفت
جب آپﷺ کے قدم مبارک زخمی ہو گئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا لیکن کہتے ہیں کہ یہ بڑی حیرت کی بات ہے! یہ عام بات نہیں ہے کہ کسی نے محمد رسول اللہﷺ کو اٹھا لیا! یہ بڑی حیرت کی بات ہے!
اس وقت حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورﷺ کو اپنے کندھوں پر بٹھا لیا۔
ولے ایں حدیث است جائے شگفت
لیکن یہ بات بڑی حیران کن ہے۔
کہ در کس چناں قوت آمد پدید
کہ بار نبوت تواند کشید
کہ کسی فرد میں اتنی طاقت آ گئی کہ اس نے نبوت کا بوجھ اٹھا لیا۔
تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب ساری کائنات کا رابطہ حضورﷺ سے کٹ گیا‘ زمین سے بھی قدوم مبارک اٹھ گئے۔ کسی چارپائی پر‘ کسی مکان پر‘ کسی سواری پر نہیں تھے بلکہ محمد رسول اللہﷺ دوش ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تھے اور ساری کائنات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں سے برکات نبوی حاصل کر رہی تھی۔ لہٰذا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ کڑی ہیں جسے معیت نبویﷺ کا اعلیٰ ترین معراج حاصل ہے۔ جس کے لئے حضورﷺ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معیت ذاتی ہے اور اس میں صرف دو حضرات ہیں‘ محمد رسول اللہﷺ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یہ درجہ دنیا میں کسی تیسرے کو نصیب ہی نہیں۔
نبیوں میں معیت ذاتی صرف محمد رسول اللہﷺ کو نصیب ہے اور غیر نبیوں میں صرف ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیب ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو معیت نصیب ہے۔ موسیٰ علیہ السلام سے جب قوم نے کہا کہ پیچھے فرعون کا لشکر آرہا ہے اور آگے سمندر ہے‘ ہم پہلے بھی رسوا تھے‘ آپ آئے تو آپ نے بھی ہمیں مصیبتوں میں ڈال دیا۔ انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ ساتھ ہے۔ انہوں نے فرمایا 3333میرا ’’رب‘‘ میرے ساتھ ہے‘ ہمیں راستہ بنا دے گا۔ یہ معیت صفاتی ہے کہ ’’رب‘‘ صفاتی نام ہے۔ اسی طرح اولیاء اللہ کے لئے‘ نیک لوگوں کے لئے 333 فرمایا گیا۔ یہاں نسبت ذاتی ہے۔ اللہ ساتھ ہے‘ کن کے؟ ’’3 ‘ آگے صفت آگئی۔ معیت ذاتی ہے تو آگے بندے کی صفت ہے‘ صفت زائل ہو گئی تو معیت چلی جائے گی۔ نبی کو چونکہ ہمیشہ معیت حاصل رہتی ہے‘ اس لئے وہاں معیت صفاتی ہے۔ یہ صرف محمد رسول اللہﷺ کی شان ہے کہ آپﷺ کو معیت ذاتی حاصل ہے اور غیر نبیوں میں ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان ہے کہ انہیں اللہ کی معیت ذاتی حاصل ہے۔ محمد رسول اللہﷺکے ساتھ‘ 333 فرمایا گیا۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ کوئی برکات نبویﷺ ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بالا بالا محمد رسول اللہﷺ سے حاصل کرے۔ نسبت اویسیہ سینۂ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلتی ہے جو لبریز مخزن ہے‘ برکات محمد رسول اللہﷺ سے بھرا ہوا خزانہ ہے۔
نسبت اویسیہ میں زمانی فاصلے
پھر نسبت اویسیہ میں صدیوں کا فاصلہ آ جاتا ہے۔ مثلاً حضور اکرمﷺ نے 11ہجری کو وصال پایا۔ دو سال بعد 13ہجری میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہو جاتا ہے۔ دو سال اور چند ماہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت رہی۔ حضرت حسن بصریؒ جو نسبت اویسیہ میں ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد آتے ہیں اور دیگر تمام شجروں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد آتے ہیں‘ ان کا وصال 111ہجری کے آخر میں ہوا۔ درمیان میں کم و بیش سو سال کا فاصلہ ہے۔ 3 1ہجری اور 111ہجری میں 98سال کا فرق تو ویسے ہی پڑ گیا۔ وصال صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن بصریؒ کے وصال میں ایک صدی حائل ہے لیکن اس طویل مسافت کو طے کرتے ہوئے حضرت حسن بصریؒ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینۂ پر نور سے اکتساب فیض کیا جو برکات نبویﷺ تھیں۔
حضرت حسن بصریؒ کے بعد حضرت داؤد طائی ؒ آتے ہیں جنہوں نے پھر برکات اویسی طریقے سے حاصل کیں اور ان کا وصال 174ہجری میں ہوا یعنی حضرت حسن بصریؒ کے وصال کے 63سال بعد ہوا۔ اگرچہ حضرت امام حسن بصریؒ سے حضرت داؤد طائی ؒ کی ایک ملاقات کاذکر بھی تاریخ میں محفوظ ہے لیکن اکتساب فیض طریق اویسیہ سے ہی کیا۔ اس کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ آتے ہیں جن کا وصال 297ہجری میں ہوا اور یہاں 133سال کا فاصلہ آ جاتا ہے لیکن روح کو اگر نسبت اویسیہ حاصل ہو جائے تو اکتساب فیض کے لئے صدیوں کے فاصلے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔صدیاں اور زمانے وجود پر اثرانداز ہوا کرتے ہیں لیکن روح ان سے بالاتر شے ہے۔
اس کے بعد حضرت عبید اللہ احرارؒ کا نام نامی آتا ہے اورآپؒ کا وصال 895ہجری میں ہوا۔ ان کے اور حضرت جنید بغدادیؒ کے درمیان چھ صدیوں کا فاصلہ ہے۔ چھ سو سال کے بعد پھر ایک شخص روئے زمین پر نمودار ہوتا ہے جو نسبت اویسیہ حاصل کرتا ہے اور دنیا کو برکات نبویﷺ سے منور کر جاتا ہے۔
حضرت عبید اللہ احرارؒ تک پہنچتے پہنچتے چلہ کشی‘ ترک دنیا‘ پھٹے پرانے کپڑے پہننا‘ کم کھانا‘ کم سونا اور مجاہدوں کی روش چل گئی تھی جو آج بھی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ولی اللہ تو کوئی مجذوب ہو گا‘ جنگلوں میں رہتا ہو گا‘ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوں گے‘ وہ کھانا نہیں کھاتا ہو گا لیکن حضرت عبید اللہ احرارؒ رئیس آدمی تھے۔ ایک سو جوڑا ہل آپؒ کی زمین پر ایک وقت میں چلا کرتا تھا اور یہ سارے آپؒ کے ملازم تھے۔ صرف ہل چلانے والوں کا ایک سو خاندان آپؒ کے ساتھ پلتا تھا۔ باقی امور میں‘ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے یا اجناس کی خرید و فروخت کرنے والے کتنے لوگ پلتے ہوں گے! آپؒ نے وہ پرانی روش ختم کر کے فرمایا کہ یہ طریقہ نہیں ہے کہ کپڑے بدل لو‘ لباس بدل لو‘ حلیہ بدل لو‘ نہیں! بلکہ عام آدمی کی طرح جس طرح زندگی بسر کرتے ہو‘ حدودِ شرعی کے اندر جو لباس عادتاً پہنتے ہو‘ وہی لباس پہنو اور جوغذا عادتاً کھاتے ہو وہی کھاؤ۔ مزا تو تب ہے کہ عام آدمی کی سطح پر رہ کر دل کو انوارات باری سے منور کر لو۔
چوں فقر اندر عبائے شاہی آمد
زتدبیر عبید اللّھی آمد
تو فقیری کو شاہوں کا لباس عبید اللہ احرارؒ نے پہنایا کہ فقیر بھی رہے اور بظاہر شہنشاہ بھی نظر آتے تھے۔
حضرت مولانا عبد الرحمن جامیؒ کی تاریخ پیدائش 817ہجری ہے۔ عمر میں وہ حضرت عبید اللہ احرارؒ سے گیارہ سال چھوٹے تھے۔ ان کا وصال اپنے شیخ کے وصال کے تین سال بعد 898ھ میں ہوا لیکن ایک ہی زمانہ پانے کے باوجود تاریخ میں خواجہ احرارؒ سے ان کی صرف چار ملاقاتوں کا ذکر ملتا ہے جن میں ایک ملاقات وہ ہے جب خواجہ احرارؒ خود مولانا جامیؒ کے ہاں تشریف لائے۔ باہم خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن روحانی تربیت کی صورت نسبت اویسیہ ہی تھی۔ مولانا عبدالرحمن جامیؒ کی مشہور تصنیف تحفۃ الاحرار اپنے شیخ کی مدح و منقبت اور سلسلۂ نقشبندیہ سے اپنی نسبت کے متعلق ہے۔ نفحات الانس میں وہ حضرت عبیداللہ احرارؒ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’امید ہے ان کے وجود کی برکت سے اس سلسلہ کا انتظام یعنی اس لڑی میں امت کا منسلک ہونا قیامت تک جاری رہے گا۔‘‘
اس کے بعد حضرت ابوایوب محمد صالح ؒ ہیں جن کا تعلق یمن سے تھا اور بیشتر زمانہ دسویں صدی کا پایا۔ اواخر نویں صدی عیسوی میں‘ جب وہ اوائل عمر میں تھے‘ یمن سے خراسان (ہرات) کا سفر کیا۔ مولانا عبدالرحمن جامیؒ سے اکتساب فیض کے بعد حج کے لئے چلے گئے۔ ان کے بعد حضرت اللہ دین مدنی ؒ کا نام نامی آتا ہے جن کا مزار لنگرمخدوم میں ہے۔ انہوں نے برکات اپنے شیخ حضرت ابوایوب محمد صالح ؒ سے حاصل کیں اور ان کا زمانہ پایا۔ یہ دونوں ہم عصر ہیں اور انہیں مدینہ منورہ سے ہندوستان رخصت فرما کر حضرت ابوایوب محمد صالح ؒ یمن تشریف لے گئے۔ یمن میں وصال ہوا اور یمن میں ہی آپؒ کا مزار پرانوار ہے۔
حضرت اللہ دین مدنیؒ برصغیر میں تشریف لائے‘ پنجاب میں جلوہ افروز ہوئے اور دین کا اتنا کام کیا کہ نام نامی ’’اللہ دین‘‘ مشہور ہوگیا۔ یہ نام یہاں کا دیا ہوا‘ پنجاب کا لگتا ہے‘ عرب کا نہیں لگتا۔ اصل نام پس منظر میں چلا گیا اور جو لقب یہاں عطا ہوا وہ ان کے نام نامی کے طور پر معروف ہو گیا۔ ان کے بعد مولانا عبدالرحیمؒ آتے ہیں۔ ان کا وصال 30جنوری 1957ء میں ہوا اور یہ تو کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔ کہاں دسوی ھجری اور کہاں چودھویں ہجری! ان میں اور حضرت اللہ دینؒ میں بھی 4 صدیاں حائل ہیں۔
مولانا عبدالرحیمؒ سے شیخ المکرم‘ قلزم فیوضات‘ بحرالعلوم حضرت العلام مولانا اللہ یار خانؒ نے برکات نبوت حاصل کیں۔ حضرت اللہ یار خانؒ نے حضرت مولانا عبدالرحیمؒ کی صحبت پائی لیکن مولانا عبدالرحیمؒ تو حضرت اللہ دین مدنی ؒ سے چار سو سال بعد آئے۔ انہوں نے حضرت اللہ دین مدنی ؒ سے فیض کیسے حاصل کیا؟ تو یہاں ایک بات ہے جو وضاحت طلب ہے۔
برزخ سے یا عالم امر سے یا جو اہل اللہ دنیا سے کوچ کر چکے ہیں‘ ان سے فیض حاصل کرنے کے لئے سالک کو برزخ میں رسائی چاہئے۔ کوئی زندہ شیخ ایسا ہو جو اس کی اتنی تربیت کرے کہ اس کی روح برزخ میں کسی اہل اللہ کی روح سے ہمکلام ہو سکے‘ ہم سخن ہو سکے‘ برکات حاصل کر سکے‘ تعلیمات حاصل کر سکے‘ جس کے لئے کسی زندہ شیخ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حضرت عبدالرحیمؒ کے والد صوفی تھے جنہوں نے انہیں مراقبات ثلاثہ کرائے۔ احدیت‘ معیت‘ اقربیت تک مراقبات انہوں نے اپنے والد گرامی سے کئے۔ اگر کسی کے مراقبات ثلاثہ مضبوط ہو جائیں تو جس طرح یہ لوگ حلال کھاتے‘ سچ بولتے‘ ماحول سنجیدہ ‘ سچا اور کھرا تھا‘ تو مراقبات ثلاثہ والا برزخ میں کلام کر سکتا ہے‘ اس کی رسائی ہو سکتی ہے۔ ہمارے سامنے کتنے لوگوں کو حضرتؒ نے مراقبات ثلاثہ کے بعد برزخ میں کلام کروایا۔ اس کے ہم عینی گواہ ہیں۔یہ جتنے لوگوں کے درمیان چار چار سو سال‘ دو دو سو سال کا فاصلہ آیا‘ یقیناًانہیں کسی نہ کسی نے کم از کم مراقبات ثلاثہ تو کروائے ہوں گے‘ ان کا برزخ میں رابطہ تو کرایا ہوگا۔
باقی سلاسل کی انتہا‘ نسبت اویسیہ میں ابتداء ہے
یاد رہے کہ نسبت اویسیہ والوں کا قاعدہ یہ ہے کہ باقی سارے سلسلوں میں فنا فی اللہ اور بقابااللہ کو آخری منازل قرار دیا گیا ہے۔ فنا‘ بقا سلاسل کی انتہا ہے جبکہ نسبت اویسیہ میں فنا و بقا ابتدا ہے۔ فرمایا گیا:
اوّلِ ما آخرِ ہر منتہی
جہاں تمام سلسلوں کی انتہا آجاتی ہے وہاں سے ہماری ابتدا ہوتی ہے۔
اوّلِ ما آخرِ ہر منتہی
آخرِ ما جیب تمنا تہی
ہر مبتدی کی جو انتہا ہے وہ ہماری ابتداء ہے اور ہماری انتہا یہ ہے کہ مانگنے کو کچھ نہیں رہتا۔
اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ بندہ مانگ سکتا ہی نہیں‘ مانگنے کی کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ لہٰذا جہاں پہ مراقبات ثلاثہ یا ربط بالارواح یا برزخ سے رابطہ کا تعلق ہے‘ تو جس کسی نے اتنا کام کیا‘ اسے نسبت اویسیہ والوں نے اپنے شجرے میں شامل نہیں کیا۔ شجرہ مبارک میں صرف وہ نام نامی آئے جنہوں نے فنا و بقا سے آگے چلایا اور انہیں عالم امر تک لے گئے۔
جہاں صدیوں کا فاصلہ ہے‘ یقیناًوہاں کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا ہوگا جو اس شیخ کو ملا اور جس نے اس کا رابطہ برزخ میں کروادیا لیکن نسبت اویسیہ کے حاملین نے کم از کم جو معیار رکھا وہ فنا فی اللہ اور بقا بااللہ تھا اور اس سے آگے سلوک کو شمار کرنا شروع کیا۔ یہ تو الف‘ ب‘ ج‘ د ہے۔ جیسے قاعدے میں حروف ابجد ہوتے ہیں‘ نسبت اویسیہ میں یہ ابجد ہے۔
اوّلِ ما آخرِ ہر منتہی
آخرِ ما جیب تمنا تہی
جس طرح حضرت مولانا عبدالرحیمؒ کو ان کے والد گرامی نے مراقبات ثلاثہ کروائے‘ اسی طرح پہلے بزرگوں کا رابطہ بھی ضرور کسی نہ کسی نے کروایا ہوگا مگر اس نام کو شجرہ مبارک میں جگہ نہیں دی گئی اور اس کی تلاش کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔ اگر ضروری ہوتا تو شجرہ مبارک میں ضرور شامل ہوتا‘ اسی لئے شامل نہیں فرمایا گیا۔ یہاں ان ہستیوں کا ذکر ہے جنہوں نے فنا‘ بقا سے آگے چلایا‘ جنہوں نے سالک المجذوبی کروائی‘ جنہوں نے نو عرش طے کروائے:۔
آنکہ آمد نُہ فلک معراج او
انبیاء و اولیا محتاج او
منازلِ سلوک
جسے عرش عظیم کہتے ہیں اس کے نو حصے ہیں اور اس کے اندر نو حصے نو عرش کہلاتے ہیں جس طرح اس شعر میں کہا گیا کہ :
آنکہ آمد نُہ فلک معراج او
انبیاء و اولیا محتاج او
وہ ہستی جو معراج میں نو عرشوں سے اوپر تشریف لے گئی‘ نبی اور ولی جس کے محتاج ہیں‘ﷺ!یہ فاصلے روح کے لئے ہیں‘ روحانی برکات کے لئے ہیں اور برکات نبویﷺ کے طفیل روح یہ فاصلے طے کرتی ہے۔ یہ میٹروں اور گزوں سے نہیں ناپے جاتے۔
پہلے عرش میں ایک لاکھ سولہ ہزار منازل ہیں‘ حضرت جیؒ نے شمار کرائی تھیں۔ پہلے عرش کے اندر اس کی چوڑائی میں ایک لاکھ سولہ ہزار منازل ہیں اور ان کے درمیان فاصلہ اتنا ہے جیسے آپ یہاں سے نگاہ اٹھائیں تو آپ کو ٹمٹاتا ہوا باریک سا ستارہ کہیں نظر آئے۔ بدن کی نگاہ اور روح کی نگاہ میں بڑا فرق ہے۔ اگر روح سالک المجذوبی پر کھڑے ہو کر دیکھے تو اسے دور ایک چھوٹے سے دیے جتنی روشنی نظر آتی ہے اور اللہ کسی کو وہاں لے جائے تو ایک بہت بڑی منزل ہے۔ ان منازل میں آپس میں اتنا اتنا فاصلہ ہے اور یہ ایک لاکھ سولہ ہزار منازل ہیں۔ اس کے بعد گنی نہیں گئیں‘ نہ حضرت جیؒ نے شمار کرائیں‘ نہ بعد میں کسی نے یہ جرأت کی۔ جب اس کا پہلا حصہ ختم ہوتا ہے تو اس کے اور دوسرے عرش کے درمیان جو خلا ہے وہ پہلے عرش کی موٹائی سے زیادہ ہے۔ تیسرے عرش کی چوڑائی اس خلا سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد جو خلا ہے وہ اس کی چوڑائی سے زیادہ ہے۔ اس طرح نو عرش بنتے ہیں۔ جب نواں عرش ختم ہو جاتا ہے تو وہاں عالم خلق کی انتہا آجاتی ہے اور آگے عالم امر شروع ہو جاتا ہے۔ وہاں روح انسانی اس لئے جا سکتی ہے کہ اس کی اصل امر ربی سے ہے‘ یہ عالم امر میں تشریف لے جا سکتی ہے‘ حاضر ہو سکتی ہے۔
برصغیر کی سرزمین کو اگر دل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو آسمان پر اتنے ستارے نہیں ہیں جتنے اس زمین میں اہل اللہ دفن ہیں اور ان کی ہر قبر سے نور پھوٹ رہا ہے لیکن اگر عالم امر میں پہنچنے والے اہل اللہ گنے جائیں تو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ گذشتہ سوا چودہ سو سال میں ان کی تعداد آٹھ دس سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے علاوہ ہیں چونکہ برصغیر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مدفن بھی ہیں۔ برصغیر میں پہلی قوموں میں جو انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے تھے‘ ان کے مدفن بھی ہیں لیکن وہ غیر معروف ہیں۔ بعض انبیاء علیہم السلام بھی اس سرزمین پر دفن ہیں جو بعثتِ آقائے نامدارﷺ سے پہلے بسنے والی قوموں کی طرف وقتاً فوقتاً آئے۔
انبیاء علیہم السلام کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم‘ جنہوں نے اس سرزمین پر اسلام کو روشناس کرایا اور اس زمین میں جن کا وصال ہوا اور وہ اس میں دفن ہوئے‘ ان کو چھوڑ دیں۔ ان کے بعدجب ولی اللہ کی بات آتی ہے تو یہ سرزمین قلب کی نظر سے اس طرح نظر آتی ہے جس طرح تاریک رات میں تاروں بھرا آسمان صاف نظر آتا ہے۔ اس میں اتنے ولی اللہ ہیں لیکن عالم امر میں پہنچنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ نسبت اویسیہ والے ولایت کو اس طرح شمار کرتے ہیں کہ جو عالم امر میں پہنچا وہ اپنے گھر پہنچا‘ ترقی اس سے آگے کرے گا۔
نسبت اویسیہ والے مشائخ عظام فرماتے ہیں کہ اگر یہ سارا سفر کر کے عالم امر میں پہنچ گیا تو ابھی گھر پہنچا ہے۔ بارگاہ الوہیت کی حاضری یا وصول حق تو اب اس سے آگے شروع ہو گا کہ یہاں سے وہ بارگاہ الوہیت کی طرف‘ بارگاہ الٰہی کی طرف‘ وصول حق کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔
نسبت اویسیہ کے شجرہ میں جتنے نام نامی آپ نے سنے‘ دو حضرات مشائخ عظام میں بھی ہیں جو سالک تک ہیں لیکن ان کے نام شجرہ مبارک میں اس لئے شامل ہیں کہ جن لوگوں نے ان سے فیض حاصل کیا وہ عالم امر میں ان بلندیوں تک چلے گئے جہاں تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان کے ساتھ ان کے نام نامی بھی شجرے میں آگئے۔
میں یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ مشائخ میں سے میں آپ کو دو نام بھی بتاؤں۔ ہمارے سارے مشائخ ہیں‘ ہمارے سارے باپ ہیں اور باپ اگر کاشتکار ہو‘ بیٹا بادشاہ بن جائے تو باپ‘ باپ ہی رہتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اب بادشاہ کو باپ کی عزت مل گئی‘ نہیں! باپ کی عزت باپ ہی کے پاس رہتی ہے خواہ وہ غریب کاشتکار ہو اور بیٹا بادشاہ بن جائے۔بعد میں آنے والے خواہ جتنے بھی منازل حاصل کرلیں‘ وہ انہیں کے طفیل ہیں۔ ساری برکات انہیں کے سینے سے ‘ انہیں کے قلب سے ہو کر آتی ہیں لہٰذا یہ جرأت نہیں کی جا سکتی۔ ہاں! دو حضرات کے علاوہ باقی تمام عالم امر کے باسی ہیں‘ اور ان د وکی اولاد بھی عالم امر تک پہنچی ہے۔ یہ ہے شجرۂ نسبت اویسیہ!
اس شجرہ پر کسی نے سوال کیا تھا کہ درمیان میں جو فاصلے ہیں ان میں رابطہ کس نے کروایا۔ میں نے اس کا جواب عرض کر دیا کہ جس کسی نے رابطہ بالروح کروادیا لیکن منازل بالا نہیں کروا سکا‘ اس کا احسان تو مانا گیا لیکن اتنا نہیں کہ اس کے نام کو شجرہ میں شامل کیا جاتا۔ لہٰذا شجرہ ان ہی ناموں کا ملتا ہے جو کسی روح کو لے کر عالم بالا تک گئے۔
مشائخ عظام سلسلہ عالیہ کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ جن مشائخ نے ایک ہی زمانہ پایا‘ ان کی باہمی صحبت کا عرصہ بہت مختصر تھا‘ صرف چند ملاقاتیں اور اس کے بعد طریق نسبت اویسیہ سے ہی آگے تربیت و ترقی نصیب ہوئی۔
یہ اس دور کی خصوصیت ہے کہ حضرت جیؒ کے ساتھ مسلسل ربع صدی کی صحبت نصیب ہوئی۔ شاید اس عہد تاریک تر میں پھر سے برکات نبوتﷺ کا نور بانٹنے کے لئے کڑے مجاہدوں‘جو ربع صدی پر محیط ہیں اور مسلسل صحبت شیخ کی ضرورت تھی کہ کارگاہ ربوبیت میں جہاں اور جب جس شے کی ضرورت ہوتی ہے‘ مہیا فرمائی جاتی ہے اور آج اسی توجہ شیخ کا اثر ہم چار دانگ عالم میں دیکھ رہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔