ANTI-ADBLOCK JS SYNC منکرین تصوف کے کھلے تضاد ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

منکرین تصوف کے کھلے تضاد


مشہور اہل حدیث عالم امین اللہ پشاوری فرماتے ہیں:

شرعی علم کے حصول کا طریقہ
شریعت کا صحیح علم کیسے حاصل ہوتاہے؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔اسے درج ذیل چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علم دو قسم کا ہوتا ہے:
. ظاہر الشریعہ:
علماے کرام نے لکھا ہے کہ اس علم کو حاصل کرنےکے لئے پانچ چیزیں ضروری ہیں اور یہ چیزیں معروف ہیں۔ تفصیل میں جانےکی بجائے میں یہاں صرف ان کے نام ذکر کرنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ پہلی چیز ہے توجہ سے سننا یعنی الاستماع اور دوسری چیز ہے خاموشی یعنی الانصات۔ تیسری چیز حفظ اور چوتھی اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ پانچویں اور آخری چیز اس علم کی نشرواشاعت ہے۔
. علم اسرار الشریعہ:
علم کی دوسری قسم کا نام علم اسرار الشریعہ ہے۔ یعنی شریعتِ مطہرہ کے اسرار ورموز... اور کتاب و سنت میں موجود حکمتوں کو حاصل کرنے کاجو راستہ ہے، وہ بھی پانچ چیزیں ہیں:
1. اتباع سنت:
اس علم کو حاصل کرنےکے لیے پہلی ضروری چیز نبی کریمﷺ کی سنت کی اتباع ہے۔ سنت نبویہﷺ میں نور ہے اور علم بھی نور ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَءامِنوا بِرَ‌سولِهِ يُؤتِكُم كِفلَينِ مِن رَ‌حمَتِهِ وَيَجعَل لَكُم نورً‌ا تَمشونَ بِهِ وَيَغفِر‌ لَكُم وَاللَّهُ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ... ٢٨6
''اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اوراس کے رسولﷺ کے ساتھ ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں نور دے گا جس روشنی میں تم چلو پھرو گے اور وہ تمہیں معاف کردے گا اور اللہ معاف اور رحم کرنے والا ہے۔''
2. اسرارِ شریعت کا حصول :
اسرارِ شریعت کے حصول کے لیے دوسری ضروری چیز قرآن کی اصطلاح میں احسان ہے اور بعض علما کی اصطلاح میں اسے 'مراقبہ' بھی کہا جاتا ہے۔
جب کسی انسان کے دل میں احسان کی صفت پیدا ہوجاتی ہےتو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے اس بندےکے لیے شریعت کے اسرار کوکھول دیتے ہیں اوراس کی دلیل قرآن مجید میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ یوسف کے تذکرے میں فرماتے ہیں:
﴿وَلَمّا بَلَغَ أَشُدَّهُ ءاتَينـٰهُ حُكمًا وَعِلمًا وَكَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ... ٢٢ 7
''اور جب وہ پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو ہم نے اُنہیں حکمت اور علم سے نوازا اورہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں۔''
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے یوسف کو شریعت کی حکمت عطا فرمائی ۔باطنی علم اور ظاہری علم دونوں سےنوازا اور یہ صرف انہی کی خصوصیات میں سے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ﴿ا وَكَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ﴾ یعنی یہ حکم اور علم میں ہر محسن کوبلکہ محسنین کو دیتاہوں ۔ ایسے ہی موسیٰ کے تذکرے میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَمّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاستَوىٰ ءاتَينـٰهُ حُكمًا وَعِلمًا وَكَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ... ١٤8
''اور جب موسیٰ اپنی جوا نی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے تو ہم نے اُنہیں حکمت و علم عطا فرمایا۔''
'احسان' کے معنی ہمیں قرآن پاک میں ہی مل جاتے ہیں اوریہ مجرب قاعدہ ہےکہ قرآن مجید میں کوئی مشکل یا مبہم (یعنی جس کامطلب واضح نہ ہو) لفظ استعمال ہوجائے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود ہی اس کی وضاحت بھی فرما دیتے ہیں۔یہاں بھی 'احسان' کی تفسیر اللہ تعالیٰ اس طرح فرماتے ہیں کہ
﴿وَر‌ٰ‌وَدَتهُ الَّتى هُوَ فى بَيتِها عَن نَفسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبو‌ٰبَ وَقالَت هَيتَ لَكَ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَ‌بّى أَحسَنَ مَثواىَ إِنَّهُ لا يُفلِحُ الظّـٰلِمونَ... ٢٣9
''اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو اس کے نفس کے بارےبہلانا پھسلانا شروع کردیا اور دروازے بند کرکے کہنےلگی: آجاؤ، یوسف نے کہا: اللہ کی پناہ وہ میرا ربّ ہے۔ اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے، بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا۔''
آدمی جوان ہے خواہش بھی ہے، بیوی نہیں ہے۔ خود مسافر اورغلام ہیں، بُرائی کی دعوت دینے والی عورت جوان، حسن و جمال اور منصب والی ہے۔ الغرض بُرائی کے تمام اسباب و دواعی موجود ہیں، لیکن اللہ کی راہ پر چلنے والے کے دل میں اللہ کی توجہ اس قدر غالب ہے کہ اُنہوں نے اس غلط کام کو جوتے کی نوک پر ٹھکرا دیا۔پس یہی احسان ہے۔
درجاتِ احسان:
احسان کے دو درجے ہیں:
مشکوٰۃ المصابیح کی ایک حدیث میں احسان کے یہ دونوں درجے بیان ہوئے ہیں کہ آپﷺ سے احسان کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو آپﷺ فرماتے ہیں:
«أن تعبد الله كأنك تراه»
احسان یہ کہ ''آپ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسے کریں جیسے آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔''
اور احسان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ آپ کے دل میں یہ بات ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں: «فإن لم تكن تراه فإنه يراك»10
مشہوراہلحدیث عالم مولنا عبد المجید سوہدری رخمہ اللہ تعالی علیہ تصوف کے متعلق فرماتے ہیں
ئمہ حدیث نے جس حدیث کو ام الحادیث یا ام الجوامع کے نام سے تعبیر کرتے ہیں،اس میں مذکور ہے کہ جبرائیل امین آنحضرتﷺ نے احسان کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے جوابا فرمایا الا احسان ان تعبد اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ں ہیں کہ اعلی درجہ توہی ہے کہ عبادت میں ایسی حضوری اور دل لگی ہو کہ گویا اللہ کو دیکھتا ہے اسے مشاہدہ کہتے ہیں اقر ادنی درجہ یہ ہے کہ تصور اور یقین کرے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اسے مراقبہ کہتے ہیں
آج جسے تصوف اور دروشی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے زبان نبوی میں اس کو احسان کہا گیا ہے،عوام اور بعض صوفیاء قسم کے لوگ ظاہری حکام کو شریعت اورتزکیہ باطن کو طریقت اور مشاہدہ و مراقبہ کو حقیقت کہتے ہیں،مگر اس حدیث میں حضورﷺ نے تینوں مقامات کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں کامل وہی شخص ہے جو ان تینوں کا جامع اور عامل ہو ۔اگر کوئی شحص پہلی پانچ باتوں پر جما رئے اور آگے قدم نہ اٹھائے اور احسان کی عملی تعبر کر نہ دکھائے تو بھی ناقص الایمان ہے

اب دیکھو یہی بات مولانا میر سیالکوٹی ٌ لکھتے ہیں:۔
اسی طرح حضرت الاستاذ حامل لواالسنسن مولٰنا عبید اللہ غلام حسن سیالکوٹیؒ جن کی فیض صحبت سے اس گنہگار کے ظاہر و باطن پر تو ڈالا اور شریعت حقیقت کے حقائق ومعارف کا دروازہ کھولا اور انکی وفات کے بعض وہ لطف کہیں نہیں پایا( بحوالہ تفسیر ام لقرآن)
پھر مزید شاہ ولی اللہٌ کا حوالہ دیکر لکھتے ہیں
اس کے بعد اپنا ایک مراقبہ کا ذکر کرتے ہیں جس میں ان روح القدس آنحضرتﷺ کا ظہور ہوا اور آپکو اس علم ( اسرارِ دین) کے بیان کا القاء ہوا"(صفحہ34 )
پھرمزید صفحہ 41 پر اپنے متعلق فرماتے ہیں
خاکسار گناہ گار بھی محض تحدیثاً بنعمتا اللہ (نہ فخراً کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو کو بھی اس فن( اسرار دین ولطائف قران مجید) سے کہچھ حصہ عطا کیا ہے
پس استغراق تصور سے کشفی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور تجلیات ا لہیہ نا ز ل ہو کر حضور کا رتبہ حاصل کراتی ہیں اور اس حضور ی حالت میں صیغہ خطاب ہی منا سب ہے" ۔
پھرا سی صفحہ پر حسرت سے فرماتے ہیں
صفحہ 288 پر فرماتے ہیں
مراقبہ کی حالت میں فیضان الیٰ کا نازل ہونا تو بہت اونچا مقام ہے او میں کہ چکا ہوں کہ واقعی گنہگار ہوں اس لیے وہ مقام مجھے کہاں حاصل ہو سکتا ہے ہا ں فیضان الہی کی دیگر صورتیں بھی ہیں ان میں ایک سچا خواب ہے
صفحہ330پر فرما تے ہیں
"سورہ فاتحہ کی آیت زیر تفسیر میں جس انعام کا ذکر ہے ۔ اس سے با طنی اور دینی نعمت یعنی اللہ کی مرضی پر چلنے کی توفیق مراد ہے کیوں کہ جب قرآن مجید کی تصریح کے مطابق منعم علیہم سے انبیاء؛ صدیق؛ شہید اور صا لحین مراد ہیں ۔ تو جو خصوصی نعمت ان پر ہوئی ہے ۔یہاں پر وہی مراد ہو سکتی ہے اور صراط مستقیم سے اسی نعمت کو تعلق ہو سکتا ہے"۔
صفحہ331 پر تو آپ نے ساری بات کو ہی کھول دیا
جن پر اللہ تعالٰی کی باطنی وروحانی نعمتیں ہوئیں اور وہی اس قابل ہیں کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے ان کی راہ احتیار کی جائےاور وہی اس لائق ہیں کہ ان کی اقتداء کی جائے"۔
کیا منکرین تصوف قرآن وحدیث کی کھلی مخالفت کرتے ہیں؟

اوپر دئے گئے تمام حوالہ جات جو سرخ رنگ میں آپ کو نطر آ رہے ،امام العصر مولانا ابرہیم میر سیالکوٹیؒ کی تفسیر ام القرآن واضح البیان سے دئے گئے ہیں،مولانا امین پشاور صاحب اور میر صاحبؒ دونوں مفسر ظاہر و باطنی علوم پر اتفاق کرتے ہیں ،اور علما اہلسنت کا ان باتوں پر کوئی اختلاف نہیں،مگر مشہور منکرین تصوف علامہ احسان الہی ظہیر مرحوم نام نہاد تحقیق کے تصوف سلوک جیسی پاکیزہ راہ ،اور مولانا میر سیالکوٹی ؒ اور دیگر صوفیا اہلحدیثؒ کے خلاف بالواسطہ غلیظ پروپگنڈہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔[​IMG]

الغرض تصوف کے رد میں علامہ احسان صاحب ہوں یا کیلانی صاحب منکرین تصوف کی کتابیں پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے یہ کتابیں کسی خبطی کی لکھی ہوئی ہیں اور بڑے بڑے عجیب تضاد پائے جاتے ہیں کیونکہ منکر فن تصوف سے تو آشنا نہ تھے،اس لئے جو جی میں آتا رہا لکھتے رہے ۔ہو سکتا ہے یہ کتابیں منکرین کے حلقہ میں کچھ پزیرائی رکھتی ہوں ،مگر اہل علم کے نزدیک اور بالخصوص صوفیاکے نزدیک انکی کچھ وقعت نہیں ،پھر تنقید کرنا یا تخریب کرنا کچھ مشکل کام نہیں ،مشکل کام تو تعمیر ہے ،وہ تو صوفیا کوہی زیب دیتا ہے ،منکرین تصوف کے حصہ میں صرف تخریب ہی ہے۔
جن احباب نے علامہ احسان الہی ظہیر صاحب کی تقایر سنی ہوں وہ جانتے کہ علامہ صاحب بڑے فخر سے امام العصر بحر العلوم شریعت وطریقت محمد ابرہیم میر سیالکوٹیؒ کا نام بڑے فخر سے لیا کرتے تھے،اور بڑے بڑے فخر سے انکے واقعات بھی بیان کیا کرتے تھے ،مگر دوسری طرف ۔۔۔۔۔
عجب بات یہ ہے کہ علامہ صاحب نے کسی ایک بھی جگہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’تصوف‘‘میں علما اہلحدیث کے تعلق تصوف پر کوئی نقد نہ فرمایا۔
اب یہی علامہ صاحب علم ظاہر وباطن کو تو نہ سمجھ سکے اور صوفیا پر خود ساختہ فتوی بازی جاری رکھی مگر دوسری طرف یہی تفسیر ام لقران واضح البیان میں رطب اللسسان بھی تھے ،فرماتے ہیں:۔
[​IMG][​IMG]

قارہین یہ ایک ہلکی سی جھلک منکرین تصوف کی کتب سے پیش کی گئی ہے،جس سے منکرین کی ذہنی و علمی حالت کا آپکو بخوبی اندازہ ہوا ہو گا، کہ ایک طرف تصوف کی مخالفت اور دوسری طرف صوفیا کی کتب اور صوفیانہ انداز میں لکھی تفاسیر کی اشاعت بھی کرتے رہے۔ وہ بھولے بھالے احباب جو منکرین تصوف کے گمراہ پروپگنڈے کی وجہ سے متاثر ہوئے ہونگے انھیں بھی کچھ حقیت سمجھنے میں مدد ملے ہو گی ۔یا پر تو صرف میں نے ایک ہلکا سا جائزہ لیا ہے ،اگر تفسیر ثنائی سے یا فتاوی ثنائیہ سے حوالے دینے شروع کروں تو مجھے طویل مضمون لکھنے پڑھے گئے ،مگر اتنی فرصت نہیں ۔
اگر مقلدین اھسان الہی ظہیر صاحب کی دل آزاری ہوئی تو معذرت چاونگا ،مگر یہ حقائق پیش کرنا اور عامتہ الناس کو گمراہی بچانا تو ضروری ہے اور پھر اہلحدیث کا تو اصول ہے
Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو