فزکس، اہل یونان کے فلسفے سے موجودہ دور
قدیم یونان کے عالم اور دانشور وہ پہلے لوگ تھے جنھوں نے کائنات کو پہلی بار مکمل طور پر صرف اور صرف عقلی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی۔اسکےساتھ ہی انھوں نے عقلی کاوشوں سے حاصل شدہ علم کو منطقی اصولوں کے تحت جمع کرنا شروع کیا۔'فلسفی' وہ لوگ تھے جنھوں نے غیر عقلی اور روایتی نظریا ت (دیومالائی داستانوں کے اور بشمول مذہبی کائناتی نظریات )کی بجائے عقلی استدلال اور منطقی دلائل کے ساتھ کائنات کو سمجھا۔(فلسفی کا لفظی مطلب علم و دانش سے الفت رکھنے والا انسان ہے۔)
فلاسفی میں ایک طرف انسانی رویوں کی جانچ،اخلاقیات،معاشرتی اقدار اور سماجی محرکات و ردِعمل پر بحث کی گئی تو ساتھ ہی انسانی دماغ کی ان دیکھی دیواروں سے ماوراء تمام نظامِ کائنات اور مختصر اشیائے قدرت پر بھی تحقیق کی گئی۔یوں کائناتی اسرار و امور پر تحقیق کرنے والے "طبعی فلاسفر" کہلائے۔اہلِ یونان کے علمی و عسکری عروج کے دور میں مظاہر ِ قدرت کی پڑتال و مطالعہ کو "طبعی فلاسفی " ہی کہا جاتا تھا۔علم سائنس کے لئے موجودہ مستعمل لفظ "سائنس"(لاطینی معنیٰ:جاننا)نویں صدی کے آغاز تک مقبول نہیں ہوا تھا،یعنی آج اسی "طبعی فلاسفی" کو ہم" سائنس" کے نام سے جانتے ہیں۔حتیٰ کہ آج بھی سائنس کی سب سے اعلیٰ ڈگریPh.Dڈاکٹر آف فلاسفی کا ہی مخفف ہے۔
علم طبیعات،طبعی فلاسفی یا قدرتی فلاسفی کی ایک وسیع شاخ ہے؛ طبیعات کیلئے مستعمل لفظ Physicsکے لغوی معنیٰ "مجموعہِ سائنس "کے ہیں۔تاہم جیسے جیسے سائنسی میدان میں تحقیق وسیع اور عمیق ہوتی گئی،اور معلومات کا انبار بڑھتا گیا،تو طبعی فلاسفروں کو سائنس کی صرف کسی ایک شاخ کو اختیار کر کے مہارت اور تخصیص حاصل کرنا پڑی۔ان خاص تحقیقی شاخوں کو نیا نام دے کر طبیعات کی آفاقی حدود سے علیحدہ کر دیا گیا۔
اس لیے اعداد و اشکال کی خصوصیات اور باہمی تعلق کوریاضی کہا گیا۔فلکیاتی اجسام کے مقامات و حرکات کےمشاہدے کو فلکیات کا نام دیا گیا۔سیارہِ زمین(جس پر ہم موجود ہیں)کی طبعی خصوصیات کا مطالعہ جیالوجی؛ مادہ کی ساخت اور مختلف میں باہمی تعاملات کا مطالعہ کیمیاءاور زندہ اجسام کی ساخت ،افعال اور باہمی تعلق کو حیاتیات کے نئے ناموں سے علم کی نئی تخصیص قرار دیا گیا۔
اب طبعیات کی اصطلاح مندرجہ بالا شعبوں میں سے باقی رہ جانے والے مظاہر قدرت کے علم کیلئے استعمال ہونے لگی۔اس لئے طبعیات کی ایک جملے میں تعریف کرنا اتنا آسان نہیں ہے، جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔باقی رہ جانے والے مظاہر قدرت میں حرکت ،حرارت ،آواز، روشنی،بجلی اور مقناطیسیت وغیرہ شامل ہیں۔یہ سبھی توانائی کی مختلف اقسام ہیں۔(توانائی کے متعلق تفصیلا ً اگلے ابواب میں بیان کیا جائے گا۔)اس لئے ہم طبعیات کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ "طبعیات مادے اور توانائی کی خصوصیات اور انکے باہمی تعلق سے بحث کرتی ہے"۔
طبیعات کی مندرجہ بالا تعریف کی وضاحت جامع و وسیع ،دونوں تناظر میں کی جا سکتی ہے۔وسیع تناظر میں طبیعی تحقیق و مطالعہ کا پھیلاو سائنسی علوم کی دوسری شاخوں کے ساتھ منطبق (Overlap)ہو جاتا ہے۔درحقیقت بیسویں صدی عیسوی کے بعد سے یہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔چونکہ سائنس کی مختلف شاخوں میں تقسیم مصنوہی اور انسانی عمل ہے۔جب معلومات کا حجم کم تھا تو یہ تقسیم کارآمد اور مفید معلوم ہوئی،تب یہ ممکن تھا کہ کوئی بھی فلکیات یا حیاتیات کو کیمسٹری یا طبیعات کے بغیر سمجھ سکے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مختلف علوم کے مابین انسانی تقسیم کی سرحدیں کمزور ہوئیں اور ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو گیئں۔ایک سائنسی شاخ میں مستعمل طریقہ کار دوسری شاخوں کی وضاحت میں بھی استعمال ہونے لگا۔
انیسویں صدی کے دوسرے آدھے حصے میں طبیعی طریقہ کار کو استعمال کر کے یہ ممکن ہو گیا کہ ستاروں کی کیمیائی ترکیب اور طبیعی ساخت معلوم کی جا سکے،یوں طبعی فلکیات کا آغاز ہوا۔زلزلے کی وجہ سے زمین میں آنے والے ارتعاشات(جھٹکوں)کے مطالعہ سے جیوفزکس کی ابتدا ہوئی۔طبعی طریقہ کا کو استعمال کرتے ہوئے کیمیائی تعاملات کے مطالعہ نے طبعی کیمیاء(Physical Chemistry) کو جنہم دیا، یہی شاخ وسعت حاصل کرتے رہی اوراسکے حیاتیات میں اطلاق سے مالیکیولر حیاتیات(Molecular Biology)کا آغاز ہوا۔
جہاں تک ریاضی کے استعمال کا تعلق ہے تو یہ ہمیشہ سے ہی طبعیات دانوں کا سب سے اہم اوزار(Tool)رہی ہے (طبعیات میں ریاضی کا استعمال حیاتیات اور کیمیاء کی نسبت کہیں زیادہ ہے)۔جیسے جیسے طبعی قوانین و نظریات پیچیدہ اور دقیق ہوتے گئے ،نظری طبعیات اور ریاضی میں فرق کرنا، ناممکن ہوتا گیا۔تاہم اس کتاب میں ہم خالصتاً طبعیات کو بیان کریں گے اور طبعیات کے دوسرے علوم میں استعمال و اطلاق سے اجتناب برتیں گے۔
فلاسفی میں ایک طرف انسانی رویوں کی جانچ،اخلاقیات،معاشرتی اقدار اور سماجی محرکات و ردِعمل پر بحث کی گئی تو ساتھ ہی انسانی دماغ کی ان دیکھی دیواروں سے ماوراء تمام نظامِ کائنات اور مختصر اشیائے قدرت پر بھی تحقیق کی گئی۔یوں کائناتی اسرار و امور پر تحقیق کرنے والے "طبعی فلاسفر" کہلائے۔اہلِ یونان کے علمی و عسکری عروج کے دور میں مظاہر ِ قدرت کی پڑتال و مطالعہ کو "طبعی فلاسفی " ہی کہا جاتا تھا۔علم سائنس کے لئے موجودہ مستعمل لفظ "سائنس"(لاطینی معنیٰ:جاننا)نویں صدی کے آغاز تک مقبول نہیں ہوا تھا،یعنی آج اسی "طبعی فلاسفی" کو ہم" سائنس" کے نام سے جانتے ہیں۔حتیٰ کہ آج بھی سائنس کی سب سے اعلیٰ ڈگریPh.Dڈاکٹر آف فلاسفی کا ہی مخفف ہے۔
علم طبیعات،طبعی فلاسفی یا قدرتی فلاسفی کی ایک وسیع شاخ ہے؛ طبیعات کیلئے مستعمل لفظ Physicsکے لغوی معنیٰ "مجموعہِ سائنس "کے ہیں۔تاہم جیسے جیسے سائنسی میدان میں تحقیق وسیع اور عمیق ہوتی گئی،اور معلومات کا انبار بڑھتا گیا،تو طبعی فلاسفروں کو سائنس کی صرف کسی ایک شاخ کو اختیار کر کے مہارت اور تخصیص حاصل کرنا پڑی۔ان خاص تحقیقی شاخوں کو نیا نام دے کر طبیعات کی آفاقی حدود سے علیحدہ کر دیا گیا۔
اس لیے اعداد و اشکال کی خصوصیات اور باہمی تعلق کوریاضی کہا گیا۔فلکیاتی اجسام کے مقامات و حرکات کےمشاہدے کو فلکیات کا نام دیا گیا۔سیارہِ زمین(جس پر ہم موجود ہیں)کی طبعی خصوصیات کا مطالعہ جیالوجی؛ مادہ کی ساخت اور مختلف میں باہمی تعاملات کا مطالعہ کیمیاءاور زندہ اجسام کی ساخت ،افعال اور باہمی تعلق کو حیاتیات کے نئے ناموں سے علم کی نئی تخصیص قرار دیا گیا۔
اب طبعیات کی اصطلاح مندرجہ بالا شعبوں میں سے باقی رہ جانے والے مظاہر قدرت کے علم کیلئے استعمال ہونے لگی۔اس لئے طبعیات کی ایک جملے میں تعریف کرنا اتنا آسان نہیں ہے، جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔باقی رہ جانے والے مظاہر قدرت میں حرکت ،حرارت ،آواز، روشنی،بجلی اور مقناطیسیت وغیرہ شامل ہیں۔یہ سبھی توانائی کی مختلف اقسام ہیں۔(توانائی کے متعلق تفصیلا ً اگلے ابواب میں بیان کیا جائے گا۔)اس لئے ہم طبعیات کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ "طبعیات مادے اور توانائی کی خصوصیات اور انکے باہمی تعلق سے بحث کرتی ہے"۔
طبیعات کی مندرجہ بالا تعریف کی وضاحت جامع و وسیع ،دونوں تناظر میں کی جا سکتی ہے۔وسیع تناظر میں طبیعی تحقیق و مطالعہ کا پھیلاو سائنسی علوم کی دوسری شاخوں کے ساتھ منطبق (Overlap)ہو جاتا ہے۔درحقیقت بیسویں صدی عیسوی کے بعد سے یہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔چونکہ سائنس کی مختلف شاخوں میں تقسیم مصنوہی اور انسانی عمل ہے۔جب معلومات کا حجم کم تھا تو یہ تقسیم کارآمد اور مفید معلوم ہوئی،تب یہ ممکن تھا کہ کوئی بھی فلکیات یا حیاتیات کو کیمسٹری یا طبیعات کے بغیر سمجھ سکے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مختلف علوم کے مابین انسانی تقسیم کی سرحدیں کمزور ہوئیں اور ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو گیئں۔ایک سائنسی شاخ میں مستعمل طریقہ کار دوسری شاخوں کی وضاحت میں بھی استعمال ہونے لگا۔
انیسویں صدی کے دوسرے آدھے حصے میں طبیعی طریقہ کار کو استعمال کر کے یہ ممکن ہو گیا کہ ستاروں کی کیمیائی ترکیب اور طبیعی ساخت معلوم کی جا سکے،یوں طبعی فلکیات کا آغاز ہوا۔زلزلے کی وجہ سے زمین میں آنے والے ارتعاشات(جھٹکوں)کے مطالعہ سے جیوفزکس کی ابتدا ہوئی۔طبعی طریقہ کا کو استعمال کرتے ہوئے کیمیائی تعاملات کے مطالعہ نے طبعی کیمیاء(Physical Chemistry) کو جنہم دیا، یہی شاخ وسعت حاصل کرتے رہی اوراسکے حیاتیات میں اطلاق سے مالیکیولر حیاتیات(Molecular Biology)کا آغاز ہوا۔
جہاں تک ریاضی کے استعمال کا تعلق ہے تو یہ ہمیشہ سے ہی طبعیات دانوں کا سب سے اہم اوزار(Tool)رہی ہے (طبعیات میں ریاضی کا استعمال حیاتیات اور کیمیاء کی نسبت کہیں زیادہ ہے)۔جیسے جیسے طبعی قوانین و نظریات پیچیدہ اور دقیق ہوتے گئے ،نظری طبعیات اور ریاضی میں فرق کرنا، ناممکن ہوتا گیا۔تاہم اس کتاب میں ہم خالصتاً طبعیات کو بیان کریں گے اور طبعیات کے دوسرے علوم میں استعمال و اطلاق سے اجتناب برتیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔