ANTI-ADBLOCK JS SYNC سقوط غرناطہ اک اسلامی سلطنت کی مکمل داستاں ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

سقوط غرناطہ اک اسلامی سلطنت کی مکمل داستاں

 سقوط غرناطہ اک اسلامی سلطنت کی مکمل داستاں

غرناطہ اور مسلم ہسپانیہ - عروج و زوال : ایک تاریخ ایک داستان ! سقوط غرناطہ
وہ افسوسناک حادثہ عالم اسلام میں جس کے لیۓ آج بھی اسپین کی گلیاں نوحہ کناں ہیں۔۔۔
یہ وہ سرزمین تھی جس پر طارق بن زیاد جیسے نڈر نے واپسی کے راستے بند کرکے کشتیاں جلا کر حاصل کیا اور پھر عبدلعزیز بن موسی سے لے کر پھر عبدالرحمن الدخل جس نےآزاد بنو امیہ کی اجارہ داری قاٸم کی ۔۔۔711 عیسوی کو ایک سپہ سالار طارق بن ذیاد نے شمالی افریقہ سے نکل کر بحر روم کو چھیرتے ہوئے سپین کے ساحل پر قدم رکھا (یہ مقام آج جبل طارق کے نام پر مشہور ہے) جہاں طارق بن ذیاد کا سامنا ہسپانیہ کے بادشاہ لذریق سے ہوا، طارق بن ذیاد نے عیسائی لشکر کو شکست دی اور معارکے میں ان کا بادشاہ بھی مارا گیا، یہ ہسپانیہ میں مسلمانوں کی پہلی فتح تھی، اس کے بعد یورپ میں فتوحات کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 840-850 کے درمیان مسلمانوں نے عیسائیوں کے گڑھ اٹلی (المعروف روم) پر 3 حملے کیئے لیکن اٹلی کو فتح کرنے میں ناکام ہوگئے، ہسپانیہ پر مسلمانوں نے 700 سال تک حکومت کی، مسلمانوں کی حکومت میں تمام مذاہب کے لوگ آزادی سے اندلس میں ذندگی بسر کررہے تھے، جب عیسائیوں نے غرناطہ پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا، سلطنت عثمانیہ نے اندلس سے آنے والے یہودیوں کیلئے دروازے کھول دیئے جہاں 20 ویں صدی تک استنبول میں یہودی آباد تھے_
غرناطہ پر قبضے کے بعد سپین میں 600 مساجد کو تالہ لگادیا یا مسمار کردیئے، یہ مساجد تعلیمی درسگاہ بھی تھے جہاں سے دنیا کے نامور سکالرز علم حاصل کرچکے تھے جن میں ابن سینا بھی شامل تھے، نہ صرف یہ بلکہ مسلمان سائنسدان اور علماء کے کتب خانے بھی جلادیئے گئے تھے، 19 ویں صدی میں فرانسیسی فزکسٹ پیئر کیوری جو میری کیوری کے شوہر تھے ان دونوں نے ریڈیم اور پولونیم کو دریافت کیا تھا، وہ دونوں پیرس فرانس میں مسلمان سائنس دانوں کے متن کا مطالعہ کرتے تھے، پیئر کیوری نے کہا تھا کہ '' ہمارے پاس مسلم اندلس (موجودہ اسپین) سے اب صرف 30 کتابیں باقی ہیں، اگر دس لاکھ جلائی جانے والی کتابوں میں سے ایک آدھ بچ سکتے جو عیسائیوں نے مسلمانوں سے نفرت کی انتہا میں جلائ تھے تو ہم خلا میں کہکشاؤں کے درمیان بہت پہلے ہی سفر کررہے ہوتے"_
سپین میں آج بھی مسلمانوں کو شکست کا دن تمام گلیوں میں جوش وجذبے سے منایا جاتا ہے، سپین میں مشہور مسجد قرطبہ کو بند ہوئے 600 سال سے زائد عرصہ ہوا ہے حضرت علامہ اقبال کو سپین کے دورے پر اس مسجد میں ایک رات گزارنے کی اجازت دی گئی تھی، جس پر علامہ نے لکھا؛
اے گلستاں اندلس وہ دن یاد ہے تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا
"مسلمانوں کی عزت و توقیر جہاد اور حکومت الہی کے قیام کی جدوجہد میں ہی پوشیدہ ہے - تاریخ ایک سنگ دل مورخ ہے -
خاموش مگر چوکنا! جو ہر لمحہ حکرانوں اور ریاست کا حساب کتاب رکھتی ہے - ہسپانیہ میں مسلمانوں کو جو فتوحات حاصل ہوئیں وہ بھی تاریخ کا حصہ اور دیو مالائی داستان بن چکی ہے - اسی طرح مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی ایک بھیانک تاریخ بھی ہے - جس پر ہم کم ہی نگاہ ڈالتے ہیں - دیکھتے ہیں کہ مسلمان ہسپانیہ اور آج کا اسپین کیا تھا اور اب کیا ہے ؟"
غرناطہ (Granada)، ہسپانیہ (Spain)
کے جنوب میں ایک تاریخی شہر کا نام ہے۔ اس کی وجہ شہرت یہاں مسلمانوں کے دور کا محل الحمرا ہے۔ 1492 تک غرناطہ سپین میں آخری اسلامی ریاست کا مرکز تھا۔ مسیحی حکمرانوں کی معاہدہ خلافی (جسے ہسپانوی احتساب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) نے1610 تک مسلمانوں کو اس علاقے میں بالکل ختم کر دیا۔
غرناطہ کے ساتھ ہی سپین کا سب سے اونچا پہاڑ ملحسن واقع ہے۔ جو سپین کے آخری سے پہلے مسلمان حکمران مولائے حسن کے نام پر ہے۔
غرناطہ ایک بہت خوبصورت شہر ہے۔ اس کی خوبصورتی کو ایک جدید ہسپانوی شاعر اقاذہ نے یوں بیان کیا ہے:
" اے عورت اسے کچھ دے دے
دنیا میں اس سے بڑی اور کوئی بدقسمتی نہیں ہو سکتی
کہ انسان غرناطہ میں وارد ہو اور اندھا ہو "
892ھ بمطابق 1492ء میں اسپین میں مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا اور ان کی آخری ریاست غرناطہ بھی مسیحیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اس واقعے کو سقوط غرناطہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔مغرب کی سرزمین پر 700 سال تک حمکرانی کرنے والے ہسپانیہ (موجودہ سپین اور پرتگال) کے مسلمانوں کو اپنوں کی غداری اور حکمرانوں کی عیاشیوں کی وجہ سے شکست ہوگی تھی
اسپین میں آخری مسلم امارت غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے مسیحی حکمرانوں ملکہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح اسپین میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن مسیحی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو جبرا مسیحی بنایا گیا جنہوں نے اس سے انکار کیا انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔
جنگ زلاقہ (23اکتوبر1086ء بمطابق رمضان 476ھ) دولت مرابطین کے عظیم مجاہد رہنما یوسف بن تاشفین اور اسپین کی مسیحی مملکت قشتالہ (Kingdom of Castile) کے بادشاہ الفانسو ششم کے درمیان لڑی گئی جس میں یوسف بن تاشفین نے تاریخی فتح حاصل کی۔
وجوہات
ہشام ثانی نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں ہسپانیہ میں ابھرتی ہوئی مسیحی ریاستوں کے خلاف 52 مہمات میں حصہ لیا اور کبھی بھی شکست نہیں کھائی لیکن 1002ء اس کے انتقال کے بعد اسپین میں مسلم حکومت کو زوال آگیا اور وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ 1082ء میں الفانسو ششم نے قشتالہ سے اپنی تاریخی فتوحات کے سفر کا آغاز کیا۔ نااہل مسلم حکمرانوں میں اسے روکنے کی ہرگز صلاحیت نہیں تھی۔ 1085ء میں اس نے بنو امیہ کے دور کے دار الحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ شہر کے عظیم باسیوں نے 5 سال تک مسیحیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی لیکن بالآخر ہمت ہار بیٹھے۔ الفانسو کا اگلا ہدف سرغوسہ کی کمزور ریاست تھی۔ مسلم حکمرانوں کی نااہلی کے مکمل ادراک کے بعد علما نے شمال مغربی افریقا میں دولت مرابطین کے امیر یوسف بن تاشفین سے رابطہ کیا اور ان سے اندلس کی ڈوبتی ہوئی مسلم ریاست کو بچانے کا مطالبہ کیا۔
جنگ کی تیاریاں
اشبیلیہ، غرناطہ اور بطليوس (باداجوز) کے قاضیوں نے یوسف سے مطالبہ کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ وہ مقامی حکمرانوں کی خود مختاری برقرار رکھیں گے۔ یوسف نے تمام شرائط تسلیم کیں جس کے بدلے میں انہیں قلعہ قائم کرنے اور اپنی افواج کو منظم کرنے کے لیے ساحلی شہر الجزیرہ سے نوازا گیا۔ انتظامات مکمل کرنے کے بعد یوسف 12 ہزار فوجیوں کے ساتھ اشبیلیہ روانہ ہوا اور الجزیرہ کے قلعے میں 5 ہزار فوجیوں کو چھوڑا۔ وہ 8روز اشبیلیہ میں رہا اور اندلس کے حکمرانوں کی جانب سے فراہم کردہ فوجی دستوں کی ترتیب و تنظیم کرتا رہا۔ کل 20ہزار افواج کے ساتھ یوسف شمال کی جانب روانہ ہوا جہاں اس کا ٹکرائو زلاقہ کے میدان میں الفانسو ششم سے ہوا۔
جنگ
1086ء
قشتالہ کے بادشاہ الفانسو ششم کو 80ہزار شہسواروں، 10ہزار پیادوں اور 30 ہزار کرائے کے عرب فوجیوں کی خدمات حاصل تھیں۔ 20 ہزار مسلم افواج میں سے شامل 12 ہزار بربر (10 ہزار شہسوار اور دو ہزار پیادی) بہترین جنگجو تھے جبکہ مقامی 8 ہزار افواج شہسواروں اور پیادہ افواج پر مشتمل تھے۔ دونوں سپہ سالاروں نے جنگ سے قبل پیغامات کا تبادلہ کیا۔ یوسف نے دشمن کو تین تجاویز پیش کیں: ١۔ اسلام قبول کرو، ٢۔ جزیہ ٣۔ یا جنگ ۔
الفانسو نے مرابطین سے جنگ کو ترجیح دی۔ جنگ 23 اکتوبر1086ء بروز جمعہ صبح سورج نکلتے وقت الفانسو کے حملے کے ساتھ شروع ہوئی۔ یوسف نے اپنی فوج کو دستوں میں تقسیم کیا پہلے دستے کی قیادت عباد ثالث المعتمد کر رہا تھا جبکہ دوسرے دستے کی قیادت خود یوسف بن تاشفین نے کی۔ دوپہر تک المعتمد کی افواج ہی الفانسو کا مقابلہ کرتی رہیں جس کے بعد یوسف بن تاشفین اپنی فوج سمیت جنگ میں داخل ہوا اور الفانسو کی افواج کا گھیرائو کر لیا جس پر مسیحی افواج میں افراتفری پھیل گئی اور یوسف نے سیاہ فام باشندوں پر مشتمل تیسرے دستے کو حملے کا حکم دے دیا جس نے آخری وفیصلہ کن حملہ کرتے ہوئے جنگ کا فیصلہ مسلم افواج کے حق میں کر دیا۔ مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 60ہزار کے مسیحی لشکر میں سے 59ہزار 500 اس جنگ میں کام آئے جبکہ الفانسو زندہ بچ گیا تاہم اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی۔
اس میدان جنگ کو زلاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے کیونکہ معرکے کے روز اس قدر خون بہا کہ افواج کو قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی۔ مسیحی ذرائع اس جنگ کو Battle of Sagrajas کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس تاریخی فتح کے نتیجے میں اگلے 300 سال تک اسپین میں مسلم حکومت موجود رہی بصورت دیگر وہ 1492ء کے بعد 1092ء میں ہی ختم ہوجاتی۔
اس جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں شکست کے بعد ہی مسیحیوں نے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جارحیت کے سلسلے کا آغاز کیا۔
Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو