ANTI-ADBLOCK JS SYNC میں نےرام اللہ دیکھا ۔ مصنف : مرید البرغوثی May nay rāmallāh dekha ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

میں نےرام اللہ دیکھا ۔ مصنف : مرید البرغوثی May nay rāmallāh dekha


 نقش پرداز توئی، ما قلم افشانیم

حاضر آرائی و آیند نگاری از تست !
الحمدللہ شہرہ آفاق فلسطینی ادیب، شاعر و دانش ور مرید البرغوثی کی شاہ کار تخلیق ' رأیت رام الله ' کا اردو ترجمہ ایڈیٹنگ اور پروف خوانی کے کئی مراحل سے گزر کر حوالۂ پریس ہوچکا ہے۔
کتاب کا تعارف جب میں نے ساجھا کیا تھا، تو بہت سے حضرات نے دلچسپی ظاہر کی تھی ، وہ اب پیشگی آرڈر دے کر خصوصی رعایت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کتاب کی ضخامت 256 صفحات ہے، عام قیمت 400 روپے اور تیس فیصد رعایت کے ساتھ 280 روپے ہے۔ ڈاک خرچ ہمارے ذمے ہوگا۔ پانچ اور ان سے زائد نسخوں کی خریداری پر پچاس فیصد کی رعایت دی جائے گی ۔ کتاب مرکزی پبلی کیشنز ، نئی دہلی کے زیر اہتمام ان شاء اللہ اِسی ماہ منظرِعام پر آجائے گی ۔

SHIKAST E AHDAI E HUSAIN
سرنامے کی کتابت : برادرم ذکی احمد
تزیین : برادرم عارف انجم انصاری
فون پے/ گوگل پے وغیرہ کے ذریعے اس نمبر پر قیمت کی ادائیگی کی جا سکتی ہے‌۔ قیمت ادا کرنے کے بعد اسی نمبر پر اپنا مکمل ایڈریس واٹس ایپ کردیں :
9560188574

عبدالرحمن قاسمی

مرید البرغوثی(1944-2021ء) فلسطینی نژاد عظیم شاعر، ادیب اور ناول نگار تھے ، وہ فلسطین کے شمالی گاؤں ’دیرغسانہ‘ میں 8جولائی 1944ء کو پیدا ہوئے، تعلیم حاصل کرنے کے لیے قاہرہ یونیورسٹی کا رُخ کیا، اسی ز مانے میں 1967ء کی مشہور’ عرب اسرائیل‘ جنگ چھڑ گئی ،جس میں عربوں کو شکست ہوئی اور اسرائیل نے فلسطین کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا، اُس کے معاً بعد بے شمار فلسطینی بے گھر زندگی گذرانے پر مجبور ہوگئے بلکہ مجبور کردیے گئے، جو فلسطین سے باہر دیگر ملکوں میں تھے، اُن کے لیے فلسطین میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی، اُن کا وطن واپسی کا خواب بس ایک خواب بن کررہ گیا، مرید البرغوثی بھی اُنہی لوگوں میں سے تھے،جو اسرائیلی قبضے سے پہلے قاہرہ یونیورسٹی مصر میں زیر تعلیم تھے، اس ناگہانی واقعہ کے بعد وہ اپنے وطن ،اپنے گھر ،اپنے اہل خانہ ،اپنے والدین اور اعزہ واقارب سے ایک عرصہ تک ملاقات نہیں کرپائے ، اِس دوران اُن کی زندگی میں کئی واقعات و سانحات رونما ہوئے کبھی اہل ِخانہ سے ملنے کی چاہت ہوتی توتڑپ کر رہ جاتے ، اُس کے لیے اُنہیں کس کس طرح کی دقتوں، پریشانیوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا،اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے ، البتہ اُن کی کتاب’رأیت رام اللہ‘ (میں نے رام اللہ دیکھا) ان کی تیس سالہ جلاوطنی ،اُس کی سختیوں اور پریشانیوں اور وطن واپسی کے بعد اُس کے درودیوار، گلیوں، شاہراہوں اوربچپن کی تعلیم گاہوں ،کھیل گاہوں،اُس کے تغیرات اور تبدیلیوں کو دیکھ کر،اپنے اعزہ و اقارب ،رشے دار ، دوست احباب اور مظلوم فلسطینیوں کی جانبازی ، قربانی اور شہادت کی تفصیلات جان کر اُنہوں نے جو کچھ محسوس کیا،ان احساسات و جذبات اور خیالات کا خوب پتہ دیتی ہے۔ یہ واقعی دل خراش ،دردناک اور اور الم ناک داستاں ہے، اسی وجہ سے ’ میں نے رام اللہ دیکھا ‘ کو ہم محض اُن کی خود نوشت نہیں کہہ سکتے ، اس بارے میں کتاب کے مترجم مولانا نایاب حسن قاسمی نے اچھوتے انداز میں لکھا ہے : 

’’ عموماً اس کتاب کو خودنوشت سوانح یا سوانحی ناول کے خانے میں رکھا جاتا ہے ،مگر گہرائی سے جب اس کا مطالعہ کیا جائے، تو اس کی کئی جہتیں اور پرتیں سامنے آتی ہیں ، اس میں ناول جیسا بے مثال کہانی پن بھی ہے ،یہ خود نوشت تو ہے ہی ؛ لیکن یہ سفرنامہ بھی ہے ، رپورتاژ بھی ہے ، اور اس میں جگہ جگہ انشائیے کا رنگ بھی پایا جاتا ہے ‘‘۔(’ میں نے رام اللہ دیکھا ، ص 22)

خود مرید البرغوثی تیس سال جلاوطنی کی زندگی گزارنے اور اپنے وطن فلسطین واپس آنے کے بعد مکان و وطن کے حوالے سے لکھتے ہیں : 

’’ تیس سالہ جلاوطنی کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ مکان یا وطن کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے ، دسیوں فلسطینی خواتین ناجائز اسرائیلی حکومت کے ذریعے لگائے گئے بریکیڈ کی وجہ سے اسرائیلی فوجوں کے قدموں تلے سڑکوں کے کنارے وضع ِحمل کو مجبور ہوئیں ، یہاں ’تخت ‘ (چارپائی ) کے معنی بھی بدل جاتے ہیں ، چاہے وہ گھر کی چارہائی ہو یا ہسپتال کا بیڈ اور یہ چارپائی یا بیڈ بھی مکان اور رہائش گاہ کے ذیل میں آتا ہے ، یہ جو بچہ پیدا ہوا ہے ،اس کی پوری زندگی پیدائش کے وقت سے ہی اسرائیلی تسلط کے نشانے پر ہوگی ، اس کے لیے گود کے معنی بھی مختلف ہیں اور گود بھی ایک مکان ( رہائش گاہ ) ہے ، میں نے یوری لوتمان (روسی ، ادیب ،مفکر و مؤرخ ) سے نہیں سیکھا کہ رکاوٹیں اور مشکلات جگہو ں کو تنگ بنادیتی ہیں ؛ بلکہ ذاتی اور خاندانی تجربے سے مجھے یہ علم حاصل ہوا ہے ‘‘۔(’ میں نے رام اللہ دیکھا ، ص 15)


SHIKAST E AHDAI E HUSAIN

اسی طرح اپنے وطن پر اسرائیلی قبضے کےاثرات و نقصانات کے نقوش کچھ اس طرح کھینچتے ہیں :

’’ بات یہ ہے کہ آپ کے وطن پر کسی غیر کا تسلط آپ کو اپنے طریقے سے زندگی نہیں گزارنے دیتا ، وہ آپ کی پوری زندگی حتی کہ موت میں بھی مداخلت کرتا ہے ، وہ آپ کی بیداری ، آپ کے شوق ،غصہ ،خواہشات اور راہ چلنے میں بھی مداخلت کرتا ہے ،کہیں جانے آنے پر بھی اس کی نظر رہتی ہے ، چاہے آپ پڑوس کے سبزی فروش کے ہاں جارہے ہوں، اسپتال جارہے ہوں ، ساحل ِ سمندر گھومنے جارہے ہوں ، اپنے سونے کے کمرے میں جارہے ہوں یا دور کے کسی شہر جارہے ہوں‘‘۔

ایک جگہ اور اسرائیلی تسلط کے متعلق لکھتے ہیں :

’’اسرائیلی قبضے نے(فلسطینیوں کی) ایسی نسلیں پیدا کردی ہیں، جن کا خارج میں کوئی وطن نہیں،جس کا رنگ بو اور آواز انہیں یاد ہو، اُن کا کوئی وطن ِ اصلی نہیں ہے، جہاں رہنا انھیں یاد ہو نہ اس میں بچھا ہوا وہ بستر، جسے انھوں نے بچپن میں باربار گیلا کیا ہو ، وہ بستر جہاں وہ نرم، رنگین کپڑے اور روئی کی گڑیا بھول گئے ہوں یا جس کے سفید تکیے (گھر کے بڑوں کے غائبانے میں ) ایک دوسرے کی مزے دار لڑائی میں ہتھیار کا کام کرتے رہے ہوں، حقیقت یہی ہے کہ طویل اسرائیلی تسلط نے ہماری ایسی نسلیں تیار کردی ہیں ،جنھیں ایک نامعلوم محبوب سے محبت ہے، ایسا محبوب جو نظروں سے دور، پہنچ دور رہے، جو محافظوں ، دیواروں، جوہری ہتھیاروں اور سراسردہشتوں سے گھرا ہوا ہے ، طویل اسرائیلی تسلط نے ہمیں ’ ابنائے فلسطین ‘ سے’ ابنائے نظریہ ٔ فلسطین ‘ میں تبدیل کردیا ہے‘‘ ۔ 

الحاصل کہ یہ مرید البرغوثی کی ایک شاندار تخلیقی ، عمدہ، لاجواب،فلسطینی دردو کرب کو بیان کرنے والی ،اُس کی حقیقی عکاسی کرنے والی کتاب ہے،اس کتاب کی مقبولیت کی دلیل یہ ہے کہ اِس کے (عربی زبان میں ) چھپنے کے بعد درجنوں زبانوں میں اس کے تراجم کیے گئے ،جو مقبول عام و خاص ہوئے ،البتہ اردو زبان کا دامن اِس کتاب کے ترجمے سے خالی تھا۔ قابل مبارک باد اور لائق ستائش ہیں معروف قلم کار مولانا نایاب حسن قاسمی، جنہوں نے اس کو اردو کا جامہ پہناکر ایک عظیم کام کیا ہے ۔ 

اردو زبان و ادب کے مشہور ناقد جناب حقانی القاسمی نایاب حسن کی اس کاوش کی اہمیت وضرورت اور اُن کے ترجمے کی روانی ،سلاست ،شفگتگی اور شیفتگی کے متعلق رقم طراز ہیں:

’’ اردو میں اس ترجمے کی شدید ضرورت تھی ، کہ قضیہ ٔ فلسطین کا اردو ثقافت اور صحافت سے ایک گہرا جذباتی رشتہ رہا ہے ، نایاب حسن نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ، اسے اردو کا پیرہن عطا کیا ہے، انہوں نے ترجمے کے تلازمات کاپورا خیال رکھا ہے اور کتاب کی روح کو بھی زندہ ر کھا ہے ، جب کہ زیادہ تر ترجموں میں تخلیق کی روح مرجاتی ہے ، ترجمہ کی زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے ، اپنےاندر وہی جادوئی کیفیت بھی رکھتی ہے ،جو عربی میں البرغوثی کا امتیاز ہے ، مجھے امید ہے کہ اردو حلقے میں اس کتاب کی پذیرائی انگریزی اور دیگر زبانوں سے کہیں زیادہ ہوگی ‘‘۔

راقم کا خیال ہے کہ ’قضیہ فلسطین ‘ کے تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے،اس سے جہاں ایک فلسطینی شاعر، ادیب اور مصنف کی زندگی کے نشیب و فراز کا علم ہوگا ،اُن کی زندگی کے سانحات سے سبق لینے کا موقع ملے گا ،وہی قضیہ ٔ فلسطین کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی ، زبان وادب کی چاشنی سے بھی محظوظ ہوں گے ۔

یہ کتاب تقریب و تمہید اور تاثرات کے علاوہ نوابواب پر مشتمل ہے اور ہر انوکھے اور البیلے طرزِبیاں کا عمدہ نمونہ ہے ، کتاب کی عام قیمت 400روپے جبکہ رعایتی قیمت 280 روپے ہے ، مرکزی پبلیشنز نے اِسے شائع کیا ہے۔ آن لائن منگوانے کے لیے ذیل کے نمبرات پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

70602 71934

98117 94822

میں نے فلسطینی شاعر و ادیب مرید البرغوثی ( پیدائش ۸ ،جولائی ۱۹۴۴ء دیر غسانہ – انتقال ۱۴ ، فروری ۲۰۲۱ء عمان ) کی کتاب ’ رأيت رام الله ‘ کا اردو ترجمہ بعنوان ’ میں نے رام اللہ دیکھا ‘ اُس روز پڑھنا شروع کیا تھا ، جب فلسطین کی تحریکِ آزادی کی ایک سرگرم تنظیم حماس نے اسرائیل پر میزائیلوں کی برسات شروع کی تھی اور اس کا مطالعہ اُس روز مکمل کیا ، جب اسرائیل نے غزہ کے ایک اسپتال ’ الاہلی ‘ پر بزدلانہ اور شرم ناک حملہ کرکے ۵ سو سے زائد فلسطینیوں کو ، جن میں مریضوں ، عورتوں ، نوجوانوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی ، شہید کر دیا تھا ۔ یہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا نہ پہلا قتلِ عام تھا ، اور نہ آخری قتلِ عام ہوگا ۔ اسرائیل نے ۱۹۴۸ ء سے قتلِ عام کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، جو قتل ہوئے اور جو قتل ہو رہے ہیں ، اُن میں وہ ’ زندے‘ بھی شامل ہیں / تھے ، جنہیں ان کے مولد سے ، جہاں وہ پیدا ہوئے وہاں کی زمین سے ، زمین کی بھینی بھینی خوشبو سے ، اور اُن سب سے جن کے درمیان وہ کھیلے کودے ، شرارتیں کیں ، اور جہاں انہوں نے ہوش سنبھالا ، انہیں شعور آیا ، انہوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور جس کی تہذیب کی گود میں وہ پروان چڑھے ، فلسطینی تہذیب جو سب سے الگ ، سب سے جدا تھی ، سب سے علحیدہ کر دیا گیا ، گویا یہ جیتے جی انھیں اور اُن کے اپنوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا ، یہ بھی ایک طرح کا قتلِ عام ہے / تھا اور مرید البرغوثی انھی زندوں میں سے ایک تھے ۔ مرید البرغوثی ۱۹۶۶ ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے قاہرہ ، مصر گیے تھے اور جب ۱۹۶۷ ء میں چھ روزہ جنگ کے بعد وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے فلسطین لَوٹے تو انہیں ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ۔ بہت سے دوسرے جلا وطن فلسطینیوں کی طرح وہ بھی بیرون ملک رہنے لگے ۔ وطن واپسی میں انہیں تیس سال لگے ! مسلسل جدوجہد کے بعد ہی ، انہیں اپنے آبائی شہر رام اللہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ، اُس شہر میں جو اُن کا اپنا تھا ، جہاں وہ پیدا ہوئے ، اور بڑے ہوئے تھے ! ’ واپسی ‘ کا بارہ روزہ سفر مرید البرغوثی کے لیے کیا معنی رکھتا تھا ، یہ کتاب اُس معنی کو سامنے لاتی ہے ۔ یہ اسرائیل اور فلسطین کے قضیے اور وہاں کی سیاست پر تو بات کرتی ہی ہے ، لیکن اُن جذبات ، احساسات اور اُن کیفیات کو بھی سامنے لاتی ہے ، جو کسی بھی ایسے شخص کے ہو سکتے ہیں جسے برسہا برس تک جبراً اُس کے وطن سے کھدیڑ دیا گیا ہو اور ایک دِن اُسے واپس اپنے وطن جانے کی ، اُسے دیکھنے کی اجازت ملی ہو ۔ لیکن یہ کتاب صرف تیس سالہ جبری مہاجرت کی داستان ہی نہیں ہے ، یہ فلسطین کو ’ یہودیانے ‘ کی بھی داستان ہے اور فلسطینی شہروں ، دیہاتوں اور فلسطینی گھروں کو ’ غیر فلسطینی ‘ بنانے کی کہانی بھی ہے ۔
جب یہ کتاب ۱۹۹۷ء میں پہلی بار عربی زبان میں شائع ہوئی تھی ، تب اس نے عالمِ عرب میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا ، جس کا ذکر اِس کتاب کے مترجم اور کئی کتابوں کے مصنف نایاب حسن نے ’ تقریب ‘ کے عنوان سے کتاب کے تعارف میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ اس کا پہلا ایڈیشن دارالہلال ، قاہرہ سے شائع ہوا اور منظرِ عام پر آتے ہی اس کی پوری دنیا میں دھومیں مچ گئیں ، نہ صرف اسے اس سال کا نجیب محفوظ ایوارڈ برائے تخلیقی ادب ملا ؛ بلکہ سال دو سال کے اندر مصر ، بیروت اور فلسطین وغیرہ سے پے در پے اس کے کئی ایڈیشنز شائع ہوئے ، اور اب تک درجنوں بار یہ کتاب شائع ہو چکی ہے ۔‘‘ اس کتاب کے انگریزی ، فرنچ ، سپینیش ، ہالینڈی ، نارویجین ، ڈچ ، ڈینیش ، پرتگالی ، انڈونیشیائی ، اطالوی ، ترکی اور چینی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں ، ایک ترجمہ ملیالم زبان میں بھی ہوا ہے ۔ نایاب حسن لکھتے ہیں ،’’ میں نے ۲۰۲۰ء کے وبائی دنوں میں اس کا مطالعہ کیا تھا اور اسی دوران یہ خیال آیا کہ اتنی شاندار کتاب ، جو اب تک دنیا بھر کی درجنوں زبانوں میں منتقل ہو چکی ہے ، کا اردو ترجمہ بھی ہونا چاہیے ؛ چنانچہ ۲۰۲۰ ء کے آواخر میں ہی ترجمہ شروع کر دیا تھا ،‘‘ جو ۲۰۲۳ ء میں مکمل ہوا ، اور اب کتابی صورت میں سامنے ہے ۔ کتاب کا مقدمہ ، جو ’ تقدیم ‘ کے عنوان سے اس ترجمے میں شامل ہے ، معروف فلسطینی ادیب و دانشور ایڈورڈ سعید کا لکھا ہوا ہے ۔ ایڈورڈ سعید کو ’ فلسطین واپسی ‘ میں ۴۵ سال لگے تھے ، اس لیے وہ مرید البرغوثی کے جذبات کو خوب سمجھتے تھے ، اسی لیے انھوں نے لکھا ’’ ایسے موقعے پر ایک فلسطینی کی جو جذباتی کیفیت ہو سکتی ہے ، اس سے میں اچھی طرح واقف ہوں ؛ کیوں کہ میں خود بھی اس تجربے سے گزر چکا ہوں ۔ ایسے موقعے پر خوشی ، افسوس ، غم ، وحشت ، غصہ اور ایسے ہی دوسرے احساسات سے دوچار ہونا فطری ہے ، جن سے میں بھی گزرا ، جن سے مرید البرغوثی بھی گزرے ہیں ۔‘‘ ایڈورڈ سعید کی اس کتاب کے تعارف میں لکھی ہوئی تین سطریں بڑی اہم ہیں ’’ اس کتاب کا بنیادی امتیاز یہ ہے کہ یہ گھر واپسی اور تجدیدِ ملاقات کے باوجود احساسِ محرومی کا اظہاریہ ہے اور برغوثی اس محرومی کے اسباب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور یہی چیز ان کی شاعری کو گہری معنویت و مواد اور ان کی نثر کو پختگی و توانائی عطا کرتی ہے ۔‘‘
کتاب میں البرغوثی کی ’ تمہید ‘ بھی شامل ہے ، جو اس کتاب کے لیے نہیں لکھی گئی تھی ، بلکہ یہ ان کے آخری دنوں کی ایک تحریر ہے ، ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۰ء کی ، یہ ایک ویب سائٹ کے لیے خصوصی کالم کے طور پر لکھی گئی تھی اور چونکہ اس کالم کی ساخت بقول مترجم ’ میں نے رام اللہ دیکھا ‘ سے مربوط اور متعلق ہے ، اس لیے اسے ’ تمہید ‘ کے طور پر شامل کر لیا گیا ہے ۔ ’ تمہید ‘ میں جلاوطنی پر بات کی گئی ہے ، البرغوثی لکھتے ہیں ’’ نثر میں مَیں تصورِ مکان و وطن کے تئیں حسرت و اشتیاق اور بے وطنی سے زیادہ واضح زبان میں مربوط ہو سکا ، مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ اس کا براہِ راست اثر نہ ہو ۔ جب میں نے یہ کتاب لکھی ، تو مَیں اُن تیس سالوں کے بارے میں لکھ رہا تھا ، جن کے دوران میری آرزوئیں شکست و ریخت سے دوچار ہوئیں اور مَیں اپنے وطن لوٹنے سے محروم رہا ۔ مَیں نے اس کتاب کا نام ’ رأيت رام الله ‘ ( مَیں نے رام اللہ دیکھا ) رکھا ، عائد اِلی رام اللہ ( رام اللہ واپسی ) نہیں رکھا ؛ کیونکہ مسلسل ہجرتوں کے اندیشے کی وجہ سے میرے اندر کسی جگہ جم کر رہنے اور اس سے مستقل وابستہ ہونے کی جرأت نہیں رہی ۔‘‘
کتاب نو ابواب میں منقسم ہے ۔ پہلا باب ’ پُل ‘ کے عنوان سے ہے ، دریائے اردن پر بنا ہوا وہ پُل جو جلا وطنی اور وطن واپسی دونوں ہی صورتوں میں فلسطینیوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔ اِس پُل کا مرید البرغوثی کی زندگی میں ایک خاص کردار ہے ۔ تیس سال پہلے مرید البرغوثی اِسی پُل سے قاہرہ گیے تھے ، تعلیم حاصل کرنے اور تیس سال بعد جب ’ واپسی ‘ ہوئی تو اِ سی پُل سے ہوئی ! وہ لکھتے ہیں ’’ پُل پر گرمی شدید ہے ، میری پیشانی سے ٹپکنے والے پسینے کے قطرے چشمے کے فریم تک پہنچ رہے ہیں ۔ میری نگاہوں کے سامنے دھند سی چھاتی جا رہی ہے ، جو میرے سامنے کے مناظر ، میری امیدوں اور میری یادوں کو دھندلائے دے رہی ہے ۔ میرے اندر ایک عمر سے محوِ سفر انسان متحرک ہے ، جس کا اکثر حصہ یہاں تک پہنچنے کی کوشش میں گزرا … اب میں دریائے اردن عبور کر رہا ہوں ، اپنے قدموں کے نیچے لکڑی کی کھٹکھٹاہٹ سن رہا ہوں ، میرے بائیں کندھے پر ایک چھوٹا سا بیگ ہے ، میں معمول کے قدموں سے مغرب کی سمت رواں دواں ہوں ، میرے پیچھے ایک دنیا ہے اور میرے سامنے میری دنیا ہے ۔‘‘ یہ سامنے کی دنیا مصنف کا وطن ہے؛ لیکن چھ روزہ جنگ کے سبب مصنف کے بقول ’’ پیر کی دوپہر ، ۵ جون ۱۹۶۷ء کو میں بے وطن ہو گیا تھا ۔‘‘ اس باب میں پُل پر سے ’ جانے ‘ اور ’ آنے ‘ کی یادوں کے ساتھ ، بیتے دنوں کی اور اپنوں کی ، جن میں بڑا بھائی منیف سرِ فہرست ہے ، یادیں ہیں ، اور مشاہدات و تاثرات بھی، ’’ دریائے اردن ہمیشہ سے کم چوڑا تھا ، بچپن سے ہی ہمیں اس کے بارے میں معلوم تھا ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنے سالوں بعد یہ دریا تو موجود تھا ، مگر اس میں پانی تقریباً نہیں تھا ، قدرت کی ستم ظریفی اور اسرائیل نے مل کر اسے خشک کر دیا تھا ، پہلے اس کی موجوں کے اچھلنے کی آوازیں آتی تھیں ، اب یہ خاموش ہے ، ایسے جیسے سنسان سڑک پر کوئی گاڑی کھڑی ہو ۔‘‘ مشاہدات و تاثرات سے یہ کتاب بھری ہوئی ہے ، ’’ اور اب مَیں اپنی جلا وطنی سے ان کے وطن …. اپنے وطن ؟ مغربی کنارے اور غزہ ؟ مقبوضہ سرزمین ؟ خطہ ؟ یہودا اور سامرہ ؟ خود مختار حکومت ؟ اسرائیل ؟ فلسطین ؟ کی طرف بڑھ رہا ہوں ۔ کیا دنیا میں کوئی اور بھی ملک ہے ، جس کا نام آپ کو اتنا پریشان کر دے ؟ پچھلی بار میرا دل و دماغ صاف تھا اور چیزیں واضح تھیں ، اب مَیں بھی مذبذب اور مبہم ہوں اور ساری چیزیں بھی پردۂ ابہام و اغماض میں ہیں ۔ مگر یہودی ٹوپی والا یہ فوجی کسی ابہام کا شکار نہیں ہے ، کم از کم اس کی بندوق تو بہت چمک دار ہے ، اس کی بندوق میری ذاتی تاریخ ہے ، یہ میری جلا وطنی کی تاریخ ہے ، اس کی بندوق نے ہی ہم سے ہماری سرزمینِ شعر و ادب چھین لی اور ہمارے حصے میں بس اس سرزمین پر شاعری کرنا رہ گیا ، اس کی مٹھی میں مٹی ہے اور میرے ہاتھ میں سراب ہے ۔‘‘
’ یہ رام اللہ ہے ‘ کتاب کا دوسرا باب ہے ۔ مرید البرغوثی نے اس شہر کا جو نقشہ کھینچا ہے ، وہ دل نکال لیتا ہے ! ’ دیر غسانہ ‘ کتاب کا تیسرا باب ہے ، یہ وہ گاؤں ہے جہاں مرید البرغوثی پیدا ہوئے تھے ، کھیلے کودے اور پڑھائی کی تھی ، کتنی یادیں ہیں جو مصنف کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں ، اور ذہن میں دوڑتی ہیں ! ’ چوک ‘ ، ’ وقت کے حصار میں ‘ ، ’ عمو بابا ‘ ،’ نقلِ مکانی ‘ ، ’ تجدیدِ ملاقات ‘ اور ’ قیامت خیز شب و روز ‘ یہ اس کتاب کے بعد کے ابواب ہیں ، جن میں مرید البرغوثی اپنی یادیں یوں بکھیرتے ہیں کہ قاری تحریر کے سحر میں کھو جاتا ہے ، کہیں ہنستا ہے تو کہیں سسکتا ہے ۔ ملاحظہ کریں ، ’’ سب کچھ ختم ہو گیا ہے ، حقائق یکسر تبدیل ہو گئے ہیں ۔ طویل ( اسرائیلی ) تسلط کے دورانیے میں کئی نسلیں پیدا ہو چکیں ، جو اسرائیل کو اپنا ’ وطن ‘ جانتی ہیں ، جب کہ اسی عرصے میں کئی ایسی فلسطینی نسلیں جنمی ہیں ، جو خود فلسطین کے لیے ’ اجنبی ‘ ہیں ، جلا وطنی میں پیدا ہوئیں اور اپنے وطن کے بارے کہانیوں اور خبروں کے علاوہ کچھ نہیں جانتیں ، وہ نسلیں جو دور دراز کے ملکوں کی گلیوں ، شہروں اور قصبوں کا گہرا علم رکھتی ہیں ، لیکن خود اپنے ملک کا نہیں ، وہ نسلیں جنہوں نے اپنے ہی ملک میں کبھی پودے لگائے ، نہ تعمیر کی اور نہ ہی چھوٹی چھوٹی انسانی غلطیاں کیں ، جن نسلوں نے کبھی ہماری دادیوں اور نانیوں کو زیتون کے تیل سے کھانے کے لیے تندوروں کے سامنے بیٹھ کر روٹی پکاتے نہیں دیکھا ۔‘‘
اس کتاب میں بین گورین ، اسحاق رابین ، نتن یاہو اور شمعون پیریز کا ذکر ہے ، یاسرعرفات ، پی ایل او کا اور الفتح کا ذکر ہے اور حماس کا بھی ، کیمپ ڈیوڈ ، لبنان ، حزب اللہ ، معاہدۂ اوسلو اور فلسطین و لبنان میں کیے گیے قتلِ عام کا ذکر ہے ۔ فلسطینی تنظیموں کے کرتوتوں اور فلسطینیوں کے ذریعے فلسطینیوں کی ہی زمینیں ہڑپنے کا بھی ذکر ہے ، اور یہودی آبادکاروں کی بستیوں کا بھی ، وہ لکھتے ہیں ’’ ہم نے انہیں یہ ساری بستیاں کیسے بنانے دیں ، یہ قلعے ، یہ بیرکیں ، سال بہ سال کیسے بنتے گیے ؟ ‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ، ’’ اسرائیلی تسلط نے فلسطینی گاؤں کو اپنے حال پر رکھا اور ہمارے شہروں کو گاؤوں میں تبدیل کر دیا ۔ ہمارا ماتم گاؤں کی چکیوں کی تباہی کا ماتم نہیں ہے ؛ بلکہ شہر کے کتب خانوں اور لائبریریوں کے اجڑنے کا ماتم ہے ۔ ہم اپنے ماضی کو نہیں ؛ بلکہ اپنے مستقبل کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آنے والے کل کو پرسوں کی طرف ڈھکیلنا چاہتے ہیں ۔ مستقبل کے قدرتی راستوں پر فلسطین کی پیش قدمی کو جان بوجھ کر روکا گیا ، گویا اسرائیل پورے فلسطین کو اسرائیلی شہر کا ایک دیہی حصہ بنانا چاہتا ہے ، اس سے بھی بڑھ کر وہ ہر عربی شہر کو عبرانی ریاست کے دیہی علاقے میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔‘‘ اس کتاب میں المیہ کے ساتھ طربیہ بھی ہے ، کیونکہ مرید البرغوثی کا یہ ماننا تھا کہ المیہ اور طربیہ ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ! جیسا کہ ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے ، یہ کتاب مرید البرغوثی کے ’ احساسِ محرومی کا اظہاریہ ‘ ہے ، لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ مَیں اس سرزمین پر دو مساوی حقوق کو تسلیم نہیں کرتا ؛ کیونکہ مَیں اس زمین پر اسرائیلی الوہی نظام کو قبول نہیں کرتا ۔ مجھے کبھی بھی اس نظریاتی بحث میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی کہ فلسطین پر کس کا حق ہے ؟ کیونکہ ہم نے فلسطین کو کسی معقول مباحثے کے نتیجے میں نہیں کھویا ، اسے ہم سے زبردستی چھینا گیا ہے ۔ جب ہم فلسطینی اپنے ملک میں تھے ، تو ہم یہودیوں سے نہ نفرت کرتے تھے ، نہ انہیں ناپسند کرتے تھے ، نہ ان سے ہمیں کوئی دشمنی تھی ۔ ان سے نفرت تو قرون وسطیٰ کا یورپ کرتا تھا ، ہم نے ان سے نفرت نہیں کی ، انہیں فرڈی ننڈ اور ازابیلا نے ناپسند کیا ، ہم نے نہیں ، ہٹلر نے ان سے نفرت کی ، ہم نے نہیں ، مگر پہلے تو انہوں نے ہمارے ملک میں پناہ لی اور پھر سارے ملک پر قابض ہو گئے اور ہمیں وہاں سے نکال دیا ، تو انہوں نے خود ہمیں اور اپنے آپ کو مساوات کے قانون سے باہر کر لیا ۔ اب وہ ہمارے دشمن بن گیے اور طاقت ور ہو گیے ، جبکہ ہم بے گھر اور کم زور ہو گئے ۔‘‘ بے گھری اور کم زوری کے باوجود انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے بیٹے تمیم کے ساتھ ، جس نے فلسطین نہیں دیکھا ہے ، لوٹیں گے ، ’’ میں اس کے ساتھ یہاں ( رام اللہ ) پھر آؤں گا ، وہ اس شہر کو دیکھے گا ، اس میں مجھے دیکھے گا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے سے وہ سوالات کریں گے ، جو عرصے سے ہمارے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں ۔‘‘
یہ ایک لاجواب کتاب ہے ، اسے یادیں بھی کہہ سکتے ہیں ، خودنوشت بھی ، سفرنامہ بھی ، انشائیہ بھی ، شاعری بھی اور ناول بھی ؛ لیکن چاہے جو نام دیں اس کو، یہ سب حقیقت ہے ۔ نایاب حسن کا ترجمہ لاجواب ہے ، ان کا شکریہ کہ یہ کتاب ہم اردو والوں تک پہنچائی ۔ اسے ’ مرکزی پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ نے شائع کیا ہے ۔ کتاب 256 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 400 روپیہ ہے ۔ اسے موبائل 9560188574 / 7011079777 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔


شکستِ آرزو کا مؤثر بیانیہ: میں نے رام اللہ دیکھا

حقانی القاسمی

تہذیبی و تاریخی تشخص کی گمشدگی اور وطنی شناخت سے محرومی ایک عظیم المیہ ہے۔ فلسطینی قوم بھی مدتوں سے اسی المیے کی شکار ہے کہ ان کی آنکھوں سے نہ صرف اُن کے خواب اور نیند چھین لیے گئے بلکہ ان کے تہذیبی اور ثقافتی استعاروں کو بھی مسخ اور مسمار کر دیا گیا اور نصیب میں دربدری، جلاوطنی، پناہ گزینی لکھ دی گئی۔ نقشہ سے اُس وطن کو غائب کر دیا گیا جس سے فلسطینیوں کی گہری، جذباتی وابستگی تھی اور اسرائیل کی شکل میں اس کی ایک نئی شناخت قائم کر دی گئی۔ یہ استعماری جارحیت اور بربریت کی ایک بدترین مثال تھی جس کی وجہ سے پوری فلسطینی قوم ایک وجودی بحران، جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی بے جڑی کے احساس سے دوچار ہوئی۔ فلسطینی جن قیامتوں سے گزرے ہیں اس کا احساس تو پوری دنیا کو ہے، مگر اُن کے داخلی وجود پر اسرائیلی تسلط کے جو منفی اثرات مرتب ہوئے، اس کا ادراک دوسرے لوگوں کو ذرا کم ہے۔ اسی لیے فلسطین کی حقیقی، داخلی صورت حال سے آگہی کا سب سے بہتر ذریعہ فلسطین کی شاعری اور فکشن ہے۔ فلسطینیوں کے وجود میں جو آتش فشاں ہے اسے محمود درویش، ابراہیم طوقان، توفیق زیاد، فدویٰ طوقان، سمیح القاسم، غسان کنفانی، امیل حبیبی، سحر خلیفہ، سلمیٰ خضرا الجیوسی وغیرہ کو پڑھے بغیر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی جڑوں سے بچھڑنے کا دکھ ان کے شعر و ادب میں نمایاں ہے۔ ان کے لیے وطن مٹی کا ایک ٹکڑا نہیں اور نہ ہی ایک جغرافیائی نقشہ ہے؛ بلکہ ان کی دھڑکنوں اور سانسوں کا حصہ ہے۔ ان کے ثقافتی تشخص اور تہذیبی شناخت کا ایک استعارہ ہے۔ مزاحمتی شاعر فیض احمد فیض نے فلسطینیوں کی بے گھری کے کرب کو یوں زبان دی ہے:
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہلاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
اردو کے شاعروں اور ادیبوں نے بھی فلسطینیوں کے المیے کو اپنے حساس وجود کے اندر محسوس کیا۔ المیۂ فلسطین پر اردو میں لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں علامہ اقبال، ادا جعفری، رفعت سروش، قیصر الجعفری، کوثر صدیقی، نعیم صدیقی، عائشہ مسرور وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔علامہ اقبال نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟
فیض احمد فیض نے یہ بھی کہا تھا:
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے!
اسی احساس کے ساتھ فلسطینی زندہ ہیں اور اپنے ذہن میں مقتولوں کے وطن کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ صہیونی مستعمریت کے خلاف آخری دم تک لڑنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ جس کی ایک مثال انتفاضہ تحریک ہے۔ فلسطینیوں نے اپنے وطن کو زندہ کرنے کے لیے موت کو گلے لگا لیا، مگر اپنے خوابوں کے پرچم کو نگوں نہیں ہونے دیا۔
مرید البرغوثی (8؍جولائی 1944 ۔14فروری 2021) بھی اسی فلسطین کے فرزند ہیں، جن کی شناخت ایک اہم شاعر اور ادیب کے طور پر ہے۔ انھوں نے قاہرہ یونی ورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کیا ہے۔ اُن کی شعری تخلیقات میں ’الطوفان و اِعادۃ التکوین (1972)، فلسطینی فی الشمس (1974)، نشید للفقر المسلح (1977)، الارض تنشر اسرارھا (1978)، قصائد الرصیف (1980)، طال الشتات (1987)، رنۃ الابرۃ (1993)، منطق الکائنات (1996)، لیلۃ مجنونۃ (1996)، الناس فی لیلھم (1999)، زھر الزمان (2000)، منتصف اللیل (2005)، استیقظ کی تحلم (2018) قابل ذکر ہیں اور نثری تخلیقات میں ’رأیت رام اللہ‘ (1997)، ولدت ھناک ولدت ھنا (2009) کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ان کا وطن ’دیر غسانہ‘ بھی اسی سرزمین کا حصہ ہے، جس کی شناخت پہلے فلسطین کی شکل میں تھی، مگر 1967 میں، جب کہ برغوثی مصر میں زیر تعلیم تھے، اس کی شناخت مکمل طور پر بدل دی گئی۔ اسرائیل سے چار سال بڑے البرغوثی کی آنکھوں کا جس شہر سے رشتہ تھا وہ زمیں دوز کر دیا گیا:

’’وہیں ’’صوت العرب‘‘ کی نشریات سے احمد سعید نے مجھے خبر دی کہ رام اللہ اب میرا نہیں رہا، میں وہاں کبھی نہیں لوٹ سکتا، پوراشہر زمیں دوز ہوچکا ہے۔‘‘
دیرغسانہ اُن کی آنکھوں سے اوجھل رہا، مگر ان کے ذہن میں آباد رہا:
’’دیرِ غسانہ میں’ ’دارِ رعد‘‘ ہمارے گھر کا نام ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ نام کہاں سے آیا، ممکن ہے کہ رعد ہمارے آبا و اجداد میں سے کسی کا نام رہا ہو؛ کیوں کہ گاؤں کے باقی سارے گھروں کے نام بھی لوگوں کے نام پر ہی تھے؛ چنانچہ وہاں آپ کو دار صالح، دار العطرش، دار عبدالعزیز، دار السید وغیرہ مکانوں کے نام ملتے ہیں۔ دار رعد بھی ایسا ہی ایک نام تھا، ہمیں یہ بھی یقین سے نہیں معلوم کہ ہمارا خاندان، جسے فلسطین کے دیہی علاقوں کا سب سے بڑا خاندان سمجھا جاتا ہے، ’’البرغوثی‘‘ کے لقب سے کیسے مشہور ہوا۔‘‘

برسوں مہاجرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے رام اللہ بھی اُن کی آنکھوں میں بسا رہا:
’’رام اللہ بھی عجیب شہر ہے۔ مختلف ثقافتوں کا مجموعہ، مختلف الاشکال، کبھی بھی یہ کھردرا، یک رُخایا بد ہیئت شہر نہیں رہا، ہمیشہ نئے تجربات کو اپنانے میں پیش پیش رہا، رام اللہ میں، میں نے دبکہ (عربی رقص) دیکھا گویا میں دیر غسانہ میں ہوں، یہیں اپنی نوعمری کے سالوں میں، میں نے ٹینگو سیکھا، الانقر بلیئرڈ ہال میں میں نے سنوکر کھیلنا سیکھا، رام اللہ میں میں نے شاعری میں اپنا ہاتھ آزمانا شروع کیا اور’’ ولید‘‘ ،’’ دنیا‘‘ اور ’’جمیل‘‘ جیسے فلمی شوز دیکھ کر میرا فلموں کا شوق بڑھا، رام اللہ میں، میں کرسمس اور نیا سال بھی منایا کرتا تھا۔‘‘

البرغوثی اجنبی زمین پر دربدری، جلاوطنی اور پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اسی ثقافتی اجنبیت اور بے وطنی کے احساس نے اُن کے جذبات، احساسات کی دنیا بدل کر رکھ دی ۔ وطن سے دوری نے اُن کے ذہن میں محزونی اور محرومی کے احساس کو شدید سے شدید تر کر دیا۔ اُن کی یہ جلاوطنی تلاشِ معاش یا بہتر مستقبل کے لیے نہیں تھی؛ بلکہ یہ دوسری نوعیت کی ہجرت اور جلاوطنی تھی، جس کے بارے میں انھوں نے یہ لکھا:
’’جلاوطنی اور بے گھری میرے نزدیک دراصل شکستِ آرزو کا نام ہے۔ ایک شخص اگر اپنی معیشت بہتر کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک جاتا ہے تو اسے بے گھر یا جلا وطن نہیں کہیں گے، اس نے تو اپنے اختیار اور اپنی پسند سے نقل مکانی کی ہے اور اس کے دل میں اپنے وطن کے تئیں غیر معمولی محبت و وارفتگی پائی جاتی ہے، وہ جب چاہے اپنے وطن لوٹ سکتا ہے۔ مگر جو شخص زبردستی اپنے وطن سے نکالا گیا ہو یا قوانین، افواج، سپاہ، پولیس اسے اپنے اولین وطن میں داخلے سے روکتے ہوں، تو وہ شخص جلاوطن اور بے گھر ہے، اس کے دل میں اپنے وطن کے تئیں وہ جذبۂ محبت نہیں ہوگا؛ بلکہ اس کے دل میں نفرت و غضب کے جذبات ابھر رہے ہوں گے۔‘‘
مدتوں بعد جب اوسلو معاہدہ کی وجہ سے گھر واپسی کی صورت نکلی تو انھوں نے یہ دیکھا کہ سارے تہذیبی نشانات اور ان کی یادوں کے مقامات مٹ چکے ہیں۔ الحرش الصغیر اب حلمش نامی اسرائیلی بستی میں بدل گیا ہے۔ اُنھوں نے ماضی کے مقامات کو نہیں بلکہ مقامات کے ماضی کو شدت سے یاد کیا، انھیں مٹتے ہوئے نشانات کا بڑا دکھ ہوا جس کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:

’’اب ہمارے خطوط ہمارے پتوں پر نہیں آتے، انھوں نے ہم سے ہمارے گھروں کے پتے اور راہوں کی خاک تک چھین لی، انھوں نے ہمارے شہر کے ہجوم، اس کے دروازوں اور اس کی گلیوں پر بھی قبضہ کرلیا، انھوں نے اس خفیہ کوٹھے کو بھی اپنے تصرف میں لے لیا، جس کے دروازوں پر کھڑے ہندستانی اَصنام جیسے خوب صورت اجسام ہمارے نوخیز جذبات کو برانگیختہ کیا کرتے تھے، انھوں نے المطلع ہسپتال اور جبل الطور کو بھی ہتھیا لیا، جہاں میرے ماموں عطا رہا کرتے تھے، محلہ شیخ جراح بھی اب ان کے قبضے میں ہے، جہاں کبھی ہم رہا کرتے تھے، انھوں نے منگل کے آخری سبق میں اپنی میزوں پر بیٹھے طلبہ کی جمائیوں اور سستیوں پر بھی قبضہ کرلیا، حجن حفیظہ اور ان کی بیٹی حجن راشدہ سے ملنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں پڑنے والے میری نانی کے نقوشِ قدم پر بھی ہمارا حق نہ رہا، پرانے شہر میں واقع ان خواتین کے چھوٹے سے گھر اور اس چٹائی کو بھی لے گئے، جس پر وہ نمازیں پڑھتیں اور وقت گزاری کیا کرتی تھیں، وہ اس دکان پر بھی قابض ہو گئے، جہاں سے میں خاص طور پر عمدہ چمڑے کا جوتا خریدنے کے لیے رام اللہ سے وہاں تک کا سفر کیا کرتا تھا اور واپسی میں گھر والوں کے لیے ’’زلاطیمو‘‘ سے کیک اور ’’جعفر‘‘ سے کنافہ لیتا اور پانچ قرش ادا کرکے بامیہ کی بس سے سولہ کلو میٹر کی مسافت طے کرکے خوشی خوشی رام اللہ اپنے گھر لوٹا کرتا تھا۔‘‘
اس کے علاوہ جن جن مقامات سے اُن کی یادیں وابستہ تھیں، انھیں وہ شدت سے تلاش کرتے رہے، مگر وہ مقامات بھی اپنی حقیقی شکل و صورت کھو چکے تھے اور اُن کی ہیئتیں بدل چکی تھیں۔ دراصل جب تہذیبی اور ثقافتی علامتیں منہدم یا معدوم ہونے لگتی ہیں تو اس کا دکھ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ القدس بھی ایک ایسا ہی شہر تھا جس کی ایک مذہبی اور تقدیسی اہمیت و معنویت ہے، مگر اس شہر کی شکل و صورت بھی بدل دی گئی۔ البرغوثی نے اس لاہوتی اور اسطوری شہر کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’دنیا القدس کو طاقت اور اقتدار کی علامت کے طور پر جانتی ہے، خصوصاً قبۃ الصخرہ کو دیکھ کر آنکھیں مبہوت و مسخر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ القدس دراصل مختلف مذاہب کا شہر ہے، سیاست کا شہر ہے، تنازعات اور کشمکشوں کا شہر ہے، یہ اپنے آپ میں ایک دنیا ہے؛ لیکن باہر کی دنیا کو ہمارے شہر قدس، یہاں کے لوگوں کے شہرقدس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ القدس میں دوسرے شہروں کی طرح ہی مکانات ہیں، گلیاں ہیں، عوامی بازار ہیں، جہاں مسالے اور سرکے بھی ملتے ہیں، یہاں عربک کالج ہے، رشیدیہ اور عمریہ اسکول ہیں، یہاں قلی اور ٹورسٹ گائڈ بھی ہیں، جو دنیا کی ہر زبان اس حد تک جانتے ہیں کہ اس کی بہ دولت وہ دن میں تین وقت کے کھانوں کا معقول انتظام کرسکتے ہیں، یہاں تیل کی منڈی اور نوادرات، موتی اور تل کے کیک بیچنے والے بھی ہیں، اس شہر میں لائبریری، ڈاکٹر، وکیل، انجینئر اور دلہنوں کے مہنگے جوڑے بھی ملتے ہیں، یہاں بسوں کے ٹرمینلز بھی ہیں، جہاں بس پر سوار ہو کر ہر صبح گاؤں دیہات کے کسان خرید و فروخت کے لیے آتے ہیں، اس شہر میں پنیر، تیل، زیتون، انجیر کی ٹوکریاں، ہار، چمڑے کی مصنوعات اور صلاح الدین اسٹریٹ بھی ہے، جہاں ہمارے پڑوس میں ایک راہبہ رہتی تھی اور اس کا پڑوسی ایک مؤذن تھا، جو ہمیشہ جلدی میں رہتا تھا۔ پام سنڈے (عیسائی تہوار) کو تمام گلیوں میں کھجور کی ٹہنیوں کے جھنڈ نظر آتے، یہاں گھریلو پودے لگانے کا بھی رواج ہے، یہاں کی گلیاں پختہ، تنگ اور ڈھکی ہوتی ہیں، یہاں دھلے ہوئے کپڑے الگنیوں پر سکھائے جاتے ہیں، یہ ہمارے حواس، ہمارے جسم اور ہمارے بچپن کا شہر ہے، وہ القدس، جس میں ہم اس کی ’’قداست‘‘ کے احساس کے بغیر چلتے ہیں؛ کیونکہ ہم اس شہر کے باسی ہیں؛ کیونکہ یہ شہر ہم سے ہے، جس کی سڑکوں پر ہم چپل یا بھورے یا کالے جوتے پہنے ہوئے تیز تیز چلتے ہیں، دکان داروں سے بھاؤ تاؤ کرتے اور عید کے لیے نئے کپڑے خریدتے ہیں، جہاں ہم رمضان کی خریداری کرتے اور روزہ رکھتے ہیں اور اس کمینی لذت کو محسوس کرتے ہیں، جب ہمارے نوعمر جسم ایسٹر کے دن یورپی سیاح لڑکیوں کے جسموں سے ٹکراتے ہیں، کنیسۂ قیامت کی تاریکی میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی سفید موم بتیاں اٹھاتے ہیں، جنھیں وہ روشن کرتی ہیں۔‘‘
ایسے بہت سے اور بھی شہر اور قریات، چہرے، موسم، پرندے، گھر ،آنگن، دیوار و در ہیں جنھیں یاد کرتے ہوئے البرغوثی کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں اور جذبات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ مرید البرغوثی نے اپنے اُن محسوسات، جذبات اور کیفیات کو ’رأیت رام اللہ‘ کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہ تمام صنفی تشخصات کو توڑتی ہوئی ایک ایسی تخلیق ہے جو فکشن، خودنوشت، سفرنامہ، رپورتاژ کا خوب صورت مونتاژ ہے۔ یہ مختلف صنفی اسالیب کا حسین امتزاج ہے۔ یہ صرف ان کی آٹو بایوگرافی نہیں؛ بلکہ Autoethnography ہے۔ ایک ’نژاد نامہ‘ جس میں اُن کی نسل کے تمام احوال و کوائف اور زندگی کے نشیب و فراز اور مد و جزر محفوظ ہیں۔ یہ اُن کی یادوں کا ایک البم ہے، جس میں اُن کے اجڑے ہوئے محلے، ویران گلیاں آباد ہیں۔ یہ بے گھر ہوتی زندگی کی ایک المیہ داستان ہے؛ اس لیے اس میں ناسٹلجیائی عناصر کی کثرت ہے۔ اس میں ماضی کی یاد بھی ہے، تشخص کے بحران کا ذکر بھی ہے، مقامی ثقافت سے محبت کے ساتھ ساتھ ثقافتی تصادم کا بھی بیان ہے۔ انھوں نے اپنی جلاوطنی کے تجربات، وطن، تہذیب، روایت، زبان، کلچر اور لینڈ اسکیپ سے دوری کی کیفیات کو سیاست، سماج اور ثقافت کے سیاق و سباق میں پیش کیا ہے اور اجنبی زمین پر ہجرت کے تجربات کی پوری کیفیت بھی درج کی ہے۔Alienation, disassociation,

deracination کو انھوں نے بہت دردمندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
یہ المیۂ فلسطین پر اپنی نوعیت کی پہلی ایسی سیاسی اور ثقافتی دستاویز ہے، جس کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہواہے،Diasporic Literature میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزی، فرانسیسی، اسپینش، ہالینڈی، نارویجین، ڈچ، ڈینش، پرتگالی، انڈونیشیائی، اطالوی، ترکی اور چینی کے علاوہ ملیالم اور بنگالی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ انگریزی میں مصری ادیبہ اہداف سویف نے اس کا ترجمہ کیا تھا۔ جب کہ ہندوستان کی ایک علاقائی زبان ملیالم میں کیرالہ کی شاعرہ انیتا تھمبی نے اسے ترجمہ کا پیکر عطا کیا ہے۔ البرغوثی کی اس کتاب کا مقدمہ مشہور دانشور ایڈورڈ سعید نے تحریر کیا تھا، جنھوں نے اس کتاب کی اہمیت اور معنویت کو واضح کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ:
’’برغوثی کی کتاب کی فنی اور تخلیقی عظمت اور قوت و تازگی اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ یہ بڑی جزرسی کے ساتھ ایسے کرب زدہ احساسات کو واشگاف کرتی اور اس قسم کے حالات میں انسان کے ذہن پر جیسے افکار و خیاات وارد ہوتے ہیں، انھیں بڑی وضاحت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہے…اس کتاب نے فلسطینی تجربے کو نہایت متاثر کن اسلوب میں پیش کرنے کے ساتھ اسے ایک نئی معنویت سے ہمکنار کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر علی الراعی، ڈاکٹر فریال غزول، ڈاکٹر عبد المنعم تلیمہ، خیری شلبی، صافی ناز کاظم، ڈاکٹر سید البحراوی، پیٹر کلارک نے بھی اس کتاب کے حوالہ سے بہت عمدہ تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ علی الراعی کی نظر میں یہ محض ایک کتاب نہیں ، ’یہ لخت ہائے دل اور اُس زندگی کا نچوڑ ہے، جسے اس عظیم شاعر نے پیہم جلاوطنیوں، مسافرتوں اور مہاجرتوں میں بسر کیا ہے۔ ‘واشنگٹن رپورٹ میں اس کتاب کے حوالے سے بہت اہم بات لکھی گئی ہے:
’’اس کتاب کی اہمیت دراصل اس حققیت میں مضمر ہے کہ دنیا کے بہت سے دوسرے لوگ تو پناہ گزینوں کے مسئلے پر بات کرتے ہیں، مگر خود پناہ گزین یا تو خاموش رہتے ہیں یا انھیں سنا نہیں جاتا۔ برغوثی اس خاموشی کو اپنے طاقت ور، نغمہ ریز، مترنم و مؤثر بیانیے کے ذریعے توڑتے نظر آتے ہیں۔‘‘

اردو میں اس کے ترجمے کی شدید ضرورت تھی کہ ’قضیۂ فلسطین‘ کا اردو ثقافت اور صحافت سے ایک گہرا جذباتی رشتہ رہا ہے۔ نایاب حسن نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اسے اردو کا پیرہن عطا کیا ہے۔ انھوں نے ترجمہ کے تلازمات کا پورا خیال رکھا ہے اور کتاب کی روح کو بھی زندہ رکھا ہے، جب کہ زیادہ تر ترجموں میں تخلیق کی روح مر جاتی ہے۔ ترجمہ کی زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے اور اپنے اندر ایک جادوئی کیفیت بھی رکھتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردو حلقے میں اس کتاب کی پذیرائی انگریزی اور دیگر زبانوں سے کہیں زیادہ ہوگی۔
SHIKAST E AHDAI E HUSAIN

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو