ANTI-ADBLOCK JS SYNC حجابات ِبرزخ کے اُس پار ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

حجابات ِبرزخ کے اُس پار

حجابات ِبرزخ کے اُس پار

            حضرت جؒی مارچ 1977ء میں عمرہ سے واپس لوٹے تو آپؒ نے سابق وزیراعظم پاکستان     ذوالفقار علی بھٹو کے انجام سے اس وقت آگاہ کیا جب اس کی طاقت کا نقارہ بج رہا تھا اور اسے اپنی کرسی کے مضبوط ہونے کا بڑا زَعم تھا۔ ان حالات میں کون یہ سوچ سکتا تھا کہ اس کی بساط عنقریب لپیٹی جانے والی ہے لیکن چکڑالہ کی چٹی مسجد میں خطاب جمعہ کے دوران جب حضرت جؒی نے بھٹو کے مستقبل کے بارے میں عالم بالا میں طے پائے جانے والے فیصلے ظاہر کر دیئے تو سامعین نے اسے نوشتۂ تقدیر سمجھا۔
            اس سے قبل حضرت جؒی نے 1975ء میں کوئٹہ کا دورہ کرتے ہوئے روس کی شکست و ریخت کے متعلق جو فرمایا تھا اس کا تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے۔چند سالوں بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ حضرت جؒی کا یہ ارشاد لفظ بلفظ پورا ہوا۔روس کے متعلق حضرت جؒی کا اعلان مئی 1975ء کا ہے جبکہ بھٹو کے زوال کے متعلق آپؒ نے 25 مارچ 1977ء کو خطابِ جمعہ کے دوران اپنے سامنے پڑے ہوئے میز کو تھپتھپاتے ہوئے پورے وثوق کے ساتھ اعلان فرمایا تھا جبکہ دونوں مواقع پر ظاہری حالات ان اعلانات کے برعکس تھے۔
            حضرت جؒی عمرہ سے واپسی کے چند یوم بعد حضرت امیر المکرم کے ہاں منارہ تشریف لائے تو آپؒ کی خدمت میں منگلا کینٹ سے چند فوجی آفیسرز حاضر ہوئے۔ چھ افسران کے اس وفد میں کرنل عبدالقیومؒ، میجرمحمد جمیل اور کرنل حیات اللہ نیازی بھی شامل تھے۔ کرنل نیازی نے حضرت جؒی سے سوال کیا:
‘‘حضرت! حالات بہت خراب ہو رہے ہیں، اب کیا ہوگا؟’’
               حضرت جؒی اس وقت توکّل منرل آفس میں، جو حضرت امیرالمکرم کی مائننگ کمپنی کا دفتر تھا اور جہاں اب دارالعرفان کا وسیع کمپلیکس ہے، چارپائی پر تشریف فرما تھے اور احباب سامنے چٹائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس محفل میں سعودی عرب میں سلسلۂ عالیہ کے مجاز اور امیر صوفی محمد افضل خانؒ بھی موجود تھے جو انتہائی تیز صاحب ِ کشف اور مشاہدات میں حضرت جؒی کے خاص تربیت یافتہ تھے۔ آپؒ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘محمد افضل! خیال کریں۔’’
            حضرت جؒی کے اس ارشاد سے مراد محض لغوی اعتبار سے ‘‘خیال کرنا’’ نہیں بلکہ تصوّف کی اصطلاح میں ارتکاز ِتوجہ تھا جس میں صاحب ِکشف کو حضرت جؒی کی توجہ بھی ملتی۔
            صوفی محمد افضل خانؒ نے قلب پر توجہ کی اور عرض کیا:
‘‘حضرت! میں دیکھ رہا ہوں کہ وردیوں والے لوگ آرہے ہیں اور انہوں نے اقتدار سنبھال لیا ہے بغیر کسی خون خرابے کے...’’
            اس کے بعد صوفی محمد افضل خانؒ نے مستقبل کی اس طرح تصویر کشی کی گویا اللہ تعالیٰ نے نوشتہ ٔ تقدیر بصورت تصویر منکشف فرما دیا ہو۔ اسی رَو میں برزخ کے حالات بھی کھلنے لگے جن کے یہ صفحات متحمل نہیں ہوسکتے۔ ساتھیوں پر سکتہ کا عالم طاری تھا۔ صوفی صاحؒب خاموش ہوئے تو حضرت جؒی نے دیر تک سکوت فرمایا لیکن کسی ساتھی کو مزید کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہو سکی۔ کافی وقت گزرنے کے بعد حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘صوفی جی! توجہ کریں اور حضرت داتا گنج بخشؒ سے پوچھیں، کیا معاملہ ہے؟’’
(وجہِ تاخیر کیا ہے؟)
صوفی محمد افضل خانؒ نے عرض کیا:
‘‘بھٹو کے لئے پھانسی کا فیصلہ تو ہو چکا۔ تاخیر کی وجہ معلوم نہیں۔’’
حضرت جؒی آہستہ سے بولے:
‘‘ملک کا کیا بنے گا؟’’
صوفی صاحؒب نے عرض کیا:
‘‘آنے والا شخص اسلامی نظام کی بنیاد تو رکھ دے گا لیکن نافذ نہ کر پائے گا۔ میں اس کے بعد ایک اور وردی والے کو دیکھ رہا ہوں جو اسلام نافذ کرے گا۔’’
            لیکن کب؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمیشہ اہل ِبرزخ سے کلام کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ برزخ میں شب و روز ہیں نہ وقت کے تعین کا کوئی پیمانہ۔ اہل ِبرزخ کسی امر کے متعلق جلد واقع ہونے کی بشارت دیتے ہیں لیکن دنیا والوں کے ہاں ایک زمانہ بیت جاتا ہے۔ حضرت جؒی اس موقع پر اہل ِبرزخ سے اکثر فرمایا کرتے، حضرت! جسے آپ جلدی کہتے ہیں، خبر نہیں ہمیں کتنا انتظار کرنا پڑے گا؟
            نفاذ ِاسلام کا وہ مژدہ جو اہل ِبرزخ نے دیا، اس کے لئے ابھی کتنا وقت باقی ہے؟ اس کا تعین ممکن ہوگا نہ انتظار کی اجازت ہے لیکن فکر کا مقام یہ ہے کہ نفاذ ِاسلام کی جدوجہد میں کس شخص نے کیا کردار ادا کیا؟
            اوائل 1977ء میں توکل منرل کمپنی کے آفس میں جب یہ گفتگو ہو رہی تھی، اس وقت کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بھٹو اقتدار سے محروم ہوگا اور اسے پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑے گا۔
            حضرت جؒی کی محافل میں صاحب ِ مشاہدہ احباب بھی اکثر موجود ہوتے اور آپؒ مشاہدات اور روحانی کلام میں ان کی اصلاح و تربیت فرماتے۔ ایسی ہی چند محافل میں حضرت جؒی کی گفتگو ٹیپ پر محفوظ ہو گئی جس میں حجابات برزخ کے اس پار ان امور کا تذکرہ ملتا ہے جن کا احاطہ حواسِ ظاہری سے ممکن نہیں۔ ایک محفل میں خواجہ معین الدین چشتیؒ اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ  کا ذکر آیا تو حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘مسلک ویسے تو صوفیاء کا ایک ہی ہے مگر طریق ِکار علیحدہ علیحدہ۔
پیر صاحؒب بہت اونچی ہستی ہیں، بہت بلند۔
 یہ (خواجہ معین الدین چشتیؒ) سلطان الہند ہیں اور وہ (حضرت عبدالقادر جیلانیؒ ) اُس ملک کے سلطان لیکن اُن سے بھی ایک آدمی مجھے اونچا معلوم ہوا ہے، عراق میں۔
            شافعی مذہب ہے۔ بہت بڑا فاضل ہے، بہت بڑا فقیہہ۔ اب بھی روحانی طور پر جو کلام کرتا ہے،  کتاب اور سنت کے مطابق کرتا ہے لیکن گم ہے۔ عام لوگوں کو پتا نہیں۔
            ادھر ریاست دیر میں ایک غوث[1] ہے۔ اس سے روحانی طور پر پوچھا کہ آپؒ سے پہلے بھی کوئی غوث گزرا، یا سب سے پہلے آپؒ آئے؟
            انہوں نے فرمایا، دو مجھ سے پہلے بھی گزرے ہیں۔ انہوں نے اُس طرف (جانب ِعراق) اشارہ کیا ۔ میرے ساتھ سلسلہ کے احباب تھے۔ میں نے کہا: اب دیکھ لو۔
            عام لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ ان کے سامنے یہ چیزیں بیان بھی نہ کریں کیونکہ ان کے باپ دادا نے یہ بات نہیں سنی۔ سارا مصنوعی معاملہ چلا آرہا ہے (تصوف کے لبادے میں پیرخانے)، اس وجہ سے پرہیز کرتا ہوں۔ عام آدمی ان باتوں کو سمجھتا نہیں۔
            ریاست د ِیر کے غوثؒ نے اُن کی طرف رہنمائی کی تھی۔اُن سے پوچھا، آپؒ کے اور غوث صاحؒب کے درمیان کیا فرق ہے؟ تو انہوں نے فرمایا، بڑا فرق ہے۔ پیر صاحؒب نے ٹھیک فرمایا: قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَکْبَتِھِمْ۔ اس کا مطلب ہی وہ نہیں جو لوگوں نے سمجھا ہے۔ دوسرا، یہ انہوں نے اپنے دور تک کہا ہے۔ اب دور اور آگیاہے۔ یہ آپ (حضرت جؒی) کے دور تک ہے۔ اس کے پیچھے ایک دور اور آرہا ہے۔ یہ الگ الگ دور ہیں، یہ دور ہی الگ الگ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے جس جگہ قدم رکھا، اس کے دائیں بائیں جس نے کیا، اس کی گردن ٹوٹ جائے گی، وہ دور ہو جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اولیاء اللہ کی گردن پرمیرا پاؤں ہے۔’’
            حضرت جؒی کا یہ روحانی کلام حضرت غوث سید گل بادشاہؒ  سے تھا جس میں انہوں نے  حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے بعد حضرت جؒی کے دور کا تذکرہ فرمایا۔ ان ادوار کی تشریح حضرت جؒی کے ایک خواب سے بھی ہوتی ہے جو آپؒ نے اوائل دسمبر 1976ء میں چکڑالہ میں احباب کے سامنے بیان فرمایا۔ حافظ عبدالرزاقؒ، محمد نسیم ملک، کرنل مطلوب حسین اور مولوی سلیمان عصر کے بعد حضرت جؒی کی خدمت میں چکڑالہ حاضر ہوئے تو احباب کے ہمراہ آپؒ گھر سے ملحقہ ساتھیوں کے کمرہ میں تشریف فرما تھے۔ دورانِ گفتگو مولوی سلیمان نے اپنے ایک خواب کا تذکرہ کیا کہ وہ ایک بہت بڑے ٹیوب ویل کے پانی سے خوب شرابور ہو رہا ہے۔ اس نے اس خواب  کو سلسلۂ عالیہ کے فیض سے تعبیر کیا۔ حضرت جؒی نے اس خواب پر تبصرہ کئے بغیر فرمایا، ایک خواب اب میرا بھی سنیں:
 ‘‘میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا حوض ہے جس کے گرد ایک جنگلہ ہے اور اسے تالہ لگا ہوا ہے۔ وہاں ایک شخص ملتا ہے جو مجھے اس تالے کی چابی دیتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ کون ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں، میں عبدالقادر جیلانیؒ ہوں۔ میں پوچھتا ہوں، میں یہ چابی کس کو دوں گا تو وہ کہتے ہیں، آپ اسے امام مہدیؒ کو دیں گے۔
            اس کے بعد میں وہاں بیٹھ جاتا ہوں اور لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک نے مختلف برتن اٹھایا ہوا ہے’ کسی کے پاس پیالہ ہے تو کسی کے پاس مٹکا۔ میں حوض میں سے ان کے برتن بھرتا جاتا ہوں۔ میں یہ دیکھتا ہوں کہ برتن بھرتے ہوئے کبھی کبھی تھوڑا سا گر بھی جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے خلافِ سنت اعمال کی وجہ سے ہے جو کبھی کبھی سرزد ہو جاتے ہیں[2]۔’’
          حضرت جؒی کے مندرجہ بالا خواب کی تعبیر اس وقت دنیا کے سامنے ہے۔سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ جو چار سو سال سے مستور تھا’ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کرۂ ارض پر پھیل چکا ہے۔ آج دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور سابقہ روحانی ادوار کے برعکس جن میں کسی شیخ کا فیض زیادہ سے زیادہ چند مخصوص علاقوں تک محدود ہوا کرتا تھا’ اب سلسلۂ عالیہ کا فیض دنیا بھر کے ممالک میں پھیل چکا ہے۔ نسبت اویسیہ کے ساتھ حضرت جؒی نے چکڑالہ کی دورافتادہ بستی میں اللہ کے نام کی جو صدا بلند کی تھی’ اس کی بازگشت  چاردانگ عالم میں سنائی دے رہی ہے اور اس کے پیچھے حضرت جؒی کے تیارکردہ شاگردوں کی ایک جماعت ہے جس کے بارے میں آپؒ نے فرمایا تھا کہ اس نے حضرت امام مہدیؒ کی نصرت کرنی ہے اور اس وقت تک یہ جماعت انشاء اللہ موجود رہے گی۔ حضرت جؒی نے سلسلۂ عالیہ کے مرکز دارالعرفان کی بنیاد رکھتے ہوئے نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس مرکز نے قیامت تک قائم رہنا ہے اور آپؒ کے یہ اقوال مندرجہ بالا خواب کی مزید وضاحت فرماتے ہیں کہ سید عبدالقادر جیلانیؒ کے روحانی دور کے بعد اب ایک نئے روحانی دور کا آغاز ہو چکا ہے جو حضرت جؒی کا ہے اور جس کے بعد اگلا دور حضرت امام مہدیؒ  کا ہو گا۔
            ریاست دِیر والے غوث حضرت سید گل بادشاہؒ سے روحانی کلام کے بعد حضرت جؒی نے کشمیر والے غوث حضرت سید نذیر علی شاہؒ  کے بارے میں فرمایا:
‘‘وہ بہت بڑی اونچی ہستی دیکھی۔ یہ ہستی کشمیر میں ہے۔ یہ پیر صاحؒب کے بعد آئے ہیں۔ وہ سلوک کے جس دائرہ میں ہیں وہ غوث صاحؒب کا دائرہ ہے لیکن یہ ابتدا میں اور پیر صاحؒب انتہا میں۔ ہندوستان میں اس پائے کا کوئی آدمی نہیں۔ نذیر علی شاہؒ ان کا نام ہے۔’’
 ایک ساتھی نے پوچھا! ان کا مزار شریف کہاں ہے تو آپؒ نے فرمایا:
            ‘‘کوئی پتہ نہیں لگتا۔ ‘‘
ایک اور محفل میں حضرت جؒی نے عراق کے ایک غوث کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا:
‘‘ایک غوث کی زیارت کرائی ہے عراق میں’ ہم حیران ہو گئے کہ اس پائے کا بندہ یا امام حسن بصریؒ یا پھر یہ شخص۔ اس پائے کا آدمی نہ پیر صاحؒب ہیں نہ کوئی اور۔ پیر صاحؒب کی شخصیت تو بڑی گزری لیکن منازل کے لحاظ سے یہ بلند ہے۔
            اب میرے دل پر خیال کرو! اب چلو’  ادھر چلتے چلو۔ اب اٹھ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ بڑا فقیہہ’ بڑا فاضل’ بڑا عالم ہے۔ بہت بڑا موٹا سر ہے۔ جوان بڑا ہے۔ حجابات ِالوہیہ تک اُس کی منازل ہیں۔ موٹر میں ملاقات ہوئی ریاست قلات میں۔ پوچھو! یہ پیر صاحؒب سے ایک سو سال پہلے ہوئے ہیں۔ گمنام ہی رہے’  گمنام ہیں ۔
            اچانک ملاقات ہوئی ریاست قلات میں’ موٹر میں جا رہے تھے۔ سمجھ آئی عراق میں ہیں۔ مختار صاحؒب سے بات کرائی تو انہیں کہنے لگے’  تُو بچہ ہے’ تمہیں سمجھ نہیں’ استاد آپ کریں (حضرت جؒی خود بات کریں)۔ تُو نہیں سمجھ سکتا۔ ’’
اس موقع پر حافظ عبدالرزاقؒ (حضرت جؒی کے شریک سفر تھے) بولے:
‘‘سبحان اللہ! جو سمجھتے ہیں وہ’ آپ بات کریں۔’’
حضرت جؒی نے سلسلہ ٔ گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
‘‘میں نے کہا’ بات کریں۔ کہنے لگے’ بات یہ ہے کہ اب آگے۔ پوچھا’ وت کِنجے؟ (کیسے؟)۔ کہنے لگے حصہ بقدر جُثہ ہوتا ہے’ مجھے بھی دیکھ لو۔ ‘‘
اس کے بعد حضرت جؒی خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر توقف کے بعد فرمایا:
‘‘بات یہ ہے کہ عجیب عجیب موتی اور ہیرے پیدا کئے۔ بہت ہی عجیب عجیب انسان’ موتی اور ہیرے’ یاقوت۔’’
یہ کہتے ہوئے حضرت جؒی کی آواز بھّرا گئی۔ آپؒ بہت دیر تک خاموش رہے’ پھر بے خودی کے عالم میں فرمانے لگے:
‘‘اب میرے دل پر خیال کرو! آگے چین تک تمام پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ اب میں وہاں پہنچا ہوں........۔ (وقفہ) بیٹھے ہوئے ہیں......... (طویل وقفہ)
            زبان نہیں سمجھی جاتی’ عبرانی یا سریانی یا اس طرح کی کوئی پہلی زبان’ بنی اسرائیل سے ہیں .........(طویل وقفہ) پوچھیں کس دور میں آئے’ اے اللہ کے نبیؑ! کس دور میں یہاں آئے؟ یہاں آبادی بھی کوئی نہیں’کس طرح یہاں آئے؟’’
            اس کے بعد دیر تک محفل پر سکوت کا عالم طاری رہا۔ ایک ساتھی نے پوچھا ! ‘‘آبادی تھی؟’’
            حضرت جؒی نے فرمایا : ‘‘ تھی۔’’
اس کے بعد دیر تک خاموشی طاری رہی۔ پھر حضرت جؒی نے ان کی خدمت میں عرض کیا:
‘‘موسیٰu کے بعد آپu آئے؟’’
               وہ ساتھی’ جو حضرت جؒی کے ساتھ اس روحانی کلام میں شریک تھا’ بولا ‘‘پہلے۔’’ ..... بہت طویل وقفہ!
            حضرت جؒی نے دوبارہ عرض کی:
‘‘ابراہیمu  کے تو بعد آئے ہیں!تائید فرمائی۔’’
حضرت جؒی کچھ دیر خاموش رہے’ پھر فرمایا:
‘‘اب آپ کو دکھاتا ہوں’ میرے پیچھے چلے آئیں۔ میرے ساتھ ساتھ لگے رہو۔ یہ اب دیکھ لیں...... کتاب ان کے سامنے پڑی ہے۔ عبرانی یا سریانی’ پڑھی کوئی نہیں جاتی۔’’
اس کے بعد حضرت جؒی کی آواز ڈوب گئی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا:
‘‘یہ بنی اسرائیل سے ہیں۔’’
            ایک مرتبہ چکڑالہ کی مسجد میں احباب عصر کی نماز سے فارغ ہوئے تو صحبت شیخ کے لئے حضرت جؒی کے گرد بیٹھ گئے۔ قاضی جؒی بھی ان میں شامل تھے اور وہ حسب عادت احباب کے عقب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت جؒی نے قاضی جؒی کو قریب بلایا اور فرمایا:
‘‘ذرا خیال تو کرو’ حضرت عیسیٰu کس مقام پر تشریف رکھتے ہیں؟’’
قاضی جؒی نے معمولی توقف کے بعد عرض کیا:
‘‘سبحان اللہ’ واہ میرے ربّا! سرخ سنہری بال’ سفید چہرہ’ نیلی آنکھیں!’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘قاضی جی !مقام پوچھو’ دیکھو کونسا ہے؟’’
قاضی جؒی نے کہا:
‘‘حضرت! یہ دائرہ روحیت ہے۔’’
حضرت جؒی آہستگی سے گویا ہوئے:
‘‘صحیح سمجھے ہیں’ پھر فرمایا یہ میں نے اس لئے پوچھا کہ دلائل السلوک میں اس بات کا تذکرہ نہ کیا تھا۔’’
            حضرت جؒی ایک مرتبہ حضرت امیرالمکرم کے ہاں منارہ میں تشریف فرما تھے اور اس وقت آپؒ کی خدمت میں حضرت امیرالمکرم کے علاوہ حافظ عبدالرزاقؒ’ مولوی سلیمان’ سید بنیاد حسین شاہ اور سلسلۂ عالیہ کے کئی دیرینہ احباب حاضر تھے اور حجابات برزخ کے اس پار مشاہدات کے بارے میں حاضرین کی رہنمائی فرمائی جا رہی تھی۔ اتفاقاً راقم کو بھی حاضری نصیب ہو گئی اگرچہ معاملہ راقم کی بساط سے باہر تھا۔ احباب حضرت جؒی کے قلب پر خیال کرتے ہوئے آپؒ کے ساتھ ساتھ حجابات برزخ کو طے کرتے ہوئے توجہ کو ماضی کے دریچوں میں لے گئے تو اللہ کے ایک ولی سے رابطہ ہوا۔ اس موقع پر احباب میں سے چند ایک فوراً بول پڑے’ غوث ہیں۔ حضرت جؒی نے دوبارہ توجہ کے لئے فرمایا تو معلوم ہوا کہ انوارات کے ایک دھارے کی صورت وہ خود ایک غوث سے منسلک تھے۔ حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘غوث نہیں’ قطب مدار تھے لیکن غوث کی ڈیوٹی ادا کی۔’’
            حضرت جؒی فرمانے لگے’ ان کا نام دریافت کریں۔ اس موقع پر احباب روحانی کلام سمجھ نہ سکے تو آپؒ نے فرمایا’ ان سے کہیں کہ لکھ کر بتائیں۔ اس موقع پر سید بنیاد حسین شاہ نے عرض کیا کہ ایک سلیٹ پر لکھ کر بتا رہے ہیں جس سے ‘‘حمید اللہ’’ سمجھ میں آتا ہے۔ حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘یہ ان کا نام نہیں’ لقب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد بیان کرتے تھے۔’’
 احباب کی ایک خصوصی محفل میں حضرت جؒی نے مناصب اولیاء اور تکوینی امور کے متعلق فرمایا:
‘‘ابدال ترقی کر کے قطب بنتے ہیں۔ قطبوں کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک جماعت ہے جس کا امور ِتکوینیہ سے تعلق ہے’  دوسری ہے جس کا تعلق امور ِشریعہ سے ہے۔ ان کا سب سے بڑا قطب ِارشاد ہے’ امور ِشریعہ سے۔
 معین الدین چشتیؒ  قطب ِارشاد ہوئے۔ قطب الدین بختیار کاکیؒ جو ان کے خلیفہ تھے’ دہلی میں فوت ہوئے... اللہ اللہ! وہ قطب ِارشاد ہیں۔ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی سرہندیؒ جن کی بدولت آج ہم بھی مسلمان بیٹھے ہیں.... سیّد علی ہجویریؒ المعروف بہ داتا گنج بخش قطب ِ ارشاد ہیں۔ ان چار آدمیوں نے آکر ہندوستان میں دین کی بڑی خدمت کی ہے۔ قطب ِ ارشاد بہت بڑی ہستی ہوتی ہے دین کے کاموں میں۔
            دوسری طرف قطب ِ ابدال ہے’ یہ ہے ابدالوں کا سردار لیکن قطب ِ مدار کے ماتحت ہوتا ہے۔ ان تمام کے وجودات قرب ِ قیامت ختم ہو جائیں گے۔ یہ مسلک ہے جماعت ِصوفیاء کرام کا۔ صوفیاء! یہ معمولی ہستی نہیں ہوتے’ بڑے بڑے فاضل’ مجتہد’ مجدّد’ نام لینا صوفی آسان ہے۔
            قطب ِ مدار دنیا کا ایک ستون ہے۔ اس کا وجود اس وقت ختم کیا جائے گا جس کے بعد دنیا ختم ہو جائے گی۔ اللہ اللہ کرنے والا کوئی نہ رہے گا’ سب ختم ہو جائیں گے۔
            ترقی کر کے قطب’ غوث بنتا ہے۔ غوث ترقی کرکے قیوم’ قیوم ترقی کر کے فرد۔ یہ بہت بڑی چیز ہے۔ فرد ترقی کر کے قطب ِ وحدت بنتا ہے۔ قطب ِ وحدت ترقی کرکے صدیق بنتا ہے لیکن صدیق بہت کم ہوتے ہیں۔ اس سے آگے قربِ عبدیت کا ایک منصب ہے جو سوائے صدیق ِ اکبرt  کے’ جو صداقت بھی ہے’ قرب عبدیت بھی ہے’ اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا۔’’
            اس ریکارڈ شدہ گفتگو میں حضرت جؒی نے مختلف مناصب کا تذکرہ فرمایا ہے جو اس باطنی نظام کا حصہ ہیں جس کا تعلق تکوینی امور سے ہے۔ ان امور کی انجام دہی کی ایک صورت سورة کہف میں حضرت موسیٰu اور حضرت خواجہ خضرu  کے واقعہ کے تحت بیان ہوئی ہے۔
            یہ 1970ء کے لگ بھگ کا زمانہ تھا کہ حضرت جؒی کی ایک محفل میں قطبِ مدار اور حضرت خواجہ خضرu کا ذکر آگیا۔ اس محفل میں حضرت جؒی کے ساتھ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی’ قاضی جؒی اور چند دیگر احباب موجود تھے۔ آپؒ نے قاضی جؒی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
 ‘‘قاضی جی! خیال کریں اس وقت خواجہ خضرu کہاں ہیں؟’’
قاضی جؒی نے کچھ دیر سکوت کے بعد عرض کیا:
 ‘‘حضرت! میں نے خوب تلاش کیا ہے’ آسمانوں میں تو نہیں۔’’
حضرت جؒی نے فرمایا:
 ‘‘زمینوں میں ہی دیکھ لیں۔’’
کچھ توقف کے بعد قاضی جؒی نے عرض کیا:
 ‘‘حضرت! زمین پر بھی نظر نہیں آرہے۔’’
حضرت جؒی فرمانے لگے:
 ‘‘پھر گئے کہاں! اس کمرے میں بھی دیکھا ہے؟’’
قاضی جؒی نے فوراً عرض کیا:
‘‘ حضرت! وہ تو اِسی کمرے میں ہیں۔’’
یہ سن کر حضرت جؒی خوب محظوظ ہوئے اور فرمانے لگے:
‘‘یہ بتانا تھا کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں پر نگاہ کرنے والوں کو کبھی خود اپنی جگہ کی خبر نہیں ہوتی۔’’
            اس وقت حضرت خواجہ خضرu اس دور کے قطبِ مدار کے ہمراہ تھے جو حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت جؒی نے قاضی جؒی سے کہا’ خواجہ خضرu تو ہمیشہ قطبِ مدار ہی کے ساتھ ہوتے ہیں’ یہیں دیکھ لیتے جہاں قطب ِمدار بیٹھا ہے۔
            حضرت امیرالمکرم فرماتے ہیں کہ بعض ارواح زندگی میں اس قدر منور ہوتی ہیں کہ ان میں ملاء اعلیٰ کی طرح ملکوتیت آجاتی ہے اور برزخ میں جس طرح وہ تکوینی امور سرانجام دیتے ہیں’ اسی طرح اِن ارواح کو بھی انجام دہی پر لگا دیا جاتا ہے’ ان میں خواجہ خضرu  بھی ہیں۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے تفسیر مظہری میں حضرت امام ربانیؒ کے حوالے سے خواجہ خضرu  کا یہ قول نقل کیا ہے:
‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قطبِ مدار کا معاون بنا دیا ہے۔’’
            چند سال بعد وہ شخصیت جن کی معاونت میں حضرت خواجہ خضرu  اس وقت حضرت جؒی کے کمرہ میں تشریف رکھتے تھے’منصب غوث پر فائز ہوئی۔تکوینی نظام میں ایک سابقہ سربراہ مملکت کی سزائے موت کے بارے میں بطور غوث ان کی رائے طلب فرمائی گئی تو دربارِ نبویﷺ میں اپنی رائے پیش کرنے کی سعادت بھی ان کے حصہ میں آئی اور انجام کار سزائے موت کے حتمی فیصلہ سے ان کی رائے کی توثیق بھی ہو گئی۔
            یہاں حضرت جؒی کی صرف چند خصوصی محافل کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن ایسی کئی اور محافل کا ذکر سوانح کے دوسرے حصوں میں بھی ملے گا۔ ان محافل میں حضرت جؒی کی توجہ سے حجابات ِبرزخ شق ہونے لگتے اور ایک دو نہیں’ متعدد صاحب ِ بصیرت حضرات کو مشاہدہ نصیب ہوتا لیکن عام لوگ بھی کیفیات و برکات سے محروم نہ رہتے۔
            اللہ والوں کے سامنے حجابات برزخ کیونکر اٹھنے لگتے ہیں اور امورِ غیبیہ کا اظہار کیسے فرمایا جاتا ہے؟حیات برزخیہ’ کشف القبور اور روحانی کلام کیا ہے؟ صورِمثالی’ کشف و الہام’ مشاہدات و وجدان اور رویائے صادقہ کے ذریعہ اطلاع عن الغیب’ یہ الگ موضوعات ہیں جن پر حضرت جؒی اور حضرت امیرالمکرم نے اپنے خطابات اور تحریروں میں بہت شرح و بسط سے بات کی ہے۔ اس میدان میں کون اختیار رکھتا ہے اور کس کی عطا سے یہ سب کچھ نصیب ہوتا ہے’ اسے سمجھنے میں لوگ اکثر ٹھوکر کھاتے ہوئے افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حضرت جؒی اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بطور حرف آخر اپنی بے اختیاری کا اعتراف عموماً اس شعر کے ذریعہ فرمایا کرتے:
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم
گہے بر پشتِ پائے خود نہ بینم

کبھی تو اونچے مقام پر فائز ہوتے ہیں (جہاں سے ایک جہان پر نظر ہوتی ہے )اور کبھی اپنے پاؤں کا اوپر والا حصہ بھی نظر نہیں آتا۔



[1]۔ حضرت جؒی نے متعدد بار ریاست دیر والے غوث کا تذکرہ حضرت سید گل بادشاہؒ کے نام سے کیا۔
[2]۔ اس موقعہ کے عینی شاہد محمد نسیم ملک نے حضرت جؒی کا یہ خواب تحریری صورت راقم تک پہنچایا جسے حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کی توثیق کے بعد سوانح کا حصہ بنایا گیا۔

Share:

1 تبصرہ:

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو