سوال :طریقۂ ذکر پر ایک سوال یعنی ’’ھو‘‘ کی ضربات قلب‘ روح وغیرہ
مقامات پر لگانا اور اس کی تفصیل‘ کیا یہ حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے؟
جواب
اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے چند تمہیدی باتیں جو مسلمات
کی حیثیت رکھتی ہیں‘ سمجھنا ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جن حضرات کو ہم اولیاء اللہ
کہتے ہیں ان میں اور دوسرے لوگوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ان حضرات نے برسوں مجاہدہ اور
ریاضت کر کے اپنا تزکیہ کر لیا ہوتا ہے۔ ان کی شان امتیازی ہوتی ہے۔ ہاں جو عبادات
منصوص اور مقرر ہیں‘ ان میں تو وہ عام مسلمانوں ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کا سارا مجاہدہ
ذکر الٰہی کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ مسلمات میں سے ہے کہ دنیا بھر کے اولیاء اللہ کے
مدارج اکٹھے کئے جائیں اور ان کا ایک مینار بنایا جائے تو جہاں اس کی بلندی ختم ہوگی‘
وہاں سے ایک ادنیٰ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدارج شروع ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ
ہوا کہ صحابی ہونے سے جو تزکیہ ہوتا ہے وہ اولیاء اللہ کے زندگی بھر کے مجاہدوں سے
نہیں ہوپاتا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابیؓ بننے کے لئے کتنا مجاہدہ کرنا پڑا
ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ کی صرف ایک نگاہ میں صحابیؓ بن گیا یعنی اس ایک نگاہ
میں اتنی قوت تھی کہ اعلیٰ درجے کا تزکیہ ہوگیا۔ پھر یہاں دو ضمنی سوال پیدا ہوتے ہیں
کہ کیا صحابہؓ کو ذکر الٰہی
کی ضرورت نہیں تھی اور وہ ذکر نہیں کرتے تھے۔ اصل بات یہ
ہے کہ ذکر بیمار دلوں کی دوا ہے‘ یہ دوا اللہ تعالیٰ نے خود تجویز فرمائی ہے۔
(الرعد۔28) خبردار دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہے
اور ظاہر ہے
کہ دل کی بڑی بیماری بے چینی اور بے اطمینانی ہی ہے۔ دوسری حیثیت غذا کی ہے اس کی نشاندہی
بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دی۔
(آل عمران ۔191) وہ اللہ کو کھڑے بیٹھے اور لیٹے یاد کرتے ہیں۔
پس
صحابہ کرامؓ کا تزکیہ تو نگاہ مصطفیﷺ سے ہوگیا مگر ذکر الٰہی ان کی غذا تھی جیسے کہ
حضور اکرمﷺ کے متعلق صدیقہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کَانَ النَّبِیﷺ
یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِہٖ۔ یعنی حضور اکرمﷺ زندگی کے ہر لمحے اللہ
کا ذکر کرتے تھے۔ ذکر الٰہی کی ضرورت تو ارشاد ربانی اور حضور اکرمﷺ کے عمل سے واضح
ہوگئی مگر اس کی اہمیت کا اندازہ آپ علمائے کرام اس امر سے لگائیں کہ قرآن مجید میں
160 مقامات پر ذکر الٰہی کا کسی نہ کسی رنگ میں بیان ہوا ہے اور اس کی تائید کی گئی
ہے۔
رہی
آپ کی بات کہ ذکر الٰہی کا کوئی خاص طریقہ بھی قرآن و سنت سے ثابت کریں تو اس سلسلے
میں ایک اصول پیش نظر ہے‘ وہ یہ کہ شریعت نے کچھ عبادتیں
ایسی فرض کی ہیں جن کے اوقات مقدار‘ ہیئت سب مقرر کر دی
ہیں جیسے نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور کچھ عبادتیں ایسی فرض کی ہیں جن کا حکم دے کر فرض
قرار دیا مگر وقت مقدار اور صورت متعین نہیں فرمائی۔ مثلاً دین کا ضروری علم حاصل کرنا‘
دین کی تبلیغ‘ جہاد کرنا‘ ذکر الٰہی کرنا وغیرہ۔ آپ جانتے ہیں حضور اکرمﷺ کے عہد میں
دین کا علم حاصل کرنا ضروری تھا چنانچہ حضور اکرمﷺ خود معلم تھے۔ مسجد نبوی کا صحن
مدرسہ بھی تھا اور یونیورسٹی بھی تھی‘ دارالعلم بھی تھا اور نصاب تعلیم صرف قرآن مجید
تھا۔ اب آپ دیکھتے ہیں کہ ہر شہر میں دارلعلوم کھلے ہیں اور نصاب تعلیم میں صرف و نحو‘
منطق‘ فلسفہ‘ ادب‘ فقہ‘ حدیث‘ تفسیر وغیرہ تمام علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ کتابوں کی ایک
طویل فہرست ہے‘ ہدایہ‘ نحو‘ مختصر معانی‘ قدوری ہدایۃ‘ کافیہ‘ بخاری‘ ترمذی‘ بیضاوی‘
جلالین وغیرہ۔ اب اگر کوئی شخص ان دارالعلوم والوں سے مطالبہ کرے کہ کیا ان کتابوں
کی تعلیم دینا نبی کریمﷺ کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے۔ مستند کتب تواریخ یا حدیث کا حوالہ
مانگے تو آپ ہی فرمائیں کہ اسے کیا جواب ملے گا! اسی طرح حضور اکرمﷺ کے عہد میں تبلیغ
دین فرض تھی اور اب بھی فرض ہے۔ اس وقت حضور اکرمﷺ خود مبلغ تھے‘ صحابہ کرامؓ مبلغ
تھے اور تبلیغ کا طریقہ کار زبانی تقریر اور
قرآن کا مفہوم بتانا تھا۔ اب بھی تبلیغ ہو رہی ہے جیسے تقریریں‘
کتابیں‘ ریڈیو اور تبلیغی جماعت کے دورے وغیرہ۔ اب اگر کوئی آپ سے پوچھے‘ کیا حضور
اکرمﷺ بستر لے کر گھرسے نکلتے‘ جماعت بناتے‘ دوسرے شہر میں رات گزارتے اور عصر کے بعد
گشت کرتے‘ مغرب کے بعد بیان کرتے اور بیان کے بعد کاغذ پنسل لے کر کھڑے ہو جاتے کہ
لکھاؤ کتنا وقت دو گے؟ آپ خود ہی فرمائیں اسے کیا جواب ملے گا؟ اسی طرح حضور اکرمﷺ
اور صحابہ کرامؓ تیر‘ تلوار اور نیزہ سے جہاد کرتے تھے۔ اب اگر کوئی شخص یہ مطالبہ
کرے کہ کیا حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے جہاد کے لئے کلاشنکوف
استعمال کی یا صحابہ کرامؓ نے میزائل چلائے تو آپ ہی فرمائیں‘ کیا جواب ملے گا؟
ان
سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ایک ہوتا ہے مقصد اور ایک ذریعہ۔ پھر کبھی تو حصول مقصد
کے ذرائع مقرر ہوتے ہیں اور کہیں ذرائع کے سلسلے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ لہٰذا
مقاصد بدلتے نہیں‘ ذرائع بدل سکتے ہیں۔ ذکر الٰہی مقصد ہے‘ اس کی کوئی خاص صورت شریعت
میں متعین نہیں۔ لہٰذا اس میں اہل فن جس صورت کو حصول مقصد کے لئے مفید سمجھیں اور
شریعت میں اس کی
ممانعت نہ ہو وہی درست ہوتی ہے۔ ذکر الٰہی کے لئے اہل ذکر
نے جو صورتیں اختیار کی ہیں وہ حصول مقصد کے لئے مفید بھی ہیں اور شریعت میں ان کی
ممانعت بھی نہیں تو ان کے متعلق یہ سوال کرنا ہی بے محل ہے کہ آیا یہ صورت حضور اکرمﷺ
کی سیرت طیبہ سے ثابت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔