سوانح حیات مبارک حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ
خصوصی اشاعت بسلسلہ عرس مبارک 5 محرم الحرام
تحریر خلیفہ مدنی تونسوی
آپ کا اسم گرامی احمد آپ کے والد محترم کا اسم گرامی میاں برخوردار ہے آپ کے والد محترم حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے ( ان کا مزار اقدس تونسہ شریف کے مضافات بستی منگڑوٹھہ میں واقع ہے )۔
آپ کا تعلق کھوکھر خاندان سے تھا آپ کے دادا کنارہ دریائے چناب سے ہجرت کرکے ضلع ڈیرہ غازی خان کے قریب کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلہ میں مقیم ہوئے بزدار قوم میں شادی کی جن سے میاں برخوردار رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے میاں برخوردار رحمتہ اللہ علیہ نے بھی بزدار قوم میں شادی کی ان سے خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے ۔
کتاب تذکرہ اولیائے پوٹھوہار میں ہے کہ
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کے اجداد پانچ پشتوں سے صالحین اور کاملین سے وابستہ اور خود بھی صالحین میں سے تھے ۔ پانچ پشتوں میں بڑے بڑے کاملین پیدا ہوئے جن سے ہزاروں افراد نے اکتساب فیض کیا ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت 1250ھ بمطابق 1832ء کو کوہ سلیمان میں ہوئی ابتدائی عمر میں ہی آپ کی والدہ وصال فرما گئیں ۔
تقریباً 5 سال کی عمر میں آپ کے والد محترم نے آپ کو قرآن مجید کی تعلیم کےلئے قریبی گاوں میں ایک بزرگ کے ہاں چھوڑ آئے ۔
ابھی آپ کا بچپن ہی تھا کہ آپ کے والد محترم میاں برخوردار رحمتہ اللہ علیہ کا وصال ہوگیا آپ کی تربیت و کفالت آپ کے ماموں علی خان رحمتہ اللہ علیہ کرنے لگے آپ کے ماموں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے ۔
بچپن میں جب آپ اپنے ماموں کے ساتھ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اسی وقت حضرت تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کے دام محبت میں گرفتار ہو گئے تھے اور حضرت تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کی غلامی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔
چنانچہ دوسری مرتبہ آپ اکیلے ہی حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت کے دست اقدس پہ شرف بیعت سے مشرف ہوئے ۔
منقول ہے کہ بیعت ہونے کے بعد چار مرتبہ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر جلد ہی حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کا وصال ہوگیا ۔
حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ تونسہ شریف میں مقیم ہو کر تحصیل علم میں مصروف ہوئے تو فارغ اوقات میں حضرت خواجہ شاہ اللہ بخش تونسوی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا احمد تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتسابِ فیض کرتے رہے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت میں مشغول رہ کر تزکیہ باطن میں بھی لگے رہے تکمیل علم کے بعد آپ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت خواجہ محمد فاضل شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی صحبت میں رہ کر سلوک و عرفان کی منازل طے کرتے رہے ۔
کچھ عرصہ کے بعد مکھڈ شریف میں حضرت مولانا محمد علی مکھڈی رحمتہ اللہ علیہ کے عرس مبارک کے موقع پر حضرت خواجہ محمد فاضل شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اجازت و خلافت عطا فرمائی اس کے بعد آپ جب تونسہ شریف حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ شاہ اللہ بخش تونسوی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ نے مختلف علوم و فنون میں مہارت تامہ حاصل کر لی تھی ۔ لیکن مزاجاً آپ تصوف و اخلاق کی طرف ہی مائل تھے ۔ مثنوی مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ سے تو آپ کو عشق کی حد تک لگاو تھا ۔ علاوہ ازیں تذکرة الاولیاء اور کیمیائے سعادت بھی زیر مطالعہ رہتیں ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کو فارسی زبان اور ادب پر عبور حاصل تھا آپ خط و کتابت بھی فارسی میں لکھتے تھے اور تصوف کی مشہور کتاب حضرت خواجہ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف کشکول (کلیمی) کا تو باقاعدہ درس دیا کرتے تھے ۔
میرا شریف تحصیل پنڈی گھیب ضلع اٹک میں ایک مختصر سی بستی تھی حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ سیاحت کے دوران اس جگہ آئے تو یہ مقام آپ کو پسند آیا اور آپ نے مستقل طور پر یہاں رہائش اختیار کر لی رفتہ رفتہ طلباء علماء اور فقراء یہاں آ کر آباد ہوتے گئے اور مسجد خانقاہ لنگر خانہ وغیرہ کی تعمیر سے ایک اچھا خاصا قصبہ بن گیا
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ نے میرا شریف میں مقیم ہو کر طلباء غرباء اور مساکین کےلئے لنگر عام جاری کیا آپ کے پاس چند ایسے علماء جمع ہو گئے جو طالب علموں کو بغیر معاوضہ کے تعلیم دیتے اس لئے میرا شریف ایک عظیم دینی درسگاہ بھی قائم ہو گئی ۔
آپ نے میرا شریف کے مضافات میں بھی چند مسجدیں تعمیر کروائیں اور بعض مقامات پہ زائرین کی سہولت کےلئے مسافر خانے تعمیر کرائے دور دور سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اکتساب فیض کرنے لگے ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کا سیرت طیبہ ﷺ اور سیرت صحابہ کا مطالعہ بہت وسیع تھا آپ کی گفتگو بہت پرمغز ہوتی تھی عوام اس گفتگو کو نہ سمجھ سکتے تھے ۔ البتہ اہل علم آپ کے کلام سے خوب متنفع ہوتے ۔ صوفیانہ فکر رکھنے والوں کےلیے آپ کی گفتگو علوم و معارف سے لبریز ہوتی ۔ جب آپ قرآنی آیات و احادیث کی صوفیانہ تفسیر و تشریح فرماتے تو سننے والوں کی چشم بصیرت روشن ہوجاتی ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ نے ساری زندگی شادی نہیں کی اس لئے آپ کی اولاد نہیں تھی
آپ کے بے شمار خلفاء تھے ان میں چند خلفاء حضرات کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں
1 حضرت جلال الدین بلوچ رحمتہ اللہ علیہ المعروف حضرت جھگی والے
2 حضرت خواجہ احمد خان ثانی رحمتہ اللہ علیہ (اول سجادہ نشین میرا شریف)
3 حضرت مولانا اکبر علی رحمتہ اللہ علیہ میانوالی
4 حضرت خواجہ امیر احمد رحمتہ اللہ علیہ بسال شریف
5 حضرت خواجہ احمد نور رحمتہ اللہ علیہ چاولی شریف
6 حضرت خواجہ محمد فخرالدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ بیربل شریف
7 حضرت سید لعل محمد شاہ رحمتہ اللہ علیہ دوالمیال
8 حضرت سید سلطان محمد شاہ رحمتہ اللہ علیہ شاہ پور
9 حضرت حافظ صالح محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ میرا شریف
10 حضرت حافظ بدرالدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ میرا شریف
11 حضرت مولانا محمد نواز رحمتہ اللہ علیہ ڈیرہ اسماعیل خان
12 حضرت سید فیض اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ چھبر شریف
13 حضرت حاجی محمد فضل کریم رحمتہ اللہ علیہ چکوال
14 حضرت سید غلام حسین المعروف پیر بابا کونے شاہ رحمتہ اللہ علیہ نیلیانوالہ جھنگ
15 حضرت پیر حبیب شاہ چاولی رحمتہ اللہ علیہ پنڈی گھیب
16 حضرت مولانا قاضی محمد عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ فضل گڑھ آزاد کشمیر
17 حضرت مولانا نور حسین رحمتہ اللہ علیہ فتح جنگ
18 حضرت پیر فتح شاہ ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ راولپنڈی
19 حضرت فقیر احمد دین رحمتہ اللہ علیہ تل بازار بمبئی انڈیا
20 حضرت میاں میر محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ پشاور
21 حضرت میاں دوست محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ لڑی چکوال ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق کتب کی مختصر تفصیل
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات شریف آپ کے خلیفہ مولوی محمد نواز رحمتہ اللہ علیہ نے تحریر کیے بشارت الابرار کے نام سے شائع ہوئی جو کہ فارسی میں ہے مگر افسوس صد افسوس اس کا اردو ترجمہ ابھی تک شائع نہ ہوسکا موجودہ سجادہ نشینان حضرات کو اس عظیم کام کے بارے سوچنا چاہیے ۔
جب کہ اردو میں آپ کے حالات سید کرم حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ذکر ولی (مطبوعہ 1966ء) کے نام سے کتاب میں تحریر کیے .
ایک کتاب فیضان میروی کے نام سے بھی شائع ہوئی جس میں حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کے حالات و ملفوظات تفصیلاً درج ہیں اور آپ سجادگان کے احوال و مناقب بھی درج ہیں .
ایک مختصر کتابچہ خواجہ احمد میروی ؒ اور ان کے جانشین کے نام سے شائع ہوا اس میں مصنف نے تقریباً 30 صفحات پہ حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کے احوال و ملفوظات درج کیے یہ مختصر کتابچہ ٹوٹل 56صفحات پہ مشتمل ہے جو کہ آج سے دو سال قبل 1445ھ میں شائع ہوا ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کو ماہ ذوالحجہ 1330ھ میں ہاتھ مبارک پہ پھوڑا نکلا جس سے بہت تکلیف ہوئی اور پھر 5 محرم الحرام 1330ھ بمطابق 1911ء کو آپ کا وصال ہو گیا ۔ آپ کا مزار اقدس میرا شریف تحصیل پنڈی گھیب ضلع اٹک میں مرجع الخلائق ہے ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ کے خلیفہ حضرت مولوی احمد خان میروی رحمتہ اللہ علیہ مسند سجادگی پہ جلوہ افروز ہوئے ان کے بعد ان کے بھتیجے حضرت خواجہ فقیر عبداللہ میروی رحمتہ اللہ علیہ مسند سجادگی پہ جلوہ افروز ہوئے اور انہی سے ہی اولاد کا سلسلہ جاری ہوا ۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ علیہ کا ہر سال ماہ محرم کی 3.4.5 تاریخ کو آپ کا عرس مبارک میرا شریف میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔
الحمدللہ علیٰ ذلک
ماخذ کتاب حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ اور اُنکے خلفاء ، فیضان میروی ، خواجہ احمد میروی ؒ اور ان کے جانشین ، کتاب تذکرہ اولیائے پوٹھوہار
طالب دعا
خلیفہ محمد ہادی
خلیفہ مدنی تونسوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔