"ہولی فیملی ھسپتال راولپنڈی"
ھولی فیملی ھسپتال کا آغاز اور قائم راولپنڈی میں کیسے ہوا، یہ بات بہت دلچسپ اور فکر انگیز ھے ۔
ڈاکٹر ایگنس میک لارین( ایڈنبرا) برطانیہ میں 1837 میں پیدا ھوئیں وہ اوائل عمری سے ہی بیمار لوگوں میں خصوصی دلچسپی رکھتی تھیں یہی وجہ تھی کہ وہ ڈاکٹر بننے کی خواہش کا اظہار کیا کرتیں برطانیہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لئیے فرانس جانا پڑا ۔۔۔ دلچسپ بات یہ کہ ان دنوں برطانیہ میں خواتین کے لئیے طب کی تعلیمی درسگاہیں نہیں کھلی تھیں ، ڈاکٹر بننے کے بعد انکی دلچسپی ھندوستان کے شمالی (موجودہ راولپنڈی )حصہ میں خاص کر مسلم خواتین میں زچگی اور نومولود کی حالت زار کی وجہ سے صحت کے بارے میں انتہائی ھمدردی پیدا ھوئی انہوں نے خاص اس مقصد کے لئیے لندن میں "میڈیکل مشن کمیٹی"کی بنیاد رکھی انکی اسی لگن سے ہی 1909 میں مری روڈ راولپنڈی میں قائم پریزنٹیشن کانونٹ سکول کی ایک جانب "سینٹ کیتھرین ہسپتال" کے نام سے ابتدائی طور پر زچگی سے متاثر مسلم خواتین کے لئیے ھسپتال کی بنیاد رکھی۔
ڈاکٹر اینگس میک لارن نے خاص طور پر ایک نوجوان آسٹرین ڈاکٹر اینا ڈینگل کی مدد کی ، جو سالوں تک اکیلے اس ہسپتال میں کام کرنے کے لیے راولپنڈی چلی آئی تھیں ۔ وہ اس قدر پیار اور خوش اخلاقی سے مریضوں کی دیکھ بھال کرتیں تھیں کہ راولپنڈی کی نوجوان لڑکیاں ان کے اعلی اخلاق سے تو متاثرہی تھیں جو اسے ’سسٹر این‘ کے نام سے اچھی طرح جاننے لگیں اور ان سے یورپی طرز کے کروشیٹ اور کڑھائی سیکھتی تھیں، نئی بننے والی ماؤں نے ان سے بچوں کی دیکھ بھال کا احسن انداز بھی سیکھا۔ سسٹر اینا ڈینگل نے 1925 میں امریکہ میں 'میڈیکل مشن آف سسٹرز' کی بنیاد رکھی اور خود کو 'مدر اینا ڈینگل' کا درجہ دیا۔ عیسائی مشنریوں نے مقامی لوگوں کی خدمت کے لئیے 1927میں مری روڈ راولپنڈی پر واقع پریزنٹیشن کانونٹ سکول کی عمارت میں اسے دو بارہ قائم کیا
1927 میں دیگر مشن ’سسٹرز‘ کے ساتھ، پورے علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا ہسپتال ہونے کے ناطے بہت جلد اس نے زچگی کی بہترین خدمات کے حوالے سے ممتاز شہرت قائم کر لی اور 1940 کی دہائی میں اسے اپنے موجودہ احاطے میں منتقل کر دیا گیا، اس وقت تک اس کے ارد گرد کوئی تعمیر نہیں ہوئی۔ نئے ہسپتال کو نہ صرف اپنے وقت کی زیادہ تر سہولیات فراہم کی گئی تھیں بلکہ اس میں ڈاکٹروں، نرسوں کے ساتھ ساتھ مقامی عملے کی ایک بڑی تعداد ’سسٹرز‘ کی بھی کام کر رہی تھیں ۔
تین منزلہ عمارت، ہندو، عیسائی اور مسلم مخیر حضرات کی مالی امداد سے تعمیر کیا گیا ،200 بستروں کے وارڈ، ایک ایمرجنسی روم، آپریٹنگ روم، ایک لیبر روم، نرسری، ایک پرائیویٹ بلاک، نیم پرائیویٹ کمرے، ایک فارمیسی شامل ہے۔ ، ایک لیبارٹری، اور ایک آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ۔ اضافی سہولیات میں تیسری منزل پر ایک نرسنگ اسکول بھی شامل ہے ۔ ھولی فیملی ھسپتال کی عمارت کا ٹاور، جو امتیازی حیثیت رکھتا ھے دور سے نظر آتا ہے، جس پر صلیب کا نشان بنا ہوا ہے۔ جو دور سے نظر آتا ھے 1946میں اس کے اردگرد اگر عمارات تھی بھی تو ایک دو منزلہ اور زیادہ تر ہسپتال کے باھر میدان تھے جبکہ موجودہ صورت حال میں یہاں تین سے چار منزلہ مکانوں میں گھر ہوا ھے
ہسپتال میں ایک تہہ خانہ بھی ہے، جس میں مختلف دیکھ بھال، کارپینٹری، الیکٹریکل، ٹیلرنگ، اور صفائی کی ورکشاپس کے ساتھ ساتھ لانڈری کی ایک بڑی سہولت بھی موجود ہے۔ ڈیزاسٹر پلان کے مطابق، یہ تہہ خانہ ہنگامی حالات میں ہسپتال کے تمام مریضوں کو ایڈجسٹ کرنے کے قابل ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔