ANTI-ADBLOCK JS SYNC مولا بخش کشتہ امرتسری اور انکی کتابیں پی ڈی ایف میں ڈون لوڈ کریں ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

مولا بخش کشتہ امرتسری اور انکی کتابیں پی ڈی ایف میں ڈون لوڈ کریں

 پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ایسی کئی باکمال شخصیات نظر آتی ہیں جنہوں نے بغیر کسی لالچ اور طمع کے پنجابی کی خدمت کی۔ ان میں ایک چمکتا نام ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی مولا بخش کشتہ کا ہے۔ وہ 1876ء کو میاں سلطان بخش بھٹی کے ہاں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ اصل نام مولا بخش جبکہ تخلص کشتہ کرتے تھے۔  


 ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1890ء میں لاہور آ گئے اور یہاں کتابت اور پھر سنگ تراشی کا کام سیکھا۔ کام کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی بھی پڑھتے رہے۔ لاہور میں قیام کے دوران مشاعرے سننے اور پنجابی زبان سے لگاؤ کے باعث ان کی طبیعت بھی شعر گوئی کی طرف مائل ہوئی تو استاد حکیم آغا علی کے ایک نیک سیرت شاگرد خلیفہ قمر کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ پھر 1898ء میں واپس امرتسر چلے گئے اور اخبار نویسی کا آغاز کیا۔ بعدازاں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا اور گڑھ شنکر، ہوشیارپور سے نکلنے واے اخبار’’مسلم راجپوت‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اروڑبنس گزٹ، سناتن دھرم پرچاک اور مسیحا وغیرہ جیسے اخبار و رسائل میں بھی کام کیا۔
ان دنوں فی البدیہہ مشاعروں کا دور دورہ تھا۔ فی البدیہہ بیت بازی کے ان مقابلوں میں بعض شعراء پورے مشاعرے پر چھائے رہتے تھے اور بعض محض چند اشعار پر اکتفا کرتے تھے۔ بعض ایسے شعراء بھی تھے جو اساتذہ سے کلام لکھواتے اور اپنے نام سے پڑھ کر خوب داد وصول کرتے تھے۔ فی البدیہہ مشاعرے ایسے شاعروں کے لیے زہرِ قاتل ہوا کرتے تھے۔ ان میں شعراء اور سامعین دونوں ہی لطف اندوز ہوتے تھے۔

مولا بخش کشتہ کو حاضر جوابی اور فی البدیہہ کلام پر ملکہ حاصل تھا۔ اکثراستاد شعراء سے ٹکراؤ بھی رہتا تھا۔ کم سے کم وقت میں عمدہ شعر کہنے میں اتنے پر اعتماد تھے کہ 1902ء میں ایک اشتہار چھپوایا جس میں ایک سال کے لیے عام چیلنج کرتے ہوئے پنجابی میں سب سے پہلے اور بہترین شعر لکھنے کا دعویٰ کیا لیکن کوئی بھی شاعر ان کا مقابلہ نہ کر سکا۔ 1903ء میں خلیفہ قمر وفات پا گئے اور ان کے چہلم پر کشتہ کو خلیفہ قمر کا جانشین مقرر کیا گیااور اس طرح آپ پنجابی شاعری کے باقاعدہ استاد تسلیم کیے گئے۔
پنجابی کے کلاسیکی ادب کے پیش نظر یہ خیال عام تھا کہ پنجابی زبان جس قدر نظم لکھنے کے لیے موزوں ترین ہے شاید ہی کسی اور صنف سخن کے لیے ہو۔ لیکن ہمارے پنجابی شاعروں نے پنجابی غزل کا خوبصورت تجربہ کیا اور آہستہ آہستہ اپنے مضبوط اقدام سے پنجابی غزل کو بھی اردو غزل کا ہم پلہ بنانے میں بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔
پنجابی غزل کے آغاز کی بات کی جائے تو بعض تذکرہ نگاروں نے استاد گامو خاں کو پنجابی کا پہلا غزل گو شاعر قرار دیا ہے لیکن بزمِ ثقافت چکوال نے معروف شاعر شاہ مراد کا کلام شائع کیا جس میں شاہ مراد کی اردو اور فارسی کے علاوہ آٹھ پنجابی غزلیں بھی شامل ہیں۔ شاہ مراد کا سنِ وفات 1702ء ہے اس طرح وہ ولی دکنی سے تقریباً 40 برس پہلے کے غزل گو شاعر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شاہ مراد اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی کے بھی پہلے غزل گو شاعر ہیں اور یوں پنجابی اور اردو غزل کا آغاز ایک ساتھ ہوا۔
مولا بخش کشتہ پنجابی زبان کے پہلے صاحب مطبوعہ دیوان شاعرہیں۔ انہوں نے پنجابی غزل گوئی میں کمال حاصل کیا۔ ان کی غزلوں کا دیوان 1903ء میں شائع ہوا جو کہ پنجابی میں سب سے پہلا دیوان تھا۔ اس سلسلے میں وہ اپنی کتاب ’’پنجابی شاعراں دا تذکرہ‘‘ کے دیباچے بعنوان ’’اپنی کتھا‘‘ میں رقمطراز ہیں ’’ایسے سال 1903ء وچ میں اپنا دیوان چھپوایا جیہنوں لوکاں بڑا پسند کیتا۔ مینوں آپ اپنا دیوان چھپوان دی اینی خوشی تے مان سی پئی اوہدے وچ بڑے چاء نال آکھیا۔
کوئی لکھے تاریخ تے یاد رکھے
بخشی رب نے عزت ایہہ خاص مینوں
شعراں وچ پنجابی دے سبھ کولوں
پہلے پہل چھپیا ہے دیوان میرا
ان کے کلام میں شوخی، رنگینی، اردو فارسی اور ہندی الفاظ کا استعمال، اخلاقیات، سادگی اور جوش و خروش موجود ہے۔ وہ پنجابی ادب کے اس سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں جہاں کلاسیکیت اور جدیدیت کے دونوں دریا آپس میں ملتے ہیں۔ اگر انہیں جدید غزل گوئی کا نقطہ آغاز قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کشتہ کی تصانیف میں پہلی کتاب ’’دیوانِ کشتہ‘‘ 1903ء میں شائع ہوئی۔ پنجابی زبان میں منظوم داستان گوئی کی روایت کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے قصہ ’’ہیر رانجھا‘‘ لکھا جو1913ء میں شائع ہوا۔ ’’پنجاب دے ہیرے‘‘ 1923ء میں شائع ہوئی۔ جبکہ ایک نہایت اہم مشہورِ زمانہ اور مقبولِ عام تالیف ’’پنجابی شاعراں دا تذکرہ‘‘ ابھی تکمیل کے آخری مراحل میں تھی کہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور پھر ان کے فرزند چودھری محمد افضل خان نے 1960ء میں اسے شائع کروایا جس کی اہمیت اور ضرورت آج بھی مسلمہ ہے اور آج بھی پنجابی شاعری کی تاریخ میں یہ بنیادی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ بھارتی پنجاب میں گیانی کورسز (فاضل پنجابی) میں کشتہ کی لکھی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔
1932ء میں آنکھوں کے مرض میں مبتلا ہوئے جس کے باعث رفتہ رفتہ بینائی جاتی رہی۔ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے وقت امرتسر سے لاہور آ گئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ پھر ملک فیروز خان نون اور میاں احمد سعید کے ساتھ مل کر روزنامہ ’’غالب ‘‘جاری کیا ۔ کشتہ نے 19 جون 1955ء کو اس دنیائے فانی کو الوداع کہا اور لاہور میں گڑھی شاہو میں سپردِ خاک ہوئے۔

مولا بخش کشتہ کی کتابیں یہاں سے ڈون لوڈ کریں

لنک

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو