ANTI-ADBLOCK JS SYNC کئی چاند تھے سر آسماں ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

کئی چاند تھے سر آسماں


پہلی جماعت سے لے کر بارہویں تک تاریخ کے نام پر پڑھایا جانے والا نصاب حد درجہ بکواس ہوتا ہے۔ چند صفحوں پر مکمل تاریخ کے نام پر ،ہمارے ہاتھوں میں پکڑایا جانے والا مسودہ ،زمین کی، پہاڑوں کی، دریاؤں کی، سمندر کی،زمین سے چاند تک کی، پیمائش اور رقبے کی لمبائی ،چورائی کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن انسانوں پر مبنی تاریخ ایک حد تک خود ساختہ اخذ کی گئی ہے۔یا پھر یک طرفہ پہلو ہی تک پڑھایا گیا ہے۔جن لوگوں کے بارے میں نصابی طور پر ہمارے ذہنوں میں محبت، ایثار، ہمدردی ، عقیدت جیسے احساسات بھر دئیے جاتے ہیں ان کا پس منظر کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ بارہویں کے بعد اکثر لوگ اس کو خیر باد کہ دیتے ہیں ، اور جو بچتے ہیں وہ پھر غیر نصابی مطالعے کی طرف بڑھتے ہیں ، اور پھر ان پر نئے انکشافات ہوتے ہیں۔سچائی کے دروازے جب ان پر کھلتے ہیں تو اعتبار کہیں پس پشت رہ جاتا ہے۔اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہم جیسے طالب علم تاریخ جیسے بے تکے نصاب کو واقتا سو کر ہی گزارتے تھے۔ مگر یہ گزرے وقت کی بات ہے۔ حال کا بیان مختلف ہے۔مطالعے کی پسندیدگی کے لحاظ سے بات کروں تو مجھے حد درجہ زمانوں سے جڑی داستانیں، حقائق، عروج و زوال، اور کچھ ان دیکھی،ان سنی محبت کی عجب آپ بیتی پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔
''کئی چاند تھے سر آسماں''کے مصنف ''شمس الرحمن فاروقی''ہیں۔یہ میرے غیر نصابی مطالعے کے اعتبار سے تیسری کتاب ہے جس کا تعلق تاریخ سے ہے، یا پھر گزرے ہوئے ایسے زمانے سے ہے جس کے بارے میں ہمارے تصورات نہایت پاکیزہ رہے ہیں جبکہ ان کا پس منظر انتہائی بھیانک تھا۔ اور ان کتابوں کے مطالعے نے مجھے تاریخ کے حقیقی پس منظر کو جاننے کیلئے بے چینی میں مبتلا کردیا ہے۔ اگر تو آپ نے مطالعے جیسی عادت ابھی ابھی اپنائی ہے تو یہ کتاب آپ کیلئے کسی تحفے سے کم نہیں۔
کتاب کے اسلوب اور بیان کی بات کروں تو یہ سچ ہے کہ اس کتاب کی زبان آسان نہیں ہے۔اگر آپ کا مطالعہ بالکل نئے پیدا ہوئے بچے کی طرح ہے تو یہ آپ کی لئے تھوڑی مشکل کا باعث بن سکتی ہے۔لیکن اردو زبان سیکھنے کیلئے یہ کتاب نہایت بہترین ہے۔اس میں اردو فارسی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ کو اٹھارہویں صدی کی اسلامی تہذیب، روایات، عروج و زوال اور ان میں شامل ہونے والے فرنگیوں کی سیاسی سازشوں کا ایک دور ملے گا۔ اس کتاب میں اول اول تو آپ کو غیر دلچسپی سے گزرنا پڑے گا۔ ممکن ہے جمائیاں اور نیند آپ کو اپنی آغوش میں لینا چاہے۔ لیکن کم از کم بارہ صفحات تک خود کو زبردستی اس سے جوڑے رکھیں۔چونکہ شروع کے صفحات ''وسیم جعفر'' کے حسب و نسب سے متعلق ہے۔اور قدرے پیچیدہ بھی ہیں، اس کے متعلق میں یہاں تو زیادہ نہیں لکھ سکتی البتہ اتنا ہے کہ کچھ نام ، اور کچھ کردار آپ کو الجھن اور شاید بیزاری میں مبتلا کردیں۔لیکن جیسے ہی ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی کی ملاقات وسیم جعفر سے ہوتی ہے آپ نا چاہتے ہوئے کتاب میں خود کو غرق ہوتا ہوا پائیں گے۔ اسی دوران آپ کچھ جانے پہچانے ناموں سے بھی ملیں گے، اور شاید ان کے بارے میں پڑھ کر آپ کافی حد تک ناگوار سی کیفیت میں مبتلا ہو جائیں۔وسیم جعفر کی اچانک موت اور انکی طویل اور لا علاج بیماری کے علم ہونے پر آپ بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رنجیدہ ہوں گے۔جیسے جیسے آپ مصنف کے ساتھ آگے بڑھتے جائیں گے آپ پر ایک مسحور کن کیفیت طاری ہونا شروع ہوگی۔ ممکن ہے یہ کتاب آپ کو اپنے سحر میں جکڑ ہی ڈالے۔
جیسے جیسے کتاب کے صفحاتی عدد بڑھتے جا رہے ہیں میری دلچسپی اس میں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ فی الحال تو میں پی ڈی ایف فام میں مطالعہ کر رہی ہوں یہی وجہ ہے کہ مجھے ایک تسلسل کے ساتھ اسکا مطالعہ کرنے میں کافی حد تک مشکل پیش آرہی ہے۔لیکن اس کتاب کی ایک اور اچھی بات یہ بھی ہے اسے ہارڈ میں خرید کر دوبارہ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اور میں ایسا ہی کروں گی۔ بڑے بڑے شعرا جیسے مرزا غالب، یوسف علی خان ،سیف الدین خان بہادر،مرزا اسداللہ بیگ خاں ، ذوق ،داغ ، گھنشیام لال عاصی،وغیرہ ۔ کیسا ہو کہ آپ کی ملاقات ان سے ہو جائے۔ آپ انہیں دیکھ پائیں ، اور اپنی تخیلاتی نظروں سے ان کے انداز و بیاں کو محسوس کر سکیں۔ پڑھتے پڑھتے اچانک میر تقی میرکی ایک غزل یاد آگئی ۔اسکا ایک مصرع یہاں عرض کئیے دیتی ہوں''نازکی اس کے لب کی کیا کہئیے ،پنکھڑی اک گلاب کیسی ہے'' ۔ جماعت میں جس استاد نے اس کی تشریح کروائی تھی خیر بیچارے شرم کے مارے لب تک تو پہنچے نہیں گلاب کی پنکھڑی کو عشق حقیقی سے ملا کر ہمیں پتہ نہیں کس رستے لگاتے رہے۔ لب کی نازکی کو بیان کئیے دیتے تو کیا بگڑ جاتا بھلا۔ اتنی بھی شرمناک تشریح نہیں تھی۔ ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ مطالعہ جاری ہے۔
یہ چند روز پہلے کسی سے بات ہو رہی تھی کہ ہندوستان میں ہندو، سکھ، اور مسلمان رہتے تھے تو یہ اب عیسائیت پاکستان اور ہندوستان میں کس طرح آئی ہوگی۔ اس کتاب کے مطالعے سے جہاں تک میری سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ فرنگیوں کے آنے کے بعد عیسائیت کے ڈیرے یہاں جمے تھے۔خیر اس کا پس منظر بھی کافی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ اور جہاں ہندوستان کے زوال کی بات کی جائے تو اسکا سارے کا سارا الزام فرنگیوں کی نظر کرنا شاید غلط ہوگا۔ اس میں کافی حد تک ہندوستان کے بڑے بڑے راجاؤں، عہدیداروں، شہزادوں، ''جنہیں صرف اور صرف اپنی عیاشی اپنا منصب ، اپنا رعب و دبدبہ عزیز تر تھا '' فرنگیوں سے گٹھ جوڑ میں ملوث پائے گئے۔ یہ نا تو صرف ہندو تھے اور نا ہی صرف مسلمان۔ جسکا جہاں ایمان گھٹا وہیں سے بے ایمانی کی راہ پر سفر شروع کردیا۔ دوسری طرف کا حال تو یہ تھا کہ بہترین طور پر ساجھی داری کے باوجود نا تو فرنگیوں کے دل میں اپنی جگہ بنا سکے اور نا ہی فرنگی ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں بس سکے۔ اندر ہی اندر دونوں ایک دوسرے سے سخت ترین نفرت کرتے رہے۔ اور جہاں خود کا سوال آتا وہاں ساجھی داری، دوستی سب اپنے آپ مر جاتی۔اور اس طرح اٹھارہویں اور انسویں صدی کے درمیان ہی ہند میں نئی سیاسی و سماجی تبدیلی پیدا ہوئی اور دہلی کی بادشاہت کا زوال شروع ہوا۔ ( خیر ابھی میرے سیکھنے اور مزید حقائق سے بہرہ مند ہونے کے دن جاری ہیں)۔مارسٹن بلیک کی موت بھی شازش کے طور پر ہی ہوئی۔ خیر اس کے حقائق بھی آپ پر کتاب کے مطالعے سے ظاہر ہو ہی جائیں گے۔
پڑھتے پڑھتے ایک مقام پر مرزا غالب کے ایک خط کا ذکر ٹہرا ۔ جہاں انہوں نے شمس الدین احمد کو طنز کرتے ہوئے کچھ یوں کلمات ادا کئیے۔''کافر نعمت داورکش'' اور دوسری جگہ ایک فرنگی کے قاتل کو بدعا دیتے ہوئے کچھ یوں الفاظ ادا کئے۔''وہ ستم گر نا خدا ترس عذاب ابدی میں، گرفتار ہو''۔ڈھکے چھپے لفظوں میں وہ شمس الدین احمد کو ہی کہ رہے تھے۔ ( لیکن بہت بعد میں مرزا غالب کے ''نواب مرزا'' جو کہ شمس الدین کی اولاد تھے، ان سے کافی خوش گوار مراسم قائم ہوئے)۔پتہ نہیں کیوں اس مقام پر مجھے بے انتہا ہنسی آرہی ہے۔مقام تو افسوس کا نا سہی مگر تھوڑے سے دکھ کا ہے۔ نہیں بلکل نہیں ، مجھے نا ہی دکھ ہو رہا ہے اور نا ہی تھوڑا سا بھی افسوس۔ میں تو بے حد خوش ہوں کہ ایک عدد مردود جہنم رسید ہوا۔ میں بھی کہیں نا کہیں شمس الدین کی طرف ہوں یا پھر وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم سے بد تمیزی کا بدلہ چاہتی تھی۔بہر حال اسکے سینے میں لگنے والی گولی نے مجھے بڑا سکون دیا ہے۔
کولر کے سامنے بیٹھے ہونے کے باوجود کریم خان کی گرفتاری اور اس پر ہونے والے تشدد کو جیسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور اچھی خاصی ہوا چلنی کے با وجود چہرے سے پسینے کی بوندیں ٹپکنے لگی ہیں۔شمس الدین احمد کی طرف سے ملنے والا خط جب کریم خان نے کنویں میں پھینک دیا تھا جس میں کسی کام کے نا ہونے کی پست ہمت اور واپسی کا حکم دیا گیا تھا، تب ہی مجھے لگا تھا کہ آگے جا کر یہی خط شمس الدین احمد کیلئے وبال جان بنے گا۔ اور وہی ہو ا۔ کریم خان کے احترام میں لیا گیا قدم شمس الدین کیلئے مصیبت لے آیا۔ لیکن جو بات سب سے مزے کی ہے وہ یہ کہ جب کریم خان کو کال کوٹھڑی میں بے لباس بند کیا گیا اور پھر تشدد کے دوران اس سے قتل کے حوالے سے سوال کئیے گئے بھئی واہ کیا حاضر دماغی اور حاضر جوابی سےاس نے کام لیا۔ اور خط کے مل جانے کے بعد بھی جب اسے کال کوٹھڑی سے بے لباس کرکے جیل کی صحن میں کرسی پر باندھ کر خط کے بارے میں پوچھا گیا، اس کے ہر جواب نے فرنگی کو طیش و غضب میں مبتلا کر ڈالا۔ بلکہ وہ تو مارے غصے کے تلملا سا گیا۔یہ مکالمے پڑھتے ہوئے آپ ہنسیں گے بھی اور کریم خان کو لیکر دکھ بھی محسوس کریں گے۔لیکن اس حصے کا ایک اور سانحہ پڑھنے والوں کو تا عمر یاد رہے گا اور مانو جیسے ہر منظر اپنی ہی آنکھ سے دیکھا گیا ہو۔ ( کریم خان واقعی ایک وفادار ساتھی ثابت ہوا)۔
آٹھ دن میں مکمل ہونے والی کتاب نے مجھے دو صدیوں کا سفر کروا دیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وزیر خانم کا عروج و زوال آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ایک ہی زندگی میں اور اس قدر کم عمری میں اس قدر مشقت بھرا سفر ، واللہ آپ بھی جب اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آخری صفحے تک اس قدر تھک جائیں گے کہ کچھ دن کیلئے خود کو آرام کرنے کیلئے قائل کر چکے ہوں گے۔وزیر خانم دو بہنوں سے چھوٹی اور سب سے لاڈلی ، سب سے آزادانہ اور بے حد نفیس خیالات کی ملکہ،زندگی مانوں اس کی آنکھوں میں قید ہو، اس کی مسکراہٹ گویا ماہتاب خود گھر کے آنگن میں اتر آیا ہے۔ کسے خبر تھی کہ وہ محلوں کی ملکہ بن کر بھی خالی ہاتھ رہ جائے گی۔ اس کے بطن سے پیدا ہونے والے اولادیں قدم قدم پر اس کیلئے ایک کڑا امتحان ٹہریں گی، اس کے سائبان اس قدر سفاکیت سے اس سے لے لئیے جائیں گے۔ قسمت کو ہاتھ میں لے کر بھی قسمت کے ہاتھوں مجبور اور بے یار و مددگار ہو جائی گی۔
میں کیا محسوس کر رہی ہوں وہ نا قابل بیان ہے۔ میں وزیر خانم کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ شمس الدین احمد، مارسٹن بلیک، فریزر،شہزادہ فخر الدین فتح الملک شاہ بہادر، یہ سب میرے ذہن میں ہمیشہ یاد بن کر رہیں گے۔ یہ آٹھ دن میرے لئیے ایک بہترین اور درد سے تھکا دینے والا سفر رہا۔
میں بس یہ کہوں گی کہ '' کئی چاند تھے سر آسماں'' ایک امید بھی ہے، ایک گزرا ہوا ان دیکھا دور بھی ہے، ایک چھپا ہوا سچ بھی ہے، کانٹوں سے بھرا راستہ بھی ہے،جون کی کڑکتی دھوپ بھی ہے، نیلا آسمان بھی ہے، محبت سے لبریز ہمراز بھی ہے، اور شاعروں ادیبوں ادب، بدلتی روایات، فرنگیوں کا طرز زندگی کا آغاز، یعنی مکمل دو صدیوں کا مجموعہ ہے جسے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے بھی ، سنیں گے بھی، محسوس بھی کریں گے، رو بھی دیں گے، اس کے ہر حسیں منظر کا لطف بھی لیں گے، حسن و محبت کے نئے جواہر آپ کی گود میں گریں گے۔اور بہت سے سوالوں کے ساتھ اس کے ساتھ آپ سفر کا اختتام کریں گے۔
از قلم
عائشہ خ ا ن

ڈون لوڈ

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو