: لطائف ستہ کیا ہیں:محترم طفیل ھاشمی فرماتے ہیں
کتاب و سنت میں اس نوع کی تقسیم موجود نہیں البتہ بعض صوفیا ء نے بدن کے چھ پوائنٹس کی سارے بدن پر اثر آفرینی کا نظریہ یوگ فلاسفی سے لیا ھے ۔چینی طریقہ علاج آکو پنکچر بھی اس Points فلاسفی پر مبنی ھے ۔ان کے عربی نام قلبی روحی نفسی سری خفی اخفی اور سلطان الاذکار رکھ کر یہ تاثر دیا گیا کہ یہ کوئ اسلامی منہج تزکیہ ھے ۔ان کو بیدار کرنا کوئ میزائل سائنس نہیں ھے ۔آپ مقررہ Points کو پریشرائز کریں جسے ضرب لگانا کہتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد آپ کی باڈی کا وہ point آپ کو physical response دینے لگ جائے گا ۔ اس کے لئے ذکر اللہ بھی ضروری نہیں ۔کسی بھی لفظ یا سوچ کے ذریعے pressure پیدا کیا جاسکتا ھے .اگر آپ کمزور physique والے ھیں تو آپ کا بدن تھوڑی دیر میں ھی Response دینے لگ جائے گا ۔پس آپ کے لطائف جاری ہوگئے ۔یہ کام کسی پر توجہ مبذول کر کے بھی کیا جا سکتا ھے لیکن ان کاموں کا قرآن کے مطلوب تزکیہ سے کوئ تعلق نہیں ھے ۔
لطائف ستہ کی حقیقت
میری معلومات اور یاداشت اگر درست ہو تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے محترم ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب حی علی الفلاح پروگرام میں سوالوں کے جواب دیا کرتے ے تھے،یہ کم وپیش آج سے بیس پچیس برس پہلے کی بات ہے ،اب نہ تو ریڈیو سے رشتہ رہا ور نہ ہاشمی صاحب کی یاد ،مگر بھلا سوشل میڈیا کا جس نے دوبارہ حضرت سے استفادہ کا موقع دیا اللہ کرے ہمارا تعلق تا حیات ثابت ہو۔
محترم ہاشمی صاحب نے لطائف ستہ کے متعلق نیز کچھ تصوف کے متعلق خیالات کا اظہار فرمایا یہ انکا حق ہے صاحب رائے آدمی ہیں۔ممکن ہے انہوں نے "لطائف پر تجربہ کیا ہو گا اور موصوف کے لطائف اورفلاسفی یوگ میں کچھ فرق نہ ہو گا ،اپنی اپنی طلب ومقدر کی بات ہے ،ناچیز کا بھی اس بارے کچھ تجربہ جس میں احباب کو شریک کرنا چائوں گا۔
لطائف راہ سلوک میں الف،ب کی حثیت رکھتے ہیں ،راہ سلوک حدیت سے شروع ہوتی اور لا منتہی ہے ،اللہ کے قرب کی کوئی انتہا نہیں ۔انسان ہر حال میں یا اللہ کے قریب یا دور ہو رہا ہوتا ہے۔دنیا کے اندر اگر کوئی خیر وحکمت موجود ہے تو اسکا تعلق "وحی"سے ہےاگر وہ خیر وحکمت کسی کافر کے پاس بھی ہے تو مومن کی گمشدہ میراث ہے۔
یوگا:میں نے یوگا کو کچھ خاص پڑھا یا سیکھا نہیں ہےالبتہ نیٹ یا ٹی وی سے کچھ معلومات ملتی رہتی ہیں ،کافر کی جتنی بھی کاوش ہوتی اسکا حاصل دنیا ہوتی ہے اور مومن کی کاوشوں کا حاصل اللہ کا قرب ہے ،یہ ممکن ہے کہ ہندوں لوگ ارتکاذ توجہ کی سے مادی حد تک کشف حاصل کر لیتے ہیں جیسے ہم ٹی وی پر دیکھتے تو ارتکاز توجہ سے بتا سکتے ہیں یا پھر شیطان سے تعلق پیدا کر کے اسطرح کے غرائب حاصل کرتے ہیں جس شہرت ،پیسہ اور لوگوں میں بڑا بننے کا شوق پورا کرتے ہیں ۔تصوف یہ ہے کہ اپنی انا مٹا کر فقط زبان سے نہیں لردار سے ثابت کر کہ اللہ ہی بڑا ہے۔بندہ مومن کو جو کشف حاصل ہوتا ہے اسکا تعلق بالائے آسمان سے ہے ،کافر پر بالائے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے لاتفتح لھم ابواب اسماء کافر کا کشف اتنا ہی ہے کہ ایک شہر میں بیٹھ کر دوسرے شہر کےحا لات دیکھ لئے۔بندہ مومن کے جب لطائف منور ہ ہوتے برزخ نظر آتا ہے ،فرشتے نظر آتے ہیں اس جہاں میں عمل کرتا اور نتیجہ آخرت کا دیکھتا ہے۔اس لئے جو صوفیاء کے پاس خلوص ہے اسکا برکات نبوت علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے۔(ہاں یہ واضح رہے کہ ہر سالک کو کشف نہیں ہوتا ہاں عملی زندگی پر جو نتائج مرتب ہونے چائیے وہ مقصود ہیں۔)
لطائف روحانی :لطائف کے منور ہونے سے حضور حق کا احساس پیدا ہوتا ہے ،لطائف جسم میں ایک ایسی محسوسی قوت ہے جس سے نیک وبد کی تمیز ہوتی ہے ،لطائف کا تعلق برکاتِ نبوت سے ہے جوں لطائف ذکر اللہ سے منور ہوتے ہیں بندہ کو اللہ اور سکے رسول سے محبت بڑھتی ہے ۔ایسا ایسا جذبہ دروں نصیب ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر اوڑھنا بچھوڑنابن جاتا ہے،معرفت الہی نصیب ہوتی ہے۔
جاننا یہ چاہتا ہوں کیا ہندوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟
دیکھا یہ گیا ہے کہ لطائف پر جب کفیات تیز ہوتی ہے ہیں تو توجہ الی اللہ بہت بڑھ جاتی ہے اور نماز میں عجیب لذت ملتی ہے ۔اور جب بندہ بے نمازیوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے بازاروں میں گھومتا ہے تو لطائف بہت دھیمے پڑ جاتے ہیں ۔سب سے زیادہ روافضیوں کی صحبت سے لطائف پر برا اثر پڑتا ہے ،بعض اوقات تو ہاتھ ملانے سے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے جسے تمام کفیات ختم ہوگئی ہے اور صحبت شیخ کے بغیر انکی بحالی یہ چارہ نہیں ،بعض کمزور صوفی کفیات کو بچانے کے لئے تنہائی اختیار کرتے ہیں اور عامہ الناس اسکو کرامت کا درجہ دیتی جو حقیقت میں کمزوری ہے
جاننا یہ چاہتا ہوں کیا ہندوں میں جو لطائف اور یوگا ہیں کیا اس میں بھی ایسی ہی محسوسات ہیں ؟؟
آخر میں ایک اہل حدیث صوفی کا واقعہ سنئے:
مولوی قطب الدین ؒ کا بیان :
آخر میں اس تمام بحث کو حضرت مولانا غلام رسول قلعویؒ کے ایک شاگرد و مرید مولوی قطب الدین صاحب ؒ کے بیان پر ختم کرتا ہوں، جس میں صوفیائے اہل حدیث کے طریق السلوک، یعنی بیعت، لطائف پر توجہ کر کے ذکر کرنا اور صحبت صوفیاء سے کیا حاصل ہوتا ہے، ذیل کے واقعہ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ مولوی قطب الدین ؒ علوم ظاہری و باطنی میں مولانا غلام رسول قلعویؒ کے شاگرد تھے فرماتے ہیں:
”جب میں علوم امدادی سے فارغ ہو چکا، میں نے آپ (مولانا غلام رسولؒ) سے ترجمہ شروع کیا۔ ایک سیپارہ پڑھنے سے میرے تمام اذکار جاری ہو گئے ۔اس اثناء میں مولوی صاحب نے مجھ پر توجہ نہ کیاور نہ ہی میں نے آپؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔اللہ کی قسم میری بیعت والوں سے اچھی حالت تھی۔ میں اپنی ذات میں بڑا خوش تھا۔ ایسا ذوق اور ایسی حلاوت تھی جو بیان میں نہیں آ سکتی۔ میرے آنسو ہر وقت جاری رہتے تھے۔ یہاں تک کہ مجھے قر آن شریف پڑھنا اور مولوی صاحب کا بیان سننا مشکل تھا۔ جب میں مولوی صاحب سے سبق پڑھنا شروع کرتا تھا، اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ گویا قر آن شریف اب نازل ہو رہا ہے۔ میں یہ خیال کرتا تھا کہ پڑھنے والا میں ہوں اور پڑھانے والے رسول اللہﷺ ہیں۔ میرے ہر رونگٹے سے ذکر کلمہ طیبہ جاری ہو گیا۔ میرے تمام گناہ بالمشافہ ہو گئے۔ میرے سامنے حشر برپا رہتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہر ایک کا حساب کتاب ہورہا ہے اور میں رب العالمین کے سامنے کھڑا ہوں۔ دنیا و مافیہا کی کچھ خبر نہ رہی۔ اگر نیند آتی میں جھٹ چونک اٹھتا۔ بھلا کس کو نیند اور کس کو آرام۔ کبھی مجھے ایسا کشف ہوتا کہ میں تمام جہان کو اور جو کچھ اس میں ہو رہا ہے اس کو دیکھتا ہوں۔ برابر میری وہ حالت تھی جو شیخ سعدی ؒ نے یعقوب ؑ کی حالت بیان کی ہے۔ کسی سائل نے آپ سے یوسف ؑ کا حال پوچھا۔ کہا آپ ؑ کو چاہ کنعان میں پڑا ہوا نہ معلوم ہو سکا اور مصر سے ان کے پیراہن کی خوشبو سونگھ لی۔ یعقوب ؑ نے فرمایا:
بگفت احوال ما برق جہا نست دمے پیدا و دیگر نہاں است
گہے بر طارم اعلیٰ نشینیم گہے پر پشت پائے خود نہ بینم
میں موضع کھبیکی میں، جو کہ قلعہ میہاں سنگھ سے ایک میل بجانب مغرب ہے، رات کو جا کر رہتا تھا۔ کیونکہ وہاں کوئی اہل علم نہیں تھا اور وہاں کے باشندوں نے مولوی صاحب کی خدمت میں درخواست پیش کی تھی کہ ہمیں کوئی اپنا طالب علم دیا جائے جو صبح سے شام تک آپ کے پاس رہا کرے اور شام کو کھبیکی پہنچ جایا کرے اور ہمیں نماز پڑھا دیا کرے۔ مولوی صاحب نے مجھے وہاں رہنے کا حکم دیا ہوا تھا۔ اس لئے میں روزانہ بعد عصر چلا جا تا تھا۔ ایک دن آپ نے مجھے جاتے وقت فرمایا :
”قطب الدین آج تمھیں رستے میں ایک بے دین صوفی ملے گا، اس سے پرہیز کرنا۔ اس کے پھندے میں نہ پھنس جانا وہ شیطان مجسم ہے۔“
میں مولوی صاحب سے روانہ ہوا۔ جب نصف فاصلہ طے کر چکا تو ایک آدمی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ہرچند میں نے اس سے کنارہ کیا، مگر اس نے میرا نام لے کر پکارا اور مجھے ٹھہرا لیا، اور آتے ہی مجھے سینے سے لگا لیا۔ اس کے سینے سے لگتے ہی میرا تمام فیض اور تمام ذوقِ حلاوت جاتا رہا۔ صرف ایک لطیفہ قلب جاری رہا،باقی تمام جاتے رہے۔ میں شام کو کھبیکی پہنچا۔ نماز کو دل نہ چاہا لیکن بصد مشکل میں نے نماز ادا کی۔ صبح قلعہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کو دل نہ چاہتا تھا،لیکن دل پر جبر کر کے حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا:
میں مولوی صاحب سے روانہ ہوا۔ جب نصف فاصلہ طے کر چکا تو ایک آدمی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ہرچند میں نے اس سے کنارہ کیا، مگر اس نے میرا نام لے کر پکارا اور مجھے ٹھہرا لیا، اور آتے ہی مجھے سینے سے لگا لیا۔ اس کے سینے سے لگتے ہی میرا تمام فیض اور تمام ذوقِ حلاوت جاتا رہا۔ صرف ایک لطیفہ قلب جاری رہا،باقی تمام جاتے رہے۔ میں شام کو کھبیکی پہنچا۔ نماز کو دل نہ چاہا لیکن بصد مشکل میں نے نماز ادا کی۔ صبح قلعہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کو دل نہ چاہتا تھا،لیکن دل پر جبر کر کے حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا:
”قطب الدین وہ شیطان تمہیں مل گیا تھا۔ میں نے عرض کی حضرت میرے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن جو کچھ رات بھر میرے خیالات میں تبدیلی ہوتی رہی اور جو کچھ میں نے دل سے بحث کی وہ عرض کر دیتا ہوں۔ آپ سے جس قدر فیض حاصل ہوا تھا، وہ اس کے ملنے سے کافور ہوگیا۔ نماز بھی مشکل سے ادا کی۔ دل کو بہت سمجھایا کہ میں عالم ہوں، میرا بے نماز ہونا بہت لوگوں کو گمراہ کرے گا۔ کبھی دل میں خیال آتا کہ کیا یہ شریعت نکمی ہے؟ کیا یہ قر آن مجید اور احکام فضول ہیں؟ رات انہیں خیالات میں گذر گئی ہے۔ صبح آپ کی خدمت میں دل پر جبر کر کے حاضر ہوا ہوں۔ آپ میری باتیں سن کر مسکرائے اور خلاف عادت مجھ سے معانقہ کیا۔ آپ کا معانقہ کرنا اور میرے وسوسوں کا دور ہونا، سبحان اللہ۔ وہی حلاوت، وہی لذت، وہی برکات پھر عود کر آئیں۔ آپ نے دیوان حافظ کا یہ شعر پڑھا؎
چہ نسبت است برندی صلاح وتقوی را۔۔۔۔۔۔۔ سماع وعظ کجا نغمہ رباب کجا
مجھے فرمایا:
”قطب الدین چہار شیخ جن سے سلسلہ صوفیہ شروع ہوا ہے،اور نام علیحدہ علیحدہ رکھے گئے ہیں،گویا ایک ہی چشمہ کی چار نالیاں ہیں۔ یعنی (نقشبندی ،سہروردی، قادری اور چشتی) اور اس چشمہ سے مراد رسول اللہﷺ کا چشمہ فیض ہے۔ جو حضور ﷺ کا سرمو مخالف ہو وہ اس چشمہ کا، یا اس نالی کا، پانی نہیں پی سکتا۔ منتہائے مقصد سب کا ایک ہی ہے۔ صرف طریق اذکار میں فرق ہے۔ یہ مشائخ سب حضرت ﷺ کی پیروی کے سخت پابند تھے۔ ان کے نام نہاد متبعین جاہلوں کا قصور ہے اور وہ مخص متہم کیے گئے ہیں۔ ورنہ وہ لوگ دنیاوی آلودگیوں سے پاک اور دین کے لئے جان تک قربان کر دینے کے لئے ہر دم تیار رہتے تھے۔ انہوں نے پاک زندگی بسر کی۔
توجہ دینا یا ذکر سکھانا بادی الریٰ لوگوں میں بدعت ہے اور وہ بھی اس کو ان کے اختراعات سے جانتے ہیں۔ یہ ان کی غلط فہمی اور قر آن و حدیث میں یہ تدبر نہ کرنے کے نتائج ہیں، ورنہ ان کا اثر اگر نظر عمیق اور قلب سلیم سے قر آن وحدیث کا دیکھا جائے پایا جاتا ہے۔ افسوس اور صد افسوس ایسے لوگوں پر جو ایسے لوگوں کو اہل بدعت کہے اور ان پر طعن و تشنیع کرے۔ یہ لوگ محافظ اور حامی دین ہوئے ہیں۔ ان کےیہ طریق دین کی خاطر تھے۔ اول روح کو ذکر و افکار؟ سے صاف کر لیتے پھر استقامت علی الدین کے لئے تلقین فرماتے۔ اسی کی طرف آیہ کریمہ میں ارشاد ہے۔ ان الذین قالو ربنا اللہ ثم استقاموا۔ ان کے اصاف حمیدہ اوراعمال مخلصانہ مطابق رسول اللہﷺ کے تھے۔ گویا وہ مجسم دین تھے،ان کے افعال کی خبر دے رہے ہیں کہ اسلام اس کا نام ہے ۔
پھر آپ نے مجھ سے بیعت لی اور فرمایا وہ شیطان آج پھر تمہیں ملے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اسکا اثر تجھ پر کچھ نہیں ہو گا۔ چنانچہ جب میں جا رہا تھا پھر شام کے وقت وہ فقیر اسی جگہ پر ملا۔ اس نے مجھے بلایا،میں ٹھہر گیا۔ میرے پاس آ کر کہنے لگا تیرا مرشد زور والا ہے۔ تم جاؤ۔ بس میں چلا گیا۔ صبح کو جب میں پھر خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مسکرا کر فرمایا:
”اب اس کا تجھ پر نہ اثر ڈالنا یہ میری بیعت کا سبب ہے۔ میں نے عرض کیا حضرت! اگر وہ شیطان ہے پھر اتنی جلدی اس کا اثر کیوں ہوتا ہے،حالانکہ خدا وند کریم نے فرمایا ہے إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ۔[سورة الإسراء – الآية 65] فرمانے لگے،یہ تو سچ ہے،مگر اب تک عباد میں داخل نہیں ہوئے،جب آپ بندہ خدا بن جائے گے،تو پھر شیطان تم کو دیکھ کر بھاگے گا۔ کیا حضرت عمر کا حال تم نے نے نہیں سنا۔ یہ بھی فرمایا کہ بد بو خوشبو پر اکثر غالب آ جاتی ہے، ہاں جب خوشبو کا انسان عادی ہو جائے تو پھر بد بو دماغ کو ضائع کر دیتی ہے، بلکہ بعض اوقات عمدہ دماغ کے آدمی ہلاک ہو جاتے ہیں ،شیخ سعدیؒ نے اسی طرف اشارہ کیا ہے ؎
تحکم کند سیر بوئے گل
انسان کو خدا وند کریم نے صحیح ایماندار کی شناخت کا میعارعطا فرمایا ہے۔فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٰ فَقَدِ اھْتَدَوْا۔وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَاھُمْ فِیْ شِقَاقٍ۔ (بقرہ: ۱۳۷)یعنی اصحابوں کا ایمان۔ جو اس کسوٹی پر پورا نہ اوے وہ مومن نہیں،اور نہ ہی مرشد بن کر بیعت لینے کے لائق ہےمولوی رومی صاحب کا اسی طرف اشارہ ہے ؎
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نباید داد دست
مولوی قطب الدین صاحب فرماتے تھے کہ میں بھی اس وقت تحصیل یافتہ تھا لیکن آپ کی اس تقریر سے میرا دل صاف ہو گیا میں حق ایمان کا سمجھ گیا یقین کر لیا کہ ایمان اس کا نام ہے کئی صوفی وغیرہ وغیرہ دیکھے لیکن دل نہیں چاہا کہ ان کے پاس بیٹھا بھی جائے۔ میرے خیال میں کوئی ایسا آدمی شاید ہی ہو مگر میں نے نہیں دیکھا۔مولانا کے کلام کا ایک اور جملہ یاد آ گیا جو کہنے کے قابل ہے ،خلاف شرع کوئی شخص ہو خواہ ہندو، خواہ مسلمان، زہد اور ریا ضت کر لے اس کو دنیا میں ثمرہ مل جاتا ہے۔ اس کے ملنے سے استدراج کے طور پر دوسرے پر بھی غالب آ جاتا ہے۔ خلاف شرع بھی پہلے اللہ کا نام لیتے ہیں اور اسی کو پکا رتےہیں،وہی طالب کے دل پر جاری ہوتا ہے۔نور اور درجات اور بقا درجات اتباع رسول اللہﷺ سے ہی حاصل ہوتا ہے ،اگر ایسے لوگوں کا مقابلہ اہل شرع سے شریعت کے کاموں میں ہو تو اہل شرع کو خدا وند کریم غلبہ دے گا ،یہ اس کا وعدہ ہے لا غلبن انا ورسلی۔(30)
(انشاء اللہ العزیز اگلی قسط میں "توجہ"اور ایک فاسق کا قلب جاری تھا"اس پر بات ہوگئی اب بجلی جانے کا قوت قریب ہے)
سماع وعظ کجا نغمہ رباب کجا
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریں