ANTI-ADBLOCK JS SYNC حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنی ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنی

حضرت سلطان العارفین

خواجہ اللہ دین مدنی :

            دریائے چناب کی شوریدہ سرموجوں کو چیرتی ہوئی کشتی طالب والا پتن کے غربی گھاٹ پر جا لگی۔مسافر ایک ایک کر کے کنارے پر اترنے لگے۔ ان سب سے الگ تھلگ ایک مردِ درویش اپنی منزل سے بے خبر کسی غیبی اشارے کے منتظر تھے کہ اب یہاں سے کس طرف جانے کا اِذن ملتا ہے۔ وضع قطع سے وہ یہاں کے باسی نظر نہ آتے تھے’ گندمی رنگ’ حسین پر نور چہرہ’ لمبی داڑھی’ ابھرے ہوئے گال’ آنکھوں میں جلال اور گردوپیش سےمستغنیٰ۔ ہندوستان کی طویل سیاحت کے بعد یہ ان کی واپسی کا سفر تھا۔ دریائے چناب عبور کیا اور اب یہیں کہیں قیام ہو گا’ جس کے بعد اگلی منزل کے لئے روانہ ہو جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
            پتن سے جنوب کی سمت دریا کے ساتھ ساتھ حدِ نگاہ تک گھنے درختوں کا سلسلہ نظر آ رہا تھا’ اک سکون اور ٹھہراؤ کا سماں۔ مردِ درویش کو جنگل کا یہ سماں پسند آیا اور قدم خود بخود جنوب کی سمت اٹھنے لگے۔ بھوک’ پیاس اور سفر کی تھکاوٹ کے باوجود وہ درختوں کے ساتھ ساتھ دریا کے بہاؤ کی سمت چلتے رہے ’یہاں تک کہ مٹی کے ایک ٹیلے کے پاس پہنچ کر رک گئے۔
             ٹیلے پر لکڑی کا رہٹ چل رہا تھا اور قریب ہی درختوں کے سائے میں بیٹھے یہاں کے نوجوان زمیندار اس کی نگرانی کر رہے تھے۔ یہ کوئی عام کسان نہ تھے’ اپنے عظیم نانا حضرت غوث بہاؤالدین زکرؒیا کے روحانی ورثہ کے امین تھے۔
            نووارد درویش نے انہیں سلام ِمسنون پیش کیا۔ زمیندار پہلے ہی دور سے آتے ہوئے مرد ِدرویش کی طرف متوجہ تھے۔ مہمان کو انتہائی محبت کے ساتھ چارپائی پر بٹھایا اور پنجاب کی روایتی مہمان نوازی شروع ہو گئی۔ مہمان حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنیؒ تھے اور میزبان زمیندار مخدوم میاں عبدالغنیؒ۔ تعارف  ہوا تو یہ جان کر میزبان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا کہ مہمانِ ذیشان کی نسبت دیارِ حبیب پاکﷺ سے ہے۔ اپنے پاس قیام پر اصرار کیا تو ان کی یہ خواہش مان لی گئی۔ جنگل میں اس رہٹ پر ذکر وفکر کے دوران یکسوئی ملی تو یہیں دل لگ گیا اور ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ یہیں ان کا وصال ہوا تو ان کی خواہش کے مطابق مخدوم عبدالغنیؒ نے اپنی زمین میں اسی ٹیلے پر انہیں آخری آرام گاہ میں اتارتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میزبانی کا شرف حاصل کر لیا۔ اس ٹیلے پر مسجد اور مزار کی تعمیر کے لئے کھدائی کی گئی تو یہاں سے رہٹ کے ٹوٹے ہوئے گھڑوں کی ٹھیکریاں ملیں جو ماضی کے رہٹ کی خبر دیتی ہیں۔
            صاحب ِمزار کے بارے میں مقامی لوگ صرف اس قدر جانتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ایک ایسے ولی تھے جن کی آمد کے ساتھ علاقے پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اُمڈ آئی۔ اس سے قبل لوگوں کے مویشی سیلاب کے بعد پھیلنے والی بیماریوں سے کثیر تعداد میں مر جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ولی کی برکت سے ان کی حفاظت فرما دی۔ وہ اللہ کی عطا تھی’ یہ بابرکت ہستی انہیں اللہ تعالیٰ نے دی ‎‎‘‘اللہ دیا’’ اور پھر مقامی لوگوں میں ان کا یہی لقب مشہور ہوا جو بعد میں اللہ دین میں تبدیل ہو گیا۔ لنگر مخدوم کے گردونواح میں ان کا مزار ‘‘دربار اللہ دیا’’ کے نام سے بھی معروف ہے۔ اسے ‘‘دربار ہیروں والی سرکار’’ بھی کہا جاتا ہے جس کا پس منظر ایک علاقائی روایت ہے کہ مخدوم عبدالغنیؒ کی میزبانی سے خوش ہو کر حضرت سلطان العارفینؒ نے انہیں ایک پتھر کی گیٹی تحفہ میں دی۔ مخدوم صاحبؒ نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور کنویں میں پھینک دیا۔ حضرت سلطان العارفینؒ نے فوراً کہا’ یہ آپ نے کیا کیا! یہ تو وہ گیٹی تھی جو پتھر سے مس ہو تو اسے سونا بنا دے۔ مخدوم عبدالغنیؒ نے جواب دیا’ جائیں اپنی گیٹی تلاش کر لیں اور اس کے ساتھ رہٹ سے پانی کے ساتھ ساتھ پتھر کی گیٹیاں نکلنے لگیں کہ جسے اٹھائیں وہ ہیرا نکلے۔ولی را ولی می شناسد۔ مقامی روایت کے مطابق یہ واقعہ حضرت سلطان العارفینؒ کے مزار کو ‘‘ہیروں والی سرکار’’ کہنے کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔
            یہاں کے لوگ اب بھی ‘‘ہیروں والی سرکار’’ یا ‘‘اللہ دیا’’ کی برکات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہاں پر مانگی ہوئی دعاؤں کو بارگاہِ رب العزت میں قبولیت ملتی ہے۔ سیلاب کے بعد آج بھی مویشی مزار سے ملحقہ درختوں تلے لائے جاتے ہیں جس کے بعد یہاں کے لوگ امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو بیماریوں سے محفوظ فرمائے گا۔ صاحب ِمزار کے بارے میں اس سے زائد تفصیلات مقامی لوگوں کے علم میں نہیں۔ وہ کون تھے’ یہاں کس لئے تشریف لائے اوراب دور دراز سے اجنبی لوگ ان کے مزار پر کیوں حاضر ہوتے ہیں ؟یہ معلوم کرنا شاید ان کی ضرورت بھی نہیں۔
            مخدوم عبدالغنیؒ کے والدِ گرامی میاں عبدالکریمؒ وہ صاحب ِعلم شخصیت تھے جن کے درس میں برصغیر کے اطراف و اکناف سے علم کے متلاشی سالہا سال حصولِ علم کے بعد واپس لوٹتے اور اپنے اپنے علاقے میں علم پھیلانے کا ذریعہ بنتے۔ حضرت جؒی کی ریکارڈ شدہ روایت کے مطابق ان طالب علموں میں جنات بھی شامل تھے۔
            لاہور کے مشہور بزرگ خواجہ محمداسمٰعیل سہروردیؒ (وڈّا میاؒں) بھی مخدوم عبدالکریمؒ کے شاگرد تھے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے مغلپورہ کے علاقے میں ایک درس قائم کیا جو ‘‘درس وڈّے میاں’’ کے نام سے مشہور ہے۔
            خواجہ محمد اسمٰعیل سہروردیؒ کی سوانح ‘‘تذکرہ میاں وڈّا صاحؒب’’ کے مطابق ان کا سن پیدائش 995ھ بمطابق 1587ء ہے۔ اس طرح مخدوم عبدالکریمؒ سے انہوں نے گیارھویں صدی کے ابتدائی سالوں میں تعلیم پائی۔ ان کی سوانح میں یہ بھی مذکور ہے کہ مخدوم عبدالکریمؒ اس وقت کافی ضعیف ہو چکے تھے۔
            حضرت جؒی نے جب کبھی حضرت سلطان العارفیؒن کی برصغیر میں آمد کے سن کا ذکر کیا’ دسویں صدی ھجری کا زمانہ فرمایالیکن جب وقت کا تخمینہ لگایا’ ہمیشہ چار سو سال قبل کہا اور تاریخی اعتبار سے اسے مخدوم عبدالغنؒی کا زمانہ قرار دیا۔ مخدوم عبدالغنؒی کا زمانہ تخمیناً اوائل دسویں صدی سے اوائل گیارھویں صدی کے مابین ہے اور حضرت سلطان العارفیؒن جب لنگر مخدوم تشریف لائے تو یہ مخدوم عبدالغنؒی کی جوانی کا ابتدائی دور تھا۔
            خراسان میں حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ سے حضرت ابوایوب محمد صالحؒ کی ملاقات نویں صدی کے آخر میں ہوئی۔ حضرت جؒی کے قول کے مطابق مدینہ منورہ میں ان کی آمد اوائل دسویں صدی ھجری میں ہوئی۔
            ان واقعات کا تقابل کیا جائے تو مخدوم عبدالغنیؒ نے اپنے استاذ مخدوم عبدالکریمؒ سے ان کی جوانی میں تعلیم پائی جبکہ ‘‘میاں وڈؒ١’’  کا زمانۂ تعلیم بعد کا ہے جب مخدوم عبدالکریؒم کافی عمر رسیدہ ہو چکے تھے۔ اس طرح حضرت جؒی نے برصغیر میں حضرت سلطان العارفینؒ کی آمد کا تخمیناً جو زمانہ بتایا ہے’ اس کی تائید اس دور کے دوسرے حالات و واقعات سے بھی ہوتی ہے اور یہ قریباً دسویں صدی ہجری کا نصف بنتا ہے۔ البتہ حضرت جؒی نے چار سو سال قبل کی جو مدت فرمائی ہے اسے بھی تخمیناً لیا جائے کیونکہ آپؒ کے بتائے ہوئے دیگر واقعات چار سو سال سے کچھ عرصہ قبل کے ہیں۔ حافظ محمد اسمٰعیل سہروردیؒ کی سوانح میں لنگر مخدوم کے دیگر حالات و واقعات کا سرسری تذکرہ ملتا ہے لیکن اسی گاؤں میں حضرت سلطان العارفیؒن کی موجودگی کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کی یہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت سلطان العارفیؒن دسویں صدی کے اواخر میں وصال پا چکے تھے۔
            حضرت سلطان العارفیؒن مدینہ منورہ کے باسی تھے۔ اپنے شیخ حضرت ابوایوب محمد صالحؒ سے روحانی تربیت حاصل کرنے کے بعدسیاحت کے لئے روانہ ہوئے اور مختلف بلاد سے گھومتے ہوئے بالآخر ہندوستان تشریف لائے۔ دہلی سے انہوں نے واپسی کا سفر اختیار کیا اور جب لنگر مخدوم پہنچے تو بقیہ عمر یہیں گزار دی۔ یہاں آنے کا مقصد اس وقت انہیں خود بھی معلوم نہ تھا ۔کئی صدیوں تک فیوض وبرکات کا یہ خزانہ مستوُر رہا یہاں تک کہ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم نے اس کی نشاندہی کا شرف حاصل کیا اور پھر حضرت جؒی کی روحانی تربیت فرمانے کے ساتھ ہی ان کی یہاں تشریف آوری کا مقصد پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
مخدوم خاندان
            حضرت سلطان العارفیؒن کے میزبان میاں عبدالغنؒی کا تعلق مخدوم خاندان سے تھا۔اس خاندان کے جدِّ امجد مخدوم برہان الدینؒ (1245ء) حضرت غوث بہاؤالدین زکرؒیا کے خلیفہ اور داماد تھے۔ سلاسلِ تصوف میں ان کی نسبت سلسلۂ سہروردیہ سے ملتی ہے۔ حضرت غوث بہاؤالدین زکریاؒ نے انہیں بغرض تبلیغ ملتان سے روانہ فرمایا جو سلطان التمش کازمانہ تھا۔ مخدوم برہان الدینؒ کے دیرینہ رفیق اورمحبوب دوست حضرت شہابل شاہؒ بھی ساتھ آئے اور عمر بھر کی رفاقت کا حق ادا کیا۔ مخدوم خاندان کی روایت کے مطابق روانگی کے وقت حضرت غوث بہاؤ الدین زکریاؒ نے مخدوم برہان الدینؒ کے لئے افزائش نسل کی دعا فرمائی’ چنانچہ اس تاریخی قبرستان کی چاردیواری میں مخدوم برہان الدینؒ کا کثیر خاندان مدفون ہے۔ نسل در نسل اللہ تعالیٰ کے ولی’ ان میں سے ہر ایک کی قبر پرالگ بہار اورانوارات وکیفیات جدا جدا ہیں۔ ایک گلدستہ ہے جس میں طرح طرح کے پھول اپنی منفرد خوشبو اورجدا جدا رنگ کا نظارہ پیش کررہے ہیں۔
            حضرت جؒی لنگر مخدوم آتے تو چنگڑانوالہ کے اس قبرستان میں اکثر تشریف لے جاتے۔ ایک مرتبہ ساتھیوں کے ہمراہ قبرستان کے قریب پہنچے تو انتہائی تیز خوشبو نے استقبال کیا۔ بعض احباب بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہاں تو اس طرح خوشبو آرہی ہے جیسے گلاب کا باغ لگا ہوا ہو۔دراصل حضرت جؒی جب حدود ِقبرستان کے قریب پہنچے تو اہل ُاللہ کی ارواح نے بڑھ کر استقبال کیا اور ساتھیوں کو اس طرح خوشبو محسوس ہوئی جیسے گلاب کا باغ لگا ہو۔ حضرت جؒی سے یہ کیفیت عرض کی توآپؒ نے فرمایا:
‘‘میں تمہیں باغ دکھانے ہی تو جا رہا ہوں ۔ اس قدر اولیائے کرام اس قبرستان کی چار دیواری میں آرام فرما ہیں جس کی نظیر حجاز ِمقدس کے علاوہ دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی[1]۔’’
            حضرت جؒی کی ہدایت تھی کہ لنگر مخدوم آئیں تو چنگڑانوالہ کے اس قبرستان میں ضرور جایا کریں۔
            مخدوم برہان الدینؒ کے بعد خواجہ قطب محمد شاہ دُولہؒ دہلی سے اس علاقے میں تشریف لائے ۔ وہ قطب مدار تھے اور مستجابُ الدعوات بھی۔ حضرت جؒی اگرچہ خود بھی مستجابُ الدعوات تھے لیکن ذاتی امور سے متعلق دعا کے لئے اکثر خواجہ قطبؒ سے روحانی رابطہ فرماتے۔ جب قبولیت کا معاملہ نہ ہوتا تو خواجہ قطبؒ دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کی بجائے فرماتے’ حضرت! آپ خود دعا فرمائیں۔ آج بھی ان سے دعا کے لئے عرض کریں تو بعض اوقات کچھ اسی طرح کی صورت پیش آتی ہے۔
            حضرت جؒی جب کبھی یہاں تشریف لاتے’ کچھ دیر خواجہ قطبؒ کی قبر پر ضرور ٹھہرتے اوردعا کے لئے کہتے۔ اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ حضرت خواجہ قطب محمد شاہ دُولؒہ کی دعاؤں میں ہمیں بھی شریک فرمائے۔ آمین!
            مخدوم خاندان کے اسلاف کے اس تذکرہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت سلطان العارفیؒن نے ایک عمر سیّاحی میں بسر کرنے اورہزاروں میل سفر کے بعد لنگر مخدوم کے دور افتادہ مقام کو اپنے مستقل قیام کے لئے کیوں پسند فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی یہ باور کرنا بھی غلط نہ ہو گا کہ مخدوم خاندان کے جدِّ امجد اور اسلاف کی قدآور شخصیات کے بعد دہلی سے حضرت خواجہ قطب محمد شاہ دُولؒہ اور ان کے بعد حضرت سلطان العارفیؒن کی تشریف آوری نے مخدوم خاندان کو اپنے اس کردار پر قائم رکھا۔ اس طرح یہاں صدیوں سے وہ زمین تیار ہو رہی تھی جس سے ایک مرتبہ پھر سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ کی نمو مشیّت ِ الٰہی تھی۔
            اسی خاندان کے مخدوم شیر محمؒد (المتوفّی 1954ء) وہ بزرگ ہیں جن کے پاس حضرت جؒی اپنے اُستاذِ مکرم کے چوری شدہ بیلوں کی بازیابی کے سلسلہ میں تشریف لے گئے۔ ان کے والد مخدوم احمد یاؒر بھی مستجابُ الدعوات تھے۔
            مخدوم شیر محمؒد کے دادا میاں غلام رسولؒ (المتوفّی1893ء) کی نسبت قادری سلسلہ سے تھی۔ اپنے ابتدائی زمانہ میں حضرت جؒی چنگڑانوالہ میں جب کبھی ان کی قبر پر تشریف لے جاتے تو وہ وہاں نہ ہوتے بلکہ علیین میں ہی رہتے۔ رابطہ قائم ہونے پرکہا کرتے:
‘‘کیوں تنگ کرتے ہو۔ ملاقات اس لئے نہیں ہو سکتی کہ میں علیین میں ہوں اور آپ کی وہاں رسائی نہیں ہوتی۔ چلومراقبہ ٔ مُوتُو  کرا دیتاہوں۔’’
مراقبہ کے آخر میں وہ حضرت جؒی کو علیین میں لے گئے۔آپؒ فرمایا کرتے تھے:
‘‘مراقبۂ مُوتُو’ میں نے میاں غلام رسولؒ سے حاصل کیا۔ یہ مراقبہ منازلِ سلوک سے نہیں’ صرف سیر ہے اصلاحِ نفس کے لئے کہ اس طرح حالات پیش آئیں گے۔’’
ایک بار یہ بیان کرتے ہوئے حضرت جؒی نے جلال کے عالم میں فرمایا:
‘‘دیکھ لو بیتُ المعمور’ سدرةُ المنتہیٰ’ لوحِ محفوظ’ وہ جگہ جہاں آپﷺ کو اللہ پاک سے کلام ہوا۔’’
حضرت جؒی کا یہ ارشاد ا ہلِ بصیرت کے مشاہدہ کے لئے کافی تھا۔ پھر آپؒ نے کرسی دکھائی اور فرمایا:
‘‘یہ مقاماتِ سلوک میں داخل نہیں۔ مقدس مقامات ہیں’ اس لئے کروا دیئے۔ سلوک وہ ہے جو متقدمین سے ملا’ تواتر کے ساتھ۔ قلب میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے’ ساری دنیا اس میں سما جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے۔’’
            مخدوم عبدالغنیؒ کو حضرت سلطان العارفیؒن کی میزبانی کا شرف نصیب ہوا تھا تومیاں شیر محؒمد کو یہی سعادت حضرت جؒی کے سلسلہ میں حاصل ہوئی۔ البتہ حضرت سلطان العارفیؒن کا مزار چونکہ مخدوم عبدالغنیؒ کی زمین پر واقع ہے اس لئے ان کی میزبانی کا شرف قیامت تک کے لئے ہے۔
             حضرت خواجہ عبدالرحیمؒ کے ایماء پر مخدوم کرم الٰہی نے ٹیلہ سے درخت کٹوا کر حضرت سلطان العارفیؒن کا مزار تعمیر کرایا۔ 1925ء کا بندوبست اراضی ہوا تو حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے شاگرد تحصیلدار وزیر علیؒ نے ایک مربع زمین بھی مزار کے نام وقف کر دی۔ 1978ء میں مزار سے ملحقہ مسجد پختہ ہوئی جس کی مزید توسیع 1986ء میں کی گئی۔
            حضرت سلطان العارفینؒ مدینہ منورہ سے آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے لیکن مخدوم خاندان یا مقامی لوگ آپؒ سے فیض یاب نہ ہو سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مخدوم خاندان کا تعلق حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ کی اولاد ہونے کی نسبت سے سلسلہ سہروردیہ سے تھا جبکہ حضرت خواجہ اللہ دین مدنیؒ سلسلہ نقشبندیہ سے تھے۔ مخدوم خاندان نے آپؒ کی انتہائی تکریم کی اور میزبانی کا شرف حاصل کیا لیکن اپنے سلسلہ پر قائم رہے اور حضرت سلطان العارفیؒن نسبت اویسیہ کو لئے برزخ میں منتقل ہوگئے۔ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم نے قریباً چار صدیوں بعد یہاں مستور چشمۂ فیض کی نشاندہی کی اور حضرت جؒی کے حضرت سلطانُ العارفیؒن سے روحانی رابطہ کے ساتھ ہی فیض کا یہ سوتا پھر سے پھوٹ پڑا۔
            یہ دستورِ الٰہی ہے کہ مخلوق کی ضروریات کا اہتمام پہلے سے کر دیا جاتاہے’ زمین میں دفن تیل کی مانندیا نایاب یورینیم کی طرح جس کے خزانے تخلیق ِارض کے ساتھ ہی اس کے سینہ میں رکھ دئے گئے تھے لیکن لاکھوں سال گزرنے کے بعد آج کا انسان ان سے مستفید ہورہا ہے۔اسی طرح حضرت سلطان العارفیؒن اگرچہ چار صدیاں قبل یہاں تشریف لائے اور عمرِطبعی بسر کرنے کے بعدسلسلۂ عالیہ کو ساتھ لئے علیین میں منتقل ہو گئے’ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کے توسط سے اس مستور خزانے کی نشاندہی ہوئی اور پھر حضرت جؒی سلسلۂ اویسیہ کے احیاء کا ذریعہ بنے۔ آپؒ کا فرمان ہے:
‘‘میرے اورمیرے شیخ مکرّم کے درمیان چارصدیوں کا فاصلہ تھا۔ میں نے اویسی طریقہ سے اپنے شیخ کی روح سے فیض بھی حاصل کیا اور خلافت بھی ملی۔’’
ایک اور موقع پر حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘میں نے اپنے محبوب شیخ (حضرت خواجہ اللہ دین مدنیؒ ) کی روح سے فیض حاصل کیا۔ میرے اور شیخ مکرّم کے درمیان کوئی چار سو سال کا فاصلہ ہے۔ میں نے اویسی طریقے سے شیخ کی روح سے فیض حاصل کیا’ اویسی وہ ہوتا ہے جس نے کسی ولی اللہ کی روح سے فیض حاصل کیا ہو۔ بڑے بڑے اولیاء اللہ اویسی طریقے سے فیض حاصل کرتے رہے۔ اس سلسلہ والے حضورﷺ کی روح پُرفتوح سے بھی فیض حاصل کرتے ہیں۔ بحمدِللہ کہ اس فقیر کو اب بھی حضورِ اکرمﷺ کی روح پرفتوح سے فیض حاصل ہو رہا ہے۔’’
             آدابِ شیخ کی وجہ سے حضرت جؒی ایک عرصہ تک حضرت سلطان العارفیؒن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں کچھ دریافت نہ کر پائے۔ اسی طرح دو تین سال گزر گئے۔ شیخ کے حالات کے بارے میں تجسس توتھا لیکن سوال کرنے کی جسارت نہ کر پاتے۔ آخر ایک روز دل کی بے قراری رنگ لائی ۔ حضرت سلطان العارفیؒن نے یہ حالت دیکھتے ہوئے خود ہی فرمایا:
‘‘اچھا ’آج بدھ ہے۔ جاؤ’ کل جمعرات’ پرسوں جمعہ کے دن میرے پاس آنا۔ قلم دوات اور کاغذ لانا’ میں آپ کو اپنے حالات بتاؤں گا۔’’
حضرت جؒی فرماتے ہیں:
‘‘دن گزرتے نہیں تھے۔وقت لمبا ہو گیا۔ جمعہ کے روز حاضر ہوا تو حضرت سلطان العارفیؒن نے اپنے حالات قلمبند کرائے۔
            حضرت سلطان العارفینؒ ہاشمی النسل تھے اور ان کا تعلق روضۃ الرسولﷺ کے مجاور خاندان سے تھا۔ دسویں صدی ہجری کے اوائل میں ان کے شیخ حضرت ابوایوب محمد صالحؒ مدینہ منورہ آئے توان کی روحانی تربیت فرمائی اور شیخ سے سالک المجذوبی تک سلوک طے کیا۔ پھر سیاحت کی طلب ہوئی تو مدینہ منورہ سے حضرت ابو ایوب محمد صالحؒ نے انہیں رخصت کیا اور وہ خود خراسان واپس چلے گئے۔’’
حضرت جؒی کو اپنے حالات قلمبند کراتے ہوئے حضرت سلطان العارفیؒن نے فرمایا:
‘‘میں نے ہندوستان کا رخ کیا۔ دہلی سے ہوتا ہوا یہاں آیا تو جنگل تھا۔ دل لگا اور یہیں ٹھہر گیا۔ زندگی میں کسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ شیخ کی اجازت کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہوا تو اس کے بعد پوری عمر کسی عورت کی شکل نہیں دیکھی [2] ۔’’
حضرت جؒی نے حضرت سلطان العارفیؒن سے مدینہ منورہ سے نقل مکانی کا سبب دریافت کرتے ہوئے عرض کیا:
‘‘یہ مہبط ِوحی’ دارالخلافہ اسلام کا اورنبوت کا متبرک مقام! چھوڑ کر یہاں کیوں آئے ؟’’
فرمانے لگے:
‘‘اس وقت تو پتہ نہیں چلا’ اب پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تربیت کا کام لینا تھا۔’’
            حضرت جؒی نے حافظ عبدالرزاقؒ کے نام 31 مارچ 1974ء کے ایک مکتوب میں حضرت سلطان العارفیؒن سے اپنے اس سوال کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا:
‘‘حضرت سلطان العارفینؒ سے سوال ہوا کہ آپؒ کا اس ملک میں’ عرب جہاں تجلیات باری کی بارش ہو رہی ہے’ ترک کر کے آنا کیونکر ہوا؟ فرمایا: اول تو علم نہ تھا’ اب معلوم ہوا ہے کہ آپ (حضرت جؒی) کی تربیت کے لئے بھیجا گیا ہوں’ اس بنا پر کسی غیر سے توجہ نہیں دلائی گئی۔ منازل بالا میں تبدیلی مقام ہوتی تھی’ توجہ براہِ راست رسول خداﷺ کی تھی۔ پھر منازل انبیاء میں جا کر خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست فیض ملنا شروع ہوا’ ہاں اس میں واسطہ اتباعِ نبیﷺ فیض ہے’ بغیر اتباعِ نبیﷺ محال ہے۔’’
            حضرت سلطان العارفیؒن کی مدینہ منورہ سے نقل مکانی کے بارے میں حضرت امیر المکرم ایک نہایت لطیف پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘دیارِ نبویﷺ کی حاضری کے دوران میں وہاں سے کسی چیز کو اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ پتھر’ وہ کنکریاں جنہیں اس مقدس سرزمین میں جگہ مل گئی’ انہیں وہاں سے جدا کرنے کا تصور بھی محال ہے۔ حضرت سلطان العارفیؒن صاحب حال تھے’ صاحب نظر تھے’ وہ حرم نبویﷺ سے جدائی کا تصور کس طرح کر سکتے تھے! وہ خود نہیں آئے’ انہیں لایا گیا کیوں کہ نسبت اویسیہ کا احیاء اس دورِ پر آشوب کی ضرورت تھی جس کا اہتمام بارگاہِ ربوبیت نے صدیوں سے کر دیا۔’’
حضرت جؒی کے ساتھ پہلے ہی ذکر میں حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی زبان پر یہ بات آگئی:
‘‘جس آدمی کا انتظار تھا’ وہ آ گیا ہے۔’’
            مراقبہ کے بعد حضرت جؒی نے دریافت کیا تو انہوں نے لاعلمی کااظہار کیا۔ معلوم ہوا کہ یہ قول دراصل حضرت سلطان العارفیؒن کا تھاجو دورانِ مراقبہ حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی زبان سے ادا ہوا۔
            مختصراً اپنے حالات بیان کرنے کے بعد حضرت سلطان العارفیؒن نے حضرت جؒی کو فرمایا:
 ‘‘اَنْتَ مجاوَرِی’ یہاں رہو’ جس کو تم پیش کرو گے اس کو میں فیض دینے کے لئے تیار ہوں۔’’
            تین سال بعد حضرت جؒی کو صاحب ِ مجاز بنایا لیکن سلسلہ بدستور اپنے ہاتھ میں رکھا۔ سلسلہ منتقل ہونے تک حضرت جؒی اگر کسی کو صاحب ِ مجاز بناتے یا روحانی بیعت کراتے تو اس کے لئے حضرت سلطان العارفیؒن کی توثیق ضروری ہوا کرتی تھی۔
            حضرت سلطان العارفیؒن کاعربی نام کیا تھا؟ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے’ ان کا نام‘اللہ دین’ مقامی لوگوں کے دیئے ہوئے نام ‘اللہ دیا’ کی ایک صورت ہے۔ اپنا اصلی نام انہوں نے بتایا نہ حضرت جؒی نے دریافت کرنا ضروری خیال کیا۔ اب ان کا علاقائی نام حضرت اللہ دینؒ ہی معروف ہے اگرچہ مدینۃ النبیﷺ کی نسبت سے اس کے ساتھ مدنی کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت امیر المکرم مدظلہ العالی سے عرض کیا کہ احباب تو پوچھنے کی جسارت نہیں کر سکتے’ مناسب ہو تو آپ معلوم کر دیجئے لیکن ان کی خاموشی سے اندازہ ہوا کہ حضرت جؒی کا ادب مانع ہے۔ اس امر میں حضرت جؒی نے سکوت فرمایا تو حضرت امیر المکرم نے بھی سکوت فرمایا اگرچہ دریافت کیا جا سکتا تھا۔
            قیامِ پاکستان کے بعد حضرت جؒی سے مختلف جماعتوں’ بشمول چند دینی جماعتوں نے رابطہ کیا اور عہدوں کے علاوہ مالی فوائد کی پیشکش بھی کی۔ حضرت جؒی اکثر اس کا تذکرہ فرمایا کرتے:
‘‘تقسیم ملک کے بعد ایک سیاسی جماعت والے آئے اور تین ضلعوں کے امیربننے کی پیش کش کی۔ پھر ایک اور جماعت والے آئے۔ میں نے اپنے شیخ حضرت سلطان العارفیؒن سے مشورہ کیا تو آپؒ نے فرمایا:
یہ جماعتیں در اصل تجارت کی کمپنیاں ہیں۔ مسجد ان کی منڈی ہے اور منبر ان کی دکان’ دین سے ان کا کیا واسطہ! محض اپنے مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں اور جہاں شریعت کے احکام ان کے ذاتی مقاصد سے متصادم ہوں’ وہاں شریعت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کو کسی جماعت میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیا آپ کی جماعت نہیں ہے؟ تمام برزخ والے آپ کی جماعت ہیں۔’’
پھر فرمایا:
‘‘کیا آپ آدمی نہیں؟ کیا آپ کی جماعت نہیں؟ یہ تو زندے (دنیا والے) ہیں ۔برزخ والوں کی جماعت آپ کی جماعت ہے۔ تن تنہا رہ کر کام کریں۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ آپ کی جماعت آپ کے ساتھ ہو گی۔’’
            حضرت جؒی نے فرمایا کہ حضرت سلطان العارفیؒن کے اس ارشاد کے بعد مجھے ان جماعتوں سے تنفر پیدا ہو گیا۔ چوکیرہ والے امیر احمد شاہ بخاریؒ کو پتہ چلاتو مجھے خط لکھا کہ جس جماعت میں آپ جائیں میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ ہم دونوں ایک جماعت ہیں۔ یاد رہے کہ رسالہ ‘‘الفاروق’’ میں حضرت جؒی اور حضرت امیر احمد شاہ بخاریؒ نے مل کر کام کیا اور روافض کے خلاف اکٹھے جدوجہد کی۔
            حضرت جؒی کا عمر بھر یہ معمول رہا کہ وہ سال میں کم از کم ایک بار احباب کے ہمراہ حضرت سلطان العارفیؒن کے مزار پر ضرور حاضری دیتے۔ 1977ء سے تین روزہ سالانہ اجتماع کا آغاز ہوا۔ اکتوبر 1983ء کے سالانہ اجتماع میں حضرت جؒی نے آخری بار یہاں حاضری دی۔ حضرت جؒی کا دستور تھا کہ یہاں آمد کے ساتھ سیدھے مزار پر حاضر ہوتے اور کچھ دیر مراقب رہتے۔ اس کے بعد آپؒ مسجد کے صحن میں حضرت خواجہ عبدالرحیؒم کی قبر پر کچھ دیر کے لئے رکتے۔ اجتماع کے اختتام پر روانگی سے قبل بھی حضرت جؒی کا یہی معمول تھا۔
            اللہ تعالیٰ حضرت جؒی کے شیخ حضرت سلطان العارفین خواجہ اللہ دین مدنی : کے درجات بلند فرمائے اور ان کی آخری آرام گاہ پر کروڑوں کروڑوں رحمتوں کانزول فرمائے جہاں سے صدیوں کے توقف کے بعد پھر سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کا احیاء ہوا ا ور اس مرتبہ کسی ایک علاقے کے لئے نہیں بلکہ عالم انسانیت کے لئے!



[1] ـ مختلف کیفیات میں تیز خو شبو کا ادراک احباب کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے گویا کسی نے عطر کی شیشی بالکل سامنے توڑ دی ہو جس سے گلاب کی تیز خوشبو ہر طرف پھیل جائے اور بعض اوقات یہ خوشبو مختلف نوعیت کی ہوتی ہے جیسے بہت سی  خوشبوؤں کا مجموعہ   ۔      
حضرت امیر المکرم سے ایک مرتبہ اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
‘‘جب کسی بڑی ہستی سے روحانی رابطہ ہو یا توجہ ملے تو کبھی کبھی تیز خوشبو بھی محسوس ہوتی ہے جس کی نوعیت صاحب ِ توجہ کی اپنی کیفیت اور مقام و مرتبہ کے مطابق الگ الگ ہوتی ہے۔’’
[2]ـ حضرت جؒی نے 1980ء میں فرمایا تھا کہ حضرت سلطان العارفیؒن کے روضہ کے اندر خواتین کو جانے کی اجازت نہیں  اور اس وقت تک یہی صورت تھی۔ افسوس کہ اب اس کے خلاف عمل شروع ہو چکا ہے۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو