تصوف اور ذکرالٰہیتصوف اور صوفیائے کرام کے متعلق عوام بلکہ علماء کے دلوں میں بھی کچھ شبہات پائے جاتے ہیں اور بعض اوات وہ حضرات اس قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں کہ طریقت اور شریعت دو الگ چیزیں ہیں یا یہ کہ تصوف تکلیفات شرعیہ سے آزادی کا نام ہے۔تبلیغ و اشاعت دین کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفوس کا کام انبیاء علیہم السلام سے لیا جاتا رہا مگر نبی آخر الزماںﷺ کی اس آخری امت میں اس کی ذمہ داری علمائے ربانیین پر عائد ہوتی ہے جو ورثۃ الانبیاء ہیں اور ہر مادی اور الحادی دور کی تاریکیوں میں روشن چراغ کی مانند ہوتے ہیں۔ موجودہ دورِ پرفتن میں اس ذمہ کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اس دور میں اسلام کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی دینی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور نبی اکرمﷺ سے ان کا ایمانی اور روحانی تعلق برائے نام ہی رہ گیا ہے۔ ان کی اعتقادی خرابیوں اور عملی بے اعتدالیوں اور بدعنوانیوں کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ انہیں شریعت مطہرہ کے اباع‘ تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کی طرف توجہ دلاتا ہے تو اس کی آواز پر لبیک کہنے کی بجائے الٹا اپنے آپ کو اوہام و تشکیک کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حق کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اس کی رحمت یہ کب گوارہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دے۔ چنانچہ ہر دور میں وہ اپنے خاص بندوں کے ذریعے حق کی حمایت اور اصلاح خلق کی خدمت لیتا رہا اور صوفیائے کرام نے جس خلوص اور للہیت سے یہ خدمت انجام دی ہے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔صوفیائے کرام کے ہاں تعلیم و ارشاد اور تزکیہ و اصلاح باطن کا طریقہ القائی اور انعکاسی ہے اور یہ تصوف کا عملی پہلو ہے جس کا انحصار صحبت شیخ پر ہے۔ بقول امام ربانیؒ مجدد الف ثانی ’’تصوف کا تعلق احوال سے ہے‘ زبان سے بیان کرنے والی چیز نہیں‘‘ مگر جہاں تک تصوف کے عملی پہلو کا تعلق ہے‘ صحیح اسلام ی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اس کی حیثیت سے علمی حلقوں کو روشناس کرانا بہت ضروری ہے کیونکہ آج کل جس چیز کو تصوف کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پیش کیا جاتا ہے اس کا اسلامی تصوف سے دور کا تعلق بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ صحیح اسلامی تصوف کو بھی شک و شبہ کی نظر دے دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ عامۃ المسلمین کو صحیح اسلامی تصوف سے روشناس کرایا جائے۔ جس کی اساس کتاب و سنت پر ہے تاکہ اس کی روشنی میں اپنی فکری اور عملی اصلاح کر کے ابدی فلاح حاصل کر سکیں۔لغت کے اعتبار سے تصوف کی اصل خواہ صوف ہو اور حقیقت کے اعتبار سے اس کا رشتہ چاہے صفا سے جا ملے‘ اس میں شک نہیں کہ یہ دین کا ایک اہم شعبہ ہے۔ جس کی اساس خلوص فی العمل اور خلوص فی النیت پر ہے اور جس کی غایت تعلق مع اللہ اور حصول رضائے الٰہی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ‘ نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ اور آثار صحابہؓ سے اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے۔عہد رسالت میں اور صحابہ کرامؓ کے دور میں جس طرح دین کے دوسرے شعبوں‘ تفسیر‘ اصول فقہ‘ کلام وغیرہ کے نام اور اصطلاحات وضع نہ ہوئی تھیں ہر چند کہ ان کے اصول و کلیات موجود تھے اور ان عنوانات کے تحت یہ شعبے بعد میں مدون ہوئے‘ اسی طرح دین کا یہ اہم شعبہ بھی موجود تھا۔ کیونکہ تزکیہ باطن خود پیغمبرﷺ کے فرائض میں شامل تھا۔ صحابہ ث کی زندگی بھی اسی کا نمونہ تھی لیکن اس کی تدوین بھی دوسرے شعبوں کی طرح بعد میں ہوئی۔ صحابیت کے شرف اور لقب کی موجودگی میں کسی علیحدہ اصطلاح کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ ث کے لئے متلکلم‘ مفسر‘ محدث‘ فقیہ اور صوفی کے القات استعمال نہیں کئے گئے۔ اس کے بعد جن لوگوں نے دن کے اس شعبہ کی خدمت کی اور اس کے حامل اور مستحق قرار پائے گئے‘ ان کی زندگیاں زہد و اتقاء اور خلوص و سادگی کا عمدہ نمونہ تھیں۔ ان کی غذا بھی سادہ اور لباس بھی موٹا جھوٹا اکثر صوف وغیرہ کا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے وہ لوگوں میں صوفی کے لقب سے یاد کئے گئے اور اس نسبت سے ان کے متعلق شعبہ دین کو بعد میں تصوف کا نام دیا گیا۔قرآن حکیم میں اسے تقویٰ‘ تزکیہ اور خشتیہ اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور حدیث شریف میں اسے احسان سے موسوم کیا گیا اور اسے دین کا ماحصل قرار دیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل حدیث جبریلؑ میں موجود ہے۔ مختصر یہ کہ تصوف‘ احسان‘ سلوک اور اخلاص ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔ نبوت کے دو پہلوں ہیں اور دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ کما قال تعالیٰ:لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہمحقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا ہےرسولا من انفسھم یتلو علیہم آیاتہ ویزکیھمجبکہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو ان کی اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہےویعلمھم الکتاب والحکمۃ (آل عمران:آیت 146)اور انہیں پاک و صاف کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہےنبوت کے ظاہری پہلو کا تلاوت آیات و تشریخ کتاب سے اور اس کے باطنی پہلو کا تعلق تزکیہ باطن سے ہے۔ جن نفوس قدسیہ کو نبوت کے صرف ظاہری پہلو سے حصہ وافر ملا وہ مفسر‘ محدث‘ فقیہہ اور مبلغ کے ناموں سے موسوم ہوئے اور جنہیں اس کے ساتھ ہی نبوت کے باطنی پہلو سے بھی سرفراز فرمایا گیا۔ ان میں سے بعض غوثیت‘ قطبیت‘ ابدالیت اور قیومیت وغیرہ کے مناسب پر فائز ہوئے مگر ان سب کا سرچشمہ کتاب و سنت ہی ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان علاقہ قائم رکھنے والی چیز اعتصام بالکتاب و السنہ ہے۔ یہی مدارِ نجات ہے۔ قبر سے حشر تک اتباع کتاب و سنت کے متعلق ہی سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ محققین‘ صوفیائے کرامؒ نے شیخ یا پیر کے لئے کتاب و سنت کا عالم ہونا لازم قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ہوا میں اڑتا ہوا آئے مگر اس کی عملی زندگی کتاب و سنت کے خلاف ہے تو وہ ولی اللہ نہیں بلکہ جھوٹا ہے‘ شعبدہ باز ہے کیونکہ تعلق مع اللہ کے لئے اتباع سنت لازمی ہے۔قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہآپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو‘خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گےاتباع سنت کا پورا پورا حق ان اللہ والوں نے ادا کیا جنہوں نے نبوت کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں کی اہمیت کو محسوس کیا اور تبلیغ و اشاعت دین کو تزکیہ نفوس سے کبھی جدا نہ ہونے دیا۔ تمام کمالات اور سارے مناصب صرف حضورﷺ کی اتباع کی بدولت ہی حاصل ہوتے ہیں اور تصوف کا اصل سرمایہ اتباع سنت ہے۔کتب احادیث میں ’’حدیث جبریل‘‘ کو اصول دین کے بیان میں بنیادی حیثیت حاصل ہے جس میں دین کو اسلام‘ ایمان اور احسان سے مرکب بیان فرمایا گیا۔ احسان کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے:قال اخبرنی عن الاحسان قال ان تعبد اللہکانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراکجبریل ؑ نے کہا مجھے احسان کے متعلق بتائے۔ رسول خداﷺ نے فرمایا‘ اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: خوب سمجھ لو دین کی بنیاد اور اس کی تکمیل کا انحصار فقہ‘ کلام اور تصوف پر ہے اور اس حدیث شریف میں ان تینوں کا بیان ہوا ہے۔ اسلام سے مراد فقہ ہے کیونکہ اس میں شریعت کے احکام اور اعمال کا بیان ہے اور ایمان سے مراد عقائد ہیں جو علم کلام کے مسائل ہیں اور احسان سے مراد تصوف ہے جو صدق دل سے توجہ الی اللہ سے عبارت ہے۔ مشائخ طریقت کے تمام ارشادات کا حاصل یہی احسان ہے کیونکہ کوئی عمل بغیر اخلاص نیت کے مقبول نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ تیسرا فن مقاصد شرعیہ کے ماخذ کے لحاظ سے بہت باریک اور گہرا ہے اور تمام شریعت کے لئے اس فن کی وہی حیثیت ہے جو جسم کے لئے روح کی ہے اور لفظ کے لئے معنی کی ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ تصوف کے بغیر نہ شریعت زندہ رہ سکتی اور نہ دین سلامت رہ سکتا ہے۔ قاضی ثناء اللہؒ پانی
’’صوفیائے کرام جس علم کو لدنی کہتے ہیں‘ اس کا حصول فرض عین ہے۔ کیونکہ اس کا ثمر صفائی قلب ہے غیر اللہ کے شغل سے اور قلوب کا مشغول ہونا ہے دوام حضور سے اور تزکیہ نفس ہے رزائل اخلاص سے جیسے عجب‘ تکبر‘ حسد‘ حب دنیا‘ حب جاہ‘ عبادات میں سستی‘ شہوات نفسانی‘ ریا وغیرہ اور اس کا ثمرہ فضائل اخلاق سے متصف ہونا ہے جیسے توبہ من المعاصی‘ رضا باالقضا‘ شکر نعمت اور مصیب میں صبر وغیرہ اور اس کی کوئی شک نہیں کہ یہ تمام امور مومن کے لئے اعضاء و جوارح کے گناہوں سے بھی زیادہ شدت سے حرام ہیں اور نماز روزہ اور زکوٰۃ سے زیاہ اہم فرائض ہیں کیونکہ ہر وہ عبادت جس میں خلوص نیت نہ ہو‘ بے فائدہ ہے اور خلوص ہی کا نام تصوف ہے۔‘‘
تصوف کے باب میں امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’جیسی باقی علوم فرض ہیں اسی طرح علم سلوک بھی فرض ہے جو علم احوال قلب ہے جیسے توکل‘ خشیت‘ رضا باالقضاء۔
دراصل اہل تصوف ہی اہل اللہ ہوتے ہیں:
(۱) اولیاء اللہ کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک مجرب ذریعہ ہے۔
(۲) اولیاء اللہ کے پاس کامیاب نسخہ ذکر الٰہی کی تلقین اور اس کا طریقہ سکھانا ہے۔
(۳) ذکر الٰہی کی کثرت اور اولیاء اللہ کی صحبت سے انسان کے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ کبھی بدبخت ہو کے نہیں مرتا۔
(۴) اولیاء اللہ سے دشمنی خدا سے دشمنی ہے۔ حضرت تھانویؒ نے ایک بار فرمایا تھا: ’’اولیاء اللہ سے دشمنی کفر تو نہیں مگر توہین کرنے والے مرتے کفر پر ہی ہیں۔‘‘
موضوع تصوف اصلاح باطن ہے اور اس کا مدار اصلاح قلب پر ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ’’جسم انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم درست ہو گیا اور اگر وہ بگڑا تو سارا جسم بگڑا‘ سنو وہ قلب ہے۔‘‘
ہر انسان کے سینے میں ایک ہی دل ہے اور وہی محل تجلیات باری کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے باری تعالیٰ اس میں غیر کا قبضہ پسند نہیں فرماتا۔ جب قلب تجلیات باری کا مسکن بن جاتا ہے تو تمام رذائل‘ ذلیل ہو کر چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب قلب کی پورے طور پر اصلاح ہو جاتی ہے تو غیر اللہ کا اس میں گزر نہیں ہوتا اور ولی اللہ کہہ اٹھتا ہے‘ الیس اللہ بکاف عبدہ۔ معاصی کی وجہ سے قلب اندھا اور بہرہ ہو جاتا ہے مگر معالج روحانی کے علاج سے یہ امراض دور ہو جاتے ہیں۔ وہ قلب سقیم سے قلب سلیم بہرہ ہو جاتا ہے اور اخروی فلاح کے لئے راس المال بن جاتا ہے۔
یوم لا ینفع مال و لابنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم
اس روز نہ مال کام آئے گا نہ اولاد ہاں مگر اللہ کے پاس جو شخص پاک دل لے کر کر آئے۔
قلب کے سلیم ہونے کے لئے دو شرائط ہیں۔ اول صحت از امراض۔ قرآن مجید نے قلب کے امراض کفر‘ شرک‘ شک اور خواہشات نفسانی کی اتباع کو قرار دیا ہے۔ ان امراض سے صحت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ کسی روحانی معالج سے علاج کرایا جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ قلب کو غذائے صالح بہم پہنچائی جائے جس طرح غذائے صالحہ سے جسم انسانی صحت مند اور قوی ہو جاتا ہے اسی طرح قلب کی صحت اور قوت کیلئے بھی غذائے صالح درکار ہے مگر قلب کی غذا جسم کی غذا سے مختلف ہے۔ قلب کیلئے غذائے صالح کی نشاندہی یوں کی گئی ہے۔ قال اللہ تعالیٰ:
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
سنو ذکر الٰہی سے ہی قلوب مطمئن ہوتے ہیں۔
علاج قلب اور غذائے قلب عارفین کاملین کے بغیر کہیں سے نہیں ملتی۔
شیخ کامل کے لئے ضروری ہے کہ وہ:
۱۔ عالم ربانی ہو کیونکہ جاہل کی بیعت ہی سرے سے حرام ہے۔
۲۔ صحیح العقیدہ ہو کیونکہ فساد عقیدہ اور تصوف و سلوک کا آپس میں کوئی رشتہ ہی نہیں۔
۳۔ متبع سنت رسولﷺ ہو کیونکہ سارے کمالات حضور اکرمﷺ کے اتباع سے حاصل ہوتے ہیں۔
۴۔ شرک و بدعت کے قریب بھی نہ جائے کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے اور بدعت ضلالت و گمراہی ہے۔
۵۔ دنیا دار نہ ہو کیونکہ ایک دل میں دو محبتیں جمع نہیں ہو سکتیں۔
۶۔ علم تصوف و سلوک میں کامل ہو کیونکہ جس راہ سے واقف نہ ہوگا اس پر گامزن کیسے ہو سکتا ہے۔
۷۔ شاگردوں کی تربیت باطنی کے فن سے واقف ہو اور کسی ماہر فن سے تربیت پائی ہو۔
۸۔ حضور نبی کریمﷺ سے روحانی تعلق قائم کر دے جو بندے اور خدا کے درمیان واحد واسطہ ہیں۔
(********************)
جسم انسانی میں دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو حیات جسمانی کو رواں دواں رکھتا ہے۔ جس گناہوں سے بھی زیادہ شدت سے حرام ہیں اور نماز روزہ اور زکوٰۃ سے زیاہ اہم فرائض ہیں کیونکہ ہر وہ عبادت جس میں خلوص نیت نہ ہو‘ بے فائدہ ہے اور خلوص ہی کا نام تصوف ہے۔‘‘
تصوف کے باب میں امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’جیسی باقی علوم فرض ہیں اسی طرح علم سلوک بھی فرض ہے جو علم احوال قلب ہے جیسے توکل‘ خشیت‘ رضا باالقضاء۔
دراصل اہل تصوف ہی اہل اللہ ہوتے ہیں:
(۱) اولیاء اللہ کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک مجرب ذریعہ ہے۔
(۲) اولیاء اللہ کے پاس کامیاب نسخہ ذکر الٰہی کی تلقین اور اس کا طریقہ سکھانا ہے۔
(۳) ذکر الٰہی کی کثرت اور اولیاء اللہ کی صحبت سے انسان کے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ کبھی بدبخت ہو کے نہیں مرتا۔
(۴) اولیاء اللہ سے دشمنی خدا سے دشمنی ہے۔ حضرت تھانویؒ نے ایک بار فرمایا تھا: ’’اولیاء اللہ سے دشمنی کفر تو نہیں مگر توہین کرنے والے مرتے کفر پر ہی ہیں۔‘‘
موضوع تصوف اصلاح باطن ہے اور اس کا مدار اصلاح قلب پر ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ’’جسم انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم درست ہو گیا اور اگر وہ بگڑا تو سارا جسم بگڑا‘ سنو وہ قلب ہے۔‘‘
ہر انسان کے سینے میں ایک ہی دل ہے اور وہی محل تجلیات باری کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے باری تعالیٰ اس میں غیر کا قبضہ پسند نہیں فرماتا۔ جب قلب تجلیات باری کا مسکن بن جاتا ہے تو تمام رذائل‘ ذلیل ہو کر چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب قلب کی پورے طور پر اصلاح ہو جاتی ہے تو غیر اللہ کا اس میں گزر نہیں ہوتا اور ولی اللہ کہہ اٹھتا ہے‘ الیس اللہ بکاف عبدہ۔ معاصی کی وجہ سے قلب اندھا اور بہرہ ہو جاتا ہے مگر معالج روحانی کے علاج سے یہ امراض دور ہو جاتے ہیں۔ وہ قلب سقیم سے قلب سلیم بہرہ ہو جاتا ہے اور اخروی فلاح کے لئے راس المال بن جاتا ہے۔
یوم لا ینفع مال و لابنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم
اس روز نہ مال کام آئے گا نہ اولاد ہاں مگر اللہ کے پاس جو شخص پاک دل لے کر کر آئے۔
قلب کے سلیم ہونے کے لئے دو شرائط ہیں۔ اول صحت از امراض۔ قرآن مجید نے قلب کے امراض کفر‘ شرک‘ شک اور خواہشات نفسانی کی اتباع کو قرار دیا ہے۔ ان امراض سے صحت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ کسی روحانی معالج سے علاج کرایا جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ قلب کو غذائے صالح بہم پہنچائی جائے جس طرح غذائے صالحہ سے جسم انسانی صحت مند اور قوی ہو جاتا ہے اسی طرح قلب کی صحت اور قوت کیلئے بھی غذائے صالح درکار ہے مگر قلب کی غذا جسم کی غذا سے مختلف ہے۔ قلب کیلئے غذائے صالح کی نشاندہی یوں کی گئی ہے۔ قال اللہ تعالیٰ:
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
سنو ذکر الٰہی سے ہی قلوب مطمئن ہوتے ہیں۔
علاج قلب اور غذائے قلب عارفین کاملین کے بغیر کہیں سے نہیں ملتی۔
شیخ کامل کے لئے ضروری ہے کہ وہ:
۱۔ عالم ربانی ہو کیونکہ جاہل کی بیعت ہی سرے سے حرام ہے۔
۲۔ صحیح العقیدہ ہو کیونکہ فساد عقیدہ اور تصوف و سلوک کا آپس میں کوئی رشتہ ہی نہیں۔
۳۔ متبع سنت رسولﷺ ہو کیونکہ سارے کمالات حضور اکرمﷺ کے اتباع سے حاصل ہوتے ہیں۔
۴۔ شرک و بدعت کے قریب بھی نہ جائے کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے اور بدعت ضلالت و گمراہی ہے۔
۵۔ دنیا دار نہ ہو کیونکہ ایک دل میں دو محبتیں جمع نہیں ہو سکتیں۔
۶۔ علم تصوف و سلوک میں کامل ہو کیونکہ جس راہ سے واقف نہ ہوگا اس پر گامزن کیسے ہو سکتا ہے۔
۷۔ شاگردوں کی تربیت باطنی کے فن سے واقف ہو اور کسی ماہر فن سے تربیت پائی ہو۔
۸۔ حضور نبی کریمﷺ سے روحانی تعلق قائم کر دے جو بندے اور خدا کے درمیان واحد واسطہ ہیں۔
(********************)پتی تصوف کے مقام اور اہمیت کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں:
جسم انسانی میں دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو حیات جسمانی کو رواں دواں رکھتا ہے۔ جسطرح بدن کے اعضائے رئیسہ میں دل سب سے اہم عضو ہے‘ اسی طرح جب روح کی بات ہو تو یہاں دل کی بجائے قلب مراد ہے جو روح کے اعضائے رئیسہ یعنی قلب‘ روح‘ سری‘ خفی اور اخفیٰ میں سے اہم ترین ہے۔ قلب لطیفہ ربانی ہے جو سنتا ہے اور دیکھتا ہے۔ قلب باشعور ہے‘ تفقہ اور تدبر کرنے والا۔ جب یہ منور ہوتا ہے تو انسان کے نصیب سنور جاتے ہیں۔ قلب بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ‘ یہاں تک کہ اس کی ہر دھڑکن‘ چاہت‘ جذبے اور محبتیں اللہ تعالیٰ کے لئے وقف ہو جاتی ہیں۔
ذکر قلبی مکتب طریقت کا پہلا سبق ہے۔ ذکر اسم ذات بطریق پاس انفاس یعنی ذکر اسم ذات اللہ اللہ قلب میں کیا جائے لیکن اس تسلسل کے ساتھ کہ کوئی سانس اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہو۔ یعنی ہر سانس کے ساتھ ذکر قلبی کا ربط قائم رہے۔ مکمل یکسوئی اور توجہ کے ساتھ ہر سانس کی آمد و رفت پر اس طرح گرفت ہو کہ ہر داخل ہونے والی سائنس کے ساتھ اسم ذات اللہ دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا جائے اور ہر خارج ہونے والی سانس کے ساتھ قلب پر ھو کی چوٹ لگے۔ اس طرح سانس کی آمد و رفت کے ساتھ قلب میں اللہ ھو کا ذکر ایک تسلسل کے ساتھ شروع ہو جائے۔ سانس کی نگرانی کے اس عمل کو پاس انفاس کہتے ہیں۔
قوت اور تیزی کے ساتھ کچھ دیر ذکر کرنے کے بعد اب پھر سانس طبعی طور پر لیا جائے لیکن توجہ بدستور قلب پر مرکوز رہے۔ پاس انفاس کی صورت اس حال میں بھی برقرار رہے یعنی کوئی سانس اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہو۔ چند یوم صبح شام مسلسل ذکر کے بعد ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ذکر اسم ذات یعنی اللہ شعوری اور غیر شعوری ہر حالت میں قلب کا مستقل وظیفہ بن جائے گا۔ ذکر کی یہ حالت ذکر دوام کہلاتی ہے اور صوفیاء کی اصطلاح میں اسے قلب کے جاری ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک کیفیت ہے جس کے حصول کے لئے اہل اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا پڑتا ہے۔
اس ساری عمل میں توجہ وہ موثر اور فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جس کے بارے میں بجا طور پر کہا گیا:
نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
توجہ وہ قوت یا تصرف ہے جس کے ذریعے مکتب طریقت کے مبتدی طالب علم کے قلب کو اخذ فیض کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ توجہ کا منبع قلب شیخ ہوتا ہے اور اس کا نقطۂ ارتکاز سالک کا قلب ہے۔ توجہ کا مقصد اصلاح باطن ہے لیکن شیخ کامل کی توجہ سے مستفید ہونے کے لئے قلب کا طالب ہونا بھی ضروری ہے۔ انابت سے محروم قلب کے لئے شیخ کامل کی توجہ بھی پتھریلی چٹان پر برسنے والی بارش کی طرح بے اثر ثابت ہوتی ہے۔
شیخ کی یہ بانی قوت یا توجہ دراصل صحبت برکات نبویﷺ کی ایک انعکاسی جھلک ہے۔ ایمان کے ساتھ جو شخص بھی صحبت نبویﷺ میں حاضر ہوا‘ اک نگاہ کے ساتھ برکات صحبت اس کے قلب میں اتر گئیں اور وہ ولایت کے بلند ترین مقام صحابیت پر فائز ہوا۔ صحابہ کرام کی نگاہ پراثر سے تابعین بنے اور پھر تابعین کی نگاہ سے تبع تابعین کی جماعت تیار ہوئی۔ اس کے بعد اہل اللہ کے ذریعے یہ ولایت بٹتی چلی گئی۔
سالکین کو نوید ہو کہ شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ 25 سال تک قلزم فیوضات حضرت مولانا اللہ یار خانؒ سے فیض حاصل کرتے رہے اور اب 25 سال سے نورِ نبوت سے مخلوق کے قلوب کو منور کر رہے ہیں۔ 40 سے زائد کتب اور تفاسیر کے مصنف ہیں۔ ان کا فرمان ہے: ’’میں صرف اللہ کا محتاج اور صرف اسی کا عاجز بندہ ہوں۔ ہاں میں نے عمر لگائی ہے اللہ اللہ سیکھنے میں اور اللہ کا احسان ہے کہ مجھے برکات نبویﷺ کی ترسیل کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔‘‘ مشائخ اویسیہ بارگاہِ نبوتﷺ کے منتخب خادم ہوتے ہیں جو بانٹتے نہیں لٹاتے ہیں۔ طالب الٰہی کو ایک پل میں احدیت‘ معیت‘ اقربیت‘ فنا بقا‘ سیر کعبہ اور فنا فی الرسول میں پہنچا دینا کیا معمولی بات ہے کہ صدیوں کے سینے چیر کر کسی کو آقائے نامدارﷺ کے روبرو کر دیا جائے۔ اس بات پر تو ہزاروں بار جان ملے تو لٹائی جا سکتی ہے۔
حضرت امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کلرکہار سے 23 کلومیٹر کے فاصلے پر دارالعرفان منارہ میں قلوب کی سرزمین میں اللہ کی محبت کا بیج بو رہے ہیں اور سالکین کی روحانی تربیت میں مشغول ہیں۔ کی آپ اپنا دامن اس نعمت سے بھرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کو برکات نبویﷺ کی پیاس ہے؟ اگر ہے تو پھر دیر کیوں؟
صلائے عام ہے یاران نقطہ دان کے لئے
(میجر غلام قادری)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔