ANTI-ADBLOCK JS SYNC مراقبہ(حصہ دوم) ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

مراقبہ(حصہ دوم)

مراقبہ کے فوائد ایک نظر میں
مراقبہ، ذہن کو حالت ِصحت میں رکھنے، دل کی حالت کو متوازن بنانے، نفس کی سرکشی کے زور کو توڑنے، روح کو روح مطلق ہستی کے انوار حسن سے بہرہ یابی کا موقعہ دینے اور اسے اس کی مطلوبہ غذا دینے کا ذریعہ ہے۔ پھر یہ مراقبہ زندگی کو خوشگوار بنانے، دنیا کی گندگی کے ڈھیر سے دل کو آلودہ ہونے سے بچانے، جملہ نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں سے بچانے، کردار کو پاکیزہ بنانے اور انسانی جوہروں سے فیضیاب ہونے، انسانیت کے درد سے آشنا ہونے، فانی دنیا سے دل نہ لگانے، اللہ کے بندوں سے بے غرضانہ محبت کرنے، ان کے دکھ و درد میں شریک ہونے، انسانیت کی حالت زار پر کڑھتے رہنے اور  اس حالت کی بہتری کے لئے دعائوں کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ اس سلسلہ میں اپنے حصہ کا کردار ادا کرنے اور آخرت میں خدا سے ملاقات کے استحضار کو غالب کرنے اور اسلامی شریعت کے معاملہ میں حساسیت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
لیکن فرد افراد میں مراقبہ کی یہ ساری خصوصیات مستحکم ہوجائیں، اس کے لئے مسلسل عمل سے مراقبہ کے ملکہ میں رسوخ حاصل کرنا پڑتا ہے، اور اسے مزاج کا حصہ بنانا پڑتا ہے، اس طرح کہ مراقبہ کے بغیر چین ہی نہ ہوسکے۔
مراقبہ کی یہ حالت جب فنائے نفس کے مقام پر پہنچتی ہے تو یہ ساری خصوصیات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اس حالت پر رسائی سے پہلے فرد کو اس راہ میں مسلسل چلنا پڑتا ہے۔ اگرچہ متوسط طالب کو بھی ان خصوصیات میں سے بڑا حصہ ملنے لگتا ہے اور مبتدی طالب کو بھی مراقبہ کی کچھ سعادتوں سے بہرہ وری نصیب ہونے لگتی ہے، لیکن اسے کیفیات کے بہت زیادہ، دل بدل سے گزرنا پڑتا ہے اور روزانہ نفس کے خوفناک دیو سے مقابلہ کرکے، حوصلہ شکن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ صحبت سے اس کے حالات میں رفتہ رفتہ بہتری ہونے لگتی ہے۔
مراقبہ کیسے ہو؟ سوال کا جواب
جو مراقبہ اس طرح کی غیر معمولی سعادتوں کا حامل ہو، اس کے بارے میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ آخر وہ کیسے ہو؟ اس سلسلہ میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ مراقبہ، نظری نوعیت کا معاملہ نہیں ہے،بلکہ یہ خالص عملی مسئلہ ہے۔ بچہ کو الف ب کا قائدہ سکھانے اور پرائمری سے پانچویں کلاس تک کی کتابوں کی تعلیم کے لئے مسلسل استاد کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ استاد کی رہنمائی کے بغیر اس کے لئے الفاظ کی نوعیت، ان کی ادائیگی اور ان کے زیر وبم کو سمجھنا دشوار ہی نہیں، ناممکن ہے۔ یہی صورت یہاں بھی ہے۔
اگرچہ فطرت میں محبوب حقیقی کے ساتھ محبت کے بے پناہ جذبات موجزن ہیں، لیکن غلط تربیت اور ماحول کے غلط اثرات اس فطرت کو بڑی حد تک مضمحل کردیتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ فرد و افراد کا دل، محبوب کے لئے غیر محسوس طور پر مضطرب رہنے لگتا ہے اور اﷲ نے دل کی تصویر ہی اپنے نام پر بنائی ہے۔ ہر شخص کے دل پر ڈیزائن سے اﷲ کا نام (اسم ذات) لکھا ہوا ہے۔ اس لئے فرمایا گیا ’’الا بذکراللہ تطمئن القلوب‘‘ (بیشک دلوں کو سکون اﷲ کے ذکر سے ہی حاصل ہوتا ہے)۔
ذکر و مراقبہ کی شرعی اہمیت
مراقبہ، دراصل ذکر کی اعلیٰ صورت ہے۔ ایک حدیث میں قلبی ذکر کو جہری ذکر سے ستر گنا زیادہ افضل قرار دیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مراقبہ میں ذہن اور دل کی ساری توانائیاں اﷲ کے انوار حسن کی طرف متوجہ ہوکر، اس حسن سے بہرہ ور ہوتی ہیں۔ قرآن میں دل کی فیصلہ کن اہمیت پر غیر معمولی زور دیا گیا ہے۔ غفلت کے نتیجہ میں دل پر مہر لگانے کا بھی بار بار ذکر ہے (بل طبع اللہ علیٰ قلوبھم)۔ دل کے مرض کا بھی ذکر ہے ’’فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا‘‘ (ان کے دلوں میں بیماری ہے اللہ نے ان کی اس بیماری میں مزید اضافہ کر دیا) تقویٰ کا مرکز بھی دل ہی کو بتایا گیا ہے۔ ’’ومن یعظم شعائراللہ فانھا من تقویٰ القلوب‘‘ (جو اللہ کی شعائر کی تعظیم کرے گا تو بے شک یہ دلوںکا تقویٰ ہے) قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے بھی تقویٰ کی استعداد کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ھدی للمتقین یہ قرآن متقین کے لئے ہدایت ہے۔ اگر دل میں تقویٰ کی صفت موجود نہ ہوگی تو قرآن پڑھتے رہنے کے باوجود ہدایت کا حاصل ہونا دشوار ہوگا، اس لئے کہ تقویٰ کی ابتدائی استعداد کے بغیر قرآن سے اپنے عالم ہونے کا زعم اور دعویٰ پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ایمان کا تعلق بھی دل سے بتایا گیا ہے۔ قالت الاعراب آمنا قل لن تومنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم(دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، ان سے کہو کہ تم ابھی ایمان نہیں لائے ہو،بلکہ تم نے اسلام قبول کیا ہے۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔)
ایمان کی گہرائی ہو یا ہدایت کے لئے راستہ کا کھلنا، تقویٰ کا حصول ہو یا قرآن سے فیض رسانی کی استعداد کا سوال، ان سب کا تعلق، دل پر لگے ہوئے تالوں کے کھلنے، دل کی ضایع شدہ بینائی کی بحالی، دل کی بیداری اور دل کو مستعد کرنے سے ہے، اور اس کی سب سے بہتر اور محفوظ صورت اہل اللہ کی معیت میں ذکر و مراقبہ کی راہ اختیار کرنا اور اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہنا ہے۔
قرآن نے ایسے لوگوں کے لئے ہلاکت کی وعید سنائی ہے، جن کا دل اللہ کے ذکر کے سلسلہ میں سخت ہے اور اس کی طرف آنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ فویل للقٰسیات قلوبھم من ذکراللہ۔
قرآن نے ایک جگہ فرمایا ہے ’’ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھوٰہ وکان امرہ فرطا‘‘ (اور ایسے شخص کا کہا نہ مانئے جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر رکھا ہے، اور وہ خواہشات (نفس) کا پیروکار ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے)۔
اس آیت میں یہ بات واضح فرمائی گئی کہ دل کا اللہ کے ذکر سے غفلت کا لازمی نتیجہ خواہشات نفس کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے شخص کی بات اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ اسے اہمیت دی جائے۔
مراقبہ دراصل دل کی نگرانی کی سب سے بہتر صورت ہے کہ اس میں غیراللہ داخل نہ ہونے پائے اور نفس کے اثرات کی صورت میں اس میں غیراللہ کی جو شکل طاقتور صورت اختیار کر گئی ہے، اسے مجاہدوں سے نکالا جائے اور جب طویل عرصہ کے مجاہدوں سے یہ بڑی حد تک نکل جائے تو اس کے بعد بھی دل کی نگرانی کرتے رہنا ہے کہ نفس کے یہ اثرات پھر عود کر نہ آئے۔
ذکر و مراقبہ کی تاکید کے پس پردہ اصل حکمت
دین کے حوالے سے جتنے بھی اہم کام ہیں، ان سارے کاموں کی سر انجامی کے سلسلہ میں قرآن نے ذکر سے سہارا لینے کا حکم فرمایا ہے۔ حالانکہ وہ کام خود دین کا حصہ ہیں۔ مثلاً اللہ کے لئے کفار سے مقابلہ کرنے کی حالت کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔
’’یاایھاالذین اٰمنوا اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا واذکراللہ کثیرا۔‘‘
(اے ایمان والو، جب تمہارا کفار سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور (اس وقت بھی) اللہ کا کثرت سے ذکر کرو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت کے منصب پر فائز کرتے وقت فرمایا جا رہا ہے۔ اذھب انت واخوک بایٰاتی ولا تنیا فی ذکری (تو اور تیرے بھائی میری آیتیں لیکر (فرعون کے پاس) جائو لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ذکر سے غافل ہو)۔
ذکر کی اس غیر معمولی اہمیت کی حکمت بعض مفسروں کی رو سے یہ ہے کہ دنیا کے ہر کام کے وقت چاہے دینی اعتبار سے اس کام کی کتنی ہی اہمیت ہو، فرد کی نگاہ اور توجہ اس کام کی طرف مبذول ہوجاتی ہے، جس سے اخلاص متاثر ہوسکتا ہے۔ اخلاص اور للھٰیت کو قائم رکھنے کے لئے ذکر کا سہارا لینے کی تاکید کی گئی ہے۔
مراقبہ چونکہ ساری توجہات کو اللہ کی طرف مرتکز کرنے کا ذریعہ ہے، اس لئے اسم ذات کا مراقبہ ذکر کے اس حکم کی سر انجامی کی بہتر صورت ہے۔
ذکر و فکر کے ساتھ جسمانی مجاہدے
اصلاح نفس کے لئے عام طور ذکر و فکر کے مجاہدے کافی ہوتے ہیں۔ لیکن بعض طبائعٖ ایسی ہوتی ہیں، جو حب جاہ و حب مال سے سرشار ہوتی ہیں۔ اور ذکر و فکر کے مجاہدوں سے ان کی اصلاح نہیں ہوتی۔ بلکہ ذکراور مراقبوں کی کثرت سے ان میں بڑے پن اور دعویٰ کا مرض پیدا ہونے لگتا ہے، اور دوسروں کی تحقیر کی نفسیات پختہ ہونے لگتی ہے۔
اس طرح کی صورتحال میں ان سے وقتی طور پر ذکر و مراقبات چھڑواکر،انہیں جسمانی مجاہدوں کی راہ پر لگایا جاتا ہے۔ بزرگوں کے ہاں روحانی مجاہدوں کے ساتھ جسمانی مجاہدے بھی معمول رہے ہیں۔ مثلاً دعویٰ کا مریض اگر عالم، خطیب اور درس و تدریس کا صاحب ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ وہ سال دوسال کے لئے یہ کام چھوڑ کر یا تو گمنامی کی صورت اختیار کرے یا پھر وہ مدرسہ و خانقاہ میں آنے والے لوگوں کے جوتے درست کرتا رہے۔ مسجد وخانقاہ کی جھاڑو دینے و صفائی کرنے کا کام سر انجام دیتا رہے۔ خانقاہ میں آنے والے مہمانوں کے برتن دھونے کی خدمت سر انجام دیتا رہے۔ دوچار ماہ تک یہ خدمت سر انجام دینے کے بعد اگر اس کی دعویٰ کی نفسیات ختم ہوئی ہے توٹھیک ہے، ورنہ اسے مزید کئی ماہ تک اس کام پر لگایا جاتا تھا۔
اگر وہ صاحب علم زیادہ بولنے کا مریض ہے تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ دوچار ماہ تک بولنا بند کردے، کام کاج کے سلسلہ میں جو بھی گفتگو کرنی ہے، وہ تحریری صورت میں کرے۔
اگر وہ طالب،مالدار ہے اور اس کے اندر حب مال کا مرض شدت کے ساتھ موجود ہے تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنا بیشتر مال بغیر کسی تشہیر کے غریبوں میں تقسیم کردے۔ اگر براہ راست تقسیم کرنے سے شہرت کا خطرہ ہے تو کسی دوست کے ذریعہ سے یہ فریضہ سر انجام دے۔
اگر حب جاہ کا مریض طالب لکھنے پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ کچھ عرصہ کے لئے یہ کام چھوڑ دے۔ اگر طالب میں اپنے ہمعصر افراد کے ساتھ حسد وجلن کی نفسیات غالب ہے تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ ساتھیوں کی مجلس میں ان کی تعریف کرتا رہے، اگرچہ تعریف تکلف اور بے دلی سے ہی کیوں نہ ہو، نیزوہ ان کے نام لیکر ان کے لئے دعائے خیر کرتا رہے۔
اگر طالب میں غصہ کی نفسیات غالب ہے اور عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے اس کے تعلقات منقطع ہیں تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ جاکر ان سب سے معافی مانگ لے۔
بزرگوں کے ہاں اصلاح کی طلب کے لئے آنے والے سچے طالبوں کی اصلاح  نفس  کے لئے یہ مجاہدے مروج رہے ہیں۔ چونکہ اُس دور میں افراد میں اصلاح کی حقیقی طلب موجود تھی، اس لئے باصلاحیت افراد ، معاشرہ کو اپنے نفسی فساد سے بچانے اور آخرت میں رسوائی سے بچنے کے لئے ان مجاہدوں سے کام لیتے تھے۔ اس طرح ہماری سیاست، ہماری تجارت، ہماری درسگاہیں ہماری حکومتی مشنری اور ہمارے خاندان، افراد کی نفسی خرابیوں سے بڑی حد تک محفوظ رہتے تھے اور مسلم معاشرہ اپنی ساری خرابیوں کے باوجود وحدت ورواداری اور ایک دوسرے کی تکریم اور غریبوں کی پرسانِ حالی کا منظر پیش کرتا تھا۔ لیکن اب معاشرہ کی جو حالت ہے، وہ یہ ہے کہ اول تو افراد میں اصلاح کی حقیقی طلب موجود نہیں ہے۔ اگر موجود بھی ہے تو افراد،جسمانی مجاہدوں کے لئے تیار نہیں۔ وہ یا تو سطحی نوعیت کی اصلاح پر اکتفا کرتے ہیں یا پھر بزرگ بن کر پیری مریدی کی لائین اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس حوالے سے مالدار بننا چاہتے ہیں۔
طالب اگر ذکر و مراقبہ میں مداومت اختیار کرے اور صاحب دل شخصیت سے مستقل رابطہ رکھے تو ذکر و مراقبہ میں خود اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ نفس کی ایک ایک خرابی کو دور کرکے، فرد کو نفس مطمئنہ تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس لئے کہ ذکر و فکر کے ساتھ طالب پر محبوب کی جلالی تجلیات کی تلواریں بھی مسلسل لٹکتی رہتی ہیں۔ ان تلواروں سے اس کے نفس اور قلب پر جو تیر لگتے ہیں، ان تیروں سے نفس بالآخر مہذب بن جاتا ہے، لیکن یہ کام طویل جدوجہد کا طالب ہے۔ جسمانی مجاہدوں سے یہ ہوتا ہے کہ ذکر و فکر کے غیر معمولی مجاہدوں کے بغیر ہی طالب کی اصلاح ہونے لگتی ہے۔
مراقبہ
مادی لذتوں سے دستبرداری کی صورت
مراقبہ یعنی اللہ کے اسم ذات کے قلبی ذکر (میں مداومت) میں یہ ساری خصوصیات موجود ہیں۔ مراقبہ کے ذریعہ جب اندر میں ڈوب کر اللہ کے انوار حسن سے بہرہ وری کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو فرد مادی دنیا کی ساری لذتوں، ہائے دنیا کی حسرتوں، سامان دنیا کے ارمانوں، دوسروں سے آگے بڑھنے، اپنے پیچھے رہ جانے کے احساسات، مالدار سے مالدار تر بننے کے جنون، اور مادی حسن سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے اور شیاطین جن وانس کے مکر وفریب اور ان کے اغوٰی سے بڑی حد تک محفوظ ہوجاتا ہے۔ مراقبہ کی یہ خاصیت ایسی ہے، جو ساری سعادتوں کی روح ہے۔
خالق کائنات جو اللہ کے نام سے موسوم ہے، اس کے اسم ذات کے قلبی ذکر میں جب مداومت ہوجاتی ہے تو فرد وافراد کی نظر میں ساری دنیا ہیچ ہوجاتی ہے اور دنیا کے سارے مصائب اور وسائل بے معنیٰ ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کہ محبوب حقیقی بندہ مؤمن کے قلب پر اپنے حسن کی ایسی تجلیات وارد کرتا ہے، جس سے اس کا دل سیر ہوجاتا ہے اور وہ خوشی ومسرت کے لازوال احساسات سے سرشار ہوجاتا ہے، اس پر دوسری دنیا کے ایسے راز واسرار افشاں ہونے لگتے ہیں، جس سے وہ اپنے آپ کو اس دنیا کا نہیں دوسری دنیا، پاکیزہ دنیا، جنت نما دنیا کا فرد شمار کرنے لگتا ہے۔
مراقبہ
 اطاعت میں آسانی کا ذریعہ
مراقبہ، فرد کے نفس کو اس سطح پر لاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا اور اس کے رسول کے سپرد کرنے لگتا ہے۔ اس کے لئے اطاعت آسان کر دی جاتی ہے اور نافرمانی دشوار تر۔
مراقبہ، فرد کی دینی حمیت کو اس طرح بیدار کر لیتا ہے کہ وہ باطل اور باطل کی ساری صورتوں کو اپنے لئے چیلنج سمجھنے لگتا ہے۔ اور باطل کے خلاف جدوجہد میں وہ سب سے آگے ہوتا ہے، اگر نامساعد حالات کی وجہ سے وہ اس سلسلہ میں کچھ کرنے سے قاصر ہوتا ہے تو اس سلسلہ میں اس کے دلی جذبات قابل دید ہوتے ہیں۔
مراقبہ
 اللہ کی بے کس مخلوق کو اپنی دولت میں حصہ دار بنانے کا ذریعہ
مراقبہ، فرد کے ایمان کو اس حالت تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ ضرورت سے زائد دولت کو اللہ کی بے کس اور مفلس مخلوق پر صرف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے اللہ کی مخلوق کی روٹی کے لئے محتاجی کی حالت کو دیکھنا ہی شدید اذیت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اللہ کی محبت کا زاردان فرد جب یہ دیکھتا ہے کہ اللہ کی مخلوق کو سرچھپانے کے لئے جگہ نہیں ہے تو اس طرح کی صورتحال میں وہ اپنے لئے قیمتی اور بہتر مکان بنانے کا روادار نہیں ہوتا، اس کا ضمیر یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ وہ مفلسوں کو جھوپڑیوں میں رہتے ہوئے ایسا کر سکے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کا ملفوظ ہے کہ صوفی کی جان ومال لوگوں کے لئے مباح ہے۔
مراقبہ، فرد کی معاشی جدوجہد کو معطل کرنے کی بجائے اس میں اعتدال اور توازن پیدا کرتا ہے۔ مراقبہ کا حامل فرد و روزی کے لئے اس لئے سرگرم ہوتا ہے تاکہ ایک طرف تو وہ بچوں کی بہتر گزر بسر وتعلیم کا انتظام کر سکے، دوم یہ کہ اضافی آمدنی سے اللہ کی بے کس مخلوق سے معاونت کر سکے۔
مراقبہ
 خود احتسابی کا بہترین ذریعہ
مراقبہ، اندر میں ڈوب کر اندر کی وسیع تر دنیا کے مشاہدہ کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ مبتدی طالب جب اپنے روحانی استاد کے ذریعہ اندر میں ڈوبنے کا سفر شروع کرتا ہے تو وہ یہ دیکھکرسہم جاتا ہے اور خوف زدہ ہوجاتا ہے کہ دریائے نفس میں موجود بڑے بڑے مگرمچھ اسے نگلنے کے لئے دوڑے آرہے ہیں۔ نیز نفس کے وسیع تر جنگل میں خوفناک درندے اس پر حملہ ہوکر، اسے چیرپھار ڈالنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، نفس کی ان خوفناک داخلی قوتوں کو مشتعل حالت میں دیکھکر مبتدی طالب ڈرجاتا ہے اور مراقبہ کے ذریعہ اندر میں مزید ڈوبنے سے گریز اختیار کرنے لگتا ہے، لیکن ایک تو مرشد کی صحبت ومعیت اسے تسلی دینے لگتی ہے کہ یہ مگرمچھ اور درندے ایسے ہیں، جن کے مقابلہ کے لئے اس کے اندر موجود باطنی قوتیں کافی ہیں۔ مجاہدوں کے ذریعہ یہ باطنی قوتیں جوں جوں بیدار ہوتی جائیں گی، نفس کے یہ درندے اسی مناسبت سے راہ فرار اختیار کرتے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالب کی رہنمائی کے لئے ملکوتی قوتیں بھی سامنے آکر طالب کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنتی رہتی ہیں، اس طرح خود احتسابی کا یہ سفر آگے بڑھتا ہے۔
اس سفر کے دوران طالب کو عرصہ تک شب وروز یہ تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ اس سے سر زد ہونے والے شب وروز کے اعمال میں نفسی قوتوں کی مداخلت بے پناہ ہے، اور ساری کاوشوں اور مجاہدوں کے باوجود نفسی قوتوں سے گلو خلاصی کی صورت پیدا نہیں ہوپاتی۔ طالب حیران وپریشان ہوتا ہے کہ معلوم نہیں، اس کی اصلاح کی صورت بھی پیدا ہوگی یا ساری زندگی نفس کی طوفانی موجوں سے مقابلہ اور ان موجوں کے ذریعہ زیر وزبر ہوتے رہنے میں بسر ہوگی، اس طرح کی جھجھلاہٹ کے ہر اہم مرحلہ پر محبوب حقیقی کی طرف سے طالب کے قلب پر انوار حسن کی ایسی جھلک ڈال دی جاتی ہے جس سے اس کی بے حوصلگی، جھجھلاہٹ اور گومگو کی ساری کیفیت ختم ہو کر، خود اعتمادی کی کیفیت غالب ہونے لگتی ہے۔
طالب، مراقبہ کے ذریعہ جو سفر کرتا ہے، اس میں اسے قدم قدم پر نفس کی خود فریبی کی نئی نئی واردات کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، کبھی اس پر خودنمائی کا شدید تر حملہ ہوتا ہے تو کبھی مادی حسن پر فریفتگی کی واردات طاری ہوتی ہیں۔ کبھی وہ حب مال کے جذبہ سے مغلوب ہوتا ہے تو کبھی حب جاہ کے جذبات اس کے ذہن کو مفلوج کردیتے ہیں۔ کبھی اپنے عزیز واقارب اور دوست واحباب (جن سے اسے شکایات لاحق ہیں) انہیں اذیت پہنچانے اور تذلیل کرنے کے وسوسے گھیر لیتے ہیں تو کبھی دوسروں پر برتری حاصل کرنے کے جذبات میں وہ بہہ جاتا ہے۔ کبھی معاشی طور پر بے یقینی کی کیفیت اسے گھیر کر، غیر اللہ کا سہارا لینے کی طرف لے جاتی ہے تو کبھی اہل اللہ کے بارے میں اس کا تذبذب غالب ہونے لگتا ہے۔ لیکن مراقبہ کے مسلسل عمل اور ذکر کی برکت سے کچھ تو یہ جذبات دب جاتے اور مدہم ہوجاتے ہیں۔ کچھ اندر سے خارج ہونے لگتے ہیں۔
نفس کے خلاف معرکہ آرائی کے ان سارے حالات اور اس ساری جدوجہد میں طالب اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کے سپرد کردیتا ہے اور اسے قدم قدم پر اس بات کا بھی مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ اگر خدا کا فضل خاص شامل نہ ہوتا تو اس کے لئے نفس کے ان درندوں سے بچنے کی کوئی صورت موجود نہیں تھی اور خدا نے اپنے فضل کو طلب والوں اور رجوع ہونے والوں کے ساتھ ہی مخصوص کیا ہوا ہے۔
مراقبہ اندر میں ڈوب کر اندر سے ہر قسم کا گند کچرہ نکال کر ان جوہری قوتوں کو اجاگر کرتا ہے، جن کے اجاگر ہوجانے سے فرد مادی مخلوق ہونے کے باوجود جوہری مخلوق اور اشراف المخلوقات کا حصہ بن جاتا ہے۔
مراقبہ ’’وفی انفسکم افلا تبصرون‘‘(ہماری نشانیاں تمہارے اندر ہیں، تم آخر دیکھتے کیوں نہیںہو) ونحن اقرب الیہ من حبل الورید(اور ہم تم سے تمہاری رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں) کی قرآنی آیتوں کی رہنمائی میں محبوب حقیقی تک رسائی کا سفر ہے۔ جس طرح سائنسدان لیبارٹری میں اشیاء کی خصوصیات کے تجزیہ وتحلیل کے ذریعہ کائنات کو مسخر کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے، اسی طرح صوفی مراقبہ کے ذریعہ اندر میں موجود وسیع تر دنیا کا مطالعہ ومشاہدہ کرکے، نفسی قوتوں کے تجزیہ وتحلیل کے ذریعہ انہیں مفتوح کرتا ہے اور اندر سے انسانیت کے ایسے جوہر بے بہا اپنے ساتھ لاتا ہے، جس سے اس کی شخصیت انسانوں کے لئے ماڈل حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور وہ اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں انسانی معاشرہ کو حیوانی معاشرہ کی صورت اختیار کرنے سے بچانے کا کردار ادا کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خود احتسابی سے کام لینا اور اپنے نفس کا خود احتساب کرنا حاسبو قبل ان تحاسبوا (اپنا احتساب کرو، قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے) از حد ضروری ہے۔ خود احتسابی کے بغیر فرد اپنے نفس کی بے حد وحساب خرابیوں سے آگاہ ہو سکے، مشکل ہے۔
مراقبہ کے ذریعہ اندر میں ڈوبنے کا عمل دراصل اللہ کے نور کے ساتھ نفس کی ظلمات سے مقابلہ کرنا ہے۔ حدیث قدسی میں فرمایا گیا ہے کہ میں کائنات کی کسی چیز میں نہیں سما سکتا، سوائے بندہ مؤمن کے دل میں، اللہ کے انوار جو دل کی گہرائیوں میں موجود ہیں، مجاہدوں کے ذریعہ ان انوار تک رسائی حاصل کرکے نفسی قوتوں کا مقابلہ کرنا اور اللہ کی عبادت کو خالص اس کے لئے کرنا، یہ دین کے مقاصد میں شامل ہے۔ وما امرو الیٰ لیعبدواللہ مخلصین لہ الدینخود احتسابی بذریعہ مراقبہ کا عمل ایسا ہے جو من عرف نفسہ فقد عرف ربہ (جس نے اپنے نفس کو پہنچانا، اس نے اپنے رب کو پہنچانا) کا ذریعہ ہے۔
خوداحتسابی کے ذریعہ فرد معاشرہ کا بہتر، پاکیزہ اور قیمتی انسان بنتا ہے، اس لئے کہ خوداحتسابی کا حامل فرد معاشرہ میں موجود خرابیوں کو اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کے نفس کی کارستانی سمجھتا ہے۔وہ اپنی ذات کو فساد کا ذریعہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس لئے وہ آخری حد تک اپنے نفس کو رگڑنے اور اس کی تہذیب کی جدوجہد میں مصروف ہوتا ہے۔ اس کی ذات کے حوالے سے افراد معاشرہ کو جو شکایات ہوتی ہیں، وہ دوسروں کو اس کا ذمہ دار سمجھنے کی بجائے اپنے آپ ہی کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا ضمیر اسے سجھاتا ہے کہ آخر اس نے دوسروں کو شکایت کا موقعہ کیوں دیا۔ اپنے حق سے دستبردار ہوکر دوسروں کے ساتھ احسان کا معاملہ کیوں نہیں کیا، اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو معاف کرکے، معافی کے رحجان کو فروغ پذیر ہونے کیوں نہ دیا۔
یہ خود احتسابی معاشرے کی بہت ساری برائیوں اور سارے فساد کے ازالہ کی مؤثر ترین صورت ہے۔ مراقبہ کے ذریعہ ہی احسن طریقہ سے خود احتسابی ہو سکتی ہے۔
جو مراقبہ خود احتسابی کے ذریعہ معاشرہ میں بڑھتے ہوئے فساد کی روک تھام اور ازالہ کا ذریعہ ہے، اس مراقبہ کی راہ کی طرف نہ آنا دانشمندی ہرگز نہیں۔
ذکر ومراقبہ
 ظلمات نفس کی دوری کا ذریعہ
فرد اگرچہ پیدائشی طور پر فطرت سلیمہ کا حامل ہوتا ہے۔ اگر اس کی تربیت صحیح خطوط پر ہو اور اسے پاکیزہ ماحول میسر ہو تو وہ نفس اور مادیت کے اثرات سے محفوظ ہو کر حق وصداقت کے ساتھ آسانی سے زندگی گزارنے میں کامیاب ہوتا ہے، لیکن انسان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی نشوونما کے لئے عام طور پر اسے جو ماحول ملتا ہے، وہ نفس پرستی اور مادیت سے محبت کا ماحول ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عمر کے ساتھ ساتھ فرد کی فطرت سلیمہ کے اثرات دبتے اور مدھم ہوتے چلے جاتے ہیں اور نفسی قوتیں غالب سے غالب تر ہوتی جاتی ہیں۔ نفسی قوتوں کے غلبہ کا جو نتیجہ ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ فرد، حواس خمسہ اور عقل کے ذریعہ حاصل ہونے والے علوم ہی کو اصل سمجھنے لگتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو بھی وہ علمی اور عقلی طور پر سمجھنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ فطرت میں موجود صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور دل کی گہرائیوں میں موجود محبوب کے انوار حسن سے متمتع ہو کر، زندگی کو معنوی بنانے اور محبوب کی منشا کے مطابق زندگی گزارنے کی طرف راغب نہیں ہوتا۔ چنانچہ فرد کے دل اور نفس کے درمیاں حجابات پیدا ہوجاتے اور مستحکم ہوجاتے ہیں۔ ان حجابات کی موجودگی میں شعور اور ادراک کی صحت بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔
جب تک فرد پر نفس اور مادیت کے یہ حجابات غالب ہیں، تب تک ظاہری علوم سے اسے دوسرے فوائد تو بہت سارے ہوتے ہیں۔ مثلا دینی علوم کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ احکامات کا علم حاصل ہوتا ہے،حلال وحرام اور امر بالمعروف ونھی عن المنکر کے سلسلہ میں اسلام کی بنیادی تعلیم اس پر واضح ہوتی ہے، لیکن نفسی کدورتوں کی موجودگی کی وجہ سے اسے عمل صالحہ کی توفیق کم ہی حاصل ہوتی ہے۔ بالخصوص خودنمائی، حب جاہ وحب مال، حرص وہوس اور غیظ وغضب جیسے باطنی جذبات وخواہشات کی تہذیب واصلاح نہیں ہوتی۔ پھر نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ فرد یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسے اسلامی شریعت کے بنیادی علوم حاصل ہیں۔ اب اسے اس سے بڑھکر کسی چیز کی تحصیل کی قطعا کوئی ضرورت لاحق نہیں، اب تو وہ دوسروں کو فیض رسانی کے منصب پر فائز ہے۔ اس روش کی وجہ سے مذہب کی نمائندگی پر فائز افراد معاشرہ کی بہتری کے حوالے سے مؤثر کردار ادا کرنے سے زیادہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی وجہ سے امت کی تقسیم اور اس میں جماعتی تعصبات کے استحکام کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
یہی حال معاشرے کے دوسرے گروہوں کا ہوتا ہے، مثلا اہل سیاست اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد نفسی حجابات کی وجہ سے سیاسی تبدیلی کے کام ہی کو وہ سب کچھ سمجھنے لگتے ہے، ان کی ساری جدوجہد کا حاصل اقتدار ہوتا ہے۔ جب اقتدار ملتا ہے تو نفسی خرابیوں کے عدم ادراک کی وجہ سے وہ اپنی حرکتوں، غلط اقدامات اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے قوم پر خداوندی عذاب کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ غریبوں کو مزید غریب بنانے اور امیر کو امیر تر بنانے کی پالیسیاں اختیار کرتے ہیں۔
تعلیمی ماہروں،ڈاکٹروں، وکیلوں، افسروں غرض کہ تقریبا سب کا حال یہی ہوتاہے۔ اس لئے کہ نفسی حجابات، قلب پر ظلمات طاری کردیتے ہیں۔ ان ظلمات سے افراد کے قلب کی روشنی جس سے صحیح ادراک حاصل ہوتا ہے، وہ یا تو سلب ہوجاتی ہے یا مدھم۔
اس صورتحال سے نکلنے کی مؤثر صورت اللہ کی محبت کی دنیا میں داخل ہو کر، ذکر ومراقبہ کے ذریعہ محبوب کے انوار حسن سے فیضیاب ہونے کی ہے۔ ذکر ومراقبہ کی مشقوں سے جب قلب میں یہ انوار داخل ہونے لگتے ہیں تو ظلمات وتاریکی فرار ہونے لگتی ہے اور ادراک کی صحت کے ساتھ عمل کی قوت بھی حاصل ہونے لگتی ہے۔ اس طرح ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ فطرت میں موجود علوم بھی اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے اس نکتہ پر کافی زور دیا ہے کہ فرد وافراد جب تک نفسی حجابات کی تاریکیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ تب تک نہ تو ان کا دینی ادراک صحیح ہو سکتا ہے اور نہ ہی نفسی تاریکیوں سے نکل کر عمل صالحہ کی صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کا مکتوب ایسا ہے، جسے بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے۔ مکتوب کے الفاظ یہ ہیں۔
’’نظر وفکر کی ضرورت تو اس وقت تک ہے،جب تک بیماری اور وآفت کا وجود ہے۔ قلبی مرض سے نجات ملنے کے بعد اور آنکھوں سے پردہ اٹھنے کے بعد یہ امور سب کے سب بدیہی ہیں۔ مثال کے طور پر اس شخص کو پیش کیا جا سکتا ہے، جس پر صفرا کا غلبہ ہے، وہ جب تک صفراء کی بیماری میں گرفتار ہے، مٹھاس اور شیرینی کے لئے دلیل کی ضرورت ہے، لیکن جوں ہی مرض سے نجات مل گئی اس کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ بات مسلم ہے کہ استدلال کا میدان بہت تنگ ہے اور دلیل کے راستے سے یقین حاصل ہونا بہت مشکل ہے۔ پس یقین حاصل کرنے کے لیے قلبی مرض کا دور کرنا لازمی ہے۔ صفراء کے ایک مریض کے لیے مرض ِ صفراء کا دور کرنا، شیرینی کا یقین حاصل کرنے کے لیے زیادہ ضروری ہے بمقابلہ اس کے کہ شیرینی قند کے یقین کے لیے دلیل قائم کرے۔ بھلا اسے دلیل کے ذریعے یقین کس طرح حاصل ہوگا، اس کا ذائقہ تو مرض صفراء کی وجہ سے شکر کا تلخ ذائقہ بتارہا ہے۔ اسی طرح اس مسئلے کو جس کا ذکر کیا جارہا ہے سمجھئے۔ نفس ِامارہ، شرعی احکام کا منکر ہے، پس اگر دل انکار پر قائم ہے تو اس صورت میں شرعی احکام کا یقین حاصل ہونا دشوارہے، لہٰذا نفس کا تزکیہ ضروری ہوا۔ یقین بغیر تزکیہ کے حاصل کرنا مشکل ہے ۔ قد افلح من زکہا وقد خاب من دسہا۔ (یعنی فلاح یاب اور کامیاب ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور ٹوٹے میں رہا وہ جس نے اس کو پستی میں ڈالا) پس ثابت ہوا کہ اس شریعت ِ ظاہرہ وطاہرہ کا منکر ایسی ہی ہے جیسا کہ حلاوتِ نبات وقند کا منکر۔
خورشید نہ مجرم ار کسے بینا نیست
(مکتوب ۲۶ دفتر اول بنام شیخ فرید بخاری)
اگر کوئی نابینا ہے تو آفتاب کا کیا قصور؟ سیر وسلوک، تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب سے مقصود قلبی امراض کا ازالہ ہے، تاکہ حقیقت ِ ایمان حاصل ہوجائے۔ آیت کریمہ فی قلوبہم مرض (یعنی ان منافقین کے دلوں میں مرض ہے) اس مرض ِ قلبی کا پتہ دے رہی ہے۔ باطنی بیماریوں کی موجودگی میں اگر ایمان ہے بھی توظاہری ایمان ہے اور بس، اس لیے کہ نفس ِ امارہ ایمان کے خلاف حکم لگا رہا ہے اور اپنے کفر کی حقیقت پر اصرار کررہا ہے۔ اس ظاہری ایمان اور تصدیق ِ صوری کی مثال ایسی ہے، جیسا کہ صفراء والے کو مٹھاس اور شرینی کاظاہری یقین ہوجائے حالانکہ خود اس کا ذوق ووجدان اس کے یقین کے خلاف گواہی دے رہا ہے۔ اس کو تو شیرینی کا یقین ِ حقیقی اس وقت حاصل ہوگا، جب مرض صفراء کی جڑ کٹ جائے گی۔ اس طرح تزکیۂ نفس اور اطمینانِ نفس کے بعدایمان کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے اور وہ وجدانی بنتی ہے۔ ایسا ایمان زوال سے محفوظ رہتا ہے۔ آیہ: الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولاھم یحزنون(آگاہ ہو بیشک اللہ کے دوستوں پر خوف وحزن نہیں ہوگا) ایسے ہی لوگوں کے شان میں ہے۔ (ایضا)
مراقبہ
وقت کے استعمال کا بہتر ذریعہ
اللہ کی طرف سے انسان کو محدود اور متعین وقت ملا ہے، جس مختصر وقت میں اسے دائمی زندگی کے لئے سرمایہ جمع کرنا ہے، ہم میں سے کتنے افرادہیں،جو وقت کے صحیح استعمال کا فن جانتے ہوں۔ بہت کم افراد، گنے چنے افراد۔ عملی طور پر جو صورتحال ہے، وہ یہ ہے کہ وقت کا بیشتر حصہ معاشی جدوجہد کی نذر ہوجاتا ہے،۔ وہ افراد، جو اپنی اولاد کے لئے گزر بسر میں وقت کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ تو خیر اپنے فریضہ کی ادائیگی کرتے ہیں، لیکن جو افراد بیشتر وقت ضرورت سے زائد دولت کمانے میں ضایع کردیتے ہیں۔ وہ قابل رحم ہیں۔ جو لوگ روزگار سے بچت وقت ٹی وی اور شادی بیاہ وغیرہ کے غیرضروری پروگراموں میں صرف کردیتے ہیں، وہ تو ازحد قابل رحم ہیں۔
قیمتی وقت کو ضایع ہونے سے بچانے اور زندگی کے لمحات کی قدر وقیمت کے احساس کے سلسلہ میں مراقبہ جو کردار ادا کرتا ہے، وہ سب سے مؤثر کردار ہے۔
مراقبہ کے ذریعہ فرد جب محبوب کے انوار حسن سے متمتع ہونے لگتا ہے تو اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ زندگی اور جسمانی توانائیاں اللہ کی امانت ہیں، اس امانت کا صحیح مقاصد کے بجائے غلط مقاصد میں استعمال امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔
متوسط طالب وقت کے صحیح استعمال کے سلسلہ میں اتنا حساس ہوتا ہے کہ وہ غیرضروری گفتگو اور وقت کے غیرضروری استعمال سے اپنے دل پر پہاڑ گرتے ہوئے محسوس کرتا ہے، اس لئے وہ ذکر وفکر اور صحبت صالحہ کے ماحول میں رہنے پر مجبور ہوتا ہے، وقت کے صحیح استعمال سے وہ محبوب حقیقی کی طرف کچھ نہ کچھ آگے ہی بڑھنے لگتا ہے، اور آگے بڑھنے کا اس کا یہ سفر طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے۔
جو سالک آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک کے ذکر اور مراقبہ (ساری استحضاری قوت کے ساتھ) کے ذریعہ اللہ کی معیت میں رہتا ہے، اس پر وقت کی قدروقیمت اور اس کے صحیح استعمال کا راز افشاں کر دیا جاتا ہے، اس لئے وہ وقت کے چند لمحات کے ضیاء کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ وہ فضول گوئی سے بچتا ہے، مادی دنیا کی ترقی وخوشحالی کی باتوں سے کبیدہ خاطر ہوتا ہے۔ ٹی وی اورانٹرنیٹ وغیرہ پر فحاشی کے مناظر کا مشاہدہ تو اس کے دل کے نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے، وہ دوسروں کے معاملات میں الجھنے سے بچنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ اس کا ہدف ایک ہی ہوتا ہے اور وہ محبوب حقیقی کی رضامندی کا ہدف ہوتا ہے،چونکہ مبتدی ومتوسط سالک کا ظرف دنیا کا زیادہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا اس لئے وہ چند سالوں تک کم ملنے اور کم بولنے کے اصولوں پر عمل کرکے محبوب کے ساتھ اپنے قلبی رابط کے استحکام کے لئے کوشاں ہوتا ہے، جب اسے ان اصولوںپر عمل کے نتیجہ میں کچھ رسوخ حاصل ہوتا ہے تو دوسرے مرحلہ پر خدمت خلق اور خدمت دین کے کام اس کے ہدف بن جاتے ہیں، اس کی مزید روحانی ترقی ان کاموں سے وابستہ ہوتی ہے۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت اور اس کی دلجوئی کے کام سے اب اس کے قلب میں مناسبت پیدا ہوجاتی ہے، اب ان کاموں میں صرف ہونے والے وقت کو وہ وقت کا ضیاء نہیں سمجھتا، اس لئے کہ اب یہ کام اس کے لئے خدا اور آخرت سے غفلت کا ذریعہ نہیں بنتے۔ اس کی حالت کی عکاسی قرآن کی اس آیت میں کی گئی ہے رجال لاتلھیم تجارہ ولابیع عن ذکر اللہ۔ یہاںایسے افراد کی تعریف کی گئی ہے جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی۔ یعنی کاروبار میں مصروفیت کے باوجود دل اللہ کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے اور ذہن میں اللہ کی یاد غالب ہوتی ہے۔
لیکن جب تک اسے اس مقام تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، تب تک وقت کے ایک ایک لمحہ کے ضیاء سے اس کے دل کی حالت غیر ہونے لگتی ہے۔ اس لئے وہ محبوب سے تعلق کے استحکام کی خاطر خلق سے بے تعلق رہنے لگتا ہے۔ تاہم روزی کے لئے صرف ہونے والا اس کا وقت متاثر نہیں ہوتا، اس لئے کہ روزی کا حصول دین کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
وقت کے استعمال کے سلسلہ میں طالب کے دل کے کانوں میں ہر وقت درج ذیل احادیث کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔
(۱) آپ ﷺ نے فرمایا، تباہ ہوگیا، وہ شخص، جس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہ ہو۔
(۲) آپ نے فرمایا: مومن کے لئے دو خوف ہیں۔ ایک اجل (وقت) جو گزر چکا ہے۔ معلوم نہیں کہ خدا اس کا کیا کرے گا، ایک اجل جو ابھی باقی ہے، معلوم نہیں خدا اس میں کیا فیصلہ صادر فرمائیگا۔
(۳) آپ نے فرمایا، ہر آنے والا دن جب شروع ہوتا ہے تو وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے انسان، میں ایک نو پیدا مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، تو مجھ سے کچھ حاصل کرلے، میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔
(۴) آپ ﷺ نے فرمایا، پانچ حالتوں کو پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت سمجھو اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہو، اٹھالو۔ غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے۔ تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے، خوشحالی اور فراغ دستی کو ناداری اور تنگ دستی سے پہلے۔ فرصت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔
(۵) بندہ کا صرف وہی ہے، جو اس نے کھا لیا۔ یا پہن لیا یا آگے بھیج دیا۔ جو اس نے خرچ نہیں کیا، وہ سب وارثوں کا مال ہے۔
(۶) ایک بار حضور ﷺ، اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہؒ کے پاس صبح ہی صبح تشریف لائے۔ وہ آرام فرما رہی تھی، آپ نے ان کو جگاتے ہوئے فرمایا۔ بیٹی، اٹھو، اپنے رب کے رزق کی تقسیم کے وقت حاضر رہو اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ بنو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ طلوع فجر اور طلوع شمس کے درمیان لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں۔
(۷) اما ترمذی نے حضورﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ اے اللہ، میری امت کے لئے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما۔
(۸) حضور ﷺ نے فرمایا، روزی انسان کا پیچھا کرتی ہے۔ رزق کی کمی یا تاخیر سے پریشان نہ ہو اور روزی کمانے میں خوش اسلوبی سے کام لو۔
(۹) مومن کا کوئی لمحہ فارغ ہونے کی وجہ سے ضایع نہیں ہوتا۔ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ کار آمد ہوتا ہے۔ جب اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور جب خوش ہوتا ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور اللہ کو یاد کرتا ہے۔
(۱۰) حشر کے میدان میں آدمی آگے نہ بڑھ پائے گا، جب تک کہ پوری زندگی کا حساب نہ دے لے۔ پوچھا جائے گا کہ (۱) عمر کہاں صرف کی۔ (۲) جوانی کیسے گزاری (۳) مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا (۴) جو علم حاصل کیا، اس کو کس طرح استعمال کیا۔
امام رازی نے ایک بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ وقت کی مثال ایک برف والے کی طرح ہے، جو پکار پکار کر کہرہا ہے کہ دیکھو، میری زندگی کا سرمایہ گھلا جارہا ہے، اگر یہ برف کارآمد نہ ہوئی تو یہ رکھے رکھے گھل جائے گی اور ختم ہوجائے گی۔
وقت کے استعمال کے سلسلہ میں طالب کا دستور العمل وہی ہوتا ہے، جسے شاہ ولی اللہ ؒ نے بیان کیا ہے، آٹھ گھنٹے روزگار کے لئے، آٹھ گھنٹے آرام کے لئے، آٹھ گھنٹے عبادت ذکر وفکر کے لئے۔ وقت کی یہ تقسیم ایسی ہے، جس سے وقت کے سارے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور شخصیت کی صحتمند بنیادوں پر تعمیر میں مدد ملتی ہے۔ اور اس سے صحتمند شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ اس سے نہ تو معاش متاثر ہوتا ہے، نہ جسمانی اور روحانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ذکر وفکر، عبادت اور شخصیت کی روحانی ومعنوی زندگی کی نشوونما کے لئے بھی فرد کے پاس وافروقت موجود ہوتا ہے۔
موجودہ دور میں فرد کے بے پناہ مسائل ومشکلات کا بڑا سبب وقت کا غلط استعمال ہے، فردوافراد کا بیشتر وقت اور ذہن کی تقریبا ساری صلاحیتیں معاشی جدوجہد ہی کی نذر ہوجاتی ہیں۔ عبادت رسمی بن کر رہ گئی ہے اور خواب میں بھی فرد معاشی جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ یہ غیر متوازن زندگی ہے۔
اس کی وجہ سے دوسرے افراد سے رویہ کی نوعیت خالص مادی نوعیت کی ہوگئی ہے اپنائیت اور دوستی کا معیار مادی مفاد بن کر رہ گیا ہے، مادی نوعیت کی یہی زندگی دنیا کو جہنم کا نمونہ بنانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔
وقت کے صحیح استعمال کے ذریعہ جب دل اور روح کو اس کی مطلوبہ غذا ملنے لگتی ہے تو ان کی حالت ِ اشتعال ختم ہوجاتی ہے اور مادیت اور مادی خوشحالی کی زندگی، اور دولت کی بہتات کے شیطانی جذبات وخیالات حد اعتدال میں آنے لگتے ہیں اور دل وروح کے اطمینان سے فرد وافراد ذہنی، اعصابی اور نفسیاتی دباء سے بچ کر، محبوب حقیقی کی پناہ میں آنے لگتے ہیں۔ مراقبہ، فرد کو وقت کی صحیح تقسیم کی راہ پر لاکر، اسے صحیح انسان بنانے میں سب سے بہتر اور مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔
ایسی صحیح، فطری اور متوازن زندگی کا حصول ہر فرد کی آرزو ہے، جس میں ہر طرح کے ذہنی دباؤ سے تحفظ کی صورت ہو، اور افراد سے مخلصانہ اور انسانی بنیادوںپر تعلقات استوار ہوں اور جس میں فرد کے پاس اتنا وافروقت موجود ہو کہ وہ اہل وعیال اور عزیز واقارب کے ساتھ یکسوئی سے کچھ لمحات گذار سکے اور ٹی وی اور انٹرنیٹ کی خرافات والی تفریح سے بچنے کی صورت پیدا ہو۔ مراقبہ ان ساری آرزوں اور خود احتسابی میں غیرمعمولی طور پر معاون ہے، کاش کہ اپنی غیرفطری زندگی اور اپنی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے ہماری اس آواز کو دل کے کانوں سے سنا جائے اور اس سمت میں سفر کا آغاز کیا جائے۔ 
   خود اعتمادی کا بحران
اور مراقبہ کے ذریعہ اس کا علاج
مراقبہ، فرد و افراد میں خود اعتمادی کے حوالے سے پیدا شدہ سارے بحران کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ اپنی ذات پر عدم اعتماد، فرد میں احساس کمتری پیدا کرتا ہے، جب کہ زیادہ اعتماد، احساس برتری پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ فرد کے بیشتر مسائل، اعتماد ذات کے بحران ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اعتماد ذات پیدا کرنے کے لئے عام طور پر ہر فرد مصنوعی طریقے اختیار کرنے لگتا ہے۔ اپنی تعریف آپ کرنا، لوگوں کے سامنے خوبصورت شکل و صورت میں آنے کے لئے ظاہری زیب و زینت اور سجاوٹ اختیار کرنا، دوستوں کی مجالس میں بڑھ چڑھ کر باتیں کرنا، اختلاف رائے اور تنقید سے مشتعل ہوکر تعلقات منقطع کرنا، معاشرے میں معزز بننے کے لئے سواری اور مکانات کے سجانے کا خصوصی اہتمام کرنا، بات بات پر بگڑ جانا، زودرنج ہوجانا۔ دوسروں کی شکوہ و شکایات میں زیادہ وقت صرف کرنا، مزاج کے خلاف دوسروں کی باتوں کا دل میں زیادہ دیر تک تاثر لیتے رہنا، اور ان باتوں کی وجہ سے دل میں رنجیدگی کے احساس کا غالب ہونا۔ خوبصورت لڑکوںاور نامحرم عورتوں کو دیکھنے کی خواہش کا غالب ہونا، اور ان کو دیکھنے کے بعد انہی تصورات میں مستغرق ہونا، زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا حریص ہونا، دولت کمانے کی نئی نئی تدبیروں سے ذہن کو مسلسل آلودہ کرنا، دوسروں سے انتقام لینے کی آرزوئوں کو پالتے رہنا، دوسروں کے مکانات، گاڑیوں، زیورات، اور مادی سامان کو دیکھ کر، اس طرح کے سامان کے حصول کو ہدف بنانا۔ غرض کہ اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں، جو اعتماد ذات کے بحران کا نتیجہ ہیں۔ اور اس کی علامات بھی۔
اس بحران سے نکتے میں اسم ذات کا قلبی ذکر یعنی مراقبہ سب سے بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اس لئے کہ مراقبہ سے فرد کے اندر دوئی و دورنگی ختم ہونے لگتی ہے۔ اور وہ حالت پید اہونے لگتی ہے، جو حدیث قدسی میں بیان فرمائی کی گئی ہے کہ نفلی عبادت (کی کثرت) سے میں فرد سے اتنا قریب ہوجاتا ہوں کہ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھنے لگتا ہے، میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جن سے وہ کام کرنے لگتا ہے، میں اس کا پائوں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلنے لگتا ہے۔ مراقبہ،جو نفلی عبادت کی اعلیٰ شکل ہے، جس کا قرآن میں حکم فرمایا گیا ہے، واذکر اسم ربک وتبتل الیہ تبتیلا۔ (اپنے رب کے نام کا ذکر کرو سب سے کٹ کر) اس آیت کی رو سے مراقبہ کی حیثیت اس ذکر کی ہے، جو عبادت کی روح ہے۔ اقم الصلواۃ لذکری۔ (نماز قائم کرو میرے ذکر کے لئے) اس آیت میں بھی ذکر کو (ایسا ذکر، جو فرد کو محبوب سے قریب تر کردے) اسے مقصود کی حیثیت دی گئی ہے۔
مراقبہ سے خود اعتمادی کی جو صورت پیدا ہوتی ہے، وہ کسی دوسرے طریقہ سے پیدا ہونا امر محال ہے۔ مراقبہ، دراصل دل اور روح کے اس خزانہ کی یافت کی صورت ہے، جس سے محرومی کی وجہ سے ساری نفسی اور شیطانی قوتیں فرد پر حملہ آور ہوکر، نفس کو بت کدے کی صورت دے دیتی ہیں، جس سے دل  و روح اضطراب کے انگاڑوں پر لیٹنے لگتے ہیں اور ان کی اذیت کا احساس قیامت خیز ہوجاتا ہے۔ دل و روح کے اذیت کے اس احساس کو کم کرنے لئے فرد و افراد، مادی حسن کی چیزوں سے انہیں تسکین دینے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، لیکن اس سے دل و روح پر نفس مزید غالب آنے لگتا ہے۔ اس سے نفس کو وقتی طور پر تو لذت و تسکین حاصل ہوتی ہے، لیکن اصل انسان، جو دل و روح سے عبارت ہے، وہ ان چیزوں سے مشتعل ہوکر فرد و افراد کی زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں۔
مراقبہ دل و روح کو توانائی فراہم کرنے کا ذریعہ
مراقبہ کے ذریعہ دل وروح کو وہ توانائی اور روشنی ملنے لگتی ہے جس سے فرد، نفس کے اندر موجود بت کدہ پر حملہ آور ہوکر، اسے توڑ پھوڑ دینے کی راہ پر گامزن ہونے لگتا ہے اور اس روشنی کے ذریعہ وہ مادیت کی تاریک پسند قوتوں کی مزاحمت کرکے انہیں دھکیل کر باہر نکالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جب نفس کا بت ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے اور ظلمات کی جگہ قلب روشنی سے منور ہوجاتا ہے تو فرد افراد حقیقی خود اعتمادی کی دولت سے بہرہ ور ہونے لگتے ہیں۔ خود اعتمادی کا یہ مقام ایسا ہے، جہاں فرد کو مصنوعی طریقوں سے معزز بننے کی نہ ضرورت لاحق ہوتی ہے اور نہ ہی اسے اس کی کوئی آرزو ہوتی ہے، اس خود اعتمادی سے یہ ہوتا ہے کہ فرد صابر و شاکر رہتا ہے۔ ہر طرح کے حالات میں خوش و مطمئن رہتا ہے، دوسروں کے غم و تکلیف کو اپنا غم و تکلیف سمجھتا ہے، دنیا کا بڑے سے بڑا واقعہ بھی اس کے سکون و خوشی کو زیر و زبر کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
مراقبہ
فساد زدہ عادتوں کی تبدیلی وبہتری کا ذریعہ
معاشرہ کو فساد زدہ بنانے میں افراد کی سب سے زیادہ جس خرابی کو عمل دخل حاصل ہے، وہ خراب عادتوں کا استحکام ہے۔ فاسد عادتیںجب مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں تو ان سے گلو خلاصی حاصل کرنا، غیر معمولی طور پر دشوار ہوجاتا ہے۔ ان فاسد عادتوں کی وجہ سے فرد و افراد نہ صرف اپنے لئے وبال جان بن جاتے ہیں اور طرح  طرح کے حادثوں، المیوں اور افراد  سے ٹکرا اور فتنوں کا سبب بنتے ہیں،بلکہ وہ ان عادتوں کی وجہ سے معاشرہ کو بھی انتشار و فساد سے سرشار کردیتے ہیں، اور افرادِ معاشرہ ان کی ان حرکتوں سے بے زاری کی وجہ سے ان کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ ساری کوششوں کے باوجود اب تک کوئی طریقۂ علاج ایسا وجود میں نہ آسکا ہے، جو انسانی معاشرہ کو، افراد کی ان فاسد عادتوں سے نجات دلانے اور انہیں مہذب بنانے میں کردار ادا کرسکے۔ البتہ نفسیاتی ماہر افراد کی ان خرابیوں کی نشاندہی کرنے اور معاشرہ پر پڑنے والے اس کے خطرناک اثرات کا انتباہ دینے کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔
فرد و افراد کو معاشرہ کی ان خرابیوں سے بچانے کے سلسلہ میں وعظ و نصیحت کی باتوں اور تکرار سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ وعظ و نصیحت کی باتیں کرنے والے عام طور پر اپنی اصلاح سے غافل ہیں،وہ دوسروں کو سنانے کے لئے تلقین کی باتیں کرتے ہیں،جن کی حیثیت گفتگو  برائے گفتگو اور وعظ برائے وعظ سے مختلف نہیں ہوتی۔ یہ باتیں اس لئے بھی غیر مؤثر ہیں کہ اصلاح کی باتیں کرنے اور وعظ و تقاریر کرنے والے اکثر باطنی طور پر حب جاہ و حب مال کے مریض و حریص ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہیں دوسروں کے مال پر رہتی ہیں،وہ جماعتی مفادات او گروہی عصبیتوں کا شکار ہوتے ہیں، ان منفی جذبات کے حامل افراد کے دل سے جو باتیں نکلتی ہیں، وہ اکثربے اثر ثابت ہوتی ہیں، اور مزاج اور کانوں سے ٹکرا کر غیر مؤثرہوجاتی ہیں۔
عادتوں کو بدلنے کے سلسلہ میں دوسری صورت یہ ہے کہ نظام تعلیم میں اصلاح کا عمل شروع کیا جائے اور سارے نصاب اور سارے اساتذہ کو تبدیل کرکے، نیک اور صالح افراد پر مشتمل نظام تعلیم کی تشکیل کی جائے،یہ کام ایسا ہے،جو معاشرہ کی موجودہ صورت گری میں ممکن نہیں ۔اس لئے کہ ایسی قیادت کہاں سے لائی جائے،جو قومی وسائل کو صرف کرکے یہ عظیم کام شروع کرسکے۔ قیام پاکستان کے وقت جب اس کام کے لئے حالات سازگار تھے، اس وقت یہ کام نہ ہوسکا تو اب اس کام کا آغاز  تو مزید دشوار تر ہی ہے۔
افراد کی عادتوں کے سدھارے کی تیسری صورت یہ ہے کہ جن افراد کو اپنی فاسد عادتوں کے بارے میں تشویش ہو اور اپنی حالت کی بہتری کی حقیقی طلب موجود ہو، وہ اپنی ایک ایک فاسد عاسدت کی تبدیلی کا عمل شروع کردیں، اس کے لئے ہمت اور حوصلہ سے کام لیں۔ یہ عمل ایسا ہے،جو دشوار گزار ضرور ہے، لیکن قابل عمل ہے۔ ایسا ہونا چاہئے۔ اس سے اصلاح کی صورت بتدریج پیدا ہوتی جائے گی، لیکن ہماری نظر میں معاشرہ اور افراد معاشرہ کی ہمہ جہتی اصلاح کا بہترین طریقہ ذکر و مراقبہ کے حلقوں میں شرکت کرنا، ذکر ومراقبہ کا سہارا لینا، اس طرح اﷲ کی معیت اور اس کے نور کے ذریعہ سے نفسی قوتوں کو پامال کرکے، ان کی تہذیب کے عمل کو سر انجام دینا ہے۔
ذکر و مراقبہ میں اﷲ کے جو انوار شامل ہیں، وہ ایسے ہیں، جو فرد وافراد کو مادیت سے اوپر اٹھانے اور مادی زنجیروں کو توڑ کر، مادہ سے آزاد ہوکر، اشرف المخلوقات کی راہ پر گامزن کرنے اور ملکوتی قوتوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ذکر و مراقبہ کا عمل جوں جوں آگے بڑھنے لگتا ہے، اسی مناسبت سے پرانی فاسد عادتوں کی زنجیروں کے ٹوٹنے کا عمل آہستہ آہستہ ہوتا جاتاہے۔ لیکن مراقبہ جب آگے بڑھنے لگتا ہے تو فرد کی مثال اس جوان حوصلہ فرد کی سی ہوجاتی ہے،جو کُشتی میں چھوٹے موٹے بہت سارے پہلوانوں کو مات دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ذکر ومراقبہ، اﷲ کی قوت کو ساتھ ملاکر شیطان و نفسی قوتوں سے معرکہ آرائی کرنے کا نام ہے۔ جس فرد کے ساتھ کثرت ذکر و مراقبہ کے ذریعہ اﷲ کی قوت شامل ہوجائے، اس کی نفس کی فاسد عادتوں کی اصلاح نہ ہوگی تو اور کس کی ہوگی۔
چونکہ فاسد عادتوں سے انسانی معاشرہ، زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے افراد، افراد سے اور گروہ گروہوں سے ٹکرانے لگتے ہیں۔ اﷲ کی زمین بے گناہ انسانوں کے خون سے لالہ زار ہونے لگتی ہے۔ غریبوں کو مزید غریب بنانے کی حرکتیں تیز سے تیز تر ہونے لگتی ہیں۔ حکومتی پالیسیاں دولت کا رخ مراعات یافتہ طبقات کی طرف کرنے اور عام لوگوں کو نان شبینہ کا محتاج بنانے کا ذریعہ ہوتی ہیں، اس لئے اس طرح کے حالات میں معاشرہ کے درد مند افراد اور اﷲ کی محبت کے راز دانوں کو تماشہ بین بن کر رہنے کی بجائے حالات کی تبدیلی کے سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کی بہتر اور مؤثر صورت ذکر و فکر اور مراقبوں کے حلقوں کا اہتمام ہے، جس میں درس قرآن و درس حدیث کا بھی اہتمام ہو، تاکہ ان حلقوں میں شامل افراد کی باطنی اصلاح کی صورت بھی پیدا ہوسکے تو ساتھ ساتھ صحیح اسلامی فکر کے لئے ذہن سازی کا عمل بھی ہوسکے۔
یاد رکھئے کہ فاسد عادتیں جب پختہ ہوجاتی ہیں اور مزاج میں راسخ ہوجاتی ہیں اور نفسیات کا حصہ بن جاتی ہیں تو اس کے نتیجہ میں دل سخت ہوجاتا ہے اور شقاوت قلبی پیدا ہوجاتی ہے، اور شقاوت قلبی کا نتیجہ دلوں پر پردہ اور آنکھوں اور کانوں پر مہر لگ جانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
جب کسی قوم کی اکثریت کی یہ حالت ہوجائے تو دینداری کی ظاہری مراسم کی بجاآوری کے باوجود حقیقی داعیوںاور اﷲ کی طرف بلانے والوں کی پُر دردو پرسوز باتیں دلوں سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں۔ اور افراد معاشرہ اپنی ڈگر سے ہٹنے اور حقیقی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی سب سے بڑی  علامت یہ ہوتی ہے کہ اس طرح کے معاشرہ میں ذکر و عبادت میں گہرائی کے ذریعہ معاشرتی طور پر اخلاقی، روحانی، اور معنوی تبدیلی کی طاقتور تحریک شروع نہیں ہوپاتی۔ معاشرے کے مؤثر افراد، اس تحریک کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ دانشور اور علم کے صاحبان اپنی دانشوری اور علمی زعم کی وجہ سے اس طرح کی تحریک کو عجوبہ سمجھنے لگتے ہیں۔ مالدار اپنے مال کے ذریعہ معاشرہ میں اس طرح کی تحریک کو متعارف کرانے اور فروغ  دینے میں کوئی کردار ادا کرنے لئے تیار نہیں ہوتے، نتیجتاً اس طرح کا معاشرہ یا تو خانہ جنگی اور قتل  و غارت گری کی سزا کا مستحق  ہوجاتا ہے یا پھر اس کی آزادی سلب ہوجاتی ہے۔ اور وہ غیروں کا غلام بن جاتا ہے۔ اور غیروں کی غلامی میں نشو و نما پانے والی قوم کی وہ حالت ہوجاتی ہے، جو فرعون مصر نے یہودیوں کی تھی کہ یہودیوں نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کی ساری کوششوں کے باوجود دشمن سے جنگ لڑنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ تم اور تمہارے خدا جاکر لڑے، ہم میں مقابلہ کا دم خم نہیں۔
ذکر ومراقبہ
دعویٰ سے دستبرداری کاذریعہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کی خاطر اس کے اندر جو سب سے طاقتور جذبہ وداعیہ رکھا ہے، وہ تکبر، بڑے پن، دعویٰ اور خود پسندی کا داعیہ ہے۔ تکبر ودعویٰ ایسی بیماری ہے، جو ساری بیماریوں کی جڑ ہے اور سارے فساد کا سرچشمہ ہے۔ انسانی معاشرہ میں برپا ہونے والے فساد کا جائزہ لیا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ سیاست اور کاروبار سے لے کر گھروں اور خاندانوں تک میں ہونے والے جھگڑوں اور فساد کا بنیادی سبب تکبر اور بڑے پن کا مرض ہی ہے۔ ہر شخص بڑا بن کر رہنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی عزت وشخصیت کے بت کو دوسروں سے ممتاز حالت میں رکھنا چاہتا ہے۔ جب ایسا نہیں ہوتا اور اس کی شخصیت کو مطلوبہ مقام نہیں ملتا تو وہ افرادِ معاشرہ سے صف آرا ہونے لگتا ہے۔ اگر صف آرائی کی قوت نہیں ہے تو دلی طور پر وہ شدید احساسات کا شکار ہوجاتا ہے۔ فرد وافراد کو زیادہ دولت بھی اس لئے مطلوب ہے، تاکہ وہ معاشرہ میں عزت ووقار کے مصنوعی معیار کو قائم وبرقرار رکھ سکیں اور مال کی بہتات اور بہتر گاڑیوں اور بہتر بنگلوں کی بنا پر اپنے بڑے پن کے جذبات کی تسکین کر سکیں۔
قرآن بتاتا ہے کہ شیطان کی طرف سے انسان کو سجدہ نہ کرنے اور اللہ کے حکم سے بغاوت کرنے کا سبب اس کا تکبر ہی تھا، وہ اپنی افضلیت کی نفسیات میں جی رہا تھا، قال انا خیر منہ (اس نے کہا کہ میں اس (انسان سے) افضل ہوں) پھر اس نے یہ دھمکی بھی دی۔ قال ساغوینھم اجمعین الاعبادک منھم المخلصین۔ (اس نے کہا کہ میں ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے) قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام کی مخالفت اپنے وقت کے سرداروں نے تکبر کی وجہ سے ہی کی۔ ملؤ الذین استکبروا من قومہ اس کی قوم کے سرداروں نے تکبر کیا۔
بڑے پن کا داعیہ ایسا ہے جو فرد وافراد کو معاشرے میں مصنوعی طور پر معزز بننے کی راہ پر لگاتا ہے اور ان کی توانائیوں کا زیادہ تر استعمال اس مقصد کے لئے ہونے لگتا ہے۔ علم ودانشوری اس لئے مطلوب ہے، تاکہ معاشرہ میں دوسروں پر علمی اعتبار سے برتری حاصل ہو، دولت کے لئے کاوشوں میں زیادہ سے زیادہ توانائیاں اس لئے صرف ہورہی ہیں تاکہ معاشرہ میں عزت حاصل ہو، سیاست میں سرگرمیوں کے پس وہ مقصد بھی یہی ہے، تاکہ اس کے ذریعہ حب جاہ کے جذبات کو تقویت حاصل ہو سکے۔
اہل مذہب ہوں، یا اہل تجارت، اہل علم ہوں یا اہل سیاست، سب کے درمیاں کھینچا تانی اور رساکشی کی تہہ میں بنیادی عامل جب جاہ کا جذبہ ہی ہے، اگر بڑے پن کے مرض کی اصلاح ہوجائے، اور فرد وافراد میں معرفت نفس کی صلاحیت پیدا ہوجائے اور وہ اپنی حیثیت اور اپنے لئے چاہت کے جذبات سے دستبردار ہوجائیں تو معاشرہ کے ہر شعبہ زندگی میں موجود فساد بڑی حد تک ختم ہوجائے۔ اور ایک دوسری کی تکریم اور محبت ورواداری کے جذبات فروغ ہونے لگیں۔ اس لئے کہ فساد کے محرکات میں دولت، عزت، شہرت اور ممتاز بن کر رہنے کے جذبات ہی کارفرما ہیں۔ جب فرد وافراد میں بے نفسی پیدا ہوگی تو یہ محرکات ازخود ختم ہوجائیں گے، پھر دولت اس لئے مقصود ہوگی، تاکہ ضروریات زندگی کی تکمیل کی صورت پیدا ہو سکے، نہ اس لئے کہ دولتمندوں سے حریصانہ کشمکش ہو اور  اپنے گھروں کو سامان تعیش سے بھر دیا جائے۔
دعویٰ سے بچنے کی سب سے مؤثر صورت اللہ کی محبت کی دنیا میں داخل ہو کر، ذکر وفکر کے ذریعہ نفسی قوتوں سے معرکہ آرائی کرنا ہے۔ ذکر کا نور بڑے پن کے شیطان پر تیز شعاؤں کی صورت میں بجلی بن کر گرتا ہے، جب یہ عمل ایک عرصہ تک جاری رہتا ہے تو اندر میں موجود نفس کا شیطان مضمحل ہونے لگتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ فنائے نفس کی حالت پیدا ہو کر فرد، انسانی جوہروں سے بہرہ ور ہونے لگتا ہے۔ جہاں اپنی ساری چاہتوں اور اپنے لئے کسی بھی مقام سے دستبرداری کی نفسیات غالب ہوتی ہے۔
اللہ کے ذکر کا نور (صحبت اہل اللہ کے ذریعہ) ہی ایسی قوت ہے، جو نفس کے اس سب سے بڑے بت کو توڑ کر، فرد وافراد کو فساد فی الارض سے بچا سکتا ہے۔ ذکر کے علاوہ کسی دوسری چیز میں یہ استعداد موجود نہیں۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ اللہ کی محبت کی دنیا میں طالب کے اندر موجود دوسری خرابیوں کی اصلاح تو بتدریج بہتر طور پر ہونے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ بہتر انسانی خوبیوں سے بہرہ ور ہونے لگتا ہے، لیکن تکبر، خودپسندی اور دعویٰ کا مرض ایسا ہے، جو موجود رہتا ہے۔ اس کی بڑی حد تک اصلاح فنائے نفس کے بالکل آخری مرحلہ میں کہیں جا کر ہوتی ہے۔
پھر نفس، دعویٰ سے بڑی حد تک دستبردار ہوتا ہے۔ اپنی طرف کسی فضیلت کو منسوب کرنا ہی اس کے لئے دشوار ہوتا ہے۔ وہ ایسا کرنے سے لرزنے لگتا ہے۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے، جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب اس طالب کا نفس فنا ہوگیا ہے، وہ اپنی دعویٰ کی وجہ سے معاشرہ کو نقصان پہنچانے کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ اس مقام تک رسائی کے بعد کہیں جاکر، اسے دوسروں کی تربیت کے کام پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ مصروف افراد کے لئے اتنے مجاہدوں کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اگر روزانہ کے اپنے ذکر ومراقبہ کے معمول کو ایک گھنٹہ تک پہچانے میں کامیاب ہو سکیں اور صحبت کو معمول بنالیں تو ان شاء اللہ چند سالوں کے اندر ان کی اتنی اصلاح ہو سکے گی کہ وہ دعویٰ جیسے امراض کو سمجھ سکیں گے اور ان سے بچنے کی استعداد بھی ان کے اندر ان شاء اللہ پیدا ہوجائے گی۔
ذکر ومراقبہ
عبدیت کا سلیقہ سکھانے کا ذریعہ
ذکر و مراقبہ، بندہ کو محبوب سے اتنا قریب کردیتا ہے کہ ’’فاذکرونی اذکرکم‘‘  تم مجھے یاد کرو تو میں تمہیں یاد کروں، نیز حدیث قدسی کے مطابق تم مجھے تنہا یاد کرو تو میں تمہیں تنہا یاد کروں، تم مجھے لوگوں کی مجلس میں یاد کرو تو میں تمہیں فرشتوں کی مجلس میںیاد کروں گا یہ بھی فرمایا کہ تم چل کر میرے پاس آو تو میں دوڑ کر تمہارے پاس آئوں گا۔
محبوب حقیقی کی اس شان کریمی کا اظہار اس وقت ہوتا ہے، جب بندہ، عبدیت کا سلیقہ سیکھ کر، عبدیت کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور ذکر و عبادت کو وظیفہ حیات بنا دیتا ہے۔ اگرچہ ذکر و عبادت کی ہر صورت، سعادت سے کم نہیں۔ لیکن محبوب حقیقی کی شان کریمی کے اظہار کے لئے دوئی کے پردوں کو ہٹا کر، محبوب کے لئے یکسو ہوجانے، اس سے والہانہ محبت کرنے اور راہِ سلوک کے ذریعہ نفسی قوتوں سے حالت جنگ میں رہنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ تو عبدیت کا سلیقہ ہاتھ آسکتا ہے اور نہ ہی محبوب کی معیت کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔
ہر دور میں بالخصوص موجودہ دور میں انسانیت کو درپیش تقریباً سارے مسائل اور ساری پریشانیوں کا بنیادی سبب ایک ہی ہے، وہ یہ کہ اسے عبدیت (بندہ ہونے) کے جس مقام پر فائز کیا گیا تھا، اس نے اس سے تجاوز کیا اور سرکشی اختیار کی، اس نے عبدیت کے بجائے آقائیت کے منصب پر فائز ہونے کی کوشش اور اپنی رہنمائی کے لئے خود ہی دستور حیات تجویز کیا۔ اس سرکشی کا نتیجہ ہے کہ اس کے آقا اور خالق نے اسے نفس، شیطان اور مادیت کی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسی دلدل میں پھنس گیا ہے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں، اس سے نکلنے کے لئے وہ جتنی بھی کاوشیں کرتا ہے، وہ کاوشیں اسے اس دلدل میں مزید پھنسانے کا موجب ثابت ہو رہی ہیں، اس لئے کہ اپنے خالق کی آقائی اور معبود کی عبدیت سے انکار کا نتیجہ اس کے علاوہ کوئی نکل سکے، ممکن ہی نہیں۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سارے انبیاء کرام کی تعلیمات کا مرکزی نکتہ بندوں کو اپنے حقیقی آقا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اس کے آداب بجا لانے اور عبدیت کا سلیقہ سکھانے پر مشتمل تھا۔ اللہ کی زمین پر انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے اور انسانی جوہروں سے بہرہ وری کی صورت بھی یہی ہے کہ انسان اپنے عبدیت کے مقام کو پہنچانے اور اپنے حقیقی آقا و مالک کے ساتھ یکسو ہوجائے۔
اس کی سب سے مئوثر صورت ذکر و مراقبہ کے ذریعہ محبوب کے سامنے خود سپردگی اختیار کرنی ہے۔
اس موضوع پر اس دور کے ایک اہل اللہ نے بہت عمدہ گفتگو کی ہے، ہم اس کی گفتگو کی اہمیت کی پیش نظر معمولی تبدیلی کے ساتھ یہاں اس کا ایک اقتباس پیش کر رہے ہیں۔
’’اے غافل انسان! تمہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ’’اللہ‘‘ کا یہ پاکیزہ اور مبارک لفظ جس طرح اسلام کا ایک شعار ہے، اسی طرح یہ وہ برگزیدہ لفظ ہے، جس کا ذکر تمام موجودات زبانِ حال سے کر رہی ہیں۔
پس اے عزیز من! اگر تیری یہ خواہش ہے کہ تجھے اس میں پائے جانے والی دائمی اور عظیم الشان قوت اور نہ ختم ہونے والی وسیع وعریض برکات کا ادراک ہوجائے تو اس چھوٹی سی تمثیلی کہانی کو غور سے سنو:
ایک بدوی، جس کا صحرا میں پھرنا پھرانا اور آنا جانا رہتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی قبیلے کے سردار کے ساتھ راہ و رسم رکھے اور اس کی حمایت اور حفاظت میں رہے، تاکہ لٹیروں کی دستبرد سے محفوظ رہ کر، اپنے کام سر انجام دے سکے اور اپنی حاجات و ضروریات کی تکمیل کرسکے، بصورت دیگر وہ بے شمار دشمنوں کے سامنے تنہا، حیرت زدہ، بے چین اور پریشان حال رہ جائے گا، کیونکہ اس کی حاجات و ضروریات جو کہ بے حد و حساب ہیں، اس طرح کی بے پروائی سے پوری نہیں ہوپائیں گی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو آدمی اس قسم کی سیاحت کے لئے گھر سے نکلے، ان میں سے ایک آدمی عاجز اور متواضع اور دوسرا خود سر اور مغرور تھا، عاجز اور متواضع آدمی اپنا تعلق ایک سردار کے ساتھ جوڑ کر، اس کی ماتحتی میں آگیا اور اس کا پیروکار بن گیا۔ جبکہ مغرور آدمی نے کسی کے ساتھ اس قسم کا تعلق جوڑنے سے انکار کر دیا۔ سردار کے ساتھ تعلق رکھنے والا آدمی جس خیمے میںجاتا، سردار کی تعلق داری کی وجہ سے ہر کوئی اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتا، اور اگر راستے میں اسے کوئی لٹیرا مل جاتا تو وہ اسے کہتا: ’’میں یہاں علاقے کے سردار کا آدمی ہوں اور اسی کے تعارف اور مہربانی سے یہاں گھوم پھر رہا ہوں۔‘‘ اس پر وہ لٹیرا اس کا راستہ چھوڑ دیتا، جبکہ خودسر اور مغرور آدمی کو اس قدر مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا جو بیان سے باہر ہیں، کیونکہ وہ اپنے تمام سفر میں مستقل خوف وہراس اور مسلسل خطرات سے دوچار رہا، اور یوں اس نے اپنے آپ کو خود ہی ذلیل کرلیا۔
پس اے غافل ومغرور انسان!
یاد رکھو: کہ تم ہی وہ سیر و گردش کرنے والے بدوی ہو، اور یہ وسیع و عریض دنیا وہ صحرا ہے، جس میں تم گھوم پھر رہے ہو۔ تمہارے ’’فقر و عجز‘‘ کی کوئی حد نہیں ہے۔ اسی طرح تمہارے دشمنوں کی اور تمہاری حاجات و ضروریات کی بھی کوئی حد نہیں ہے توجب حالت یہ ہے، تو پھر اس صحرا کے حقیقی مالک اور ابدی حاکم کی پناہ میں آجائو، اس طرح تم دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور مصائب و حادثات کے سامنے خوف و خطر کی ذلت سے بچے رہو گے۔
جی ہاں! یہ ، ’’اللہ‘‘کا اسم نام اتنا بڑا خزانہ ہے، جو کبھی فنا نہیں ہوگا، اس پاکیزہ نام کے ذریعے تمہارا ’’عجز‘‘ کائنات سے بھی وسیع اور بے پایاں رحمت کے ساتھ منسلک ہو جائے گا، اور اس کی برکت سے تمہارا ’’فقر‘‘ اور تمہاری درماندگی اس عظیم اور بے پایاں قدرت کے ساتھ منسلک ہوجائے گی، جس نے ذرات سے لیکر کہکشائوں تک تمام کائنات کو سنبھالا ہوا ہے، حتیٰ کہ تمہارا ’’عجز‘‘ اور تمہارا ’’فقر‘‘ دونوں اس رب رحیم وذوالجلال والاکرام کے حضور تمہارے سفارشی بن جائیں گے۔ اور ان کی سفارش قبول بھی ہوگی۔
بے شک جو شخص ’’اللہ‘‘ کے ساتھ حرکت کرتا ہے، اس کی مثال ایسے ہے، جیسے کوئی شخص فوج میں بھرتی ہوجائے، اب وہ گورنمنٹ کے نام سے ہر قسم کا تصرف کرتا ہے اور کسی سے خوف نہیں کھاتا ہے، وہ ’’قانون‘‘ اور حکومت کا ترجمان بن جاتا ہے، اس طرح وہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا ہے اور ہر چیز کے سامنے ثابت قدم رہتا ہے۔
پس ’’اللہ‘‘ ابتدا کے لحاظ سے ذکر ہے اور ’’الحمدللہ‘‘ انتہا کے لحاظ سے ’’شکر‘‘ ہے،  اور جو چیز ان دونوں کے درمیان میں ہے، وہ ’’فکر‘‘ ہے۔ یعنی ان انوکھی نعمتوں کے بارے میں غور و فکر کرنا اور اس بات کا ادراک کرنا کہ یہ نعمتیں اس ذات کا معجزہ اور اس کی بے پایاں رحمت کے تحفے ہیں،جو احد اور صمد یعنی یگانہ، یکتا اور بے نیاز ہے۔ بس اس سوچ کا نام ہی ’’فکر‘‘ ہے۔
تو کیا وہ آدمی، جو اس سپاہی کے قدم چومتا ہے،جو ایک خادم کی حیثیت سے بادشاہ کی طرف سے اسے کوئی قیمتی تحفہ پیش کرتا ہے، کیا وہ آدمی بد ترین حماقت اور معیوب قسم کی بیوقوفی کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے۔ اور واقعتاً ایسا ہی ہے۔ تو پھر اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جو ان مادی اسباب کی تعریف میں مگن رہے جو بظاہر اسے نعمتیں دے رہے ہیں؟ اور انہی اسباب کو حقیقی پیار، محبت اور دلبستگی کا مرکز بنالے اور منعم حقیقی کو یکسر بھول ہی جائے؟ کیا یہ آدمی اس سپاہی سے ہزار گنا زیادہ بیوقوف نہیں ہے؟
پس اے میرے عزیز! اگر تم اس احمق اور بیوقوف کی طرح نہیں ہونا چاہتے ہو تو پھر:
دو، اﷲ کے نام سے۔۔
لو، اﷲ کے نام سے۔۔
شروع کرو، اللہ کے نام سے۔۔
کام سر انجام دو، اللہ کے نام سے۔۔‘‘
اس تفصیلی اقتباس سے انسان کی عبدیت سے سرشار شخصیت اور اس کے تقاضے اور اسم ذات کے ذکر کے ذریعہ اپنے خالق سے تعلق کے نتیجہ میں اس کے تحفظ کی صورت جیسی بہت ساری چیزیں واضح ہوگئیں۔
مراقبہ
مذہب کی نمائندگی کو صحیح رخ دینے کی صورت:
آج مادیت کی طوفان خیز لہروں میں دینی علوم کو فروغ دینے میں علمائے کرام اور دینی مدارس جو کردار ادا کر رہے ہیں، وہ ایسا کردار ہے، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، اگر دینی مدارس نہ ہوتے تو عالمی طاغوت، افراد معاشرہ کو بری طرح مادیت میں مستغرق کر چکا ہوتا اور معاشرے میں قال اللہ وقال الرسول کا نام لینے والے بمشکل ملتے۔ لیکن علمائے کرام اور دینی مدارس کی کثرت کو دیکھ کر، بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی تھی کہ جس طرح مصر اور ترکی میں اہل دین، طویل جدوجہد، بڑی قربانیوں اور بہتر حکمت عملی کے ذریعہ وہاں کے معاشرہ کے رخ کو قابل ذکر حد تک تبدیل کرنے اور عالمی کفر کی مستحکم بنیادوں کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اسی طرح پاکستان میں بھی علمائے کرام یہی کردار ادا کرسکتے تھے، بلکہ پاکستان میں مصر اور ترکی سے بھی زیادہ اس بات کے بہتر مواقع حاصل تھے کہ معاشرہ کو دینی بنیادوں پر مستحکم کرکے کفر، باطل، طاغوت، اور مادیت کے خلاف اس کی مزاحمانہ قوت کو بڑھایا جاتا، لیکن ایسا نہ ہوسکا ہے،جس کی وجہ سے معاشرہ کی پست اور بد سے بدتر قیادت اوپر آگئی ہے اور اس نے پاکستان کی ملت اسلامیہ کا وہ حشر کر دیا ہے کہ وہ موت وزندگی کی کشمکش سے دوچار ہے اور نان شبینہ کی محتاج ہوگئی ہے۔
اگرچہ اس صورتحال کے اسباب مختلف ہیں ہماری نظر میں، اس کا ایک اہم سبب ہماری نظر میں علمائے کرام اور مدارس کی داخلی کمزوریاں ہیں، جس کی وجہ سے سیکولر قوتوں کے غلبہ کی صورت پیدا ہوئی ہے۔ ان داخلی کمزوریوں کی بنیاد احسان یعنی ذکر و مراقبہ اور عبادت کے ذریعہ تقوی، یقین، توکل علی اللہ، فراست مئومنہ، محبت و معرفت اور مسلمانوں کے مختلف طبقات سے رواداری جیسی خوبیوں و صفات کا فقدان ہے۔
ان صفات کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ کہیں مذہب کی نمائندگی میں دوسرے مذہبی گروہوں سے تصادم وفتویٰ بازی کا رنگ غالب ہے، اور بیشتر توانائیاں ایک دوسرے کو زیر کرنے میں صرف ہو رہی ہیں، تو کہیںمذہب کے نام پر قیادت و سیادت کی کاوشیں غالب ہیں۔ کہیں مذہب کے نام پر مسلم معاشرے کے مضبوط ریاستی اداروں سے جہاد و قتال کی صورت جاری ہے (جس سے دہشت گردی کو فروغ ملا ہے) تو کہیں اسلام کے نام پر سرمائیداری کے تحفظ کی صورت پیدا ہو رہی ہے اور سرمائیداری جیسے فاسد نظام کو جزوی تبدیلیوں کے ساتھ اسلام کے لئے قابل قبول صورت دی جارہی ہے۔
کہیںدور جدید کے ہولناک چیلنج کے فہم اور اس سے علمی مقابلہ کے کام سے اعراض کا سلسلہ جاری ہے تو کہیں نئے دور کے نئے مسائل میں اجتہاد کی ضرورت سے انکار کی روش غالب ہے۔
کہیں مدارس کے لئے توکل علی اللہ اور عام لوگوں کے چندہ پر اکتفا کرنے کی بجائے ساری توقعات سرمائیداروں سے وابستہ کی گئی ہیں،یعنی مدارس سرمائیداروںکے  مرہون ہوگئے ہیں تو کہیں مدارس میں تعلیم و تربیت سے زیادہ عمارات کی تعمیر اور ظاہری انتظامات میں توانائیاں صرف ہو رہی ہے۔
کہیں مسلم امت کو وحدت کی صورت دینے اور اس امت کے اتحاد، وحدت اور اس کے فروغ کے کام سے، بے اعتنائی کا رنگ غالب ہے تو کہیں اپنے ہی گروہ کو مسلم امت کی حیثیت دے کر امت کے باقی افراد کی تردید کا مزاج غالب ہے۔
اس ساری صورتحال کا بنیادی سبب جیسا کہ عرض کیا گیا کہ تزکیہ، تہذیب نفس اور ’’احسان‘‘ جیسے عظیم کام سے غیر معمولی طور پر غفلت ہے۔ مدارس میں جو اہمیت عمارات کی تعمیر کو دی جا رہی ہے، جو توانائی ظاہری انتظامات پر صرف کی جا رہی ہے، اگر اس کا ایک حصہ ہی مدارس میں ’’احسان‘‘ کے ملکہ کو راسخ کرنے میں صرف کیا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ علمائے کرام اور مدارس میں موجود ان ساری کمزوریوں کی دوری کی صورت پیدا ہوسکتی ہے اور علمائے کرام اور دینی مدارس معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس لئے کہ’’ احسان‘‘ کے رسوخ سے ان کی توانائیاں ایک ہی مرکزی نکتہ پر آئیں گی، وہ مرکزی اﷲ کے دین کے لئے جینے اور اللہ ہی کے لئے مرنے کا نکتہ ہے۔ اس کے بعد اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنوراللہ۔ (مومن کی فراست سے ڈرو اس لئے کہ وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے) کی سعادت عظمیٰ حاصل ہوگی۔ یہ سعادت عظمیٰ اہل مذہب کے حوالے سے معاشرے میں موجود تضاد، ذہن اور رویوں میں افراط وتفریط، باہمی عدم اعتماد، ایک دوسرے سے دوری جیسی ساری کمزوریوں کو دور کرنے کا موجب ہوگی۔
ذکر و مراقبہ ہمارے سلف کا ورثہ رہا ہے، بزرگوں سے دین و ملت کے حوالے سے جتنے بھی بڑے کارنامے سر انجام ہوئے ہیں، اس میں ذکر و مراقبہ اور عبادت کے ذریعہ اللہ سے تعلق کے غیر معمولی استحکام کے کام کو بنیادی عمل دخل رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند دینی علوم کے احیاء جو ذریعہ بنا ہے، اس سے جس طرح متقی اور علمی رسوخ کے حامل ہزارہا علمائے کرام پیدا ہوئے، جو افراد معاشرے کو دین پر قائم رکھنے اور تحفظ دین کا ذریعہ بنے، اس دارالعلوم کا یہ فیض مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کی نفسی فنائیت، ایثار کے اعلیٰ مقام، فقر، زہد اور استغنا کی مثالی حالت اور ذکر و فکر کے ذریعہ باطنی روشنی اور تعمیر شخصیت میں کمال جیسی صفات ہی کا مرہون منت ہے۔
اللہ کے ذکر و مراقبہ میں جو قوت موجود ہے، ایسی قوت دوسری کسی چیز میں موجود نہیں، اس لئے اہل اللہ اور سلف ہمیشہ معاشرے کی اصلاح اور ہر قسم کے طاغوت سے صف آرائی کے لئے اس کا سہارا لیتے رہے ہیں اور اس کا پابندی اور مستقل مزاجی سے اہتمام کرتے رہے ہیں۔
ذکر و مراقبہ کے اہتمام کے بغیر چونکہ حب جاہ و حب مال، کبر، انانیت، حرص وہوس اور خود نمائی جیسے جذبات طاقتور ہوتے ہیں، اس لئے علم دین کی سند عطا فرمانے کے بعد جب فارغ علماء لوگوں کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں تو یہ جذبات کام کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح مذہب کی نمائندگی میں طاقتور نفسی جذبات شامل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ اندر میں ڈوب کر، خود احتسابی کی تربیت نہ ہوسکی تھی۔ دل کی خوابیدہ  صلاحیتوں کی بیداری کی صورت پیدا نہ ہوسکی تھی۔ اس لئے اب دینی و مذہبی علوم کے حوالوں سے تفریق پیدا ہونے لگتی ہے اور ذاتی اور جماعتی مفادات کے تحفظ کی سرگرمیاں ہونے لگتی ہیں۔
یہ بجا ہے کہ دینی علوم اور دینی ماحول میں آٹھ دس سال تک رہنے اور نیک اساتذہ کی صحبت کے اثرات سے کافی طلبہ کی اصلاح ہونے لگتی ہے۔ اور ان کے مزاج میں کچھ نہ کچھ ٹہرا بھی آجاتا ہے۔ دین کے معاملہ میں حساسیت بھی پیدا ہونے لگتی ہے۔ اور خدمت دین کا جذبہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن نفسی قوتوں پر فتحیابی کے عمل کا تعلق چونکہ کثرت ذکر سے ہے اور مدارس میں ذکر کی مجلسوں کے عدم اہتمام کی وجہ سے عام طور پر طلبہ میں ذکر سے مناسبت پیدا نہیں ہوتی، اس لئے عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد مادیت کی طوفان خیز لہریں ان کی نفسی قوتوں کو مہمیز دینے لگتی ہیں۔
مدارس میں ذکر و فکر کے حلقوں کا اہتمام وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اب مادیت نے عالمی سطح سے لے کر محلہ کی سطح تک جو خوفناک صورت اختیار کی ہے، نظری واستدلالی علم اور ذہانت مادیت کے اس ہولناک سیلاب سے بچانے میں کوئی ٹھوس کردار ادا کرسکے، مشکل ہے۔ ذکر و فکر کے کام کو اختیاری مسئلہ سمجھنا اور اسے طلبہ کی صوابدید پر چھوڑنا صحیح نہیں، اس لئے مدارس کے ذمہ داروں سے دردمندی سے استدعا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو فیصلہ کن اہمیت دیں اور اس کام کو مدارس کے نصاب کا حصہ بنائیں۔
اسم ذات کا ذکر
 علم اور حسن سے بہرہ وری کا ذریعہ
اسم ذات کا لفظ بظاہر ایک لفظ ہی ہے، لیکن اس لفظ میں کائنات کا سارا نور پوشیدہ ہے، اللہ نور السموات والارض(اللہ زمین وآسمان کا نور ہے) اس لفظ میں کائنات کا سارا حسن سمایا ہوا ہے۔ یہ لفظ ساری کائنات کے علم کا منبع وسرچشمہ ہے۔ اس لفظ کے مسلسل تکرار سے فرد کے اندر ایسا نور پیدا ہوجاتا ہے، جو قرآن وسنت کی معنویت اور روح میں سمایا ہوا ہے یا اس کے فہم کا ذریعہ ہے یا ایھاالذین آمنوا اتقواللہ وآمنو برسولہ یوتکم کفلین من رحمۃ ویجل لکم نورا تمشون بہ (اے ایمان والو، اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تو تمہیں رحمت کے دوحصے عطا کئے جائیں گے اور ایسا نور عطا کیا جائے گا، جس میں تم چلوگے۔)
اسم ذات کے مسلسل ذکر اور اس کے تکرار سے فرد حسین صفات، حسین کردار اور حسین اخلاق کا بھی حامل بن جاتا ہے۔ تخلقوبااخلاق اللہ، (اللہ کے اخلاق اختیار کرو) اللہ رحیم ہے تو بندہ بھی اپنے دائرہ کار میں ان کی مخلوق کے لئے رحم والا بن جاتا ہے، اللہ بردبار ہے، بندوں کی ساری سیاہ کاروں کو دیکھتے ہوئے بھی وہ بردباری سے کام لیتا ہے۔ بندہ بھی لوگوں کے قصوروں کی معافی کے سلسلہ میں آخری حد تک صبر سے کام لیتا ہے۔ اللہ رازق ہے، سب کو روزی دیتا ہے تو بندہ بھی دستیاب شدہ وسائل کو اپنی ذات سے زیادہ اللہ کی بے کس اور مفلس مخلوق پر صرف کرنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ اللہ قہار ہے، وہ سرکش انسانوں کو سزا دیتا ہے تو بندہ بھی اللہ سے آخری حد تک بغاوت اختیار کرنے والوں اور اللہ کی مخلوق کو ایذا رسانی والوں کے لئے قہار بن جاتا ہے۔
غرض کہ اسم ذات کے مسلسل ذکر اور اس کے مراقبہ سے فرد حسن سے سرشار ہوجاتا ہے۔ ایسا حسن، جس سے مادی حسن کی رونق ماند ہوجاتی ہے۔ اور ساری کائنات کا حسن بھی ہیچ ہوجاتا ہے۔
اسم ذات کے ذکر کا تکرار فرد کو ایسا علم عطا کرتا ہے، جو عقل کی سرحدوں کو عبور کرکے، نفس کی قوتوں کو پامال کرکے، دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔ اس علم سے تقویٰ پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کی شان ِ عظمت کا تصور راسخ ہوتا ہے۔ معرفت آجاتی ہے۔ خیروشر میں تمیز پیدا ہونے کا ملکہ راسخ ہونے لگتا ہے، طاغوت اور باطل سے مزاحمت کی استعداد پیدا ہوتی ہے اور اس کا سلیقہ آجاتا ہے۔ واتقواللہ ویعلکم اللہ (اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہیں علم عطا فرمائے گا)۔
سارے علوم کی مالک ہستی سے تعلق کے استحکام کے بعد حاصل ہونے والا علم اصل میں وہی علم ہوتا ہے، جو قرآن وسنت میں موجود ہے، یہی علم قدرت نے فطرت میں ودیعت کیا ہوا ہے۔ بل ھو آیاۃ بینات فی صدور الذین اوتوالعلم (بلکہ یہ قرآن کی واضح آیات ہیں جو اہل علم (یعنی اہل معرفت) کے سینے میں (پہلے سے) موجود ہیں۔
اسم ذات کے ذکر کا تکرار فرد کو غنی کر دیتا ہے اور اس کے سینے کو معنوی خزانہ سے بھر دیتا ہے۔ اوروہ ایسے خزانہ کا مالک بن جاتا ہے، جس کے مقابلہ میں ساری کائنات کا خزانہ بھی ہیچ ہے۔ فقر، زہد اور دنیا سے بے نیازی اس کی شان اور علامت بن جاتی ہے۔
اسم ذات کے ذکر کا تکرار فرد کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ ایک طرف تو اللہ کے انوار حسن سے بہرہ ور ہوتا ہے، اس کا دل اللہ کی ہستی کے ساتھ ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ عملا مخلوق کی خدمت میں مصروف ہوتا ہے۔ اور ان کی رہنمائی کررہا ہوتا ہے اور انہیں زندگی کی مشکلات سے عہدہ برآہونے کے سلسلہ میں حوصلہ دے رہا ہوتا ہے۔
اسم ذات کے ذکر میں مداومت، سالک کو قرآن وسنت کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے بارے میں بھی غیرمعمولی طور پر حساس بنا دیتی ہے، اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ محبوب کی رضامندی کا راستہ یہی ہے۔ ذکر ومراقبہ اس کی شریعت پر عمل پیرا ہونے کے ملکہ کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے عشق کو فروزاں کردیتا ہے اور آپ کی ہرسنت سے محبت پیدا کر دیتا ہے۔
اسم ذات کی کثرت کا ذکر جب سالک کے نفس کی تہذیب کرکے، اسے فنا سے حالت بقا میں لاتا ہے تو صوفی افراد معاشرہ کو علم اور حسن کی ایسی سعادتوں سے فیضیاب کرتا ہے، جس سے عام طور پر معاشرہ بے بہرہ ہوتا ہے۔ قرآن وحدیث پڑھنے اور سننے کے باوجود وہ قرآن وحدیث کی اس معنویت سے محروم ہوتے ہیں۔ اس علم اور حسن کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ صوفی کی صحبت میں آنے والے افراد کی زندگی اور ان کے رنگ ڈھنگ میں تبدیلی آنے لگتی ہے اور وہ ملعون دنیا کی محبت سے نکل کر، خدا سے محبت کرنے لگتے ہیں اور انسانی جوہروں سے فیضیاب ہونے لگتے ہیں۔ افراد کی زندگی میں یہ معنوی تبدیلی، اللہ کے ذکر اور اسم ذات پر مجاہدوں کے بغیر محض علم کے ذریعہ عام طور پر پیدا نہیں ہوتی۔
اس لئے اللہ کے ایسے بندوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظربنور اللہ (مومن کی فراست سے ڈرا کرو، اس لئے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے)۔
اللہ کے نور سے دیکھنے کی یہ حقیقی استعداد اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب ذکر کے غیرمعمولی مجاہدوں سے نفس کی تہذیب ہوتی ہے۔ خودنمائی اور انانیت کے بت پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ ان بتوں کی موجودگی میں یہ نور پیدا ہو اور یہ نور سینے کو گھیرلے، اندر کو منور کردے، فرد کو فراست سے بہرہ ور کردے، ممکن نہیں۔
اسم ذات کے کثرت ذکر سے جو معاشرہ جنم لیتا ہے، اس کے افراد چھینا جھپٹی کے بجائے ایک دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے لگتے ہیں۔ چونکہ ذکر کا نور انہیں اندر سے تبدیل کردیتا ہے، اس لئے وہ ایک دوسرے سے محض اللہ کے لئے محبت کرنے لگتے ہیں۔وہ قول وفعل کے تضاد سے محفوظ ہوتے ہیں۔ وہ باتوں سے زیادہ عمل کے غازی ہوتے ہیں۔ وہ وسائل سے محروم ساتھیوں کے لئے ایثار کا مظاہرہ کرکے، ان کی محتاجی کو ختم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں اور افراد معاشرہ میں اختلال وانتشار پیدا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی ذات سے خیر وبھلائی ہی صادر ہوتی ہے۔
اگرچہ ذکر ومراقبہ کی دنیا میں آنے والے ہر فرد میں معنوی تبدیلی کا آغاز پہلے دن سے ہی ہوجاتا ہے، لیکن اس میں پختگی مسلسل چلتے رہنے کے بعد ہی آتی ہے۔
مولانا رومی نے اس علم کے بارے میں یہاں تک کہا ہے۔
بینی اندر علوم انبیا
بے معید وبے کتاب واوستا
(انبیاء کے علوم کا اپنے اندرمیں مشاہدہ کرو،بغیر رہنما،بغیر کتاب اور بغیر استاد کے) اگرچہ مولانا کی اس بات میں ایک طرح کا غلو نظر آتا ہے۔ اور اس سے غالی اور جاہل صوفیوں کو قرآن وسنت کے علوم سے بے نیاز ہونے میں مدد بھی ملتی ہے، لیکن مولانا نے اس شعر میں دراصل اپنے جیسے بے شمار علماء کے اس مشاہدہ کی عکاسی کی ہے کہ جب تک انہوں نے محض ظاہری علوم پر اکتفا کیا تب تک نفسی حجابات کی شدت قائم رہی۔ اور دین کے اصل حقائق کو سمجھنے میں رکاوٹ رہی، لیکن جوں ہی کسی اہل اللہ کا دامن تھام کر ذکر وفکر کے ذریعہ محبت الٰہی کی راہ پر گامزن ہوئے اور معرفت کے ارتقائی مراحل طے کئے تو انہیں معرفت نفس کے ساتھ کسی حد تک معرفت رب بھی حاصل ہوئی اور فطرت کی گہرائیوں میں موجود صداقتوں کی راہیں کھلتی گئیں اور قرآن وسنت کے نور تک رسائی میں آسانی ہوتی گئی۔
مراقبہ
 معاشی جدوجہدمیں اعتدال پیدا کرنے کا وسیلہ
جدید لوگوں کا ایک اشکال یہ ہے کہ جدید دور میں افراد کی معاشی زندگی بڑی پیچیدہ اور دشوار تر ہوگئی ہے۔ فرد جب تک وقت کا قابل ذکر حصہ معاش کے حصول کی جدوجہد میں صرف نہیں کرتا،تب تک اس کی معاشی ضروریات پوری نہیں ہوتی، اس طرح کی معاشی مسابقت اور معاشی جدوجہد کی دوڑ میں طالب، ذکر وفکر اور مراقبہ کی راہ اختیار کرے تو کیا اس سے اس کی معاشی دشواریوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ مراقبہ اور ذکر وفکر کی راہ معاش کے لئے جدوجہد اور معاشی سرگرمیوں سے روکتی نہیں، بلکہ معاشی جدوجہد کی راہ میں حائل دشواریوں کو دور کرنے کا ذریعہ ہے۔ فرد، حصول روزگار کے سلسلہ میں سرگرم عمل ہوتے ہوئے ایک تو حرص وہوس اور حب مال کا شکار ہوجاتا ہے، جس سے اس کی بیشتر توانائیاں دولت کے حصول میں صرف ہوجاتی ہیں، دوم یہ کہ روزگار کے حصول کا جذبہ، جب دولت جمع کرنے کے حرص میں تبدیل ہوجاتا ہے تو فرد، جائز وناجائز سے بے پرواہ ہو کر یا افراد معاشرہ پرفیسوں کا بوجھ بڑھاکر یا چیزوں کو مہنگا بیچ کرکے، ان سے لوٹ مار شروع کر دیتا ہے۔ ذکر وفکر اور مراقبہ کی راہ فرد کی اس طرح کی خواہشات کی حدبندی کرتی ہے، اور اسے ضرورت سے زائد دولت کمانے یا دولت سے تعیش کے ساتھ زندگی گزارنے سے روکتی ہے۔ ذکر وفکر کی راہ جائز روزگار کے حصول کی راہ میں معاون ہے، نہ کہ رکاوٹ۔ حقیقت یہ ہے کہ ذکر وفکر کے سوا یہ قوت کسی چیز میں موجود نہیں کہ وہ افراد کی طاقتور نفسی خواہشوں کی راہ روک سکے۔ یہ کارنامہ اللہ کا ذکر ہی سرانجام دے سکتا ہے۔موجودہ دور میں انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ ڈاکٹروں، وکیلوں، آفسروں، صنعتکاروں، تاجروں اور ٹیکنیکل ماہروں وغیرہ کو حرص وہوس کی خاطر انسانیت کو پامال کرنے سے روکا جائے، اور ان کے حب جاوہ وحب مال کے جذبات پر قدغن لگائی جائے اور ان کے جذبات کی تہذیب کی جائے۔ چونکہ موجودہ دور میں حکومت واقتدار اور پالیسی سازوں کا اختیار انہی طبقات کو حاصل ہے، اس لئے ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ حکومت کے ذرائع اور تعلیم وتربیت کے اداروں سے کام لے کر یہ فریضہ سرانجام دین گے، یہ آرزو بے معنیٰ ہے۔ ویسے بھی نفس کے بت خانے کو شکست دے کر تہذیب نفس کا فریضہ سرانجام دینا، یہ دنیاوی اداروں کے بس کی بات نہیں، یہ انبیاء کرام کی ذمہ داری رہی ہے۔ انبیاء کے بعد یہ فریضہ علمائے ربانی ہی سرانجام دیتے رہے ہیں اور اب بھی وہی دے سکتے ہیں، اس سلسلہ میں ان سے رجوع ہوئے بغیر معاشرہ کو حب جاہ وحب مال کے مریضوں اور مجرموں سے نجات دلانے اور ان کے فساد سے بچانے کی کوئی تدبیر کامیاب ہو، ممکن نہیں۔ ذکر وفکر اور اللہ کی محبت اختیار کرنے والوں سے اہل اللہ کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وہ ڈاکٹر ہوں یا انجنیئر، تاجر ہوں یا صنعتکار، دانشور ہوں یا عالم، افسر ہوں یا سیاسی وسماجی کارکن، یا عام محنت کش، وہ اپنی نفسی خرابیوں کی وجہ سے افراد کے لئے فساد کا موجب نہ ہوں، اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض ادا کرنے اور قناعت کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھیں، یہ سلیقہ سیکھنے کی سب سے بہتر صورت یہی ہے کہ وہ اللہ کی محبت کی دنیا میں شامل ہوکر، روزانہ کم از کم آدھے گھنٹے کے ذکر ومراقبہ کو معمول بنالیں۔ آدھے گھنٹہ کا یہ مراقبہ اور صحبت صالح کا تسلسل انہیں اللہ اور اللہ کی مخلوق کے لئے درد سے آشنا کردے گا، اور دنیا کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر آمادہ کرے گا۔ اور قیمتی وقت کو مادی گند کچرے گھر میں لاکر جمع کرنے کے خبط اور جنوں سے بچائے گا۔ اس طرح جہاں معاشرہ بڑھتے ہوئے فساد کی زہرناکیوں سے بچ سکے گا، وہاں افراد کے لئے قرآن کی درج ذیل نوعیت کی وعیدوں سے بھی بچنے کی صورت پیدا ہوگی۔
والذین یکنز ون الذھب والفضۃ ولاینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم۔ (جو سونا وچاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے پس ان کے لئے شدید عذاب کی وعید ہے)۔
مراقبہ
 افراد سے معاملات میں بہتری کا ذریعہ
آج تقریبا ہر فرد کو یہ شکایت لاحق ہے کہ افراد سے اس کے تعلقات میں بہتری وخوشگواری کی بجائے ابتری پیدا ہوتی جارہی ہے۔ گھر والوں سے اکثر ناچاقی رہتی ہے،دفتر والوں سے تکرار ہوتی رہتی ہے، دوستوں سے کھینچاتانی رہتی ہے۔ گاہکوں سے تلخیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چاہت تو یہ ہے کہ ایسا نہ ہو، سب سے بہتر تعلقات کی صورت پیدا ہو۔
اس شکایت کا اگر گہرا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ساری صورتحال حرص وہوس، حب جاہ، مفادات اور غیظ وغضب کے شیطانی جذبات ہی کی پیداوار ہوتی ہے۔ فرد بظاہر چاہے کتنا ہی چاہے کہ ایسا نہ ہو، لیکن جب تک وہ نیت کو بدلنے کی راہ پر گامزن نہ ہوگا، تب تک اس کی چاہت سطحی نوعیت کی ہوگی اور اندر کے طاقتور شیطانی جذبات کا نتیجہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا نکل سکے، ممکن نہیں۔
بعض افراد کا کہنا ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے اور وردوظائف کرنے کے باوجود ان کے معاملات میں بہتری کی صورت پیدا نہیں ہوتی اور روزانہ کئی بار افراد سے تلخی کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے، جس سے ذہنی دباؤ کی حالت غالب ہوجاتی ہے اور طبیعت میں اعتدال اور توازن پیدا نہیں ہوتا اور نہیں تو مخاطب سے گفتگو کرتے وقت ایسا انداز بیان استعمال ضرور ہوجاتا ہے، جس سے اس کی تحقیر ہونے لگتی ہے اور غصہ کا شیطان غالب ہوجاتا ہے۔
یہ بڑی تشویشناک صورتحال ہے۔ افرادِ معاشرہ کی بڑی اکثریت کا نفسیاتی اور مزاجی ڈھانچہ اسی نوعیت کا بن گیا ہے اور تیزی سے مزید بنتا جارہا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب مادیت کا بڑھتا ہوا عالمی رجحان بھی ہے، جس نے افراد معاشرہ کی سوچ کو مادی نوعیت کی سوچ میں تبدیل کردیا ہے۔ اور مادی مفادات کو مقصود کی حیثیت دے کر، اس کے لئے جہدوجہد کو ہدف قرار دیا ہے۔ یقینا عالمی سطح کی مادی فضا سے اس سوچ کو کافی فروغ ملا ہے، لیکن ہماری نظر میں یہ صورتحال افراد کے اپنے ہی داخلی احساس کی نزاکت کا نتیجہ ہوتی ہے، اندر میں جس قسم کے احساسات وجذبات غالب ہوتے ہیں، خارجی زندگی انہی احساسات کے عملی اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ ہو نہیں ہو سکتا کہ اندر میں تو انسانیت نوازی کے جذبات غالب ہوں اور افراد سے معاملات کے وقت اس کے بالکل برعکس غیریت اور دوری ودشمنی اور اذیت رسانی کا کردار سرزد ہو۔
ساری سرگرمیاں اندر کے جذبات کا عکاس ہوتی ہیں
یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی ساری کی سرگرمیاں اندر کے احساسات وجذبات کی عکاس ہوتی ہیں۔ اگر آپ کا باظن انسانیت نوازی کے جذبات سے سرشار ہے، اگر آپ کے دل میں دوسروں کے ساتھ محبت موجود ہے، انسانیت کا درد غالب ہے۔ اور انسانوں کی بھلائی کا احساس موجود ہے تو اندر کے یہ پاکیزہ احساسات، بہتر کردار کی صورت میں ظاہر ہو کر،دوسروں کا دل جیتنے میں کامیاب ہوں گے اور ان کی خوشی اور سرور کا باعث بنیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو مصنوعی طور پر آپ کتنی ہی کوشش کریں کہ محبت ورواداری کا مظاہرہ ہو اور دوسروں کا دل آپ سے کشش محسوس کرے۔ یہ نہ صرف یہ کہ مشکل ہے،بلکہ دشوار تر ہے۔ مغربی معاشرہ نے اپنے لوگوں میں تربیت کے ذریعہ قومی وکاروباری اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جو یقینا ایک حد بہتر کردار ہے، لیکن چونکہ اس کردار میں باطن کی پاکیزہ بنیادوں پر تبدیلی اور تہذیب نفس کا عمل شامل نہیں ہے، اس لئے مغرب کا یہ قومی اور کاروباری اخلاق ایک حد تک ہی کارگر ہے۔ اس کردار سے انسانیت نوازی، محبت ورواری کے جذبات فروغ پذیر نہیں ہوتے، اس لئے کہ ان کا دل انسانیت کے وسیع تر پاکیزہ جذبات سے خالی ہوتا ہے۔
اسم ذات کا ذکر اور مراقبہ افراد کے اندر کوبدل کر، انہیں پاکیزہ بنانے، اس طرح معاملات کو بہتر بنانے اور افراد سے معاملات میں بہتری کی صورت پیدا کرنے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے، اس لئے کہ اللہ کے انوار حسن کی شعائیں فرد کے اندر موجود غیظ وغضب، مفادات اور مادیت کے بتوں کو پاش پاش کرکے،ان میں بے نفسی، بے غرضی اور للھیت پیدا کردیتے ہیں اور انہیں انسانیت کے درد سے آشنا کردیتی ہیں۔
دل کی تبدیلی کی یہی مؤثر صورت ہے اور ظاہر ہے، دل کی تبدیلی سے فرد کی ساری زندگی اوراس کے احساسات کی ساری دنیا ازخود تبدیل ہوجاتی ہے۔ ذکر ومراقبہ کی اس سعادت کے باوجود اس کی طرف نہ آنا، اسے معمول نہ بنانا اور ذکر ومراقبہ کے حلقوں سے اعراض کرنا، یہ اپنے ساتھ بدخواہی کرنا ہے۔ ایسی بدخواہی، جس سے زندگی میں سارے فساد ظہور پذیر ہوتے ہیں اور فرد وافراد کی زندگی زہر سے عبارت ہوجاتی ہے۔
مراقبہ فرد میں انسانیت کے حوالے سے
حساسیت پیدا کرنے کا ذریعہ
آج کل ہماری سرگرمیاں عام طور پر انسانوں کو پامال کرتے ہوئے، انسانیت کے عزت وشرف ووقار کو زک پہنچاتے ہوئے،زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کی سرگرمیاں ہیں۔ معاشی طور پر ایک دوسرے کو زبر کرنے اور جلد سے جلد مالدار بننے کی دوڑ نے انسان کو معاشی حیوان کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے افراد صبر وشکر کے ساتھ جدوجہد کرنے کی بجائے حیرانی وپریشانی کی تصویر بنے ہوئے نظر آتے ہے۔ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی پرساں حالی کا نظام ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ جس دولت کے حصول کے لئے یہ ساری دوڑ شروع ہے، اس دولت کا جو حاصل ونتیجہ سامنے ہے، وہ مالداروں کی سنگ دلی، دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے کا رجحان، غریب عزیز واقارب سے بے رحمی اور انہیں ان کی حالت زار پر رہنے دینے کی نفسیات، دولت سے مزید دولت جمع کرنے کے جنون، بڑھتی ہوئی اعصابی اور نفسیاتی بیماریاں، دولت کو عزت ووقار کا ذریعہ سمجھنے کی رَو، نیند کا اڑ جانا، بلڈپریشر کا مریض ہو کر، اپنی زندگی کو خطرات میں ڈالنا، دوسروں کی رقم دبانے کے لئے مکروفریب کے حربے اختیار کرنا، چھوٹے سے چھوٹے معاملات کو بھی سلیقہ سے سرانجام دینے کی صلاحیت سے قاصر ہونا، ہرچیز کو مادی فوائد کے نقطہ نگاہ سے دیکھنا، وغیرہ، یہ ایسی بیماریاں ہیں،جو مالداروں کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ مالدار صنعتکار ہوں، یا تاجر، حکمراں ہوں یا سرکاری افسر، وکیل ہوں یا ڈاکٹر، تقریبا ہر مالدار، انسانی جوہروں سے بے بہری کی وجہ سے سنگ دلی، شقاوت قلبی اور دوسروں سے شاکی ہونے کی ان بیماریوں میں بڑی حد تک مبتلا ہے۔
یہ صورتحال ایسی ہے، جس نے معاشرہ کو بیمار معاشرہ اور فساد سے عبارت بنا دیا ہے۔ افراد کی اس زبون حالی کی وجہ سے معاشرہ کو، کسی بھی سطح پر یعنی شہری سطح سے لے کر قومی سطح تک کسی صحتمند تحریک شروع کرنے کے صلاحیت سے قاصر کر دیا ہے۔ اس لئے تبدیلی ٔ معاشرہ کا درد رکھنے والے افراد صدا دیتے دیتے تنہائی وبے بسی کی تصویر بن کر خون کے آنسو بہانے پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔
اس صورتحال کی تبدیلی میں اسم ذات کے مراقبہ کا اہتمام اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ، اللہ کے ذکر سے نفس کی خصوصیات اور اس کی پسند وناپسند میں بنیادی، جوہری اور فیصلہ کن تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
معاشرے کے غریب، بے کس اور ذہنی، علمی اور عملی صلاحیتوں کے اعتبار سے کمزور افراد کا کچھ حصہ تو کسی نہ کسی حد تک ذکر وفکر کے حلقوں سے وابستہ ہے۔ جس سے کسی حد تک ان کی اپنی اصلاح کی صورت پیدا ہوجاتی ہے، لیکن ان کے دائرہ کار اور صلاحیتوں کے محدود ہوجانے کی وجہ سے وہ معاشرہ پر اثر انداز ہونے اور مؤثر افراد تک رسائی حاصل کرکے ان کے کردار کو بدلنے کا پیغام دینے سے قاصر ہیں۔
معاشرہ کی ہمہ جہتی سطح پر اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کے مؤثر افراد اس نکتہ کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ مادیت اور مادی زندگی کو ہر قیمت پر خوشحال سے خوشحال بنانے اور دولت کے ڈھیر جمع کرنے پر مشتمل ان کی سرگرمیاں ان کے اپنے لئے، ان کی اولاد کے مستقبل کے لئے اور جس ملک سے ان سب کا مستقبل وابستہ ہے، ان سب کے لئے تباہ کن ہیں۔ اس لئے کہ روحانیت سے بے بہرہ خالی مادی سرگرمیاں انسانی معاشرہ کو درندوں کے معاشرہ میں تبدیل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ جہاں خونخوار درندے ایک دوسرے کو خون آلود کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ذکر ومراقبہ ایسی چیز ہے، جو انسان کو اسفل السافلین سے اوپر اٹھا کر، ملکوتی دنیا میں لے جانے کا ذریعہ ہے۔ ذکر ومراقبہ، فرد وافراد میں اس احساس کو طاقتور بنا دیتا ہے کہ احترام انسانیت اور درد انسانیت جیسے جوہری اوصاف ہی انسانیت کا اصل سرمایہ ہیں۔ خیر الناس من ینفع الناس (لوگوں میں بہتر وہ ہے جو ان کے لئے نفع بخش ہے، جو انہیں فائدہ پہنچاتا ہے)۔
ذکر ومراقبہ افراد کے اس احساس کو فروزاں کردیتا ہے کہ احترام انسانیت اور دردِ انسانیت کے منافی سرگرمیاں ساری نیکیوں کو برباد کرنے کا موجب ہوتی ہیں، ایسا فرد اللہ کی مخلوق کو اذیت پہنچانے سے اس طرح ڈرتا ہے، جس طرح شیر سے ڈراجاتا ہے، انسانیت کے حوالے سے یہی حساسیت انسان کا سرمایہ ہے۔ جدید مادی نظریات اور اس کی کھو کھ سے جنم لینے والی تہذیب نے انسان سے اس کا سب سے بڑا یہی سرمایہ چھین لیا ہے، جو انسانیت پر اس کا سب سے بڑا ظلم ہے۔
انسانیت کی ساری محرومیوں اور اسے درپیش ساری مصیبتوں سے بچاؤ کی واحد صورت یہ ہے کہ انسان کے مادی وجود پر اس کی روحانیت کو غالب کیا جائے، تاکہ وہ مادہ کی سرکش قوتوں کا کھلونہ بننے سے بچ سکے اور وہ انسانیت کی اصل شان اور اس کے وقار سے آشنا ہو سکے۔ محبوب حقیقی کے حسین ناموں کے تکرار بالخصوص اسم ذات کے تکرار سے جب معنوی حسن سے آشنائی ہوگی تو از خود انسانی درد سے بہرہ وری کی صلاحیت پیدا ہوتی جائے گی۔
مراقبہ
 خوشی ولذت کے لازوال احساسات سے سرشاری کا ذریعہ
جس طرح شہد کی مٹھاس کو الفاظ میں بیان کرنے سے اس مٹھاس کی حلاوت سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں۔ اسی طرح مراقبہ اپنے پہلو میں حسن کا جو وافر خزینہ سمائے ہوئے ہے، اس کی اہمیت الفاظ کے بڑے سے بڑے ذخیرہ سے بھی اجاگر نہیں ہو سکتی۔ مراقبہ کی حلاوت سے زندگی تانباکی کی جو صورت اختیار کرتی ہے، وہ ایسا مشاہداتی عمل ہے، جو خوش نصیبوں ہی کو حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ ایسی حلاوت ہے، جس کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہی بھی ہیچ ہے، لیکن مراقبہ ایک مرحلاتی عمل ہے، مبتدی ومتوسط سالک کے مراقبہ میں جہاں حلاوت ہے، وہاں شدید مشقت اور بے پناہ مجاہدے بھی ہیں، لیکن منتہی صوفی کا مراقبہ گویا سکینت وخوشی ولذت کی ایسی دنیا ہے، جس سے بڑھکر کوئی سکینت وخوشی ہو نہیں سکتی، دنیا میں اس سے بڑھکر خوشی کا تصور ممکن نہیں۔
صوفی کو انسانیت کے حوالے سے لاحق درد
مراقبہ، محض مراقبہ اور سکینت ہی نہیں ہے،بلکہ یہ مراقبہ صوفی کو انسانیت کے حوالے سے بھی بے چین وبے تاب کر دیتا ہے۔ صوفی کو یہ درد کھائے جاتا ہے کہ انسانیت محبوب حقیقی کی محبت سے ناآشنا ہو کر اس دنیا میں بھی محبوب کے جلال وعتاب کا شکار ہوکر، مال ودولت کی گندگی کے ڈھیر پر فریفتگی کی مریض بن کر زندگی گزارتی ہے تو آخرت میں بھی وہ محبوب کے جلال وغضب کا نشانہ بنے گی۔
انسانیت کے المیہ پر صوفی کا ماتم کناں ہونا
انسانیت کے اس المیہ پر صوفی ماتم کناں ہوتا ہے، اس لئے محبوب حقیقی کی محبت کی دعوت دیتے ہوئے وہ بعض اوقات بے تابی کی ساری حدود پھلانگ جاتا ہے، اور زبان حال سے یہ کہہ رہا ہوتاہے کہ کاش کہ اس کے پاس ایسا گُر اور جوہر ہوتا، جس سے وہ لوگوں کو مادی دنیا اور عارضی دنیا کی محبت سے نکال کر ان کے دل کو مادی دنیا کی فریفتگی سے محبوب کی محبت میں تبدیل کر سکے، وہ جب ایسا کرنے میں ناکام ہوتا ہے، لوگ اس کے جذبات دل اور درد جگر کی نوعیت کو سمجھنے میں ناکام ہوتے ہیں تو وہ باکراہ قدرت کی منشا پر سر تسلیم خم کرنے لگتا ہے۔ تاہم اس کے دل سے محبوب کے سامنے یہ فریاد ضرور نکلتی ہے کہ وہ اپنے فضل خاص سے لوگوں کے دلوں کو نرم اور درد آشنا بنا دے، ان کے دل کو محبت کا پیام سننے اور سمجھنے کے لئے کھول دے۔
ذکر ومراقبہاسلامی تہذیب کی روح
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ اسلامی مراقبہ دوسرے مذاہب اور جدید مغربی طرز کے مراقبوں کی طرح محض فکری انتشار سے بچنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی مراقبہ، مراقبہ کی ان ساری شکلوں سے جوہری طور پر مختلف ہے، اس لئے کہ مراقبہ کے اس تصور میں اللہ کے اسم ذات کا استحضارکرکے، اللہ کے انوار حسن کو جذب کرنے، ان انوار حسن کے ذریعہ نفس کا تزکیہ کرنے، اسے پاکیزہ بنانے اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی اطاعت میں مستعدی کا مظاہرہ کرنے کی کاوش ہوتی ہے۔
 اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بجا ہوگا کہ اسلامی مراقبہ، اسلامی تہذیب کی اصل اور اس کی روح ہے۔ اس مراقبہ سے فرد، اسلامی تہذیب کا پاکیزہ نمونہ بن کر سامنے آتا ہے۔ دراصل اسلامی مراقبہ، ذکر ہی کی اعلیٰ شکل ہے۔ ایک ذکر تو وہ ہے، جو زبان سے ادا کیا جائے۔ دوسرا ذکر وہ ہے، جس میں دل کی ساری قوتیں شامل ہوجائیں۔ جس سے اندر میں موجود جذبات واحساسات کا تلاطم مدھم ہوجائے اور قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمینکا منظر پیدا ہوجائے (یعنی کہو کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میرا موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے)۔ مراقبہ کی کثرت فرد وافراد میں یہ استعداد پیدا کرنے کی پوری طرح صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے کہ اسم ذات کی تجلی سے نفسی اور مادی قوتوں پر روحانی قوت غالب آنے لگتی ہے، روحانیت کے غلبہ سے فرد،مادی طور پر تہی دست ہونے کے باوجود خوشی ومسرت کے بے پناہ احساسات سے سرشار ہونے لگتا ہے۔ گویا اسے ساری دنیا کی دولت حاصل ہوگئی ہے۔
ذکر ومراقبہ، فرد و افراد میں محبوب حقیقی کے لئے فدائیت پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ایسا فرد، قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں سب سے آگے ہوتا ہے، اگر اسے علم کی زیادہ مقدار نہ بھی حاصل ہو، تاہم وہ عمل کا غازی ہوتا ہے۔ وہ عمل صالحہ کے ذریعہ محبوب سے زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ اس لئے ذکر ومراقبہ کو اسلامی شریعت کی روح قرار دینا صحیح ہوگا۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنۃ لمن کان یرجواللہ والیوم الاخر وذکر اللہ کثیرا (بے شک تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہتر نمونہ ہے۔ ان کے لئے جو آخرت کے دن اللہ سے رجوع ہونے کی امید رکھتے ہیں اور جو کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں)۔
آج کے دور کے بزرگوں کے بارے میں اشکال اور اس کا جواب
ایک اہم سوال  جو جدید علمی حلقوں میں اہل تصوف بالخصوص بزرگوں کے بارے میں پیدا ہوتا ہے، جسے یہاں زیر بحث لانا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ جدید دور کے بزرگوں کا قابل ذکر طبقہ ایسا ہے، جو دولت سے کھیلتا ہے۔ بنگلوں، گاڑیوں اور بینک بیلنس کے معاملہ میں وہ سرمائیداروں سے کسی صورت کم نہیں۔ مریدوں کی بہتات ہے اور ان کے مریدوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں ایسے بزرگوں سے بہت فیض ملتا ہے اور ان کی روحانی تشنگی دور ہوتی ہے۔ آخر یہ کیا ہے اور اس کی توجیہ کیا ہے؟
اس مختصر مقالہ میں اس بحث کے سارے پہلوئوں کو پیش کرنا تو دشوارہے، لیکن دوچار اہم باتیں پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جو بزرگ ذکر و فکر کے صبر آزما مجاہدوں کے ذریعہ نفس کو بڑی حد تک مات دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ (جسے اصطلاح میں فنا سے بقا کا مقام کہا جاتا ہے) حاصل ہوتا ہے، ایسے بزرگوں کا دل دنیا سے کشش محسوس کرنے کی بجائے دنیا سے مستغنی ہوتا ہے۔ تاہم اس طرح کے بزرگوں کو بھی خلافت کی اجازت دینے میں یہ نکتہ اور پہلو شامل ہوتا ہے کہ وہ سرمائیداروں اور مالداروں سے احتیاط کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر انہوں نے اس اصول کی خلاف ورزی کی تو اس کی سزا کے طور پر وہ دنیا کے اثرات بد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
اس سلسلہ میں قرآن کی وہ آیت بہت اہم اور آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا جا رہا ہے کہ، ’’فلا یصدنک عنھا من لایومن بھا والتبع ھوٰہ فتردٰی‘‘ (پس ایسا نہ ہو کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا اور خواہشات کا پیروکار ہے وہ کہیں تمہیں اس سے یعنی آخرت سے دور نہ کردے)
اس لئے حقیقی بزرگ اس معاملہ میں بہت زیادہ محتاط ہوتے ہیں، اس لئے کہ وہ بیس پچیس سال تک نفس کی حیرت انگیز قوتوں کے مشاہدہ کے عمل سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ روحانی استفادہ کے لئے آنے والے مالداروں سے وہ دوستانہ مراسم استوار کرنے میں محتاط ہوتے ہیں۔ البتہ موجودہ دور میں بزرگی و درویشی کے نام پر دولت کے جو مظاہر ہو رہے ہیں، وہ اصل میں یا تو درگاہی بزرگ ہوتے ہیں۔ جنہیں خاندان میں ورثہ کے طور پر جائداد اور مرید ملتے ہیں، بالکل ایسے، جیسے پہلے بادشاہت اور اب سیاست ورثہ کے طور پر باپ سے اولاد میں منتقل ہو رہی ہے۔ اس طرح کے پیر روایتی پیر ہوتے ہیں، وہ فقر و درویشی کی لذت سے آشنا نہیں ہوتے۔
البتہ اس طرح کے گدی نشینوں سے مریدوں کو جو فیض ملتا ہے، اس کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کے خاندان کے بڑے بزرگوں سے محبت کے نتیجہ میں مریدوں کو روحانی وراثت کے طور پرکچھ فیض ملتا ہے جو بہتر کیفیات کی صورت میں ہوتی ہے، لیکن اس فیض سے تربیت نہیں ہوتی اس فیض کی دوسری نوعیت یہ ہوتی ہے کہ یہ گدی نشین صاحب، ذکر و فکر کے کچھ نہ کچھ حلقوں میں توشریک رہے ہیں۔ اس لئے ابتدائی قائدہ اور پہلی کلاس کے حامل طلبہ کو وہ اسباق پڑھانے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔ البتہ جو راہ سلوک میں قابل ذکر حد تک چلے ہی نہ ہوں۔ وہ مریدوں کو آگے کے مراحل طے کیسے کرا سکتے ہیں۔ اس لئے اس طرح کے گدی نشینوں کے فیض کی نوعیت وقتی اور ہنگامی کیفیات سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ مریدوں کی اسلامی بنیادوں پر تربیت کے عمل سے تو سرے سے قاصر ہوتے ہیں۔
دولت اور دولتمندوں کے بارے میں اہل اللہ کا جو رویہ رہا ہے، اس کا اندازہ ذیل میں پیش کے گئے دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ کے بارے میں آتا ہے کے ان کے پاس دولت وافر مقدار میں موجود تھی، لیکن ان کی اپنی ذاتی زندگی درویشی سے عبارت تھی۔ وہ دنیا سے استفادہ کرنے کی بجائے اللہ کے بے کس بندوں پر دولت خرچ کرتے تھے۔ ان کے وصال کے بعد جب ان کے فرزند ارجمند حضرت صدر الدین جانشین ہوئے تو انہوں نے حکم دیا کہ دولت کے یہ سارے ڈھیر ختم کردیئے جائیں۔ خانقاہ، دولت سے بالکل خالی ہوجائے۔ خلفاء نے کہا کہ حضرت، آپ کے والد محترم جیسا عظیم بزرگ دولت رکھ سکتا ہے تو آپ ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ فرمایا کہ میرے والد صاحب کے پاس سانپ کے زہر کو نکالنے کا منتر موجود تھا، جو میرے پاس موجود نہیں۔
دوسرا واقعہ حضرت عبدالوہاب شعرانی ؒ کی کتاب ’’ہم سے عہد لیا گیا‘‘ سے ماخوذ ہے، جو اس طرح ہے۔
منقول ہے کہ ایک شخص اولیاء بغداد میں سے لوگوں کو پانی پلایاکرتا تھا اور جو بیمار اس (کے ہاتھ سے پانی پی لیتا، وہ فورا تندرست ہوجاتا۔ یہ خبر خلیفہ کو پہونچی تو وہ اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری خواہش ہے کہ آپ ہمارے گھر (محل) میں پانی بھرا کریں (اور میرے محل والوں کو پانی پلایا کریں) اس نے شیخ کی اس قدر خوشامد کی کہ وہ (بیچارہ راضی ہوگیا اور) خلیفہ کے محل میں آگیا اور محل شاہی کے سب آدمی اس کے قدم کو بابرکت سمجھنے لگے اور اس کے نام کی قسمیں کھانے لگے، پھر (ایسا اتفاق ہوا کہ) خلیفہ کی ایک باندی کا ہار جواہرات کا چوری ہوگیا اور اس نے کہا کہ سوائے اس سقے کے (جو محل میں پانی بھرتا ہے) اور کسی نے میرا ہار نہیں لیا، خلیفہ کو یہ بات گراں گذری اور اس نے باندی سے کہا کہ تو مجھ سے جو چاہے لے لے، لیکن اس بزرگ کا نام برائی سے نہ لے۔ باندی نے کہا، اچھا، وہ مصحف عثمانی پر (ہاتھ رکھ کر) قسم کھالے (پھر میں اس کا نام نہ لوں گی) خلیفہ کو یہ بات بھی گراں گذری، مگر اس نے لطافت کے ساتھ شیخ کو اس پر آمادہ کرنا چاہا اور وزیر کو اس کے پاس بھیجا، وزیر نے بہت نرمی سے یہ بات عرض کی اور شیخ نے قسم کھانا منظور کرلیا، چنانچہ اس نے (مصحف عثمانی پر ہاتھ رکھ کر) قسم کھائی تو وہ اسی وقت اندھا ہوگیا۔
بغداد میں اس کا شور برپا ہوگیا کہ شیخ نے جھوٹی قسم کھائی تھی، اس لئے اندھا ہوگیا۔ شیخ خاموش رہا اور کچھ نہ بولا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد اس باندی کو سخت مرض پڑا اور کوئی دواکارگر نہ ہوئی، اتفاق سے ایک حاذق طبیب آیا اور اس نے (مور کا دل تجویز کیا اور) کہا کہ اس کو مور کا دل کھلاؤ، اچھی ہوجائی گی، چنانچہ محل شاہی کے موروں میں سے تین مورذبح کئے گئے تو ایک مور کے پیٹ میں سے ہار مل گیا۔ اب تو بزرگ کی برائت مشہور ہوگئی اور اس کی نابینائی بھی جاتی رہی (فورا بینا ہوگیا) خلیفہ اس کے قدموں میں جاگرا اور کہا کہ ہماری خطا معاف کردیجئے، شیخ نے کہا کہ میں آپ کو اس شرط پر معاف کرتا ہوں کہ مجھے ایک اونٹ پر سوار کرکے میرے پیچھے ڈھنڈورا پٹواؤ اور بغداد کی گلیوں میں یہ منادی کراؤ کہ جو شخص ناجنسوں کی صحبت صدق نیت اور تقویٰ کے ساتھ بھی اختیار کرے، اس کی یہی سزا ہے اور بدترسزا ہے۔
میں کہتاہوں کہ جو شخص بغیر تقویٰ کے ناجنسوں کی صحبت اختیار کرے اس کا تو کیا حال ہوگا (جب صدق وتقویٰ کے ساتھ یہ سزا ملتی ہے) پس جو شخص بڑے درجہ کے لوگوں سے میل جول کرے، اسے انجام بد سے ڈرنا چاہئے اور جس کو شک ہو وہ تجربہ کرکے دیکھ لے۔
ہاں اگر کسی کو یہ یقین ہو کہ (امراء کے ساتھ میل جول رکھنے سے) مظالم اور رشوت ستانی کے بند کرنے میں اور غریبوں کی فریاد رسی کرنے میں اس کی شفاعت قبول ہوگی تو (اس مصلحت سے قرب امراء جائز ہے اور) اس مصلحت سے وہ تعلقات رکھ سکتا ہے اور (ایسے شخص کو چاہئے کہ) ان کے ناجائز افعال پر انکار بھی کرتا رہے،جو اس کے مشاہدہ کے سامنے آئیں، گویہ انکار صرف دل ہی سے ہو (کہ یہ ادنی درجہ بغض فی اللہ کا ہے۔  ( ہم سے عہد لیا گیا، صفحہ۴۷۲ - ۴۷۳)
ذکر ومراقبہکے لئے ذہنی سطح کی بہتری کی ضرورت متحرک افراد کے غور وفکر کے لئےذکر ومراقبہ کی دنیا میں ذہنی سطح کی بہتری اہم حیثیت رکھتی ہے۔ اگر طالب کی ذہنی نشوونما اس انداز سے ہوئی ہے، جس میں اسلامی شریعت سے زیادہ کشف اور باطنی مشاہدوں کو فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے اور بزرگی کا معیار ہی دوسری دنیا کے مشاہدات بن گئے ہیں۔ یا طالب اگر حق وصداقت کا معیار ہی بزرگ کو سمجھنے لگتا ہے، سارے دینی علوم میں اس کی رہنمائی ہی کو کامل سمجھنے لگتا ہے یا طالب، امت کے دوسرے گروہوں کے ہاں موجود خیر وصداقت کے اجزا کو سمجھنے سے قاصر ہے تو اس طرح کی صورتحال میں ذکر وفکر کے مجاہدوں سے اس کے نفس کی اصلاح تو قابل ذکر حد تک ہوجائے گی، لیکن پہلے سے موجود ذہنی سطح کی صحیح اور متوازن ذہنی نشوونما کی صورت کا پیدا ہونا اور دائراتی خولوں سے بلند ہو کر، امت کو امت کی حیثیت سے دیکھنا اس کے لئے دشوار ہوگا، اس لئے کہ پہلے سے بنی ہوئی ذہنی ساخت کی تبدیلی، بہتر ذہنی تربیت کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔
 اگر طالب کو ایسے بزرگ کی صحبت حاصل ہوئی اور ایسا روحانی ماحول حاصل ہوا ہے، جہاں بہتر اور متوازن ذہن سازی کی صورت موجود نہیں۔ جہاں کشف ہی کو ریاضتوں کا معراج سمجھا جاتا ہے۔ گفتگو کا مرکزی موضوع ہر پھر یہی ہوتا ہے یا دوسرے بزرگوں اور دوسری جماعتوں کے ذکر کے وقت ان کی مکمل تردید اور ان کی اسلامیت کو مشکوک بنانے کی ذہن سازی ہوتی ہے تو اس طرح کی صورتحال میں طالب کی روحانی تربیت کی توصورت پیدا ہوتی جائے گی اور تہذیب نفس بھی ہوتی جائے گی، لیکن صحیح ذہنی تربیت کے فقدان کی وجہ سے اس کی ذہنی تربیت میں غیرمعمولی نقائص رہ جائیں گے، جس کی وجہ سے وہ امت کے وسیع تر دائرہ کی بجائے محدود دائرہ میں مقید ہوجائے گا۔
ذکر ومراقبہ کے موجودہ حلقوں کی ذہنی سطح کی کمی اور ان حلقوں سے ملت اسلامیہ کے وسیع تر ذہن کی نشوونما کے جس فقدان کی ہمیں عام طور پر شکوہ ہے، وہ یہی کمی ہے۔ ذکر وفکر کے حلقوں میں اس نقص کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ دور جدید کی علمی اور نظریاتی صورتحال کو سمجھنے والے باصلاحیت اور ذہین طبقات کا اس طرف رجوع نہ ہونے کے برابر ہے،جس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملت اسلامیہ کو اس وقت جو ہمہ جہتی چیلنج درپیش ہے، اس چیلنج سے عہدہ برآہونے کے لئے تہذیب نفس اور ضبط نفس کے حامل ذہین، باصلاحیت اور مختلف علوم وفنوں کے ماہر افراد دستیاب نہیں، تہذیب نفس سے محروم ماہرین کا المیہ یہ ہے کہ وہ معاشرہ کی بہتر تعمیر تو دور کی بات ہے، وہ خود مادی تہذیب کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔
معاشرہ میں اسلامی تحرک برپا کرنے کی صورت
اللہ کی محبت کی دنیا سے معاشرہ کو اسلامی نقطہ نگاہ سے مطلوبہ افراد کے مہیا نہ ہونے کا ایک ہی بنیادی سبب ہے، وہ یہ کہ ملت کا احساس رکھنے والے باصلاحیت افراد کی اکثریت تصوف واہل تصوف کو پرانے دور کی یادگار چیزوں سے زیادہ حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں اور وہ یا تو باطنی امراض کی اصلاح کے لئے معالجوں کی ضرورت واہمیت کی قائل نہیں یا پھر مادیت میں اتنی مستغرق ہے کہ اسے مادی دنیا سے اوپر اٹھکر، سرے سے اپنی روحانیت، تہذیب نفس اور آخرت میں دائمی زندگی کی نجات کی فکر ہی لاحق نہیں۔
اہل اللہ کی طرف عام طور پر جس ذہنی سطح کے لوگوں کا رجوع ہے، اس ذہنی سطح کے لوگ معاشرہ کو اپنی باطنی خرابیوں سے بچانے کے معاملہ میں تومفید اور کارآمد ہیں۔ لیکن علم، ذہانت، صلاحیتوں کی کمی اور حالات حاضرہ سے غیرآہنگ ذہنی سطح کی وجہ سے وہ معاشرہ پر اثر انداز ہونے اور مادیت کے بڑھتے ہوئے چیلنج کے مقابلہ سے قاصر ہیں۔
معاشرہ میں اسلامی تحرک اور ہلچل برپا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملت کے ذہین اور باصلاحیت افراد اس طرف رجوع ہوں اور وہ اپنے باطن کی تعمیر اور اللہ کے ذکر کے خزینہ سے بہرہ وری کے کام کو ترجیح دے کر، اللہ کی قوت کو اپنے ساتھ ملاکر باطل سے صف آرائی کی راہ اختیار کریں۔ اس کے بعد اس قرآنی وعدہ کی تکمیل کی صورت پیدا ہوگی ان تنصر اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم (اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا مدد کرے گا اورتمہیں ثابت قدم رکھے گا)۔
یہ شکایت بے جا ہے کہ معاشرہ میں گروہی وجماعتی دائروں سے بلند درویش صفت اور دنیا سے مستغنی اہل اللہ موجود نہیں۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اس طرح کے مربیوں ومزکیوں کا سلسلہ قیامت تک برقرار رکھے گا، اب بھی معاشرہ میں ایسی شخصیتیں موجود ہیں، لیکن چونکہ وہ پبلسٹی کے مروجہ ذرائع اور شہرت ونام آوری اور پیری مریدی کے روایتی سسٹم سے طبعی مناسبت نہیں رکھتے، اور موجودہ دور کے مادی انسان سے اسے یہ بھی خطرہ لاحق ہے کہ کہیں وہ خود اسے دنیا داری کی طرف لانے کا ذریعہ نہ بن جائے، اس لئے درویش صفت اور خدا مست اہل اللہ اپنے آپ کو بچانے کی فکر اور اللہ کی محبت کے حقیقی طالبوں کے انتظار کے فکر میں گوشہ نشیں ہیں۔ انہیں یہ شکایت لاحق ہے کہ اللہ کی محبت کے حقیقی طالب دستیاب نہیں۔ البتہ ایسے طالب ضرور ملتے ہیں،جو خدا کے ساتھ ساتھ نفس اور مادیت دونوں کی پوجا کرنے کا مزاج رکھتے ہوں، وہ اللہ کے لئے یکسو ہوکر قابل ذکر حد تک راہ سلوک طے کرنے کے لئے تیار نہیں۔ معاشرہ کی یہ المناک صورتحال درویش خدا مستوں کو خون کے آنسو بہانے پر مجبور کرتی ہے۔ 
ذکر و مراقبہ کے طالب کو درپیش الجھنیں اور ان کے حل کی صورت
مراقبہ کا عمل مشکل ضرور ہے البتہ اتنا مشکل بھی نہیں، لیکن نفس، مراقبہ سے فرار کے ہزاروں بہانے تلاش کرتا ہے اور چند دنوں کی کاوش سے جب ذہن اور دل مراقبہ کے لئے یکسو نہیں ہوتے تو فرد نفس کی اکساہٹ سے مراقبہ کی مشقیں چھوڑ دیتا ہے، عذر یہ ہوتا ہے کہ ساری کوششوں کے باوجود یکسوئی پیدا نہیں ہوتی اور خیالات ادھر ادھر بھٹکنے لگتے ہیں، اور خیالات کی بھٹکاوٹ کسی صورت دور ہونے نہیں پاتی۔ مراقبہ سے دستبرداری اختیار کرنے یا راہ مراقبہ میں آگے نہ بڑھنے کا یہ عذر اور بہانہ بالکل بے جا ہے، اس لئے کہ ہر نئے کام کی ابتدا میں مشکلات تو ہوتی ہی ہیں، کسی بھی علم  وفن میں آسانی سے مہارت حاصل نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر کو بہتر ڈاکٹر بننے کے لئے برسوں تک پتے ماری سے کام لینا پڑتا ہے۔ مراقبہ،جس سے نفسی قوتوںپر فتحیابی حاصل ہوتی ہے اور جو دین ودنیا کی جملہ سعادتوں کا ذریعہ ہے، اس کی دشواریاں یقیناً دوسرے علوم و فنون سے کچھ زیادہ ہیں۔ لیکن روحانی استاد کی صحبت سے اس مشکل عمل میں دوچار ماہ کے اندر ہی سہولت پیدا ہونے لگتی ہے۔ البتہ مراقبہ کا عمل باقائدہ رواں دواں ہوجائے اور اس کے لئے جبر کے بغیر دل از خود آمادہ ہوجائے اور بیٹھتے ہی خیال کا ارتکاز از خود اسم ذات کی طرف ہوجائے اور دل خوشی و مسرت سے سرشار ہونے لگے، اس کے لئے غیر معمولی مجاہدوں اور بہت زیادہ صحبت کی ضرورت ہے۔
طالب کو حاصل ہونے والے بعض تجربات ومشاہدے
موجودہ مصروفیات کے دور میں اگر صبح و شام کے اوقات میں دس دس  منٹ کے مراقبہ کی مشق پختہ ہوجائے تو سال دو سال میں امید کی جاسکتی ہے کہ مراقبہ میں فکری انتشار کم سے کم ہوجائے گا اور دل،کیفیاتِ سرور سے لبریز ہوجائے گا اور مراقبہ کے دورانیہ میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ تاہم اس عرصہ میں سالک کو بہت سارے تجربات و مشاہدات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایک تجربہ یہ ہوگا کہ روحانی استاد کی صحبت میں جو مراقبہ ہوتا ہے، وہ تنہا مراقبہ سے کئی گنا زیادہ افادیت کا حامل ہوتا ہے۔ دوسرا تجربہ یہ ہوتا ہے کہ سالک کا دل غیروں سے یعنی اللہ کی محبت کے رازوں سے نا آشنا افراد سے ناموس سا ہوجاتا ہے۔ تیسرا تجربہ یہ ہوتا ہے کہ روحانی استاد کی صحبت کے لئے بے چینی پیداہوتی ہے اور دل و روح اس کی شدید طلب محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان کی صحبت سے غیرمعمولی تسکین ہونے لگتی ہے اور مدھم ہونے والی ساری کیفیات ازسر نو بحال ہونے لگتی ہیں اور مراقبہ کے لئے ذوق و شوق کی حالت پیدا ہونے لگتی ہے۔ نیز روحانی استاد کی صحبت اور ان سے رابطہ میں جتنی تاخیر ہوتی جاتی ہے، اسی مناسبت سے قلبی اضطراب میں اضافہ کے ساتھ ساتھ یا تو مراقبہ و ذکر میں لذت کی کیفیت کم ہوجاتی ہے یا پھرمراقبہ بے ذوقی اور محض عادت پوری کرنے کی خاطر ہوتا ہے اور اس میں ذوق و شوق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
سالک کا سارا سفر احساسات کے ذریعہ ہوتا ہے، اس کی کیفیات و احساسات میں ادل بدل بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس نے جس معنوی اور حقیقی زندگی کا آغاز کیا ہوتا ہے، وہ متقاضی ہوتی ہیں کہ اس کی کیفیات ہمہ وقت پاکیزہ رہیں، جب کہ موجودہ مادیت پرست معاشرہ میں ایسا ہونا دشوار ہوتا ہے۔ ویسے بھی مبتدی طالب زیادہ تر محبوب کے جلالی و جمالی صفات کے عکس میں رہنے لگتا ہے، جس سے اس کی کیفیات بڑی حد تک بدلتی رہتی ہیں۔ خوشی و مسرت ہوتی ہے تو وہ بھی بہت زیادہ ہوتی ہے اور نج و غم ہوتا ہے تو وہ بھی غیر معمولی ہوتاہے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ طالب کا سفر جاری ہے، اس لئے کہ نفس کی قوت ایسی ہے، جس کی اصلاح محبوب کے جلالی صفات کے عکس کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ نفس کی انانیت اور اس کے بت کدے کو توڑنے اور نفس امارہ کو نفس مطمئنہ تک رسائی کے لئے طالب کو  عرصہ تک محبوب کے شان جلال کے عکس سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے طالب کو تیار ہونا پڑے گا۔ ان مراحل سے گزرے بغیر طالب کے لئے نفس کا ہمالیہ پہاڑ طے کرکے، بہتر انسان، پاکیزہ انسان، درد آشنا انسان، اللہ کے لئے جینے اور اللہ کے لئے مرنے کی آرزو حوصلہ رکھنے والے انسان کی تشکیل و تیاری مشکل ہی نہیں، بہت زیادہ دشوار ہے۔
طالب کے لئے اضطراب سے بچنے کی صورتیں
مبتدی و متوسط طالب کی قبض و بے چینی کی حالت میں کمی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ محبت سے آشنا افراد کی صحبت کے معاشرہ میں رہنے کی کوشش کرے، اس ماحول سے حتی الامکان باہر جانے سے بچنے کی کوشش کرے۔ اس لئے کہ اس ماحول سے نکلنے سے جب نفس پرست افراد کے قلب کی منفی شعائیں اس کے دل پر پڑتی ہیں تو چونکہ دل و نفس میں مزاحمت کی قوت موجود نہیں، ذکر کا وافر ذخیرہ اور اس کا نور بڑی مقدار میں موجود نہیں، اس لئے دل ان منفی شعائوں اور ظلمات سے تاریک ہونے لگتا ہے اور سالک کا اضطراب قابل رحم ہونے لگتا ہے۔
قبض و بے چینی کو دور کرنے کی دوسری صورت ذکر و مراقبہ کے دورانیہ کو بڑھانے کی ہے۔
گناہوں کے ظلمات سے ہونے والا اضطراب
قبض کی ایک قسم گناہوں کی ظلمات (وتاریکی) کی صورت میں ہوتاہے، جس سے سالک شدید گھٹن اور جھنجلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے دل پر قیامت سے پہلے قیامت کا منظر طاری ہونے لگتا ہے، اس طرح کے گناہوں میں خود نمائی، گلا، غیبت، دوسروں پر بے جا تنقید (جو خود نمائی ہی کی ایک شکل ہوتی ہے) غیر محرم عورتوں کو دیکھنا، نماز میں سستی، دوسروں کے حق غصب کرنا، جھوٹ بولنا وغیرہ جیسے گناہ ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے گناہوں سے جو قبض، گھٹن اور بے چینی ہوتی ہے، وہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ دراصل طالب کو اس گناہ کی ملنے والی سزا ہوتی ہے، کچھ دیر کے لئے اس کی ساری کیفیات سلب کرکے سزا دیکر، اسے معاف کردیا جاتا ہے اور کیفیات بحال کردی جاتی ہیں۔
نفس کو مطیع کرنے کے حوالے سے طالب کی فکرمندی
طالب کو ایک بڑی پریشانی اور فکرمندی جو لاحق ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ نفس کو مطیع کرنے کی وہ جتنی کوشش کرتا ہے، نفس کی سرکشی میں اسی مناسبت سے تیزی ہو جاتی ہے اور اسلامی شریعت پر عمل کرنے اور دل و زبان اور آنکھوں پر قابو پانے میں اسے سخت مشکلات درپیش ہونے لگتی ہیں۔ اس سے بعض اوقات وہ یہ باور کرنے لگتا ہے کہ اس کی اصلاح ناممکن ہے نیز وہ دربار الٰہی سے ٹھکرایا ہوا ہے اور راندہ درگاہ ہے یہ بڑی غلط فہمی ہوتی ہے جس میں مبتدی و متوسط طالب دوچار ہوجاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کے طالب، معاشرہ کی کریم ہوتے ہیں اور ان سے بڑھکر خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ وہ نفسی قوتوں پر فتحیابی حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ انہیں یہ نکتہ سمجھنا چاہئے کہ وہ نفس کے ساتھ حالت جنگ میں مصروف ہیں۔ کفار سے قتال  وجہاد تو وقتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ دووچار دن یا چند ہفتوں کی لڑائی میں فیصلہ ہوجاتا ہے۔ فرد یا توشہید ہوجاتا ہے یا غازی، لیکن اللہ کا طالب تو برسوں تک نفس کے ساتھ شدید حالت جنگ میں رہ کر، اس کی باگ مکمل طور پر اللہ کے سپرد کرنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ نفس کے ساتھ معرکہ آرائی کے کام کو حضور کریم ﷺ نے جہاد اکبر قرار دیا ہے۔ مزید فرمایا ہے کہ دانا وہ ہے، جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔ آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ دنیا میں جتنے بھی معبودوں کی پرستش کی گئی ہے، ان میں سب سے زیادہ مبغوض  خواہشات (نفسانی) ہیں۔ نفس کے خلاف معرکہ آرائی کی حالت میں طالب کو روزانہ از سر نو مقابلہ کے لئے تیار رہنے کے لئے ذکر و مراقبہ کے خزانہ کی ضرورت لاحق ہوتی ہے، جس دن ذکر و مراقبہ میں وقفہ ہوگا یا اس کا دورانیہ کم ہوگا، اس دن طالب کے ساتھ تین حالتوں میں سے کوئی حالت ضرور درپیش ہوگی، یا تو اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگا، جس سے اسے جسمانی نقصان و دلی نقصان ہوگا۔ یا وہ غصہ سے بے قابو ہوجائے گا اور اپنے متعلقین کو کوسنے لگے گا یا پھر وہ جذبۂ شہوت سے مغلوب ہوجائے گا۔
نفسی قوتوں سے مقابلہ کرکے انہیں اﷲ و رسول کی اطاعت میں دینے کا کام دین کے مقاصد میں شامل ہے۔ دین کے سارے کام تہذیب نفس کے اس کام سے وابستہ ہیں۔ اس لئے اس راہ میں طالب کو جو بھی دشواریاں اور مشکلات درپیش ہوں، ان کا ہمت و حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کرنا، ایمان کے تقاضوں میں شامل ہے۔ شروع میں یہ ہوگا کہ روزمرہ زندگی میں کئی بار نفس کی قوتیں طالب پر غالب ہوں گی۔ طالب کی کوشش کے باوجود اس سے کثرت گوئی اور نماز میں سستی جیسے گناہ سر زد ہوں گے۔ ’’وانھا لکبیرۃ الاعلی الخاشعین‘‘ نماز بھاری چیز ہے، مگر جو خشیت اختیار کرنے والے ہیں۔ (ان کے لئے آسان ہے)۔
مراقبہ کا ملکہ کیسے مستحکم ہو؟
سوال کا جواب
جس ذکر ومراقبہ سے دین ودنیا کی اتنی سعادتیں وابستہ ہوں اور جو مراقبہ فرد کے سارے ارمانوں اور جذبات کی تسکیں کا ذریعہ ہو، اس مراقبہ کے لئے جسم وجان کی اگر ساری توانائیاں بھی صرف ہوں تو سستا سودا ہے، ضرورت طلب کی ہے۔ اگر فرد میں اللہ سے یکسو ہوجانے اور اس کے انوار حسن سے فیضیاب ہونے کی حقیقی طلب موجود ہے تو پھر اللہ کی طرف سے ازخود اس کے راستے نکل آتے ہیں اور حقیقی صاحب دل شخصیت سے بھی تعلق کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ بلکہ بزرگوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ سچی طلب پیدا ہوجائے تو اہل اللہ کی طرف سے خود آکر رہنمائی کرنے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
ہمارا روز مرہ تجربہ ہے کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت لاحق ہوتی ہے، وہ چیز گاہک کو بیچنے والا، گھر پر آکر پہنچا دیتا ہے۔ بدقسمتی سے اس دور میں طلب مفقود ہوگئی ہے۔ اگر کسی حد تک طلب موجود بھی ہے تو وہ اضطراب کی حد تک موجود نہیں۔ فرد چاہتا ہے کہ دنیا کمانے کی اس کی جدوجہد میں کوئی فرق واقع نہ ہو۔ وہ اگر دنیا کے لئے بارہ گھنٹے صرف کرتا ہے تو ذکر ومراقبہ اور صاحبان دل سے رابطہ کے لئے اس وقت کا دوچار فی صد حصہ بھی صرف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس طرح کی صورتحال میں مراقبہ کی سعادتیں حاصل ہو سکیں، اس کا ملکہ مستحکم ہوسکے، اور کیفیات کے زیرو زبر ہونے میں کمی واقع ہو اور صبر کے ساتھ ہر طرح کے حالات کے مقابلہ کی صورت پیدا ہو۔ کیفیت ِ اشتعال میں کمی واقع ہو اور دوسروں کے قصوروں کو معاف کرنے،بلکہ ان کے قصوروں کو اپنی طرف منسوب کرنے یعنی اپنے آپ کو قصور وار سمجھنے کا احساس راسخ ہونے لگے، مراقبہ کی ان ساری سعادتوں کا تعلق مراقبہ کے روزانہ کے ایک گھنٹہ تک کے ملکہ کے استحکام سے ہے اور اس دوراںپانچ دس منٹ کا جو بھی فارغ وقت مل سکے، اس میں بھی متوجہ الی اللہ ہونے کی طرف راغبت ہونے سے ہے۔
ایک گھنٹہ کے مراقبہ کی عادت مستحکم ہونے کے لئے بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ صاحبان دل سے مسلسل رابطہ رکھنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ تاکہ ان کے دل کی شعائیں منتقل ہو کر، دل سے غفلت، تاریکی اور مادی مصروفیات کے منفی اثرات کو کم کرکے راہ محبت میں چلنے کا ذوق پیدا ہو سکے۔
عارضی دنیا کے نفع کی خاطر ہمارے پاس وقت وافر مقدار میں موجود ہے، جبکہ اللہ کی محبت کو مستحکم کرنے کے کام کے لئے وقت نہیں اور اس کے لئے نئی نئی مصروفیات کے عذر ہوتے ہیں۔ شادی وبیاہ میں شرکت کا بہانہ، دوست واحباب سے ملاقاتوں کا بہانہ، گھر میں ناچاقی کا بہانہ، اپنی معمولی بیماری کا بہانہ، موسم کی خرابی کا بہانہ، حالات کے نامساعد ہونے کا بہانہ، کاروبار میں نقصان ہونے کا بہانہ، وقتی قدرتی آفت کا بہانہ، بڑے صاحب کی ناراضگی کا بہانہ، بچوں کے ساتھ وقت گزاری کا بہانہ، گھر کو اکیلا نہ چھوڑنے کا بہانہ، سواری کے دستیاب نہ ہونے کا بہانہ، آرام کا بہانہ، غرض کہ اس طرح کے بہت سارے بہانے ہوتے ہیں، جس میں ہماری قیمتی زندگی کے قیمتی لمحات برف کی طرف پگھلتے جارہے ہیں۔
فرد جب جسمانی طور پر بیمار ہوجاتا ہے تو اس کی ساری دنیاوی مصروفیات معطل ہوجاتی ہیں، اس کے بغیر گھر کا نظام بھی چل رہا ہوتا ہے اور دفتر اورکاروباری کام بھی چلتے رہتے ہیں، لیکن روحانی بیماری کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا، اس لئے کہ روحانی بیماریوں کے نتائج کی شدت کا ہمیں ادراک نہیں ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ روحانی بیماریوں کی شدت جسمانی بیماریوں کی شدت سے ہزارہا گنا زیادہ ہے۔ اس لئے کہ روحانی بیماریوں اور نفسی قوتوں کے غلبہ کی صورت میں ہمارے بیشتر اعمال اخلاص سے عاری ہوتے ہیں، ان میں ریا اور خود غرضی جیسے جذبات غالب ہوتے ہیں، ریا کو ایک حدیث میں شرک اصغر کہا گیا ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اخلاص کے بغیر اللہ کے ہاں کوئی عمل قابل قبول نہیں ہوگا، ایک صحابی نے عرض کیا، یارسول اللہ، ایک شخص اللہ کے لئے جنگ میں شریک ہوتا ہے، اس کی تھوڑی سی خواہش یہ بھی ہے کہ اسے کچھ شہرت حاصل ہو۔ کیا اسے ثواب ملے گا۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ صحابی نے یہ سوال تین بار دہرایا، آپ نے ہر بار نفی میں جواب دیا۔
اخلاص کا حصول ایسا کام ہے، جو سب سے کٹھن کام ہے۔ ایک عالم دین ایک ممتاز بزرگ کی خانقاہ میں دس سال تک ذکر وفکر کے مجاہدوں میں مصروف رہا، اس سے پوچھا گیا کہ وہ اخلاص کے کس درجہ پر فائز ہے، اس نے کہا کہ دس سال کی کوششوں سے اتنا ہوا ہے کہ جو بھی کام شروع کرتا ہوں، شروع میں اور درمیاں میں اخلاص کی حالت باقی رہتی ہے آخر میں اخلاص باقی نہیں رہتا۔
ریا اور خود غرضی جیسے بتوں کی موجودگی میں ایمان کی حیثیت رسمی نوعیت کی ہوتی ہے اور حقیقی ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ نفس کو جملہ بیماریوں سے نجات دلانے کی کوشش کرنا، یہ دین کے مقاصد میں شامل ہیں۔ سارے اعمال کی قبولیت اسی کام سے وابستہ ہے۔ اگر اصلاح نفس اور روحانی بیماریوں سے نجات کے حصول کے کام کی یہ فیصلہ کن اہمیت واضح ہوجائے تو اللہ کی محبت کے لئے وقت نکالنا آسان ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنی محبت کی دولت اور اپنے ذکر میں دوام کی دولت انہی کو عطا فرماتے ہیں، جن کے اندر حقیقی طلب موجود ہوتی ہے، جو اس کام کو دنیا کے کاموں پر ترجیح دیتے ہیں۔ قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ یہ ہونہیں سکتا کہ تمہاری عدم چاہت کے باوجود اللہ تعالیٰ تمہیں یہ دولت عطا فرما دیں۔ انلزمکموھا وانتم لھا کارھون (کیا ہم تم کو (ایمان کی یہ سعادت) تمہارے گلے مڑھ دیں اور تم اس سے نفرت کئے چلے جاؤ)۔
سچی طلب کی علامت فکر مند ہونا، مضطرب ہونا اور وقت نکالنا ہے اور ساری مجبوریوں اور ساری مصروفیات کے باوجود دل میں اس کام کی قدروقیمت کا ہونا ہے، جس کام کی قدر ہوتی ہے، اس کے لئے ہر صورت میں وقت نکل آتا ہے۔ اس مقصد کے لئے یعنی ذکر ومراقبہ کے ملکہ کو مستحکم کرنے کے لئے اپنے بزرگ سے رابطہ کو مستحکم کرنا اور اسے حالات سے مطلع کرتے رہنا ضروری ہے اور اپنے طور پر مراقبہ کے لئے کوشاں ہونے کے ساتھ ساتھ مراقبہ کے حلقوں میں شریک ہوتے رہنا ہے۔ دوچار سال تک ان چیزوں کا خصوصی اہتمام کرنے سے مراقبہ کی عادت مستحکم ہونے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور مراقبہ رواں دواں ہونے لگتا ہے۔ اور بڑی سی بڑی مصروفیت بھی روزمرہ کے مراقبہ میں خلل ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس طرح فرد دین ودنیا کی ساری سعادتوں کی بہرہ وری کی راہ پر تیزی سے گامزن ہونے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طلب، اور جدوجہد کو دیکھتے ہوئے بالآخر اسے اپنی رضا کی زندگی نصیب فرمادیتے ہیں۔ اور نفس مطمئنہ تک اس کی رسائی کی صورت پیدا فرمادیتے ہیں۔ جہاں دنیا کے حوالے سے تفکرات بڑی حد تک مدہم ہوجاتے ہیں اور سارے تفکرات محبوب حقیقی اور آخرت کے حوالے سے غالب ہوجاتے ہیں۔
طالب کے لئے رہنما اصول:
مراقبہ کا عمل جب تک نتیجہ خیز مرحلہ میں داخل نہیں ہوتا، تب تک طالب کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ کیفیات کے ادل بدل سے گزرنا پڑے گا، پرانی عادتوں کی تبدیلی کے سلسلہ میں درجہ بدرجہ کے صبر آزما مراحل سے سابقہ درپیش ہوگا۔ نفس کی تند و تیز لہروں سے روزانہ مقابلہ کرنا پڑے گا، اسلامی شریعت پر عمل کرنے میں دشواری درپیش ہوگی۔ جبر کرکے بھی شریعت پر چلنے کے لئے کوشاں ہونا پڑے گا۔ راہ محبت سے مناسبت نہ رکھنے والے افراد سے رابطہ و دوستی سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ غیر ضروری گفتگو اور بحث ومباحثہ سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ مراقبہ کے روزانہ کے عمل کو ہر صورت میں جاری رکھنا ہوگا اور مراقبہ کے عمل میں آہستہ آہستہ اضافہ کرنا پڑے گا۔ روحانی استاد اور مربی سے صحبت و رابطہ کا خصوصی اہتمام کرنا پڑے گا، کم از کم مہینہ میں ایک بار صحبت و رابطہ کے لئے ضرور وقت نکالنا پڑے گا۔ قبض یعنی اضطراب اور بے چینی اور بسط یعنی خوشی و لذت کے بدلتے ہوئے احساسات  کے ساتھ اس کا سفر جاری رہے گا، بہتر خوابوں، کشف، کرامات، اور بزرگ بن کر دوسروں کی تربیت کا کام کرنے کی آرزوں کو پالنے سے احتراز کرنا ہوگا۔ دوسروں کو اذیت پہنچانے، حرام ذرائع سے دولت کمانے، بڑے پن اور جذبہ شہرت و ریا کی آرزو اور نماز کے سلسلہ میں غفلت جیسے گناہوں سے طالب کے دل کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اس لئے ان گناہوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اگر گناہ ہوجائیں تو کیفیات کتنی بھی خراب کیوں نہ ہوں، فی الفور توبہ و استغفار کرنا چاہئے۔
طالب کو اس طرح کے بڑے گناہوں کی نقد سزا ملنے لگتی ہے، وہ سزا یہ ہے کہ اس کے دل پر جلالی صفات کا عکس گراکر، اسے شدید مضطرب کردیا جاتا ہے اور بسط کی علامت یہ ہے کہ ذکر و مراقبہ اور نیک اعمال سے اسے غیر معمولی خوشی ولذت سے سرشار کردیا جاتا ہے، قبض و بسط کی ان کیفیات کا طالب کو روز مرہ زندگی میں جو مشاہدہ ہوتا ہے، اس کو اسے راہ محبت  میں تیزی سے چلنے کے حوصلہ کا ذریعہ بنانا چاہئے۔
طالب کو اللہ کی اس نعمت کا بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اسے اپنی راہ میں چلنے کی سعادت عطا فرمائی ہے۔ لئن شکرتم لازید نکم۔ (اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کروگے تو مزید نعمتیں عطا کروں گا) بزرگان دین نے اللہ کی محبت کی دنیا میں چلنے والوں کی مثال بادشاہ کے ان مشیروں کی سی دی ہے، جسے بادشاہ کی مجلس میں روزانہ حاضری کی سعادت  حاصل ہوتی ہے۔ اس کی قدر نہ کرنے اور اس کے آداب بجانہ لانے اور عام دنیا داروں جیسی حرکتوں کی وجہ سے بادشاہ کی طرف سے اسے راندہ درگاہ کر دیا جاتا ہے۔ جسے بادشاہ اپنی درگاہ سے دھکے دیکر نکال دے، اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور وہ غموں کے پہاڑ کے زیر تلے دب جاتا ہے۔
طالب کو صبر کے ساتھ مستقل چلتے رہنے کے حوصلہ و عزم کو تازہ کرنا پڑے گا۔ اس لئے کہ اس راہ میں طالب کو جلد سلوک طے ہوجانے اور معاملہ ایک طرف ہوجانے کی بے چینی گھیرے رہتی ہے۔ یہاں قدم قدم پر صبر کی ضرورت لاحق ہوتی ہے، واصبر علیٰ اصابک۔ (سورہ لقمان آیت۱۷)
(جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر سے کام لینا) ۔
اس راہ میں اپنے لئے کسی مقام یا درجہ کی چاہت اور اس کی کوشش کرنا نا اہلی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ طالب کسی بھی مقام ودرجہ کی چاہت سے مکمل طور پر دستبردار ہوکرنفس کو فنائیت کے درجات سے گزارنے کے لئے کوشاں ہو تو اللہ تعالیٰ از خود اسے ایسے مقام اور درجہ پر فائز فرمائے گا، جہاں وہ خود تو اپنے آپ کو سب سے حقیر تصور کرے گا، سب سے سیاہ کار سمجھے گا، لیکن لوگ اس کے فیض سے بہرہ وری کے لئے کوشاں ہوں گے، اس کی طرف سے محبت کی جلائی ہوئی شمع کے اثرات دور دور تک پہنچیں گے۔
مبتدی و متوسطہ طالب کو اپنے دل و ذہن میں اس خیال کا استحضار کرناچاہئے کہ اس نے ذکر و مراقبہ اور اللہ کی محبت کی راہ اس لئے اختیار کی ہے، تاکہ وہ اللہ کی مخلوق کو اپنے نفس کی شرارتوں سے بچا سکے۔ یہ احساس نہ تو عاجزی ہے اور نہ ہی غلو، بلکہ یہ ایک اہم حقیقت ہے، اس لئے کہ حضرت مجدد کی رو سے مبتدی کا نفس شرارت میں شیطان سے زیادہ شریر ہے، اس نفس کو مہذب بنانے کا عمل کثرت ذکر  اور صحبت کے مسلسل اہتمام کے بغیر مشکل تر ہے۔
طالب کو مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دینا چاہئے، اس لئے کہ غیر معمولی  اضطراب،مایوسی کی طرف لے جانے کا موجب ہوتا ہے اورمایوسی،شیطانی عمل ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ طالب کو اس راہ کی دشوار گزاریوں سے ڈرا کر اسے اس سے دور کر لیا جائے۔ اس طرح کے ہر موقعہ پر طالب کو بزرگوں کا بیان کردہ یہ نکتہ ذہن نشین کرنا چاہئے کہ دروازہ اس کے لئے کھلتا ہے،جو دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ جس نے طلب عطا فرمائی ہے، وہ مقصود تک پہنچاکر رہے گا۔
طالب کو ایسی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے، جس سے امت میں تفریق پیدا ہوتی ہو۔ چونکہ مبتدی و متوسطہ طالب کا نفس قابل اعتماد نہیں ہوتا، اس لئے وہ تبادلہ خیال کے وقت اگر اس طرح کی بحثوں میں حصہ لے گا تو اس کے لئے دعویٰ اور نفسی آمیزش سے بچنا دشوار ترہوگا۔
روحانی استاد:
 علامات اور آداب
ذکر و فکر اور اللہ کی محبت کی دنیا میں روحانی استاد کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس کی صحبت و رہنمائی کے بغیر طالب کے لئے اس راہ میں چند قدم بھی آنے بڑھانا دشوار ہے۔ موجودہ دور میں بزرگی و درویشی کے نام پر عام طور پر یا تو دکانداری ہو رہی ہے یا پھر صوفیائے خام لوگوں کو اسلامی شریعت سے دور کرکے اپنا حلقہ اسیر بنانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں، اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ بیشتر خانقاہوں میں خلافت، نا اہل افراد میں بٹ رہی ہے۔ چونکہ وہ معرفت نفس و معرفت رب کی راہ سے آشنا نہیں ہیں، اس لئے وہ تصوف کی بدنامی کے ساتھ لوگوں کی گمراہی کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔
روحانی استاد کے انتخاب میں احتیاط ضروری ہے۔ اس لئے کہ افراد کا تزکیہ کرنا، یہ نبوی منصب ہے، رسول اللہ ﷺ کے بعد تزکیہ کا یہ کام ان کے تربیت یافتہ صحابہ کرام میں منتقل ہوا۔ صحابہ کرام کے بعد یہ کام ان کے تربیت یافتہ تابعین کے سپرد ہوا۔ بعد ازاں سلف صالحین، غیر معمولی مجاہدوں کے بعد اپنے تربیت افراد کو خلافت دے کر، اس کام پر متعین کرتے رہے ہیں۔ بزرگوں کی تصریحات کے مطابق اس کام پر فائز کرنے کے لئے سلف میں دس پندرہ سال کے شب و روز کے مجاہدے ضروری سمجھے جاتے تھے۔ اس سے پہلے سلف میں خلافت دینے کا رواج نہیں تھا۔ اس لئے کہ بزرگوں کے تجربات یہی تھے کہ ذکر و فکر و مراقبہ کی دنیا میں چل کر نفس کے ہمالیہ پہاڑ کو طے کرکے نفس مطمئنہ تک رسائی کے لئے کم از کم اتنا وقت ناگریز تھا۔
موجودہ مادیت پرستی کے دور میں تو خلافت کا منصب مزید مجاہدوں کا متقاضی ہے۔ دوسری صورت میں خلافت پر فائز افراد خود اپنی ذات کے لئے بہت بڑی آزمائش کا موجب بن جائیں گے اور بن رہے ہیں۔
روحانی استاد کی کچھ خصوصیات اور علامتیں یہ ہیں۔
(۱) وہ دنیا اور اس کے ساز و سامان اور زیب و زینت سے تعلق خاطر نہ رکھتا ہو۔ اس کی رہائش اور اس کا معیار زندگی سادہ ہو۔ تاکہ اس سے متاثر ہونے والے افراد اسے دیکھ کر معیار زندگی کی دوڑ میں شرکت کے حرص سے بچ سکیں۔
(۲) اس کی صحبت سے دل پر لگا ہوا غفلت کا زنگ دور ہوتا ہو اور آخرت سے تعلق بڑھتا ہو، مادی دنیا سے لگائو کم ہوتا ہو۔ دنیا کی چند دن کی زندگی اور اس کی چند ساعتیں اللہ کی محبت اور اس کی عبادت اور ذکر وفکر میں گزارنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہو۔ مادی دنیا کی تپش کے احساس کے ساتھ جب بھی اس کی صحبت و مجلس میں شریک ہوا جائے تو دل کو ٹھنڈک محسوس  ہو اور سارے غم کافور ہوں۔ نفس اور مادیت سے مقابلہ کرکے، محبوب کی راہ میں اور اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہونے کے سلسلہ میں از سرنو حوصلہ و ہمت سے چلنے کی استعداد پید اہوتی ہو۔
(۳) روحانی استاد کی صحبت سے اسلامی عقائد اور اسلامی شریعت کے صحیح خطوط متعین ہوں، اور سلف صالحین کی اسلامی تعلیمات کا ادراک حاصل ہو۔ دینی علوم کی تفصیل اور اس کی جزئیات کا علم اگر نہ بھی ہو تو کم از کم اس کی صحبت سے فرائض وواجبات اور حلال وحرام کے احکام تو ضرور معلوم ہوں۔ تاکہ ان سے حاصل شدہ روحانیت محض روحانیت تک محدود نہ ہو، بلکہ اسلامی احکامات کے علم اور ان احکامات پر عمل پیرا ہونے کے بارے میں طالب میں حساسیت بھی پیدا ہوتی جائے۔
(۴) روحانی استاد کی صحبت سے دور جدید کے بڑے بڑے فتنوں نیشنلزم، سیکولرزم، اور مادہ پرست سیاسی جماعتوں سے تعلق ووابستگی کے سلسلہ میں اگر نظریاتی اور فکری طور پر شعور وادراک حاصل نہ بھی ہوتا ہو تو کم از کم وجدانی طور پر ان فتنون سے دوری اور بیزاری کی فضا ضرور پیدا ہوتی ہو۔
(۵) مریدوں کے مال پر نگاہیں جمانے سے محفوظ ہو۔ اگر اس کی آمدنی کا کوئی متعین ذریعہ نہ ہو تو توکل علی اللہ پر کام چلانے اور خوف و رجا کی حالت میں رہ کر، اللہ سے دعا مانگتے رہنے کی صلاحیتوں کا حامل ہو۔
(۶) دعویٰ سے بڑی حد تک محفوظ ہو، دعویٰ کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی ادائوں سے یہ ظاہر کرتا ہو کہ فیض تو بس اسی کے پاس ہے۔ نیز وہ روحانی طور پر فیض رسانی کی غیر معمولی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔ لوگوں کو آکر اس سے فیض حاصل کرنا چاہئے۔ زبان قال و زبان حال دونوں سے اس دعویٰ کا تاثر پیدا نہ ہوتا ہو۔
دعویٰ کی دوسری صورت یہ ہے کہ اس کی مجلس یا اس کی خانقاہ میں اس کے کشف و کرامات اور اس کی بزرگی اور اس کے تقدس کی خاص فضا پیدا کی جائے، اس طرح ذہنوں کو مفتوح کرکے، مفلوج کر دیا جائے۔ بزرگ کے صاحب کشف و صاحب تقدس ہونے کا تاثر اگر بزرگ کی اپنی طرف سے ہو اور عام و خاص مجلس میں اس کی طرف سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہو تو یہ دعویٰ تو بہت خطرناک چیز ہے۔ اگر یہ کام مریدوں کی طرف سے ہو تو یہ سمجھا جائے گا کہ بزرگ کے خلیفوں کی طرف سے مریدوں کو اس کام کے لئے شعوری یا غیر شعوری طور پر متعین کیا گیا ہے۔
دعویٰ کی تیسری صورت یہ ہے کہ بزرگ کی مجلس یا خانقاہ میں دوسرے بزرگوں  کی تردید کی کوشش ہو۔
(۷) بزرگ کی مجلس و محفل عام طور پر دنیاوی باتوں اور دنیا داری کے ذکر سے محفوظ ہو۔ کبھی کبھار یا وقت کا معمولی حصہ دنیا کے ذکر سے آلودہ ہو تو حرج نہیں، لیکن بزرگ کی ہر مجلس کا قابل ذکر حصہ دنیا کے حالات کے تذکرہ کی نذر ہوجائے،یہ صحیح بزرگوں کے شان کے منافی ہے۔
(۸) بزرگ کی صحبت، مریدوں کو امت سے کاٹ کر دائراتی خولوں میں بند کرنے اور گروہی عصبیت کو پیدا کرنے کا ذریعہ نہ ہو۔ بزرگ سے حاصل ہونے والے روحانی فیض کے نتیجہ میں مریدوں کو ان سے جو محبت کا تعلق پیدا ہوتا ہے، یہ محبت تو فطری نوعیت کی ہے۔ لیکن اس محبت کی وجہ سے ان کے حلقہ سے وابستہ افراد اس عصبیت کا شکار نہ ہوں کہ سارا خیر اور کلی خیر توبس یہیںہے۔ اس سلسلہ میں بزرگ کے ہاں بہتر ذہن سازی کا انتظام موجود ہو۔
روحانی استاد کے طالبوں کے لئے کچھ بنیادی آداب
روحانی استاد کے شاگردوں کے لئے کچھ بنیادی آداب ہیں۔ جنہیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
(۱) محبت میں غلو نہ ہو، اگر محبت، پیر پرستی کی صورت اختیار کر جائے (جس طرح آج کل ہو رہا ہے) تو ایسا تصوف اور ایسی بزرگی خدا پرستی کے متوازی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد ہی ماسویٰ سے ہٹاکر، افراد کو خدا پرستی کی دعوت دینا تھا۔
(۲) بزرگوں کو ہدیہ کے طور پر دولت پیش کرکے، انہیں ملعون دنیا سے ملوث اور آلودہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس لئے کہ ان کا نفس مرا نہیں ہے، وہ مضمحل ضرور ہوا ہے۔ دولت اور مادی چیزوں کی فراوانی سے ان کے نفس کی قوت دوبارہ ابھر سکتی ہے۔ جدید دور کے کئی بزرگوں کی خرابی میں ان کے مریدوں کی اس حماقت کو عمل دخل  حاصل ہے۔ وہ بزرگ سے حاصل ہونے والے روحانی فیض سے بے ساختہ ہوکر، بزرگ کو دولت سے نوازنا چاہتے ہیں۔ یہ ان سے خیر خواہی نہیں،بلکہ ان سے بدخواہی ہے۔ البتہ مالی دشواری کی صورت میں یا خانقاہ کے نظام کو چلانے کے سلسلہ میں بزرگ سے تعاون کرنا ضروری ہے۔ لیکن بزرگ کو گاڑیوں کے ہدیے پیش کرنا، مال و زر سے نوازتے رہنا، یہ ان کے ساتھ سراسر دشمنی ہے۔
(۳) روحانی استاد کو دنیاوی باتوں اور دنیاوی قصوں میں الجھانے اور خالص دنیادار لوگوں سے گفتگو برائے گفتگو کے لئے ملانے سے احتراز کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ حدیث رسول کی رو سے زیادہ گفتگو دل کو تاریک کرنے کا موجب ہوتی ہے۔
(۴) اصلاح نفس اور تہذیب نفس کے سلسلہ میں بزرگ کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے۔
(۵) روحانی استاد زبان قال سے زیادہ زبان حال سے گفتگو کرتا ہے۔ اس کی زبان حال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، اس لئے کہ زبان قال سے کہہ کر وہ اپنے وابستہ افراد کو شرمندہ کرنا اور ان کے دل کو مجروح کرنا نہیں چاہتا۔ اس کی چاہت ہوتی ہے کہ اس سے وابستگان اسے دیکھ کر اپنی زندگی کے رنگ ڈھنگ کو بدلتے جائیں اور اسلام سے ہم آہنگ ہوتے جائیں۔
(۶) طالبوں کو اپنے حالات وکیفیات سے روحانی استاد کو مطلع کرتے رہنا چاہئے، تاکہ بحرانی کیفیت سے نکالنے اور ارتقائی مراحل طے کرانے اور ایک تدریج کے ساتھ راہ سلوک میں چلانے کے معاملہ میں ان کی رہنمائی کر سکے۔ سالک، راہ سلوک میں جب بھی نفس کی دلدل میں پھنس جاتا ہے تو وہ حجاب وشرم کے مارے اپنے مربی سے اپنی اس حالت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، اس کا اکثر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ رابطہ توڑ دیتا ہے، جس کی وجہ سے سرے سے اس دلدل سے نکلنے کی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی، یہ بہت بڑے خسارہ کی بات ہے۔ اس طرح کے ہر اہم موڑ پر طالب کو روحانی استاد سے رجوع ہو کر اس سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔
منتہی سالک کو حاصل ہونے والیسعادتیں اور نعمتیں
طالب جب صحبت اہل اللہ کے ذریعہ یاایھاالذین اٰمنوا ذکر اللہ ذکرا کثیرا کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو اس کے نفس میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ کے جلالی وجمالی صفات کے عکس میں رہنے لگتا ہے، جس سے وہ روزانہ مرتا ہے اور روزانہ زندہ ہوتا ہے یعنی اس کے قلب پر روزانہ شان جلال کے ایسے تیر لگتے ہیں، جس سے اس پر موت کی سی حالت طاری ہونے لگتی ہے، اس کے معا بعد اس پر شان ِجمال کی صفت کا عکس ڈال دیا جاتا ہے، جس سے وہ زندگی کے حقیقی لطف اور بے پناہ مسرت کے احساسات سے سرشار ہونے لگتا ہے۔ اس طرح کثرت ذکر سے جب طالب کا سفر پامالی ٔ نفس کی طرف تیزی سے ہونے لگتا ہے تو آخر میں جاکر، اس کا ذکر ومراقبہ کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے، اس لئے کہ کثرت ذکر سے مقصود نفس کی کدورتوں کی صفائی تھی اور فرعونِ نفس کی سرکشی کے زور کو توڑنا تھا۔ اب کثرت ذکر نے سالک کے نفس کی حالت کو تبدیل کرکے وہاں پہنچایا ہے،جہاں قرآن سے اس کا تعلق اور قرآن میں مسلسل غوطہ زنی سے اس کی مزید روحانی ترقی کا انتظام ہوتا رہے گا، اس لئے منتہی طالب کو ذکر کے دورانیہ کو بہت کم کرکے، اسے قرآن کی تلاوت اور نفلی نماز کی طرف لایا جاتا ہے۔ اب اس کی مزید ترقی تلاوت قرآن اور خدمت خلق کے کاموں سے ہوگی۔
اب وہ جوں جوں قرآن پڑھتا جائے گا۔ اس پر قرآن کا نور فہم کھلتا جائے گا، اس کی روح، قرآن سے ایسی مناسبت محسوس کرے گی، گویا یہ قرآن ازل سے اس کا یعنی روح کا حصہ تھا۔
اب قرآن کی آیتوں کی بار بار تلاوت سے اس پر قرآن کے معنیٰ ومفہوم کے ایسے اسرار کھلنے لگتے ہیں، جس سے وہ اس سے پہلے بالکل ناآشنا تھا۔ پہلے وہ قرآن پڑھتا تھا، لیکن نفسی حجابات، اس قرآن کو دل اور روح کی گہرائیوں میں داخل ہو کر، اسے محبوب حقیقی پر فدا ہونے اور اس کے احکامات پر رضا خوشی سے عمل کرنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہتے تھے، اب قرآن کے بارے میں اس کا یہ تاثر واحساس ہوتا ہے کہ یہ تو میری ہدایت، میری رہنمائی، میری دنیا وآخرت کی کامیابی، میری روحانی ترقی، میرے لئے خوشخبری، محبوب حقیقی سے میرے رابطہ وتعلق کے استحکام ہی کے لئے نازل ہوا ہے۔ اب قرآن کی ایک ایک آیت اسے مسحور کر دیتی ہے۔ وہ اس میں گم ہوجاتا ہے۔ اور ایک ایک آیت کا اس طرح کا مفہوم اس پر آشنا ہونے لگتا ہے کہ وہ حیرت زدہ ہوجاتا ہے اور قرآن سے اس کی ہدایت میں اضافہ پر اضافہ ہونے لگتا ہے۔
منتہی طالب اپنے آپ کو والذین اھتدوا زادھم ھدی واٰتاھم تقوٰھم۔ (اللہ تعالیٰ ہدایت کی راہ اختیار اختیار کرنے والوں کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں تقویٰ بھی عطا فرماتا ہے) کے منظر میں محسوس پاتا ہے۔
قرآن کی بہت ساری آیتیں ایسی ہیں، جن کے معنیٰ اور مفہوم میں وہ کھوجاتا ہے، اس کا دل اور ذہن ان آیتوں کی بار بار تکرار سے سکینت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس سلسلہ کی کچھ آیتیں یہاں دی جاتی ہیں، جو منتہی طالب کے وجود کو گرماتی رہتی ہیں اور اس پر محبوب حقیقی کے لئے حالت وجد طاری کردیتی ہیں۔ اور محبوب کی اطاعت کے لئے اس میں جذباتِ فدائیت پیدا کردیتی ہیں۔
من خشی الرحمن باالغیب وجاء بقلب منیب ادخلوہا بسلام داخلیں۔ (سورہ ق۔ آیت ۳۳) جو شخص رحمان سے غائنانہ طور پر ڈرتارہا، اور رجوع ہونے والا دل لے کر آیا وہ جو سلامتی کے گھر میں داخل ہوگا۔
قل ان اللہ یضل من یشاء ویھدی الیہ من اناب (الرعد آیت۲۷) کہدو کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع ہوتا ہے اسی کو (وہ) ہدایت سے بہرہ ور کرتا ہے (یہی اس کی سنت ہے)۔
اللہ یجتبی الیہ من یشاء ویھدی الیہ من ینیب۔ (اللہ جسے چاہتا ہے اپنی طرف کھینچتا ہے (اللہ تو) راہ ہدایت اسی کو نصیب فرماتا ہے، جو اس کی طرف رجوع ہوتا ہے۔
ان تجتنبوا کبائر ماتنھون عنہ لیکفر عنکم سیاٰتکم وندحلکم مدخلا کریما۔ (النساء آیت۳۱) اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا جاتا ہے بچتے رہو تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے۔
فمن التقویٰ واصلح فلاخوف علیھم ولاھم یحزنون۔ (الاعراف آیت۲۵) جو شخص (اللہ سے) ڈرتا رہا اور وہ اپنی حالت کو درست رکھے گا (اپنی اصلاح کرے گا) تو ایسے لوگوں کو نہ خوف ہوگا نہ غم۔
ومن یتق اللہ یکفر عنہ سیاتہ ویعظم لہ اجرا۔ (اطلاق آیت۵) (جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا تو اس کے گناہ معاف کردیں گے اور اسے اجر عظیم عطا کریں گے۔
وان ربک لذوا مغفرۃ الناس علیٰ ظلمھم (الرعد آیت نمبر۶) (تمہارا رب لوگوں کو باوجود ان کے ظلم کے معاف کرنے والا ہے)۔
یاایھاالذین اٰمنوا ستجیبوللہ والرسول اذا دعاکم لما یحیکم (اے ایمان والو، اللہ ورسول کا حکم قبول کرو، جب وہ تمہیں بلائیں زندگی کی طرف۔)
(اس آیت میں اللہ ورسول کی اطاعت کو حیات سے تعبیر کیا گیا ہے جو موت کے مقابل ہے یعنی عدم اطاعت کا مطلب مردنی ہے)۔
ویستجیب الذین اٰمنوا وعملوالصالحات ویزیدھم من فضلہ (جنہوں نے ایمان قبول کیا اور صالْح عمل کئے، اللہ انہیں اپنے فضل سے مزید عطا فرمائے گا۔)
للذین استجابوا لربھم الحسنیٰ والذین لم یستجیبوا لہ لو ان لھم ما فی الارض جمیعا ومثلہ معہ لافتدو بہ اولائک لھم سوء الحساب۔ (الرعد آیت۸) جن لوگوں نے اللہ کے حکم کو قبول کیا ان کی حالت بہتر ہوگی، جنہوں نے اسے قبول نہ کیا، اگر روئے زمین کے سارے خزانے بھی ان کے اختیار میں ہوں تو وہ سب کے سب اور اتنے اور بھی نجات کے بدلے میں صرف کر ڈالیں (تو نجات کہاں) ایسے لوگوں کا حساب بُرا ہوا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے)۔
ومن یتق اللہ یجعل لہ من امرہ یسریٰ۔ (جو تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے کاموں میں آسانی پیدا کرتا ہے)۔
غرض کہ اس طرح کی بہت ساری آیات منتہی طالب کو خوف وامید کی درمیانی حالت میں رکھنے اور حوصلہ وہمت کے ساتھ اللہ ورسول کی اطاعت پر مداومت اختیار کرنے اور محبوب سے ملاقات کے تیاری کے لئے اکسانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
                باب سوم
اہل مغرب کا مراقبہ اور اسلامی مراقبہایک نظر میں
(ویکلی ٹائیم کے شکریہ کے ساتھ)
(ماخوذ بیداری ۔جنوری ۲۰۱۲ئ)
جدید علوم سے خدا اور وحی کے تصور کو خارج کرنے کے بعد جدید انسان، جس طرح اپنی ہستی اور کائنات کی اصل خالق ہستی سے دور ہوگیا ہے، اس نے انسانیت کو خود اعتمادی کے ہولناک بحران سے دوچار کر دیا ہے اور بے پناہ نفسیاتی بیماریوں کا مریض بنا دیا ہے۔ الحاد کی بنیاد پر، علوم کی اس تشکیل کی سب سے بڑی اور سخت سزا اہل مغرب کو ہی ملی ہے کہ ان کا سماج، نفسیاتی بیماریوں کے سماج میں تبدیل ہوگیا ہے۔ مغربی معاشروں کو خود اعتمادی اور ذہنی کشمکش کے اس بحران سے نکالنے کے سلسلہ میں، مغربی سائنسدان اور نفسیاتی ماہر سخت تلاش وتحقیق میں مصروف ہیں، اس سلسلہ میں ان کی شب وروز کی تحقیق کا جو نتیجہ ظاہر ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ خدا کے تصور اور روح اور دل کی دنیا کو آباد کئے بغیر، مادی عقل کو جملہ خیالات سے آزاد کیا جائے تو اس سے ایسی توانائی مل سکتی ہے، جس سے فرد وافراد بڑی حد تک ذہنی دباؤ اور خود اعتمادی کے بحران سے نکل سکتے ہیں اور ان کی ذہنی توانائی میں غیرمعمولی اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
جدید مراقبہ کی یہ صورت اگرچہ اہل مذاہب کے اس مراقبہ کی صورت سے کافی مختلف ہے، جس میں اندر میں ڈوب کر اللہ کے انوار کے حسن کی شعاؤں کو جذب کرنے کی کاوش ہوتی ہے اور وفی انفسکم افلا تبصرون کا منظر پیدا ہوتا ہے، تاہم مراقبہ کی اس مادی صورت سے بھی صلاحیتیں کسی حد تک ابھرتی ہیں اور ذہنی ارتکاز میں بھی مدد ملتی ہے۔ اور دنیاوی کاموں کو سرانجام دینے میں کسی حد تک یکسوئی پیدا ہوتی ہے۔
چونکہ مسلم دنیا میں بھی جدیدیت کے ہمہ جہتی اثرات کی وجہ سے، جدید اہل سائنس اور اہل نفسیات کی تحقیق کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی تحقیق کی روشنی میں اپنے لئے لائحہ عمل طے کرنے کو عقلمندی سمجھا جاتا ہے، اس لئے ہم یہاں مراقبہ کے سلسلہ میں اہل مغرب کی جدید تحقیق پر مبنی مضمون دے رہے ہیں۔
مغربی مراقبہ کی بنیاد کسی بھی مادی چیز، تصویر یا آواز وغیرہ پر توجہ جمانے اور دوسرے سارے خیالات کو زیر وزبر کرنے پر مرتکز ہے، مغربی مراقبہ کا ہدف دنیاوی مقاصد کے لئے ذہنی صلاحیتوں کو فروغ دے کر، کاروبار، تجارت یا ملازمت کے سلسلہ میں ذہن کو یکسو کرنا ہے، مغربی مراقبہ، مختلف خیالات کو مادی تصورات سے ہٹاکر، کسی بھی ایک مادی تصور کو جمانے کا نام ہے۔ جب کہ اسلامی مراقبہ کی بنیاد اللہ کے اسم ذات کو دل کی گہرائیوں میں سمانا ہے، دل، جب اللہ کی طرف پوری قوت سے متوجہ ہوتا ہے، تو دل پر اللہ کے انوار حسن کی شعائیں گرنے لگتی ہیں، یہ شعائیں، دل، نفس اور عقل کی طرف بھی منتقل کرنے لگتا ہے، جس سے نفس کے حالات میں تغیر برپا ہونے لگتا ہے اور نفس کا بت کدہ ٹوٹنے لگتا ہے اور نفس، امارہ سے مطمئنہ کے مراحل میں داخل ہونے لگتا ہے۔
اسلامی مراقبہ کے ذریعہ فرد پر باطنی دنیا کے وسیع راز کھلنے لگتے ہیں، نفسی قوتوں کے مکر وفریب کے سارے حربوں سے آشنائی ہونے لگتی ہے اور نفس کو مہذب بنانے کا گُر بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ مراقبہ فرد وافراد میں جو صلاحیتیں پیدا کرتا ہے، ان میں اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہونے، اخلاق حسنہ کا حامل ہونے، اللہ سے محبت کے ملکہ کے مستحکم ہونے، اللہ کے بندوں سے محبت کرنے، دل کی گہرائیوں سے دنیا کی چاہت کے نکل جانے، اللہ کی مخلوق کو اللہ کے کنبہ کی حیثیت سے دیکھنے، اللہ کے دین کے فروغ کے لئے والہانہ کردار ادا کرنے، مالداروں اور سرمائیداروں سے رشک کرنے کے بجائے، ان کی نفس پرستی کی وجہ سے انہیں حد درجہ قابل رحم سمجھنے، انسانیت کے لئے درد وغم کے پیدا ہونے، اللہ سے ساری انسانیت کی بھلائی کے لئے دعائیں مانگتے رہنے کی نفسیات کے پختہ ہونے، چند دنوں کی حاصل شدہ زندگی اور اس کی صلاحیتوں وتوانائیوں کے ایک ایک لمحہ کو آخرت کی بہتری، اور خدمت دین میں صرف کرنے، صبر، شکر، قناعت وزہد وتوکل جیسے اوصاف سے بہرہ ور ہونے، ایمان ویقین واخلاص کی کیفیات میں مسلسل اضافہ ہوتے رہنے، دنیا کے حوالے سے سارے ارمانوں سے خالی ہونے، کفر کی طاقتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے، انہیں للکارنے، فہم وفراست اور حکمت کے عطا ہونے، دنیا سے ضرورت کی حد تک استفادہ کرنے، کاروبار ومعاملاتِ زندگی کو سلیقہ سے سرانجام دینے، حلال وحرام کے سلسلہ میں باطنی حسوں کے تیز ہونے، مستحق اور ضرورتمند افراد کی ضرورت پوری کرنے کے لئے فکرمندی، غرض کہ اس طرح کی دین ودنیا کی بہت ساری سعادتیں ہیں، جو اللہ کے نام یعنی اسم ذات کے قلبی ذکر کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں۔ سلف صالحین اور بزرگان دین کے واقعات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے کثرت ذکر کے نور سے، انہیں ان سعادتوں سے بہرہ ور فرمایا تھا۔
اسلامی مراقبہ، دراصل اسلامی تہذیب کی اصل بنیاد یعنی توحید سے ماخوذ ہے اور توحید کے تصور کو راسخ کرنے اور توحید کے ملکہ کو مستحکم کرنے اور ساری زندگی اﷲ کی رضا کے مطابق گذارنے کا سب سے مؤثر ترین ذریعہ ہے، اسلام کی ساری عمارت توحید کے تصور کو مستحکم کرنے کی بنیاد پر قائم ہے۔ اور سارے اسلامی فرائض کی ادائیگی، اس تصور کے استحکام سے وابستہ ہے۔ ذکر جس کی سب سے مؤثر ترین صورت مراقبہ ہے، جسے ایک حدیث میں جہری ذکر سے ستر گنا زیادہ افضل قرار دیا گیا ہے۔ اقم الصلواۃ لذکری اور یایھاالذین آمنوا ذکروا اللہ ذکرا کثیرا۔ جیسی قرآن کی بہت ساری آیتوں سے ثابت ہے کہ اسلامی تہذیب کی روح اللہ کے ذکر سے وابستہ ہے۔ کاروبار ہو یا شعائر حج ہوں، اللہ کی راہ میں کفار سے مقابلہ اور جہاد ہو یا دعوت کے فریضہ کی سرانجامی کا کام، قرآن میں ان سارے کاموں کے سرانجامی کے وقت ذکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔
ذکر اور مراقبہ کے ملکہ کے استحکام سے ہی اسلامی فرائض اور واجبات اور اس کے سارے احکامات کی ادائیگی کی قوت، صلاحیت، اور استعداد پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ہمارا مراقبہ ایک اعتبار سے اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے۔ جب کہ مغربی مراقبہ، مادہ پرستانہ سرمائیدارانہ تہذیب کے دنیاوی اور مادی مقاصد کو بہتر طور پر سرانجام دینے اور سرمائیداروں کو مال اور دولت کے حریصانہ جذبات کی تکمیل کے لیے بہتر کارکردگی کے حامل، ماہر اور کارکن مہیا کرنے کا ذریعہ ہے۔
اسلامی مراقبہ کی تاریخ غار حرا سے شروع ہوتی ہے۔ اور واذکر اسم ربک اور واذکر ربک فی نفسککے قرآنی حکم سے اس کی تلقین ہوتی ہے، جب کہ مغربی مراقبہ، دور جدید کی پیداوار ہے، اور اس پر ہونے والی تحقیق بالکل ابتدائی نوعیت کی ہے۔
اس تحقیق کی رُو سے (اللہ کے نام نہ ہونے کے باوجود) انسانی شخصیت پر اس کے غیرمعمولی اثرات وفوائد محسوس ہورہے ہیں۔ تاہم یہ مراقبہ، ان بیشتر فوائد اور خصوصیات سے قاصر ہے، جو اسلامی مراقبہ کے ثمرات ہیں۔ اس لئے کہ یہ مراقبہ مادہ پرستانہ تہذیب اور حریصانہ سرمائیدارانہ نظام ہی کا شاخصانہ ہے۔ البتہ انفرادی طور پر افراد کو اس سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور سرمائیدار کمپنیوں کو اس سے بہتر صلاحیتوں کے حامل کارکن مہیا ہوجاتے ہیں، جو ساری توانائیوں کے ساتھ ان کے لئے کام کرنے لگتے ہیں۔
ہم ھفت روزہ ویکلی ٹائیم میں شائع ہونے والے اس مضمون کا ترجمہ اور اس کا متن دے رہے ہیں، شاید اسے پڑھکر، اسلامی مراقبہ کی کچھ اہمیت اجاگر ہوسکے اور یہ احساس پیدا ہو سکے کہ مغرب والے، ہماری چیزوں کی بھونڈی شکل میں نقالی کرکے، دنیاوی فوائد سے بہرہ ور ہورہے ہیں، جب کہ ہم اپنی چیزوں سے دستبردار ہو کر، دین ودنیا دونوں میں خسران سے دوچار ہیں۔ (محمد موسیٰ بھٹو)
ساڑھے چار بجہ جب وال اسٹریٹ کا کاروبار زیادہ تر بند ہونے کو ہوتا ہے، والٹرزمرد مان صاحب، جو دوسری کمپنیوں، جن میں ائرلائین اور آئل کمپنیاں شامل ہیں، وہ انہیں تین ہزار ڈالر فی کس کے بدلہ میں کمپیوٹر ویب نشریات کی سروس فراہم کرتا ہے، اس سروس کی بدولت یہ کمپنیاں سیکڑوں ملین ڈالر منافعہ کماتی ہیں۔
زمردمان نے کہا، مجھے یہ کمپنیاں اس کام کا جو معاوضہ دیتی ہیں، وہ کوئی بے جا معاوضہ نہیں، لیکن چونکہ وہ ایک درجن کے قریب کمپیوٹر اسکرینس اور فرافکس کو اپنے تین کمپیوٹروں پر کلک کررہا تھا، یہ کام کرتے ہوئے وہ ہشاش بشاش لگ رہا تھا، حالانکہ وہ جو کام کررہا ہے، وہ انتہائی دشوار اور مالی ذمیداریوں کا حامل کام ہے، اگر اس سے ایک عدد بھی زیر وزبر ہو تو کروڑہا روپے کے نقصان کے ساتھ ساتھ ساکھ اور اعتماد بھی متاثر ہوجائے۔
۵۴ سالہ زمرد مان صاحب، اپنے ہمعصر ساتھیوں میں سے کئی ساتھیوں کا مستقبل تباہ (اور تاریک شدہ) دیکھ چکا ہے، اس لئے وہ اپنی دماغی استعداد وصلاحیت کو جسم میں طاقت کی ڈرپ چڑھانے کا نتیجہ نہیں سمجھتا، بلکہ وہ اسے کارنامہ سمجھتا ہے، صبح وشام کے چالیس منٹ کے مراقبہ کا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس عمل سے یعنی چالیس منٹ کے مراقبہ سے، اسے ہر چیز صاف صاف نظر آتی ہے (اور وہ اپنے صارفین کو بھی معاملہ کے سارے پہلو صاف صاف بتاتا ہے) لیکن ساتھ ساتھ اس مراقبہ کی بدولت اسے جلد اور لاجواب تجزیوں کا حامل،خوشیوں سے سرشار ذہنی ڈھانچہ بھی نصیب ہوا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ اضافی فائدہ ہے، جو مجھے اس سے حاصل ہوا ہے، اس کا مزید کہنا ہے کہ مراقبہ میرا خفیہ ہتھیار ہے۔
اب دنیا کا ہر (باشعور) فرد سمجھتا ہے کہ مراقبہ سے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے، ترقی یافتہ برین اسکیننگ نے ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ دکھانا شروع کیا ہے کہ مراقبہ، دماغی کارکردگی اور اس کی ساخت پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مراقبہ سے تجزیہ کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور ارتکاز کی قوت پیدا ہوتی ہے اور حافظہ کی استعداد فروغ پذیر ہوتی ہے۔
ایک تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مراقبہ کے روزانہ کے معمول سے دماغی اجزاء کی خارجی تہیں مستحکم ہوتی ہیں، جو تہیں توجہ سے، حافظہ سے اور قوت فیصلہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ (یعنی مراقبہ سے دماغ کا یہ حصہ مستحکم ہوتا ہے)۔
سارا لازار صا حبہ جو ساچوسٹی جنرکل ہاسپیٹل کی محقق سائنسدان ہے، اس نے گہری تحقیق کے بعد پچھلے نومبر میں اپنے ابتدائی نتائج پیش کئے ہیں۔ جن میں دکھایا گیا ہے کہ بیس ایسے مرد وخواتین کی ذہانت زیادہ کارگر اور مستحکم ثابت ہوئی ہے، جو روزانہ چالیس منٹ کا مراقبہ کرتے رہے۔ بمقابلہ ان کے، جنہوں نے مراقبہ نہیں کیا۔
یہ تحقیق پہلی تحقیق کی طرح بدھ مت کے پیروکاروں (مراقبہ کرنے والوں) پر کرنے کی بجائے، بوسٹن کے علاقہ میں ایسے کارکنوں پر کی گئی، جو مغربی طرز کے مراقبہ کے عمل سے وابستہ تھے۔ جسے ’’دماغی یاد داشت کو فروغ دینے‘‘ یا ’’دور اندیشی کو ترقی دینے‘‘ کا مراقبہ کہا جاتا ہے۔ لازار صا حبہ کا کہنا ہے کہ ہم نے پہلی بار یہ دکھایا ہے کہ آپ کو مذکورہ نتائج کے حصول کے لئے سارا دن مراقبہ سے کام لینا نہیں ہوگا۔ یہ تحقیق مزید کہتی ہے کہ عمر کے اضافہ کے ساتھ ساتھ دماغی اجزاء (Cells) کی خارجی دیواروں کے پتلے ہونے کا قدرتی عمل اس مراقبہ کی بدولت سست روی سے ہونے لگتا ہے (اسے مراقبہ کا غیرمعمولی فائدہ کہا جا سکتا ہے، یعنی مراقبہ سے دماغی اجزاء کی یہ خارجی دیواریں، بہت دیر میں جاکر مضمحل ہوتی ہیں)۔
لازار صا حبہ اور دوسرے سائنسدان مراقبہ کی جن قسموں پر تحقیقات کررہے ہیں، ان میں تصویر پر ارتکاز، کسی آواز پر دھیان جمانا، یا اپنی سانس کی آواز پر توجہ دینے، جیسے مراقبہ جات شامل ہیں۔
اس عمل کو آسان لفظوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ مراقبہ سے دماغ کے وہ حصے متحرک ہوجاتے ہیں، جو براہ راست دماغ سے تعلق رکھتے ہیں، توجہ کے ذریعہ ہی قوت ارتکاز پیدا ہوتی ہے اور مراقبہ کی استعداد پیدا ہوتی ہے۔
رچرڈ ڈیوسن جو یونیورسٹی آف وسکونس (جو دماغی سائنس کی لیبارٹی کا ڈائریکٹر ہے) تبت کے سادھوؤں کے دماغ کے مطالعہ کا کام اس کے ذمہ ہے، اس لیبارٹی کے تحت وہ ۱۹۹۲ء سے یہ کام کررہا ہے۔ وہ تبت کے سادھوؤں کو مراقبہ کے اولمپک پہلوان قرار دیتا ہے۔ وہ اپنی تحقیق کے دوران، ان مراقبہ کرنے والے سادھوؤں کے لئے ایک ٹوپی کا استعمال کرتا ہے، جو بجلی کے ذریعہ استعمال ہوتی ہے، ڈیوسن کا کہنا ہے کہ یہ سادھو جب حالت مراقبہ میں ہوتے ہیں تو اس ٹوپی کے ذریعہ وہ ان کے اندر جھٹکے محسوس کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔
کئی افراد کا کہنا ہے کہ مراقبہ کی بدولت ان کی ضایع شدہ دماغی قوت بحال ہوئی ہے اور مراقبہ کی بدولت ان کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے۔
اگر ایسا ہے، یعنی اگر مراقبہ سے دماغی قوت کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے تو یہ تودوپہر کے وقت کچھ وقت کے لئے آرام (جسے قیلولہ) کہتے ہیں) کی طرح کا فائدہ ہے۔ اس سلسلہ میں پروفیسر برس اوہارا صاحب کا کہنا ہے کہ مراقبہ کا فائدہ قیلولہ کے فائدہ سے کہیں زیادہ ہے۔
پروفیسر موصوف یونیورسٹی آف کینٹکی میں بائلاجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، وہ اپنے ایک مطالعہ میں (جو اس سال شائع ہوگا) کالج کے کچھ طلبہ کو شامل کرتے ہیں، کچھ طلبہ سے وہ مراقبہ کراتے ہیں، کچھ طلبہ سے نیند کراتے ہیں، کچھ طلبہ کو ٹی وی دیکھنے کے لئے کہتے ہیں۔ بعد میں وہ ان سب کے ٹیسٹ لیتے ہیں، جس میں وہ ان تینوں قسم کے طلبہ سے کہتے ہیں کہ وہ بٹن کو دبائیں، جب اسکرین پر لائیٹ ظاہر ہوتی ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ مراقبہ کرنے والے طلبہ نے یہ عمل دس فیصد زیادہ بہتر طور پر سرانجام دیا۔ اوہارا صاحب کہتے ہیں کہ جنہوں نے نیند نہیں کی، وہ بالکل بیکار ثابت ہوئے۔ اس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مراقبہ کے عمل نے ذہن کو نیند کے عمل سے بہت زیادہ تازگی بخشی۔
مراقبہ کے ان نتائج کو دیکھتے ہوئے، مذکورہ کارپوریشنز، جن میں ڈچ بنک، گوگل کمپیوٹر، سرچ انجن اور ھکس ایئر گرافٹ وغیرہ شامل ہیں، انہوں نے اپنے کارکنوں کے لئے مفت مراقبہ کی کلاسیں شروع کرادی ہیں (یاد رہے کہ یہ دنیا کی ٹاپ کی کمپنیاں ہیں) جیفری ابرامسن جو ٹاور کمپنی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے (جو واشنگٹن کی ترقی یافتہ فرم ہے) کا کہنا ہے کہ اس کی فرم کے ۷۵ فیصد ملازم مراقبہ کی ان کلاسوں میں شرکت کرتے ہیں، یہ کلاسیں ملازموں کے لئے غیرمعمولی طور پر مفید اور کارگر ہیں۔
اس مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مراقبہ کا عمل اگر ملازم کارکنوں میں شروع ہوتا ہے تو اس سے ادارہ کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، اس سے مراقبہ کرنے والوں کی طبیعت میں بہتری آجاتی ہے اور ان کا ذہنی دباؤ بڑی حد تک ختم ہوجاتا ہے اور ملازمت سے غیرحاضری کے رجحان اور کام چوری کی عادت میں کمی واقع ہوجاتی ہے، ملازموں کے لئے دوسرا فائدہ جو نظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مراقبہ جذبات کو کنٹرول کرتا ہے (انہیں حد اعتدال میں رکھتا ہے) اس سے حالت اعتدال پیدا ہونے میں مدد ملتی ہے۔ مراقبہ کا ایک اعلیٰ فائدہ یہ ہے کہ اس سے افراد کو اپنے جذبات کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ تربیت کے یہ نسخے بہت مؤثر ہیں اور زندگی کے لئے مفید بھی، اس لئے مراقبہ کے ذریعہ اپنی دماغی قوت میں اضافہ کرکے، اس سے نتائج حاصل کئے جائیں، ڈیوڈسن کا کہنا ہے کہ جہاں تک نئے سال کے لئے قرارداد کی بات ہے تو فرد وافراد اگر مراقبہ کو اختیار کریں گے تو وہ اپنے گھر اور کاروباری اداروں دونوں کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔         
Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو