شاہ ولی اللہ کے متصوفانہ افکار کا تحقیقی جائزہ
حسین محمد قریشی صاحب کا لکھا ہوا یہ مقالہ خیابان سے لیا گیا ہے
Abstract
As an eminent scholar, well composed personality and pioneer figure in the renaissance of Islam during era 18th Century, Shah Wali Ullah (1703-1762) contribution in a big way which has its own significant weight age would be remembered for ever in the heart of the true Muslim. In present article lights has been thrown on Shah Wali Ullah’s point of view regarding “THASAUF”. Its essence, historical background, characteristics of “Shakh-e-Thariqth”. A Curriculum of “SALUKE”, as defined and recommended by worthy Shah Wali Ullah for their followers has been elaborated. By practicing the teaching of “TASAUF”, what salient effects take place in the inner psyche of Human beings? What kind of behavior constitutes and how creates self reliance and discipline in the life of “SALIK” ? So, the confusion in Integration between the “SHARIATH” and “TARIQATH” solved in very sophisticated way and results have compiled.
نابغہ عصر مفکرِ اسلام شاہ ولی اللہ (ولادت ۱۰ فروری ۱۷۰۳ء وفات اگست ۱۷۶۲ء) اپنے عہد اٹھارویں صدی عیسوی کے مجدد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک جید عالم دین، ایک باکمال فقیہہ، ایک دانش مند سیاسی مدبر کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک عارف صوفی اور فلسفی کے طور پر ان کی علمی حیثیت یاد رکھی جائیگی۔ آزادی ہند کے سلسلہ میں دوسرے مجاہدینِ ملت اور آزادی کےسپوتوں کے مساعی کے علاوہ شاوہ ولی اللہ کے علمی و عملی مساعی کو نمایاں دخل رہا ہے۔ (۱)
پاکستان ایک نظریاتی ملک کی حیثیت سے اسلام اور جاملین اسلام کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ رکھتا ہے، اس رشتہ کی بقاء سے اس ملک کا استحکام ہے اور یہی نظریہ اس کی پہچان ہے، تخلیقِ پاکستان کے پس منظر میں اس نظریہ کی آبیاری جن حضرات نے کی، ان میں دوسرے زعماءِ ملت کے علاوہ صوفیاء کی خاموش جدوجہد کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے، ماضی میں صوفیاء کی خاصی تعداد اس حوالے سے بطورِ دلیل پیش کی جاسکتی ہے، ماضی قریب میں اس حوالے سے علامہ اقبال نے جن شخصیات کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے۔ ان میں سے شیخ احمد سرہندی م ۱۶۲۴ء، سلطان محی الدین اورنگزیب م ۱۷۰۷ء اور شاہ ولی اللہ شامل ہیں۔ علامہ کا یہ بھی لکھنا ہے، تصوف جیسی علمی قدر اٹھارویں صدی میں ہر قسم کے آمیزش سے محفوظ رہی ہے، اگر اس وقت کے علمی اشخاص ان کی حفاظت میں تساہل سےکام لیتے تو اسلامی فلسفہ یقیناً ہندو تہذیب کے زیرِ اثر آتا۔ (۲)
لہٰذا تصوف ایک اہم قدر کےطور پر اسلامی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ تصوف کیا ہے؟ کیا پیغمبر علیہ السلام کے عہد میں تصوف کا وجود تھا؟ شاہ ولی اللہ تصوف کا تاریخی پس منظر کیا بیان کرتے ہیں؟ کیا تصوف تمدنی علائق کو ترک کرکے مخصوص وضع کی زندگی ؟ اگر تصوف باطنی صفائی کا نام ہے تو اس کا شریعت جو ظاہری احکام کی پیروی سے عبارت ہے، کے ساتھ کیسے ربط جوڑا جاسکتا ہے؟ شاہ صاحب سالکین کے لئے کیا نصابِ سلوک تجویز کرتے ہیں؟ المختصر اس تحقیقی مضمون میں تصوف سے متعلق شاہ ولی اللہ کی مخصوص نظر اور اُٹھائے گئے سوالات کا محققانہ جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔
تصوف کی حقیقت انسان کی نفسی قوتوں کو بیدار کرکے اُسے اوجِ کمال پر پہنچانا ہے۔ انسان کی نفسی قوتیں بے پناہ تغیر کا باعث ہیں، انسان کی لامحدود قوتیں عالمِ افاق کی بجائے جب صرف نفسِ انسانی کو اپنی تحقیق و تسخیر و تسخیر کا مرکز بناتی ہیں، تو اس کی وجہ سے اس پر زندگی کے وہ مافوق الادراک حقائق منکشف ہو جاتے ہیں، جن کی وسعتوں اور گہرائیوں کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف کا ایک مقصد انسان کے لطائف و ملکات کو بیدار کرنا ہے یہ اعمال کی روح ہے، وہ تصوف سے مقصود احکامِ الہٰی کی تعمیل کے نتیجہ میں چار اُم الا خلاق طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت کی صفات سے انسانی نفس کو مزین کرنا اور ان کے اضداد یعنی حدث و خُبث، استکبار، خود غرضی اور ظالم سے گلو خلاصی پانا قرار دیتے ہیں، چونکہ تصوف سے مقصد اعلٰی اخلاق کی تشکیل ہے، اس لئے صوفیاء کی کتب میں اخلاقیات ہی کو تصوف کہا گیا ہے۔
امام الہند نے اپنی کُتب میں تصوف و احسان کے بارے میں قدرے وسعت سے لکھا ہے، اپنی شہرہ آفاق کتاب حجتہ اللہ البالغہ جو شاہ صاحب کی (Magnum Opus) ہے، کو گوانہوں نے اصلاً شریعت کے اسرار و حِکم، مقاصد و اغراض احادیث کی توضیح میں لکھی تھی، تاہم اس کی دوسری جلد کے آغاز میں ارکانِ اسلام نماز، زکٰوۃ، روزہ اور حج میں سے ہر ایک کی حقیقت اور بھر پور حکمتِ تشریع بیان کرنے کے بعد مبحث فی ابواب من الاحسان کی ذیل میں انہوں نے تصوف کے مسائل کا بھر پور احاطہ کیا ہے، شاہ صاحب عام صوفیاء کی طرح طریقت کو شریعت کا تابع سمجھتے ہیں اور احکامِ الہٰی کی بجا آوری کے نتیجہ میں باطنی کیفیات و نتائج کو احسان و تصوف ہی قرار دیتے ہیں۔ (۳)
الغرض تصوف سے متعلق متعین کردہ مباحث کا شاہ صاحب کی نظر میں احاطہ کرنا مقصود ہے، تاہم باضابطہ طور پر آغازِ بحث سے پہلے شاہ صاحب کا اس موضوع سے متعلق کُتب کا تعارف اور خود تصوف کی حقیقت سے متعلق اہل فن کی آراء سے واقفیت برمحل ہے۔
شاہ صاحب کی تصوف پر مشتمل کُتب:
تصوفانہ فلسفہ کے موضوع پر شاہ صاحب کی جن پانچ کتابوں کو اساسی اہمیت حاصل ہے، وہ درج ذیل ہیں:
(۱) القول الجمیل (۲) الطاف القدس جی معرفتہ الطائف النفس (۳) سطعات (۴) ھمعات (۵) لمحات۔
سالک جب تصوف کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو ذکر و اذکار اور وظائف کا پورا پروگرام "القول الجمیل" پیش کرتی ہے، گویا "القول الجمیل" سالک کے لئے قوعد طریقت یعنی ان دعوات و اعمال پر مشتمل رسالہ ہے، جس کی روشنی میں انسان تصوف کی منزل کو پاسکتا ہے، یہ رسالہ سالک کا دستور العمل ہے۔
عالَم صغیر یعنی انسان کا اصطلاحی نام سِر ہے، لہٰذا شاہ صاحب نے الطاف فی معرفتہ لطائف النفس "لطیفہ عقل، لطیفہ قلب، لطیفہ نفس، روح، سِر، خفی، اخفی، حجر بہت وانا کی حقیقت میں لکھی ہے۔ امام الہند نے ان لطائف ظاہر و باطنہ کی تہذیب کے طریقے بیان کئے ہیں اور یہ بیان کیا ہے کہ انسان کی اندرونی نفسی قوتوں یعنی عقل، ارادہ اور تدبیر نفس پر سلوک کا کیا اثر پڑتا ہے اور ایک قوت دوسری قوت سے کس طرح پھوٹ کر نکلتی ہے۔ ایک مسلمان کو جس طرح ظاہر شریعت کی پابندی کرنی ضروری ہے، اس طرح باطنی تصفیہ و تحلیہ بھی تکمیل انسانیت کے لیے ناگزیر ہے، الغرض الطاف القدس کا موضوع لطائف کی حقیقت کا بیان ہے۔
صوف کی آخری منزل یا ایک ترقی یافتہ دماغ کو سلوک کا منتہٰی یعنی نوع انسانی کے موطن "حظیرۃ القدس" سے تعلق کے عمیق مسئلہ کو سمجھانے کے لئے آپ نے اپنی مایہ ناز کتاب "سطعات" تحریر فرمائی، یہ کتاب نفسی تکمیل کے ارتقاء سے متعلق منفرد بحث پر مشتمل ہے، سطعات فارسی زبان میں ہے اس کتاب میں تجلی الٰہی، تنزلات ستہ کے علاوہ "وجود" سے متعلق بحث شامل ہے۔
اس طرح تاریخِ تصوف کے ابتدائی دور میں جو بڑے سالک و صوفی گذرے ہیں، مثلاً بایزید بسطامی ۲۶۱ءھ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ۲۹۷ھ اور آخری دور میں شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت شاہ معین الدین چشتی اور حضرت بہاوالدین نقشبندی رحمہم اللہ تعالٰی نے تصوف و سلوک کو کن خطوط پر استوار کیا؟ اور ان کی صحبت سے کامل کس طرح پیدا ہوئے؟ بالفاظِ دیگر تصوف کے فلسفہ تاریخ پر مبنی دستاویز شاہ صاحب کی کتاب "ھمعات" کی شکل میں موجود ہے، یہ تاریخ تصوف کے مستور گوشوں کو سر عام لاتی ہے۔
اسلامی تصوف کا تقابلی رنگ کیا ہے؟ اسی طرح تصوف کی عقلی تو جیہہ کیا ہے؟ ایک صوفی اسلامی تصوف کے فلسفے کو پُرانی یونانی اور ہندی حکماءِ انسانیت کے اصولوں پر کیسے تفوق و برتری ثابت کرسکتا ہے؟ اس حوالہ سے شاہ صاحب نے "لمحات" لکھی یہ کتاب اپنے موضوع پر مجہتدانہ مقالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
بظاہر تصوف کے موضوع پر شاہ ولی اللہ کی کُتب کا تعارف تشنہ رہ جائیگا، اگر اس کا تذکرہ نہ ہو کہ ان مذکورہ پانچوں کتابوں کی تمہید شاہ صاحب کے پوتے شاہ اسمٰعیل شہید م ۱۸۳۱ء نے "العبقات" کے نام سے لکھی جو درحقیقت علمِ فلسفہ و تصوف اور حکمتِ الٰہیہ کے مسائل و مباحث کا بیش بہا ذخیرہ ہے، یہ مجموعہ جہاں الٰہیاتی مسائل و فلسفہ کے حوالہ سے ادق ترین کاوش ہے اور اس میں جہاں "وجود" اور دوسری ماورء الطبعیاتی تحقیقات کا احاطہ کیا گیا ہے، وہاں یہ انسانی فکر و نظر کی گُتھیاں سلجھانے والی کتاب بھی ہے، اس کتاب میں ولی اللہ کی زبان بولتی نظر آتی ہے، علاوہ ازیں امام الھند نے متصوفین کے طریق کی تفصیل پر مشتمل" الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ "لکھی، جبکہ اپنے والد ماجد اور چچا کی سوانح حیات، جس کو شاہ صاحب کے فلسفہ تصوف کی روح کہنا چاہیے "انفاس العارفین" قلم بند کی، "شاہ ولی اللہ کی نادر مکتوبات" مرتبہ مولانا نسیم احمد امروھوی بھی موضوع (تصوف) پر ایک وقیع کاوش ہے۔
تصوف چونکہ ایک ذوقی و کیفی طرزِ فکر سے بڑھ کر طریقہ حیات ہے، اس لئے اس کی تعریفات میں تنوع کا پایا جانا ایک لازمی عمل ہے، تاہم تصوف کی تعریفات کے نتیجہ میں قدرِ مشترک کے طور پر ان امور کو ڈھونڈ نکالا جاسکتا ہے، جن پر تصوف کی عمارت استوار ہے۔
تصوف کی لغوی و اصطلاحی تعریفات:
اکثر اہل علم کے نزدیک کلمہ تصوف "صوف" سے نکلا ہے، تصوف باب تَفعّل کے وزن پر ہے، جیسے کہا جاتا ہے تقمص، اس نے قمیص پہنی، چونکہ اکثر صوفیاء "اون" کا مخصوص لباس زیب تن کرتے تھے، اس لئے وہ حضرات "صوفی" کہلانا شروع ہوئے، صاحبِ منجد لکھتے ہیں:
تصوف فلانا ای صار صُوفیاً تخلق با خلاق الصوفیہ فیتُ من المتعبدین واحد ھم "صوفی" و ھومن کان فانیاً بنفسہ باقیا باللہ مستخلصاً من الطبائع متصلاً بحقیقتہ الحقائق (۴)
تاریخ اسلام میں لفظ "صوفی" کی اصطلاح کب وجود میں آئی؟ تصوف کا رواج کب پڑا، اس حوالہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کلمہ کا رواج پہلی صدی ہجری میں ہی پڑچکا تھا، امیر معاویہ نے اپنے دورِ خلافت ۴۱ھ میں اس کلمہ کو یوں استعمال کیا:
قد کنت تشبہ صوفیاً لہ کُتب: من الفرائض او اٰیات فرقان"۵)
حالانکہ تُوایسے صوفی سے مشابہت رکھتا تھا، جو فرائض و احکامِ دین کی کتابوں کا مالک تھا۔
لفظ تصوف کی تحقیق کے سلسلے میں شیخ ابوالحسن علی ہجویری م ۴۴۶ھ لکھتے ہیں:
اس اسمِ تصوف کے ماخذ کی تحقیق میں بہت سے اقوال پیش کئے گئے ہیں، حتی کہ مخصوص کتب اس حوالہ سے لکھی گئیں ہیں، ایک گروہ کے نزدیک اہل تصوف کو صوفی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ "صوف" کا لباس زیب تن کرتے تھے، دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ ان کو صوفی اس لئے کہتے تھے کہ وہ برگزیدہ میں صفِ اول میں ہوتے تھے، تیسرے گروہ کا خیال ہے کہ ایسے حضرات کو صوفی اس لئے کہتے تھے کہ وہ اصحابِ صفہ سے محبت کرتے تھے اور چوتھا گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ "صفا" بمعنی پاکیزگی سے ماخوذ ہے(۶)
حضرت شیخ ہجویری مزید لکھتے ہیں:
اس لفظ (تصوف) کی تحقیق کے سلسلے میں فن کے ہر شخص نے لطیف اشارے بیان کئے ہیں، لغوی معنی کے اعتبار سے وہ سب حقیقی معنی سے دور ہیں، فی الواقع "صفا" ان سب میں زیادہ قابل قبول ہے، اس لفظ کی ضد کدورت ہے، چونکہ اہل تصوف اپنے اخلاق و معاملات کو ایک خاص مقام تک لے جاتے ہیں اور طبیعت کی آفت سے بے زاری اختیار کر لیتے ہیں، اس لئے ان قدسی صفات لوگوں کو صوفی کہا جانے لگا۔ (۷)
صوفی کو کس چیز کی تلاش رہتی ہے، وہ کیا چاہ رہا ہوتا ہے، اس سے بھی اس لفظ کے ماخذ کا اندازہ ہو ہی جاتا ہے۔
معروف کرخی م ۲۴۵ھ سے جب "صوفی" کے متعلق سوال کیا گیا، تو جواب دیا "صوفی وہ لوگ ہیں جو کائنات میں ماسواء اللہ کو چھوڑتے ہیں اور اللہ کو پسند کرتے ہیں (۹)
سہیل ابن عبداللہ تستری م ۲۸۳ھ صوفی کے مطمعح نظر سے متعلق لکھتے ہیں:
صوفی وہ ہے، جس کا دل کدورت سے خالی ہو اور تفکر سے پُر ہو اور قربِ خدائے عزوجل میں بشر سے منقطع ہو اور اس کی آنکھ میں خاک اور سونا برابر ہو۔ (۱۰) ابوالحسن نوری م ۲۹۵ھ سے مروی ہے:
صوفی وہ لوگ ہیں، جن کی روح بشریت کی کدورت سے آزاد ہوگئی ہو اور آفتِ نفس سے صاف ہوئی ہو، وہ ہوا و ہوس سے خالص ہوگئے ہوں، یہ لوگ صفِ اول و درجہ اعلٰی میں خداوند کریم سے قربت حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ (۱۱)
تصوف کے میدان میں سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ۲۹۷ھ کا بڑا نام ہے، وہ لکھتے ہیں:
صوفی وہ ہے جس کا دل دنیا سے متنفر اور فرمان الٰہی کو ماننے والا ہو، اس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تسلیم، حضرت داود علیہ السلام کا انداز، حضرت عیسٰی علیہ السلام کا فقر، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر، حضرت موسٰی علیہ السلام کا شوق اور پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق ہو۔(۱۲)
حضرت منصور حلاج م ۳۰۹ھ اور ابوبکر شبلی م ۳۳۴ھ "صوفی" کی تعریف میں ہم خیال ہیں، وہ لکھتے ہیں صوفی وہ ہے، جو خلق سے منقطع ہو اور حق تعالٰی سے متصل ہو۔ (۱۳)
علامہ قشیری م ۴۶۵ھ اپنے زمانے کے بڑے صوفی تھے، ان کی کتاب "الرسالت القُشیریتا" آج بھی تصوف کے موضوع پر سند کی حیثیت رکھتی ہے، ان کا بیان ہے:
زیادہ صحیح بات ہے کہ یہ لقب کی طرح ہے، جو لوگ کہتے ہین کہ یہ لفظ صوف سے لیا گیا ہے اور تصوف کے معنی ہیں، اس نے صوف کا لباس پہنا، جس طرح تقمص کے معنی ہیں، اس نے قمیص پہنی، تو یہ ایک معقول توجیہ ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ جو الفاظ ہیں مثلاً یہ کہ صفاء اصحاب صفہ سے ماخوذ ہے، یا یہ لفظ صفا بمعنی (طہارت) سے مشتق ہے، تو عربی لغت کے قاعدے اس سے اب کرتے ہیں (۱۴)
حضرت مجد الف ثانی م ۱۶۲۴ء اپنے مکتوبات میں جگہ جگہ تصوف کی حقیقت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تصوف شعائر اسلامیہ میں خلوص پیدا کرنے کا نام ہے، لٰہذا ان کے ہاں تصوف کا حاصل شعائر اسلام میں مخلصانہ استقامت ہے(۱۵)
علم تصوف کی مختلف تعریفات کی گئیں ہیں، تاہم علم تصوف کی آج تک کوئی جامع مانع تعریف سامنے نہ آسکی اس لئے کہ یہ ایک وجدانی مسئلہ ہے، ہر کسی نے اپنے ذوق کے مطابق جیسے محسوس کیا، الفاظ کے پیرہن میں مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی اور تعبیر اختیار کی، ذوق و وجدان میں تنوع کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے، اس حوالہ سے دوسری مشکل یہ سامنے آتی ہے کہ تصوف اپنے اندر اثراتِ زمانہ جذب کرتا رہا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علم تصوف کی کتابیں ابتداءً علمِ حدیث کے اسلوب پر بطریق اسناد مرتب ہوئیں، قرونِ اولٰی میں یہ میدان خالصتہً علمی رنگ میں موجود تھا، بعد میں یہ فلسفہ کا روپ دھار گیا، دورِ قرونِ وسطٰی میں منصور حلاج م ۳۰۹ھ اور شبلی م ۳۳۴ھ نے تصوف کو جس رنگ میں پیش کیا، شیخ ابن عربی اندلسی م ۶۳۸ھ نے اس کی انتہاء کردی، موصوف نے اس علم کو بالکل رمزی اور علامتی زبان عطا کی، گویا کہ انہوں نے تصوف کو نئے خطوط پر استوار کیا۔
اگر تاریخ تصوف و صوفیاء پر نظر ڈالی جائے تو آٹھویں صدی عیسوی تک مسلم صوفیاء کے ہاں اتباعِ شریعت اور عمل صالح سے متعلق ترغیبی کلمات ملتے ہیں، اس میں کسی خارجی فلسفیانہ فکر کا اضافہ دکھائی نہیں دیتا، مگر اس کے بعد تصوف میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہوئی، خصوصاً حضرت شبلی کے ہاں یہ تبدیلی واضح طور پر محسوس کی جانے لگی، جیسا کہ ان کی بالا تعریف تصوف سے یہ امر واضح ہے۔، صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب تصوف کا پہلا مفہوم باقی نہ رہا، یعنی تزکیہ نفس اور تعمیرِ اخلاق سے اس کا رخ ایک مابعد الطبیعاتی نظریہ و فلسفہ کی طرف ہونے لگا۔ حضرت شبلی نے خود کہا کہ تصوف ایک شرک ہے، اس لئے کہ تصوف نام ہیں، دل کو مشاہدہ غیر سے محفوظ رکھنے کا، حالانکہ غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔
یوں دسویں صدی ہجری میں جبکہ تصوف عمل کے میدان سے نکل کر فکر کے ایک مخصوص میدان میں داخل ہوا، ابن عربی اندلسی نے تصوف کی حیثیات میں پیش کیا، کہ تصوف کے مفہوم تک کو بدل ڈالا، انہوں نے تصوف کے پورے فلسفہ کو علمی ورمزی انداز میں پیش کیا، اور تصوف کو نئی جہت دی۔
تصوف کی تعریفات اور تاریخی پس منظر کے حوالہ سے یہ بیان کرنا حسبِ حال ہے کہ جب تصوف علم کے میدان سے نکل کر محض فلسفہ و نظری بحث تک سمٹ آیا تو مغربی محققین نے بھی اس حوالہ سے وقیع کام پیش کیا، اس حوالہ سے نویلڈیکی م ۱۹۳۰ء پروفیسر نکلسن ۱۹۴۰ء کے اسماء قابل ذکر ہیں، دونوں مفکرین نے تصوف کے حوالہ سے قابل قدر معلومات فراہم کیں، البتہ ان مفکرین کا یہ لکھنا کہ صوفیاء نے ریشم کے لباس کو عیسائی راہبوں کی متابعت میں پہننا شروع کردیا تھا اور اندرون بینی (Introspectionsٰ اور ترکِ دنیا کے رجحانات صوفیاء نے راہبوں سے حاصل کئے تھے، محل نظر ہے (۱۶)۔
تصوف کا موضوع آیات انفس و افاقی کا بیان ہے، انسان اور کائنات کی حیثیات سے متعلق بحث و فکر کرنا، قرآن حکیم کا بھی حکم ہے، سنریھم فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہہ الحق (۱۷) ترجمہ: ہم تمہیں عالم آفاق و کائنات میں اور تمہارے خود اپنے نفسوں میں نشانیاں دکھلائیں گے، حتٰی کے انہیں یہ بات واضح ہو جائیگی کہ اُس اللہ کا وجود برحق ہے۔
دراصل آیات انفس تصوف ہے اور آیات آفاقی طبیعات اور تجرباتی سائنس ہے، جن کے بارے میں قرآن اعلان کرتا ہے، لہٰذا خارجی اور نفسی و وجدانی دونوں امور کا نام تصوف ہے، گہری نظر سے دیکھا جائے توتصوف کی حدیں الہٰیاتی مسائل یعنی وجود باری تعالٰی، صفات وشیون باری تعالٰی، کائنات و صدور کائنات اور خود انسان کی حقیقت اور انسان کے مقام جیسے مباحث سے ملتی نظر آتی ہیں، یہ تمام موضوعات فلسفہ کے مباحث ہیں، جو بعد میں تمام جزئیات کے ساتھ تصوف کے مباحث کا حصہ قرار پائے، ابو ریحان البیرونی م ۱۰۴۸ء نے تصوف کی تعریف میں اسی چیز کو ملحوظ رکھا۔ انہوں نے بہت پہلے لکھا: "السوفیہ ھم الحکماء فان سوف بالیو نانیہ الحکمتہ وبھا یسمی الفیلسوف فیلا سوفاً ای محب الحکمت ولا ذھب فی الاسلام قومُ الی قریب من رائتھم سمو باسمھم" (۱۸)
صوفیاء حکماء و فلاسفر ہیں، کیونکہ یونانی زبان میں سوف کی معنی حکمت و فلسفہ کے ہیں، اسلئے کہ یونانی زبان، میں فیلسوف کوفیلاسوفا کہا جاتا ہے، یعنی فلسفہ سے محبت کرنے والا، چونکہ اسلام میں ایک جماعت باعتبار مسلک ان کے قریب تھی، اس لئے اس جماعت کا نام بھی صوفی ہو گیا۔
علامہ لطفی جمعہ نے بھی صوفی کا ماخذ یونانی زبان ہی بتایا ہے، ان کا لکھنا ہے:
صوفی کا لفظ "ثبوصفیا" سے مشتق ہے جو ایک یونانی کلمہ ہے اور جس کے معانی حکمت کے ہیں، صوفی وہ حکیم ہے جو حکمتِ الٰہی کا طالب ہوتا ہے، اور اسکے حصول میں کوشاں رہتا ہے، صوفی کی غرض و غایت "حقیقت الحقاق" تک رسائی پانا ہے۔ (۱۹)
بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ بعد کے ادوار میں صوفیاء سے وہ لوگ مراد لئے جانے لگے، جو حکماء (Philosophers) کی طرح حقیقت الحقائق کے مسائل پر غور کرتے تھے، ان کا وظیفہ ہی اشتیاقِ علم، محبت و دانش، تلاشِ حقیقت رہا، یہ کائناتی اور نفسی قوتوں کے رموز و اسرار معلوم کرنے میں متفکر رہتے تھے، وہ ہر چیز کو مخصوص انتقادی نظر سے دیکھتے تھے، نفسی کیفیات و مشاہدات کو تجربی کسوٹی پر پرکھتے تھے اور سائنسی طریق کی طرح نتائج مرتب کرتے تھے۔
لہٰذا تصوف اور صوفی سے متعلق ایک تاریخ وابستہ ہے، اس لئے اس کی حقیقت کے بیان میں تنوع کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے۔
ابن عربی کے عہد میں جب "وجود" کی بحث تصوف کا مستقل موضوع ٹھہرا اور اس حوالہ سے مستقل مسالک قائم ہوئے، وجود کی حقیقت میں غور کرتے کرتے مفکرین کے اذہان میں یہ سوالات انگڑائیاں لینے لگے کہ جب وجود بسیط یا وجود حقیقی ایک ہے تو موجودات کائنات کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے؟ ایسے حالات میں وجود کی دقیق بحثوں کو بنیاد بناکر مفکرین نے بڑے شدو مد سے ایسی تحقیقات پیش کیں اور ثابت کیا کہ تصوف کے اکثر مسائل میں ہندی کے اپنشدوں، ویدانت، بھگوت گیتا، بدھ مت، مسیحیت یا یونانی فلسفہ کے نوافلاطونیت کا اثر ہے اور یہ ان سے ماخوذ ہے، (۲۰) مفکرین نے ان فلسفوں میں قدر مشترک کو ڈھونڈ نکالا اور اپنے مزعومہ دعوی کو ثابت کرنے کی کوشش کی، انہوں نے تصوف کے جزوی مسئلہ کو لیکر مذکورہ مذاہب کے کسی جزوی مسئلے کا مماثل قرار دیا اور پورے تصوف کو متعلقہ مذہب سے ماخوذ ہونے کا دعوٰی کیا، دراصل ادنٰی مناسبت سے بعد کے علوم کو قدیم علوم پر استوار کرکے اس کی ترقی یافتہ یا اصلاحی شکل قرار دینا اس زمانے میں ایک عام غلطی کے طور پر رائج ہوئی، جو اصلاح طلب ہے۔ فقہ کا رومن لاء سے ماخوذ ماننا، ڈارون کا نظریہ ارتقاء اس غلطی کی عام مثالیں ہیں۔
اگر کوئی صاحبِ نظر تصوف کے ڈانڈے غیر اسلامی ماخذ کے ساتھ ملاتے ہیں، تو مسلمانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اسلامی تصوف اور غیر اسلامی تصوف الگ الگ حیثیتوں کے درجہ میں قبول کر لیں، اسلامی تصوف کی بنیاد خالصتہ توحید پر قائم ہے، یہ فطرت انسانی سے ہر لحاظ سے ہم آہنگ ہے، ایک لحاظ سے فطرت سلیمہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، اسلامی تصوف کو بعض جہات سے ویدانت یا نوافلاطونیت سے مماثلت کی وجہ سے تصوف کو عجمی افکار کا مجموعہ کہنا ہی حقائق سے اغماض ہے، کیونکہ کتنے علوم ہیں، جو عہد نبوت کے بعد منصہ شہود پر آئے اور مسلمانوں نے نہ صرف ان علوم کو متعارف کرایا، بلکہ ان کے اصول و جزئیات کی تدوین کرکے پوری دنیا میں ان کی اہمیت و افادیت کو منوایا ہے، علم اصول فقہ، علم مصطلح الحدیث کے علاوہ خود علم تصوف کا بھی یہی حال ہے۔
خلاصہ بحث یہ کہ علم تصوف قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے سے الگ کوئی چیز نہیں البتہ یہ مخصوص طرزِ حیات اور محبت علمِ ہے، یہ تصوف کی وہ ابتدائی تعریف ہے جو عہد نبوی میں رہی، تصوف کے حوالہ سے باقی تمام مباحث علمی موشگافیاں ہی ہیں، تصوف کی اس اصل کی طرف دنیا پھر پلٹ رہی ہے، زمانہ حال کے عظیم صوفی وجید عالمِ دین شاہ اشرف علی تھانوی اتباع شریعت کا نام ہی تصوف رکھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں: "تصوف کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، تصوف کی حقیقت ارشادِ الہٰی کے مطابق اِتقواللہ حق تقاتاہ (۲۱) یعنی اللہ تعالٰی سے اس طور پر ڈرتے رہنا، جیسے کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، کہ سوا اور کچھ نہیں، تقوٰی کا راز اتباع سنت میں مضمر ہے(۲۲)۔ تصوف کی حقیقت سے متعلق بحث یہاں انتہاء کو پہنچتی ہے، خود شاہ ولی اللہ تصوف کا تاریخی پس منظر کیا بیان کرتے ہیں؟ ان کی نظر میں اس علم کی بنیادیں کیا ہیں؟ یہ کن مراحل سے ہوکر تنو مند ہوا؟
ادوارِ تصوف:
عام مورخین تصوف کے جن ارتقائی مراحل کو بیان کرتے ہیں، وہ تاریخی و سنین کے اعتبار سے ہیں وہ ان ادوار کو پانچ مراحل میں تقسیم کرتے ہیں، (۲۳) شاہ صاحب خود اپنی کتاب "ھمعات" میں جو تقسیم ادوار کرتے ہیں (۲۴) وہ اس سے مختلف ہے، مورخین کے ہاں تصوف کے ادوار یہ ہیں۔
۱۔ پہلا دور تصوف، دورِ رسالت:
تصوف دور ظاہر ہے، دور رسالت اور دور صحابہ ہے، اس دور مسعد کو مزید یوں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔
۱۔ دور قبل از نبوت ب۔ دور قبل از ہجرت مدینہ ج۔ دور بعد از ہجرت مدینہ
۲۔ تصوف کا دوسرا دور:
اس دور میں اویس قرنی اور حسن بصری جیس بزرگ ہستیاں نظر آتی ہیں، ان حضرات نے تصوف کی بنیادوں کو استوار کیا، یہ دور ۳۴ھ تا ۱۵۰ھ کو محیط ہے۔
۳۔ تصوف کا تیسرا دور تبع تابعین کا دور:
یہ دور عبدک الصوف اور حضرت ہاشم صوفی سے شروع ہوتا ہے، صوف کی اصطلاح کھلے عام اس دور کی پیداوار ہے۔ مخصوص اوضاع کے افراد پر "صوفی لفظ کا اطلاق ہونا شروع ہوا، یہ دور ۱۵۰ء ہجری سے ۳۵۰ھ تک پھیلا ہوا ہے۔
۴۔ تصوف کا دورِ متاخرین:
اس دور کا آغاز شیخ ابوالحسن علی ہجویری م ۴۷۶ھ سے ہوتا ہے، اس دور میں بھی بالترتیب حضرت امام غزالی م ۵۰۵ھ، مولانا جلال الدین رومی م ۶۰۴ھ اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی م ۶۳۸ھ کے اسمائے اور ان کے علمی کارنامے قابل ذکر ہیں، اس دور میں تصوف اپنے منتہائے کمال کو پہنچا۔ یہ دور ۴۰۰ھ سے ۶۷۶ھ تک رہا، اس کے بعد تصوف کا رخ زوال کی طرف رہا، یہ واضح ہے کہ اسی دور میں تصوف عمل کے میدان سے نکل کر فلسفے کے میدان میں داخل ہوا، بعد کے ادوار میں اسی مزاج سے تصوف اپنے ادوار کو قطع کرتا رہا۔
۵۔ تصوف کا دورِانحطاط:
یہ دور آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتا ہے، یہ وہ دور ہے، جب صوفیا کو تختہ دار پر چڑھانے کے فتوٰی کا رحجان اپنی پوری شدت سے زور پکڑ چکا تھا۔ عبدالکریم جیلی ۷۶۶ھ، مولانا عبدالرحٰمن جامی ۸۹۸ھ، عبدالوہاب الشعرانی ۹۷۳ھ، شیخ احمد سرہندی ۱۰۳۴، اور شاہ ولی اللہ ۱۱۱۴، کا دور بھی اسی میں شامل ہے۔ یہ دور شاہ صاحب کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز سے ہوتے ہوئے اس وقت تک رہا اور ہنوز جاری ہے۔ تصوف کی اس تقسیم میں کافی اسقام پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا شاہ صاحب نے مقصد تصوف کی اساس پر تصوف کو چار ادوار میں تقسیم کیا۔ (۲۴)
شاہ صاحب کی نظر میں ادوارِ تصوف و تاریخی پس منظر:
خود شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے، وہ تصوف کی تاریخ کو چار ادوار میں یوں تقسیم کرتے ہیں۔
۱۔ پہلا دور تصوف، دورِ ایمان و عمل:
ظاہر ہے کہ علومِ اسلامی کا تشکیلی دور آنخضرت کا دورِ مسعود ہی تھا، اس وقت سادہ تمدن میں ہدایت کا بڑا ذریعہ آنحضرت کی ذات سے بڑھ کر کون سی ذات ہو سکتی تھی؟ اس وقت جبکہ اسلامی معاشرہ کی داغ بیل پڑ رہی تھی تو صحابہ کرام آنحضرت سے مسائل کے بارے میں استفسار فرماتے، آنحضرت مسائل کے حل میں راہنمائی فرماتے، شاہ صاحب نہ صرف تصوف کے حوالے سے بلکہ تمام علوم کے لئے آنحضرت کی ذات کو مصدرِ علم مانتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
درآنحضرت مرد مان درھمہ انواع بر آوازِ وئے داشتند
ہرچہ پیش مے آمد از
مصالحِ جہاد وھد نہ و عقدِ جزیہ احکام فقیہ و علوم زھدیہ ھمہ آزاں از
آنحضرت استفسار نمودند (۴۵)
المختصر اس وقت ہمہ علوم کے حصول کے لئے صحابہ کی نگاہیں آنحضرت کے جمالِ مبارک پر جمی ہوئی تھیں۔ آپ منبع علم سے ظاہری و باطنی فیوضات حاصل کئے جا رہے تھے، اس صاحب اس دور میں حصول فیوضات کے حوالے ایک اور نکتہ کی طرف راہنمائی کرتے ہیں:
ان الحصابہ والتابعین کانوا یحصلون السکینتھ بطرق اخرٰی فمنھا ا لموا ظبتہ علی الصلولتھ والتسبیحات فی الخلوۃ مع المحافضۃ علی شریطۃ الخشوع والحضور منھا المواظبہ علی الطھارۃ و ذکرھا ذِم الذات وغیرہ ذالک۔ (۴۷)
رسول اللہ اور صحابہ کرام کے زمانے میں چند نسلوں تک جو اہل کمال بزرگ گزرے ہیں، ان کی زیادہ تر توجہ شریعت کے ظاہری اعمال ہی کی طرف رہی، باطنی زندگی کی وہ تمام کیفیات جو تصوف کا اصل مقصد ہے، اُن حضرات کو شرعی احکام کی پابندی کے ضمن میں حاصل ہو جاتی تھی، اس میں کسی شخص کو اس امر کی ضرورت نہیں پڑی تھی کہ ان معنوی کیفیات کو حاصل کرنے کے لئے بعد کی صوفیاء کی طرح سر نیچے کئے ہوئے پہروں غوروفکر کرلے اور یہ کہ خدائے تعالٰی سے قرب و حضوری کے بحرِ تفکرات میں غرق نظر آتے ہو، اس وقت اعمال کی بنیاد پر تصوف کی بنیاد استوار تھی (۴۷) حتیٰ کے دوسرا دور دورِ نسبت آیا، جو چوتھی صدی ہجری تک رہا۔
۲۔ دوسرا دور تصوف دورِ نسبت پہلی صدی تا جنید بغداد م ۴۹۷ھ:
حضرت جنید بغدادی ۴۹۷ھ جو صوفیاء کے سید الطائفہ اور سُرخیل ہیں، اُن کے زمانے میں یا اُن سے کچھ پہلے تصوف پر ایک اور رنگ کا ظہور ہوا، اس دور میں ہوا یہ کہ اہل کمال میں سے ایک عام طبقہ تو اسی طریقہ کار پر کار بند رہا، جس کا ذکر پہلے دور کے ضمن میں ہو چکا ہے، لیکن ان میں سے جو خواں تھے، انہوں نے بڑی بڑی ریاضتیں شروع کیں، اُنہوں نے دنیا سے بالکل قطع تعلق کرکے مستقل طور پر ذکر و فکر میں مصروفیت اختیار کی، اس سے ان کے اندر ایک خاص کیفیت پیدا ہوئی، اس کیفیت سے مقصود یہ تھا کہ دل کو تعلق باللہ کی نسبت حاصل ہو جائے، چنانچہ یہ لوگ اسی نسبت کے حصول میں لگ گئے، وہ مراقبے کرتے تھے، اُن سے تجلی اور وحشت کے احوال و کوائف ظاہر ہوتے تھے اور وہ اپنے احوال کو اشارات سے بیان کرتے تھے، یہ لوگ سماع سنتے، کشف و اشراف کے ذریعہ دوسروں کے دلوں کی باتیں معلوم کرتے تھے، مجاہدے اور نفس کشی کے امور بجا لاتے تھے، الغرض اس دور کے اہل کمال کا تصوف یہ تھا کہ وہ خدا کی عبادت دوزخ کے عذاب سے ڈر یا جنت کی نعمتوں کے طمع میں نہ کرتے تھے، بلکہ ان کی عبادت کا محرک خدا کے ساتھ ان کی محبت کا جذبہ اور قلبی و روحانی وابستگی تھی، اس دور کا امتیازی وصف یہ رہا کہ صوفیاء کا نصب العین علم نہ رہا، سامی نوعیت کا غلبہ رہا، اس وقت توجہ کی نست درجہ کمال تک پہنچی، توجہ سے مرد نفس کا پوری طرح حقیقت الحقائق یعنی ذاتِ خداوندی کی طرف متوجہ ہونا ہے۔
اس دور میں بڑے صوفیا ذوالنون مصری م ۲۴۵ھ، جنید بغدادی م ۲۹۷ھ اور بایزید بسطامی م ۴۶۱ھ قابل ذکر ہیں، اس دور میں منصور حلاج جو جنید بغدادی کا مرید بتایا جاتا ہے، "اناالحق" کا نعرہ تصوف میں بانگ درا کی حیثیت اختیار کر گیا۔ منصور کو م ۳۰۹ھ میں پھانسی دی گئ۔ اس تاریخی واقعہ کے بعد ایک سو سال کے اندر تصوف پر مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ ابونصر سراج م ۳۷۸ھ کی کتاب "کتاب اللمع"، ابو طالب مکی کی "قوت القلوب" امام قشیری م ۴۶۵ھ کا "الرسالتہ القشیریاہ" اور شیخ علی بن عثمان ہجویری، داتا گنج بخش کی "کشف المحجوب" خاص طور قابل ذکر ہیں۔
یہ دور بقول شاہ صاحب ابو سعید بن ابی الخیر اور ابوالحسن خرقانی پر منتہی ہوا۔ شیخ ابو سعید کی ولادت ۳۵۷ھ ہے، جبکہ وفات ۴۴۰ھ ہے (۲۸)۔
۳۔ تیسرا دورِ تصوف دورِ جذب و توجہ:
شاہ صاحب لکھتے ہیں، اس دور میں طریقہ تصوف میں ایک اور تغیر رونما ہوا، اہل کمال میں سے عوام حسب سابق شرعی اور امر پر کاربند رہے ہے، جبکہ خواص نے باطنی احوال و کیفیات کو اپنا نصب العین بنایا، خواص الخواص نے اعمال و احوال سے گزر کر جذب تک رسائی حاصل کرنے کا مقصود ٹھہرایا اور اس جذب کی وجہ سے ان کے سامنے توجہ کی نسبت کا دروازہ کھل گیا اور اس وجود کے تعینات کے سب پردے ان کے لئے چاک ہوگئے اور اُنہوں نے عالم محسوسات میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہی ایک ذات ہے، جس پر تمام اشیاء کے وجود کا انحصار ہے، شاہ صاحب کے نزدیک اس جذب و توجہ سے ان بزرگوں کی اصلی غائت صرف اتنی تھی کہ ذات الٰہی میں اپنی توجہ کم کرکے اس مقام کی کیفیت سے لطف اندوز ہوں۔ لہٰذا ذات باری تعالٰی سے اتصال کا تصور تصوف میں اُبھرنے لگا، البتہ یہ بزرگ اس بحث میں نہیں پڑتے تھے کہ کائنات کا ذات باری تعالٰی سے کیا علاقہ ہے؟ انسان اس ذات میں کیسے گم ہوسکتا ہے؟ اور فنا و بقا کے جو مقامات ہیں، ان کی اصل حقیقت کیا ہے؟ شیخ ابوسعید کے انتقال کے ساتھ ہی امام غزالی کی ولادت ہوئی، بیشک وہ عالمِ دین اور متکلم پہلے تھے جبکہ صوفی بعد میں، تصوف کے سلسلے میں ان کی خدمات یہ ہیں کہ اہل دین جو تصوف کی آزاد خیالی اور آزاد مشربی سے بیزار ہو رہے تھے اور تصوف جو شرعی قیود سے آزاد ہوتا جا رہا تھا، آپ نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا، عقل جو اسلامی تحریک معتزلہ کے نام سے مذہبی عقائد کی شارح بن کر نکلی تھی، اِدھر اُدھر بھٹک کر امام غزالی کی شخصیت میں تصوف اور حکمت کی آمیزش کا باقاعدہ آغاز آپ کے دور سے ہوا، اس سے پہلے تصوف اور فلسفے میں کبھی دوستی اور کبھی آویزش کی صورتیں نظر آتی تھیں۔ تصوف کی اصطلاحات تفاسیر میں جگہ پانے لگیں، تصوف و حکمت کے امتزاجی سلسلے میں امام ابو حامد الغزالی نے موثر ترین کام یہ کیا کہ اُنہوں نے دینی عقائد، فلسفیانہ افکار اور عرفانی واردات کے مابین تطبیق پیدا کردی، چنانچہ ان کی کتب "احیاء علوم الدین"، "مشکوۃ الانوار"، "رسالتہ اللدنیہ" اور "معارج القدس" اس تطبیقی نقطہ نظر کی پوری نمائندگی کرتی ہیں۔
امام غزالی کی وفات ۵۰۵ھ میں ہوئی، ان کے ۵۰ برس بعد علم تصوف کے سب سے بڑے مصنف شیخ اکبر ابن عربی پیدا ہوئے، ان کی پراسرار شخصیت کے ساتھ ہی تصوف کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے، یوں ساتویں صدی ہجری نے تصوف کا فلسفہ کی روپ میں استقبال کیا۔
۴۔ چوتھا دورِ فلسفہ وجود تا حال:
فلسفہ وجود کی بحث اس دور کے ممیزاست میں سے رہی، وجود مطلق کیا ہے؟ ذات واجب الوجود سے کائنات کا کیا تعلق ہے؟ کائنات کا صدور ذات فیاض سے کیسے ہوا؟ اس وقت صوفیاء کیفیات و احوال کی منزل سے بھی آگے جذب و سکر کی حد تک نکل گئی، ان بزرگوں نے ظہور کائنات کے مدارج اور تنزلات کی تحقیقات کیں، قدیم اور حادث کے باہمی تعلق کو باریک بینی سے بیان کیا، اسی طرح تصوف فلسفہ کا روپ دھارا گیا، ابن عربی نے جن حقائق کو علم و حکمت کی متعلقہ زبان میں پیش کیا، سنائی، عطار، رومی اور جامی نے شعر کے دلکش وزود اثر پیرائے میں ان حقائق کو ادا فرمایا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تصوف کے معارف خواص سے عوام تک پہنچے اور ہر شخص تصوف کا کلمہ پڑھنے لگا۔
شاہ صاحب کی تقسیم ادوارِ تصوف عام مورخین کے مقابلہ میں متصوفانہ رجحانات اور مقصدیت پر مبنی ہے، شاہ صاحب کے یہ چار ادوار، دورِ ایمان، دورِ نسبت، دورِ جذب و توجہ، دورِ فلسفئہ وجود، ایسے تاریخی موڑ ہیں، جن سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ تصوف کو ان ادوار میں نئے رجحانات کا سامنا کرنا پڑا اور تصوف کو واضح جہتیں ملیں۔ تقسیم ادوارِ تصوف میں وقت و اشخاص کے اعتبار سے تنوع کے مواقع موجود ہیں۔
علامہ اقبال اپنی کتاب "تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ" کے ساتویں خطبہ میں تصوف کو تین ادوار یعنی (۱) دورِ ایمان (۲) دورِ فکر و ذکر (۳) اور دورِ عرفان حقیقت، میں منقسم مانتے ہیں، علامہ نے آخری دور کے بارے میں بڑے پتے کی بات یہ لکھی ہے کہ اس دور میں مابعد الطبیعات کی جگہ نفسیات نے لے لی اور انسان کو یہ آرزو دامن گیر ہوئی کہ وہ حقیقتِ مطلقہ سے براہ راست اتحاد و اتصال قائم کرے، چنانچہ یہی مرحلہ ہے، جس میں مذہب کا معاملہ زندگی اور طاقت کا معاملہ بن جاتا ہے اور جس میں انسان کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ ایک آزاد اور با اختیار شخصیت کا مقام حاصل کرے، شریعت کی حدود و قیود توڑ کر نہیں بلکہ خود اپنے اعماقِ شعور میں اس کے مشاہدے سے یہ مرتبہ حاصل کرے۔ (۲۹) یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ علامہ نے باطنی کیفیات کا متبادل نفسیات کا اطلاق کرکے تصوفانہ فلسفہ کی تفہیم میں انقلاب بپا کیا، دورِ تصوف کی بحث سے یہ حقیقت اشکارا ہے کہ تصوف دوسرے علومِ الٰہیہ علمِ کلام وفقہ کی طرح ایک منضبطہ علم رہا ہے، اسلامی تہذیب پر اس کے گہرے اثرات ہیں۔
تصوف میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، وہ شیخ کی سندِ اتصال ہے خود شاہ صاحب اپنی سند کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کی سندِ طریقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک، صحیح اور متصل طریقے سے پہنچی ہے، شاہ صاحب کا بیان ہے، صحبتنا و تعلمنا الاداب الطریقہ و السلوک متصلتہ الی رسول اللہ صلی علیہ و سلم بسند الصحیح، (۳۰) شاہ صاحب نے القول الجمیل میں قرآنی آیت "ان الذٰن یبایعونک انمایبایعون اللہ بداللہ فوق ایدیھم فمن نکث فاانما ینکث علٰی نفسِِِہ (۳۱)
ترجمہ: اور جو لوگ تجھ سے اے پیغمبر علیہ السلام بیعت کرتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے، سو جو عہد شکنی کرتا ہے، تو وہ اپنی ذات کی بنیاد پر عہد توڑتا ہے۔
شاہ صاحب کا مدعایہ ہے کہ بیعت ایک مسنون متواتر عمل ہے بالا قرآنی آیت کے علاوہ آپ دوسری دلیل اس سلسلے میں اسفاضہ عن الرسول نقل کرتے ہیں (۳۲) شاہ صاحب لکھتے ہیں "واستفاض عن رسول صلی علیہ و سلم ان الناس کانوا یبا یعونہ تارۃ علی الھجرۃ والجھاد و تارۃ علی اقامتہ ارکان الاسلام و تارۃً عن الثبات والقرار فی معرکتہ الکفار و تارۃً علی التمسک با السنتتہ والا جتناب عن البدعتہ والحرص علی الطاعات" (۳۳)
لہٰذا عام حالات میں بیعت کے مسنون ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ہے، البتہ خلفاء راشیدین کے بعد بیعت کے سلسلے کو اس خوف سے ترک کردیا گیا کہ کہیں بیعت لینے والے کے متعلق خلافت کی تحصیل کا گمان نہ کیا جانے لگے اور یہ اُلٹا فتنہ و فساد کا موجب نہ بنے۔
شاہ صاحب نے تصوف کی حقیقت ہی بدل دی وہ تصوف میں توارث (Dogma) سے زیادہ جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ علم ہے، امام الہند نے تصوف کو علمی خطوط پر استوار کیا اور اس حوالہ سے بدعات و رسومات کی بجا طور پر حوصلہ شکنی کی، یہ حقیقت شاہ صاحب کی ان کڑی شرائط سے اشکارا ہے جو وہ شیخ کی شرائط کے حوالہ سے قلم بند کرتے ہیں۔
تصوف کے میدان میں اہم امرشیخ کامل کی رہبری کا حصول ہے، خود شاہ صاحب کی ایک تحریر سے اس بات کا پتہ چلتا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں کہ آج کا ملین، عارفین صوفیاء کی قلتِ ہے، جنہیں شیخ کامل میسر نہیں وہ میری کتب کو حرزِ جان بنائیں، تو بھی کل نہیں تو جزوی فائدہ اُنہیں حاصل ہو جائے گا، کامل شیخ کی ضرورت کے بارے میں دلیل کے طور پر اکثر اہل علم قرآنی آیت "واتبع سبیل من اناب الی" (۳۴) یعنی اُن کے طریقے کی اتباع کرو جو میری طرف رجوع کریں۔
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اُس شخص کی تابعداری کرو، جو صاحبِ انابت ہو، مقصود یہ ہے کہ وہ خود متبوع نہ ہو، بلکہ ان کے پاس ایک سبیل ہو جو علم و عمل اور توجہ الی اللہ کا جامع ہو، تصوف کی پُرخار وادیوں کرنے اور عرفانِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے ایک صاحبِ بصیرت اور شیخ کامل کی ضرورت ایک مسلمہ حقیقت ہے، شیخ دراصل فیوضات کے حصول کیلئے واسطہ بنتا ہے، نسبت کا یہ تعلق دراصل صحابہ کے واسط سے آنحضرت کے فیض کے حصول کا تسلسل ہی ہے۔
لٰہذا تصوف میں وصال پیغمبر کے بعد روحانی فیوضات کا ذریعہ شیخ کامل کی صحبت ہے، یہ کتاب اللہ کے ساتھ رِجال اللہ کا التزامِ مستمرہ اور ہدایتِ الٰہی کی تکمیلی شکل ہے، البتہ شاہ ولی اللہ کی نظر میں یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ شیخ کامل کیا شرائط ہیں؟ وہ سالک کو کیسے عرفان کی منزلوں کو طے کراتے ہیں، وہ سالک کے لئے کیا نصاب سلوک تجویز کرتے ہیں؟ اس سے متعلق تحقیق کا حاصل یہ ہے۔
شیخ کامل کی شرائط:
ایک شیخ کامل کو کن صفات کا حاصل ہونا ضروری ہے؟ شاہ صاحب نے اس عُقدہ کی جس انداز سے گرِہ کشائی کی ہے، وہ درج ذیل ہے۔
۱۔ شیخ کامل کی پہلی شرط عالمِ ہونا:
فشرط من یا خذ البیعتہ اُمور، احد ھا علم الکتاب والسنتہ ولا ارید المرتبتہ القصوٰی بل یکفی من علم الکتاب ان یکون ضبط تفسیر المدارک او جلالین اوغیر ھما و حققہ علی عالم و عرف معانیہ و تفسیر الغریب و اسباب النزول والا عراب والقصص وما یتصل بذالک (۳۵)
بیعت لینے والے میں یعنی پیرو مرشد ہیں میں چند امور کا ہونا شرط ہے۔ شرطِ اول اُن کا قرآن و سنت کا عالم ہونا ہے، قرآن و سنت کے علم سے میری مراد (شاہ ولی اللہ) یہ نہیں کہ وہ اس میں درجہ کمال پر پہنچ جائے بلکہ مرشد کے لئے قرآن حکیم کا علم بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے تفسیر مدارک یا تفسیر جلالین یا ان جیسی کوئی اور تفسیر پڑھی ہو، کسی عالم سے قرآن کی تحقیق کی ہوا اور اس کے معانی حل کیئے ہوں، مشکل الفاظ کو سمجھا ہو، اسباب نزول کا احاطہ کیا ہو اور اعراب، قصص اور اس سے متعلق جو مسائل ہیں اُن کا انہیں علم ہو۔
چونکہ ہدایات الٰہی کا سر چشمہ قرآن حکیم ہے، اس لئے اس چشمے سے استفادہ کے لئے اُن بنیادی معلومات کو حاصل کئے بغیر کوئی بھی فرد ارشاد کے منصب پر فائز نہیں اس چشمے سے استفادہ کے لئے اُن بنیادی معلومات کو حاصل کئے بغیر کوئی بھی فرد ارشاد کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتا، جو استفادہ قرآن کے لئے ضروری ہے، ظاہر ہے، جو شخص منبع فیض سے خود فیض یاب ہونا نہ جانتا ہو، وہ دوسروں کو کیا فیض پہنچائے گا؟ چونکہ قرآن کی تفسیر سنت کرتی ہے۔ لٰہذا قرآنی علوم کے ساتھ سنت سے متعلق بھی مرشد کا عالمِ ہونا ضروری ہے، سنت سے متعلق "مرشد" کو کتنا علم حاصل ہونا چاہیے؟ شاہ صاحب کا اس سے متعلق بیان یہ ہے۔
"ومن السنتہ ان یکون قد ضبط و حقق مثل کتاب المصابیح و عرف معانیہ و شرح غریبہہ و اعراب مشکلہہ و تاویل معضلہہ علی رای الفقھاء (۳۶)
ترجمہ: مرشد کا سنت کے عالمِ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ حدیث کی، "المصابیح جیسی کتاب پڑھ چکا ہو، اس میں اس نے تحقیق کی ہو اور اس کے معانی سمجھا ہو، اُس کے غریب اور نامانوس الفاظ کی شرح کی ہو اور اُس کے مشکل الفاظ کو حل کیا ہو، اور حدیث میں جو دقیق مسئلہ آیا ہو، فقہاء میں سے کسی ایک کی رائے کے مطابق اُس نے کی تاویل و تشریح کی ہو۔
شاہ صاحب نے مرشد کے لئے علوم قرآن و سنت کے لزوم کی معقولیت پر خود یوں تبصرہ کیا ہے۔
"ہم (شاہ ولی اللہ) نے مُرشد یا روحانی رہنما کے لئے علم کی شرط اس لئے لگائی ہے کہ بیعت کی اصل غرض امر بالمعروف و نہیں عن المنکر، تسکینِ باطن کے حصول کی تلقین اور بُرائیوں کو دور کرنے، اچھائیوں کو حاصل کرنے کی ترغیب و ارشاد ہے اور چونکہ مرید کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان تمام اُمور میں اپنے مرشد کی اطاعت کرے، اس لئے اگر مرشد عالم نہ ہو۔ تو اُسے ان اور کو سرانجام دینے کا کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟
۲۔ شیخ کامل کے لیے شرط ثانی اس کا عادل و متقی ہونا:
شیخ کامل سے متعلق شاہ صاحب دوسری اہم شرط کے بارے میں یوں تحریر کرتے ہیں:
"والشرط الثانی العد التہ والتقوٰی فیجب ان یکون مجتنباً عن الکبائر غیر مصرِ علی الصغائر (۳۷)
مرشد کے لئے دوسری شرط اُس کا عادل ہونا اور اُس کا تقوٰی دار ہونا ہے، مرشد کے لئے ضروری ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں سے بچے اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرے۔
ان شرائط سے شیخ کامل کی دینی و معاشرتی حیثیت کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔
۳۔ شیخ کامل کے لئے شرطِ ثالث دنیا سے بے نیازی اور آخرت سے رغبت رکھنا:
شاہ صاحب مرشد کے لئے تیسری شرط کو یوں بیان کرتے ہیں:
"والشرط الثالث ان یکون زاھدًا فی الدنیا راغباً فی الاخرۃ مواظباً علی الطاعت المئو کدۃ والا ذکارِ الماثورۃ المذکورۃ فی صحاحِ الاحادیث مواظناً علی تعلق القلبِ باللہِ سبحانہ تعالی و کانت "یادداشت" لہ ملکتہ راسختہ(۳۸)
ترجمہ: مرشد کے لئے تیسری شرط ہے کہ وہ دنیا سے بے نیاز ہو، آخرت میں رغبت رکھتا ہو اور جو طاعات و عبادات ضریور اور مئوکد ہیں اور جو ذکر و اذکار صحیح احادیث سے مروی ہیں، وہ ان کا پابند ہو، اس کا دل برابر اللہ سبحانہ تعالٰی سے تعلق رکھے یعنی اس کی شخصیت میں الٰہی رنگ واضح ہو۔
طاعات و عبادات سے چونکہ حقوق اللہ یا حقوق العباد کی رعایت مقصود ہے، شاہ صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ عبادات میں ارکان خمسہ پر زور اس لئے دیا گیا ہے، تاکہ ان "اُم العبادات" کے نتیجہ میں دوسرے ادنٰی درجہ کے حقوق کی رعایت کا جذبہ پروان چڑھے، عام صوفیاء بھی تصوف میں تین اخلاق پر جو زور دیتے ہیں، یعنی محبتِ الٰہی، مکارمِ اخلاق اور خدمتِ خلق، یہ عبادت و اطاعت کا ہی نتیجہ ہیں، عام آدمی کے لئے جب عبادات بجالانا ناگزیر ہے، تو دینی رہنما کے حق میں ان کی ضرورت واضح ہے۔
۴۔ شیخ کامل کے لئے شرطِ رابع امر بالمعروف نہی عن المنکر پر عامل ہونا:
شاہ صاحب مرشد سے متعلق چوتھی شرط کا ذکر یوں کرتے ہیں۔
والشرط الرابع ان یکون اٰمراً بالمعروف ونا ھییاً عن امنکر مسبتداً برائہ لا امعتاً لیس لہ رای ویکن ذومروۃ و عقل تام لیعتمہ علیہ فی کل مایا مربہ وینھی عنہ قال اللہ تعالٰی فممن تر ضون مین الشھداءِ فماظنک لصاحب البیعتا" (۳۹)
ترجمہ: مُرشد کے لئے چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عامل ہو، اپنی رائے میں پختہ ہو، متذبذب خیال کا مالک نہ ہو کہ نہ اس کی اپنی رائے ہو اور نہ اس کا کوئی فیصلہ، وہ صاحب مروت ہو، عقل تام رکھتا ہوتا کہ جس چیز کے کرنے کا وہ حکم دے اور جس سے وہ منع کرے، اس حوالہ سے اُس پر پورا اعتماد کیا جاسکے، اللہ تعالٰی نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے، فممن تر ضون من الشھداء، یعنی یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیئے، جن کو گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔
شاہ صاحب نے شیخ کامل سے متعلق جن شرائط کو بیان کیا ہے، ان کی معقولیت ایک مُسلّمہ حقیقت ہے، یہ تمام مذکورہ وہ شرائط ہیں، جو ایک دینی رہنما میں ہونی چاہئے تاکہ ان کی تابعداری میں لوگ وجاھت پائیں اور عار محسوس نہ کریں۔
۵۔ شیخ کامل کے لئے شرطِ خاص شیخ کا صحبت یافتہ ہونا ہے:
شاہ صاحب مرشد کے لئے پانچویں شرط یہ قرار دیتے ہیں کہ شیخ کامل نے معاصرِ عارفین کی صحبت کا شرف پایا ہو، اُن کی صحبت سے اس نے نور باطن حاصل کیا ہو، امام الہند کا بیان ہے۔
والشرط الخامس ان یکون صحب المشائخ و تادب بھم دھراً طویلاً واَخذ منھم النور الباطن والسکنیتہ ھذا لان سنتہ اللہ جرت بان الرجل لا یفلح اِلا اذاری المفلحین کما ان الرجل لا یتعلم اِلا بصحبتہ العلماء و علی ھٰذا القیاس غیر ذالک من الصناعات (۴۰)
ترجمہ: مُرشد کے لئے پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ ایک مدت دراز تک مشائخ کی صحبت میں رہا ہو، اُن سے اس نے تربیت پائی ہو اور نور باطن و تسکین قلب اخذ کیا ہو، یہ اس لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالٰی کا یہ مقررہ نظام ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک فلاح نہیں پاسکتا، جب تک کہ وہ فلاح پانے والوں کو دیکھے بھالے اور ان سے نہ ملے، جس طرح کہ کوئی شخص اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ علماء کی صحبت میں نہ رہا ہو، یہی حال دوسرے پیشوں کا بھی ہے۔
الغرض بالا بحث میں شاہ صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ واضح انداز میں "شیخ کامل" کی صفات گنوائی ہیں، ظاہر ہے، تصوف کی پوری عمارت میں اہم ستون کی حیثیت سے "پیر کامل" کا وجود ہے، پیر کامل نظام تصوف میں ایک محور کی حیثیت سے کردار ادا کر رہا ہوتا ہے، اس لباس میں آکر جاہل پیر پورے مقدس نظام کا حلیہ بگاڑ سکتے ہیں اور ایسا ہے۔ لہٰذا شاہ صاحب نے پوری بصیرت و بالغ نظری کے ساتھ شیخ کامل کے خدوخال بیان کیئے تاکہ کوئی سادہ لوح انسان جھوٹے کے فریب میں آکر دنیا و آخرت کی بربادی کا ارتکاب نہ کر بیٹھے، شاہ صاحب کی اس قدر چشم کشا حقائق کے بیان اور نشان دہی کے باوجود کتنے لوگ ہیں جو صوفیاء جاہل کے دامِ فریب کے شکار بنے ہوئے ہیں، یقیناً شاہ صاحب نے اپنی پُر تاثیر تحریروں کے ذریعے نام نہاد صوفیاء کی قلعی کھول دی ہے اور حقیقت کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے، شاہ صاحب جہاں بہروپیا صوفیاء سے نالاں ہیں، وہ انہیں دین کے ڈاکو، راہ زن اور مکار جیسے لفظوں سے یاد کرتے ہیں، وہاں غلط کار فقہاء کے بارے میں ان کے یہی جذبات ہیں، شاہ صاحب کا بیان ہے، وانا اوصی طالب الحق بامور منھا ان لا یصحت جھال الصوفیہ ولا جھال المتعبدین ولا المتقشفتہ من الفقھاءِ ولا الظاھرین من المحدیثین۔(۴۱)
ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ صاحب کے متعین کردہ معیار تصوف کی اساس پر اشخاص کو جانچا جائے اور بعد میں پورے غور و خوض، ذہنی ہم آہنگی و مشاورت کے بعد شیخ سے ارادت کا تعلق جوڑا جائے اور سلوک کی راہ پر ہمت کے ساتھ عرفان کی منزلوں کو طے کیا جائے، عام طور پر کاملین اور عارفین سے کشف و کرامات اور خوارق کا ظہور کی توقع رکھی جاتی ہے، عام لوگوں کے ہاں یہی آخری معیارِ صداقتِ شیخ سمجھا جاتا ہے، شاہ صاحب کی تصوفانہ تعلیمات کا یہ پہلو فکر انگیز ہے کہ وہ ببانگ دہل لکھتے ہیں کہ مرشد کے لئے کوئی ضروری نہیں کہ ان سے کرامت و خوارق کا ظہور ہو یا وہ تمدن و معاشرت یا کسب معاش کو چھوڑ بیٹھے اور اسے توکل کا نام دیں، کرامات و خوارق اور اجابت الدعوات ریاضتون کے ثمرات تو ہیں، اگر ان کا حصول ہو جائے، تو انہیں نعمت خداوندی سمجھا جائے و گرنہ یہ امور شرط ولایت کے جز کے طور پر لازمی نہیں۔
البتہ شاہ صاحب یہ لازمی گردانتے ہیں کہ شیخ کا حظیرۃالقدس سے خصوصی تعلق ہو، اپنے وصیت نامے میں وہ لکھتے ہیں، "مقتداء درسیر و سلوک شخصے باید ساخت کہ واقف حظیرۃالقدوس باشدنہ شخصے کہ کشف و کرامات او بیشتر دیدہ شود"(۴۲)
لہٰذا شاہ صاحب انتخاب شیخ کو اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں، شاہ صاحب شیخ سے کرامات و خوارق کے ظہور کو چنداں اہمیت نہیں دیتے، اس طرح کسی شیخ کے مریدین کی کثرت بھی ان کے ہاں کاملیت کی دلیل نہیں، وہ شیخ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"دست دردست مشائخ ایں زمان کہ اکثر صوفیاء کے کرامات کو ڈھونگ قرار دیتے ہیں، وہ نصیحت کے طور پر لکھتے ہیں کہ ایسے موقع پر خوب جانچ پرکھ سے کام لیا جائے، کثرت معتقدین اور خوارق کو بنیاد بنا کر ہر کسی کو شیخ کامل سمجھنا بڑی غلطی ہے، شاہ صاحب اس خیال میں بھی منفرد نہیں کہ اگر کسی کو شیخ کامل مہیا نہ ہو، تو میری کتب سے استفادہ کریں، کم از کم اگر کل ہاتھ سے جائے تو جز سے تو محرومیت نہ ہو، یہ بعینہ وہی بات ہے، جو شیخ علی ہجویری اپنی کتاب "کشف المحجوب" میں لکھ چکے ہیں (۴۴)۔
شاہ صاحب نے بیعت سے متعلق دوسرے بقیہ مباحث مثلاً بیعت کرنے والے مرید کی شرائط، بیعت توڑنے کا حکم، بیعت کی اقسام، طریقہ بیعت وغیرہ جیسے مباحث کا بھر پور طریقے سے احاطہ کیا ہے، یہاں جو امر قابل بیان ہے، کہ شاہ صاحب بیعت کی غرض وغائت یعنی احیاء سنت اصلاحِ نفس کے لئے جو نصاب متعین کرتے ہیں یعنی وہ مرید کی تعلیم و تربیت کے لئے جو وظائف و اوراد تجویز کرتے ہیں، جن کی مدد سے سالک عرفان الٰہی کے مقصد کو پاسکتا ہے، وہ کیا ہے؟ یعنی شاہ صاحب کا مجوزہ نصاب سلوک کیا ہے؟ اس سے متعلق معلوم کرنا ناگزیر ہے۔
شاہ صاحب کا مجوزہ نصابِ سلوک
یہ سوال بذات خود پیچیدہ ہے، اس لئے کہ تمام سالکین کی ذہنی سطح برابر نہیں ہوتی، انسانی شخصیات کی تشکیل میں ملکوتی و بہیمی ملکات کے تنوع اور اس میں تجاذب و اصطلاح کی بنیاد پر افردِ انسانی کا متفاوت ہونا ایک مسلّمہ حقیقت ہے، لٰہذا سالک کا خود اپنی استعداد سے متعلق معلوم کرنا یا مرشد کا اس حوالے سے رہنمائی کرنا اہم ترین عمل ہے یہ معلوم ہوکہ سالک کی روحانی استعداد کیا ہے؟ تاکہ بعد میں ان کے حسبِ حال بیماری کا علاج تجویز ہو، کلی طور پر سب انسانوں کے لئے ایک ہی نصابِ اصلاح مقرر کرنا خلاف اُصول ہے، تاہم نوعِ انسانی کے طبائع میں کچھ عمومی خصوصیات قدرے مشترک کے طور پر موجود ہوتے ہیں، اس لئے شاہ صاحب کی کتب سے عمومی درجے میں ان کے متعین کردہ "نصاب سلوک" کا کھوج لگایا جاسکتا ہے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب عمومی انداز میں درج ذیل امور پر زور دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں۔
"مرشد سالک کے عقیدے کی درستگی پر توجہ دیں، عقیدے کی درستگی میں کسی مصلحت کو قریب نہ آنے دیں، وہ ذات واجب الوجود کو اس طرح مانے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع اور اس طرح کی صفات سے اللہ جل شانہ کو متصف مانے، ان صفات کمال کو واجب الوجود کے حق میں اس طرح مانے، جس طرح خود اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے لئے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے اور رسول اللہ کی صحیح حدیثوں نے اُس کی صداقت پر مہر ثبت کی ہے، نیز یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی ہر قسم کے عیب و نقص اور عجز سے مبرا ہے، وہ جسمیت کسی جگہ میں محدود، عرض ہونے، کسی خاص طرف رنگ اور خاص شکل سے متصف ہونے سے منزہ ہے۔
صفاتِ الٰہی کے ضمن میں قرآن حکیم میں ذاتِ باری تعالٰی، استواء علی العرش، ضحک، یعنی ہنسی اور اثبات وغیرہ کے جواموروارد ہیں، ان پر مجملاً ایمان لایا جائے اور ان کی تفصٰل اللہ پر چھوڑ دی جائے، یہ بھی یقینی امر ہے کہ اُس ذات کا اپنے آپ کو استواء علی العرش سے متصف کرنا، اس طرح کہ ہم کسی کو اس صفت سے متصف کرتے ہیں، کیونکہ واقع یہ ہے کہ خدا کے مثل کوئی چیزنہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے "لیس کمثلہ شی و ھوا لسمیع البصیر (۴۵) توحید کے اس طور پر عقیدے کی درستگی کے ساتھ مرید کو چاہئے کہ وہ تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت کا بلعموم اور سید نا محمد عربی کی نبوت کا بالخصوص یقین و اثبات کرکے آپ کی اتباع کو اپنے اُوپر لازم سمجھے پیغمبر علیہ السلام نے جن مغیبات مثلاً بعث بعد الموت، عذاب قبر، جنت، دوزخ، حشر، حساب، رویتِ الٰہی وغیرہ، الغرض جن امور کی خبر دی ہے اور وہ صحیح روایات سے ثابت ہیں، سالک ان سب باتوں پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کریں۔
اقرار توحید و رسالت کے بعد سالک کو گناہ کبیرہ سے بچنے اور گناہ صغیرہ کے ارتکاب پر نادم ہونے کی طرف متوجہ کیا جائے، شاہ صاحب نے "القول الجمیل" میں گناہ کبیرہ و صغیرہ سے متعلق پوری تفصیل دی ہے۔
عقائد کی اصلاح اور گناہوں سے احتراز کے بعد شاہ صاحب جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں، وہ ارکان خمسہ کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی ہے، دراصل ارکانِ خمسہ دین کی بنیادیں ہیں، اس کے بعد مرید کے معاملات کی درستگی کی باری آتی ہے، مرید کو چاہئے کہ زندگی کی معاشی ضروریات بیع و شراء، اکل و شراب، بات چیت، لوگوں سے ملنے جلنے، عائلی و خانگی معاملات، یعنی نکاح، زیردست افراد کے حقوق، تجارت و اموال کا صرف، الغرض تمام معاملات میں شرعی حدود کی رعایت رکھے، سالک ان بالا حقوق کی رعایت کے ساتھ اُن اذکار اور وظائف کا اہتمام بھی کرے، جو شیخ تجویز کریں، شاہ صاحب نے اس حوالہ سے اذکار و افکار کا مکمل نظامِ عمل
دیا ہے، انہوں نے بطور خاص جن اذکار کی ترغیب دی ہے، وہ درج ذیل ہیں۔
شاہ صاحب ایک مکتوب میں محمد عاشق پھلتی جو شاہ صاحب کا قریبی مرید تھا، لکھتے ہیں۔
یہ پچاس رکعتیں کچھ اس طرح بنتی ہیں، فرض رکعت : ۱۷، سنت موکدہ: ۱۲، تہجد کی نماز بشمول وتر: ۱۱، نماز اشراق: ۲، صلواۃ الضحٰی (چاشت): ۴، نماز زوال چار رکعات، یہ کل پچاس رکعتیں ہوئیں۔
عشاء کی نماز کے بعد سو بار لا الہ الا اللہ خفی سے کچھ اُوپر اور جہر سے کم آواز (بہ آواز اعتدال پڑھے)، بعدہ سورۃ الملک پڑھے، اس کے بعد بستر پر جائے اور معوذ تین پڑھ کر سنت طریقے پر محوِ استراحت ہو، (۴۸) سالک اگر اللہ کے علاوہ لو لگائے، تو یہ بھی تصوف میں ایک شرک ہے، چنانچہ قطب رھتگی کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوا وہ مذکورہ مرید کی بیماری اور اس حوالے سے جو علاج تجویز کرتے ہیں، وہ سالک کا پورا دستور العمل ہے، شاہ صاحب لکھتے ہیں، اگر محبوب کے علاوہ کوئی اور نصب العین ہو، تو یہ عشق نہیں ہے، ایک سودائے بے ہودہ ہے، چونکہ مخاطب کی طبیعت میں طلب جاہ حب دنیا پائی ہے، اس لئے آپ نے توبہ کی ترغیب دی اور سات نکات پر مشتمل دستور العمل تجویز فرمایا، وہ سات اعمال یہ ہیں۔
موت کو ہمیشہ یاد رکھنا۔صبح صادق سے دو گھڑی قبل نماز تہجد میں مشغول رہنا، نیزمحبت حق تعالٰی سبحانہ رہنے پر ارتکاز ہو۔صبح سے چار گھڑی تک خلوت کرنا۔ دل میں وسوس و خطرات سے بچتے رہنا، آزردہ سونے کے وقت قرآن کریم کی چند سرتیں پڑھ کر سونا۔
خاطر نہ ہوناجاہ سے بچنے کے لئے دنیاوی مجالس،بے ہودہ اور فضول گوئی سے خود کو بچانا۔وزیبائش سے گریز کرنا۔ سالک سے غلطی سرزد ہونے کی صورت میں شاہ صاحب مذکورہ مرید کو جس عمل کے اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہیں، وہ ایک اُصول کے درجے میں ہے۔
جس وقت خوف دل پر غلبہ کرلیں اور کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو خوف کے عوض و مقابلے میں اعمال خیر میں سے کوئی نہ کوئی عمل مثلاً، ذکر خفی یا ذکر جلی، تدّبر کے طور پر کلام مجید یا مطالعئہ حدیث یا کوئی علم خیر اختیار کیا کریں اور اپنے کئے ہوئے گناہ پر نادم ہوں، یہ اعمال دخول جنت کے لئے بھی کافی ہیں۔(۴۹)
محمد عاشق پھلتی کو ایک طرح حزن و قلق درپیش آیا، پھلتی نے شیخ (شاہ ولی اللہ) کی طرف خط لکھا، شاہ صاحب نے اس کا جواب یوں دیا۔
اس مکتوب میں ایک طرح کا حُزن و قلق آپ نے تحریر کیا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ ایک دو مہینوں کے لئے یہاں دہلی تشریف لائیں، یہ فقیر بھی ملاقات کا مشتاق ہے، شکایت رفع ہوجائیگی، جب تک ملاقات نہ ہو، اُس وقت تک چند شب متواتر غسل یا تازہ وضو کرکے نماز نوافل ادا کرتے رہنا، نماز کے بعد پوری شد و تفہیم کے ساتھ "اللہ اللہ" ایک ہزار بارپڑھیں، اس پڑھنے میں پیش نظر وہ نور ہو جو بالائے عرش قائم ہے یعنی "الرحمن علی العرش استوی" اس بالا عبارت سے مرید کا شیخ سے تعلق کی نوعیت و ضرورت واضح ہے، رنج و قلق سے متعلق شاہ صاحب کا مجوزہ وظیفہ قابل عمل اور موثر ہے۔
شاہ صاحب سالک کو وظیفے کے طور پر لکھتے ہیں، کہ سالک کو یہ وطیرہ اپنانا چاہیے، ہوش دردم، نظر برقدم، سفر دروطن، خلوت درانجمن، یاد کر دوبازگشت، یاداشت و نگاہ داشت،(۵۰)۔
کلمہ توحید کی تکرار و اہمیت ہر سلسلہ سے وابستہ شیخ مریدوں کو تلقین کرتے ہیں، مگر شاہ صاحب کلمہ طیبہ کی تاثیرات اور اہمیت و افادیت جس شان سے بیان کرتے ہیں، وہ یقیناً فکر انگیز ہے، بابا عثمان کشمیری کو آپ ارشاد و تلقین کے ضمن میں لکھتے ہیں۔
کلمہ طیبہ کی تکرار اس طرح سے ہو کہ محبوب حقیقی کے غیر سے محبت کی نفی کا ادعا ہو اور یہ عمل الحاج و تضرع کے طریقے پر ہو، چونکہ یہ صورت تاثیر میں اسم اعظم کا حکم رکھتی ہے، کلمہ طیبہ کی تکرار اوقات خلوت میں جمع حواس کے ساتھ ہو اور اوقات خلوت میں حدیث نفس کے مانند ہو، یہاں تک کہ تکرار کلمہ میں استعابِ اوقات محقق ہو جائے، یعنی پورا وقت اسی تکرار میں گھیر جائے، (۵۱)۔
چونکہ تصوف عمل اور حال پر یقین رکھتا ہے، قال پر نہیں لہٰذا ایک مرید شاہ نوراللہ کو قرآنی آیت "ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما با نفسھم" (۵۲)۔ کی روشنی میں ترغیب دیتے ہوئے، آپ تحریر فرماتے ہیں، "ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کے قلم کی زبان آپ کے دل کی زبان کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ ہے، ہونا یہ چاہئے تھا کہ آپ کے دل کی زبان آپ کے قلم کی زبان سے زیادہ فصیح و بلیغ ہو، لہٰذا اس صفت میں کوشش کیجئے (۵۳)۔ تصوف سے مقصود حظیرۃ القدس سے تعلق قائم کرنا ہے، یہ سعادت عظیمہ ہے، شاہ صاحب اس سعادت کے بارے میں ایک مرید کی طرف لکھتے ہیں:
"سعید انسان کی علامت اور ملاءِ اعلٰی سے لاحق ہونے والے عارف کی یہ نشانی ہے، کہ ہمشیہ اس کے قلب میں ایک حرارت اور انجذاب پایا جائے، جس کے ذریعے وہ تمام تعلقات دنیویہ و اخرویہ کو دفع کردے، شاہ صاحب لکھتے ہیں، ہم اور آپ کو مناسب یہ ہے کہ جب تک نطقئہ لا ھوت تک نہ پہنچے، اس وقت تک مسافر کی صورت میں رہے (۵۴)۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ انسان جب احکام اور صوفیانہ اعمال کو بجا لاتا ہے تو ظاہری اعمال باطنی کیفیات پر کیسے مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں، باالفاظ دیگر شریعت جو فقئہ ظاہر کی بجا آوری باطنی کیفیات و اخلاق کو کیسے جنم دیتی ہے؟ یہ بحث تصوف میں شاہ صاحب کی نظر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، یہی شاہ صاحب کی نظر میں تصوف کی تعریف بھی ہے، شریعت انسان کے باطن پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟ بالفاظ دیگر شریعت و طریقت سے ہم آہنگی کی کیا توجیہہ ہے؟ نیز اعمال اور احکامِ الٰہی کے نتیجہ میں ایک متوازن شخصیت کیسے تشکیل پاتی ہے؟ شاہ صاحب کی نظر میں اس معمہ کا تفصیلی حل کچھ یوں ہے: شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف:
خود ہمارے ممدوح شاہ صاحب کی نظر میں تصوف کیا ہے؟ تلاش بسیار کے بعد امام الہند سے تصوف سے متعلق جو تعریف ملی وہ گو تصوف کی باضابطہ تعریف تو نہیں، البتہ اسے تصوف کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاہ صاحب کی بعض تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ تصوف باطنی زندگی میں انہماک اور خارجی علائق سے قطع تعلق کا نام ہے، تاہم شاہ صاحب کی مدنیت پسند طبیعت اس تعریف سے اباء کرتی ہے، لہذا انی کتاب "البدورالبازغہ" میں لکھتے ہیں۔
"ھذا لصنف قانون فی معرفتہ الانسان لربہ والمجازاۃ المتربتاۃ علی اعمالہ" (۵۵)۔
یعنی یہ وہ طریقہ و قانون کی صنف ہے، جس کی مدد سے انسان اپنے رب تعالٰی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور انسان کے اعمال پر مرتب ہونے والے مجازات اور نتائج ہیں۔
شاہ صاحب تصوف کے مقامات و احوال سے متعلق جو بحث کرتے ہیں، وہی تصوف کے ثمرات و نتائج ہیں۔ لہٰذا لطیفہ عقل کی بنیاد پر سالک کو جو احوال و مقامات پیش آتے ہیں وہ، توحید، اخلاص، توکل، شکر، اُنس، ہیبت، تفرید، صدیقیت، محدثیت کی شکل میں ہیں، (ان میں سے ہر ایک کی تفصیل لطائف ستہ اور اُن کے ثمرات و نتائج کے ذیٰل میں آئے گی۔
ایک مرید محمد قطب رھتگی کے نام آپ تحریر کرتے ہیں۔ تصوف خدا سے قرب ہے، یہ الٰہی احکامات کی پیروی کے نتیجہ میں روحانی کیفیات کا نام ہے، اس کی حقیقت ہمارے ہاں ہوش دردم، نظر برقدم، سفر دروطن، خلوت در انجمن، با زگشت، یادداشت، نگاہ داشت ہے۔ (۵۶)
شاہ صاحب حجتہ اللہ البالغہ میں احسان و سلوک کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں "النظر الی الاعمان (ای العبادات) من حیث ایصالھا الی ھیئات نفسانیہ" (۵۷)
(ترجمہ) یعنی احسان و سلوک اعمال سے اس حیثیت سے بحث کرنے کا نام ہے کہ وہ کیفیات نفسانیہ یعنی اخلاق و ملکات تک کس طرح مفضی ہوتی ہیں۔
دراصل شاہ صاحب نے احسان و سلوک کو قدرے وسیع معنوں میں لیا ہے، ان کے ہاں شریعت و طریقت میں کلی طور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے، شاہ صاحب کی مذکورہ تعریف و طریقت دونوں کی ہم آہنگی واقعی تصویر و توجیہ کیا ہے؟ اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ جب انسان اپنے اختیار وارادے سے کوئی اچھا یا برا کام کرتا ہے، تو وہ عمل وجود میں آکر ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ اس کے انسانی نفس کے ساتھ وابستگی ہوتی ہے، اور دل اس سے اثر پذیر ہوجاتا ہے، یہی کیفیت نفسانیہ ہے، جب تک یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے، تو یہ حال کہلاتی ہے اور جب وہ راسخ ہو جاتی ہے، تو وہ "ملکہ" کہلاتی ہے، تمام اخلاق حسنہ اور سیئہ اس طرح پیدا ہوتے ہیں اور اسی طرح "ملکات" بنتے ہیں۔
صورت حال یہ ہے، کہ اعمال و ہیات نفسانیہ میں ربط و ارتباط ہے، اعمال ہیئات نفسانیہ کو کمک پہنچاتے ہیں اور وہی ہیئات نفسانیہ کی تشریح و ترجمانی بھی کرتے ہیں، کیونکہ اعمال اُن اندرونی کیفیات کے پیکر اور صورتیں (بزبان ولی اللہ اشباح و تماثیل) ہیں اور آخرت میں جزاء و سزا اعمال پر ہوگی، مگر حقیقت میں مفید یا مضر یہ ملکات حسنہ یا سئیہ دونوں ہونگے۔
یہ طے ہے کہ شارع نے اصلاتہ و بالذات لوگوں کو اعمال ہی کا مکلف بنایا ہے، خواہ اعمال ایجابی ہوں یا سلبی، مگر معلقب یعنی ملکات سے قطع نظر کرتے ہوئے، مکلف نہیں بنایا بلکہ اس حیثیت سے مکلف بنایا ہے کہ وہ اچھے ملکات کی تحصیل کی سعی کریں اور بُرے ملکات سے اجتناب برتیں، اعمالِ انسانی اور ہیئات نفسانیہ کے باہمی تعلق کے بارے میں مزید تفصیل یہ ہے: ۱۔ اعمال انسانی کی پہلی حیثیت سے بحث:
اعمال کو عام لوگوں پر لازم کرنے کے جہت سے ہے۔ اس سلسلے میں جامع امریہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کون سے اعمال کن ملکات کے مظنات (اجتمالی جگہ ہیں) یعنی کن اعمال سے اچھے یا بُرے ملکات پیدا کرسکتے ہیں، پھر ان اعمال کا بھی ترتیب سے حکم دیا جائے، یا اُن سے روکا جائے اور اس معاملہ میں ایسا واضح طریقہ اخیتار کیا جائے، جس کا کوئی پہلو پوشیدہ نہ ہو، تاکہ بر ملا لوگوں کی داروگیر کی جاسکے اور کوئی شخص بہانہ جوئی کرکے کھسک جانے پرقادر نہ ہو، اعمال میں انضباط ہو اور میانہ روی سے کام لینا بھی اس سلسلے میں ضروری ہے، غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مثلاً نفس کو پاکیزہ بنانے کی موزوں صورت وضو و غسل ہے، چنانچہ حدث اصغر و اکبر میں یہ طہارتیں لازم کی گئیں اور ان کی جملہ تفصیلات منضبط کی گئیں اور مجبوری میں متبادل صورتیں بھی تجویز کی گئیں ہیں، ایسے ہی زکواۃ دینے سے صفت سماحت کی کیفیت پیدا کرنا مطلوب ہے۔ ۲۔ اعمال انسانی کی دوسری حیثیت سے بحث:
اعمال انسانی کی دوسری حیثیت سے بحث کا تعلق لوگوں کے نفوس کو سنوارنے اور اعمال کی مطلوبہ ہیئات تک پہنچانے کی جہت سے ہے، یعنی اس بات پر غور کیا جائے کہ کن اعمال سے لوگوں کے نفوس کی تطہیر کی جاسکتی ہے؟ اور کن امور سے اُنکے نفوس بگڑتے ہیں؟ اور وہ اعمال کس طرح مطلوبہ ملکات تک پہنچاتے ہیں؟ جامع بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ دو چیزوں کی معرفت ضروری ہے، ایک کیفیت نفسانیہ اور دوسری عمل کی جہتِ ایصال کی معرفت، مثلاً اخبات ملکہ ہے، اس کو نماز وغیرہ کے ذریعے بدست لایا جاسکتا ہے، اس طرح اخبات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی معرفت بھی ضروری ہے اور نماز، اذکار، تلاوت وغیرہ آدمی میں اخبات کی صفت کس طرح پیدا کرتی ہیں؟ اس کی معرفت بھی ضروری ہے۔ یعنی یہ سجھنا کہ اعمال بمنزل اسبات و آلات (Tools) کے ہیں، ان سے مقصود نفس کا علاج اور دیکھ بھال ہے، جس طرح طبیت مریض کا علاج کرتا ہے اور اُس کے احوال کو سنوارتا ہے، اس طرح سالک بھی اعمال کے ذریعے اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے اور جس شخص کو آلات و اسباب کی کماحقہ معرفت حاصل نہیں ہوتی، وہ کبھی آلات کو اندھا دھند استعمال کرنے لگتا ہے، تو وہ نفع کی بجائے نقصان بھی اُٹھاسکتا ہے۔ معرفت کی اساس و جدان پر ہے، چونکہ نبی کریم اور آپ کے جانشین اپنے ذوق و وجدان سے یہ دونوں باتیں جانتے تھے، لہٰذا آپ کے بعد اس معاملے کو صاحبِ امر کے حوالے سپرد کرنا ضروری ہے، غرض اعمال کی پہلی حیثیت سے بحث کرنے کا نام شریعت ہے اور دوسری حیثیت سے بحث کا نام احسان و سلوک یا تصوف ہے، اس تعبیر کی روشنی میں شریعت و طریقت میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا، فرق اگر ہے تو صرف حیثیات و جہات کا ہے۔
لہٰذا شاہ صاحب کی نظر میں تصوف کا مقصد انسان کے ملکات کو بیدار کرنا ہے، یہ اعمال کی روح ہے، واضح ہو کہ شاہ صاحب کے ہاں تصوف سے چار بنیادی اخلاق و ملکات کو پیدا کرنا مقصود ہے، یہ چار اخلاق و ملکات اور ان کے اضداد درج ذیل ہیں، یہ اصل الاخلاق ہیں یعنی:
۱۔ طہارت اسکی ضد حدث ۲۔ اخبات اسکی ضد استکبار ۳۔ سماحت اسکی ضد خود غرضی
۴۔ عدالت اسکی ضد ظلم
وہ اخلاق جو ان اصل الاخلاق پر متفرع ہیں، وہ اپنے متقابلات سمیت کئی ہیں (۵۸)
شاہ صاحب کی بنیاد اس امر پر رکھتے ہیں کہ انسان کی حقیقی مسرت خدا سے قربت اور شعوریت میں ہے، اس کے جوہر اور مخصوص فطرت کی ترقی، اس کے خالق کی شعوریت کے دائرہ عمل میں اس طرح ہے کہ اس کی ترقی اور کاملیت میں مدد دینا چاہئے، اسی قسم کی شعوریت کی ایک فطری خصوصیت انکساری کی روحانی حالتوں الاخبات، التذلل، اور خدا کے لئے عبادت کا رجحان ہے، شعورِ ذات خدا اور انکساری کی حالتیں اور عبادت کا رجحان دین کی اس حقیقت سے آگاہی اور اعتراف کی فطری پیداوار ہیں کہ کائنات اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے، اور تمام انسان اللہ تعالٰی کے بندے ہیں۔
شاہ صاحب کا لکھنا ہے کہ جب انسان ترقی کرتا ہے اور خدا کا قرب حاصل کرتا ہے، تو اُسے خدا اعلٰی تر عقل اور چشمِ باطن عطا فرماتا ہے، جس سے وہ اللہ کی صفات کے اعلٰی تر تصور کا حامل ہو جاتا ہے، اللہ کی حقیقتِ قرب کا تصور زیادہ سے زیادہ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اگر ایک شخص شاہ ولی اللہ کے مقرر کردہ خطوط کے ذریعہ معرفت حاصل کرنے کی سعی کرے، تو وہ بہت جلد تصوف کی معراج کو پاسکتا ہے، شاہ صاحب چونکہ انسان کو مکلف و مسول قرار دیتے ہیں اور انسان کی مسولیت کا بڑا باعث خارجی تعلیمات، انبیاء علیہم السلام کی بعثت، نزول کتب کے علاوہ انسان کے اندر خود انسانی عقل اور لطائف کا وجود قرار دیتے ہیں، یہ تینوں امور مل کر انسان کی مسولیت کا باعث بنتے ہیں، اس طور پر شریعت و طریقت انسان کے اُوپر سے کوئی مسلط شدہ خارجی عنصر نہیں، بلکہ یہ انسان کی فطرت کی آواز ہے، بندے کا خالق کے ساتھ لطیف رشتہ جبر کا نہیں، بکہ رحمت ورافت کا ہے، ایک مومن کو جب معرفتِ الٰہی نصیب ہوجاتی ہے، تو وہ اپنے رب کی طرف اس طرح کھینچا چلا جاتا ہے، جس طرح مقناطیس کی قوت کی طرف لوہا کھین کر چلتا رہتا ہے، تصوف کی بدولت انسان کے مضطرب (بے قرار) نفس کو قرار مل جاتا ہے، اس طرح گویا شاہ صاحب نے تصوف نفس انسانی کا ذات باری تعالٰی کے ساتھ تعلقات اور مانوس ہونے کے عمل کو شعور ذات الٰہی کی طرح ایک عقلی مسئلہ کے رنگ میں پیش کیا، وہ تصوف کی تفہیم سے متعلق اس حوالہ سے نباتات، حیوانات کے اندر تکمیل ضروریات یا احساس تحفظ کے فطری عمل سے بھی استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس طرح پودے کا سورج کی طرف جھکنا، ایک حیوان مثلاً کُتے کا خوف کی حالت میں اپنے مالک کے سامنے جھکنا، یہ تمام ایسے مظاہرین ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کے اندر اپنے اصل کی طرف رجوع کا مادہ رکھا گیا ہے، شاہ صاحب اسی نفسی و باطنی میلا ن کا نام تصوف رکھتے ہیں اور انسان کا اپنی اصل الاصول کی طرف فطری تعلق کا نام تصوف ہے اور اس ذات سے انقطاع فطرت سے اغماض ہے، جو بہمیت اور سبعیت پر منتج کرتا ہے۔ چونکہ انسان کی شخصیت کی تشکیل میں نفس اور روح دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے، روح لطیف ہے، نفس کثیف ہے، روح مجرد اور دائمی ہے، تاہم یہ انسانی "نسمہ" پر مسلط اور سوار کیا گیا ہے۔ لہٰذا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جسمانی آلائش و کدورات کی وجہ سے یہ اپنے حقیقی تعلق سے عاری ہوجاتا ہے اور فطری میلان متاثر ہوجاتا ہے، لہٰذا روح کا خالق مطلق سے تعلق بحال کرنے کے لئے اس کی تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔
روح کی تربیت انسان کی باطنی تربیت سے ممکن ہے، اس حوالہ سے انسان کے لطائف کے باطن اور بطن الباطن کا مطالعہ شاہ ولی اللہ کی نظر میں ناگزیر ہے، جدید نفسیاتی علوم و فنون نے اس حوالہ سے نکارت کے مواقع یکسر ختم کردیے ہیں، تاہم امام الہند کا اپنے عہد میں انسانی لطائف خصوصاً لطیفہ عقل، لطیفہ قلب اور لطیفہ نفس کے احوال وہ مقامات پر بالغ نظری سے بحث کرنا خود ان کی عبقریت کی بڑی دلیل ہے، لطائف کی تحریک سے متعلق تفصیلی بحث آئندہ موقع پرپیش کی جائے گی (ان شاء اللہ) بالا بحث کے نتائج درج ذیل ہیں: نتائج بحث:
دیا ہے، انہوں نے بطور خاص جن اذکار کی ترغیب دی ہے، وہ درج ذیل ہیں۔
شاہ صاحب ایک مکتوب میں محمد عاشق پھلتی جو شاہ صاحب کا قریبی مرید تھا، لکھتے ہیں۔
- ہمیشہ اللہ تعالٰی کی کبریائی کو ذہن میں رکھیں، تمام وظائف جو ہمارے ہاں پسندیدہ ہیں، تین ہیں جیسا کہ ارشاد ہے، مدد طلب کرو صبح و شام اللہ کے ذکر سے اور کچھ رات کے آخری حصہ میں۔ لہٰذا جب رات کی تہجد کے لئے اُٹھیں، تو مع وتر سات، یا نو یا گیارہ رکعت نماز پڑھے، تہجد کی نماز میں سورۃ یٰسین یا سورۃ واقعہ یا سورۃ یوسف پڑھیں، نماز کے بعد ماثور دعاووں میں سے کوئی دعا پڑھیں، کتاب حصن حصین کی فصل "الدعا" کا بغرض معرفت مطالعہ کیا کریں، یہ رات کی آخری گھڑی کا علم ہے۔
- نماز فجر کے بعد سو بار کلمہ لا الہ اللہ، سو بار سبحان اللہ اور الحمد للہ پڑھ لیا کریں۔
- اس کے بعد آفتاب کے بلند ہونے تک بتعلق قلب حق تعالٰی سبحانہ کے ساتھ مشغول رہیں، پھر دو رکعت نماز اِشراق پڑھیں اور آفتاب کے گرم ہونے تک چار رکعت نماز چاشت ادا کرلیا کریں۔(۶)
یہ پچاس رکعتیں کچھ اس طرح بنتی ہیں، فرض رکعت : ۱۷، سنت موکدہ: ۱۲، تہجد کی نماز بشمول وتر: ۱۱، نماز اشراق: ۲، صلواۃ الضحٰی (چاشت): ۴، نماز زوال چار رکعات، یہ کل پچاس رکعتیں ہوئیں۔
عشاء کی نماز کے بعد سو بار لا الہ الا اللہ خفی سے کچھ اُوپر اور جہر سے کم آواز (بہ آواز اعتدال پڑھے)، بعدہ سورۃ الملک پڑھے، اس کے بعد بستر پر جائے اور معوذ تین پڑھ کر سنت طریقے پر محوِ استراحت ہو، (۴۸) سالک اگر اللہ کے علاوہ لو لگائے، تو یہ بھی تصوف میں ایک شرک ہے، چنانچہ قطب رھتگی کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوا وہ مذکورہ مرید کی بیماری اور اس حوالے سے جو علاج تجویز کرتے ہیں، وہ سالک کا پورا دستور العمل ہے، شاہ صاحب لکھتے ہیں، اگر محبوب کے علاوہ کوئی اور نصب العین ہو، تو یہ عشق نہیں ہے، ایک سودائے بے ہودہ ہے، چونکہ مخاطب کی طبیعت میں طلب جاہ حب دنیا پائی ہے، اس لئے آپ نے توبہ کی ترغیب دی اور سات نکات پر مشتمل دستور العمل تجویز فرمایا، وہ سات اعمال یہ ہیں۔
موت کو ہمیشہ یاد رکھنا۔صبح صادق سے دو گھڑی قبل نماز تہجد میں مشغول رہنا، نیزمحبت حق تعالٰی سبحانہ رہنے پر ارتکاز ہو۔صبح سے چار گھڑی تک خلوت کرنا۔ دل میں وسوس و خطرات سے بچتے رہنا، آزردہ سونے کے وقت قرآن کریم کی چند سرتیں پڑھ کر سونا۔
خاطر نہ ہوناجاہ سے بچنے کے لئے دنیاوی مجالس،بے ہودہ اور فضول گوئی سے خود کو بچانا۔وزیبائش سے گریز کرنا۔ سالک سے غلطی سرزد ہونے کی صورت میں شاہ صاحب مذکورہ مرید کو جس عمل کے اختیار کرنے کی تاکید کرتے ہیں، وہ ایک اُصول کے درجے میں ہے۔
جس وقت خوف دل پر غلبہ کرلیں اور کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو خوف کے عوض و مقابلے میں اعمال خیر میں سے کوئی نہ کوئی عمل مثلاً، ذکر خفی یا ذکر جلی، تدّبر کے طور پر کلام مجید یا مطالعئہ حدیث یا کوئی علم خیر اختیار کیا کریں اور اپنے کئے ہوئے گناہ پر نادم ہوں، یہ اعمال دخول جنت کے لئے بھی کافی ہیں۔(۴۹)
محمد عاشق پھلتی کو ایک طرح حزن و قلق درپیش آیا، پھلتی نے شیخ (شاہ ولی اللہ) کی طرف خط لکھا، شاہ صاحب نے اس کا جواب یوں دیا۔
اس مکتوب میں ایک طرح کا حُزن و قلق آپ نے تحریر کیا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ ایک دو مہینوں کے لئے یہاں دہلی تشریف لائیں، یہ فقیر بھی ملاقات کا مشتاق ہے، شکایت رفع ہوجائیگی، جب تک ملاقات نہ ہو، اُس وقت تک چند شب متواتر غسل یا تازہ وضو کرکے نماز نوافل ادا کرتے رہنا، نماز کے بعد پوری شد و تفہیم کے ساتھ "اللہ اللہ" ایک ہزار بارپڑھیں، اس پڑھنے میں پیش نظر وہ نور ہو جو بالائے عرش قائم ہے یعنی "الرحمن علی العرش استوی" اس بالا عبارت سے مرید کا شیخ سے تعلق کی نوعیت و ضرورت واضح ہے، رنج و قلق سے متعلق شاہ صاحب کا مجوزہ وظیفہ قابل عمل اور موثر ہے۔
شاہ صاحب سالک کو وظیفے کے طور پر لکھتے ہیں، کہ سالک کو یہ وطیرہ اپنانا چاہیے، ہوش دردم، نظر برقدم، سفر دروطن، خلوت درانجمن، یاد کر دوبازگشت، یاداشت و نگاہ داشت،(۵۰)۔
کلمہ توحید کی تکرار و اہمیت ہر سلسلہ سے وابستہ شیخ مریدوں کو تلقین کرتے ہیں، مگر شاہ صاحب کلمہ طیبہ کی تاثیرات اور اہمیت و افادیت جس شان سے بیان کرتے ہیں، وہ یقیناً فکر انگیز ہے، بابا عثمان کشمیری کو آپ ارشاد و تلقین کے ضمن میں لکھتے ہیں۔
کلمہ طیبہ کی تکرار اس طرح سے ہو کہ محبوب حقیقی کے غیر سے محبت کی نفی کا ادعا ہو اور یہ عمل الحاج و تضرع کے طریقے پر ہو، چونکہ یہ صورت تاثیر میں اسم اعظم کا حکم رکھتی ہے، کلمہ طیبہ کی تکرار اوقات خلوت میں جمع حواس کے ساتھ ہو اور اوقات خلوت میں حدیث نفس کے مانند ہو، یہاں تک کہ تکرار کلمہ میں استعابِ اوقات محقق ہو جائے، یعنی پورا وقت اسی تکرار میں گھیر جائے، (۵۱)۔
چونکہ تصوف عمل اور حال پر یقین رکھتا ہے، قال پر نہیں لہٰذا ایک مرید شاہ نوراللہ کو قرآنی آیت "ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما با نفسھم" (۵۲)۔ کی روشنی میں ترغیب دیتے ہوئے، آپ تحریر فرماتے ہیں، "ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کے قلم کی زبان آپ کے دل کی زبان کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ ہے، ہونا یہ چاہئے تھا کہ آپ کے دل کی زبان آپ کے قلم کی زبان سے زیادہ فصیح و بلیغ ہو، لہٰذا اس صفت میں کوشش کیجئے (۵۳)۔ تصوف سے مقصود حظیرۃ القدس سے تعلق قائم کرنا ہے، یہ سعادت عظیمہ ہے، شاہ صاحب اس سعادت کے بارے میں ایک مرید کی طرف لکھتے ہیں:
"سعید انسان کی علامت اور ملاءِ اعلٰی سے لاحق ہونے والے عارف کی یہ نشانی ہے، کہ ہمشیہ اس کے قلب میں ایک حرارت اور انجذاب پایا جائے، جس کے ذریعے وہ تمام تعلقات دنیویہ و اخرویہ کو دفع کردے، شاہ صاحب لکھتے ہیں، ہم اور آپ کو مناسب یہ ہے کہ جب تک نطقئہ لا ھوت تک نہ پہنچے، اس وقت تک مسافر کی صورت میں رہے (۵۴)۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ انسان جب احکام اور صوفیانہ اعمال کو بجا لاتا ہے تو ظاہری اعمال باطنی کیفیات پر کیسے مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں، باالفاظ دیگر شریعت جو فقئہ ظاہر کی بجا آوری باطنی کیفیات و اخلاق کو کیسے جنم دیتی ہے؟ یہ بحث تصوف میں شاہ صاحب کی نظر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، یہی شاہ صاحب کی نظر میں تصوف کی تعریف بھی ہے، شریعت انسان کے باطن پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟ بالفاظ دیگر شریعت و طریقت سے ہم آہنگی کی کیا توجیہہ ہے؟ نیز اعمال اور احکامِ الٰہی کے نتیجہ میں ایک متوازن شخصیت کیسے تشکیل پاتی ہے؟ شاہ صاحب کی نظر میں اس معمہ کا تفصیلی حل کچھ یوں ہے: شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف:
خود ہمارے ممدوح شاہ صاحب کی نظر میں تصوف کیا ہے؟ تلاش بسیار کے بعد امام الہند سے تصوف سے متعلق جو تعریف ملی وہ گو تصوف کی باضابطہ تعریف تو نہیں، البتہ اسے تصوف کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاہ صاحب کی بعض تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ تصوف باطنی زندگی میں انہماک اور خارجی علائق سے قطع تعلق کا نام ہے، تاہم شاہ صاحب کی مدنیت پسند طبیعت اس تعریف سے اباء کرتی ہے، لہذا انی کتاب "البدورالبازغہ" میں لکھتے ہیں۔
"ھذا لصنف قانون فی معرفتہ الانسان لربہ والمجازاۃ المتربتاۃ علی اعمالہ" (۵۵)۔
یعنی یہ وہ طریقہ و قانون کی صنف ہے، جس کی مدد سے انسان اپنے رب تعالٰی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور انسان کے اعمال پر مرتب ہونے والے مجازات اور نتائج ہیں۔
شاہ صاحب تصوف کے مقامات و احوال سے متعلق جو بحث کرتے ہیں، وہی تصوف کے ثمرات و نتائج ہیں۔ لہٰذا لطیفہ عقل کی بنیاد پر سالک کو جو احوال و مقامات پیش آتے ہیں وہ، توحید، اخلاص، توکل، شکر، اُنس، ہیبت، تفرید، صدیقیت، محدثیت کی شکل میں ہیں، (ان میں سے ہر ایک کی تفصیل لطائف ستہ اور اُن کے ثمرات و نتائج کے ذیٰل میں آئے گی۔
ایک مرید محمد قطب رھتگی کے نام آپ تحریر کرتے ہیں۔ تصوف خدا سے قرب ہے، یہ الٰہی احکامات کی پیروی کے نتیجہ میں روحانی کیفیات کا نام ہے، اس کی حقیقت ہمارے ہاں ہوش دردم، نظر برقدم، سفر دروطن، خلوت در انجمن، با زگشت، یادداشت، نگاہ داشت ہے۔ (۵۶)
شاہ صاحب حجتہ اللہ البالغہ میں احسان و سلوک کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں "النظر الی الاعمان (ای العبادات) من حیث ایصالھا الی ھیئات نفسانیہ" (۵۷)
(ترجمہ) یعنی احسان و سلوک اعمال سے اس حیثیت سے بحث کرنے کا نام ہے کہ وہ کیفیات نفسانیہ یعنی اخلاق و ملکات تک کس طرح مفضی ہوتی ہیں۔
دراصل شاہ صاحب نے احسان و سلوک کو قدرے وسیع معنوں میں لیا ہے، ان کے ہاں شریعت و طریقت میں کلی طور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے، شاہ صاحب کی مذکورہ تعریف و طریقت دونوں کی ہم آہنگی واقعی تصویر و توجیہ کیا ہے؟ اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ جب انسان اپنے اختیار وارادے سے کوئی اچھا یا برا کام کرتا ہے، تو وہ عمل وجود میں آکر ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ اس کے انسانی نفس کے ساتھ وابستگی ہوتی ہے، اور دل اس سے اثر پذیر ہوجاتا ہے، یہی کیفیت نفسانیہ ہے، جب تک یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے، تو یہ حال کہلاتی ہے اور جب وہ راسخ ہو جاتی ہے، تو وہ "ملکہ" کہلاتی ہے، تمام اخلاق حسنہ اور سیئہ اس طرح پیدا ہوتے ہیں اور اسی طرح "ملکات" بنتے ہیں۔
صورت حال یہ ہے، کہ اعمال و ہیات نفسانیہ میں ربط و ارتباط ہے، اعمال ہیئات نفسانیہ کو کمک پہنچاتے ہیں اور وہی ہیئات نفسانیہ کی تشریح و ترجمانی بھی کرتے ہیں، کیونکہ اعمال اُن اندرونی کیفیات کے پیکر اور صورتیں (بزبان ولی اللہ اشباح و تماثیل) ہیں اور آخرت میں جزاء و سزا اعمال پر ہوگی، مگر حقیقت میں مفید یا مضر یہ ملکات حسنہ یا سئیہ دونوں ہونگے۔
یہ طے ہے کہ شارع نے اصلاتہ و بالذات لوگوں کو اعمال ہی کا مکلف بنایا ہے، خواہ اعمال ایجابی ہوں یا سلبی، مگر معلقب یعنی ملکات سے قطع نظر کرتے ہوئے، مکلف نہیں بنایا بلکہ اس حیثیت سے مکلف بنایا ہے کہ وہ اچھے ملکات کی تحصیل کی سعی کریں اور بُرے ملکات سے اجتناب برتیں، اعمالِ انسانی اور ہیئات نفسانیہ کے باہمی تعلق کے بارے میں مزید تفصیل یہ ہے: ۱۔ اعمال انسانی کی پہلی حیثیت سے بحث:
اعمال کو عام لوگوں پر لازم کرنے کے جہت سے ہے۔ اس سلسلے میں جامع امریہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کون سے اعمال کن ملکات کے مظنات (اجتمالی جگہ ہیں) یعنی کن اعمال سے اچھے یا بُرے ملکات پیدا کرسکتے ہیں، پھر ان اعمال کا بھی ترتیب سے حکم دیا جائے، یا اُن سے روکا جائے اور اس معاملہ میں ایسا واضح طریقہ اخیتار کیا جائے، جس کا کوئی پہلو پوشیدہ نہ ہو، تاکہ بر ملا لوگوں کی داروگیر کی جاسکے اور کوئی شخص بہانہ جوئی کرکے کھسک جانے پرقادر نہ ہو، اعمال میں انضباط ہو اور میانہ روی سے کام لینا بھی اس سلسلے میں ضروری ہے، غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مثلاً نفس کو پاکیزہ بنانے کی موزوں صورت وضو و غسل ہے، چنانچہ حدث اصغر و اکبر میں یہ طہارتیں لازم کی گئیں اور ان کی جملہ تفصیلات منضبط کی گئیں اور مجبوری میں متبادل صورتیں بھی تجویز کی گئیں ہیں، ایسے ہی زکواۃ دینے سے صفت سماحت کی کیفیت پیدا کرنا مطلوب ہے۔ ۲۔ اعمال انسانی کی دوسری حیثیت سے بحث:
اعمال انسانی کی دوسری حیثیت سے بحث کا تعلق لوگوں کے نفوس کو سنوارنے اور اعمال کی مطلوبہ ہیئات تک پہنچانے کی جہت سے ہے، یعنی اس بات پر غور کیا جائے کہ کن اعمال سے لوگوں کے نفوس کی تطہیر کی جاسکتی ہے؟ اور کن امور سے اُنکے نفوس بگڑتے ہیں؟ اور وہ اعمال کس طرح مطلوبہ ملکات تک پہنچاتے ہیں؟ جامع بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ دو چیزوں کی معرفت ضروری ہے، ایک کیفیت نفسانیہ اور دوسری عمل کی جہتِ ایصال کی معرفت، مثلاً اخبات ملکہ ہے، اس کو نماز وغیرہ کے ذریعے بدست لایا جاسکتا ہے، اس طرح اخبات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی معرفت بھی ضروری ہے اور نماز، اذکار، تلاوت وغیرہ آدمی میں اخبات کی صفت کس طرح پیدا کرتی ہیں؟ اس کی معرفت بھی ضروری ہے۔ یعنی یہ سجھنا کہ اعمال بمنزل اسبات و آلات (Tools) کے ہیں، ان سے مقصود نفس کا علاج اور دیکھ بھال ہے، جس طرح طبیت مریض کا علاج کرتا ہے اور اُس کے احوال کو سنوارتا ہے، اس طرح سالک بھی اعمال کے ذریعے اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے اور جس شخص کو آلات و اسباب کی کماحقہ معرفت حاصل نہیں ہوتی، وہ کبھی آلات کو اندھا دھند استعمال کرنے لگتا ہے، تو وہ نفع کی بجائے نقصان بھی اُٹھاسکتا ہے۔ معرفت کی اساس و جدان پر ہے، چونکہ نبی کریم اور آپ کے جانشین اپنے ذوق و وجدان سے یہ دونوں باتیں جانتے تھے، لہٰذا آپ کے بعد اس معاملے کو صاحبِ امر کے حوالے سپرد کرنا ضروری ہے، غرض اعمال کی پہلی حیثیت سے بحث کرنے کا نام شریعت ہے اور دوسری حیثیت سے بحث کا نام احسان و سلوک یا تصوف ہے، اس تعبیر کی روشنی میں شریعت و طریقت میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا، فرق اگر ہے تو صرف حیثیات و جہات کا ہے۔
لہٰذا شاہ صاحب کی نظر میں تصوف کا مقصد انسان کے ملکات کو بیدار کرنا ہے، یہ اعمال کی روح ہے، واضح ہو کہ شاہ صاحب کے ہاں تصوف سے چار بنیادی اخلاق و ملکات کو پیدا کرنا مقصود ہے، یہ چار اخلاق و ملکات اور ان کے اضداد درج ذیل ہیں، یہ اصل الاخلاق ہیں یعنی:
۱۔ طہارت اسکی ضد حدث ۲۔ اخبات اسکی ضد استکبار ۳۔ سماحت اسکی ضد خود غرضی
۴۔ عدالت اسکی ضد ظلم
وہ اخلاق جو ان اصل الاخلاق پر متفرع ہیں، وہ اپنے متقابلات سمیت کئی ہیں (۵۸)
شاہ صاحب کی بنیاد اس امر پر رکھتے ہیں کہ انسان کی حقیقی مسرت خدا سے قربت اور شعوریت میں ہے، اس کے جوہر اور مخصوص فطرت کی ترقی، اس کے خالق کی شعوریت کے دائرہ عمل میں اس طرح ہے کہ اس کی ترقی اور کاملیت میں مدد دینا چاہئے، اسی قسم کی شعوریت کی ایک فطری خصوصیت انکساری کی روحانی حالتوں الاخبات، التذلل، اور خدا کے لئے عبادت کا رجحان ہے، شعورِ ذات خدا اور انکساری کی حالتیں اور عبادت کا رجحان دین کی اس حقیقت سے آگاہی اور اعتراف کی فطری پیداوار ہیں کہ کائنات اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے، اور تمام انسان اللہ تعالٰی کے بندے ہیں۔
شاہ صاحب کا لکھنا ہے کہ جب انسان ترقی کرتا ہے اور خدا کا قرب حاصل کرتا ہے، تو اُسے خدا اعلٰی تر عقل اور چشمِ باطن عطا فرماتا ہے، جس سے وہ اللہ کی صفات کے اعلٰی تر تصور کا حامل ہو جاتا ہے، اللہ کی حقیقتِ قرب کا تصور زیادہ سے زیادہ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اگر ایک شخص شاہ ولی اللہ کے مقرر کردہ خطوط کے ذریعہ معرفت حاصل کرنے کی سعی کرے، تو وہ بہت جلد تصوف کی معراج کو پاسکتا ہے، شاہ صاحب چونکہ انسان کو مکلف و مسول قرار دیتے ہیں اور انسان کی مسولیت کا بڑا باعث خارجی تعلیمات، انبیاء علیہم السلام کی بعثت، نزول کتب کے علاوہ انسان کے اندر خود انسانی عقل اور لطائف کا وجود قرار دیتے ہیں، یہ تینوں امور مل کر انسان کی مسولیت کا باعث بنتے ہیں، اس طور پر شریعت و طریقت انسان کے اُوپر سے کوئی مسلط شدہ خارجی عنصر نہیں، بلکہ یہ انسان کی فطرت کی آواز ہے، بندے کا خالق کے ساتھ لطیف رشتہ جبر کا نہیں، بکہ رحمت ورافت کا ہے، ایک مومن کو جب معرفتِ الٰہی نصیب ہوجاتی ہے، تو وہ اپنے رب کی طرف اس طرح کھینچا چلا جاتا ہے، جس طرح مقناطیس کی قوت کی طرف لوہا کھین کر چلتا رہتا ہے، تصوف کی بدولت انسان کے مضطرب (بے قرار) نفس کو قرار مل جاتا ہے، اس طرح گویا شاہ صاحب نے تصوف نفس انسانی کا ذات باری تعالٰی کے ساتھ تعلقات اور مانوس ہونے کے عمل کو شعور ذات الٰہی کی طرح ایک عقلی مسئلہ کے رنگ میں پیش کیا، وہ تصوف کی تفہیم سے متعلق اس حوالہ سے نباتات، حیوانات کے اندر تکمیل ضروریات یا احساس تحفظ کے فطری عمل سے بھی استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس طرح پودے کا سورج کی طرف جھکنا، ایک حیوان مثلاً کُتے کا خوف کی حالت میں اپنے مالک کے سامنے جھکنا، یہ تمام ایسے مظاہرین ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کے اندر اپنے اصل کی طرف رجوع کا مادہ رکھا گیا ہے، شاہ صاحب اسی نفسی و باطنی میلا ن کا نام تصوف رکھتے ہیں اور انسان کا اپنی اصل الاصول کی طرف فطری تعلق کا نام تصوف ہے اور اس ذات سے انقطاع فطرت سے اغماض ہے، جو بہمیت اور سبعیت پر منتج کرتا ہے۔ چونکہ انسان کی شخصیت کی تشکیل میں نفس اور روح دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے، روح لطیف ہے، نفس کثیف ہے، روح مجرد اور دائمی ہے، تاہم یہ انسانی "نسمہ" پر مسلط اور سوار کیا گیا ہے۔ لہٰذا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جسمانی آلائش و کدورات کی وجہ سے یہ اپنے حقیقی تعلق سے عاری ہوجاتا ہے اور فطری میلان متاثر ہوجاتا ہے، لہٰذا روح کا خالق مطلق سے تعلق بحال کرنے کے لئے اس کی تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔
روح کی تربیت انسان کی باطنی تربیت سے ممکن ہے، اس حوالہ سے انسان کے لطائف کے باطن اور بطن الباطن کا مطالعہ شاہ ولی اللہ کی نظر میں ناگزیر ہے، جدید نفسیاتی علوم و فنون نے اس حوالہ سے نکارت کے مواقع یکسر ختم کردیے ہیں، تاہم امام الہند کا اپنے عہد میں انسانی لطائف خصوصاً لطیفہ عقل، لطیفہ قلب اور لطیفہ نفس کے احوال وہ مقامات پر بالغ نظری سے بحث کرنا خود ان کی عبقریت کی بڑی دلیل ہے، لطائف کی تحریک سے متعلق تفصیلی بحث آئندہ موقع پرپیش کی جائے گی (ان شاء اللہ) بالا بحث کے نتائج درج ذیل ہیں: نتائج بحث:
- تصوف احسان و تزکیہ کی شکل میں عہد نبوی میں موجود تھا، تصوف قرآن و سنت سے ماخوذ علم ہے۔
- تصوف کا ایک مقصد لطائف و خودی کو بیدار کرنا بھی ہے، یہ اعمال کی روح ہے۔
- مسلمان جس طرح ظاہری شریعت کے مکلف ہیں، اسی طرح باطنی تجلیہ و تصفیہ موجب اعتناء امر رہا ہے، آنحضرت کے عہد میں یہ مقصد آپ کی صحبت عالی سے حاصل ہو جاتا تھا، بعد میں یہ علم علمِ کلام و اصول فقہ کی طرح منضبط ہوا اور باقاعدہ خطوط پر استوار ہوا۔
- علمِ تصوف ایک وجدانی مسئلہ ہے، اس لئے اہل فن کا اس حوالہ سے مختلف فیہ ہونا ایک فطری بات ہے۔
- شاہ ولی اللہ کے ہاں چار ادوارِ تصوف، دورِ ایمان، دورِ نسبت، دورِ جذب اور دورِ فلسفہ وجود ایسے تاریخی موڑ ہیں، جہاں تصوف کو واضح جہتیں ملی ہیں۔
- شاہ صاحب مرشد کا عالمِ قرآن و سنت ہونا، عادل و متقی ہونا، دنیا سے بے نیازی اور آخرت سے رغبت رکھنا، امر باالمعروف ونہی عنِ المنکر کے وظیفہ کو بجالانا اور معاصر عارفین کا صحبت یافتہ ہونا لازمی قرار دیتے ہیں۔
- شاہ صاحب کا مجوزہ نصابِ سلوک شعائر و ارکان اسلام کے احیاء پر مشتمل ہے، وہ ام العبادت (نماز، زکواۃ ، روزہ اور حج) کو بمنزل آلات قرار دے کر ان کی بجا آوری اندرونی نفسی کیفیات پر منتج مانتے ہیں، لہٰذا ان کے ہاں شریعت طریقت میں ظاہر و باطن کا فرق ہے، دونوں دین میں مطلوب ہیں۔
- شریعت و طریقت دونوں انسان کےفطری تقاضے ہیں، شاہ ولی اللہ تصوف کا مقصد چار ام الاخلاق یعنی طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت کے احیاء اور ان کے اضداد سے گلو خلاصی قراردیتے ہیں، یہ کامیاب دنیاوی زندگی اطمینان تر اُخروی زندگی کی کامیابی پر منتج کرتی ہے اور پُر اسرار انسان کی عظمت کی توجیہ ہے۔
- حوالہ جات و حواشی
۱۔ نظامی خلیق احمد "شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات" ادارہ اسلامیات لاہور، ۱۹۷۶، ص، مقدمہ۔
۲۔ شریف بقاء "اقبال اور تصوف" جنگ پبلشرز لندن، ۱۹۹۴ء، صفحات ۲۰۰۔۲۰۸۔ علامہ تصوف کو لکھنے پڑھنے کی چیز نہیں بلکہ عمل کرنے کی چیز بتلاتے ہیں۔ اسلام کو فطرت کے طور پر (Realize) کرنے کا نام وہ تصوف رکھتے ہیں، وہ تصوف کو خدا شناسی کا ذریعہ عقل و خرد نہیں بلکہ عشق قرار دیتے ہیں۔
۳۔ دھلوی "حجتہ اللہ البالغتہ" فاران اکیڈمی اردو بازار لاہور، س ن، ج ا، ص ۳۸ (مبحث الاحسان)۔
۴۔ "المنجد فی اللغلہ تحت مادہ ص، و، ف۔
۵۔ شیخ ابی محمد جعفر بن احمد بن الحسین السراج م ۵۰۰ھ، "مصارع العشاق" الطبعتہ الخامسہ، منشورات محمد علی بیضوت بیروت، ۱۹۹۸ھ، الجز، الثانی، ص ۱۳۔
۶۔ ھجویری، شیخ ابوالحسن علی، م ۴۴۶ھ "کشف المحجوب" ضیاء القران پبلیشرز، لاہور، ص ۲۳۔
۷۔ ایضاً۔
۸۔ بحوالہ عطار شیخ فریدالدین م ۶۲۰ھ، "تذکرۃ الاولیا" مطبوعہ بمبئی ادارۃ الاشاعت ۱۳۲۵ھ ص، ۲۸۔
۹۔ بحوالہ السلمی ابو عبدالرحمٰن محمد بن الحسین ۴۱۲ھ "طبقات الصوفیہ" منشور بیضوت، دالراکتب العلمیہ، بیروت، طبع ۲۰۰۳ھ، ص، ۲۷۔
۱۰۔ ایضاً۔
۱۱۔ ایضاً۔
۱۲۔ ایضاً۔
۱۳۔ ایضاً۔
۱۴۔ علامہ قشیری، امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن م ۴۶۵ھ "الرسالتہ القشیریہ" دارلکتب العربیہ، مصر، ص، ۲۰۔
۱۵۔ شریف بقاء "اقبال اور تصوف" جنگ پبلشرز لندن، ۱۹۹۴ء، ص ۱۵۰۔
۱۶۔ Dr. Nicholson “The Idea of Personality in Sufism” London, 1970, pp-50-70
۱۷۔ حم السجدہ ۴۱: ۵۳
۱۸۔ البیرونی ابوریحان م ۱۰۴۸ھ "کتاب الھند" مرتبہ ای، سی زخاوء، لندن، ۱۸۸۷۔
۱۹۔ لطفی جمعہ علامہ "تاریخ فلسفہ اسلام" مطبوعہ المعارف، بمصر، ۱۳۴۵ھ ص، ۱۱۔
۲۰۔ سلفی لقمان علی "تفسیر تیسیر البیان القرآن" دارالکتاب والسنہ السفیہ، شش محل لاہور، ص، ۱۶۔
۲۱۔ سورۃ ال عمران ۱۰۲:۳۔
۲۲۔ مولانا اشرف علی "التکشف عن مھمات التصوف"، مطبع قاسمی، دیوبند، ۱۳۲۷ھ، ص ۳۳۔
۲۳۔ جامی عبدالرحمٰن احمد، "نفحات الانس" مقدمہ از مصحح مہدی توحیدی، انتشارات کتاب فروش، قم ایران، س، ن،ص ۵۱۔
۲۴۔ دھلوی: "ھمعات" شاہ ولی الیڈمی حیدر آباد سندھ ص، ۱۶۔
۲۵۔ دھلوی "ازالتہ لخفاعن خلافتِ الخلافتہ" (فارسی) سہیل اکیڈمی لاہور، ۱۹۷۰ھ ص ۸۳۔
۲۶۔ دھلوی: شاہ ولی اللہ "القول الجمیل" مترجم خرم علی بلہوری، دارالاشاعت لاہور، ص ۱۱۴۔
۲۷۔ دھلوی: "ھمعات" شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد سندھ ص، ۱۶، شاہ صاحب ھمعہ: ۲میں لکھتے ہیں، پس احسانِ ایشان آں بود کہ صلوۃ، وصوم و ذکر و تلاوت و حج و جہاد کنند، ہیچ کس ازایشاں ساعتے سربجیب تفکر نمے افگندونسبتِ حضوررا بحیا لہائے بے ملابسہ اذکار و اعمال نصب العین نمے ساخت۔
۲۸۔ دھلوی: "ھمعات" شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد سنھ ص، ۲۰۔
۲۹۔ اقبال علامہ ڈاکٹر ۱۹۳۸ء "تشکیلِ جدید الھیٰات اِسلامیہ"مطبوعہ بزم اقبال کلب روڈ، لاہور، ص ۲۷۹۔
۳۰۔ دھلوی: شاہ ولی اللہ "القول الجمیل" مترجم خرم علی بلہوری، دارالاشاعت لاہور، ص ۲۵۔
۳۱۔ سورۃ الفتح ۱۰:۴۸۔
۳۲۔ استفاضہ سے مراد کسی چیز کا عام ہو جانا ہے اور ہر کسی کا اس امر کو تسلیم کرنا۔
۳۳۔ دہلوی شاہ ولی اللہ "القول الجمیل"، ص ۳۵۔
۳۴۔ سورۃ القمان ۱۵:۳۱۔
۳۵۔ دہلوی، شاہ ولی اللہ "القول الجمیل"، ص ۲۵۔
۳۶۔ دہلوی، شاہ ولی اللہ "القول الجمیل"، ص ۲۵۔
۳۷۔ ایضاً۔
۳۸۔ ایضاً۔
۳۹۔ ایضاً۔
۴۰۔ ایضاً۔
۴۱۔ ایضاً۔
۴۲۔ دھلوی، شاہ ولی اللہ "المقالتہ الوضیتہ النصیحتہ والوصیتہ المعروف بہ وصیت نامہ" مکتبہ مجتبائی دہلی، ص، ۳۔
۴۳۔ ایضاً۔
۴۴۔ ہجویری شیخ ابولحسن علی" کشف المحجوب" ضیاء القرآن پبلیشر، لاہور ۱۰۷۰ء، ص، ۳۰۔
۴۵۔ سورۃ الشورٰی ۱۱:۴۲۔
۴۶۔ امروھوی نسیم احمد: "شاہ ولی اللہ کی نادر مکتوبات" ادارہ ثقافت اسلامیہ، کلب روڈ، لاہور، مکتوب ۶۴، بنام محمد قطب رھتگی، ص ۲۱۰۔
۴۷۔ دھلوی شاہ ولی اللہ "ھمعات" شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد سندھ ھمعہ نمبر ۲۵، ص ۲۵۔
۴۸۔ امروھوی نسیم احمد: "شاہ ولی اللہ کی نادر مکتوبات" مکتوب بنام عاشق پھلتی ص ۱۰۴۔
۴۹۔ مکتوب بنام محمد قطب رھتگی، مکتوب نمبر ۶۴، ص ۲۱۳۔
۵۰۔ مکتوب بنام محمد قطب رھتگی، مکتوب نمبر ۶۷، ص ۲۱۹۔
۵۱۔ خط بنام بابا عثمان کشمیری مکتوب نمبر ۷۲، ص ۵۵۲۔
۵۲۔ سورۃ الرعد ۱۱:۱۳۔
۵۳۔ امروھوی نسیم احمد: "شاہ ولی اللہ کی نادر مکتوبات" خط بنام شاہ نور اللہ مکتوب ہفتم، ص ۱۱۴۔
۵۴۔ مکتوب بنام شاہ نوراللہ ص ۱۵۰۔
۵۵۔ دہلوی، شاہ ولی اللہ "البدورالبارغتہ" مطبوعتہ مجلس علمی ڈاھبیل (سورت) ص۔
۵۶۔ امروھوی نسیم احمد: "شاہ ولی اللہ کی نادر مکتوبات" ادارہ ثقافت اسلامیہ، کلب روڈ، لاہور، مکتوب ۶۷، بنام محمد قطب رھتگی، ص ۱۹۔
۵۷۔ دھلوی شاہ ولی اللہ "حجتہ اللہ البالغتہ" ج ۲، ص ۶۶، (من ابواب الاحسان)۔
۵۸۔ ان چارام الاخلاق یعنی (طہارت، اخبات سماحت اور عدالت) ہیں، پر متفرع دوسرے اخلاق درج ذیل ہیں۔
۱۔ اخلاص وللٰھیت نام و نمود
۲۔ شکر ناشکری
۳۔ صبر جزع فزع
۴۔ قناعت حِرص
۵۔ امانت دار خیانت
۶۔ صدق کذب
۷۔ سخاوت بخل
۸۔ محبت عداوت
۹۔ ایثار خودغرضی
۱۰۔ استغناء طمع
۱۱۔ تواضع و خاکساری غروروتکبر
۱۲۔ ایفائے عہد بد عہدی
۱۳۔ خوش کلامی فحش گوئی
۱۴۔ رحم دلی بے رحمی
۱۵۔ نرم مزاجی درشت خوئی
۱۶۔ عفو درگزر انتقام
۱۷۔ احسان و سلوک بدسلوکی
۱۹۔ توکل اسباب پر تکیہ
۲۰۔ کم سخنی ذُودگوئی
اخلاق سیئہ میں نفرت، بضغ، کینہ، حسد، بدگمانی، چغل خوری، غیبت، بہتان، جلد بازی، بے وقاری، دوروخاپن وغیرہ شامل ہیں
مراجع و مصادر
۱۔ القرآن الحکیم۔
۲۔ اسماعیل شہید مولانا "عبقات" مترجم مولانا مناظر احسن گیلانی، ادارہ اسلامیات لاہور، س، ن۔
۳۔ اقبال علامہ ڈاکٹرم ۱۹۳۸ء "تشکیلِ جدید الھٰیات اِسلامیہ" مطبوعہ بزم اقبال کلب روڈ، لاہور۔
۴۔ امروھوی نسیم احمد: "شاہ ولی اللہ کی نادر مکتوبات" ادارہ ثقافت اسلامیہ، کلب روڈ، لاوہر۔
۵۔ البیرونی ابوریحان م ۱۹۴۸ھ "کتاب الھند" مرتبہ ای، سی زخاوء، لندن، ۱۸۸۷۔
۶۔ پالن پوری سعید احمد "رحمتہ اللہ الواسعہ مبسوطہ شرح حجتہ اللہ البالغتہ" مکمل ۵ جلد، مطبوعہ زم زم پبلشرز کراچی ۲۰۰۴ء۔
۷۔ تھانوی مولانا اشرف علی "التکشف عن مھمات التصوف" مبطع قاسمی دیو بند ۱۳۲۷ء۔
۸۔ جامی عبدالرحمٰن احمد، ۸۹۸ھ، "نفحات الانس" مقدمہ از مصحح مہدی توحیدی، انتشارات کتاب فروش، قم ایران، س، ن۔
۹۔ جلبانی، غلام حسین "شاہ ولی اللہ کی تعلیمات"، دارالکتاب عزیز مارکیٹ اُردو بازار لاہور۔
۱۰۔ دوائرمعارف اسلامی دانش گاہ لاہور۔
۱۱۔ دھلوی شاہ ولی اللہ مولود ۱۱۱۴ھ م ۱۱۷۶ھ "الارشاد الٰی مھمات علم الاسناد" سجاد پبلشرز لاہور پہلا ایڈیشن ۱۹۸۰ء۔
۱۲۔ دھلوی شاہ ولی اللہ مولود ۱۱۱۴ھ م ۱۱۷۶ھ "الارشاد الٰی مھمات علم الاسناد" سجاد پبلشرز لاہور پہلا ایڈیشن ۱۹۸۰ء۔
۱۳۔ " " " "ازالتہ الخفاء عن خلافت الخلفاء" مترجم، مطبوعہ میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی، ۲۰۰۰ء۔
۱۴۔ " " " "الطاف القدس فی معرفہ لطائف النفس" مترجم صوفی عبدالحمید سواتی ادارہ نشر و اشاعت نصرۃ العلوم گوجرانوالہ۔
۱۵۔ " " " "الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ"، مطبوعہ احمدی، دہلی، ۱۱۳۱ھ۔
۱۶۔ " " " "انفاس العارفین" المطبوعہ مجتبائی دہلی ۱۳۳۵ھ مترجم محمد ایوب قادری لاہور۔ ۱۷۔ " " " "البدو رالبازغتہ" طابع مجلسِ علمی ڈاھبیل، ۱۹۵۰ء۔
۱۸۔ " " " "التفھیمات الالٰھیہ" جی، ۱، ۲ محشی، غلام مصطفٰی قاسمی، شاہ ولی اللہ اکیڈمی، حیدر آباد سندھ ۱۹۷۰ء۔
۱۹۔ " " " "حجتہ اللہ البالغتہ" فاران اکیڈمی اُردو بازار، لاہور ۱۹۷۰ء۔
۲۰۔ " " " "سطعات" مترجم ادرہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈ لاہور۔
۲۱۔ " " " "القول الجمیل فی بیان سواء السبیل" عربی متن و مترجم خرم علی بلھوری، دارالاشاعت لاہور ۱۹۸۰ء۔
۲۲۔ " " " "لمحات" شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد سندھ۔
۲۳۔ " " " "المقالتہ الوضیتہ فی النصیحتہ والوصیتہ المعروف بہ وصیت نامہ" مکتبہ مجتبائی دہلی۔
۲۴۔ دھلوی: "ھمعات" شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد سندھ۔
۲۵۔ سلفی لقمان علی "تفسیر تیسیر البیان ببیان القرآن" دارالکتاب والسنہالسفیہ، شش محل لاہور۔
۲۶۔ السلمی ابوعبدالرحمٰن محمد بن الحسین، م ۴۱۲ھ "طبقات الصوفیہ" منشور بیضوت، دارالکتب العلمیہ، بیروت طبع ۲۰۰۳ھ۔
۲۷۔ شریف بقاء "اقبال اور تصوف" جنگ پبلشرز لندن، ۱۹۹۴ء۔
۲۸۔ عطار شیخ فریدالدین م ۶۲۰ھ، "تذکرۃ الاولیاء" مطبوعہ بمبئی ادارۃ الاشاعت ۱۳۲۵ھ۔
۲۹۔ الغزالی الامام ابو حامد محمد بن محمد، م ۵۰۵ھ، "احیاء العلوم الدین" مطبوعہ المکتبتہ الحقانیہ محلّہ جنگی پشاور۔
۳۰۔ قشیری، امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن م ۴۶۵ھ "الرسالتہ القرشیریہ" دارالکتب العربیہ، مصر۔
۳۱۔ لطفی جمعہ علامہ "تاریخ فلسفہ اسلام" مطبوعہ المعاروف، بمصر، ۱۳۴۵ھ۔
۳۲۔ (ابو) محمد جعفر بن احمد بن الحسین السراج م ۵۰۰ھ، "مصارع العشاق" الطبعتہ الخامسہ، منشورات محمد علی بیضوت بیروت، ۱۹۹۸ھ۔
۳۳۔ "المنجد فی اللغہ" مطبوعتہ تھران۔
۳۴۔ ہجویری شیخ ابوالحسن علی "کشف المحجوب" ضیاء القرآن پبلیشر، لاہور ۱۹۷۰ء ص، ۳۰۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔