کیا تصوف ایک بدعت ہے؟
جواب :دلائل السلوک :
از :حضرت مولانا اللہ یار خانؒ
انسان بھی عجیب مجموعہ اضداد ہے۔ اس نے زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر شعبہ زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کے لئے ایک الگ اصول قائم کر رکھا ہے۔ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اصول مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد بھی ہیں مثلاً جسمانی صحت ایک شعبہ ہے جس کے لئے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ صحت بگڑ جائے تو اس کے علاج کے لئے کسی ماہر طبیب یا ڈاکٹر سے مشورہ لیا جائے ۔ کسی عطائی سے مشورہ لینے میں نقصان کا خطرہ ہے۔ اور اپنی سمجھ کے مطابق بھی خود علاج شروع نہ کیا جائے کیونکہ جان کا خطرہ ہے۔ اسی طرح ایک شعبہ قانونی معاملات ہیں اس سلسلے میں حرفِ آخر کسی ماہرِ قانون کی رائے کو سمجھتے ہیں۔ یہ اصول بالکل درست ہیں لیکن جہاں دین و ایمان کا معاملہ آیا ہر شخص ایک مجتہد کی طرح نہایت آزادی سے جو چاہے گا منہ سے نکا ل دے گا۔ اور لطف یہ کہ ہر بے تکی بات کو سند اور حرفِ آخر ہی سمجھے گا۔ دین کے معاملے میں اس اصول کی کارفرمائی سے عجیب مشکل پیش آتی ہے۔ شائد ایسے حالات سے متاثر ہو کر کہا گیا ہے کہ :
تنگ بر ما راہ گزار دیں شدہ ہر لئمیے راز دار دیں شدہ
تصوف کو بدعت کہنے کا معاملہ بھی اسی قسم کے مجتہدین کی ذہنی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
اس کتاب میں ایک باب \"تصوف کا ثبوت\" کے عنوان سے موجود ہے۔ اس سوال کا تفصیلی جواب اور علمی تحقیق کا ذخیرہ اس باب میں ملے گا۔ اور اگر کسی کو اس سے زیادہ تفصیل درکار ہے اور علم سے کوئی رشتہ ہے تو فتح الباری، اقتضائے صراط مستقیم، الاعتصام اور فتح الملھم کے متعلقہ حصوں کو ایک نظر دیکھ لے۔
حقیقت یہ ہے کہ تصوف کو بدعت کہنا دین کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اگر آدمی برخود غلط بھی ہو تو اس سے بھی بڑی بڑی ٹھوکریں کھا سکتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی دستور کی عبارت میں تمام جزئیات کا بیان نہیں ہوتا بلکہ صرف اصول و کلیات بیان ہوتے ہیں۔ اسلام کا دستور قرآن ہے۔ اس میں دین کے تمام اصول و کلیات موجود ہیں۔ ان اصول و کلیات کی عملی تعبیرات اسوہ نبوی میں موجود ہیں اور ان اصول و کلیات سے جزئیات کا استخراج کا طریقہ بھی حضور ﷺ نے سکھا دیا۔ علماء حق جو ورثتہ الانبیاء ہیں اس طریق استخراج کے مطابق وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے لے لئے جزئیات کا استخراج کرتے رہے ہیں۔
اصول اور کلیات مقاصد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ذرائع و وسائل کو ڈھونڈ نکالنا جو مقاصد کے حصول میں ممد ثابت ہوں اور انہیں ذرائع سمجھ کر ہی اختیار کیا جائے دین کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ وسائل اس صورت میں بدعت ہوں گے جب انہیں جزوِ دین یا اصل دین سمجھا جائے۔ ورنہ یہ وسائل مقاصد کے حکم میں ہوں گے۔ کیونکہ ذرائع اور وسائل مقصد کا موقوف علیہ ہیں۔ مثلاًْقرآن مجید میں حکم ہوا
یٰایھا الرسول بلغ ما انزل الیک یا حضور ﷺ نے فرمایا: بلغوا عنی ولو اٰیۃ
یہ حکم دیا گیا کہ تبلیغ کرو ۔ پس تبلیغ کرنا مقصد ٹھہرا ذریعہ کی تعیین نہیں کی۔ زبان سے ہو، تحریر سے ہو، عمل سے ہو، منبر پر چڑھ کر ہو، کرسی پر بیٹھ کر ہو، مسجد میں ہو، میدان میں ہو، گاڑی میں بیٹھ کر ہو، موٹر میں ہو، تقریر میں لاؤڈ سپیکر استعمال کیا جائے۔ یہ تمام ذرائع ہیں اور چونکہ یہ ذرائع اشاعتِ دین کے لئے ہیں لہٰذا یہ مقدمہ دین ہیں۔ یا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا :
فاذ کرو اللہ ذکرا کثیرا۔
اب یہ کہ تنہا ذکر کریں ، حلقہ میں بیٹھ کر کریں، زبان سے کریں، قلب وروح سے کریں، چلتے پھرتے کریں، بیٹھ کر کریں یا لیٹے ہوئے کریں، انگلیوں پر گن کر کریں یا تسبیح کے ذریعہ کریں۔ تمام وسائل و ذرائع ہیں اور ذکرِ الٰہی مقصد ہے۔ ان ذرائع کو بدعت کہنا حصولِ مقصد میں رکاوٹ پیدا کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔
میں شرک و بدعت کا دشمن ہوں۔ انسان پرستی اور قبر پرستی کا دشمن ہوں، نذر نیا ز کھانا ، مقررہ اوقات پر عرس کرنا ، غیروں کے مال پر نظر رکھنا میرے مسلک کے خلاف ہے۔ میرا مسلک یہ ہے کہ دائیں ہاتھ میں کتاب اللہ، بائیں ہاتھ میں سنت رسول اللہ ﷺ اور سامنے سلف صالحین کی احتیار کردہ صراطِ مستقیم اور بس۔ امورِ کشفیہ کا اعتبار ہو گا جب کتاب و سنت سے متصادم نہ ہوں ورنہ القائے شیطانی ہو گا۔ میرا سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ ہے جس میں روح سے بھی فیض لیا جاتا ہے۔ مگر روح سے فیض لینے سے مراد وہ نہیں جو جہلاء سمجھتے ہیں بلکہ روح سے کسبِ فیض کی حقیقت گذشتہ کسی باب میں بیان ہو چکی ہے ہاں مبتدی کے لئے روح سے فیض حاصل کرنا محال ہے۔
میں تصورِ شیخ کا حامی نہیں اور ہمارے سلسلہ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ وظائفِ لسانی میں ہمارے ہاں سب سے بڑا وظیفہ تلاوتِ قرآن مجید ہے۔ پھر استغفار اور درود شریف۔ حلقہ ذکر میں صرف اللہ ھو کا ذکر کرایا جاتا ہے یا ہر مقام پر آیاتِ قرآنی کا وظیفہ بتایا جاتا ہے۔ سیرِ کعبہ میں لبیک کا وظیفہ اور فنا فی الرسول میں درود شریف۔ باقی تمام منازلِ سلوک میں سوائے اسم اللہ کے کوئی دوسرا ذکر نہیں بتایا جاتا۔
رفقاء کو جمع کر کے توجہ کرنا ، سانس کے ذریعے ذکر کرنا وغیرہ مقصود نہیں سمجھتا بلکہ وسیلہ اور مقدمہ مقصود کا سمجھتا ہوں۔ نہ خود حلقہ بنانا دین ہے نہ توجہ کرنا ہی دین ہے ۔ نہ صرف ناک سے سانس لینا ہی دین ہے ، ہاں یہ مقدماتِ دین اور اد و وظائف ہیں۔ ہمارے سلسلہ میں ان کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں جو سنت سے ثابت نہ ہوں۔ ہمارے اختیار کردہ وظائف و معمولات میں سے اگر کسی چیز پر بدعت کا اطلاق ہوتا ہے تو ثبوت پیش کیجئے۔ کتاب و سنت کی واضح تعلیمات ہمارے سامنے ہیں۔ انہیں کو مشعلِ راہ ، مصدرِ ہدایت اور معیارِ ہدایت سمجھتے ہیں اور بس۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔