ANTI-ADBLOCK JS SYNC فلسفہ کی تاریخ (History of Philosophy) ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

فلسفہ کی تاریخ (History of Philosophy)

 

فلسفہ کی تاریخ (History of Philosophy)
– قسط: 30
– افلاطون کا نظریہ کمیونزم
(Plato’s theory of communism)
افلاطونی کا نظریہ کمیونزم دراصل صرف سرپرست اور حکمران طبقے پر لاگو ہوتا تھا، عام لوگ افلاطون کے مطابق خاندان بھی رکھ سکتے تھے، ملکیت بھی رکھ سکتے تھے اور جائیداد وغیرہ بھی رکھ سکتے تھے مگر افلاطون کے مطابق حکمران یہ نہیں رکھ سکتے جس کو "افلاطونی کمیونزم" کہا جاتا ہیں۔
افلاطون کا کمیونزم کا تصور ایک طرح سے فیثاورث کے کمیونزم کے بڑا قریب تھا۔
ان دونوں کا تصور دراصل اشرافیہ طبقے پر بنیاد رکھتا ہے۔ (یہ کارل مارکس کے کمیونزم سے بلکل مختلف ایک تصور ہے)۔
یعنی کہ اس طبقاتی نظام میں اشرافیہ اور حکمران طبقہ کوئی ملکیت اور جائیداد نہیں رکھ سکتا اور حکمران طبقے کے بچوں کو ریاست اس حکمران سے الگ ان کی تربیت کریں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک راست کس طرح سے قائم ہوگا وہ ایک قسم کی Intellectual Oligarchy تھی۔
یعنی کہ دانشور اور علمی لوگوں کا ہی سماج میں مکمل گرفت اور اثر و رسوخ ہوگا اور یہ جو دانشور طبقہ ہے ان کو کسی ووٹنگ کے ذریعے حکمران طبقہ نہیں بنایا جائے گا (مطلب جمہوریت نہیں ہوگی)۔ بلکہ افلاطون جمہوریت کے سخت مخالف تھے اور اسی لحاظ سے افلاطون اسپاراٹا (Sparta) کو بہتر سمجھتا تھا کہ جو لوگ قابل، بہادر اور جنگجوؤں ہیں ان کو حکمران طبقہ ہونا چاہیئے۔
افلاطون یہی سمجھتا تھا کہ جمہوریت ہی نے تو سقراط جیسے عظیم بندے کو ایک عام بندے کے ساتھ برابر کرکے سقراط کے اوپر مظالم ڈھائے۔
افلاطون کے مطابق اسپارٹا کا ماڈل بہتر ماڈل تھا، یعنی ایک ایسا ماڈل جس میں وہ لوگ حکمران طبقہ بنتا جو کہ واقعی سماج کے سب سے تیز اور بہادر لوگ ہوا کرتے تھے۔
اسپارٹا اور افلاطونی ریاستی تصور میں فرق صرف اتنا تھا کہ اسپارٹا میں وہ لوگ اوپر آتے تھے جو کہ بہترین لڑائی اور جنگ کرنے والے ہوتے تھے اور افلاطونی ریاستی تصور کے مطابق بہترین جنگجوؤں نہیں بلکہ وہ جو سب سے زیادہ عقلمند ہو اور سب سے زیادہ جو عقل کا استعمال کرنا جانتے ہو یعنی کہ افلاطون کے مطابق فلاسفرز کو حکمران طبقہ ہونا چاہئیے۔
– یوٹوپیا (Utopia)
افلاطون نے جب بھی اس ماڈل کو لاگو کرنے کی کوشش کی تو اس کو صرف ناکامی ہی ہوئی، افلاطون کا یہ تصور آج تک کھبی بھی ایک نظام کے طور پر کامیاب نہیں ہوا۔
افلاطون کی ریاست کا یہ تصور ایک قسم کا یوٹوپیا (Utopia) تھا اور کھبی بھی کامیاب نہیں ہوا۔
سسلی میں جب افلاطون نے دو دفعہ اس نظام کو لاگو کرنے کی کوشش کی تو وہ نہ صرف مکمل ناکام ہوا بلکہ افلاطون اپنی جان بچا کر بڑی مشکل سے وہاں سے لوٹ آیا۔
– افلاطونی قوانین (Plato's Laws)
دی ری پبلک (The Republic) ایسی کتاب تھی کہ جس میں افلاطون نے بغیر پرواہ کے وہ سب کچھ لکھا جو افلاطون سمجھتا تھا کہ نظام اگر ہونا چاہئیے تو ایسا ہی ہونا چاہئیے لیکن بار بار ناکامی کے بعد افلاطون نے اپنے آخری وقت میں ایک کتاب لکھی افلاطونی قوانین (Plato's Laws)۔
افلاطون کہ یہ کتاب ایسے سمجھو کہ ایک سمجھوتے (Compromise) پر مبنی تھی کہ چلو اگر "دی ری پبلک" قائم نہیں ہوسکی تو اس سے کمتر بہتر ماڈل "آئینی ریاست" (Constitutional State) ہے۔
یعنی ایک ایسی ریاست قائم ہو جو خاص قوانین پر مبنی ہو اور جس کے اندر قانون کی پاسداری ہو۔
ہم افلاطون کے تصورات و نظریات کے ساتھ اختلاف تو کرسکتے ہیں مگر افلاطون کو کوئی بھی فلسفی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ تقریباً دو ہزار سال تک ہر فلسفی وہی سے شروع کرتا ہے جہاں افلاطون نے اپنی بات ختم کی تھی۔
– لیکچرر: ڈاکٹر تیمور رحمان
– تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزی
May be an image of text that says "Plato's theory of Communism"
All reactions:
5

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو