برصغیر میں وہ سلطنتِ درانی کے زوال کے دن تھے۔ عباسی خاندان نے اُچ شریف کے ارد گرد کا علاقہ فتح کر کے یہاں بہاولپور ریاست کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنا شجرہ نسب عرب کے عباسی خلفا سے چلنے کے دعویدار ہیں۔
ان کی تعمیرات میں کئی آج بھی بہاولپور شہر اور اس کے باہر موجود ہیں۔ یہ تاریخ کے اُن اوراق کی مانند ہیں جن سے کئی کہانیاں اور یادیں عبارت ہیں۔
تاریخی عمارتوں کی مانند قلعہ دیراوڑ میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ وقت کا پہیہ روک دے اور آپ کو تاریخ کے جھروکوں میں لے جائے۔
ایسا ہی ایک ورق پلٹیں تو آپ بہاولپور شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دور صحرائے چولستان میں قلعہ دیراوڑ پہنچتے ہیں۔ سڑک پکی مگر تنگ ہے ،اس لیے مسافت لگ بھگ دو گھنٹے کی ہے۔
عباسی خاندان کی ملکیت، یہ قلعہ عرف عام میں قلعہ دراوڑ کی نام سے بھی جانا جاتا ہے مگر آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی، جو اب اس قلعے کے نگہبان بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ اس کا اصل نام قلعہ ڈیراور ہے اور اپنی کتاب میں انھوں نے یہی نام استعمال کیا ہے۔
آپ سفر صبح سویرے شروع کریں۔ موسم سرما کی نکھری دھوپ میں صحرائے چولستان کا الگ ہی حسن ہے۔ قلعہ ڈیراور یوں تو کسی بھی دوسرے قلعے کی طرح ہی ہے لیکن میلوں دور ہی سے یہ آپ کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔
اونچی دیواریں اور ان میں نصب ٹھوس لوہے سے بنا اس قدر اونچا اور چوڑا مرکزی دروازہ کہ ہاتھی اس میں سے با آسانی گزر جائے۔ ریت کے وسیع و عریض میدان میں کھڑا یہ قلعہ منفرد دکھائی دیتا ہے۔
اس کے بالکل سامنے دلی کی مسجد کی طرز پر بنی ایک قدیم مسجد بھی ہے جو اس کے حُسن کو چار چاند لگا دیتی ہے۔
ڈیراور آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا
تاریخی عمارتوں کی مانند قلعہ ڈیراور میں بھی یہ خصوصیت موجود ہے کہ وقت کا پہیہ روک دے اور آپ کو پیچھے لے جائے اور واپس لوٹنے میں آپ کا پورا دن گزر سکتا ہے۔
قلعے کی جانب بڑھیں تو مسجد کے عقب میں بنے ایک دروازے سے گزرتے ہوئے آپ پیچ کھاتی اس کشادہ گزرگاہ پر پہنچتے ہیں جو آپ کو قلعے کے اندر لے کر جاتی ہے۔ اسے کبھی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہو گا۔
قلعے کے اندر داخل ہونے سے قبل پہلا سوال ذہن میں یہی آتا ہے کہ اس کے باہر بسنے والے لوگ کون ہوں گے، کیسے رہتے تھے اور ان کا کیا ہوا؟
قلعہ ڈیراور آج بھی عباسی خاندان کی ملکیت ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کی آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
انھوں نے قلعہ کی تاریخ پر کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ ہم نے ان کے سامنے یہی سوال رکھا۔ قمرالزماں عباسی کے مطابق قلعہ ڈیراور کے پاس سے ایک دریا گزرتا تھا جسے گھارا یا ہاکڑہ کہا جاتا تھا۔
ہندو، سکھ، مسلمان سب میں میل ملاپ تھا‘
قلعے کے باہر آباد لوگوں میں مسلمان بھی تھے، ہندو اور سکھ بھی مگر ان میں ایسا میل ملاپ تھا کہ مذہب کی تفریق کا معلوم ہی نہیں پڑتا تھا۔ مسلمان اور ہندو سب ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔
قمرالزماں کے مطابق ہندو عہد میں ڈیراور کی آبادی بقدرِ ضرورت فوجی سپاہیوں تک محدود رہی۔ عباسی فرمانرواؤں کے دور میں اس میں اضافہ ہوا۔
’جب تک اس کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل رہی قلعہ کے باہر بازار اور امرا و اراکینِ سلطنت کے مکانات واقع تھے۔‘
زیادہ تر آبادی قلعے کے مغربی جانب تھی جس میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پذیر تھے۔ قلعے کے مشرقی جانب بارانی پانی کے جمع کرنے کے لیے تالاب اور کنویں بنائے گئے تھے۔
اندر اور باہر دو مختلف مناظر
مرکزی دراوزے سے قلعے کے اندر داخل ہوں تو سامنے ایک وسیع و عریض احاطہ ہے جہاں ایک توپ کھڑی ہے۔ سامنے جو عمارت نظر آتی ہے وہ غالباً بارہ دری تھی جو محل کے بیرونی حصے میں واقع تھی۔
قلعہ ڈیراور
اس کے کشادہ برآمدے کے عقب میں کمروں کی ایک قطار ہے جو مشرق میں ایک دوسری بارہ دری میں کھلتی ہے۔ اس بارہ دری کی دیواروں اور چھتوں کی رنگین لکڑی کی ٹائیلوں اور پتھر پر کشیدہ کاری کے ذریعے آرائش کی گئی تھی۔ انتہائی بوسیدگی کی حالت میں بھی اس کے آثار باقی ہیں۔
اندر موجود تعمیرات کی موجودہ حالت کو دیکھ کر آپ کو مایوسی ہو سکتی ہے۔ یہ قلعہ کی باہر سے ظاہر شان و شوکت کے بالکل مختلف ہے۔
قلعہ کی نگرانی پر شاہی خاندان کی طرف سے لوگ معمور کیے گئے ہیں۔ سیاحت کے لیے آنے والے افراد سے وہ معمولی سے فیس بھی وصول کرتے ہیں۔ مختلف علاقوں سے آئے سیاح ان بوسیدہ در و دیوار کے ساتھ وقت بیتاتے ہیں۔
آپ کی طرح وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ قلعہ میں موجود کون سی عمارت کیا تھی اور یہاں کے مکین کون تھے؟
یہ سرنگوں کی کیا کہانی ہے؟
مرکزی محل کے مشرقی سمت فوجیوں کے لیے بیرکیں اور گودام وغیرہ بنائے گئے تھے۔ یہیں ایک جیل بھی نظر آتی ہے
مغربی سمت ایک چبوترے سے سیڑھیاں نیچے اترتی ہیں۔ اس کے مقام کے علاوہ بھی قلعے کی عمارتوں میں ایسے کئی مقامات موجود تھے جہاں زیرِ زمین سرنگوں کو راستے جاتے تھے۔ اب وہ مٹی سے بند ہو چکے ہیں شاید آپ نہ دیکھ پائیں۔
کہا جاتا ہے کہ قلعے میں زیرِ زمین سرنگوں کا جال موجود تھا۔ اس میں ریل کی پٹڑیاں کچھ عرصہ پہلے تک دیکھی بھی جا سکتی تھیں۔ خیال ہے کہ ان کے ذریعے قلعے کے اندر اور باہر خفیہ رہ کر سفر کیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ کوئی سرنگ غالباً دلی تک بھی جاتی تھی۔
مگر صاحب قمرالزماں کے مطابق اس کی تصدیق مشکل ہے۔
’اس بارے میں ابھی کسی کو علم نہیں۔ نہ کبھی کسی نے کھدائی کروائی اور نہ کسی نے دیکھا۔ خود نواب صاحب نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘
40 کلومیٹر طویل انسانی قطار سے اینٹوں کی آمد
بارہ دری سے گزرتے ہوئے آپ محل کے اس حصے کی جانب جائیں گے جو غالباً بیگمات یا خاندان کے دیگر افراد کے لیے وقف تھا۔ اس کا دروازہ قلعہ کی مشرقی سمت میں واقع ہے۔
رہائش گاہوں تک پہنچنے سے قبل ایک چبوترا نما عمارت نظر آتی ہے اس کے ایک طرف برآمدوں کے پیچھے کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان برآمدوں کے ستونوں سے اینٹیں اس حد تک نکل چکی ہیں کہ یوں لگتا ہے کسی بھی وقت زمین بوس ہو جائیں گے۔
جو اینٹیں قلعہ میں ہر جانب لاکھوں کی تعداد میں بکھری نظر آتی ہیں، قمرالزماں کے مطابق انھیں بہت مشکل سے یہاں تک پہنچایا گیا تھا۔
قلعے پر قبضے کے وقت اس کی بیرونی دیواریں کچی تھیں۔ ان کی اینٹوں سے چنوائی عباسی دور میں کروائی گئی۔
قمرالزماں کے مطابق اس میں استعمال ہونے والی انیٹیں 40 کلو میٹر دور احمد پور سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر کے ذریعے یہاں تک پہنچائی جاتی تھیں۔
’ایک ہاتھ سے دوسرے تک دے دے کر اینٹیں یہاں تک پہنچتی تھیں اور عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتی تھیں۔‘
کیا ڈیراور میں نواب رہائش پذیر ہوئے؟
قلعہ کے طرزِ تعمیر واضع ہے کہ نوابین یہاں سکونت اختیار کیے رہے۔ قمرالزمان کے مطابق بہاولپور منتقل ہونے سے قبل تین نواب قلعہ ڈیراور میں رہائش پذیر رہے ہیں۔
انھوں نے آخری بار قلعہ کو سنہ 1955 میں نواب سر صادق محمد عباسی کے دور میں آباد دیکھا ہے جب قلعہ کے اندر 250 فوجی محافظ جبکہ باہر سو کے قریب سویلین رہتے تھے۔
’قلعے کے باہر چھاؤنی تھی۔ فوج کی خاکی وردی اور ٹوپی ہوتی تھی۔ نواب صاحب جمعہ کو ڈیراور آتے تھے، چار دیگیں چاول کی پکائی جاتی تھیں اور لوگوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں۔‘
قلعہ کے اندر نواب صاحب کے آباؤ اجداد کے مزارات میں تین قبریں ہیں۔ وہ ان پر حاضری دیتے تھے۔ جن دنوں وہ آیا کرتے تھے ڈیراور کی آبادی 600 گھرانوں کے لگ بھگ تھی، اب 250 کے قریب رہ چکی ہے۔
دو منزلہ چبوترا کس کا تھا؟
محل کے وسط میں ایک چبوترا نما کمرہ آپ کی نظر سے چھپ نہیں سکتا کیونکہ اس کی دو منزلیں ہیں۔
قمرالزماں کے مطابق یہ نواب صاحب کی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ وہ خود اوپری منزل میں رہتے تھے اور نیچے فوجی تعینات ہوتے تھے۔
محل کے ایک حصے میں وہ مقام موجود ہے جہاں ہر نئے بننے والے نواب کی دستار بندی کی جاتی تھی۔
قمرالزماں کے مطابق روایت یہ ہے کہ اس موقع پر نئے نواب کی تاج پوشی اسی رسی سے کی جاتی ہے جو نواب بہاول خاں کو کسی بزرگ نے اس وقت دی تھی جب وہ ڈیراور کو فتح کرنے آ رہے تھے۔
قلعہ ڈیراور تھا کس کا؟
عباسی خاندان کے پاس قلعہ ڈیراور قریباً تین دہائیوں سے ہے۔ تو اس سے پہلے یہ کس کے پاس تھا اور کس نے تعمیر کروایا؟ اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں۔
تاہم قمرالزماں کے مطابق جب عباسی داؤد پوتروں نے چولستان سے بہاولپور میں اقتدار سنبھالا تو ڈیراور سمیت چولستان کے قلعے جیسلمیر کے راجہ کے تسلط میں تھے۔
یہ سنسان جگہ پر واقع تھا اور اس کے چاروں اطراف 18 میل تک آبادی نہیں تھی۔ اس تک پہنچنا مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ احمد پور شرقیہ سے اونٹوں اور گدھوں پر پھل اور سبزی ترکاری لائی جاتی تھی جو تیسرے روز پہنچتی تھی۔
تاہم اپنے مقام وقوع کے اعتبار سے یہ قلعہ عباسیوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ تاہم جب بہاولپور میں محلات تعمیر ہو گئے تو وہ وہاں منتقل ہو گئے۔ یہاں سے نکل کر آپ ان محلات میں سے کم از کم نور محل تک جا سکتے ہیں۔
اسے دیکھ آپ کو ڈیراور قلعہ کے اندر کی زندگی کے بارے میں مزید بہتر جان کاری ہو گی۔
بشکریہ ۔۔۔ عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، بہاولپور
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔