امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ان اولیاء اللہ میں سے ہیں جن کا نام آتے ہی بڑے بڑے علماء کرام اور بزرگ ہستیوں کے سر عقیدت ومحبت سے جُھک جاتے اور آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔حضرت لاہوری کا تعلق ان علمائِ حق سے ہے جو کہ تمام زندگی قال اللہ و قال الرسول کی صدا بلند کرتے اور لاکھوں لوگوں کو شرک و بدعت اور ضلالت و گمراہی کے گڑھوں سے نکال کر ان کے دلوں میں توحید الہٰی، عشق نبوی ؐ،حب صحابہؓ و اہل بیتؓ کی شمعیں روشن کیں۔حضرت لاہوریؒ کے والد شیخ حبیب اللہ گوجرانوالہ کے قریب جلال نامی قصبہ کے رہنے والے ایک نو مسلم ،انتہائی متقی اور دیندار تھے جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت عابدہ، زاہدہ اورصالحہ عورت تھیں انہوں نے اپنے لخت جگر کو قرآن مجید خودپڑھایا ۔اس کے بعد اس بچے کو سکول میں داخل کرادیا گیا، جہاں انہوں نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے والد نے اپنے لخت جگر کو سکول سے اُٹھواکر گوجرانوالہ کی جامع مسجد کے خطیب مولانا عبدالحق کے سپرد کر دیا۔ اس بچہ کو گوجرانوالہ آئے چندماہ ہی گزرے تھے کہ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ دارالعلوم دیوبند سے اپنی تعلیم مکمل کرکے سند ھ جاتے ہوئے اپنی والدہ سے ملنے سیالکوٹ آئے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے مولانا سندھی ؒکو شیخ حبیب اللہ کے قبول اسلام اور دیانت وتقویٰ کا بھی ذکر کیا۔ چنانچہ مولانا سندھیؒ اپنی والدہ کے ہمراہ باہو چک آئے اور اپنے رشتہ کے بھائی سے ملے۔ اس وقت شیخ حبیب اللہ نے اپنے لختِ جگر کو حضرت سندھی ؒ کے حوالے کردیا۔ نوبرس کی عمر میں اس بچے کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ سندھ کے ولی کامل حضرت خلیفہ غلام محمد ؒ دین پوری کے حکم سے مولانا سندھی ؒ نے اس بچہ کی والدہ سے نکاح کرلیا۔ اس لحاظ سے مولانا سندھیؒ اس بچہ کے سوتیلے والد بن گئے۔ کچھ عرصے بعد یہ بچہ اپنی والدہ کی شفقتوں سے بھی محروم ہوگیا۔چنانچہ مولانا سندھی نے خود ہی اس بچہ کو سلسلہ قادریہ میں داخل فرماکر تقویٰ وپرہیز گاری کی تلقین کے ساتھ کچھ اذکار بھی تعلیم کردیے ۔ مولانا سندھیؒ نے ابتدائی صرف ونحو عربی وفارس کتب اس بچہ کوخود پڑھائیں ۔مولانا سندھی نے1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈا ضلع سکھر میں مدرسہ دارالرشاد کی بنیاد رکھی تو ان کی زیرنگرانی اس بچہ نے چھ سال بعد درس نظامی مکمل کیا۔ اس مدرسہ دار الرشاد سے فارغ ہونے والوں میں پہلانام آپ کا ہے ۔ مولانا سندھیؒ کی ہدایت پر اسی مدرسہ میںآپ نے تعلیم تدریس شروع کی۔ چنانچہ تین سال تک حضرت لاہوریؒ اسی مدرسہ میں درس نظامی کی تعلیم دیتے رہے۔ مولانا سندھیؒ نے اپنی پہلی زوجہ سے بیٹی کا نکاح مولانا احمدعلیؒ سے کردیا لیکن وہ ایک سال بعد ہی انتقال کر گئیں ۔اس کے بعد مولانا ابو محمد احمد کی صاحبزادی سے دسمبر1911ء میں آپکانکاح دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے پڑھایا۔
تحریک ریشمی رومال میں انگریز حکومت نے اس تحریک کے قائدین اور اس سے وابستہ کارکنان کوگرفتار کرنا شروع کیا تو مولانا احمدعلی لاہوریؒ بھی گرفتار کر لیے گئے ۔مولانا احمد علی لاہوری ؒ کو گرفتار کرکے دہلی ،شملہ ،لاہور اور جالندھر کی مختلف حوالاتوں میں کئی ماہ گزارنے کے بعد مشروط رہائی ملی توآپ پر دہلی اور سندھ جانے پر پابندی لگادی گئی ۔ آپ لاہور میں پابند ضمانت ہو کر یہاں مقیم ہو گئے، جس وجہ سے آپ لاہوری کہلاتے ہیں۔
مسجد لائن سبحان والی شیرانوالہ دروازہ سے باہر مسجد میں حضرت مولانا پنجگانہ نماز ادا کرتے تھے۔ فاروق گنج کی طرف جاتے ہوئے جو مسجد ہے وہاں آپ نے درس قرآن شروع کیا پھر آہستہ آہستہ تبلیغ وارشاد کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوگیا۔
1922ء میں حکیم فیروز الدین کی تحریک پر آپ نے انجمن خدام الدین کی بنیاد رکھی جس کے تحت قرآن اور سنت بنویؐ کی اشاعت کو انجمن کا نصب العین قرار دیاگیا ۔1924ء میں انجمن خدام الدین کی زیر نگرانی مدرسہ قاسم العلوم کی بنیاد رکھی گئی جس کی عمارت کی رسم افتتاح علامہ شبیراحمد عثمانی ؒ کے ہاتھوں 1934ء میں ادا ہوئی۔
آپ نے عمربھر قرآن مجید کی لفظاً ومعناً خدمت کی (1935ئ)میں آپ نے حفظ ناظر ہ کا اہتمام فرمایا۔آپ نے مسلمانوں کو قرآن مجید سمجھانے لیے روازانہ نماز فجر کے بعد ایک گھنٹہ درس قرآن رکھا ہوا تھا۔ جس میں مسلمان مردوں کے علاوہ علیحدہ باپردہ جگہ میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں ۔علوم عربیہ کے فارغ التحصیل علماء کے لیے قرآن کی تفسیرپڑھائی جاتی اور اس درس کی تکمیل کے بعد جو حضرات مزیدتعلیم حاصل کرنے کے خوہش مند ہوتے آپ انہیں چار ماہ میں فلسفہ، شریعت اورحضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی مشہور کتاب ’’حجۃ البالغہ‘‘پڑھاتے 1940ء سے شروع ہونے والا یہ درس آپ کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا۔
22اکتوبر 1956ء میں بحیثیت عالم دین انجمن حمایت اسلام کی جزل کونسل کے آپ رکن مقرر ہوئے۔ انجمن کے معاملات میں گہری دلچسپی لینے کی بناء پر مولانا لاہوری17نومبر1956ء کو انجمن کے نائب صدرتازیست اسی عہدے پر فائز رہے ۔1956ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو مولانا احمدعلی لاہوری نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گرفتاری کے بعد آپ کو دوسرے علماء کے ساتھ ملتان جیل میں رکھا گیا۔مگر جب ملک فیروز خان بر سرِ اقتدار آئے تو آپ کو لاہور جیل میں منتقل کردیا گیا۔ بعد ازاں آپ کورہا کردیا گیا۔
اکتوبر 1956ء کو پاکستان کے جید علماء کی لاہور میں مشاورت ہوئی جس میں بالاتفاق مولانا احمد علی لاہوری کو جمعیت علماء اسلام مغربی پاکستان کا امیرمنتخب لیاگیا ۔ آپ آخری وقت تک اس عہدے پر فائز رہے ۔آپ کی رہنمائی میں صرف ایک سال کے قلیل عرصہ میں جمعیت علماء اسلام مغربی پاکستان میں 300شاخیںقائم ہوگئیں ۔جون 1957ء میں جمعیت علماء اسلام کا رسالہ ترجمان اسلام لاہور سے آپ کی سر پرستی میں شائع ہونے لگا۔1955ء میں مولانا احمد علی لاہوری کی سرپرستی میں انجمن خدام الدین کی طرف سے’’خدام الدین‘‘نام سے ایک ہفت روزہ رسالہ جاری کیاگیا اوریہ رسالہ آج بھی جاری ہے ۔ہر ذی روح اپنے رب کو راضی کرکے اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ اس ضابطہ کے تحت مولانا احمدعلی لاہوریؒ23فروری1962ء بمطابق 17رمضان 1381ہجری کو 77سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ یونیورسٹی گراؤنڈ میں آپ کی نماز جنازہ کی امامت آپ کے صاحبزادہ مولانا عبید اللہ انور نے پڑھائی ۔ افطاری کے وقت مولانا عبداللہ درخواستی ؒ ،مولانا عبیداللہ انورؒ ،حافظ حمید اللہ اور دیگر اکابرین نے آپ کی میت لحدِ خاک میں اتاری۔
تذکرہ مولانا احمد علی لاہوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔