بندگانِ خدا کی روحانی وباطنی اصلاح کے لیے سلاسل طریقت (قادریہ ، چشتیہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ )کی کوششیں لائق ِ تعریف وتحسین ہیں ، اِن چاروں سلاسل نے برصغیر میں لوگوں کے روحانی وباطنی ، انفرادی واجتماعی اور دینی ومعاشرتی مسائل کا نہ صرف ادراک کیا بلکہ اُن کا حل پیش کرکے اُن کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ۔یہ چاروں سلسلے قرآن وسنت پر مبنی مختلف اصولوں اور طریقوں کے ذریعے بندگانِ خدا کے نفس وروح کا تزکیہ کرکے اُن کو اس حقیقی منزل یعنی معرفت الہٰی یا وصول الی اللہ تک پہنچاتے ہیں ۔ درحقیقت یہ چاروں سلاسل ‘تصوف کے مختلف ذرائع اور راستے ہیں جن کی حقیقی منزل معرفت الی اللہ یا وصول الی اللہ ہے ۔ تصوف واحسان کے مذکورہ بالاسلاسل اربعہ میں بلاشبہ نقشبندی سلسلہ اپناایک منفردمقام اور حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ سلسلہ حضرت خواجہ بہاء الدین محمد نقشبند قدس سرہ العزیز کے نام نامی سے معروف ہے ۔’’رشحات عین الحیات‘‘تالیف مولانا علی واعظ کاشفی المتوفی 935ہجری جو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا ایک مستند تذکرہ ہے کے مطابق یہ سلسلہ امیر المؤمنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے شروع ہوتا ہے ، شاہ نقشبند حضرت بہاء الدین نقشبند علیہ الرحمۃ نے اِ س سلسلہ کو فروغ دیا اور باطنی اصطلاحات کا اضافہ فرمایا ۔اوائل زمانہ میں سمرقند اور بخارا کے علاقوں کو سلسلہ نقشبند کے بزرگوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا ۔591ہجری کی 25رجب المرجب کو بخار ا سے تین کوس اور رامتین سے ایک کوس کے فاصلے پر ’’ سماس ‘‘ نامی گاؤں میں ایک فردِ کامل کے بیت الشرف میں ولد صالح کی آمد ہوئی ۔ نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم گرامی کی نسبت سے ’’محمد ‘‘ رکھا گیا اور بچپن میں بزرگی کے آثار جو پیشانی سے عیاں ہوتے تھے کی وجہ سے ’’ بابا‘‘ کی نسبت معروف ہوگئے ۔تذکرہ نگاروں نے علاقائی نسبت کے ساتھ ملاکرمکمل نام ’’ خواجہ محمد بابا سماسی‘‘ تحریر کیا ہے ۔ آپ کی روحانی نسبت امیر نقشبند، قطبِ دوراں حضرت خواجہ علی رامیتنی المعروف حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ سے تھی ۔ حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ کا وقت وصال قریب آیا تو آپ نے خواجہ محمد بابا سماسی علیہ الرحمۃ کو اپنی خلافت ونیابت کے لیے منتخب فرمایا اور اپنے تمام ارادت مندوں کو اُن کی متابعت کا حکم دیا۔آپ ہمیشہ دنیا سے بے نیاز ہوکر یاد ِرب العالمین میں مستغرق رہتے ۔’’حضرات القدس ‘‘جلد اول میں’’ رشحات عین الحیات ‘‘سے حضرت باباسماسی علیہ الرحمۃ کی محویت اور استغراق کا ایک واقعہ نقل کیا ہے ،علامہ بدر الدین سرہندی خلیفہ مجاز حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہما لکھتے ہیں :’’ آپ کا باغ جو قریہ سماس میں واقع تھا ، اُس میں آپ کبھی کبھی جاتے تھے اور وہاں کے انگوروں کی شاخوں کو دست مبارک سے تراشتے تھے ،توغلبہ ٔ حال اور قوت غیبت کی وجہ سے اندازہ سے زیادہ آپ کا دست مبارک شاخوں پر جاتا اور آپ پر بے خودی طاری ہوجاتی ،یہ غیبت اور بے خودی ایک مدت تک رہتی تھی اور اِس حالت سے اَفاقہ پانے کے بعد پھر آپ شاخ انگور کاٹنے میں مشغول ہوجاتے تھے پھر وہی حالت اور کیفیت آپ پر غلبہ کرتی اور بے خود کردیتی اور متعدد بار اسی طرح سے ہوتا رہتا تھا ۔‘‘ ( حضرات القدس :158) صفائے باطن اور اخلاص احوال کی وجہ سے حضرت سماسی رحمۃ اللہ علیہ کو کشف عرفان بھی کمال درجہ حاصل تھا ،سوانح نگار لکھتے ہیں : ایک بار آپ کوشک ِ ہندواں ( بعض تصانیف میں قصر ہندواں بھی آیا ہے ، فارسی میں ہندواں کے معنی چور ،ڈاکو ،عین ممکن ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند علیہ الرحمۃ کی پیدائش سے پہلے وہاں اُسی طرح کے لوگ رہتے ہوں اسی وجہ سے حضرت سماسی علیہ الرحمۃ نے قصر ہندواں فرمایا بعد میں حضرت خواجہ نقشبند علیہ الرحمۃ کے فیض نسبت وبرکت سے قصرعارفاں بن گیا )سے گزر رہے تھے اور فرمایا :’’ ازیں خاک بوئے مردمی آید زود باشد کہ کوشک ہندواں قصر ِ عارفاں شود ‘‘ اِس خاک سے ایک مردخدا کی خوشبو آتی ہے جلد ہی ایسا ہوگا کہ کوشک ہندواں قصر عارفاں بن جائے گا ۔کچھ عرصہ گزر ا ایک روز آپ اپنے خلیفہ سید امیر کلال قدس سرہ کے مکان سے لوٹ رہے تھے کہ کوشک ہندواں کے قریب سے گزرے تو فرمایا :’’ اب خوشبو زیادہ ہوگئی ہے اور بے شک وہ مرد پیدا ہوگیا ہے ‘‘ اُس وقت اُس محلے میں حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کو تین روز گذر چکے تھے ۔آپ کے جد ا مجد آپ کو حضرت خواجہ محمد بابا سماسی رحمہ اللہ کی نظر کیمیا اثر میں لے کر حاضر ہوئے ۔ آپ نے حضرت بہاء الدین علیہ الرحمۃ کو دیکھ کر فرمایا :’’ یہ ہمارا فرزند ہے اور ہم نے اِ س کو اپنی فرزندی میں قبول کیا ہے ‘‘ پھر آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ یہ وہی مرد ِ خدا ہے جس کی خوشبو ہم نے سونگھی تھی اور عنقریب یہ لڑکا اپنے وقت کا مقتدا ہوگا ۔پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر کلال قد س سرہ العزیز کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا :’’ میرے فرزند بہاء الدین کی تربیت کرنے میں اگر تم کوئی کمی کرو گے تو میں تم کو معاف نہیں کروں گا ‘‘ ( حضرات القدس :159) اللہ تعالیٰ نے آپ کوکمال فراست اور بصیرت مومنہ سے نوازا تھا ۔ حضرت خواجہ نقشبند قد س سرہ فرماتے ہیں کہ جب میری عمر اٹھارہ سال ہوگئی تو میرے جد امجد کو میرے نکاح کی فکر ہوئی ، اُنہوں نے مجھے خواجہ محمد بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ کو بلانے کے لیے بھیجا جب میں آپ کی زیارت سے مشرف ہوا تو اُس رات آپ کی صحبت کی برکت سے مجھ میں بڑا تضرع ونیاز پیدا ہوا ، آپ کی مسجد میں دورکعت نماز پڑھی اور سر سجدہ میں رکھا ہوا تھا ۔ اُس وقت میری زبان سے نکلا :’’ اے اللہ ! مجھے اپنی بلاؤں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت عطا فرما اور اپنی محبت کی محنت برداشت کرنے کی طاقت عطا فرما‘‘ جب میں صبح حضرت سماسی علیہ الرحمۃ کی خدمت بابر کت میں حاضرہوا تو آپ نے از روئے بصیرت وفراست میری رات کی سرگزشت سے آگاہ ہوکر فرمایا :’’ اے فرزند !دعا میں یوں کہنا چاہئے : خدایا اِس بندہ ضعیف کو اپنے فضل وکرم سے اسی پر قائم رکھ جس میں تیری رضا ہے ‘‘ پھر فرمایا :’’ بے شک اللہ عزوجل کی رضا تو اِ س میں ہے کہ بند بلا میں مبتلا نہ ہو اور اگروہ بنابر حکمت اپنے کسی دوست پر بلا بھیجتا ہے تو اپنی عنایت سے اُس دوست کو اُس بلا کے برداشت کرنے کی قوت بھی عطا فرمادیتا ہے اور اِس کی حکمت بھی اُس پر ظاہر کردیتا ہے اپنے اختیار سے بلا طلب کرنا دشوار ہے اِس لئے گستاخی نہیں کرنی چاہیے ۔‘‘(حضرات القدس :160ملخصاً) حضرت بابا سماسی علیہ الرحمہ کے فیضان صحبت سے ایک خلقت سیراب ہوئی ۔ آپ کے چار خلفاء معروف ومشہور ہوئے ۔معرفت وطریقت کے آفتاب وماہتاب حضرت بابا سماسی علیہ الرحمۃ کا وصال 10جمادی الاخریٰ 755ہجری کو ہوا ،آپ کا مزار مبارک بخار ا کے موضع ’’سِمّاس ‘‘میں آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں صالحین کی برکات سے مستفید فرمائے ۔آمین