ANTI-ADBLOCK JS SYNC خیر القرون میں تصوف کی ہیئت وحیثیت :ابن محمد جی قریشی ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

خیر القرون میں تصوف کی ہیئت وحیثیت :ابن محمد جی قریشی

 

یہ مضمون ابن محمد جی قریشی کی کتاب  ”اشاعت حدیث میں صوفیائے برصغیر کا کردار“ سے لیا گیا ہے اس مضمون کو مصنف کے نام کیساتھ آپ کو اشاعت کی اجازت ہے۔

خیر القرون میں تصوف کی ہیئت وحیثیت         

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ

أعُوذُ بِاللهِ  مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم

بِسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ

جو علوم انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے۔ ایک حصہ تعلیمات نبوت پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔ انبیاء کی تعلیم میں اور دوسرےماہرین کی تعلیم میں ایک بنیادی فرق یہ ہے۔تعلیم تو ہر فن کا استاد دیتا ہےہم دنیوی علم سیکھتے ہیں سائنس کا علم سیکھتے ہیں مابعد الطبیعات کا علم سیکھتے ہیں اور بے شمار جو علم ہم سیکھتے ہیں وہ علم نہیں ہوتا ،وہ خبر ہوتی ہے ہمارا سکھانے والا استاد ہم تک بہت سی خبریں پہنچاتا ہےوہ خبریں ہمارے ذہن میں جمع ہو جاتی ہیں ہم پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں لیکن ان سب خبروں کا ہماری زندگی پر ،ہمارے دل میں ،ہماری روح پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔اس کوحقیقی علم نہیں کہنا چاہئے،یہ خبریں ہوتی ہیں ۔ 

انبیاء کی تعلیمات میں یہ خاصیت ہوتی ہےکہ انبیاءجو فرماتے ہیں اس کے ساتھ ایک کیفیت ہوتی ہےجو شخص دل میں وہ کیفیت قبول کرتا ہے،وہ مر جاتا ہے، کٹ جاتا ہےمگر اس سے ہٹتا نہیں کیونکہ وہ خبر نہیں ہوتی بلکہ حقیقی علم ہوتا ہے۔وہ بات تو اس کے کان سنتے ہیں ،دماغ میں پہنچتی ہے لیکن اس کے ساتھ جو کیفیات ہوتی ہیں وہ قلب میں اتر جاتی ہیں ۔یعنی آپ ﷺکی تعلیم کا ایک ظاہری پہلو تعلیمات نبوت ﷺہے۔تعلیماتِ نبوت ارشادات ظاہری، اقوال و افعال رسول اللہﷺ کا مرقع ہے۔ تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔دوسرا پہلو جو علم کی اساس ہے وہ برکات نبوتﷺکہلاتا ہے ۔کیفیات وبرکات کایہ شعبہ تصوف واحسان ،طریقت وغیرہ کی اصطلاح سے جانا پہچانا جاتا ہے۔

آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اس کے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے  محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کیفیات کو حاصل کرتا ہے، جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی۔صحابہ کرام کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے، کرتے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے یہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے۔ کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اس کی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی اور اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔

خیرالقرون میں اگر کوئی مفسرومحدث،مجاہدو غازی غرض جس کا تعلق بھی دین کے کسی شعبہ سے ہوا تو برکات نبوت یعنی تصوف و احسان سے بھی ان کو وافر حصہ ملا تھا۔مثلا امام حسن بصری جہاں ہم ان کو امام الصوفیہ یعنی منبع ترسیل برکات مانتے ہیں وہی محدثین کی نظر میں ثقہ و صدوق ہیں ۔جہاں آپؒ کی علمی جلالت کا زمانہ ممدوح ہے وہی آپ رزم حق و باطل میں تلوار کے دھنی بھی نظر آتے ہیں۔ خیرالقرون میں تیغ و قلم ،لسان و سنان میں زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ خیر القرون شش جہت آئینہ ہےجس سے علم وعمل کی ہمہ جہت روشنیاں عالم اسلام میں پھیلیں۔

تصوف کی ابتداء

 تصوف کی ابتداء کے متعلق سلفی عالم الشیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں:

”ابتدائی طور پر تصوّف کی ابتدا خالص دینی تحریک کی شکل میں رونما ہوئی ، جو کہ تیسری صدی ہجری میں عالم اسلامی میں چند افراد کے توسط سے پھیلی، اُس وقت  ناز و نعم میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو زہد و عبادت کی شدّ و مدّ کیساتھ دعوت دی جاتی تھی“۔

شیخ صالح کی یہ بات تو درست ہے لیکن اس کا تعلق تیسری صدی ہجری سے نہیں ہے بلکہ یہ تو برکات نبوتﷺ کا نام ہے۔ تصوف کا آغاز بطور علم وفن پہلی صدی ہجری کےاواخر سے ہےنہ کہ تیسری صدی ہجری سے۔پہلی صدی ہجری کے اواخر میںلوگوں کی زندگیوں میں کافی تغیر پیدا ہو چکا تھا ۔صحابہ کرام کا وہ مبارک دور اختتام پذیر ہو رہا تھا جسے براہ راست نگاہ نبوتﷺنصیب ہوئی تھی۔سلطنت اسلامیہ کو فتوحات کے ذریعہ غیر معمولی وسعت ملی جس کے نتیجہ میں مختلف لادینی تہذیب و تمدن کے پروردہ لوگوں سے روابط ہوئے۔دولت کی ریل پیل ہوئی جس سے توکل اور قناعت میں کمی آگئی۔حب ِ جاہ اور مال و دولت کے تکاثرنے باہمی نزاع و خلفشار کو جنم دیا۔ان بدلتی ہوئی اقدار میں بے سکونی کی کیفیت پیدا ہوئی تو ایک طبقہ نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پناہ ڈھونڈی اور ذکر و فکر کو اپنا شعار بنایا ،عباد وزہاد کا یہ طبقہ مخلوق خدا کو اخلاص و احسان کی طرف دعوت دینے والا تھا۔یہی وہ دور ہے جس میں طبقہ محدثین و فقہا اور علوم اسلامیہ کےدیگر شعبہ جات اہل علم و حال کی فکری صلاحیت سے بطور علم و فن کے متعارف ہونا شروع ہوئے۔ پس اسی عہد میں برکات نبوت جو عہد نبوت میں ایک نگاہ سے بٹتی تھی ،کمی واقع ہوئی توحاملین برکات نبوت نے حصول برکات کے لئے مراکز قائم کئے۔یہ سلاسل تصوف حقیقت میں برکات نبوت کے مرکز ہیں۔علوم ظاہری کی طرح برکات نبوت کی بھی رفتہ رفتہ اصطلاحات مقرر ہوئیں اور حاملین برکات نبوت صوفیاء کے لقب سے مشہور ہوئے۔اوّلیں طور پر اہل اللہ کا یہ طبقہ عباد و زہاد کے نام سے جانا پہچانا گیا ۔امام حسن بصری کے شاگرد امام ربیع بن صبیح بصری ہندی نے” عبادان“ کے مقام پر پہلی خانقاہ دوسری صدی ہجری کی ابتدائی دہائیوں میں قائم کی جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

اہل زہاد و عباد کو صوفی کہنے کی وجوہات

 پہلی صدی ہجری سے تیسری صدی ہجری تک اگر بنظرِدقیق و تحقیق سے دیکھا جائےجن نفوس قدسیہ نے ذکر وفکر اور زہد و ورع کو شعار بنایا ان میں اکثریت ان حضرات کی نظر آتی ہے جنہوں نے دنیا کی رنگینیوں سے قطع تعلقی کے ساتھ اونی لباس پہننے کوترجیح دی۔ مورخین اور اہل سیر و سوانح نے اپنی تصنیفات میں اس طبقہ زہاد کے اونی لباس کا تذکرہ کیا ہے۔اگر چہ ورع و تقوی کے لئے صوف کے لباس کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ مگرظاہری وضع و قطع ا ور باطنی طہارت و پاکیزگی یعنی صوف کا لباس اورباطنی پاکیزگی یعنی صفا،صفی یعنی مخلص دوست ، اصفیاء یعنی برگزیدہ لوگ وغیر کی بناء پر لفط صوفی اہل زہاد عباد کے لئے مختص ہوا،شروع شروع میں لفظِ صوفی خواص میں مستعمل ہوا۔رفتہ رفتہ اہل زہادو عباد کی جگہ لفظ صوفی نے لے لی اور برکات نبوت کا یہ مقدس شعبہ تصوف و احسان ،طریقت وغیرہ کے نام سے اور اس کے امین صوفی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ جیسا کہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

”صوفیت“ پہلی تین صدیوں میں مشہور نہیں تھا، بلکہ یہ لفظ زبان زد عام ان تین صدیوں کے بعد ہوا ہے، اس لفظ کا استعمال  ایک سے زائد ائمہ کرام اور شیوخ سے ملتا ہے، مثلاًامام احمد بن حنبل، ابو سلیمان دارانی رحمہما اللہ  وغیرہ، اسی طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ انہوں نے بھی اس بارے میں گفتگو کی ہے، جبکہ کچھ لوگ تصوف کے بارے میں گفتگو کرنےو الوں میں حسن بصری رحمہ اللہ کو بھی شامل کرتے ہیں“۔(مجموع الفتوی۱۱/۵)

برکات نبوت قرآن و حدیث کی نطر میں

قرآن کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے کیفیات وبرکات(یعنی تزکیہ نفس کا ہونا جس کو ہم برکات نبوت کے تحت بیان کر رہے ہیں اور آج کے عہد میں جسے تصوف و احسان یا طریقت وغیر کی اصطلاح سے موسوم کیا گیا ہے،)کی بھی اسی طرح ضرورت جس طرح قرآن کی ظاہری تعلیم کے لئے حروف و الفاظ کی پہچان ضروری ہے۔مثلا قرآن جنت کی رغبت دلاتا ہے اور دوزخ سے ڈراتا ہے تو یہ رغبت اور خشیّت بغیر برکات نبوت (تصوف و احسان)کے سمجھ نہیں آتی ۔قرآن کہتا ہے کہ جب اہل ایمان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے :

اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ (زمر23)

 ”اللہ نے نہایت اچھی اچھی باتیں نازل فرمائی ہیںکتاب (جس کی آیات)ملتی جلتی ہیں (اور)دہرائی جاتی ہیں جن سے ان لوگوں کے جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں بدن کانپ اٹھتے ہیں پھر ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں“

مسلک اہل حدیث کے ممتاز عالم مولانا حنیف ندوی فرماتے ہیں

”وہ لوگ جن کے دل میں تقویٰ اور خشیّت الٰہی موجود ہے ۔ اس کو سنتے ہیں ۔ اور اس کے تاثر سے ان کے بدن کانپ اٹھتے ہیں ۔ اور پھر منقاد اور نرم دل ہوکر ہمہ تن اللہ کی یاد میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ یہ سرچشمہ معرفت وہدایت ہے جس شخص سے اللہ توفیق ابتداء چھین لے ظاہر ہے کہ وہ اس کی برکات سے استفادہ نہیں کرسکتا “۔(سراج البیان)

 اب یہ رونگٹے کھڑے ہونا اور گریہ کا طاری ہونااور قلب کا متوجہ الی اللہ ہونا سب قلبی کیفیات ہیں ۔اور یہی علم کی حقیقت ہے ۔اور اسی کو برکات نبوت کہتے ہیں ۔علماء حق کے نزدیک یہی تصوف و طریقت ہے ا اوریہی حقیقی علم ہے۔ علم کی یہ حقیقت حدیث نبوی سے بھی سمجھ آتی ہے:

 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏ هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ،   فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ:‏‏‏‏ كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ؟ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ، وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا، وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ:‏‏‏‏  ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ ، وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ ، قَالَ جُبَيْرٌ:‏‏‏‏ فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قُلْتُ:‏‏‏‏ أَلَا تَسْمَعُ إِلَى مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، قَالَ:‏‏‏‏  صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنَ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا، قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ نَحْوُ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ 

(قال الشيخ الألباني:صحيح تخريج اقتضاء العلم العمل (89) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2653)

”ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا: ”ایسا وقت (آ گیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہو گا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا: (اللہ کے رسول!) علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود و نصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے؟“ (کیا فائدہ پہنچایا تورات اور انجیل نے ان کو؟) ۔ جبیر (راوی) کہتے ہیں: میری ملاقات عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کیا کہتے ہیں؟ پھر ابوالدرداء رضی الله عنہ نے جو کہا تھا وہ میں نے انہیں بتا دیا۔ انہوں نے کہا: ابوالدرداء رضی الله عنہ نے سچ کہا۔ اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والاکوئی ایک شخص دکھائی نہ دے گا“۔

حدیث مبارکہ سے یہ سمجھ آئی کہ علم کی حقیقت خشیّت الٰہی ہے۔دوسرے لفظوں میں علم صرف قال کا نام نہیںہے بلکہ حال بھی ضروری ہے ۔محض حروف و الفاظ کو جان لینا علم نہیں بلکہ علم خشعیت الٰہی کا نام ہے۔ ورنہ اس کی مثال گدھے کی طرح جس نے کتابوںکا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔قرآن میں واضح ارشاد باری تعالیٰ ہےكَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا۔ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوں۔ (جمعہ:۵) اوردوسرے مقام پر فرمایافَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ اور اپنی خواہش کی پیروی کی سو اس کی مثال تو کتے کی سی ہوگئی کہ اگر اس پر سختی کرو تو بھی ہانپے (زبان نکلے) یا یونہی چھوڑ دو تو بھی ہانپے۔(اعراف : 176) 

حافظ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں :

”جن لوگوں نے ایمان کا دعوی کیا ہے،لیکن وہ صاحبان ذوق نہ تھے ،حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے کو مومن نہ کہو،مسلم کہو قَالَتِ الأَعْرَابُ: آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ پس یہ لوگ مسلمان ہیں ،مومن نہیں ،اس لئے کہ ایمان ان کے دل کے اندر رچا نہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ صاحب ذوق نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں یا ان کے اعمال اجر میں کمی ہو گی(البتہ صاحب ذوق کا معاملہ دوسرا ہے)ذوق ایک باطنی امر ہے اور عمل اس کا نشان ہے ۔پس اعمال علوم و عقائد کے ثمرات ہیں اور یقین سے جہاد اور احسان کے مقامات پیدا ہوتے ہیں “۔

(مدارج السالکین ج3ص58 بحوالہ تصوف کیا ہے ، ص 100/101مقالات مولانا محمد اوّیس ندوی ادارہ اسلامیات  لاہور اشاعت اوّل اگست 1981ء)

اور اسی حقیقت کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔

قا ل اللہ تعالیٰ : وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ(الحجرات)

”لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے دلوں میں مرغوب کر دیا“۔

ایمان کا محل قلب ہے اور اسی کی حقیقت محبت الٰہی اور اطاعت ر سول ہے، اسی لئے قیصر روم نے جب ابو سفیان سے پوچھا۔

 وَسَأَلْتُكَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَكَرْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ  (3)

” میں نے تجھ سے سوال کیا تھاکہ لوگ اس کا دین قبول کر لینے کےبعد اسے برا سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں،تو تم نے جواب دیا کہ نہیں اور ایمان کی بھی یہی حالت ہے ، جب اس کی تراوٹ قلب میں جم جاتی ہے (تو پھر دور نہیں ہوتی)“۔

ان کیفیات کا ذکرصحابہ کرام کی زندگیوں میں برابر ملتا ہے ۔حضرت حنظلہ؄  فرماتے ہیں 

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ. وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَنَّهُ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَكَذَلِكَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْنَا فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِهَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ، وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً " ، قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.(5)

حنظلہ اسیدی؄ سے روایت ہے (یہ نبی اکرمﷺکے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے) ، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر؄ کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر؄ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ؄ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ”حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو ان وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ؄ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔“ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

دوسری جگہ یہ الفاظ بھی ملتے ہیں

 لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَأَظَلَّتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا 

اگر اسی حالت پر برقرار رہو جس پر میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تم پر اپنے پروں سے سایہ کریں گے۔“

اور یہ الفاظ بھی حدیث میں ملتے ہیں

3۔عن انس:قال اصحاب النبی ﷺ یا رسول اللہ انا کنا عندک راینا ی انفسنا ما نحب ،و اذا راجعنا الی اھلینا فخالطنا ھم انکرنا انفسنا فقال النبی (لو تدومون علی تکونون عندی فی الخلاء لصافحتکم الملائ کۃ حتی تظلکم با جنحتھا عیانا و لکن ساعۃ و ساعۃ)۔

”سید انس ؄ کہتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺنے کہا:اے اللہ کے رسول ! جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو ہم اپنے اندرمطوبہ ایمانی کیفیات وجذبات پاتے ہیںلیکن جب ہم اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹتے ہیں اور ان میں مل جل کر رہتے ہیں توکچھ اوپرااوپرا خود کوپاتے  ہیں ۔نبی ﷺ نے فرمایا ”اگر تم پنی خلوتوں میں اسی حالت پر قائم رہو جس پر میرے ہاں ہوتے ہو ،تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں اور وہ تم پر اپنے پروں سے عیاناً سایہ کریں (دراصل حالات بدلتے رہتے ہیں) کبھی یہ اور کبھی وہ“۔(6)

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کیفیات کم اور زیادہ ہونگی اور دوامی کیفیات کی صورت میں کشف و مشاہدہ بھی ہو گا جو لوگ کشف کے منکر ہیںیہ ان کی لاعلمی اور ذوق سے محرومی کی بناء پر ہے ورنہ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ فرشتے انھیں خوشخبری دیتے ہیں اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حم السجدہ 30)بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہےپھر وہ(اس پر)قائم رہےان پر فرشتے اتریں گے کہ تم کو کوئی خوف نہ کرو اور نہ کوئی رنج کرواور جنت پر خوش ہو جاؤجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

ڈاکٹر اسرار احمد  فرماتے ہیں

'” فرشتوں کا نزول ان لوگوں پر کب ہوتا ہے ؟ اس حوالے سے یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ موت کے قریب ایسے لوگوں کو خوش آمدید کہنے اور بشارت دینے کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں ‘ لیکن دنیوی زندگی کے دوران بھی اہل ایمان کی مدد کے لیے فرشتوں کا آنا ثابت ہے۔ جیسے میدانِ بدر میں اہل ِایمان مجاہدین کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوئے : { اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط } ( الانفال : ١٢) ” (یاد کریں) جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ربّ وحی کر رہا تھا فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تو تم (جائو اور) اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو “۔ چنانچہ مومنین صادقین پر ملائکہ کا نزول اثنائے حیات میں بھی ہوتا ہے“۔ 

اس طرح کے لوگ ہر عہد میں پائے جاتے ہیںالحمدللہ ہمارے عہد میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں ملائکہ سےقلبیمگر  بشاشت حاصل ہوتی ہے ۔ ان برکات و کیفیات کا ذکر صحابہ کرام کی زندگیوں میں برابر ملتا ہے ۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، وَلَمَّا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَيْدِي وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ صَحِيحٌ.(9)

”انس بن مالک؄ کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہﷺ  (پہلے پہل)مدینہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پرنور ہو گئی،پھروہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہر چیز تاریک ہو گئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمیں اپنے دلوں میں اوپرا پن محسوس ہوا ۔“ 

اس حدیث کے فوائد میں مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھنے والےمحدث سیدمحمدعبد الاوّل غزنویؒ فرماتے ہیں :

”یعنی ہر چیز آپ کے جمال جہان آرا سے درو دیوار روشن اور منور ہوگئے تھے،یعنی جو نور دلوں میں آپ ﷺ کی صحبت کی وجہ سے تھا وہ گم ہو گیا،یہی حال ہے مرشد کامل اور واصل باللہ کا جب تک اس کی صحبت میں رہو تو دل پر ایک تسلی رہتی ہےاور جب یہ صحبت جاتی رہتی ہے تو پھر دل اپنےسابقہ طبعی حال پر آ جاتا ہے اور دنیا کی محبت اس میں سما جاتی ہے ولی کامل کی بڑی نشانی یہی ہے کہ جب اس کی صحبت میں بیٹھو تو اللہ تعالی یاد آئے اور دل دنیا سے نفرت کرے۔“

حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَاکی تشریح میں الشیخ علی بن سلطان محمد القاریؒ فرماتے ہیں:

”مطلب یہ ہے کہ ہمارے درمیان سے آنحضرتﷺ کے اٹھ جانے کے سبب ہم پر جو تاریکی چھائی تھی وہ ہمیں بالکل واضح محسوس ہو رہی تھی کہ ہمارے دلوں کی وہ پاکیزگی اور نورانیت جو ذات رسالتﷺ کے مشاہدہ و صحبت اورمادہ وحی کے نتیجہ میںحاصل رہتی تھی اس کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور ہمارے قلوب میں صدق و اخلاص  اور مہرو وفا کی وہ پہلی والی کیفیت باقی نہیں رہی ہے۔امام تو ربشتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ آپ کی رحلت کے بعد صحابہ اپنے دلوں میں وہ پہلی والی صفات اور الفت نہیں پاتے تھے کیونکہ وحی کا آنا بند ہو گیا تھاآپﷺ کی تعلیم و تربیت کی مجلس بھی ختم ہو گئی،اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے دلوں سے ایمان نکل گیا یہ ہر گز نہیں ہو سکتا“۔(مرقاۃ شرح مشکوۃ اردو جلد دہم ص220 مکتبہ رحمانیہ لاہور) 

صحابہ کے صحبت یافتہ تابعین کہلائے اور تابعین کے صحبت یافتہ تبع تابعین کہلائےاور یہ کیفیات ان کو صحبت سے نصیب ہوتی تھیں۔جب کیفیات کم ہوتی گئیں تو خلوص میں کمی واقع ہوئی اسی لئےعبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے کہا ابوالدرداء رضی الله عنہ سچ کہتے ہیں اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم ، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔ 

آج کے عہد کا مسئلہ

آج کے عہد کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ معلومات تو عام ہیں پرنٹ ،الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے دین کی تبلیغ بھی ہو رہی ہے اور ادھر حالت یہ ہے کہ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی “یہ جس بے عملی کی بیماری میں ہم من حیث القوم مبتلاہیں اس کا چھٹکارا ماسوائے برکات نبوتﷺ کے ممکن نہیںاوراس کاحصول کثرت ذکراورصحبت کاملین اولیائے ربانیین ہے ۔منور قلوب ہی زنگ آلودہ قلوب کو منور کر سکتے ہیں ۔برکات نبوت یعنی تصوف وہ علم ہے جوواردات قلب سے بحث کرتا ہےاور اصلاح قلب کے لئے ذکر قلبی تجویز کرتا ہے ۔

ناقدین تصوف کے نزدیک ایک بڑاعتراض طریق السلوک پر ہےمگر طریق السلوک کا آغاز خیر القرون میں ہو چکا تھا۔صوفیاء کےطریق السلوک میں پاس انفاس مشہور و مجرب ہےیعنی کوئی سانس اللہ کے نام سے خالی نہ جائےاور اپنے من کو ہمہ وقت متوجہ الی اللہ رکھا جائے ۔ قرآن کہتا ہے:

وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ ( سورة الاعراف205)

”اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں یاد کریں عاجزی اور خوف سے اور اونچی آواز کئے بغیر صبح و شام (ہمہ وقت )اور (کبھی) بھولنے والوں میں شامل نہ ہوں “۔

حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اہل جنت کےمتعلق ارشاد فرمایا:

يلهمون التسبيح والتحميد كما تلهمون النفس ”انھیں تسبیح اور حمد کا اس طرح اِلہام ہو گا جیسےتمھیں سانس آتا جاتا ہے“

(…مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی صفات الجنۃ واہلہا۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۰، الحدیث: ۱۸(۲۸۳۵،مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور اہل جنت کے حالات کا بیان ۔ حدیث نمبر 187)

 خیر القرون میں بھی پاس نفاس کا ذکر ملتا ہے:

” عبد الرحمن ابن جوزی ؒ صفۃ الصفوہ لکھتے ہیں کہ حضرت داؤد طائی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطوان بن عمرو تیمی سے پوچھا کہ کم سے کم امید کون سی ہوتی ہے؟انہوں نے کہا کہ سانس کے لگاتار آنے میں ہے ۔رستم کہتے ہیں میں نے یہ بات حضرت فضیل بن عیاض کو بتائی تو وہ رونے لگے اور فرمایا وہ سانس کا ذکر کرتے ہیں تو ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں سانس ختم ہونے سے پہلے ہی نہ مر جاؤں ۔ حضرت عطوان موت سے بہت ڈرتے تھے“ (صفۃ الصفوہ ص 91) 

خیر القرون میں قلبی کیفیات پر خصوصی توجہ دی جاتی تھیں۔ مذاکراہ حدیث کا مقصد صرف معلومات حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ تعلیمات کے ساتھ برکات نبوت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ 

”حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت صفوان بن محرز اور ان کے بھائی اکٹھے مل کر حدیثیںبیان کرتے لیکن دلی نرمی وہ نہ ہوتی چنانچہ وہ کہتے کہ اے صفوان !اپنے ساتھیوں کو تم ہی حدیث بتاؤ،اس پر وہ کہتے ”الحمد للہ“ توسب کے دل نرم ہو جاتے اور آنکھوں سے یوں آنسو ٹپکتے جیسے توشہ دان کے منہ ہوں “۔

حضرت صفوان بن محرز راویان حدیث میں سے ہیں ۔۸۴ ہجری بصرہ میں وفات پائی۔

یہ ایک مستقل موضوع ہے کہ نبی پاک ﷺ نےجب دنیا سے پردہ فرمایا تو اس کے بعداہل قال وحا ل کی کیفیات میں کیا تغیر واقع ہوا جہاں ایک طرف بعد عہد نبوی سے کیفیات میں کمی کی وجہ سے خلوص کم ہوا اور رفتہ رفتہ عبادات ایک رسم رہ گئیں۔ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی۔وہی صاحب حال لوگوں کی کیفیات میں جذب کی وجہ سے کیا کیا تبدیلیاں آئیں ۔ یہاں جمالاً او شارۃً ذکر کیا ہے۔انشاء اللہ اس موضوع پر ایک الگ کتاب”مقدمہ تصوف“ میں سیر حاصل بحث کی جائے گی یہ صفحات اس موضوع کے متحمل نہیں ،بس یہاں اتنا بتانا مقصود تھاکہ انبیاء علیہ الصلوۃ و السلام کی تعلیمات کا ایک شعبہ برکات نبوت ہے اور حقیقت میں نظام خانقاہی برکات وکیفیات کا امین ہےاگر کوئی مرشد یا شیخ برکات نبوت سے محروم ہے تو اس سے نبوت کےروحانی فیوضات وانوارات کیونکر جاری ہو سکتے ہیں؟


خفتہ دا خفتہ کے کندبیدار

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو