ANTI-ADBLOCK JS SYNC نکاح اور پاکستانی معاشرے میں شادی بیاہ کے مروجہ رسوم کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ سلیم، محمد ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

نکاح اور پاکستانی معاشرے میں شادی بیاہ کے مروجہ رسوم کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ سلیم، محمد

Abstract

The enlightened and moderated teachings of Islam empowered every one of the human society, specially the woman who used to be much oppressed in all civilizations of the world before emergence of Islam. Islam gave them an elevated status in all over the world in the status of mother, sisters, daughter and wife. It declared null and void the ignorance rules against them and, prohibited their sexual exploitation. Moreover, Islam gave a regular system of nikkah and marriages for women. The holy Prophet peace be upon him declared nikkah and marriage as his Sunnah and kept its procedure very simple. Furthermore, he described marriage as a gigantic source of achieving chastity, but today in Pakistan the marriages have been made very complex and costly because of the unIslamic customs and traditions. Those unIslamic customs became the part and parcel of the Pakistani marriages which not only made nikkah and marriage a difficult task but also devastated the economic, social and the religious life of Muslims. The Pakistani marriages are conducted with such customs of Mehndi, big congregations: Bharat, beating drums and singing songs. The article briefly discusses status of mirages in the pre Islamic era, Islamic concept and importance of nikkah and the new customs practiced in Pakistani marriages and their economic, social and religious impacts by best use of old and new resources.

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے۔


الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔1


ترجمہ :آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور ہمیشہ کے لئے دینِ اسلام کو تمہارے لیے پسند کیا ۔ 


آیتِ بالا اس بات پر شاہد ہے کہ اسلام ایک کامل و مکمل دین اورابدی ضابطہ حیات ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ا انسانیت کے لئے


پسند فرماکر اپنے محبوبِ دوجہان ،سرورِ کائنات رحمت للعالمین حضرت محمدﷺکے ذریعے دنیا کے انسانوں کو پہنچایا ،اس دین کی تعلیمات عالمی اور فطری ہیں۔ جامعیت کے ناطے اس دین کااپنا طرزِ حیات اور ہے اور یہ طرزِ حیات یا لائف پیٹرن دیگر ادیان و مزا ھب کی طرح صرف عبادات تک محدود اور مختصر نہیں ہے بلکہ یہ دین ودنیا دونوں میں کامیابی کا ضامن ہے۔اس دین نے دوسرے ادیان ومذاہب کی طرح دین ودنیا کے درمیان کوئی خلیج یا دیوار کھڑی نہیں کی ، بلکہ دنیا میں رہ کر اس دین پر عمل کرنے کا درس دیتا ہے۔


’’اسلام کے علاوہ دنیا میں اس وقت جتنے بھی مذاہب ہیں، انہوں نے دین ودنیاکے درمیان ایک دیوار کھڑی کرکے اپنے اہلِ مذہب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔اہل دنیا اور اہلِ دین لیکن اسلام میں کوئی اہل دنیا نہیں، بلکہ سب اہلِ دین ہیں، اسلام کے اسی نظریے نے دنیا کا نقشہ بد ل دیا‘‘۔2


چونکہ اسلام نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قراردیا ہے اور جو بھی اس کھیتی میں جس طرح کی کاشت کاری کرے گا ، اسی کے ثمر اور پھل کو پائے گا جیساکہ ارشادِنبوی ﷺہے کہ:


الدنیا مزرعۃ الآخرۃ۔3


ترجمہ:دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔


اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ درس دیتا ہے کہ دنیاکی اس کھیتی میں اسلامی اصولوں ا ورتعلیمات کے تخم وبیج کے ذریعے ایک ایسی کھیتی آباد کرے جس میں خوشحالی وسکون سے دنیاوی زندگی بسر ہوجائے اور آخرت میں بھی اس کھیتی کے پھلوں (نیکیوں)سے محظوظ اور لطف اندوز ہوں۔اسلام کامل مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مہذب ،شائستہ اور متمدّن دین بھی ہے اور یہ قدم قدم پر انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے، جیسا کہ حضرت سلمان فارسیؓ سے ایک مشرک نے کہا:


لقد علمکم نبیکم کل شئی حتی الخٰراۃ۔4


ترجمہ :تمہیں تمہارے پیغمبر ﷺسب ہی چیزوں کی تعلیم دیتے ہیں ،حتی کہ قضا ے حاجت کا طریقے بھی بتلاتے ہیں۔


حضرت ابو ھریرۃؓ آپ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔


قال رسول اللہ ﷺانما انا مثل الوالد لولدہ اعلمکم اذ اٗ تیتم الغائط فلا تستقبلوا القبلہ ولا تستدبروھا، وامر بثلا ثۃ اٰحجارونھی عن الروث والرمۃ ونھی اٗن یستطیب الرجل بیمنہ۔ 5


ترجمہ: آپ ﷺ نے فرمایا:میں تمہارے باپ کی جگہ ہوں اور جس طرح باپ اپنی اولاد کو چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتیں تک بتاتا ہے، اسی طرح میں بھی تم کو تعلیم دیتا ہوں جب تم میں کوئی بیت الخلاء جائے تو نہ قبلے کی طرف منہ کرے اور نہ ہی داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔


آپ ﷺ کو خود قرآنِ کریم نے یہ اعلان کرکے دنیاوالوں کے لئے ایک عظیم مثال ،نمونہ اور رول ماڈل قراردیا ہے :


لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔6


ترجمہ:حقیقت یہ کہ تمہارے لئے رسول ﷺ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔


قرآنِ کریم کے اس آیتِ مبارکہ نے دنیا والوں کو یہ واضح پیغام اور میسج دیا کہ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ اللہ کے احکامات کے عین مطابق ہے اور اس کا تقا ضا ہے کہ زندگی کےہر شعبے میں چاہے مذہبی ہو ،معاشرتی یا پھر اقتصادی ، آپﷺ کی اسوہ حسنہ اور تعلیمات نبویﷺ سے رہمنائی حاصل کی جائے۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺکے رفقاءؓ نے عالمِ انسانیت کے سامنے عملی نمونے پیش کئے، آپ ﷺ کا لایا ہوا دین اس بات پر زور دیتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں آپ ﷺ کے احکامات و تعلیمات کو اپنایا جائے اور آپ ﷺکے پیروکار بردبار ،سنجیدہ اور باوقار زندگیاں گذاریں، اسی وجہ سے آپ ﷺ کے ارشادکا مفہوم ہے:


من حسن الاسلام المراء ترکہ مالایعنیہ۔7


ترجمہ : اسلام کی خوبی یہ بندہ ہر لایعنی چیز کو چھوڑ دے ۔


انہی لایعنی،فضول اورغیرشرعی رسموں،رواجوں اورطریقوں میں پڑ کرانسان اپنی دین ودنیا کو خسارےمیں ڈال دیتے ہیں۔آپ ﷺکی حات طیبہ کو اعلیٰ مثال کے طور پر ہمارے لیے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا کہ اسی سیرت کے مطابق اپنی زندگیاں استوار کریں، آپ ﷺ نے جو امور جس طرح سرانجام دیئے، ہم بھی اسی پر عمل پیرا ہوں ۔انہی امور میں سے ایک امرنکاح یا شادی بھی ہے آپ ﷺ نے نہ صرف ازواجِ مطہراتؓ سے نکاح کئے بلکہ اپنی صاحبزادیوں اور دیگر صحابیاتؓ کے نکاح بھی کروائے جو امت کےلئےشادی بیاہ اورنکاح کےحوالےسےاعلیٰ مثال اورنمونہ ہیں۔نکاح یا شادی پر بحث سے قبل دورِ جاہلیت میں عورت جن جن ادوار سے گذری اور اس کو جو معاشرتی حیثیت حاصل تھی اور پھر بعد میں ظہورِ اسلام نے انہیں جواعلیٰ وارفع اورمعززاورمکرم مقام دلایااس پرایک اجمالی نظرڈالنامناسب ہوگا۔


مذاہبِ عالم میں عورت کی معاشرتی حیثیت اور مقام کا تاریخی جائزہ:

تاریخِ انسانی کے اوراق گردانی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیامیں جتنی مہذب متمدّن اور غیر متمدّن اقوام گذری ہیں، ان کے ہاں عورت کو کو ئی خاص معاشرتی حیثیت ،عزت اور وقار حاصل نہ تھی بلکہ عورت کو زمینوں ،جھونپڑیوں ،مویشیوں اور دیگر املاک کی طرح مشترک مال تصور کیا جاتا تھا ۔بازاروں میں ان کی منڈیا ں لگتی تھیں لونڈیوں اور کنزوں کی طر ح ان کی خریدا اور فروخت کی جاتی اوربعد ازاں وہ ان سے جنسی طورپر بھی مستفید ہواکرتے تھے غرض ان پر انسان سوزظلم وجور کیے جاتے تھے ۔’’ہر جگہ صنف نازک مردوں کے ظلم وجور کے شکار بنی ہوئی تھی ۔مرد ،مرد نہیں بلکہ نازک وکمزور صنف کے مقابلے میں جنگل کا درندہ تھا ۔کرّۂ ارض کی انسانی بستیوں کا یہ عام رواج تھا، اس سلسلے میں شائستہ وناشائستہ متمدّن وغیر متمدّن اقوام وافراد میں سچ پوچھئے تو چنداں فرق باقی نہ رہاتھا۔ چوپاؤں اور گھر کے دوسرے سامان کی طرح عورتیں خریدیں جاتی تھیں، مرد عورت پراپنی نفسانی خواہشوں کے لئےجبر وتشدد پر اتر آیا،حد یہ ہے کہ عورتوں کو بد کاری کے پیشے تک اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا، یعنی اپنی ہوس رانیوں کا ذریعہ بنانے کے ساتھ ساتھ زرکشی کاذریعہ بھی مردوں نےان غریب عورتوں کوبنالیاتھا۔8


یونانی تہذیب اور عورت:

یونانی تہذیب جو سب سے زیادہ خوشحال نظر آتی تھی، یونانی تھزیب میں ابتدائی دور میں عورت کو نسبتاًکچھ معاشرتی حیثیت حاصل تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ وہاں بھی عورت کو کم درجہ کی مخلوق سجھا جانے لگا اس کی زبوں حالی کانقشہ مشہور غیر مسلم مؤرخ ڈاکٹرگستاؤلی بان یوں بیان کرتے ہیں کہ:


’’یونانی عموماً عورتوں کو ایک کم درجہ کی مخلوق سمجھتے تھے، اگر کسی عورت کا بچہ خلافِ فطرت پیدا ہوتا تو اس کو مار ڈالتے‘‘۔9


ایرانی تہذیب میں عورت کا مقام :

ایرانی تہذیب میں بھی اس حوا کی بیٹی کی عزت تار تا ر تھی، عورت کو کوئی انسانی اور نبیادی حقوق حاصل نہ تھے، بلکہ اس کو بھی دیگر تہذیبوں کی طرح لونڈی ،غلام اور مشترکہ املاک کی حیثیت حاصل تھی اور جب چاہے جس کو چاہے اٹھا کر فروخت کیا جاتا تھا، بسا اوقات دوسری دنیاوی اشیاء سے اس کا تبادلہ بھی کیا جاتا تھا، اس سے جنسی تعلق یا نکاح کا کوئی باقاعدہ عقد ونکاح کا تصور نہیں تھا، بلکہ مرد اسے مشترکہ املاک کے نظریے کے مطابق ہر ایک اس سےاپنی جنسی ہوس کی تسکین کرتاتھا۔


’’عورت کے مشترکہ املاک کے نظریہ کابانی’’مزدک ‘‘تھاجو 487ء کو ایران میں پیدا ہوا، اس نے یہ دعوت دی کہ تمام انسان یکساں پید ا ہوتےہیں،ان میں کوئی تفریق نہیں،لہٰذا زن،زراور زمین سب کی مشترک ہیں‘‘۔10 جبکہ مشہور چینی سیاح ہیوں سانگ کہتے ہیں ’’ایرانی قانونِ معاشرت میں ازدواجی تعلقات کے لئے کسی رشتہ کا استثنیٰ نہیں تھا جن رشتوں سے ازدواجی تعلقات متمدّن معاشروں اور سماجوں میں ہمیشہ غیر قانونی رہے ہیں، ایرانی معاشرے میں ان کی حرمت کابھی پاس ولحا ظ نہ تھا‘‘۔11


یہود ی تہذیب میں عورت کامقام:

یہودی روایات کے مطابق عورت ناپاک وجود ہے اور اس کائنات میں مصیبت اس کے سبب ہے ان کے نزدیک مرد نیک سرشت اور حسن کردار کا حامل اور عورت بد طینت اور مکار ہے، کیونکہ اس نے آدم کوبہلا پھسلا کرپھل کھانے پر آمادہ کیا، جسے اللہ نے منع کی تھا۔ 12


ہندوستانی تہذیب میں عورت کامقام:

ہندو دھرم میں عورت سب سے زیادہ ظلم کی چکی میں پستی تھی، اسے سوسائٹی میں جانورسے بھی بدتر سمجھاجاتاتھا، اگر اس کا شوہر مرجاجاتا تو اسےاپنے شوہر کی چتا میں جلنا پڑتا۔’’ہندومت میں عورت کو سرکشی کی صفات کا مجموعہ ،متلون مزاج ،مردوں کو بہکانے والی، جھوٹی ،مکار ،احمق اور ظالم قراردیا گیا۔عورت کو شودروں کےزمرےمیں شامل کیا گیااوران کے ساتھ اس سےبھی (پاپایانی)یعنی گناہگارقراردیاگیا‘‘13۔جبکہ تمدنِ عرب میں ڈاکٹر تارا چند ہندوعورت کی حالتِ زارکے متعلق لکھتے ہیں’’ہندو مت کا قانون کہتا ہے تقدیر،طوفان،موت،جہنم زہر ،زہریلے سانپ ان میں سے کوئی اس قدر خراب نہیں جتنی عورت ہے‘‘۔14


عیسائی تہذیب میں عورت کا مقام :

عیسائیت میں بھی عورت کو منحوس ،گناہ کا منبع اور شیطان کی ایجنٹ کہاگیا، ترتولیاں جو ابتدائی دور کی مسیحی شخصیات میں سے تھا کہتا ہےکہ:’’عورت شیطان کےآنے کا دروازہ ہے۔وہ شجر ممنوعہ کی طرف لےجانے والی،خدا کےقانون کوتوڑنے والی اورخدا کی تصویر،مرد کو غارت کرنے والی ہے‘‘۔15


قبل از اسلام عرب معاشرے میں عورت کا مقام :

جس طرح دیگر اقوامِ عالم میں عورت ایک مظلوم ہستی تھی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کرتی تھی عرب جاہلی معاشرے میں بھی اس کو وہی حیثیت حاصل تھی، عورت کو ایک نیچ اور گھٹیا مخلوق تصور کیا جاتاتھا اور اسے قبیلےکیلئےباعثِ بد نامی اور رسوائی خیال کیا جاتا تھا، یہی وجہ تھی کہ عرب عورت کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے، اس کے کسی سے نکاح کو اپنے لیے خلافِ غیرت سمجھتے اور کوشش کرتے کہ لڑکیاں جوان ہونے سے پہلے زندہ درگور کردی جایں، قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی منظر کشی کچھ یوں فرمائی ہے:


واذا بشراحدھم بالانثیٰ ظل وجھہ مسوداً وھو کظیم،یتواریٰ من القوم من سوء مابشر بہ ایمسکہ علی ھونٍ ام یدسہ بتراب۔ 16


ترجمہ:ان میں سے جب کسی کو بیٹی پیداہونے کی خبر دی جاتی تو سارے دن اس کا چہرہ بے رونق رہتا اوروہ دل میں گھٹتا رہتا جسے بیٹی کی ولادت کی خبر دی گئی، اس عار سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرے (اور اس سوچ میں پڑ جائے کہ )ذلت برداشت کر کے اس کو رکھے یا مٹی میں گاڑ دے(تاکہ ذلت سے نجات ملے )۔

اسلام میں عورت کا مقام :

جب ظلمت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ پنجے گاڑ چکی تھی، کمزور ،ناکس اور لاچار عورت کا کوئی سننے والا نہیں تھا،ظلم سے سینے ٹھنڈے کیے جاتے اور اس پر فخر کیا جاتا تھا۔اس وقت بھی یہ صنفِ نازک اورحوّاکی بیٹی پر ظلم وجور کئے جاتے تھے اورعورت ظلم کی چکی میں پس رہی تھی تو عین اسی وقت اسلام کی نورانی کرنوں نے اس ظلمت کدہ کو صبحِ سعادت سے ہم آغوش کیا، انسانیت سے دھول اٹھائی گئی اسے اعلی مقام دیا گیا اور اس کی ہر ہر روپ کو اعلیٰ وارفع وحیثیت دی عطا ہوی اسلام نے اس مظلوم کو وہ مقام بخشا کہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ گذراتھا، اس کو جنت کا دروازہ ،علم ومیراث کی حقدار ٹھراتے ہوئے اسے گھر کی حور قراردیاگیا اور جو ظلم اس کو زندہ درگور کرنے کی شکل میں ہورہاتھا سب سے پہلے اسے غیرانسانی قراردیکر اس کو کالعدم قراردیاگیا جیساکہ ارشاد ربانی ہے:


ولاتقتلوا اولادکم خشیت املاقٍ نحن نرزقھم وایاکم ان قتلھم کان خطئاً کبیراً۔17


ترجمہ:تم اپنی اولاد کو ناداری کی اندیشے سے قتل نہ کرو ہم ان کورزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بیشک انہیں قتل کرنا بہت بھاری گناہ ہے ۔


اسلام نے عورت کو ماں کی حیثیت میں جو اعلیٰ رتبہ اور مقام عطا فرمایا، اس کی نظیر کسی الہامی اور غیر الہامی مذہب یا جمہوری یا غیر جمہوری نظام میں نہیں ملتی، اللہ تعالیٰ نے انسان پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا رکھا ہے اور یہ حق درجے میں دوسرے حقوق سے بالاتر ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کے سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے تین مرتبہ ماں کے حق کا بتایا اور چوتھی مربتہ والد کا بتایا گیا رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:


جاء رجل الی رسول اللہﷺفقال یارسول اللہ من اٗحق الناس بحسن صحابتی؟یعنی صحبتی،قال،امک، قال:ثم من ؟ قال امک، قال ثم من ؟ قال امک قال ثم من ؟ قال ابوک ۔18


ترجمہ: ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیری والدہ کا،پھر پوچھا ، پھر کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیری والد ہ کا ، پھر پوچھا کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیری والدہ اور چوتھی بار بوچھا پھر کون آپ ﷺ نے فرمایا تیرے والدکا ۔


اسی طرح آپ ﷺ نے عورت کو بیٹی کی صورت میں اللہ کی رحمت قراردیا اور کہا کہ جو دو بیٹیوں کی صحیح تربیت کرے اور ان کا نکاہ کرا دے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔


عن عائشہؓ قالت جاء ت امراۃ و معھا بنتا ن تسالینی فلم تجد عندی شیاء غیر تمرۃ واحدہ فاعطیتھا ایا ھا فشقتھابین ابنتیھا و لم تاکل منھا شیاء ثمہ قامت فاخرجت ھی وانبتا ھا فدخل علی رسول اللہﷺعلی تفیئتہ ذلک فحدثتہ حدیثھا فقال رسول اللہ ﷺ من ابتلی من ھذا البنات بشیء فا احسن ء الیھن کن لہ سترہ ۔19


اسی طرح آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے عظیم الشان موقع پرجہاں دیگر جاہلانہ رسومات کو یک جنبش قلم ختم کیا اور ہر مظلوم کی داد رسی کی،وہاں آپ ﷺ نے عورت کے حقوق سے مسلمانوں کو اگاہ فرما اور اسے تفصیلاًبیان فرمایا۔آپ ﷺ نے فرمایا:


فاتقو اللہ فی النساء فانکم اخذ تموھن بامان اللہ واستحللتم فروجھن بکلمۃ اللہ ولکم وعلیھن ان لا یوطئن فروشکم احدتکرھونہ،فان فعلن ذلک فاضربوھن ضرباغیرمبرج،ولھن علیکم رزقھن وکسوتھن باالمعروف ۔20


ترجمہ:اے لوگو!عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات (احکام )کے تحت وہ تمہارے لیے حلال ہوئیں، خبردار !تمہارے لیے عورتوں سے نیکی کی وصیت ہے کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور اس کے سوا تم کسی معاملے میں حقِ ملکیت نہیں رکھتے سنو! تمہاری عورتوں پر جس طرح کچھ حقوق تمہارے واجب ہیں، اسی طرح تمہاری عورتوں کے بھی تم پر کچھ حقوق ہیں۔


اس طرح اسلام نے عورت کو نہ صرف یہ کہ معاشرے میں اعلیٰ وارفع مقام دیا بلکہ اس کو تمام معاشرتی ،معاشی اور سماجی حقوق بھی دیئے اسلام نے جہاں عورت کو میراث میں حصہ دار ٹہراہا ، وہاں عورت کو یہ بھی حق دیا کہ وہ اپنا نکاح اپنی رضا مندی سے کرے، یا پھر اپنے ناپسندیدہ شوہر سے خلع لیے سکتی ہیں۔’’عبدالرحمن بن یزیدؓ اورحجمع بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں ایک آدمی جو خذام کے نام سے مشہور تھا اس نے اپنی بیٹی کی شادی کی اور اس لڑکی کو یہ شادی پسند نہ آئی،چنانچہ وہ سرورِ دو عالمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور اس رشتے سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، رسول اللہ ﷺنے اس کے باپ کے اس کیے ہوئے رشتے کو باطل قراردے دیا اور پھر اس عورت نے ابو لبابہ بن عبدالمنذرؓ سے اپنی رضامندی سے شادی کرلی ۔ 21


اسلام سے قبل اقوامِ عالم میں نکاح تصور:

ظہورِ اسلام سے قبل اقوامِ عالم میں عورت سے نکاح کا کوئی باقاعدہ اور طے شدہ نظام نہیں تھا اگر چہ شروع شروع میں جب یونانی تہذہب ترقی کی منازل طے کررہی تھی، اس وقت بیاہی عورت کو معاشرے میں کچھ حیثیت حاصل تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ اس تہذیب میں بھی عورت کے ساتھ وہی سلوک کیاگیاجودوسرےمعاشروں میں ہوس پرست لوگ کرتےتھے۔


’’اہلِ یونان پر نفس پرستی اور شہوانیت کا غلبہ شروع ہوا اور اس دور میں بیسوا طبقہ کو وہ عروج نصیب ہو ا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، طوایف کا کوٹھا یونانی سوسائٹی کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقوں تک ہر ایک کا مرکز ومرجع بنا ہواتھا ۔فلاسفہ، شعراء ،مؤرخین ،اہلِ ادب اور ماہرینِ فنون غرض تمام سیارے اس آفتاب کے گرد گھومتے تھے ۔وہ نہ صرف علم وادب کی محفلوں میں صدر نشین تھی بلکہ بڑے بڑے سیاسی معاملات بھی اسی کے حضور طے ہوتے تھے، قوم کی زندگی اور موت کا فیصلہ جن مسائل کے ساتھ وابستہ تھا ان میں اس عورت کی رائے دقیع سمجھی جاتی تھی ،عام طور پر یونانی نکاح کو غیر ضروری رسم سمجھنے لگے تھے اور نکاح کئے بغیر عورت اور مرد کا تعلق بالکل معقول سمجھاجاتاتھا، جسے کسی سے چھپانے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔22


ہندوستانی معاشرے میں نکاح کاتصور قدیم:

قدیم ہندوستانی معاشرے میں بھی عورت کوایک مشترکہ غلام اور لونڈی کی حیثیت حاصل تھی جس سے بیک وقت دس دس مرد جنسی طور پر مستفید ہواکرتے تھے ستیارتھ پرکاش کے مطابق ہندوؤں میں اس وقت آٹھ قسم کی شادیاں پائی جاتی تھیں ۔


’’خاندان یا چند بھائیوں کی مشترکہ بیوی کا رواج ہندوستانِ کی قدیم معاشرےکا ایک جانا پہچانارواج تھا‘‘۔23


قبل از اسلام عربوں میں نکاح کاتصور :

حضرت عائشہؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ عربوں میں قبل از اسلام چار قسم کی شادیاں پائی جاتی تھں ۔’’ایک طریقہ تو یہی تھا جو آج رائج ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مرد اپنی عورت کو اس بات کی اجازت دیتا کہ جاکر کسی حسین وجمیل اور خوبصورت غیر مرد سےحاملہ ہوجائے تاکہ اچھی تخم حاصل ہواس طرح جب تک اس کا حمل ظاہر نہ ہوتا،وہ اسی پرائے مرد کے ساتھ رہتی اور جب حمل ظاہر ہوتا تو اپنے شوہر کے پاس واپس آتی ، اس نکاح کو نکاحِ استبضاع کہا جاتا تھا، تیسری قسم کی شادی یا نکاح یہ تھا کہ دس سے کم لوگ ایک عورت سے جنسی تعلق قائم کرتے جب عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وہ عورت ان سارے مردوں کو جو اس سے وطی کیا کرتے تھے، ان ہی میں سے ایک مرد کو اس بچے کا والد قراردیتی اوراس سے کہتی کہ یہ تیرا بچہ ہے ،تم اپنی مرضی سے اس کا نام رکھو چناں چہ ،یہ لڑکا اس کا ہوجاتا، جس کاوہ عورت نام لیتی تھی اور مرد انکار نہیں کرسکتا تھا ۔چوتھی قسم کی شادی اس طرح سے ہوتی کہ کچھ عورتیں ایسی ہوتی تھی جن کے گھروں کے دروازوں پر جھنڈے لگے رہتے تھے، یہ بازاری پیشہ ور عورتیں ہوتیں تھیں، جس کا جی چاہتا ان کے پاس جاتا جب ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو تمام لطف اندوز ہونے والے لوگ جمع ہوتے اور قیافہ شناس بلایاجاتا اور وہ اپنے علم پر جانچ کر کے ا س بچہ کو ان مردوں میں جس کا کہہ دیتی وہ بچہ اسی کا ہوجاتا اور مرد انکارنہیں کرسکتاتھا‘‘۔24


حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے ان ناجائز صورتوں کوناجایزقراردیتے ہوئے ان کے سدباب کا حکم دیا :


فلمابعث محمد ﷺبالحق ھدم نکاح الجاھلیۃ کل الانکاح الناس الیوم۔25


ترجمہ :محمد رسول اللہ ﷺجب حق لے کر مبعوث ہوئے توآپ ﷺنے جاہلی نکاحوں کو بندکیا ،اس نکاح کو باقی رکھا جو آج رائج ہے۔


اسلامی نظریہ نکاح اور اسکی حقیقت:

اسلام میں نکاح کو ایک باقاعدہ حیثیت دی گئی اور آپ ﷺ نے اسے نہ صرف ایک معاشرتی معاملہ قراردیا، بلکہ اس کو عین مذہبی اور دینی امر بھی کہا گیا اور استطاعت کی صورت میں نکاح کو لازم اور تکمیلِ ایمان کا حصہ قراردیا گیا، استطاعت کے باجود نکاح نہ کرنے والوں کو بد ترین مخلوق اور شیطان کا بھائی قرار دیاگیا، قرآنِ کریم نے عورتوں کے نکاح کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :


وانکحوالایمی منکم والصالحین من عبادکم وایمائکم ان یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ۔26


ترجمہ:تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں)کا اس وقت نکاح نہ ہو، انکا بھی نکاح کراواور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قا بل ہوں، انکا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں بے نیاز کر دیگا۔


اسی طرح آپ ﷺ نے نکاح کو اپنی سنت قراردیا اور اس کی ترک کرنےوالے سے لاتعلقی کا اظہار کیا آپﷺنے فرمایا:


النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔27


ترجمہ:نکاح میری سنت ہےجواس سےاعراض کرےوہ مجھ سےنہیں۔


امام مالک آپ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں :


من تزوج فقداستکمل نصف الایمان فلیتقل اللہ فی النصف البا قی ۔28


ترجمہ :جس نے نکاح کیا اس نے نصف ایمان کو مکمل کیا، باقی نصف میں وہ اللہ سے ڈرتارہے ۔


عن ابو ذر قال الرجل يقال له عکاف بن بشر التميمي، فقال له النبيﷺ يا عكاف الك  زوجة؟ قال:لا.قال ولا جارية؟ قال:ولا جارية،قال و انت  مو سر؟ قال:وانا موسر بخير.قال انت من اخوان الشياطين،لو كنت من الانصاري لكنت من  رهبانهم.ان من سنتنا النكاح و شراركم عزابكم و اراذل موتاكم عزابكم۔29


ترجمہ: حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت عکافؓ سے فرمایا :اے عکاف! تیری بیوی ہے؟ انہوں نے عرض کیا نہیں آپ ﷺنے فرمایا:اور تو مالی و سعت رکھتا ہے؟ انہوں نے عرض کیاجی ہاں میں مالی ووسعت والاہوں ،آپ ﷺنے فرمایا تو اس حال میں شیطان کے بھائیوں میں سے ہے،اگر تو نصاریٰ میں ہوتا تو ان کا راہب ہوتا بلاشبہ نکاح کرنا میرا طریقہ ہے،تم میں بدتر وہ لوگ ہیں جو بے نکاح ہیں، کیاتم شیطان سے لگاؤ رکھتے ہو شیطان کے پاس عورتوں سے زیادہ کوئی ہتھیار نہیں ۔


اس طرح آپ ﷺنے حدیثِ بالا میں نکاح کو استطاعت ہونے کی صورت میں فرض قراردیا اور جواس سےاعراض کرے انہیں شیطان کے بھائی اور بدترین مخلوق کہا گیا ہے۔ اسی طرح ایک موقع پر آپ ﷺنے حضرت علیؓ سے فرمایا :


یاعلی ثلٰث لاتوخرھا الصلٰوۃ اذااتت والجنازۃ اذاحضرت والایم اذاوجدت لہا کفواً۔30


ترجمہ:اے علی ! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو ایک تو نماز جب اس کا وقت آجائے دوسرا جنازہ جب وہ تیارہو جائے تیسرا اور نوجوان لڑکی جب اس کا کفو موجود ہو۔


مذکورہ بالا آیات قرآنی اور حدیث مبارکہ سے واضح ہے کہ نکاح ایک بہت ہی اہم دینی اور مذہبی فریضہ ہے جو استطاعت کی صورت میں قائم کرنے سے دنیا اور آخرت کی فواید پر مبنی ہے اور ترک کرنے کی صورت میں باعث عتاب الہی ہے۔


عصر حاضر میں نکاح اور اس میں ادا کی جانے والی غیر شرعی رسومات:

شیطان جب بارگاہ الہی سے انکار سجدہ لا آدم مردود ٹہرا تو اسی وقت قسم اٹھائی تھی کہ اے اللہ میں تیرے بندوں پر دائیں سے آونگا بائیں سے آونگا شمال سے آونگا، جنوب آؤنگا اور تیرے بندے یعنی بنی آدم کو تیری راہ سے گمراہ کرو نگا آج بھی شیطان اپنی مشن پرپوری مستعدی اور یکسوی کے سات مصروف عمل ہے اور بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے شیطان و نفس نے زندگی کے تمام شعبوں: عبادات ،معاملات ،احکامات، اور طریقوں میں یہود و ہنود اور عیسائیوں کے طریقوں کو مسلمانوں کے ذہنوں میں جدت پسندی اور ماڈرنزم کے نام سے بٹا دیا گیا ہے اور سنت کو (نعوذباللہ من ذالک) دقیانوسی اور جاہلانہ طریقہ سمجھا دیا گیا ہے ۔ اسی طرح شیطان اور نفس نے دوسرے شعبوں کی طرح نکاح اور شادی میں بھی مسلمانوں پر خرافات و رسومات کے دروازے کھول دیے ہیں، مسلمانوں کو کبھی تو مجوسیوں کی اختراع کردار سمی دی مہندی کے چکر میں ڈالا تو کبھی تو ڈھول باجے اور ناچ گانوں سے ان کا دل بہلا یا ، نکاح جو ایک خالص اسلامی معاشرتی فریضہ تھی جو کہی فوائد کامنبع تی جس کو آپ نے اپنی سنت قرار دے کر اسے نصف دین کی نوید سنائی تھی ،آج وہ شادی سوائے خطبہ نکاح اور ایجاب و قبول کے علاوہ ساری ہندوؤں اور عیسائیوں کی شادی بن گئی آج شادی کا معیاردین نہیں بلکہ علی حسب و نسب، دولت توا توانگری اور حسن عمرہ بن گی ہے ،سیرت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی بس معیار تو رہا کی لڑکی زیادہ سے زیادہ جہیز لائے، اونچے گھرانے سے بیا ہی جائیے اور وہ حسین وجمیل ہو اورسرتن چڑیل ہی کیوں نہ ہو آج کل کی شادیوں سے دین کا جنازہ نکل گیا اور سنت اجنبی ہو کر رہ گئی نتیجتا لوگ اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں اور نت نئے ہندوؤں اور عیسائیوں کے طریقے یاد کیے جارہے ہیں لازم اس طرح اس کا نتیجہ خسر الدنیا والآخرہ پر منطبق ہو گی ہے، آج انہیں خرافات اور رسومات کی وجہ سے شادی ایک عذاب بن گئی ہے جس کی وجہ سے شادی مشکل اور زنا آسان ہوگیا آج معاشرے میں لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے نکاح گھوم رہے ہیں اور قسم قسم کے گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہیں جن میں زنا، لڑکیوں کا گھروں سے اپنے معاشقوں کے ساتھ بھاگنا ،کوٹ مرجز کرنا اور خودکشی عام ہوگئی ہیں اگر شادی ہوتی بھی ہے تو ان رسومات کی ادائیگی سے خاندان نسل در نسل سودی قرضوں میں دب جاتے ہیں اور پھر ان کی ادائیگی کرتے کرتے کہیں نسلی معاشی طور پر تباہ ہو جاتی ہیں۔ جو غیر شرعی رسومات سر انجام پا رہیں ہیں اگر ا نکو گننا شروع کریں تو انسان تک جائے اور کتابوں کے اوراق بھر جائیں ۔ یہ رسومات ملک ،صوبے اور علاقے کی سطح پر مختلف ہوتے جاتے ہیں کچھ رسومات خاص قبائلیوں اور برادریوں میں پائے جاتے ہیں آنے والی سطور میں ان رسومات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک تحقیقی و علمی جائزہ پیش کیا جارہا ہے جو کہ پاکستان کے چپے چپے میں شادی بیاہ کا جزلا ینفک سمجھے جاتے ہیں ، جن کی تکمیل اور ادائیگی کے بغیر شادی بے خوشی ہوجاتی ہے اورفعل بد سمجھا جاتا ہے، ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔


جہیز کی رسم :

اگرچہ بعض امور دین اسلام میں مباح اور مستحب ہوتے ہیں اور دن میں ثابت ہوتے ہیں لیکن اگر ان امور کی ادائیگی میں غلو اور افراط اور تفریط سے کام لیا جائے تو بھی وہ مضموم اور قبیح بن جاتے ہیں اس کی ایک خاص مثال آج کل کی شادیوں میں لڑکیوں کو دی جانے والی جائز ہے آجکل پہلے تو لڑکی سے اسی وجہ سے نکاح ہوتی ہے کہ وہ تو کسی رائس، سردار، وڈیرہ ،مشرف ،ملک، خان اورچوہدری کی بیٹی ہے اسے خاص معاشرتی سٹیٹس سے رتبہ حاصل ہے اسی طمع اورامید پر اس سے نکاح کیا جاتا ہے اور بسا اوقات تو لڑکے والے باقاعدہ جہیز کی لسٹ لڑکی والوں کو فراہم کرتے ہیں افسوس یہ رہی غیرت اور یہ رہی مردانگی کی اپنی بیوی سے شادی میں زیادہ سے زیادہ سامان لوٹنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے رسول اللہ  نے فرماتے ہیں :


ان المراة تنكح  لدينها ومالها وجمالها و عليك بذات الدين تربت يداك۔31


ترجمہ :عورت سے نکاح اس کی دین کی وجہ سےیا اس کی مال کی وجہ سے یا اس کے حسن کی وجہ سے کیا جاتا ہے اوراے (جابرؓ) تم اس کے دین کی وجہ سے نکاح کرو۔


آج اس فرسودہ رسم کی وجہ سے کتنی جوان لڑکیاں اپنے گھروں میں شادی کی امیدیں دل میں بسائے بوڑھی ہورہی ہے اور اس کی جوانی جو اسے کے شوہراور خاندان بسانے کے لیے تھی ،با جان کے گھر گزر جاتی ہے۔


رسم مہندی:

مشہور ہے کہ یہ غیر شرعی اور ہندوستانی رسم دراصل ایران کی مجوسیوں نے ایران سے شروع کی تھی اور پھر آہستہ آہستہ ہندوستان سے ہوتے ہوئے مسلمانوں میں پیوست ہوگئی۔"یہ رسم بھی ہندوانہ رسم ہے لیکن جوں جوں پاکستان میں مسلمانوں کے ہاتھ دولت آئی ہے اب یہ رسم میں ہندوں سے چار قدم آگے بڑھ گئے ہیں‘‘۔32


آج کل اصلی شادی سے پہلے مہندی کی شکل میں ایک چھوٹی شادی ہوتی ہے جس میں دولہا کی طرف سے سینکڑوں جوان لڑکیاں عموما رات کےوقت دلہن کے گھر اسے مہندی لگانے جاتے ہیں اور ایک خاص اور قیمتی جوڑا مہندی کی رات دلہن کو پہنایا جاتا ہے۔اسی طرح دلہن والے بہت سارے غیر محرم لڑکیوں کو دلہا کے پاس ا سے مہندی لگانے کے لیے بھیجتے ہیں تمام بے حیائی، بے پردگی اور بے غیرتی کی حدیں عبور ہوتی ہیں جب غیر محرم لڑکیاں دولہا کو مہندی لگاتے ہیں اس طرح نہ صرف اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود پامال ہوتے ہیں بلکہ دنیاوی اسراف اور لغویات کا سبب بنتے ہیں جس کی مذمت قرآن کریم میں اس طرح بیان ہوا ہے:


ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین۔33


ترجمہ: فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔


باجے بجانا، گانے گانا،ناچنا،اور ویڈیوبنا نا،ڈول اور باجے بجانا اور ان کے گرد غیر محرم مردوں اور عورتوں کا اختلاط بنگڑے ڈالنااوررقص کرنا اور پھر ان کی ویڈیوز موویز بنانا آجکل کی شادی میں سب سے زیادہ یہی بے حیا اور قبیح رسومات ہوتے نظر آتے ہیں جس میں ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ناجائز تعلقات اور دوستیاں بنانے کا بھرپور موقع فراہم ہوتا ہے اسی طرح ہمارے جوان نسل گمراہی کی راہ پر پروان چڑتے ہیں اور اسکے نتی جے میں آج کے معاشرے میں خاندانی بد نامیاں، فساد اور جھگڑے برپا ہوتے ہیں اگرچہ اسلام نے صحیح اور جائز خوشی کے موقع پر دف بجانے اورسر، باجے کی بغیر گیت گانے کی بھی ایک محدوداجازتدی ہے بشرطیکہ غیر محرم مردوں اور عورتوں کا باہمی اختلاط نہ ہو لیکن آج کل جس بے حیائی اور بے پردگی سے یہ غلط رسومات ادا کیے جاتے ہیں یہ سب کے سب غیرشرعی اور حرام ہیں خود آپﷺنے فرمایا :’’اللہ تعالی نے مجھے ہدایت کے واسطے رسول بنایا اور مجھے حکم دیا کہ تمام دنیا سے راگ اور باجے مٹا دو‘‘34۔ ایک اور جگہ پر آپﷺارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’میری امت سے ایک قوم کےلوگ آخرزمانےمیں مسخ ہوکر سوراوربندرہوجائیں گے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نےدریافت کیا۔یہ لوگ مسلمان ہو گے؟ حضورﷺنے فرمایا یہ لوگ مسلمان ہو گے خدا کی واحدانیت اور میری رسالت کے شاہد اور گواہ ہونگے اور روزہ بھی رکھتے ہوں گے مگر یعنی آلات لہوباجاوغیرہ بجائیں گےاورگاناگائیں گےاورشراب پیں گےتو مسخ کردیئےجائیں گے‘‘۔35


دولہا کو سہرا باندھنا ،نوٹوں کا ہار پہنانا اور گھوڑے یا کار میں سوار کرنا:

ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمان پرائی تہذیبوں سے متاثر ہوکر عہد جاہلیت کی پرانی رسمیں اپنا رہے ہیں، تاریخ اس بات پر


گواہ ہے کہ یہ تمام غیر شرعی رسمیں جو آجکل سرانجام دیے جارہے ہیں ان کی اصلیت اور بنیاد یا تو ایرن کی مجوسیوں نے ڈالی یا پھر ہندوستان کے بت پرستوں نے لیکن عقل تو مسلمان کا مارا گیا ہے کہ نہ صرف اپنی رسمے سمجھنے لگے ہیں بلکہ ان کی ادائیگی کے بغیر شادی منعقد ہی نہیں کرتے شادی والے دن دلہا اور عروسی لباس پہن لیتا ہے تو اس کے سر پر سہرا باندھ لیا جاتا ہے گویا یہ بھی ایک جزء لاینفک ہے’’بعض روایات کے مطابق یہ رسم سب سے پہلے ایران کے آتش پرستوں نے ایجاد کی تھی آتش پرست اس کو پنجہءافتاب کہتے ہیں کیونکہ جب دلہا بہترین لباس پہن کر سہرا سر پر سجاتا ہے تو اس کا چہرہ سورج کی روشنی کی طرح چمک اٹھتا ہے‘‘36۔علاقائی اعتبارسے سہرا کا رسم مختلف شکلوں میں پایا جاتا ہے جیسے سندھ میں سندہی ٹوپی، بلوچوں میں پھاگ اور پٹھانوں میں لنگی باندھنے کا رواج ہے، سہرا باندھنا کے بعد دلہا کو دلہن کی امی،بہنیں اور دیگر رشتہ دار نئے نوٹوں کے ہار پہناتے ہیں جس میں پردے کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا، بعض اوقات یہ ہاراتنے زیاذہ ہوجاتے ہیں کہ دلہا کا سانس گھٹنے لگتا ہے اور اسے مجورا ہار گلے سے اتا رنے پڑتے ہیں، اسکے بعد دلہا کو گھوڑے پرسوار کیا جاتا ہے لیکن آج کل اس کی جگہ کار نے لے لی ہے مذکورہ کار کو خوب سجایا جاتا ہے ۔ یہ سارے بے بنیاد اور غیر شرعی رسمیں ہیں جن پر آج مسلمان اپنا قیمتی سرمایہ خرچ کرکے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ناراض کرتے ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا:


من تشبہ بقوم فہو منہم ۔37


ترجمہ :جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہوگا۔


بڑی بڑی باراتی لےجانا اوردلہن کوقرآن کےسایہ میں روانہ کرنا

انسان کی جان و مال کا تحفظ کرنا اور اس کیلئے آسانی پیدا کرنا اس دن کا طرہ امتیاز ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام ہر ایک پر اپنے اپنے وقت کو اس کا حق دلاتا ہے تاکہ معاشرہ پر امن اور اس پرسکون رہے اسی وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا:


اذاخطب الیکم من ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ؛ الا تفعلوا تکن فتنۃ فی الارض وفساد عریض۔38


ترجمہ : جب تمہارے پاس ایسے شخص کا رشتہ آیا جس کی دینداری اور امانت داری پسندیدہ ہو تو اس کے ساتھ شادی کرا دو اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فساد واقع ہوگا۔


یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہے کہ جب لڑکی عمر بلوغت کو پہنچے تو کفو ملنے پر اس کا نکاح کر دینا چاہیے اور دو چار افراد کے ساتھ مختصر جہیز کے ہمراہ اس کو اپنے خاوند کے گھر پہنچا دینا چاہئے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنی کتاب اصلاحی رسول میں حضورﷺ کی لاڈلی صاحبزادی کی رخصتی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’حضور ﷺ نے حضرت فاطمہ کو ام ایمن کے ہمراہ حضرت علی کے گھر بھیج دیا‘‘۔ 39


یہ دونوں جہانوں کے سردار کی صاحبزادی کی رخصتی تھی جس میں نہ سینکڑوں باراتیوں کا آنا تھا اور نہ قرآن کے سائے اس کو رخصت کیا گیا تھا دوسری طرف ہمارے سینکڑوں غیر محرم مردوں وعورتوں پر مشتمل بارات کی قافلے ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالی کے احکامات کی کھلی خلاف ورزیاں ہوتیں ہیں ان قافلوں میں پردہ نام کی کوئی چیز نہیں رہتی، نمازیں قضا کی جاتی ہیں نیز غیر محرم مردوں کے سامنے ڈھول اور دف بجایا جاتا ہے گیت گائے جاتے ہیں جو اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔


خلاصہ:

اللہ تعالی یہی چاہتےہیں کہ ہم صرف اسی کی بندگی کریں اورسرور کائناتﷺکی سنتوں کوزندگی کے تمام شعبوں میں اپنے لیے مشعل راہ بنائیں، اپنی جان، مال اور زندگی کو اسی کے رضا کے مطابق بنائیں۔ اس طرح ہی ہم اللہ کی رضاو رضوان سےسعادتمند ہوسکتے ہیں۔ آج جبکہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں غیروں کی پیروی کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں، شادیوں میں لغواور فضول رسموں کی تکمیل ہوتی ہے ان سے توبہ تائب ہوجائیں، اپنی عورتوں کو سمجھائیں کہ ان سے نہ صرف ہماری دنیاوی زندگی مشکلات سے ہمکنار ہو رہی ہے بلکہ تارک سنت ہوکر غضب الہی کا بھی مستحق بن رہے ہیں اللہ تعالی ہمیں اپنے محبوب پیغمبرﷺکی کامل اتباع نصیب فرمائے ۔


حوالہ جات

1المائدہ3:5


2 ظفر ، محموداحمد ،حکیم ، اسلام کا معاشرتی نظام ، بیت العلوم ،لاہور، س ن ،ص15


3http://fatwa.islamweb.net/


4القشیری، مسلم بن حجاج ابو الحسن نیشا پوری،صحیح مسلم،داراحیاءالتراث العربی، بیروت،س ن، کتاب الطہارت، رقم الحدیث263


5ابن ماجہ،محمدبن یزیدالقزونیی،سنن ابن ماجہ،مکتبہ البشری،بیروت،1395ھ،باب الاستنجاء فی الحجار،ج1،ص114،حدیث 313


6 الااحزاب 21:33


7 الترمذی ، ابو عیسی، محمد بن عیسی ، سنن ترمذی، ادار ہ الکتب الملیہ ، بیروت ، رقم الحدیث2318


8 ظفیرالدین،مولانا،اسلام کانظام عفت وعصمت ،کرا چی دارالاشاعت،1413ھ،ص19


9 گستاؤ لی بان ،ڈاکٹر،تمدّنِ عرب،مترجم سیدعلی بلگرامی ،لاہور ، 1960،ص 372


10 ظفر ، محموداحمد ،حکیم ، اسلام کا معاشرتی نظام ،ص35


11حدوٹی ، محمود ر شید، مولانا ،اسلام اور عورت ، مرکز تحقیق وتصنیف،لاہور ،2000ء ، ص 11


12سفینہ، عرٖفات فاطمہ ،مختلف اقوام ومذاہب میں عورت کی حیثیت ،2018ء،اردو ریسرچ جنرل ،مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی ،حیدرآباد


13مختلف اقوام ومذاہب میں عورت کی حیثیت ،ص2


14 تارا چند،ڈاکٹر ،تمدنِ ہند پر اسلامی اثرات ،مجلس ترقی ادب،لاہور ،1964ء،ص 37


15ظفیرالدین ،مولانا ،اسلام کانظام عفت وعظمت ، دارالاشاعت،کراچی،1413ھ،ص43


16النحل 58:16


17بنی اسرائیل31:17


18 بخاری ،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ، الصیح البخاری ،مکتبہ البشری،بیروت، باب الادب، حدیث5971


19المنتخب من مسند ابد من حمید ، ج1،ص332


20 القشیری، مسلم بن حجاج ابو الحسن نیشا پوری،صحیح مسلم ،حدیث 2941


21ابن ماجہ،محمد بن یزیدالقزونیی،سنن ابن ماجہ، مکتبہ البشری،بیروت،1395 ھ،حدیث 1873


22مودودی ،ابوالاعلیٰ ،مولانا ،پردہ ، ترجمان القرآن،لاہور ،2014ء،ص20تا21


23گستاولی بان‘،تمدّنِ عرب،ص368


24 ظفیرالدین،مولانا،اسلام کانظام عفت وعصمت ،ص22تا23


25 بخاری ،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری ، کتاب النکاح،ج4،ص165


26 النور 32:24


27 ابن ماجہ،محمد بن یزیدالقزونیی،سنن ابن ماجہ، حدیث 1846


28 البیھقی ، شعب الایمان ، ریاض، مکتبہ الراشد ، للنشر والتوزیع ، 2003 حدیث 383


29 بخاری ،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری ، حدیث 5971


30 الترمذی ، ابو عیسی، محمد بن عیسی ، سنن ترمذی ،کتاب الصلوة،حدیث 605


31 مسند احمد بن حنبل ، مکتبہ بشری ،بیروت ،حدیث 30232ظفر ، محموداحمد ،حکیم ، اسلام کا معاشرتی نظام ،ص 21033الاسراء 27:1734 السجستانی، ابی داؤد سلیمان بن اشعت ،سنن ابی داؤد ،حدیث 321235تھانوی، مولانا اشرف علی امدادالفتاوی، مکتبہ دارالعلوم کراچی،ج 2 ،ص291


36 ظفر ، محموداحمد ،حکیم ، اسلام کا معاشرتی نظام ،ص211


37 السجستانی، ابی داؤد سلیمان بن اشعت ،سنن ابوداؤد، حدیث3401


38 الترمذی،ابو عیسی، محمد بن عیسی ، سنن ترمذی ،باب ماجاء اذا جائکم من ترضون دینہ فزوجوہ،حدیث1084


39تھانوی ،مولانا اشرف  علی ،اصلاحی رسوم، دارالاشاعت ،کراچی،1413ھ،ص59

حوالہ جات

 

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو