ابراہیم، محمد، ساجد محمود۔ "تبرکات نبوی ﷺکے انہدام سے متعلق حضرت عمر فاروق کی طرف منسوب روایت کا تحقیقی جائزہ۔" برجس 6, شمارہ۔ 1 (2019)۔
Abstract
Almighty Allah has stated the nature of man that everything He loves towards the one He loves is dear to Him. For this reason, in every age human being has been attached to the remains of his beloved thing. The stories of the former Ummah are contained in the holy Qura᾽n, in which their remnants are proven to be safe after they passed away. This last Ummah also appears to meet these natural requirements. Therefore, just as this Ummah loves his Prophet (peace be upon him) . Therefore the sacred Islamic ancient relics have extraordinary significance, which are attributed to the holy Prophet. Muslims get peace by them and kept protecting and persevering such relics during every period. The companions of the Prophet (PBUP) have kept them safe too and they organized particular arrangements for preserving them. But there is also a theory which those who believe these are considered as a prohibition of Islamic Sharia, and they present their arguments on the basis of a “Hadith” attributed to Ḥaḍrat ʻUmar Fārūq (R. A) . It is narrated from Ḥaḍrat ʻUmar Fārūq, that the he used to give an importance to the memorandum of Muhammad (PBUH) . In the light of such “Riwāyās”, the mentioned “Hadith” would be suspicious. It is essential that he research of this “Hadith” should be reviewed, how its status is? In this article, research has been studied by this “Hadith” that it is clear that this “Hadith” could not be narrated by Ḥaḍrat ʻUmar Fārūq (R. A) . Therefore, the concept of demolition of such scared ancient relics could not be supported by the above mentioned “Hadith”.
تمہید
انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ جس سے محبت کرتا ہے تو اس کی ہر متعلق چیز اس کو محبوب ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ باری تعالیٰ سے محبت اس کےبرگزیدہ بندوں سے محبت اوراس کے برگزیدہ بندوں سے محبت باری تعالیٰ کی محبت کو مستلزم ہوتی ہے، اس قانون ِ فطرت کے نتیجے میں انسان جب باری تعالیٰ کے قریب ترین بندوں سے محبت کاداعی ہوتا ہے تو وہ ان کی متعلقات کا بھی پاس رکھتا ہے اوران سے بھی دلی لگاؤ رکھتا ہے۔ چنانچہ انبیاء کرام سے محبت والفت ان کے شہر اوران کی باقیات سے محبت کی داعی ہوتی ہے، اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے، اس لئے یہ فطرتی تقاضوں کو پامال کرنے کے بجائے ان کی تحدید کر کے شرعی حدود میں پابند کرتاہے، جس سے فطرتی تقاضوں میں بھی تسکین کا سامان پیدا ہوتا ہے اورشرعی حدود کی پاسداری بھی ممکن ہوتی ہے۔
انبیاء کرام جب مبعوث ہوتے تو جہاں ان کے مخالفین ہوا کرتے ہیں وہاں ہی ان کے چاہنے اورماننے والے بھی ہوتے ہیں ، جو ان پر جان نچھاور کرتے ہیں، یہی لوگ نبی کی حرمت وتقدس کا بھی خیال رکھتے ہیں، نبی کی تعلیم کے بھی محافظ ہوتے ہیں اورنبی سے متعلق باقیات سے بھی قلبی لگاؤ رکھتے ہیں۔ نبی کی باقیات کو، اگر شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے محفوظ رکھا جائے تو یہ ناصرف درست بلکہ ماننے والوں کے لئے تسکینِ قلب کا سامان ہوتاہے۔
اسی فطری عمل سے خداکے آخری نبی ومحبوب ﷺ کی امت بھی گزری اورانہوں نے بھی اپنے نبی ﷺ کی باقیات سے اسی طرح شغف رکھا جس طرح انسانی فطرت اس کا تقاضا کرتی ہے، چونکہ محبوب خدا ﷺ کی شریعت آخری مکمل اور کامل شریعت ہے اس لئے ہر ہر مسئلے کی وضاحت اس شریعت میں بتلائے گئے اصول وضوابط سے ہو جاتی ہے، جب محبوب ِخداﷺ اس دارفانی سے رخصت ہوئے تو آپ پر جان نچھاور کرنے والی جماعت نے آپ ﷺ کی باقیات کو محفوظ رکھا اور ایک شرعی حد میں رہ کر ان کی حفاظت بھی کی اور ان سے تسکین کا سامان بھی مہیا کیا، اس سلسلے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ ہوں:
حضرت انسؓ سے متعلق روایت
’’عن أنس بن مالك رضي الله عنه: أن قدح النبي صلى الله عليه وسلم انكسر، فاتخذ مكان الشعب سلسلة من فضة‘‘ [1]
"حضرت انسؓ نبی اکرم ﷺ کے خادمِ خاص تھے آپ ؓ کے پاس آنحضرتﷺ کا استعمال کیا ہوا ایک پیالہ محفوظ تھا، ایک مرتبہ وہ پیالہ کہیں سے ٹوٹ گیا تو حضرت انسؓ نے بڑے اہتمام کے ساتھ چاندی کی تار سے اس ٹوٹی ہوئی جگہ کو سی کر جوڑ دیا"۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنے پاس محفوظ آنحضرتﷺ کی نشانی کو کھونا نہیں چاہتے تھے بلکہ اس کی حفاظت کر کے اپنےپاس محفوظ رکھنا چاہتے تھے، اگر باقیات النبیﷺ کی حفاظت شریعت اسلامی سے متصادم ہوتی تو حضرت انس ؓ اس کی کبھی بھی اس انداز سے حفاظت ومرمت نہ کرتے ۔
حضرت اسماء ؓ کا واقعہ
حضرت اسماء ؓ کا آنحضرت ﷺ سے قریبی رشتہ تھا حضرت اسماءؓ کو آپﷺ کا استعمال کیا ہوا ایک جبہ حضرت عائشہؓ
کے واسطے سے پہنچا ، یہ جبہ حضرت عائشہؓ کی وفات کے بعد ان کی بہن حضرت اسماءؓ کی ملکیت میں آیا، اس سے متعلق حضرت اسماء ؓ کی ایک روایت مسلم شریف میں مروی ہے جس میں وہ یہ فرماتی ہیں کہ اس جبہ کے ذریعے ہم مریضوں کے واسطے شفاء طلب کیا کرتے تھے۔
’’فقالت: هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج، وفرجيها مكفوفين بالديباج، فقالت: هذه كانت عند عائشة حتى قبضت، فلما قبضت قبضتها، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها، فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها‘‘[2]
’’حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔‘‘
اس روایت سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ آنحضرتﷺ کی باقیات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان سے تبرک بھی حاصل کیا کرتے تھے، اس باب میں صحابہ کرام ؓ سے کثیر احادیث مروی ہیں، لیکن یہاں صرف انہی دو پر اکتفا کیا جاتا ہے۔اصل مقصود آنے والی سطور میں ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے:
حضرت عمرفاروق ؓ کی طرف منسوب روایت کا علمی جائزہ
صحابہ کرام ؓ سے کثیر تعدا د میں یہ روایات ثابت ہیں کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی باقیات کی حفاظت بھی کی اورانہیں برکت کے حصول کا ذریعہ بھی سمجھا، اس ضمن میں حضرت عمر فاروق ؓ کی نسبت سے ایک روایت مشہور ہے جس کا پس ِ منظر یہ ہے:
تاریخ ِ اسلام کے اہم ترین واقعات میں ایک واقعہ بیعت رضوان کا ہے، بیعت رضوان کا واقعہ اس وقت پیش آیا جس وقت آنحضرتﷺ مدینہ منورہ سے عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے لیکن کفارِ مکہ نے انہیں حدیبیہ[3] سے آگے بڑھنے نہ دیا، مذاکرات کے لئے حضرت عثمان ؓ کو بھیجا گیا کہ وہ جا کر کفارِ مکہ سے مذاکرات کریں اورانہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ مسلمانوں کو امسال عمرہ کرنے دیا جائے، حضرت عثمان ؓ کے چونکہ اہلِ مکہ پر بہت سے احسانات تھے اس وجہ سے مسلمانوں کو یہ امید تھی کہ ان کے احسانات کے بوجھ تلے دب کر شاہد اہلِ مکہ انہیں عمرہ کرنے سے نہ روکیں لیکن کفارِ مکہ نے حضرت عثمان ؓ کو محصور کر دیا ۔ جس کی خبر جب مسلمانوں تک پہنچی تو آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں سے کفار سے جنگ پر بیعت لی اوراس بات پر بیعت ہوئی کہ حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ بہرحال جس وقت یہ بیعت ہو رہی تھی اس وقت مسلمان لڑائی کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لئے بے سروسامانی کے عالم میں جان نچھاوری کا یہ عہد باری تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اس عمل پر اپنی رضامندی کی مہر ثبت کردی:
’’لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا‘‘[4]
ترجمہ:۔’’یقیناً اللہ ان مؤمنوں سے بڑاخوش ہوا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے، اوران کے دلوں میں جوکچھ تھا وہ بھی اللہ کو معلوم تھا، اس لئے اس نے ان پر سکینت اتار دی اوران کو انعام میں ایک قریبی فتح عطافرمادی۔‘‘
اسی وجہ سے تاریخ میں اسے بیعت ِ رضوان کہا جاتا ہے، جس وقت یہ بیعت ہورہی تھی اس لمحے آنحضرت ﷺ ایک درخت کے سایہ میں تشریف فرما تھے، چونکہ یہ واقعہ ایک غیر معمولی حیثیت اختیار کر چکا تھا اور مسلمانوں میں بیعت رضوان کا چرچا تھا اس لئے اس غیر معمولی واقعہ کے جائے وقوع سے مسلمانوں کا قلبی تعلق قائم ہوا ، حضرت عمرفاروقؓ کے زمانہ خلامت میں کچھ لوگ اس کے قریب آکر اس سے برکت کے حصول کے واسطے یہاں نماز پڑھنے لگے، ان کے اس طرز ِ عمل کی حضرت عمرفاروقؓ کو خبر ہوئی آپ ؓ نے لوگوں کو اس عمل سے روکنے کے لئے یہ قدم اٹھایا کہ جس درخت کے پاس لوگ جا کر حصول ِ برکت کے لئے نماز پڑھا کرتے تھے ، اس درخت کو ہی کٹوادیا تاکہ نا لوگوں میں اس درخت کے باقی رہنے کے آثار بچیں اورنا ہی وہ لوگ اس طرح کے فعل کا ارتکاب کرتے۔
حضرت عمر فاروقؓ کی یہ روایت اس باب میں ایک غلط فہمی پیدا کرتی ہے کہ جو اشیاء انبیاء کے ساتھ کسی خاص طرح منسوب ہوں، اس کی نسبت میں انہیں کوئی خصوصیت حاصل ہو ،تو ان کو اس وجہ سے باقی نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے عوام کے عقائد پر اثر پڑتا ہے۔ اس روایت کا تحقیقی جائزہ ضروری ہے تاکہ اصل صورتحال کا علم ہو۔اس روایت کی اس باب میں اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اس روایت کو ذکر کیا اوراس کو اس ضمن میں لے کر آئے کہ اس طرح کے آثار سے تبرک کا حصول شریعتِ اسلامی کے متصادم ہے ۔اپنے اسی نظریے پر وہ استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أن عمر بن الخطاب أمر بقطع الشجرة التي بويع تحتها النبي صلى الله عليه وسلم لأن الناس كانوا يذهبون تحتها. فخاف عمر الفتنة عليهم‘‘.[5]
ترجمہ:’’حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم فرمایاجس کے نیچے حضور اکرم ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی،اس لیے کہ لوگ اس کے نیچے جایا کرتے تھے تو حضرت عمر کو ان کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوا-‘‘
حافظ ابن تیمیہ ؒ کا اس روایت کو ذکر کرنا اس باب کی تقویت کا باعث بنتا ہے لیکن اس روایت کا تحقیقی مطالعہ نہایت ضروری ہے، ورنہ اس سے پیدا ہونے والی غلط فہمی سے ملت ِ اسلامیہ ایک تاریخی ورثہ سے محروم ہو کر رہ جائے گی۔
طبقات ابن سعد میں مروی روایت کے الفاظ
حضرت عمرفاروق ؓ سے منسوب ذکرکردہ روایت صرف دو کتابوں میں ملتی ہے ان میں سے پہلی کتاب ’’طبقات ابن سعد ‘‘ہے، لیکن اس کتاب میں جس انداز سے یہ روایت مروی ہے وہ اپنے مستدل کے لئے کافی نہیں۔ طبقات ابن سعد میں اس کے الفاظ درج ذیل ہیں :
"كان الناس يأتون الشجرة التي يقال لها شجرة الرضوان فيصلون عندها قال: فبلغ ذلك عمر بن الخطاب فأوعدهم فيها وأمر بها فقطعت "[6]
ترجمہ: ’’لوگ ایک ایسے درخت کے پاس آیا کرتے تھے جو ’’شجرہ ٔ رضوان‘‘ کے نام سے مشہور تھا ۔راوی کہتے ہیں کہ اس بات کی خبر حضرت عمرفاروقؓ کو ہوئی تووہ لوگوں پر برہم ہوئے اور انہوں نے وہ درخت کٹوادیا۔‘‘
مصنف ابن ابی شیبہ میں مروی روایت کے الفاظ
حضرت عمرفاروق ؓ سے منسوب ذکرکردہ روایت طبقات ابن سعد کے علاوہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں پائی جاتی ہے، اس کے الفاظ بھی اپنے مدعا پر واضح نہیں ہیں ، مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’بلغ عمر بن الخطاب أن ناسا يأتون الشجرة التي بويع تحتها، قال: «فأمر بها فقطعت»‘‘[7]
ترجمہ:’’حضرت عمر بن خطاب ؓ کویہ معلوم ہوا کہ لوگوں کا اس درخت کے پاس آنا جانا لگا ہوا ہے جس کے سایہ میں بیعت رضوان ہوئی تھی، راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرفاروقؓ نے اسے کٹوانے کا حکم دے دیا۔
درج بالا روایات کاصحیحین کی روایت سے تعارض
درج بالا روایات کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بخاری ومسلم کی روایت سے معارض ہے، بخاری شریف کی ایک روایت یوں مروی ہے:
’’عن طارق بن عبد الرحمن، قال: انطلقت حاجا، فمررت بقوم يصلون، قلت: ما هذا المسجد؟ قالوا: هذه الشجرة، حيث بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيعة الرضوان، فأتيت سعيد بن المسيب فأخبرته، فقال سعيد، حدثني أبي " أنه كان فيمن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت الشجرة، قال: فلما خرجنا من العام المقبل نسيناها، فلم نقدر عليها "، فقال سعيد: إن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم لم يعلموها وعلمتموها أنتم فأنتم أعلم‘‘[8]
ترجمہ:۔’’طارق بن عبدا لرحمٰن[9] سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں حج کے لیے نکلا،تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جونمازپڑھ رہے تھے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیسی مسجد ہے؟انہوں نے کہا یہ وہ درخت ہے جہاں رسول اکرمﷺ نے بیعت رضوان لی تھی،پھر میں سعید بن مسیب [10]کے پاس آیا اور ان کو پورا واقعہ سنایا تو سعید نے فرمایا:مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اکرم ﷺ سے بیعت کی تھی، پھر جب اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں فراموش ہوگیاکہ کون سا تھاہم اس کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوسکے،پھر سعید نے (طارق بن عبد الرحمان سے) کہا کہ حضور ﷺ کے اصحاب تو اس درخت (کی جگہ)کو نہیں جان سکے اور تم نے اس کو جان لیا،تب تو تم ان سے زیادہ جاننے والے ہوئے۔‘‘
امام بخاری ؒ حضرت سعید سے ایک اور روایت یوں بیان کرتے ہیں:
’’عن سعيد بن المسيب، عن أبيه، قال: «لقد رأيت الشجرة، ثم أتيتها بعد فلم أعرفها»‘‘[11]
ترجمہ:۔’’سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ میں نے بیعت رضوان والے درخت کو دیکھا تھاپھر اس کے بعد میں وہاں گیا تو اس کو نہیں پہچان سکا‘‘
اسی روایت کو ایک اور طریق سے امام بخاری ؒ یوں نقل فرماتے ہیں:
’’عن سعيد بن المسيب، عن أبيه، «أنه كان ممن بايع تحت الشجرة، فرجعنا إليها العام المقبل فعميت علينا»‘‘[12]
ترجمہ:۔’’سعید بن مسیب کے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی پھر اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں نہیں ملا۔‘‘
مسلم شریف میں حضرت سعید بن مسیب کی روایت
امام مسلم ؒ نے حضرت سعید کی روایت کو اپنی صحیح میں تین مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے ، جو درج ذیل ہیں:
’’عن سعيد بن المسيب، قال: «كان أبي ممن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم عند الشجرة» ، قال: «فانطلقنا في قابل حاجين، فخفي علينا مكانها، فإن كانت تبينت لكم فأنتم أعلم»‘‘[13]
’’سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میرے والد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی، وہ فرماتے تھے :ہم اگلے سال حج کرنے کے لئے آئے ، تو وہ جگہ ہم پہچان نہ سکے، اگر تمہیں وہ جگہ معلوم ہوچکی ہے ، پھر تو تم زیادہ جاننے والے ہو(اصحابِ محمدﷺ سے)‘‘
’’ عن سعيد بن المسيب، عن أبيه، «أنهم كانوا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الشجرة» ، قال: «فنسوها من العام المقبل»‘‘[14]
’’سعید بن مسیب اپنے والد سے بیان فرماتے ہیں کہ وہ بیعت رضوان والے سال آنحضرتﷺ کے ساتھ تھے ، وہ فرماتے ہیں کہ اگلے سال ہی اس درخت کو صحابہ بھول چکے تھے۔‘‘
’’ عن سعيد بن المسيب، عن أبيه، قال: «لقد رأيت الشجرة، ثم أتيتها بعد فلم أعرفها»‘‘[15]
’’سعید بن مسیب نے اپنے والد سے بیان کیا کہ میں نے بیعت رضوان والا درخت دیکھا تھا پھر اس کے بعد میں اس مقام پر آیا لیکن اس کو پہچان نہ سکا۔‘‘
طبقات ابن سعد اورمصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت سعید کی روایت کاتذکرہ
طبقات ابن سعد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت سعید بن مسیب کی روایت بھی مذکور ہے اورایک اور ایسی روایت بھی موجود ہے جس سے حضرت سعید کی روایت کی تائید بھی ہوتی ہے، چنانچہ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’خرج قوم من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك بأعوام فما عرف أحد منهم الشجرة واختلفوا فيها؛ قال ابن عمر: «كانت رحمة من الله»‘‘[16]
’’رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک جماعت (اس واقعہ کے)کچھ سال بعد وہاں گئی تو ان میں سے کوئی بھی اس درخت کو نہیں پہچان سکا، اس درخت کے محل وقوع کو لے کر ان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہواتو ابن عمر نے فرمایا کہ وہ درخت اللہ کی طرف سے رحمت تھا –‘‘
درج بالا روایات سے اخذ شدہ نتائج
طبقات ابن سعد اورمصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر فاروقؓ کی طرف منسوب روایت کا جب بخاری ومسلم کی روایات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور تائیدی طور پر طبقات ابن سعد کی روایت کو ملحوظ رکھا جائے ، تو ان سے چند نتائج سامنے آتے ہیں ، جو درج ذیل ہیں:* بیعت رضوان جس درخت کے نیچے ہوئی تھی ، صحابہ کرام ؓ اس کو متبرک سمجھتے تھے۔
- حضرات صحابہ کرام اس درخت کی بقاء کے خواہشمند تھے۔
- حضرات صحابہ کرام ؓ آنحضرت ﷺ سے منسوب اشیاء سے تبرک کے قائل تھے ورنہ اس درخت کی تلاش بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔
- حضرت مسیب ؓ نے بیعت ِرضوان کے بعد اگلے ہی سال اس درخت کو تلاش کرنا چاہا لیکن باوجود کوشش وچاہت کے وہ درخت ان حضرات کو نہ مل سکاحالانکہ حضرت مسیبؓ بذاتِ خود اس بیعت میں شامل تھے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس مقام کی نشاندہی میں ان کی یادداشت اہم ماخذ ثابت ہو سکتی تھی، لیکن باری تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
- حضرت مسیبؓ کی طرح کا واقعہ کچھ عرصہ کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ بھی پیش آیا ۔اورانہیں بھی اس کی تعیین نہ تھی۔
- ان روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس درخت کے ارد گرد لوگوں نے آنا جانا شروع کردیا تھا وہ بیعت رضوان والا درخت نہیں تھا، لوگوں نے اس کے تعیین میں غلطی کی تھی غلط درخت کے پاس جا کر نمازیں پڑھنا شروع کردیں تھی۔
- اس درخت کا محل وقوع اس واقعہ کے اگلے سال ہی اختلاف رائے کا شکارہوگیا تھا۔
- یہ کسی مصلحت خداوندی کی وجہ سے لوگوں کے اذہان سے نکل چکا تھا اوران کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا۔
- جب واقعہ کے اگلے سال ہی درخت کا تعین نہ ہوسکا تو حضرت عمرفاروقؓ کے زمانہ خلافت میں ’’شجرہ رضوان‘‘ کو کٹوانے کی روایت کیسے درست ہوسکتی ہے۔
روایات میں تطبیق کی صورت
اگر طبقات ابن سعد، مصنف ابن ابی شیبہ اوربخاری ومسلم کی روایات میں تعارض کے بجائے تطبیق کو ممکن مانا جائے تو بجز ء اس کے تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہیں کہ یہ کہا جائے کہ ’’شجرہ رضوان‘‘ تو لوگوں سے پوشیدہ ہوگیا تھا لوگوں نے کسی اوردرخت کو غلطی سے ’’شجرہ رضوان‘‘ سمجھ لیا تھا اوراس کی قدرووقعت ان کے دلوں میں بیٹھ گئی تھی چونکہ حضرت عمر فاروقؓ کو یہ بات معلوم تھی کہ یہ درخت کسی کو معلوم نہیں ہے لوگ اس کے تعین میں خطا کا شکار ہوگئے ہیں تو انہوں نے اس کا بہتر حل یہ نکالا کہ سب کو سمجھانے کے بجائے اس درخت کو ہی کٹوادیا جائے ، لہذا اس غلط فہمی کے خاتمے کے لئے حضرت عمرفاروقؓ نے یہ عمل کیا تھا۔
اس کے مخفی ہوجانے کی علت وحکمت کے بارے میں امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ:
’’قال العلماء سبب خفائها أن لا يفتتن الناس بها لما جرى تحتها من الخير ونزول الرضوان والسكينة وغير ذلك فلو بقيت ظاهرة معلومة لخيف تعظيم الأعراب والجهال إياها وعبادتهم لها فكان خفاؤها رحمة من الله تعالى‘‘ [17]
’’علماء کرام نے اس کے پوشیدہ ہونے کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ چونکہ اس درخت کے نیچے خیر وبرکت ، سکینہ اورباری تعالیٰ کی رضامندی وغیرہ کا نزول ہواتھا اگر اسے باقی رکھا جاتا تو جاہل ودیہاتی لوگ اس کی تعظیم (میں غلو )کرتے اوراس کی عبادت کرنے لگ جاتے، (لہذا اس کی پوشیدگی میں حکمت یہ تھی کہ ایسے لوگ) کسی فتنے میں مبتلا نہ ہو جائیں، اسی وجہ سے اس کا پوشیدہ ہونا باری تعالیٰ کی طرف سے رحمت تھا۔‘‘
امام نوویؒ کی ذکر کردہ عبارت اس امر پر واضح ہے کہ اس درخت کو مخفی کردیا گیا تھا جس کا علم کسی کونہیں تھا اوراس کا مخفی ہوجانا ہی زیادہ قرین ِ قیاس ہےامام نوویؒ نے جو علت ذکر کی ہے اس سے دوسرے متبرک آثار کے انہدام پر استدلال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ علت تو دوسرے آثار میں بھی پائی جاتی ہے ؟
وجہ یہ ہے کہ اس میں فتنے میں ابتلاء کا اندیشہ صرف جہال اوردیہاتیوں سے تھا کیونکہ یہ مقام ایسی جگہ پر واقع نہ تھا جہاں پر زیادہ تر شہری لوگ موجود رہتے ہوں چنانچہ ان کا کسی غالی امر میں مبتلا ہوجا نا قرینِ قیاس تھا۔بہرحال امام نوویؒ کی یہ عبارت مطلقاً متبرک آثار کے انہدام پر دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ امام نوویؒ نے بہت سے دوسرے آثار کی بحث کے تحت تبرک بالآثار کو تسلیم کیا ہے۔
اس ساری بحث یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ کی طرف منسوب روایت کی بنیاد پر متبرک آثار کے انہدام پر دلیل قائم نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ یہ ایک مبہم روایت ہے ، جو قطعی واضح اور صحیحین کی روایت سے متضاد معلوم ہوتی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ۔ بخاری، صحيح بخاری، ج:4، ص:83
- ↑ ۔ مسلم، صحيح مسلم، ج:3، ص:1641
- ↑ ۔ مکہ مکرمہ مغربی جانب جدہ جاتے ہوئے ایک مقام ہے جسے حدبیہ کہا جاتا ہے ۔الحموی، معجم البلدان ۲/ ۲۳۳
- ↑ ۔سورة الفتح، الآية:18
- ↑ ۔ ابن تيميِہ، تقی الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم الحرانی الحنبلی الدمشقی(728ھ)، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفۃ أصحاب الجحيم،ج:2، ص:274، مطبوعہ دار عالم الكتب، بيروت، لبنان، الطبعۃ السابعۃ، 1419ھ۔ 1999م۔
- ↑ ۔ ابن سعد، أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمی بالولاء البصری (230ھ) الطبقات الكبرى،ج:2، ص:100، مطبوعہ دار صادر – بيروت، الطبعہالثانيہ، 1408ھ۔
- ↑ ۔ ابن ابی شيبہ، الكتاب المصنف فی الأحاديث والآثار،ج:2، ص:150۔
- ↑ ۔ بخاری، صحيح بخاری،ج:5،ص:124
- ↑ ۔ آپ کا نام طارق بن عبد الرحمن البجلی ہے، آپ کوفہ سے تعلق رکھتے ہیں، صغار تابعین میں آپ کا شمار ہوتا ہے، آپ نے کئی صحابہ سے روایت کی ہے۔آپ ثقہ راوی ہیں۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني المتوفى: 852هـ، تهذيب التهذيب 5 / 5، الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند، الطبعہ الأولى، 1326ھ۔
- ↑ ۔یہ سعید بن المسیب بن حزن بن ابی وہب،قریشی مخزومی ہیں،اکابر تابعین اور مدینہ منورہ کے ساتھ فقہاء مشاہیر میں سے ایک ہیں۔حدیث وفقہ اور زہد وورع کے جامع تھے،وہ ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے،تیل کا کاروبار کرکے زندگی بسر کرتے تھے۔حضر ت عمر بن الخطاب کے فیصلوں اور احکام کو اتنے زیادہ یاد رکھنے والے تھے کہراوی عمر ہی آپ کا نام پڑگیا،مدینہ منورہ میں رحلت فرمائی۔ابن سعد، الطبقات الكبرى 2 / 379
- ↑ ۔ بخاری، صحيح بخاری، ج:5، ص:124
- ↑ ۔ ايضاً، ج:5، ص:124
- ↑ ۔ مسلم، صحيح مسلم، ج:3، ص:1485
- ↑ ۔ ايضا ، ج:3، ص:1485
- ↑ ۔ايضا ، ج:3، ص:1486
- ↑ ۔ ابن سعد، الطبقات الكبرى،ج:2، ص:105
- ↑ ۔ نووی، المنہاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج،ج:13،ص:5
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔