الازہری، محمد ریاض خان، بشارت حسین شاہ ترمذی۔ "سماع و وجد میں مجدد الف ثانی اور امام ابن تیمیہ کے افکار کا تقابلی مطالعہ۔" برجس 4, شمارہ۔ 1 (2017)۔
bstract
According to Ibn-e-Taimia and Mujaddad Alf-e-Sani the Samaa’ of Quran is a real beneficial Samaa’ of perfect Muslims, the Samaa’ of poetry comprises of praise of Prophet (SAW) , songs of Jihad and Islam are also permissible and admirable in Islam but the Samaa’ of innovators which comprises of opposing Shariah poetry and practicing of music and clapping is totally innovation and sin. It is important to note that unlike Ibn-e-Taimia and Hadrat Mujadad when mark the Samaa’ valid or invalid, by this he means the particular Samaa’ or spiritual songs of Sufis singed and listened with a particular method that melodramatize the people, Ibn-e-Taimia not interested in such type of Samaa’, Hadrat Mujadad also not inclined towards this type of Samaa’ but according to him it is permissible only sometime to remove the spiritual toughness. Both Allama(s) Ibn-e-Taimia and Mujadad Alf-e-Sani believe that during listening Quran or mentioning GOD(زکر خدا) some intuitive conditions implements upon seekers of God which expel them out from normalcy and they sometime become senseless, or cry to scream or even some time start dancing, but both believe that these intuitive conditions implements upon such seekers of God who are incomplete as for as acquaintance of God is concerned and as long as they upgrade in acquaintance of God, they never expel out from normalcy, nor cry and never become senseless as there level of absorption of lusters of faith(ایمانی تجلیات) expanded to highest level.
Absorption
صوفیاء کے جس انداز و کیفیت کے متعلق سب سے زیادہ اعتراضات اور سب سے زیادہ غلط فہمیاں عوام و خواص میں مشہور ہیں۔ وہ انداز و کیفیت ان کاسماع و وجد ہے۔ سماع و وجد کی شرعی حیثیت درحقیقت کیا ہے؟ یہ سوال تقاضا کرتا ہے اس بات کا کہ سماع و وجد پر تمام جہتوں سے عام فہم الفاظ میں گفتگو کی جائے کیونکہ اس عقیدہ کے متعلق درست رائے قائم کرنے میں اس لئے بھی دشواری پیش آتی ہے کہ ایک تو اس کے تمام پہلوؤں پر تحقیقی گفتگو میسر نہیں کیونکہ اس عقیدہ کے قائل لوگوں نے ہمیشہ اس کے حق میں ہی لکھا ہے اور مخالفین نے ہمیشہ مخالفت میں ہی لکھا ہے۔ بعض اکابرین ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے اس کے حق اور باطل دونوں پہلوؤں پر گفتگو ہے لیکن دوران مطالعہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ ان اکابرین نے جو اصطلاحات تصوف اس سلسلے میں استعمال کی ہیں وہ اصطلاحات اس قدر مشکل ہیں کہ قاری کو شدید ذہنی الجھاؤ کا شکار کر دیتی ہیں۔ جب تک ان اصطلاحات کو عام فہم الفاظ میں بیان نہ کیا جائے ۔حقیقت حال تک رسائی مشکل ہے ۔ زیرنظر مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ اس موضوع پر سہل انداز میں گفتگو کی جائے تاکہ حقیقت حال کو سمجھنا آسان ہو جائے۔
سماع و وجد کی حقیقت جاننے کیلیے اس مو ضوع پر حضرت مجدد اور علامہ ابن تیمیہ کے تقابلی افکار کا مطالعہ کے عنوان سے کام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ان دو شخصیات کو اپنی اپنی جگہ پر حامی سنت اور قاطع بدعت کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے اور ان کی تحقیقات کے سامنے اپنی قیل وقال کے گھوڑے کومنہ زور نہیں ہونے دیتا لہٰذا ضروری محسوس ہوا کہ سماع و وجد کی حقیقت کو جاننے اور غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے ان دو شخصیات کے افکار کا تقابلی جائزہ پیش کیا جائے۔
علامہ ابن تیمیہ کا نقطۂ نظر
سماع کے حوالے سے علامہ ابن تیمیہ نے مختلف جہتوں سے کلام کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ"سماع کی تمام قسمیں یکساں نہیں ایک وہ سماع ہے جس سے دین میں نفع ہو تا ہے اور ایک سماع وہ ہے جو رفع تکلیف اور حرج کیلئے مباح ہے اس طرح ایک سماع قرب الہی چاہنے والوں کا ہوتا ہے اور ایک سماع لہو و لعب پسند کرنے والوں کا ہوتا ہے۔جس سماع کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے مشروع و مقرر کیا ہے اور جس کیلئے صحابہؓ و تابعین و سلف امت رحمہم اللہ جمع ہوتے اور اس سے قلب کی پاکیزگی اور نفس کی طہارت حاصل کرتے تھے تو وہ سماع آیات الہی یعنی قرآن مجید کا سماع ہے۔یہی سماع انبیائے کرام علیہم السلام، مومنین اور اہل علم و معرفت کا سماع ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد ان کی صفات اس طرح بیان فرمائی ہیں:"وہ لوگ جن پر اللہ نے احسان کیا انبیاء میں سے،اولاد آدم میں سے اور جن کو ہم نے سوار کیا نوح کے ساتھ اور اسرائیل کی اولاد میں سے اور ان میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور منتخب کر لیا جب ان پر رحمن کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں"[1]اور فرمایا:"مومن وہی ہیں جب اللہ کا ذکر کیا جا تا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر توکل رکھتے ہیں[2] )"[3]
اسی طرح علامہ ابن تیمیہ سماع قرآنی سے حضور آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کا پیار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ"
"وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ مَسْعُودٍ اقْرَأْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ فَقَالَ أَقْرَأُ عَلَيْك وَعَلَيْك أُنْزِلَ؟ فَقَالَ: إنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي فَقَرَأْت عَلَيْهِ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى انْتَهَيْت إلَى هَذِهِ الْآيَةِ {فَكَيْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا[4]} قَالَ: حَسْبُك فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ مِنْ الْبُكَاءِ[5]} ". وَمِثْلُ هَذَا السَّمَاعِ هُوَ سَمَاعُ النَّبِيِّينَ وَأَتْبَاعِهِمْ"[6]
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔انہوں نے عرض کی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناؤں ؟حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی قرآن نازل ہوا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دوسروں سے سننا پسند کرتا ہوں۔عبداللہ بن مسعودؓ نے سورۃ النساء پڑھ کر سنائی جب وہ اس آیت پر پہنچے "فَكَيْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا"بھلا تو اس دن لوگوں کا کیا حال ہونا ہے جب سب لوگ جمع ہوں گے اور ہم ہر امت کے گواہ یعنی رسول کو طلب کریں گے جو ان کی نسبت گواہی دے اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم آپ کو بھی طلب فرمائیں گے کہ اپنی امت کے لوگوں کی نسبت گواہی دیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بس‘‘ اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمان مقدس سے آنسو بہہ رہے تھے۔اس طرح کا سماع انبیا ءکرام علیھم السلام اور ان کے اتباع کرنے والوں کا سماع ہے۔
پھر اہل بدعت کا سماع بیان کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ "اہل بدعت کا سماع، کف و دف اور سارنگی کا سماع ہے۔صحابہ تابعین اور ائمہ کرام میں سے کسی نے اس طرح کے سماع کو اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچنے کا طریق قرار نہیں دیا وہ اسے قرب الی اللہ اور عبادت میں نہیں بلکہ بدعت مذمومہ میں شمار کرتے ہیں۔امام شافعیؒ نے فرمایا کہ بغداد میں زندیقوں کی ایجاد کردہ ایک بدعت چھوڑ آیاہوں جسے وہ نفیر کہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے اولیاء و عارفین اسے پہچانتے تھے اور ان کو معلوم تھا کہ اس بدعت میں شیطان کا بڑا حصہ ہے اس لیے اس میں حصہ لینے والوں میں سے اچھے اچھے لوگ تائب ہو گئے ۔اور جو لوگ معرفت سے بہرہ اور اللہ تعالیٰ کی ولایت کاملہ سے محروم تھے ان میں شیطان کو بہت زیادہ دخل تھا۔یہ بد عت بمنزلہ شراب کے ہے اور دلوں پر اس کی تاثیر شراب کی بہ نسبت زیادہ گہری ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب اس کا اثر قوی ہوتا ہے تو اس بدعت والے بد مست ہو جاتے ہیں۔ان پر شیاطین اترتے ہیں اور ان میں سے بعض کی زبانوں سے بات چیت کرتے ہیں"[7]
اسی طرح علامہ ابن تیمیہ تالیاں بجا کر سماع کرنے کو مشرکین کا سماع کہتے ہیں وہ لکھتے ہیں"رہا تالیوں ،سیٹیوں اور چیخ و پکارکا سماع تو یہ مومنین کا نہیں بلکہ مشرکین کا سماع ہے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:"وَمَا کَانَ صَلَا تُھُمْ عِندَ البَیْتِ اِلاَّ مُکاَ ءَ وَّ تَصْدِ یَۃَ[8]"
بیت اللہ کے پاس ان کی نماز صرف یہ تھی کہ وہ سیٹی اور تالیا ں بجاتے تھے"[9]
علامہ ابن تیمیہ راگ وغیرہ کے ساتھ غزلوں اور قصیدوں کے سننے والوں کے متعلق یہ خیال بھی رکھتے ہیں کہ ان لوگوں کو قرآن کے سماع سے قطعاََ کوئی شفف نہیں ہوتا۔وہ لکھتے ہیں کہ"راگ کے عادی متصوفین کو قرآن مجید کی سماع سے لذت حاصل نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ جو لو گ اس سماع کے عادی ہو جاتے ہیں قرآن سے انہیں شغف باقی نہیں رہتا،انہیں تلاوت میں کوئی لطف حاصل نہیں ہوتا۔آیاتِ الٰہی کی ترتیل ان میں وہ گرمی پیدا نہیں کرتی جو گرمیا ن میں غزلیں سننے سےپیدا ہو جاتی ہے چنانچہ وہ قرآن اس حال میں سنتے ہیں دل کہیں ہوتا ہے اور دماغ کہیں اور ہوتا ہے اور زبان لغو میں مشغول ہوتی ہے۔لیکن جونہی تال و سر کی آواز کان میں کان میں پڑ جاتی ہے زبان رک جاتی ہے جسم پر سکون طاری ہو جاتا ہے۔خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے سننے اور اس پر وجد کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں"[10]
تاہم علامہ ابن تیمیہ ایسے قصائد کا سماع جائز سمجھتے ہیں جس میں راگ و تالیوں کے بغیر دین،جہاد یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف بیان کی گئی ہووہ لکھتے ہیں"اس بارے میں اصل یہ ہے کہ ہر چیز کی حقیقت و ماہیت پر غور کرنا چاہیے پھر اس کی حلت، کراہت یا اباحت کا فیصلہ کرنا چاہیے۔گانا ایک رسم ہے اور اس کا اطلاق بہت سی چیزوں پر ہوتا ہے۔ایک گانا حاجیوں کا ہے اس میں وہ کعبہ زم زم اور مقام ابراہیم وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں،ظاہر ہے ایسے گانے سننا جائز ہے ۔ایک گانا مجاہدین کا ہے جس میں وہ جہاد اور شہادت کا ذکر کرتے ہیں یہ بھی جائز ہے۔اس طرح اونٹوں حدی خوانوں کا گانا ہے یہ بھی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا اور اپنے حدی خوان سے فرمایا "اونٹوں پر شیشے ہیں انہیں آہستہ آہستہ چلا"۔اونٹوں پر عورتیں تھیں جنہیں آپ نے شیشوں سے تشبیہ دی۔اسی طرح عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قصیدہ کہا۔تو ظاہر ہے کہ ایسے گا نے کا سننا مباح ہے"۔[11]
اسی طرح لکھتے ہیں"اگر یہ ان قصائد کا کہیں جن میں اللہ سبحانہ تبارک و تعالیٰ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب کی تعریف کی گئی اور جن میں اس کے دشمنوں کی ہجو کی گئی ہے تو ہمارا جواب یہ ہو گا کہ ایسے قصائد کا سماع جائز ہے۔مسلمان ہمیشہ انہیں سنتے،ان کی روایت کرتے اور انہیں پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں سنا اور حضرت حسانؓ بن ثابت کی ان پر تعریف کی ہے"[12]۔
اس طرح رقص کے حوالے سے لکھتے ہیں "رہا رقص ناچ تو اس کی اجازت نہ اللہ نے دی ہے نہ رسول اللہ ﷺنے،نہ کسی امام نے بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا"وَ لاَ تَمْش فِی الاَ رْ ضِ مَرَ حَا"[13] (زمین پر اکڑ کر نہ چلو)[14]
مزید لکھتے ہیں"مسلمانوں کی عبادت رکوع سجود ہے،رقص نہیں ہے رقص کی کبھی کسی نے اجازت نہیں دی۔ہاں اگر انسان پر کبھی کوئی ایسی کیفیت طاری ہو جا ئے جو اسے معتدل و مشروع حالت سے خارج کر دے تو دیکھنا چاہیے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اگر سبب مشروع و مباح ہو مثلاََ قرآن کریم کے سماع سے اس پر حال و وجد طاری ہو جائے تو اسے معذور سمجھا جائے گا"۔[15]
یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ کے ہا ں محبت الٰہی کی مستی میں کسی صاحب حال شخص کا وجد بھی جائز ہے اور رقص بھی جائز ہے۔وہ لکھتے ہیں:
فَالنَّاسُ فِيمَا يَجِدُهُ أَهْلُ الْإِيمَانِ وَيَذُوقُونَهُ مِنْ حَلَاوَةِ الْإِيمَانِ وَطَعْمُهُ عَلَى ثَلَاثِ دَرَجَاتٍ: " الْأُولَى " مَنْ عَلِمَ ذَلِكَ مِثْلُ مَنْ يُخْبِرُهُ بِهِ شَيْخٌ لَهُ يُصَدِّقُهُ أَوْ يُبَلِّغُهُ مَا أَخْبَرَ بِهِ الْعَارِفُونَ عَنْ أَنْفُسِهِمْ أَوْ يَجِدُ مِنْ آثَارِ أَحْوَالِهِمْ مَا يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ. وَ " الثَّانِيَةُ " مَنْ شَاهَدَ ذَلِكَ وَعَايَنَهُ مِثْلُ أَنْ يُعَايِنَ مِنْ أَحْوَالِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ وَالصِّدْقِ وَالْيَقِينِ مَا يَعْرِفُ بِهِ مَوَاجِيدَهُمْ وَأَذْوَاقَهُمْ وَإِنْ كَانَ هَذَا فِي الْحَقِيقَةِ لَمْ يُشَاهِدْ مَا ذَاقُوهُ وَوَجَدُوهُ وَلَكِنْ شَاهَدَ مَا دَلَّ عَلَيْهِ لَكِنْ هُوَ أَبْلَغُ مِنْ الْمُخْبِرِ وَالْمُسْتَدِلِّ بِآثَارِهِمْ. وَ " الثَّالِثَةُ " أَنْ يَحْصُلَ لَهُ مِنْ الذَّوْقِ وَالْوَجْدِ فِي نَفْسِهِ مَا كَانَسَمِعَهُ كَمَا قَالَ بَعْضُ الشُّيُوخِ: لَقَدْ كُنْت فِي حَالٍ أَقُولُ فِيهَا إنْ كَانَ أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي الْجَنَّةِ فِي مِثْلِ هَذَا الْحَالِ إنَّهُمْ لَفِي عَيْشٍ طَيِّبٍ. وَقَالَ آخَرُ: إنَّهُ لَيَمُرُّ عَلَى الْقَلْبِ أَوْقَاتٌ يَرْقُصُ مِنْهَا طَرَبًا.[16]
ایمانداروں کو حلاوتِ ایمانی کی جو شیرینی ومزہ حاصل ہو تا ہے اس میں لوگو ں کے تین درجے ہیں۔پہلا درجہ کی مثال یہ ہے کہ مثلاََ کسی شخص کو صرف اس قدر معلوم ہو کہ وجدو ذوق کو ئی چیز ہے۔مثلاََ شیخ نے اسے بتایا کہ ذوق ایک درجہ ہے تو اس نے محض سن کر اسے سچ سمجھا۔یا عارف لوگو ں نے اپنے متعلق بعض باتو ں کی اطلاع دی تو وہ سن کر ان تک پہنچ گیا۔یا ان بزرگوں کے احوال کے آثار و علامات دیکھ لیں جن سے ذوق پر دلالت ہوتی ہے۔دوسرا درجہ اس شخص کا ہے جس نے اس کا مشاہدہ و معائنہ بھی کر لیا مثلاََ اہل معرفت اور اہل صدق و یقین کے احوال میں سے ایسے احوال کا مشاہدہ کیا ہو جن سے پتہ چلتا ہو کہ یہ بزرگ صاحب وجد و ذوق ہیں تو اس شخص نے اگرچہ فی الحقیقت وجد و ذوق کی حالت نہیں پا ئی تاہم ایسی چیز تو دیکھ لی جو اس حالت پر دال ہے۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ اس شخص سے اقرب الی الحقیقہ ہے جس نے اسے دیکھا نہیں محض اس کی خبر حاصل کی ہے۔تیسرا درجہ یہ ہے کہ کبھی دوسروں سے جس وجد و ذوق کا صرف نام ہی سنا تھا وہ وجد و ذوق خو د اپنے اندرفی الواقعہ پا لیا ہو۔چنانچہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ وجد و ذوق کی حالت طاری ہونے پر میری زبان سے یہ الفاظ جاری تھے "جنت میں اہل جنت کو اگر یہ حالت نصیب ہو جائے تو یقیناوہ انتہائی عیش میں ہوں گے "ایک اور بزرگ کا مقولہ ہے کہ "بعض دفعہ دل پر ایسے حالات طاری ہوتے ہیں کہ فرح و سرور کے باعث وہ رقص کرنے لگ جا تا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ کے مطابق تصوف سے وابسطہ عبادت گزار پرہیز گار اور زاہد صوفیاء کے حوالے سے اہم بات یہ ہےکہ یہ لوگ کثرت زہد و عبادت کی وجہ سے مغلوب الحال رہتے ہیں اور اکثر و بیشتر ذکر و سماع قرآن کے دوران ایسے حالات ان کو پیش آتے کہ واردات قلبی کو برداشت نہ کر سکتے ہوئے یہ یاتو بے ہوش ہو جاتے اور یا کبھی کبھار مر بھی جاتے تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ:
"وَلِهَذَا غَالِبُ مَا يُحْكَى مِنْ الْمُبَالَغَةِ فِي هَذَا الْبَابِ إنَّمَا هُوَ عَنْ عُبَّادِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ مِثْلُ حِكَايَةِ مَنْ مَاتَ أَوْ غُشِيَ عَلَيْهِ فِي سَمَاعِ الْقُرْآنِ وَنَحْوِهِ. كَقِصَّةِ زرارة بْنِ أَوْفَى قَاضِي الْبَصْرَةِ فَإِنَّهُ قَرَأَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ: {فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ[17]} فَخَرَّ مَيِّتًا وَكَقِصَّةِ أَبِي جَهِيرٍ الْأَعْمَى الَّذِي قَرَأَ عَلَيْهِ صَالِحُ المري فَمَاتَ وَكَذَلِكَ غَيْرُهُ مِمَّنْ رُوِيَ أَنَّهُمْ مَاتُوا بِاسْتِمَاعِ قِرَاءَتِهِ وَكَانَ فِيهِمْ طَوَائِفُ يُصْعَقُونَ عِنْدَ سَمَاعِ الْقُرْآنِ"[18]
اس باب میں جو بات کثرت سے نقل کی جاتی ہے بصرہ کے ان عبادت گزاروں کے متعلق وہ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی آدمی قرآن کریم سننے کے دوران مر جاتا یا اس پر غشی طاری ہو جاتی جیسے کہ قاضی بصرہ زرارہ بن اوفیٰ[19] کا قصہ ہوا کہ اس نے جب فجر کی نماز میں آیت مبارکہ فا اذا نقر فی الناقور ’’پھر جب (دوبارہ) صور میں پھونک ماری جائے گی‘‘ پڑھی تو وہ مر گیا۔ اسی طرح ابو جھیر الاعمی[20] کا قصہ ہوا کہ جس کے سامنے صالح المری[21] نے قرآن کریم کی تلاوت کی تو وہ مر گئے اور اس کے علاوہ دیگر وہ واقعات جس میں قرآن کریم کی سماع کے دوران موت واقع ہونے کا تذکرہ ہے اور ان میں بعض وہ لوگ بھی تھے کہ قرآن کریم کے سماع کے دوران ان کی چیخ نکل جاتی تھی اور وہ بے ہوش ہو جاتے۔
اس کے بعد علامہ ابن تیمیہ صوفیاء کے اس وجد و حال پر بعض لوگوں کے اعتراضات نقل کر کے پھر خود ان لوگوں کے اعتراضات کا جواب ان الفاظ میں دیتے ہیں:
"وَاَلَّذِي عَلَيْهِ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ أَنَّ الْوَاحِدَ مِنْ هَؤُلَاءِ إذَا كَانَ مَغْلُوبًا عَلَيْهِ لَمْ يُنْكَرْ عَلَيْهِ وَإِنْ كَانَ حَالُ الثَّابِتِ أَكْمَلَ مِنْهُ؛ وَلِهَذَا لَمَّا سُئِلَ الْإِمَامُ أَحْمَد عَنْ هَذَا. فَقَالَ: قُرِئَ الْقُرْآنُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ فَغُشِيَ عَلَيْهِ وَلَوْ قَدَرَ أَحَدٌ أَنْ يَدْفَعَ هَذَا عَنْ نَفْسِهِ لَدَفَعَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ فَمَا رَأَيْت أَعْقَلَ مِنْهُ وَنَحْوَ هَذَا. وَقَدْ نُقِلَ عَنْ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ أَصَابَهُ ذَلِكَ وَعَلِيُّ بْنُ الْفُضَيْل بْنِ عِيَاضٍ قِصَّتُهُ مَشْهُورَةٌ وَبِالْجُمْلَةِ فَهَذَا كَثِيرٌ مِمَّنْ لَا يُسْتَرَابُ فِي صِدْقِهِ. لَكِنَّ الْأَحْوَالَ الَّتِي كَانَتْ فِي الصَّحَابَةِ هِيَ الْمَذْكُورَةُ فِي الْقُرْآنِ وَهِيَ وَجَلُ الْقُلُوبِ وَدُمُوعُ الْعَيْنِ وَاقْشِعْرَارُ الْجُلُودِ كَمَا قَالَ تَعَالَى: {إنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ[22])[23]
اور جس پر جمہور علماء متفق ہیں وہ یہ ہے کہ ان صوفیاء پر جب غلبہ حال ہو تو ایسی صورت میں ان پر رد اور نکیر نہیں کی جائے گی ۔ اگرچہ ثابت رہنے اور مغلوب نہ ہونے والے کی حالت اس سے زیادہ کامل ہے اسی وجہ سے جب امام احمد ؒ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یحی ٰ بن سعید القطان[24] پر قرآن کریم کی تلاوت کی گئی تو ان پر غشی و بے ہوشی طاری ہوگئی اگر کوئی شخصی اس حالت کو اپنے سے دور کرنے اور ہٹانے پر قادر ہوتا تو یحیٰ بن سعید اس حالت کو خود سے ہٹا دیتے جبکہ میں نے ان سے زیادہ عقلمند آدمی نہیں دیکھا اور اسی طرح امام شافعی ؒ کو بھی یہ حالت لاحق ہوئی اور علی بن الفضیل بن عیاض ؒ کا قصہ تو مشہور ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حالت اکثر و بیشتر ان لوگوں کو عارض و لاحق ہوتی ہے جن کے صدق و سچائی میں شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ حالت جو صحابہ کرامؓ میں پائی جاتی تھی اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور وہ دلوں کا کانپ جانا ہے اور آنسو ؤں کا بہہ پڑنا ہے اور جلدوں کا متحرک ہو جانا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب ( ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلام محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں ) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں[25]۔اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إلَى ذِكْرِ اللَّهِ"[26] اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ( جس کی آیتیں ) بار بار دہرائی گئی ہیں جس سے ان لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی جلدیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں اور (رقت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں ) یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے اور اللہ جسے گمراہ کر دیتا ہے تو اس کیلئے کوئی ہادی نہیں۔اور اللہ تعالی نے فرمایا"إذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا"[27] جب ان پر ( خدائے) رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اور زار و قطار روتے ہوئے گر پڑتے ہیں‘‘۔اور فرمایا:
"وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ"[28]
اور جب اس قرآن کو سنتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں ۔ (یہ آنسوؤں کا چھلکنا) اس حق کے باعث ہے جس کی انہیں معرفت نصیب ہو گئی ہے۔اور فرمایا:
"وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا[29]"[30] اور ٹھوڑیوں کے بل گریہ و زاری کرتے ہوئے گر جاتے ہیں اور یہ قرآن ان کے خشوع و خضوع میں مزید اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔
پھر صاحبان حال کے حال پر اعتراض کرنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
"وَقَدْ يَذُمُّ حَالَ هَؤُلَاءِ مَنْ فِيهِ مِنْ قَسْوَةِ الْقُلُوبِ وَالرَّيْنِ عَلَيْهَا وَالْجَفَاءِ عَنْ الدِّينِ"[31]
اور بے شک ان لوگوں کے حال کی مذمت وہ لوگ کرتے ہیں کہ جن کے دلوں میں قسوت و سختی ہے اور ان پر زنگ لگا ہوا ہے اور دین سے دور ہیں ۔
پھر وہ ذکر الٰہی اور سماع قرآنی کی وجہ سے لوگوں کے احوال تبدیل ہونے یا احوال تبدیل نہ ہونے کی اس ساری صورتحال پر اپنا تبصرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
" بَلْ الْمَرَاتِبُ ثَلَاثٌ:أَحَدُهَا حَالُ الظَّالِمِ لِنَفَسِهِ الَّذِي هُوَ قَاسِي الْقَلْبِ لَا يَلِينُ لِلسَّمَاعِ وَالذِّكْرِ وَهَؤُلَاءِ فِيهِمْ شَبَهٌ مِنْ الْيَهُود. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ[32] وَقَالَ تَعَالَى:أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ[33]"[34]
حقیقت حال یہ ہے کہ لوگوں کے احوال کے تین مراتب ہیںان میں سے پہلا خود پر ظلم کرنے والے کا حال ہے اور یہ وہ شخص ہے جو کہ قسوت و سختی والاد دل رکھتا ہے جو کہ سماع و ذکر سے نرم نہیں ہوتا اور ایسے لوگوں میں یہود کی مشابہت پائی جاتی ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے چنانچہ وہ (سختی میں) پتھروں جیسے (ہو گئے)ہیں یاان سے بھی زیادہ سخت ہو چکے ہیں اس لیے کہ بے شک پتھروں میں تو بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور یقیناًان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے اور بے شک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں"[35]اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا"کیا ایمان والوں کیلئے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کیلئے رقت کے ساتھ جھک جائیں اور اس حق کیلئے (بھی) جو نازل ہوا ہے اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر مدت دراز گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں"[36]
پھر دوسرےمرتبہ میں ان کا بیان کرتے ہیں جن پر حال ل کا غلبہ ہو جاتا ہے :
"وَ (الثَّانِيَةُ) حَالُ الْمُؤْمِنِ التَّقِيِّ الَّذِي فِيهِ ضَعْفٌ عَنْ حَمْلِ إنَّمَا يَكُونُ لِقُوَّةِ الْوَارِدِ وَضَعْفِ الْقَلْبِ عَنْ حَمْلِهِ مَا يَرِدُ عَلَى قَلْبِهِ فَهَذَا الَّذِي يُصْعَقُ صَعْقَ مَوْتٍ أَوْ صَعْقَ غَشْيٍ فَإِنَّ ذَلِكَ إنَّمَا يَكُونُ لِقُوَّةِ الْوَارِدِ وَضَعْفِ الْقَلْبِ عَنْ حَمْلِهِ"[37]
اور دوسری اس مومن و متقی کی حالت ہے کہ جس میں ضعف و کمزوری ہوتی ہے ان واردات کو حمل و برادشت کرنے میں جو کہ اس کے دل پر وار د ہوتی ہیں پس یہ ایسی چیخ لگاتا ہے جو موت یابے ہوشی کا سبب بنتی ہے اور اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ دل پر وارد ہونے والی واردات قوی ہوتی ہیں اور قلب اس کو برداشت کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ کے مطابق وہ شخص جس کے دل میں قسوت و سختی ہو اور وہ سماع و ذکر کیلئے کسی قسم کا کوئی حال قبول نہ کرتا ہو تو اس شخص سے ایسے مومن متقی کی حالت بہت اچھی ہے کہ جس پر ذکر و سماع کے دوران و جد و حال طاری ہو جاتا ہے تاہم علامہ ابن تیمیہؓ اس وجد و حال کے طاری ہو جانے والی حالت کو کامل اور اکمل حالت نہیں سمجھتے بلکہ ان کے خیال میں سب سے کامل و اکمل حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہؓ کا تھا جوکہ مغلوب الحال نہ ہوا کرتے تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ:
" وَلَكِنْ مَنْ لَمْ يَزُلْ عَقْلُهُ مَعَ أَنَّهُ قَدْ حَصَلَ لَهُ مِنْ الْإِيمَانِ مَا حَصَلَ لَهُمْ أَوْ مِثْلُهُ أَوْ أَكْمَلُ مِنْهُ فَهُوَ أَفْضَلُ مِنْهُمْ. وَهَذِهِ حَالُ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَهُوَ حَالُ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ إلَى السَّمَاءِ وَأَرَاهُ اللَّهُ مَا أَرَاهُ وَأَصْبَحَ كَبَائِتِ لَمْ يَتَغَيَّرْ عَلَيْهِ حَالُهُ فَحَالُهُ أَفْضَلُ مِنْ حَالِ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي خَرَّ صَعِقًا لَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ وَحَالُ مُوسَى حَالٌ جَلِيلَةٌ عَلِيَّةٌ فَاضِلَةٌ: لَكِنَّ حَالَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْمَلُ وَأَعْلَى وَأَفْضَلُ"[38]
لیکن وہ شخص کہ جس کو ایمان کا کامل درجہ تو حاصل ہو ا ہو لیکن اس کی عقل و حواس زائل نہ ہوئے ہوں تو یہ شخص افضل ہے ان سے جن کی عقل و حواس زائل ہو جاتے ہیں اور یہ حال صحابہؓ کا تھا اور یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت ہے اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کولے جایا گیا آسمانوں کی طرف اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ مشاہدات کرائے کہ جن کا مشاہدہ کرانا اللہ پاک کو مقصود تھا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کے بعد کی صبح میں ویسی ہی حالت تھی جیسی ان دوسرے لوگوں کی تھی کہ جن کے حال میں رات کو کوئی تغیر و تبدیلی نہیں آئی تھی۔اور یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت زیادہ افضل و اعلیٰ ہوئی موسیٰ علیہ السلام کی حالت سے جوکہ بے ہوش ہو گئے تھے جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر اپنی تجلی فرمائی۔گو کہ موسیٰ علیہ السلام کی حالت بھی بلند تھی، جلالت والی تھی ،فضیلت والی تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حالتِ مبارکہ زیادہ کامل اعلیٰ اور افضل تھی۔
سماع ووجد، حضرت مجدد کی نظر میں
حضرت مجدد نے سماع و وجد پر اپنے مکتوبات میں بہت سے مقامات پر گفتگو کی ہے۔اس گفتگو کا لب لباب اگر بیان کیا جائے تو یوں کہنا نہایت مناسب ہو گا کہ حضرت مجدد معرفتِ الہیہ کی جس دولت سے مشرف تھے ،معرفت کی اس دولت کی خود اپنی لذت اتنی بے پایاں تھی کہ سماعِ قصائد اس کے سامنے بے حیثیت تھا۔تاہم حضرت مجدد نے سماع کا مطلقاََ انکار نہیں کیا بلکہ بعض حالات میں ایسے سماع کے مفید ہونے کا بھی قول کیا ہے کہ جس سے ایک سالک کو راہِ سلوک میں آگے بڑھنے کیلئے کوئی تحریکِ باطنی ملتی ہو لیکن حضرت مجدد جس سماع کے جواز و اباحت کے قائل ہیں وہ ہر لحاظ سے شریعت کے انہی اصولوں پر قائم ہے جس کی دلیل عہد رسالت اور عہد صحابہؓ میں موجود ہے۔ایک مقام پر حضرت مجدد کمالاتِ نماز اور حقیقت لذتِ نماز سے بے خبر لوگوں پر یوں تنقید فرماتے ہیں کہ"اس طائفے میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے اضطراب و بے قراری کی تسکین سماع و نغمہ و وجد و تواجد سے حاصل کی اور اپنے مطلوب کو نغمہ کے پردہ میں مطالعہ کیا اسی واسطے رقص و رقاصی کو دیکھنا عادت بنا لی حالانکہ انہوں نے سنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے حرام میں شفا نہیں رکھی۔ہاں ڈو بتے کو تنکے کا سہارا اور کسی شے کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے۔اگر نماز کے کمالات کی حقیقت کچھ بھی ان پر منکشف ہو جاتی تو ہرگز سماع و نغمہ کا دم نہ مارتے اور وجد و تواجد کو یا د نہ کرتے۔جب حقیقت کو جا ن نہ سکے تو افسانے کا راستہ اختیار کیا۔اے برادر جس قدر فرق نماز و نغمہ میں ہے اسی قدر فرق نماز کے مخصوصہ کمالات اور نغمہ سے پیدا ہوئے کمالات میں ہے عاقل کو ایک ہی اشارہ کا فی ہے"[39]
ایک مقام پر سلسلۂ نقشبندیہ کے کمالات بیان کرتے کرتے افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ آج کل کے نقشبندی حضرات اپنے کمال کو چھوڑ کر زوال و پستی میں عروجِ روحانی تلاش کر رہے ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ "نقشبندی بزرگ عجب قافلہ سالار ہیں جو پوشیدہ راستے سے قافلے کو حرم تک پہنچا دیتے ہیں ۔سالکِ راہ کے دل سے ان کی صحبت کا جاذبہ وسوسۂ خلوت اور فکر چلہ کو مٹا دیتا ہے لیکن اس زمانہ میں کہ یہ نسبت شریفہ عنقائے نایاب کی طرح ہو چکی ہے اور اپنا چہرہ پوشیدگی میں چھپا چکی ہے۔اسی طبقہ کی ایک جماعت نے اس دولت عظمیٰ اور نعمت قصوی کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف ہاتھ پاؤں مارے ہیں اور ان نفیس موتیوں کے عوض چند ٹھیکروں پر خوش ہو چکے ہیں اور بچوں کی طرح اخروٹ و منقا کے ساتھ آرام پذیر ہو چکے ہیں۔انتہائی اضطراب و حیرانی کے باعث اکابر کے طریقہ کو چھوڑ کر کبھی ذکر جہر سے تعلق پکڑتے ہیں اور کبھی سماع و رقص سے آرام حاصل کرتے ہیں اور انجمن میں ان کو خلوت میسر نہیں تو انہوں نے چالیس روز کے چلے اختیار کیے"۔[40]
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ"اس طریقہ علیہ (نقشبندیہ) کے بزرگواروں نے احوال و مواجید کو احکام شرعیہ کے تابع کیا ہے اور اذواق و معارف کو علوم دینیہ کا خادم بنایاہے ۔ یہ بزرگ احکام شریعیہ کے قیمتی موتیوں کو بچوں کی طرح وجد و حال کے اخروٹ و منقہ کے عوض ہاتھ سے نہیں دیتے،یہی وجہ ہے کہ سماع و رقص کو پسند نہیں کرتے"۔[41]
تاہم حضرت مجدد ہی کے کلام سے یہ خبر ملتی ہے کہ اگر کسی مرید کی حالت قبض کے رفع کرنے کیلئے سماع اور سریلی آواز کا کبھی کبھی سہارا لے لیا جائے تو یہ امر مباح ہے اور اس کے جواز پر شک نہیں کرنا چاہیے۔آپ لکھتے ہیں کہ"سب کاموں کے مالک اللہ جل سلطانہ نے مباح کاموں کے اختیار کرنے سے منع نہیں فرمایا اور اعتراض نہیں کیا تو دوسرے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنے پاس سے اعتراض کرنا شروع کر دے ؟بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض مقامات پر ترک اولیٰ اس اولیٰ کام کرنے سے بہتر ہوتا ہے۔حضرت میر نعمان[42] جب کہ حد سے زیادہ حالت قبض[43] میں ہے تو ایام قبض میں اگر مریدوں کے حالات کی طرف توجہ نہ کریں اور بعض مباح امور کے ساتھ اپنے آپ کو تسلی دیں تو اعتراض کی کیا گنجائش ہے؟ قبض کی حالت میں عبداللہ اضطخری[44] اپنی تسلی کیلئے کتوں کے ہمراہ شکار کیلئے جنگل میں جاتے تھے اور بعض مشائخ حالت قبض میں اپنے آپ کو سماع اور سریلی آواز سے تسلی دیتے تھے"۔[45]
اسی طرح حضرت مجدد جہاں رقص کرنے کو بدعت خیال کرتے ہیں تو وہیں اہل اللہ کے غیر اختیاری طور پر گاہے بہ گاہے معرفتِ الہیہ کی لذت میں رقص میں آجانے کو جائز اور امر واقعہ خیال کرتے ہیں۔’’باطنی آگاہی ‘‘یعنی کہ اہل اللہ کے باطن کو جو معرفتِ تامہ حاصل ہو گئی ہوتی ہے اس کے دائمی یا غیر دائمی ہونے پر بحث کرتے ہوئے شیخ ابو سعید ابو الخیر[46] کا ایک واقعہ وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ"اکابر اہل اللہ کے پیشوا شیخ ابو سعید ابو الخیر قدس اللہ سرہ اس آگاہی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں اور اپنے استاد سے اس کی تحقیق فرماتے ہیں جبکہ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات دائمی ہوتی ہے؟استاد جواب میں فرماتے ہیں نہیں۔شیخ مذکور پھر سوال کا تکرار فرماتے ہیں اور وہی جواب پاتے ہیں۔تیسری مرتبہ پھر وہی سوال کرتے ہیں تو ان کے استاد جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر یہ آگاہی دائمی ہو تو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے یہ بات سن کر شیخ ابو سعید رقص میں آگئے اور فرمایا کہ یہ انہیں نوادرات میں سے ہے"۔[47]
حضرت مجددکے نزدیک ایک سالک جب تک راہ سلوک میں سفر کر رہا ہوتا ہے تو اس پر تجلیا ت کے ظہور کی وجہ سے غلبۂ حال اور وجد کی کیفیات طاری رہتی ہیں لیکن جب وہ سلوک کے کمال کو پہنچ جا تا ہے تو پھر اس کے حال میں استقامت آجاتی ہے اور اس پر اس طرح کی کیفیات طاری نہیں ہوتیں۔وہ لکھتے ہیں :
" تجلیات کا حصول خواہ صور و اشکال کے لباس میں ہو خواہ الوان و انوار (رنگ و نور)کے پردہ میں،سب مقامات ولایت اور اس کے مقدمات و مبادی میں سے ہیں۔بخلاف مرتبۂ نبوت کے کہ وہاں اصل تک وصول ہوتا ہے اور ان تجلیات و ظہورات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جو اس اصل کا ظل ہیں اسی طرح نبوت کے مبادی و مقدمات کے طے کرنے میں ان تجلیات کی کچھ حاجت نہیں۔مگر اس صورت میں جب کہ راہِ ولایت سے عروج واقع ہو اس وقت ان تجلیات کا حصول بواسطہ ولایت ہے۔مختصر یہ کہ تجلیات و ظہورات ظلال کی خبر دیتے ہیں اور جو شخص گرفتاری ظلال سے گزر چکا ہے وہ تجلیات سے بھی چھوٹ چکا ہے۔ ماَزَاغَ البَصَر[48] کا راز یہاں تلاش کرنا چاہیے۔اے فرزند!عشق کی شورش و واویلا ،محبت کا زورودبدبہ ،شوق انگیز نعرے اور درد آمیز چیخ و پکار،وجد و تواجد اور رقص و رقاص سب مقامات ظلال اور ظہورات و تجلیات ظلیہ کے وقت ہیں اصل تک پہنچ جانے کے بعد ان امور کا حصول متصور نہیں ہے "[49]
مفہوم مکتوب:حضرت مجدد اس حقیقت کا اظہارفرما رہے ہیں کہ معرفت و قرب الہیہ کی دو راہیں ہیں ایک راہ ولایت ہے اور دوسری راہ نبوت۔جب تک سالک راہ ولایت پر گامزن رہتا ہے اسے تجلیات ،کیفیات وجد و تواجد رقص و سرور کے حالات پیش آتے رہتے ہیں لیکن جب سالک ان مقامات سے ترقی کر کے راہ نبوت کے فیضان کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے ان تجلیات کی حاجت نہیں رہتی کیونکہ وہ مقامات ظلال سے آگے ترقی کر کے مقام اصل تک پنہچ گیا ہے۔المختصر حضرت مجددؒ کے نزدیک وجد وغلبہ حال کی کیفییات اس سالک کو نصیب ہوتی ہیں جسکا سفر سلوک اپنی منزل کو تاحال نہ پنہچا ہو۔اسی مضمون کو وہ ایک اور مقام پر یوں بیان کرتے ہیں:
"سماع اور وجد اس جماعت کیلئے مفید ہے جو تقلب احوال (جن کے احوال بدلتے رہتے ہیں)سے متصف ہیں اور تبدیلئ اوقات کے ساتھ داغدار ہیں جو ایک وقت میں حاضر اور دوسرے وقت میں غائب ہو جاتے ہیں۔یہ لوگ کبھی واجد(اپنے مقصود کو پانے والے)ہوتے ہیں اور کبھی فاقد(گم کرنے والے)۔یہ لوگ ارباب قلوب ہیں۔چنانچہ یہ لوگ ابن الوقت ہیں اور وقت کے مغلوب ہیں کبھی عروج کرتے ہیں اور کبھی نیچے آجاتے ہیں لیکن ان کے برعکس ارباب تجلیات ذاتیہ جو مقام قلب سے کلی طور پر باہر آکر حق تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہو گئے ہیں اور کلیۃََ احوال کی غلامی سے نکل کر احوال کو تبدیل کرنے والے کی بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں وہ لوگ سماع و وجد کے محتاج نہیں کیونکہ ان کا وقت دائمی ہے اور ان کا حال سرمدی ہے بلکہ ان کیلئے کچھ وقت و حال نہیں تو یہ لوگ ابو الوقت اور اصحاب تمکین ہیں اور یہی واصل ہیں جو رجوع سے قطعاََ محفوظ ہیں اور ان سے ان کا مقصود گم نہیں ہو سکتا لہذا جن کا مقصود گم نہیں ہو سکتا ان کیلئے وجد نہیں"[50]
مفہوم مکتوب: یعنی حضرت مجدد یہ فرما رہے ہیں کہ وجد اس کو ہوتا ہے جو اپنے مقصود کی تلاش میں رہتا ہے اور اس متلاشی کو جب بھی کہیں سے مقصود کی کچھ جھلک ملتی ہے تو اس پر وجد و حال کا غلبہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ابن الوقت ہوتا ہے یعنی وقت کے تقاضا پر عمل کرتاہےلیکن جب کوئی واصل اور کامل اپنے مقصود حقیقی اور مطلوب تمنا کو پالیتا ہے تو پھر اسے وجد کی ضرورت نہیں رہتی وہ مستقیم الاحوال و ابو الوقت ہو جاتا ہے یعنی اس کا وقت اسکے ارادہ کے بغیر نہیں گزرتا۔اسی طرح اس سالک کو صاحب تمکین بھی کہتے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ سالک اپنا سلوک پورا کر کے مطلوب حقیقی سے واصل ہو گیا ہے۔
خلاصہ کلام:
سماع ووجد کے مسئلہ میں دونوں حضرات کی فکر باہم مماثل ہے۔ امام ابن تیمیہ اور حضرت مجدد الف ثانی کے افکار کو پیش کرنے کے بعد خلاصہ ء کلام کے طور پر دونوں حضرات کی فکر کے مماثل و مختلف پہلووں کوحسبِ ذیل نقاط کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
یکساں پہلو:
دونوں حضرات سماع قرآنی کو ایمانی حلاوت کا سبب قرار دیتے ہوئے ،اسی سماع کو سماعِ حقیقی قرار دیتے ہیں۔
دونوں حضرات غیر شرعی قصائد یا سماع کے جملہ غیر شرعی طریقوں سے بیزار ہیں۔
دونوں حضرات ایسے قصائد کے سماع کو بھی جائز سمجھتے ہیں جن کے سماع سے دینی جذبے یا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں اضافہ ہوتا ہو ،یا گاہے گاہے دل کی سختی کی حالت کے دور کرنے کیلیے بھی قصائد وغیرہ کے سماع کو جائز سمجھتے ہیں۔
دونوں حضرات قرآن کے سماع و ذکر کے دوران وجد و حال کے طاری ہو جانے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔تاہم دونوں حضرات کا موقف یہ ہے کہ وجد و حال کا طاری ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ جس پر ایسی کیفیات طاری ہوئی ہیں وہ ابھی کامل الاحوال نہیں ہوا،جب وہ کامل الاحوال ہو جائے گا تو اس کا ضبط اس قدر ہو جائے گا کہ وہ بےحال نہیں ہوگا،تاہم اگر مغلوب الحال کے حال کی صداقت ظاہر ہو جائے تو اس پر انکار نہیں کیا جائے گا۔
مختلف پہلووں:
امام ابن تیمیہ جب سماع کی بات کرتے ہیں اور اس کے ذریعے وجد و احوال کے حاصل ہونے کو جائز کہتے ہیں تو اس سماع سے ان کی مراد قرآن کا سماع ہوتا ہے جبکہ مجدد الف ثانی جب سماع کے ذریعے احوال کے حصول کی بات کرتے ہیں تو ان کے سماع سے مراد صوفیاء کا مخصوص سماع ہوتا ہے جس کو صوفیاء کرام کے ہاں قصائد و منقبت اور عشقِ الہی میں ڈوبے ہوئے کلام کا مخصوص طریقے پر سننا مراد ہوتا ہے،تاہم مجدد علیہ الرحمۃ اس سماع کو محض گاہے گاہے دل کی سختی دور کرنے کیلیے مباح کے درجے میں قبول کرتے ہیں اور ایسے سماع کی کثرت کو قطعا نا پسند کرتے ہیں۔
امام ابن تیمیہ جب وجد و حال کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد سماع قرآنی یا ذکر کی کثرت کی وجہ سے گاہے گاہےاحوال کا حاصل ہونا مراد ہوتا ہے جب کہ حضرت مجدد کے نزدیک یہ احوال ہر اس سالک کو نصیب ہوتے ہیں جو مریدی اور سلوک معرفت الہی کے ابتدائی دور میں ہوتا ہے اور جب وہ معرفت الہی کے مقصود کی منزل پاجائے تو پھر یہ احوال اس سے دور ہو جاتے ہیں،امام ابن تیمیہ اس حوالے سے سالک و غیر سالک یا مرید وغیر مرید کی الگ الگ وضاحت نہیں کرتے اور نہ ہی اس کو کسی کے لیے کسی مقام پر ضروری سمجھتے ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ القرآن ،مریم:58
- ↑ القرآن ،الانفال:2
- ↑ ابن تیمیہ امام حافظ،رسالہ السماع و الرقص دار الکتب السلفیہ لاہور2007ء ،ص5
- ↑ القرآن ،النساء:41
- ↑ ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل البخاری،البخاری فی التفسیر(4587)
- ↑ ابن تیمیہ امام حافظ،مجموعۃ الفتاوٰی،مکتبۃ العبیکان،المملکۃ العربیۃ السعودیہ الریاض،1997ء، ج11،ص164
- ↑ ایضاً
- ↑ القرآن ،الانفال:35
- ↑ ابن تیمیہ امام حافظ،مجموعۃ الفتاوٰی، ج11،ص163
- ↑ ابن تیمیہ امام حافظ،رسالہ السماع و الرقص، ص17
- ↑ ایضاً:ص27
- ↑ ایضاً: ص38
- ↑ القرآن ،لقمان:18
- ↑ ابن تیمیہ امام حافظ،رسالہ السماع و الرقص، ص32
- ↑ ایضا ً:ص33
- ↑ ابن تیمیہ امام حافظ،مجموعۃ الفتاوٰی، ج10،ص363
- ↑ القرآن ،المدثر:8
- ↑ ابن تیمیہ ،مجموعۃ الفتاوٰی، ج11 ،ص 8
- ↑ ابو حاجب العامری البصری زرارۃ بن اوفی قاضی بصرہ (93ھ)آپ بہت عبادت گزار تھے۔ ثقہ راویوں میں سے آپ کا شمار ہوتا ہے (ذھبی،سیر اعلام النبلاء،ج5،ص308)
- ↑ صالح المری کی اقتداء میں نماز پڑھنے والا ایک شخص تھا۔
- ↑ صالح بن بشیر بن وادع بن ابی الاقعس،ابوا لبشر البصری القاص المعروف باالمری(172ھ)، زاھد و عابدو خوف الٰہیہ رکھنے والے تھے احادیث کے راویوں میں سے تھے(سیر اعلام النبلاء،ج7،ص 149)
- ↑ القرآن ،الانفال:2
- ↑ ابن تیمیہ ،مجموعۃ الفتاوٰی ،ج11 ،ص 9
- ↑ یحی بن سعید القطانؒ(198ھ) ثقہ راویان آحآدیث میں سے تھےقال أحمد: ما رأيت بعيني مثل يحيى بن سعيد القطان( ذھبی ، تذکرۃالحفاظ: 218).(امام احمدبن حنبلؒ نے فرمایا : میری آنکھ نے یحی بن سعید ؒکی مثل نہیں دیکھا)
- ↑ القرآن ،الانفال:2
- ↑ القرآن ،الزمر:23
- ↑ س القرآن ،مریم:58
- ↑ القرآن ،المائدہ:83
- ↑ القرآن ،الاسراء:109
- ↑ ابن تیمیہ ،مجموعۃ الفتاوٰی ،ج11 ،ص9
- ↑ ایضاً
- ↑ القرآن ،البقرہ:74
- ↑ القرآن ،الحدید:16
- ↑ ایضا ً
- ↑ القرآن ،البقرہ:74
- ↑ القرآن ،الحدید:16
- ↑ ابن تیمیہ ،مجموعۃ الفتاوٰی، ج11 ،ص 9
- ↑ ایضاً: ج11 ،ص 11
- ↑ مجدد الف ثانی،مکتوبات، دفتر اول،مکتوب نمبر261(مکتوبات(اردو)مترجم:مولانا محمد سعید احمد نقشبندی ،مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی1972ء)
- ↑ مجدد الف ثانی،مکتوبات، دفتر اول،مکتوب نمبر168
- ↑ ایضاً:مکتوب نمبر221
- ↑ حضرت مجدد کے خلفاء میں سے تھے۔
- ↑ صوفیاء کے ہاں سالک کی اس حالت کو حالت قبض کہتے ہیں جب طاعت و عبادت کی طرف اس سالک کو باطنی حلاوت و تحریک نہ مل رہی ہو اور جب سالک طاعت و عبادت کیلیے باطنی حلاوت محسوس کرنے لگے تو اس حالت کو حالت بسط کہا جاتا ہے۔
- ↑ مشائخ طریقت میں سے تھے۔
- ↑ مجدد الف ثانی،مکتوبات، دفتر اول،مکتوب نمبر313،ص913
- ↑ فضل اللہ،شااہ ابو سعید ابو الخیر( 357ھ۔440ھ)آپکا تعلق غزنی سے تھا،آپ شیخ الشیوخ ابو الفضل سرخسیؒ کےمریدتھے،سلطان طریقت تھےتمام مشائخ طریقت آپ کے مسخر تھے(مولانا جامی،نفخات الانس،ص533)
- ↑ مجدد الف ثانی،مکتوبات، دفتر اول،مکتوب نمبر290،ص822
- ↑ اور ان کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی(ا لنجم:17)
- ↑ مجددالف ثانی،مکتوبات،دفتر اول مکتوب نمبر302،ص873
- ↑ الف ثانی مجدد دفتر اول مکتوب نمبر 285،ص757
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔