Abstract
Before the birth of the Holy prophet, human society yet again got at the verge of destruction due to apostasy and ignorance. The Holy Prophet introduced Islam to the sinking humanity. For spreading its message "Dawat"; Calling (To God) was made everybody's job. As Allah says in the holy Quran: "The Believers, men and women, are protectors, one of another: they enjoin what is just and forbid what is evil:" (9:71). There are three fundamental groups of preachers. The first is the "Dawat" of common people to others. It is imperative for such a preacher that he himself should get the knowledge of religion through Islamic law and then communicate every virtue of it to his family, friends, neighbors and close relatives. The second is the place of Nobles. They include the commentators of the Quran, the narrators of the Prophet's Sayings, theologians and the learned scholars. The commentators of the Quran explain the meanings of the verses of the Quran keeping in view the conditions of the Quranic sciences. The narrators interpret the meanings of the Sayings of the Holy Prophet. The theologians or the learned scholars are entitled to discuss the Quran, Prophet's Sayings and the problems of the Islamic laws. The third is the place of the favorites. These people are the perfect successors of the Prophets. They have full control over the knowledge of laws as well as over the knowledge of mysteries. As Allah says: "and purify them", (one of the responsibilities of the Holy Prophet was to purify the souls). At a place it is said: "Truly he succeeds that purifies it" (91: 9). In this article research is done on "Calling (to God) and conveying His message".
آپﷺکی تشریف آوری سے قبل انسانی معاشرہ گمراہی اور ظلمت کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺکو مبعوث فرمایا اور آپﷺنے دین اسلام کو دنیا تک پہنچایا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ان الدین عند اللّٰہ الاسلام.
[1] "دین تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے۔"تمام انسانیت کو دینِ اسلام کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ومن یبتغ غیرالاسلامِ دینا فلن یقبل منہٗ وھو فی الاٰخرۃِ من الخٰسرین.
[2] "اور جو شخص دینِ اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو گا وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائےگا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گا۔"دینِ اسلام کو مکمل طور پر اختیار کرنے اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی سے بھی منع کیا گیا تاکہ انسان دنیا اور آخرت دونوں میں فلاح پائے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یٰایھا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کآفۃ ولاتتبعوا خطوٰت الشیطٰن انہٗ لکم عدو مبین۔
[3] "مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو ۔بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"
مندرجہ بالا احکامات سے معلوم ہوا دنیا کے تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے اب صرف اور صرف دینِ اسلام کا راستہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قبول ہے اس کے علاوہ دیگر دوسرے مذاہب قابلِ قبول نہیں۔ جو شخص طالبِ حق ہو اُس کوچاہئے کہ کامل طور پر دینِ اسلام میں داخل ہوجائے۔ قرآن پاک انسانوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے جبکہ آپﷺقرآن پاک کی مکمل تفسیر اور راہنما ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :ان ھو الا ذکر للعٰلمین۔
[4] "یہ توجہاں کے لوگوں کے لئے نصیحت ہے۔"ارشادِ باری تعالیٰ ہے : الٓرٰ کتٰب انزلنٰہ الیک لتخرج الناس من الظلمٰت الی النور۔
[5] "الٓرٰایک کتاب (ہے) اس کو ہم نے آپﷺپر اس لئے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔"اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اورآپﷺکی ذمہ داریوں میں"یتلوا علیھم اٰیٰتہ"(تلاوت کے ذریعہ اللہ تعالی کے احکام پہنچانا)"ویزکیھم" (نفسوں کو پاک کرنا)"ویعلمھم الکتاب والحکمۃ"(کتاب اور حکمت کی تعلیم دینا) بھی شامل ہے۔آپﷺنے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ ان ذمہ داریوں کوپوراکیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر واولٰئک ھم المفلحون۔
[6] "اور تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے، یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔"
فروغِ اسلام کے سلسلے میں دعوتِ دین کے کام کو تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
۱۔قسم اوّل: (عوام الناس(
اس قسم میں ہرمسلمان مرد و عورت پر دینِ اسلام کی عام فہم باتیں ایک دوسرے پر پہنچانا فرضِ عین ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: والمؤمنون والمؤمنٰت بعضھم اولیآء بعض یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر۔
[7] "اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں اچھے کام کرنے کا کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں۔" اس آیت سےہوتا ہے کہ ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت پر تین باتیں ضروری ہیں۔
(اول): ہرمومن(یعنی کلمہ گو آپﷺکاامتی)مرداورہرمومنہ عورت کوایمان کےرشتہ کی وجہ سے سےایک دوسرے (مسلمان) کو دوست یعنی ہمدردسمجھنا چاہئے اور دوست کے دو تقاضے بیان ہوئے ۔
(دوم): ہرمومن مرد و عورت ( مرد مرد کواور عورت عورت کو ) امر بالمعروف یعنی دینِ اسلام کی تعلیمات سیکھے اور ایک دوسرے کو سکھائے کون سا کام نیکی کا ہے، اخلاقِ حسنہ کیا ہیں، بنیادی احکامِ اسلام کو سیکھے اور ایک دوسرے کو سکھائے۔
(سوم): ہرمومن مرد و عورت خود بھی برائیوں سے بچے اور دوسروں کو بچنے کی تلقین بھی کرے۔
ارکانِ خمسہ (ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج اور وضو غسل وغیرہ) اور اخلاقِ حسنہ اور اخلاقِ رذیلہ کو جاننا ہر مومن مرد و عورت پرفرضِ عین ہے۔اگر ہر مرد و عورت اللہ کے اس حکم کو جان لے اور عملی طور پر اختیارکرے تو معاشرے کی خرابیاں بتدریج دور ہونے لگیں گی۔ بچے، بچیاں، جوان، مرد و عورت اور بوڑھے سب کی اصلاح کی بنیاد اخلاقِ حسنہ کو اختیار کرنے اور اخلاقِ رذیلہ سے بچنے پر ہے۔ یہ دعوت اپنی ذات سے شروع ہوکر بیوی،اولاد، اہلِ خانہ ، دوست ، پڑوسی ہر طرف پھیلتی چلی جاتی ہے۔ فی زمانہ تبلیغی جماعت اور دیگر دینی جماعتیں درسِ نصیحت، درسِ قرآن (یعنی تفسیر کو پڑھنا) ، درسِ حدیث، دینی قصص وغیرہ کے ذریعہ انجام دے رہے ہیں۔
قسم اوّل میں تبلیغ کے اصول*
اس قسم کے داعی کو چاہئے کہ پہلے خود علم دین کو علم فقہ کے ذریعہ حاصل کریں۔ خاص طور پر عقیدہ، طہارتِ (ظاہری و باطنی ، عبادات، معالات اور احکامِ شریعت یعنی فرض، واجب، سنتِ مؤکدہ، مستحب، مباح، مکروہ، حرام اور حلال) کے احکام کو سیکھے۔
قسم اوّل کے داعی میں پائی جانے والی لغزشیں
جیسا کہ اوپر بیان ہوا قسم اوّل کے داعی کا درجہ عوام الناس کا ہے جو علم دین کی بنیاد اصولِ تفسیر، اصولِ الحدیث اور اصول فقہ سے کامل طور پر واقف نہیں ہوتے ۔حدودِ تبلیغ کو پار کرنے سے گمراہی اور معاشرے میں فرقہ واریت کے فروغ کا سبب بن سکتے ہیں۔ قسم اول کے داعی دعوتِ دین کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر تک ہی محدود رکھیں ۔ فروعی اور اختلافی مسائل کو ہر گز زیرِ بحث نہ لائیں۔ یہ علمائے راسخین کاحق ہے جو علمِ احکام اور علمِ اسرار کے وارث ہوتے ہیں۔بے شعورعوام میں ایسے اختلافی مسائل کو اُٹھانے سے اختلافات جنم لے سکتے ہیں، جس سے معاشرے میں بے یقینی، بد امنی اور آپس میں نفرت کی فضا ءپیدا ہوتی ہے۔قسم اوّل کے داعی کو جو عالمِ دین نہ ہوں ایسے مسائل پر بحث اور گفتگو عوام کے روبرو کرنے کا حق ہی نہیں۔عصر حاضر کے بے شمار فتنہ اسی بد احتیاطی کا نتیجہ ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا۔
[8] "اور سب مل کے اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔"
نفسِ امارہ جو اپنی ذات کے اعتبار سے فسادی، سرکش، جاہل، ریاکار، تعریف چاہنے والا ہے۔ چونکہ اس قسم کا داعی نفسِ امارہ کی قید سے آزاد نہیں ہوتا ،دین کی محبت اور ایمان کی کشش کی وجہ سے دعوت کے کام میں شامل ہوجاتاہے۔ ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہئے۔ زیادہ بولنے، تعریف چاہنے، غرور، شیخی، اترانے، دکھلاوا کرنے سے بچے ،ورنہ عمل ضائع ہو جائے گا۔دعوتِ دین کے کام کو بے شک نبیوں والا کام سمجھ کر کرے لیکن یہ خیال رہے کہ نبیوں کا کام قرآن پاک کی روح سے (الف)"یتلواعلیھم اٰیٰتہ" (تلاوت کے ذریعہ احکامات کو پہنچانا) (ب)"ویزکیھم"(نفسوں کو پاک کرنا) (ج)"ویعلمھم الکتاب والحکمۃ"(کتاب اور حکمت یعنی معرفت کو سیکھنا،جاننا تھا(۔نیز(۱)احکاماتِ دین (علم ظاہر) (۲) تزکیہ نفس (علم اسرار) (۳) کتاب و حکمت (قرآن و سنت کی معرفت کے ساتھ عمل کرنا اور کرانا ہے) وارثِ انبیاء کی ذمہ داری میں یہ تینوں کام شامل ہیں۔
قسمِ اوّل کے داعی نبیوں والے کام میں پہلے حصّہ میں سے صرف ایک جزامر بالمعروف و نہی عن المنکر (اخلاقِ حسنہ اختیار کرنے اور اخلاقِ رذیلہ سے بچنے) کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور بعض احباب چونکہ تزکیہ نفس سے دور ہوتے ہیں اور تزکیہ کوکم علمی کی وجہ سے ضروری بھی نہیں سمجھتے یہ انکار انانیت اور کبر کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے نفسِ امارہ کی گرفت سے آزادی میسر نہیں ہوتی اس لئے غرور اور انانیت جیسے حجابات کی وجہ سے علماء راسخین و اولیائے کرام کو حقیر جاننے لگتے ہیں اور کم علمی کی بنا پر اُن کی اپنی ترقی بھی رک جاتی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون.
[9] "ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے۔"سورۃ الحجر(آیت:۹۹) میں عبادت کے مفہوم کی تفسیر اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں: واعبد ربک حتّٰی یأتیک الیقین.
[10] "اپنے رب کی اتنی عبادت کر کہ تجھے یقین حاصل ہو جائے۔"
یقین اللہ تعالیٰ پر ایمان کو کہتے ہیں۔ اتنی عبادت کر کہ تجھے یقین حاصل ہوجائے۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ معارفِ لدنیہ میں اللہ تعالیٰ پر یقین کے تین مراتب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کے تین مراتب ہیں:
اوّل (علم الیقین): آپؒ فرماتے ہیں:"علم الیقین در ذاتِ حق سبحانہٗ وتعالٰی عبارت از شہود آیاتے ست کہ دلالت می کند بر ذات اوجل شانہٗ۔"
[11]"حق سبحانہٗ وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں علم الیقین حاصل ہونے سے مراد اُن آیات(نشانیوں)کاشہودہے جو حق جل شانہٗ کی ذات پر دلالت کرتی ہیں۔"علم الیقین میں صورتِ اسلام ہے اورصورتِ اسلام میں رہنے والوں کاایمان بھی صورت ہی میں ہوتاہے۔ اس درجہ میں ذات، صفات، اسمائے الہٰی وغیرہ کوعلم الیقین کے درجے میں حاصل کیاجاتاہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت ۱۳۶ میں فرمایا: یٰایھا الذین اٰمنوا اٰمنوا باللّٰہ ورسولہٖ والکتٰب.
[12] "اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور کتاب پر۔"
اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں سے تقاضا ہے کہ اے ایمان والو! ایمان لاؤ۔ یعنی صورتِ اسلام و ایمان سے حقیقتِ اسلام و ایمان میں داخل ہو جاؤ اور حقائق تک پہنچنے کے لئے نفسِ امارہ کی قید سے آزادی لازمی ہے۔جب کسی کامل اللہ والوں کی نگرانی میں ریاضات، مجاہدات، ذکر اور توجہات شیخ کی برکت سے نفسِ امارہ کی قید سے آزادی حاصل کر کے صورتِ اسلام سے حقیقتِ اسلام میں داخل ہوجاتاہے اورحقائق کے علم کو پا کر ایمان کی کاملیت کی طرف بڑھتا ہے۔ مشاہدے کی قوت بیدار ہوتی ہے حق و باطل کو عین الیقین کے درجے میں ادراک کرتا ہے۔ اسی لئے حضرت مجدّد الف ثانی ؒ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے دوسرے درجہ کو عین الیقین فرمایا ہے۔
دوئم (عین الیقین): آپؒ فرماتے ہیں: "عین الیقین، عبارت از شہودِ عبد است بر حق سبحانہٗ رالبعد ارتفاعِ حجابِ تعین او۔"
[13] "عین الیقین سے مراد بندے کو اس کے اپنے یقین کا حجاب اٹھ جانے کے بعد حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا شہود حاصل کرناہے۔"جب علم الیقین کے درجے میں رہتے ہوئے ریاضات، مجاہدات اور ذکر کو اختیار کرتا ہے تو حجاباتِ باطن دورہونے لگتے ہیں، جس سے ایمان اور پختہ ہوتا ہے۔ یہ ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے، اس مقام پر بندہ عوام سے نکل کر خواص کے مقام میں داخل ہوجاتا ہے اور نفس امارہ، نفس مطمئنہ کی طرف پیش قدمی کرنے لگتا ہے۔ یقین کا اعلیٰ و ارفع درجہ حق الیقین ہے۔
سوئم (حق الیقین):حضرت مجدّد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں: "حق الیقین عبارت از شہودِ اوست جل شانہٗ"
[14] "حق الیقین سے مراد حق تعالیٰ جل شانہٗ کا اس کی ذات کے ساتھ شہود (دیکھنا )ہے۔"انسان کا مقصدِ حیات "عبادت"ہے اورعبادت موت آنے تک کرنی ہے تاکہ ایمان کے تینوں مراتب کو حاصل کرلے۔ دعوت کا اجر بھی اُس کے مقام کے مطابق ہوگا۔ ایک شخص علم الیقین میں ہے، اُس کا اجر عین الیقین سے کم ہو گا۔ ایک شخص عین الیقین کے درجہ پر ہے، اُس کا اجر حق الیقین سے کم ہے اور حق الیقین والے کا اجر دونوں مقامات سے بلندہوگا۔ اسی طرح بالترتیب دعوتِ دین کا بھی مقام ہے۔ اسی لئے داعی کو چاہئے کہ اپنی ذاتی ترقی کو بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاری رکھے اور انبیاء علیہ السلام کی کامل وراثت کو پانے کی مکمل کوشش کرتے رہے تاکہ دعوتِ دین کاکام کامل طور پر ادا کر سکے۔ قربِ الٰہی کی منزلیں کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات لا محدود ہے۔اُس کے قُرب کے مقامات بھی لا محدود ہیں اور یہ سب اتباعِ رسولﷺمیں پنہاں ہیں۔
۲۔قسم دوئم:( خواص)
یہ قسم خواص کا مقام یعنی یہ مقام مفسرین، محدثین ،فقہا اور علماء کرام کا ہے۔
مفسرین کرام: اصول تفسیر کی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے ان علوم کی روشنی میں قرآن پاک کے معنی و مفہوم کو بیان کرتے ہیں۔ یہ دعوت حق تفسیر کے ذریعہ سرانجام دیتے ہیں جس سے ہزاروں مخلوق سیراب ہوتی ہیں۔
محدثین کرام: اصولِ حدیث کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے حدیث کی تحقیق ومعنی وغیرہ پر بحث کر کے دعوتِ دین کے کام کوانجام دیتے ہیں۔
فقہا کرام: یہ حضرات علوم القرآن ، علوم الحدیث اور اصولِ فقہ کی روشنی میں ماخذ قرآن سے استنباط کرتے ہیں، فقہی مسائل بیان کر کے دعوتِ دین کی خدمت انجام دیتے ہیں۔
علماء کرام: یہ طبقہ علوم دینیہ سے واقف ہوتا ہے۔ عوام الناس کو تفسیر، حدیث اور فقہ کا درس دینے کا قسم اوّل کے داعی سے زیادہ اہل اور حق رکھتے ہیں۔ یہ طبقہ علوم دینیہ کی برکت سے آیتِ قرآنی، حدیث اور فقہی مسائل پر بحث کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔
قسم دوئم کی تبلیغ کے اصول
فی زمانہ تفسیریں، کتبِ حدیث اور کتب فقہ منظر عام پر آ چکی ہیں۔ علماء کرام کو چاہئے ایسے لوگ جو دینِ اسلام میں آگے بڑھنا چاہتے ہوں اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ شفقت و محبت کے ساتھ مختلف اوقات میں درسِ قرآن، حدیث اور فقہ کی محفلیں، مساجد ، محلے ، اور قریہ قریہ، گاؤں گاؤں ہر طرف انجام دیں تاکہ لوگ ان علوم سے واقف ہوں ۔ ان دُروس کے ذریعہ دعوتِ دین کا کام انجام دیں۔
طبقہ دوئم میں پائی جانے والی لغزشیں*
اگر تزکیہ نفس نہ کیا ہو تو بشری تقاضے نفس اور جسم تک محدود ہوتے ہیں ۔ لطائف علم دین کے انوار سے کافی حد تک اصلاح پاچکے ہوتے ہیں۔ اسی لئے مزید قرب اور کاملیت کے لئے علم اسرار کے ذریعہ فنائے نفسی کی دولت کو پانے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ کامل وارثِ انبیاء ؑبن سکیں۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں:
"وراخبار آمدہ العلماء ورثہ الانبیاء علمیکہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات باقیماندہ است دو نوع است علم احکام و علم اسرار عالم وارث کسے است کہ اورا ازہر دونوع علم سہم بود نہ آنکہ اورا ازیک نوع نصیب بودنہ از نوعِ دیگر کہ کہ آن منافی وراثت است چہ وارث را از جمیع انواع ترکہ ٔ مورث نصیب ست انہ از بعض دون بعض وآنکہ اورا از بعض معین نصیب ست داخل غرما ست کہ نصیب او بجنس حق او تعلق گرفتہ است وہمچنین فرمودہ علیہ وعلیٰ اٰلہ الصلوٰۃ والسلام علماء امتی کانبیآء بنی اسرائیل مراد از علما علماء وارثانندنہ غرما کہ نصیبے از بعض ترکہ فراگرفتہ اندچہ وارث را بواسطۂ قرب و جنسیت ہمچو مورث میتوان گفت بخلاف غریم کہ ازین علاقہ خالی است پس ہر کہ وارث نبود عالمِ نبا شد مگر آنکہ علم اور امقید بیک نوع سازیم و گویم کہ عالم علم احکام است مثلاد عالم مطلق آن بود کہ وارث باد وازہر دو نوع علم اورا نصیب وافر بود۔"[15]
"حدیث شریف میں وارد ہے العلماءورثۃالانبیاء (علماء انبیاءؑ کے وارث ہیں) واضح ہو کہ جو علم انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے باقی و جاری ہے دو قسم کا ہے: (۱) علمِ احکام (۲) علمِ اسرار۔ اور (انبیاء کی)وراثت کا عالم (کہلانے کا مستحق) وہی شخص ہو سکتا ہے جو دونوں قسم کے علم سے بہر ور ہو، نہ یہ کہ صرف ایک قسم کاعلم حاصل ہو اور دوسری قسم سے محروم ہو۔ یہ بات وراثت کے منافی ہے، کیونکہ وارث کو موروث کے ہر قسم کے ترکہ میں سے حصہ ملتا ہے، نہ کہ بعض میں حصہ ہو اور بعض میں نہ ہو۔ اور وہ شخص جس کا حصہ کسی خاص معین تک محدود ہو وہ (وارث نہیں بلکہ) غرما (قرض خواہ) میں داخل ہے، جس کا حصہ اس کے جنس کے حق سے متعلق ہے، اسی طرح آنحضرتﷺنے فرمایا ہے: علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں) اور علماء سے مراد علمائے وارث ہیں نہ کہ غرما کہ جنہوں نے ترکہ کا بعض حصہ لیا ، کیونکہ وارث کو قرب و جنسیت کی وجہ سے بھی موروث کے مانند کہہ سکتے ہیں بخلاف غریم کے کہ وہ اس تعلق سے خالی ہے۔ لہٰذا جو شخص وارث نہیں ہے وہ عالم بھی نہیں ہے، مگر یہ کہ اس کے علم کو ایک نوع کے ساتھ مقید کر دیا جائے اور مثال کے طور پر یوں کہیں کہ وہ علمِ احکام کا عالم ہے۔اور عالم مطلق وہ ہے جو وارث ہو اور اس کو دونوں قسم کے علوم سے وافر حصہ حاصل ہو۔"
حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کی اس عبارت سے ظاہر ہوا وارثِ انبیاء سے مراد وہ علماء کرام ہیں جنہوں نے انبیاء ؑ کی وراثت سے کامل طور پر دونوں علوم سے حصّہ پایا ہو۔ فی زمانہ اکثر علمائے کرام صرف علم احکام (علم ظاہر) کو تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن علم اسرار (علم باطن) کی طرف توجہ نہیں دے پاتے۔اگر علم دین کو اللہ تعالیٰ کی رضا، دعوتِ دین اوراخلاص و تقویٰ کے ساتھ آدابِ استاد و آدابِ علم کو مد نظر رکھتے ہوئے رزقِ حلال اور طیب غذا کے ساتھ حاصل کیاجائے تو علم دین کی برکت سے قابلِ قدر حد تک نفسِ امارہ کی سرکشی کم ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات نفسِ امارہ کی سرکشی عروج پر ہوتی ہے۔ ظاہری علم کی وجہ سے انانیت اور تکبر پیدا ہوجاتا ہے اور پھرغصّہ، حقارت،بڑائی جیسے حجابات باطن پر پیدا ہوجاتے ہیں۔اورترقی اور استفادہ کی راہ بندہوجاتی ہے۔ اوربعض اوقات شیطان ڈس لے تو فرقہ پرستی، دین فروشی، ضمیر فروشی، شہواتِ دنیا میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ایسے طبقے کو پھر علمائے سو کے لقب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے آپﷺفرماتے ہیں: "ہاں اسی طرح ہوگا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اُس وقت جھوٹ پھیل جائے گا، دُم دارستارہ ظاہر ہوگا اور عورتیں ، مردوں کے ساتھ تجارت میں شریک ہو ں گی، بازار قریب قریب ہو جائیں گے۔ لوگوں نے کہا بازاروں کا قریب ہونا کیا ہے؟ آپﷺنے فرمایا کہ کساد بازاری ہو گی اور نفع میں کمی ہو گی۔ اُس وقت اے سلمان ؓ اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہوا (آندھی) بھیجے گا جس میں پیلے رنگ کے سانپ ہوں گے (یعنی سونے کے زیورات کو جمع کرنے میں ملوث ہو گا) اور وہ سانپ اُس وقت کے سردار علماء پر گریں گے کیونکہ انہوں نے برائیوں کو دیکھ کر ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔"
حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کے دور میں اسی قسم کے علمائے سُو کی وجہ سے اکبر بادشاہ دینِ اسلام سے نفرت کرنے لگا اور ایک نئے دین کی بنیاد قائم کر دی۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تنِ تنہا علمائے سُو صوفیائے سُو اور امراء اور سلاطین کا مقابلہ کیا اور پورے ہندوستان کی کایا پلٹ دی۔
*
قسم دوئم کے بعض علمائے کرام بے شعور عوام کے روبرو فروعی اور اختلافی مسائل کو بیان کرکے معاشرے میں بدامنی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔عوام کو اللہ کا راستہ اور امت کو ایک کرنے کے بجائے مسلک پرستی کی تعلیم دینے میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔بے شعورعوام جو دینِ اسلام کی بنیادوں اورا صولوں سے ناواقف ہوتی ہے، جذبات میں آکر دوسرے مسلک سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح اسلامی معاشرہ نفرت اور تعصب کا شکار ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت ۱۰۳ میں فرمایا: واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولاتفرقوا۔’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور اُس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘ کے مطابق عوام میں اختلافی مسائل بیان کر کے فرقہ واریت کو فروغ نہیں دینا چاہئے۔ بلکہ عوام کودین کی محبت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرانا ہے۔ آپس میں اختلافات سے دین سے نفرت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اکبر بادشاہ کے دور میں بھی اور فی زمانہ علماء سؤنے یہی روش اختیار کی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے کے بجائے امتِ مسلمہ میں اختلافی مسائل کو بے شعور عوام کے روبرو بیان کر کے فتنہ و فساد پھیلانے کے موجب بنے ہوئے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔علماء حق کی صحبت تو کبریتِ احمر(سرخ گندھک) کی مانند ہے جو بہت بڑی نعمت ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو علماء سؤ کی صحبت اور فتنہ سے محفوظ فرمائے اور علماء حق کی صحبت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
۳۔قسم سوئم:( اخص الخواص)
تیسراطبقہ یا ان حضرات کا مقام ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو لوگ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے کامل وارث ہیں۔ یعنی علم احکام کے ساتھ،علم اسرار (علم باطن) پرمکمل دسترس رکھتے ہیں۔ ان کا مقام اورکام بھی بہت اعلیٰ وارفع ہوتاہے۔ یہ لوگ علم احکام کے ساتھ علم اسرار کی برکت سے کامل تزکیہ، تصفیہ اور تجلی روح کو حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ علم احکام، علم اسرار، کی برکت سے فنائے قلبی، فنائے نفسی، بقائے کامل، مقامِ رضا، مقامِ محبت اور اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت سے آگاہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ صورتِ اسلام و ایمان سے حقیقتِ اسلام و ایمان کو پا چکے ہوتے ہیں۔یہ مقام صالحین کا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بڑی بڑی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ اس طبقہ کی بھی دو اقسام ہیں:
قسم اوّل:اس قسم میں صاحبِ ارشاد اولیاء کرام کا مقام ہے۔ جو مخلوقِ خدا کو ہدایت کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ان کے اندر علم،عمل اوراخلاص تینوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ ان کے قول وفعل میں اور ظاہروباطن میں یکسانیت ہوتی ہے۔ ان کا ظاہر شریعت کامسمّٰی ہوتاہے جبکہ ان کاباطن حجابات سے پاک ہوتاہے۔ ان میں اکثر مفسرین ، محدثین اور فقہا حضرات بھی ہوتے ہیں۔ یہ حضرات عام، خاص اوراخص الخواص تینوں طبقوں کو دعوتِ دین دینے، ان کے باطن روشن کرنے، فیضِ الٰہی کو منتقل کرنے، حقائق و معارف بیان کرنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا اندازِ تبلیغ عوام اور خواص کی دعوت سے بہت مختلف ہوتاہےجومندرجہ ذیل ہوتاہے:
درس کے ذریعہ: اللہ تعالیٰ نے انہیں فراستِ باطن کی دولت عطا کی ہوتی ہے ۔ موقع محل، ماحول اور لوگوں کے مطابق اندازِ گفتگو اختیار کرتے ہیں۔جولوگوں کے دلوں میں اترتی چلی جاتی ہیں۔ چونکہ ان لوگوں کے حجاباتِ باطن دور ہوچکے ہوتے ہیں۔ علم اور شریعت کے انوارسے ان کے باطن روشن ہو چکے ہوتے ہیں جیساکہ ارشادہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو اللہ کے نورسے دیکھتاہے۔ ان کی زبان میں علم ، عمل اور اخلاص کی برکت سے ایسی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے کہ سخت سے سخت دل انسان ان کے کلام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اوراخلاص کی وجہ سے جس میں نفسِ امارہ کی آمیزش نہیں ہوتی۔ ان کاکلام مخاطب پر اثرانداز ہوکر باطنی حجابات کو دورکرنے کاسبب بنتاہے۔حضرت مولانا ڈاکٹر غلام مصطفی خان ؒ فرماتے ہیں: "ذاکر کو یہ نکتہ فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اہل ذکرکی دعاؤں اورساتھیوں کا حلقہ ہی اس کے لئے حصارکاکام دیتاہے اسے زندگی کے کسی بھی موڑ پر اہل ذکر کے حلقہ سے رشتہ منقطع نہ کرنا چاہئے۔ چونکہ صحبت سے شعاعیں منتقل ہوتی ہیں، اہل ذکر کی صحبت سے طاقتور نورانی شعاعیں قلب میں داخل ہوتی ہیں۔جس سے شریعت پر عمل پیرا ہونے اور پاکیزہ خیالات کے استحضار کا غلبہ رہتاہے۔"
[16]
یہ سب تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور تجلیہ روح کی برکات سے ہوتا ہے۔ایسا باطن اسرارِ ربانی کو اپنے اندر جذب کرکے صاحبِ ارشادِ داعی کے باطن سے طاقتور شعاعوں کی صورت میں منعکس ہو کر سامنے والے شخص کی اصلاح کا سبب بنتا ہے۔ حضرت زوار حسین شاہ ؒ عمدۃ الفقہ کتابِ ایمان کے صفحہ نمبر ۱۸ پر فرماتے ہیں: "اربابِ حقائق لکھتے ہیں اسمائے الٰہی سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ ان کے ساتھ تخلق و تشبہ حاصل کرے تاکہ ان اسماء کی تجلیات کی بدولت اسفل السافلین کے گڑھے سے نکل کر مقامِ اعلیٰ علیین پر پہنچ جائے۔ پس چونکہ اللہ کی صفت ربّ العالمین ہے تو بندہ بھی اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق کمزوروں کی تربیت سے غافل نہ رہے اور وہ ارحم الراحمین ہے تو بندہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ رأفت و رحمت سے پیش آئے اور اسی طرح صفاتِ مختصہ کے علاوہ ہر ہر صفت کا مظہر بننے کی کوشش میں لگا رہے تاکہ صحیح معنی میں خلافتِ الٰہی کا مصداق ہو اور ان اللّٰہ خلق اٰدم علٰی صورتہٖ (بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا) کا راز آشکارا ہو جائے۔"
[17]
صبر اور اخلاق سے تبلیغ:ریاضات، مجاہدات اور اذکار کی کثرت سے ان کے لطائف اپنی اصل سے تعلق قائم کرکے نورانی ہو جاتے ہیں۔ زوار حسین شاہ ؒ فرماتے ہیں: "جب اللہ تعالیٰ نے انسان کی شکل کو بنایا تو اس کے بدن میں عالم خلق کے ساتھ عالمِ امر کے لطائف کابھی چند جگہوں میں تعلق پیدا کیا تاکہ عالمِ امر کا جذب اور عشق پیدا ہو اور یہ بدنِ انسانی جو عالمِ خلق میں ہے اس کو عالمِ امر کی طرف لے جا کر آخرت کی بھلائی اور ہمیشہ کی نجات حاصل کرائیں۔ یہ تمام لطائف اپنے اصول کے ساتھ مجرد نور اور صاف چمک دار اورروشنی سے بھرپورتھے۔"
[18]
ریاضات، مجاہدات، اذکار اور توجہاتِ شیخ کی برکات سے یہ لطائف روشن ہو کر اپنی اصل سے تعلق قائم کر لیتے ہیں تو سالک کے باطن سے شہواتِ دنیا، غصّہ، حسد، کینہ، تکبر وغیرہ رذائل کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ جب کوئی غصّہ کرتاہے تویہ صبر کرتے ہیں، جب کوئی حسد کرتا ہے تو یہ دعا دیتے ہیں، جب کوئی تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہ عاجزی اختیار کرتے ہیں، جب کوئی شان و شوکت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اِن کے دل متاثر نہیں ہوتے بلکہ استقامت پر قائم رہتے ہیں۔ صبر کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے اور انعام و اکرام سے نوازے جاتے ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اولٰئک یجزون الغرفۃ بما صبروا ویلقون فیھا تحیۃ وسلٰما۔
[19] "ان لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دئیے جائیں گے اور وہاں فرشتے ان سے دعا سلام کے ساتھ ملاقات کریں گے۔" ارشادِ باری تعالیٰ ہے: الا الذین صبروا وعملوا الصٰلحٰت اولٰئک لھم مغفرۃ واجرٌ کبیر۔
[20] "ہاں جنہوں نے صبر کیا اور عملِ نیک کیے یہی ہیں جن کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔"
اللہ تعالیٰ صبرکے بدلے انعام و اکرام کے ساتھ غلبہ بھی عطا فرما دیتے ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا لما صبرواوکانوا باٰیٰتنا یوقنون۔
[21] "اوران میں سے ہم نے پیشوا بنائے تھے جوہمارےحکم سے ہدایت کیاکرتے تھے۔جب وہ صبرکرتے تھے اوروہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔" اللہ تعالیٰ صبر کی وجہ سے مخالف پر غلبہ اور اپنا قربِ خاص بھی عطا فرماتاہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یٰایھا الذین اٰمنوااستعینوا بالصبروالصلوٰۃ ان اللّٰہ مع الصٰبرین۔
[22] "اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لیاکرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"
لطائف کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ ان کو نفسِ امارہ کے غلبہ سے بھی آزاد کر کے نفسِ مطمئنہ کی دولت سے نوازتا ہے اور جب نفس مطمئنہ ہو جاتا ہے تو لطائف کی درستگی اور نفسِ مطمئنہ کی دولت مل کر اُس داعی کی شخصیت میں نکھار پیدا کر دیتی ہے۔ وہ داعی اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وانک لعلٰی خلقٍ عظیم۔
[23] "اور تمہارے اخلاق بڑے (عالی) ہیں۔" پھر داعی اخلاق کے ذریعہ دعوت دیتا ہے ۔ جیسے ایک عورت نبی کریمﷺسے دینِ اسلام کی وجہ سے بغض وحسد رکھتی تھی اور جب بھی آپﷺگزرتے تھے حسد کی وجہ سے آپ ؐپر کوڑا پھینکتی۔ لیکن اُس کی بد اخلاقی کے جواب میں آپﷺاعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر کرتے۔ ایک روز وہ عورت بیمار ہو گئی۔ آپﷺکو معلوم ہوا آپ اُس کی عیادت کرنے چلے گئے ۔ بس پھر کیا تھا آپ ؐکے اعلیٰ اخلاق اور صبر کی برکت سے اُس کے قلب کا قفل ٹوٹ گیا اور صبر اور اخلاق کی قوت نے اُس کے دل کی ظلمت دور کردی اور ہدایت کا نور اُس کے قلب نے قبول کر لیا اور وہ داخل اسلام ہو گئی۔ اس مقام کے داعی میں یہ خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن اس مقام کو حاصل کرنے کیلئے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب لازم ہے اسی لئے سورۂ شمس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قد افلح من زکّٰھا وقد خاب من دسّٰھا۔
[24] "جس نے (اپنے) نفس کوپاک رکھا وہ مراد کو پہنچا اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا۔"
یہ مقام حقیقت سے تعلق رکھتاہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد صورتِ اسلام وایمان سے سالک حقیقتِ اسلام وایمان میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر اُس کی اپنی ذات حقیقی ایمان کی برکت سے سایہ دار درخت کی مانند ہوجاتی ہے، جہاں باطل ٹکرانے کے بعد پاش پاش ہوجاتاہے۔ یہ مقام کسی حال میں بھی غیر اللہ کے سامنے جھکتا نہیں بلکہ غیر اللہ کو جھکا دیتا ہے کبھی جان لے کر اور کبھی جان دے کر۔ اس مقام والے کو کوئی خرید نہیں سکتا،نورِ ایمانی ان کی جبینوں سے جھلکتاہے اورسینوں میں پھڑکتاہے۔ ایمان کی آگ ان کے سینوں میں بھڑکتی رہتی ہے، جس طرح جنگل کی آگ تیز ہوا سے اور تیز ہوتی ہے اسی طرح مومن صالحین کے سینے کی آگ کفر کو دیکھ کر بھڑکتی ہے اور جوش کھاتی ہے اور جو بھی کفر ان سے ٹکراتا ہے جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ربّ ان سے راضی ہوا اور یہ ربّ سے راضی ہوگئے۔ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے: یحبھم ویحبونہٗ۔
[25] "اللہ تعالیٰ ان کو دوست رکھتا ہے اور وہ اللہ کو دوست رکھتے ہیں۔" ومارمیت اذرمیت ولٰکن اللّٰہ رمٰی۔
[26] "اے محبوبﷺجب تم نے(کنکریاں)پھینکی تھیں توتم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھیں۔" ید اللّٰہ فوق ایدیھم۔
[27] "اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پرہے۔"
جب ایسا داعی وراثتِ انبیاءؑ کے دونوں علوم سے استفادہ کرتا ہے اور حجاباتِ باطن کامل طور پر دور کر لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر موقوف ہوتے ہیں تو ایسا مومن صالحین داعی تجلیاتِ ثٰلثہ (تجلی افعال،تجلی صفات اورتجی ذات) کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے، داعی مقام رضا کو پا لیتا ہے، اللہ تعالیٰ انعام کے طور پر اپنا خاص قرب عطا فرماتے ہیں۔حضورانورﷺکا ارشادہے:العبد یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ فاذا اجبتہ کنت سمعہٗ الذی یسمع بہ وبصتہ الذی یبصر بہ ویدہ الذی یبطش بہ ورجلہٗ الذی یمشی بھا۔
[28] "بندہ مجھ سے نوافل(عبادت) کے ذریعہ قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے دوست بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔"
داعی کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان مقامات سے نوازتا ہے۔ ایسا داعی بھی کبریتِ احمر کی مانند ہوتاہے۔ آنحضرتﷺ نے انہی کامل وارثوں کے متعلق فرمایا ہے: علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل۔
[29] "میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔" حضرت مجدّد الف ثانی ؒ ایسے اعلیٰ مقام کے داعی کے بارے میں فرماتے ہیں:
"چوں طالب را بمحض فضلِ خداوندی جل سلطانہٗ ساحتِ سینۂ اواز جمیعِ مرادات خالی شود، وخواستے غیر از حق سبحانہٗ اور انماند، دریں وقت آنچہ مقصودِ از آفر نیشِ اوست میسر شدہ باشد، وحقیقتِ بندگی بجا آوردہ۔ بعد ازیں اگر خواہند کہ اور ابرائے تربیتِ ناقصان باز گردانند از نزدِ خود ارادتے اور اخواہند عطا فرمود، واختیارے خواہندداد، کہ در تصرفاتِ قولی و فعلی مختار و مجاز باشد در رنگِ عَبْدِ ماذون، دریں مقام کہ مقامِ تخلیق با خلاق اللّٰہ است صاحبِ ارادہ ہر چہ خواہد برائے دیگراں خواہد خواست ومصالح دیگراں منظور خواہد داشت، نہ مصالحِ نفسِ خود۔"[30]
’’جب طالب(حقیقت)کے سینہ کامیدان،محض فضل خداوندی جل سلطانہٗ سے تمام مرادوں اور آرزؤں سے خالی ہوجاتاہے اوراُسے حق سبحانہٗ کے سوا کسی دوسری چیز کی طلب نہیں رہتی، تو اُس وقت اُسے وہ کچھ میسر آجاتا ہے جو اس کی پیدائش سے مقصود تھا اور وہ بندگی کی حقیقت کو بجا لاتا ہے۔ اس کے بعد اگر قدرت کا منشاء ہوتا ہے تو اُسے ناقص لوگوں کی تربیت کیلئے (اس عالم کی طرف)واپس کر دیتے ہیں اور (حق تعالیٰ) اپنے پاس سے اُسے ایک ارادہ عنایت کرتے اور ایک اختیارعطا فرماتے ہیں کہ وہ قولی اورفعلی تصرفات میں مختار اورمجاز (اجازت یافتہ) ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک اذن یافتہ غلام (جسے اس کے آقا نے تصرفات کرنے کا حق عطا فرما دیا ہو) مختار اور اجازت یافتہ ہوتا ہے۔ اس مقام میں جو کہ خدائی اخلاق کے ساتھ آراستہ و پیراستہ ہو جانے کا مقام ہے، صاحبِ ارادہ جو کچھ چاہتا ہے دوسروں کیلئے چاہتا ہے اور دوسروں کی مصلحتیں ہی اس کے پیشِ نظر رہتی ہیں نہ کہ اپنے نفس کی مصلحتیں۔‘‘
اس مقام کا داعی مقامِ رضا پر فائز ہوتا ہے۔ وہ دعوتِ دین کا کام اپنے قولی ااور فعلی تصرفات سے اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کے مطابق کرتے ہیں کیوں کہ اُن کا نفس تو بہت پہلے ہی اصلاح پذیر ہو چکا ہوتا ہے۔ اب وہ اپنی ذاتی خواہش کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا، مرضی اور منشاء کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنے تصرفات سے دعوتِ دین کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان ہی کے لئے حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں: "نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔"
بقول حضرت مجدّد الف ثانی ؒ قولی و فعلی تصرفات میں مختار اور مجاز ہوجاتا ہے۔ اُس داعی کے باطن سے فیض کا چشمہ پھوٹتاہے۔ طالبِ صادق سیراب ہوتا ہے اور داعی بھی چاہے تو اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کو دیکھتے ہوئے غافل قلب کو اپنی توجہ سے روشن کر دیتا ہے۔ باطن کے یہ اثرات ظاہر پر اثرانداز ہوتے ہیں۔اور داعی کی توجہ سے سالک میں دنیا کی بے رغبتی اور شریعت کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اس قسم کے داعی درس و تدریس،نصیحت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ساتھ ذکر الٰہی (تحنث) کراتے ہوئے طالب کے باطن پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں جس سے داعی کا صدیوں کا کام لمحوں میں مکمل ہوجاتاہے۔
قسم سوئم کے داعی اپنی توجہ(دل کی قوت) استعمال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کیونکہ ایسے داعی مقامِ رضا پر فائز ہوتے ہیں اللہ اُن کی التجا اور زبان کی لاج رکھتے ہوئے ہدایت کا نور جاری فرما دیتا ہے۔ بگڑا ہوا شخص ایسے داعی کی برکاتِ فیض سے راہِ ہدایت پر آجاتا ہے۔ یہ مقام آسان نہیں کچھ پانے کے لئے بہت کچھ کھونا پڑتاہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اسی مقام کے حصول کے لئے فرمایا ہے:
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہےکہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ نے ایسے اعلیٰ مقام کے داعی کی صحبت اختیار کرنے کا حکم ہر مسلمان کو صادر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں: یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللّٰہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ وجاھدوا فی سبیلہٖ لعلکم تفلحون۔
[31] "اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور اُس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ۔"
ومن یتول اللّٰہ ورسولہٗ والذین اٰمنوا فان حزب اللّٰہ ھم الغٰلبون۔[32] "اورجوشخص اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر اور مومن (صالحین) سے دوستی کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہو گا اور وہ (اللہ تعالیٰ کی جماعت) ہی غلبہ پانے والی ہے۔"
اللہ ربّ العالمین نے اپنے بندوں کو ایسے داعی بزرگ دوستوں سے بیعت ہونے(وابتغوا الیہ الوسیلۃ) اختیار کرنے کا حکم فرمایا تاکہ ان کی صحبت سے ظاہری اورباطنی فیوض وبرکات حاصل ہوں اورساتھ میں اس جماعت کویہ بشارت بھی عطا فرمائی کہ "اور جو اللہ کی جماعت میں داخل ہوگا اور وہ (جماعت) ہی غلبہ پانے والی ہے۔" لہٰذا ہرشخص کو چاہیے کہ قسم اوّل کے داعی کی اگر صحبت حاصل ہے تو قسم دوئم کی صحبت اور علم کو حاصل کرنے کی کوشش کرے اور ساتھ ساتھ تزکیہ نفس کو قسم سوئم کے داعی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت وسیلہ اختیار کرنے کی بھرپور کوشش کرے تاکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کاملین کی صف میں آجائے۔ اسی لئے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
قسم سوئم کی دعوت و تبلیغ کے اصول
(۱) اس طبقے کے لیے عقیدت مندوں کے دلوں میں نہایت ادب و احترام کا جذبہ ہوتا ہے۔ جب دنیا والوں کو دین کی دعوت دیں تو ہرگز ہرگز ان کی دنیا کی طرف نگاہ نہ کریں، اوراُن سے طلب کی امید نہ رکھیں۔بزرگوں نے دنیا کی مثال سائے سے دی ہے آپ سائے کے پیچھے جس قدر بھاگیں گے سایہ آپ سے بھاگے گا لیکن آپ سائے کے مخالف سمت جائیں گے تو سایہ آپ کے پیچھے پیچھے چلے گا۔ لیکن پھر بھی دنیا کی طرف مائل نہ ہوں ورنہ دین برباد ہو جائے گا۔
(۲) عقیدت مندوں کی تعریفوں پر نہ جائیں بلکہ ہر وقت اپنی خامیوں پر نگاہ رکھیں۔
(۳) اپنا رویہ نرم رکھیں۔ صبر، برداشت، تحمل اور بُردباری کو اختیار کریں۔
(۴) کسی کی ایذاء پر غصّہ نہ ہوں ورنہ حجاب باطن پر آجائے گا۔ اگر غصّہ آبھی جائے تو اُدھر سے ہٹ جائیں، یافوراً وضو کریں یا بیٹھ جائیں یا موت کو یاد کریں انشاء اللہ غصّہ بہت جلد دور ہو جائے گا،عاجزی انکساری کو اختیار کریں۔
(۵) اپنے نفس پر عقابی نگاہ رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ نفس ریا کاری اور خود پسندی کے جال میں پھنس جائے۔
(۶) خواتین سے شرعی پردہ کریں ورنہ فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔بہت مجبوری میں نگاہ نیچے رکھتے ہوئے کلام کریں۔
(۷) اکثر مشائخ بعض سالکوں کو قبل از وقت اجازت دے کر تبلیغِ دین میں مشغول فرما دیتے ہیں۔ ایسے داعی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ہرگز کامل نہ سمجھے اپنی اصلاح اور ترقی کی فکر میں رہا کریں ورنہ ترقی کے دروازے بند ہو جائیں گے۔
(۸) کوئی اچھی بات کہیں سے بھی آئے قبول کریں اور دوسروں سے بھی اپنے لئے دعا کرائیں۔
(۹) اگر کوئی کامل بزرگ(داعی) کسی بزرگ کو اپنے سے بھی زیادہ کامل دیکھے تو اس کو اُس سے فیض اخذ کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر اپنے سے کم تر میں بھی کوئی خوبی دیکھے کہ جو اپنے اندر نہ پائے تو اُس کو حاصل کرے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے تعلیم حاصل کی۔
[33]
(۱۰) جولوگ کامل (داعی) ہیں ان کو اپنے حاصل کردہ مدارج پر قناعت نہیں کرلینی چاہئے بلکہ ان کو اللہ پاک کی نزدیکی کے اور درجات حاصل کرنے میں کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ان کو یہ بھی چاہئے کہ وہ خدا کے دربار میں اس طرح دعاکریں جس طرح کہ آنحضرتﷺنے کی : ربّ زدنی علما۔ "اے میرے ربّ میرے علم میں اضافہ فرما۔"
[34]
لغزشوں کابیان
(۱) اس طبقہ کی طرف عوام الناس بہت عقیدت اور امید سے مائل ہوتے ہیں اُن کا رخ اپنے بجائے اللہ کی طرف پھیرنا چاہیے۔عقیدت میں شخصیت پرستی کی نوبت نہ آجائے۔
(۲) دنیاوالوں کی دنیا کی طرف مائل ہونے سے پرہیز کریں ورنہ باطن خراب ہونے کااندیشہ رہتاہے۔بعض اوقات شیطان دنیا کوفراغ کردیتاہے تاکہ داعی دنیا میں الجھ جائے اور اُس کی ترقی رک جائے۔جب بھی دنیا آپ کی طرف مائل ہو بے رغبت ہو جائیے۔ جب دنیا آپ کی تعریف کرے آپ اپنی خامیوں کو یاد کریں، تواضع اورعاجزی اختیار کریں۔
(۳) تقویٰ میں اُس وقت تک کمال حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ نفس کے تمام رذائل یعنی حسد، کینہ، غرور، ریا اور غیبت وغیرہ کو اچھی طرح نہ مٹا دے اور یہ تمام باتیں نفس کے فنا کر دینے ہی سے ہیں اور نفس اس وقت تک فنا حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺکی محبت تمام چیزوں کی محبت پر غالب نہ ہوجائے بلکہ جب تک انسان کے دل میں غیر اللہ کی محبت ذرا سی بھی ہو گی اُس وقت تک ایمان اور تقویٰ میں کمال حاصل نہیں کر پائے گا۔
[35]
(۴) کیونکہ حصولِ اجازت کمال پر موقوف نہیں ہے۔ جس شخص نے اجازت کے بعد اپنے باطن کی اصلاح پر نظر نہ رکھی وہ اپنی ترقی کے راستے بند کر لے گا اور داعی خود ناقص رہے گا بلکہ جنہیں دعوت دی جائے گی اُن میں بھی نقص سرائیت کرے گا۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں:"وازیں قیل است کاملے مریدے راکہ استعدادِ یک درجہ از درجاتِ ولایت وارد، بعد از حصولِ آں درجہ، آں مرید را اجازتِ تعلیم طریقت می کند وآں مرید مِن وَجۂ کامل ست ومِنْ وجہٍ ناقص، وہمچنین ست حالِ مرید یکہ استعدادِ دو درجہ یا سہ درجہ از درجاتِ ولایت وارد، مِنْ وجہٍ کامل ست ومِنق وَجہٍ ناقص۔ چہ پیش از رسیدن بنہایت النہایت ہمہ درجات از دیک وجہ کمال دارد وازیک وجہ دیگر نقص"
[36] ’’اورجب کوئی کامل بزرگ اپنے کسی مرید کوجو درجاتِ ولایت میں سے ایک درجہ کی استعداد رکھتا ہے، اس درجہ کے حاصل ہو جانے کے بعد طریقت کی تعلیم دینے کی اجازت دے دیتا ہے تو یہ اجازت بھی اسی قسم کی ہے۔ اور وہ مرید (داعی) ایک طرح سے کامل ہے اور ایک طرح سے ناقص ہے۔ اور اس مرید کا حال بھی اسی طرح پر ہے جو درجاتِ ولایت میں سے دو درجوں یا تین درجوں کی استعداد رکھتاہے ۔ وہ بھی ایک لحاظ سے کامل ہے اور ایک لحاظ سے ناقص ہے۔ کیونکہ نہایت النہایت (یعنی آخری نقطہ کمال)تک پہنچنے سے پہلے تمام درجے ایک جہت سے کمال کہے جاسکتے ہیں اور دوسری جہت سے نقص بھی کہلاسکتے ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا عبارت کی تفسیر میں حضرت مجدّد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں:’’کمالاتِ ولایت میں لوگوں (داعی حضرات) کی پیش قدمی مختلف انداز کی ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں درجاتِ ولایت میں سے صرف ایک ہی درجہ کو حاصل کرنے کی استعداد ہوتی ہے۔ دوسرے کچھ لوگوں میں دو درجوں کی استعداد ہوتی ہے۔ بعض لوگوں میں تین درجوں کی استعداد ہوتی ہے۔ ایک گروہ ایسا بھی ہوتا ہے جس میں چار درجوں کی استعداد ہوتی ہے اور گنے چنے افراد ایسے بھی ہوتی ہیں جن میں پانچ درجوں کی استعداد ہوتی ہےلیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ان پانچ درجوں میں سے پہلے درجے کے حاصل ہونے کا تعلق تجلی افعال سے ہوتاہے۔اور درجہ ثانی کا تعلق تجلی صفات سے ہوتاہے اور آخری تین درجوں کاتعلق ذاتی تجلیات سے ہوتاہے۔‘‘
[37]
آسان لفظوں میں اس طرح سمجھ لیں اوّل انسان جب درندگی اور نفاق کی صفات سے باہر آتا ہے تو اسلام قبول کر کے پہلے درجے میں مسلمان کہلاتا ہے اُس کی صفت یہ ہوتی ہے جو صورتِ اسلام میں رہتے ہوئے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کر رہا ہوتا ہے۔ اگر اس درجہ پر اجازت دی گئی تو ابھی آگے کی تمام منزلیں باقی ہیں۔ درجہ اوّل کے اعتبار سے کامل ہوگالیکن باقی اوپر کے تمام درجوں کے اعتبار سے ناقص ہوگاجو کہ اُس کو حاصل کرنے ہیں۔ اور اس داعی کو بھی اپنی تربیت اور علم کی ضرورت ہے تاکہ وہ باقی درجوں کو پا سکے۔ اس کے بعد تزکیہ اور تصفیہ قلب کی برکت سے اخلاص کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔ زبان سے اقرار، دل سے تصدیق کے ساتھ جب عملی طور پر دینِ اسلام میں اعمالِ صالح (شریعت پر عمل) کواختیار کرتاہے تو شریعت کی پابندی سے اُمہاتِ انوار کو حاصل کرتا ہے جو اُسے مسلمان کے درجہ سے ممتاز کر کے مومن کے درجہ پر فائز کر دیتی ہے۔ جہاں پر اُس کی صفات بھی تبدیل ہوتی جاتی ہیں۔ مثلاً صدق، صبر، عاجزی، روزہ، حیاء اور کثرتِ ذکر کی نعمتوں سے اخلاقِ رذیلہ اخلاقِ حمیدہ میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔
اس سے آگے کی ترقی یعنی مقامِ صالحین فنائے نفسی پر موقوف ہے۔ جب تک سالک بشریت سے ملکوتی صفت کو حاصل نہیں کرتا اور کامل تزکیہ اور تصفیہ قلب کو حاصل نہیں کرتا ولایت کے تیسرے درجہ مقام صالحین پر فائز نہیں ہوسکتا۔ کامل طور پر دعوت کا کام اسی مقام سے شروع ہوتا ہے۔ اس مقام کے لئے مولانا زوّار حسین شاہ ؒ فرماتے ہیں: ’’انفس کے علم کو علم حضوری کہتے ہیں اور علم حضوری کا زائل ہوناانفس کے بھول جانے کو کہتے ہیں،اسی کو فنائے نفس کہتے ہیں۔ یہ فنائے قلب سے زیادہ کامل ہے۔یہ اولیاء میں سے کاملین کا حصّہ ہے۔ صاحبِ علم کے حق میں علمِ حضوری کے زائل ہونے کی علامت یہ ہے کہ صاحبِ علم اپنی بالکل نفی کردے اور اس کا کوئی عین و اثر نہ رہے۔ تاکہ علم اور معلوم کا زائل ہونا سمجھا جائے کیونکہ اس مقام میں علم اور معلوم علم والے کا اپنا نفس ہی ہے۔ پس جب تک صاحبِ علم کا نفس زائل نہ ہو علم ومعلوم کی نفی نہیں ہوتی۔ اس فنائے حقیقی کے حاصل ہونے سے نفس مقامِ اطمینان میں آجاتا ہے اور حق تعالیٰ سے راضی ومرضی ہوجاتاہے اسی کو بقا کہتے ہیں۔جیسا کہ ارشادہے: یٰایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الٰی ربّک راضیۃ مرضیۃ۔
[38] "اے نفسِ مطمئنہ لوٹ چل اپنے پروردگار کی طرف تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔" بقا اور رجوع کے بعد دوسروں کی ہدایت اورتکمیل کامعاملہ اس سے متعلق ہوجاتاہے۔‘‘
حضرت زوّار حسین شاہ ؒ ولایتِ کبریٰ کی تکمیل جس کے بعد ہدایت کا معاملہ شروع ہوتا ہے جس کو ولایتِ علیا کہتے ہیں جو ایک کامل داعی کی ترقی اور فنائے نفسی کیلئے بہت ضروری ہے فرماتے ہیں:’’رخصت پر عمل کرنا بہتر نہیں بلکہ عزمیت پر عمل کرنے سے ترقی ہوتی ہے کیونکہ رخصت پر عمل کرنے سے سالک بشریت کی طرف کھینچتا ہے اور عزمیت پر عمل کرنے سے فرشتوں کی صفت کے ساتھ مناسبت پیدا ہوتی ہے۔ جس قدر فرشتوں کی صفت کے ساتھ مناسبت بڑھے گی اسی قدر اس ولایت میں ترقی ہو گی۔‘‘
[39]
ہر داعی کے لئے ضروری ہے ہر ولایت کی صفات کا مطالعہ کرے اور ولایت کے بقایا درجات کوحاصل کرنے کے لئے ذکر، ریاضت، مجاہدہ اور آدابِ شیخ کی رعایت کے ساتھ جاری رکھے جیسے جیسے ولایت کے درجات طے کرتا جائے گا اُس کی اجازت کامل ہوتی جائے گی۔ فیضِ باطن (توجہ) کا تعلق بھی حجاباتِ باطن سے ہے جس قدر حجاباتِ باطن دور ہوتے جائیں گے یعنی (ظلمانی حجاب، نورانی حجاب، کیفی حجابات وغیرہ) ولایت کے درجات حاصل ہوتے جائیں گے اور حجابات دور ہونے کے ساتھ جس قدر اللہ تعالیٰ کے قرب میں جائے گا اُس کا جذب بڑھتا جائے گا اور پھر اُسی قدر فیضِ باطن قوی ہوتا جائے گا۔ ولایت کی ترقی کا انحصار قلب کی ترقی پر ہے۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ قلب کے پانچ درجات جو ایک کامل داعی کی ترقی کے لئے بہت اہم ہیں فرماتے ہیں:’’جاننا چاہیے،جیسا کہ قلب ہرچھ لطیفوں کوشامل ہوتاہے۔اسی طرح قلب کا قلب بھی ان تمام لطائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ جوکچھ عالمِ کبیر میں تفصیلاً ظاہر ہوتاہے وہی سب کچھ عالمِ صغیر میں بھی اجمالاً ظاہر ہوتا ہے ۔ عالمِ صغیر سے مراد انسان ہے لہٰذا جب عالمِ صغیر کا زنگ دور کرکے اس کو منور کردیا جاتا ہے تو اس میں آئینہ کی طرح وہ تمام چیزیں ظاہر ہوجاتی ہیں جو تفصیلاً عالمِ کبیر میں پائی جاتی ہیں، کیونکہ زنگ(حجاباتِ باطن) دور ہو جانے اور منور ہو جانے کی وجہ سے اس کا ظرف وسیع ہوجاتا ہے اور اس کی کوتاہی کا اثر جاتارہتاہے۔لیکن کامل تصفیہ کے بعد اس میں وہ تمام چیزیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جو تمام جہانوں یعنی عالمِ کبیر، عالمِ صغیر، عالمِ اصغر اور اس کے بعد کے عالموں میں پائی جاتی ہیں۔‘‘
[40]
اُس وقت سالک صورتِ اسلام سے حقیقتِ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اُس کا ایمان جو صورت میں ہوتاہے حقیقی شہودی ایمان میں تبدیل ہونے لگتا ہے اور قرب کی منزلیں طے ہونے لگتی ہیں۔حضرت زوّار حسین شاہ ؒ حقیقتِ ایمان کے بارے میں فرماتے ہیں:’’صفائی وقت و حقیقتِ اطمینان و اتباعِ آنسرور عالمﷺحاصل ہو کر احکامِ شرعیہ، اخبارِ غیب، وجود حق و صفاتہٖ حق سبحانہٗ، معاملہ قبر وحشر و نشر و مافیھا و بہشت و دوزخ وغیرہ جن کی مخبر صادقﷺنے خبر دی ہے، اس مقام میں بدیہی اور عینِ الیقین کے درجہ پر حاصل ہوجاتے ہیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔‘‘
[41]
چنانچہ اجازت یافتہ حضرات کو ان علوم، ولایتِ درجات، قلب کی ترقی، حقیقتِ اسلام و حقیقتِ ایمان کا علم ہونا چاہئے تاکہ حُب اور شوق پیدا ہو۔ داعی کی اپنی ترقی جس قدر ہو گی دعوت کا کام بھی اسی قدر کامل اور مکمل ہوگا۔ اور معاشرہ امن و سلامتی کا پیکر بنتا جائے گا۔ یہ اخص الخواص کے مقامات ہیں اور یہ مقامات شیخِ کامل کی صحبت کے ذریعہ حاصل کیے جاتے ہیں۔
قسم دوئم: اہل دیوان (اولیاء تکوین )شامل ہیں: ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وللّٰہ جنود السمٰوٰت والارض وکان اللّٰہ عزیزا حکیماً۔
[42] "اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ غالب حکمت والاہے۔" اللہ تعالیٰ نے نظامِ کائنات کے لئے انبیاءؑ، اولیاء، فرشتے وغیرہ مقرر فرمائے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کے مطابق نظامِ کائنات میں بحیثیت اللہ کے لشکر خدمت انجام دیتے ہیں۔ حضور انورﷺاس نظام کے سردار ہیں، آپﷺکے تحت اولیاء تکوین، قطب ارشاد اور قطب ابدال کے منصب کے تحت کام انجام دیتے ہیں اور بے شمار اولیاء ان کے تحت اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں اور بیشمار فرشتے اس نظام میں شامل ہیں جن میں مثلاً حضرت جبرئیل علیہ السلام پیغام رسانی اور دوسرے کاموں پر فائز ہیں حضرت میکائیل علیہ السلام مخلوق کو روزی اور بارش برسانے پر مقرر ہیں حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن صور پھونکنے پر مقرر ہیں اور حضرت عزرائیل علیہ السلام مخلوق کی روح قبض کرنے پر مقرر ہیں۔ ان کے تحت بیشمار فرشتے ہیں جنہیں کارکنانِ قضا و قدر کہا جاتا ہے۔
فرشتے نوری اجسام ہیں، اللہ تعالیٰ نے اُن کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں اختیار کر سکتے ہیں کبھی انسان کی شکل میں کبھی دوسری شکل میں اسی طرح اولیاء تکوین جو کہ اشرف مخلوق ہیں ان تمام صفات کو بھی اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ مکتوب ۵۸ دفتر دوئم صفحہ نمبر ۲۱۳ پر لکھتے ہیں: ’’جنّ جو مختلف صوتوں میں متشکل ہو کر دوسرے اجساد کے ساتھ متجسد ہو جاتے ہیں اور اُس حالت میں ان سے عجیب و غریب اعمال جو ان شکلوں اور جسموں کے مناسب ہیں وقوع میں آتے ہیں۔جنوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے یہ طاقت عطا فرمائی ہے کہ وہ مختلف شکلوں میں متشکل ہو کر عجیب و غریب اعمال وقوع میں لائیں اگر(اللہ تعالیٰ) کاملین کی ارواح کو بھی یہ طاقت عطا فرما دے تو اس میں کیا تعجب ہے۔ اور ان کو دوسرے بدن کی کیا حاجت ہے۔ان کے لطائف مختلف اجساد میں متجسد ہو کر متفرق شکلوں کے ساتھ متشکل ہوجاتے ہیں۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وھوالذی جعلکم خلٰئف الارض ورفع بعضکم فوق بعض۔
[43] "اوروہی توہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک دوسرے پر درجے بلند کیے۔" حضرت زوّار حسین شاہؒ فرماتے ہیں:’’اور یہ منصب وہبی ہے اور وراثتِ ظاہری کی طرح اس میں وراثت نہیں چلتی بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عطا فرماتاہے۔‘‘
[44] حضرت مجدّد الف ثانی ؒ نظامِ تکوین کے اولیاء کے متعلق فرماتے ہیں: فاذا بلغ العارف الاتم معرفۃ والاکمل شہودا ھٰذا المقام العزیز وجودہٗ والشریف رتبتہٗ یصیر ذٰلک العارف قلبا للعوالم کلھا والظھورات جمیعا وھو المتحقق بالولایۃ المحمدیۃ والمشرف بالدعوات المصطفویۃ علٰی صاحبھا الصلٰوۃ والسلام والتحیۃُ۔ فالاقطاب والاوتاد والابدال داخلون تحت دائرۃ ولایتہٖ والافراد والاٰحاد وسائر فرق الاولیاء مندرجون تحت انوار ھدایتہٖ لما ھو النائب مناب رسول اللّٰہ والمھدی بھدی حبیب اللّٰہ۔ وھٰذہ النسبۃ الشریفۃ العزیز وجودھا مخصوصۃ باحد المرادین ولیس للمریدین من ھٰذا الکمال نصیب۔
[45]
’’جب کوئی ایسا عارف جس کی معرفت مکمل تر اور جس کا حضور(شہود) کامل تر ہو، اس مقام تک پہنچتا ہے جس کا وجود نادر ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے شریف تر ہے۔تو ایسا عارف تمام جہانوں اور تمام ظہورات کا قلب بن جاتا ہے۔ یہی شخص ولایتِ محمدیہﷺکا صحیح حقدار اور دعواتِ مصطفویہﷺکے ساتھ شرف اندوز ہوتا ہے۔ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیۃ۔ چنانچہ اقطاب، اوتاد اور ابدال سب اس دائرۂ ولایت کے تحت میں داخل ہوتے ہیں اور افراد اور احاد اور اولیاء کے تمام گروہ اُسی کے انوارِ ہدایت کے ماتحت مندرج ہوتے ہیں کیونکہ وہی رسول اللہﷺکا قائم مقام ہوتا ہے اور خدا کے حبیب ﷺ کی ہدایت کے ساتھ ہدایت یافتہ ہوتاہے۔ یہ نسبتِ شریفہ جو بہت ہی کم پائی جاتی ہے مرادین میں سے کسی کسی کے ساتھ مخصوص ہے۔اس کمال میں مریدین کے لئے کوئی حصّہ نہیں ہوتا۔‘‘
جس طرح ملائکہ اربعہ کی مختلف ذمہ داریاں ہیں اسی طرح یہ حضرات دعوتِ دین کی بنیاد ایمان اور نورِ ہدایت کو پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لشکر کا حصّہ ہوتے ہیں۔ جن میں خاص طور پر قطبِ ارشاد اور قطبِ ابدال نظامِ تکوین میں اللہ تعالیٰ کے حکم و منشاء کے مطابق کام انجام دیتے ہیں۔ جب ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا۔‘‘ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ قطب ارشاد کے فیض کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:’’قطبِ ارشاد ان فیوض و برکات کے پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے جو دنیا کے ارشاد و ہدایت سے تعلق رکھتے ہیں اور ایمان و ہدایت، توفیقِ حسنات اور گناہوں سے رجوع و توبہ، قطبِ ارشاد کے فیوض کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘
[46]
قطب ِ ارشاد سے فیض پہنچنے کا طریقہ
قطب سے دنیا کو فیض پہنچنے کا طریقہ یہ ہے کہ قطب بوجہ اپنی حاصل کردہ جامعیت کے مبداءِ فیاض کے لئے مثل صورت اورمثل سایہ کے بن گیا ہے اور دنیا تمام کی تمام خود اس قطبِ جامع کی تفصیل ہے۔ چنانچہ بغیر کسی مُکلف کے حقیقت سے صورت تک فیض پہنچتا ہے اور صورتِ جامعہ (قطب) سے عالم تک بغیر کسی رکاوٹ کے فیض پہنچتا ہے۔ جو کہ اس کی تفصیل کے مثل ہے۔ لہٰذا فیاضِ مطلق تو حق تعالیٰ ہی ہے اور خود واسطہ (یعنی قطب) کی اس فیض رسانی میں کوئی کاری گری نہیں ہے۔
[47]
جو شخص اس بزرگ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اخلاص رکھتا ہے جس قدر توجہ اور اخلاص ہوتاہے اسی قدر وہ اس دریا سے سیراب ہوتا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو ذکرِ الٰہی جل شانہٗ کی طرف متوجہ ہے اور اس عزیز بزرگ کی طرف متوجہ نہیں ہے (یعنی عام مومنین) لیکن اس کی یہ بے توجہی کسی انکار کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اس بزرگ کو پہچانتا ہی نہیں ہیں تو اسی نداز کی فیض رسانی اسے بھی حاصل ہوجاتی ہے۔
[48]
قطبِ ابدال کا فیض
قطبِ ابدال ان فیوض و برکات کے پہنچنے کا واسطہ ہوتا ہے جو عالم کے وجود اور اس کی بقا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا پیدائش، رزق رسانی، ازالہ بلیات، بیماریوں کو دور کرنا اور صحت و عافیت کا حصول ، قطبِ ابدال کے مخصوص فیوض سے تعلق رکھتاہے۔
[49] نورایمان و نور ہدایت اولیاء تکوین کے ذریعہ قلب میں منتقل ہوتا ہے لیکن اس ذریعہ کا عام عوام سے واجبی تعلق ہوتاہے یہ حضرات اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں رہتے ہوئے بحکمِ الٰہی خدمات انجام دیتے ہیں۔ جو دعوت کے باطنی اور حقیقی پہلو کی تکمیل کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ دعوت و تبلیغ کی تیسری قسم اولیاء ارشاد اور اولیاء ابدال پر مشتمل ہوئی۔ان میں تینوں قسموں کی دعوت کی صلاحیت پائی جاتی ہیں بلکہ قسم اوّل اور دوئم بھی انہی سے فیض پا کر دعوت کے کام انجام دیتے ہیں۔والسلام علٰی من اتبع الھدٰی والتزم متابعۃ المصطفٰی علیہ وعلٰی اٰلہ الصلوات والتسلیمات۔ ’’سلامتی ہو اُس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ حضرت محمد مصطفٰیﷺکی پیروی کولازم جانے آپﷺاور آپﷺکی آل پر درود و سلام نازل ہوں۔‘‘
خلاصہ بحث
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیﷺ کے ذریعہ انسانوں کی راہنمائی کے لئے دینِ اسلام کو پسند فرمایا۔ قرآن اور اس کی مکمل تفسیر نبی کریمﷺ کی صورت میں نازل فرمائی، اور پھر دینِ اسلام کی ترویج کے لئے لوگوں کو حکم دیا کہ دعوتِ دین کا کام بھی انجام دیں۔ چنانچہ قسمِ اوّل میں دعوت عوام الناس دیتے ہیں جو ایک دوسرے کوامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ دعوت کا پیغام دیتے ہیں۔ دوسری قسم دعوتِ دین کی مفسرین کرام ، محدثینِ کرام، فقہاء حضرات اور علماء امت کی ہے جو تفسیر، حدیث اور فقہ کے درس کے ذریعہ دعوت و تبلیغ کی خدمت پر مامور ہیں۔ تیسرا اور اہم اور کامل ترین دعوت کا مقام اُن لوگوں کا ہے جو علمِ ظاہر اور علمِ باطن سے آراستہ ہوں۔ ان میں اولیاء ارشاد اوراولیاءِ تکوین دونوں شامل ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ اپنے لشکروں میں شامل کر کے مخلوق کی ہدایت اور خدمت کا کام انجام لیتے ہیں۔ اللہ ہم سب مسلمانوں کو آپس میں محبت اور کامل دعوت و تبلیغ کے کام کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حوالہ جات
- ↑ القرآن:۳ / ۱۹
- ↑ القرآن: ۳/۸۵
- ↑ القرآن:۲/۲۰۸
- ↑ القرآن:۸۱/۲۷
- ↑ القرآن:۱۴/۱
- ↑ القرآن:۳/۱۰۴
- ↑ القرآن:۹/۷۱
- ↑ القرآن:۳ /۱۰۳
- ↑ القرآن:۵۱/۵۶
- ↑ القرآن:۱۵/۹۹
- ↑ معارف لدنیہ ۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ کراچی۔ ۱۹۶۹ء۔ صفحہ نمبر ۲۲
- ↑ القرآن:۴/۱۳۶
- ↑ معارف لدنیہ ۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ کراچی۔ ۱۹۶۹ء ۔ صفحہ نمبر ۲۲
- ↑ ایضاً،صفحہ نمبر ۲۳
- ↑ مکتوبات ۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ۔ ۳۷۰ گارڈن ایسٹ ۔ ۱۲۳۱ھ ۔ دفتر اوّل حصّہ دوئم۔ مکتوب نمبر ۲۶۸
- ↑ تعلیماتِ غلام مصطفی ۔ موسیٰ بھٹو صاحب۔ سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ ۔ ۲۰۰۷ء ۔ صفحہ نمبر ۱۶۰
- ↑ عمدۃ الفقہ۔ زوار حسین شاہ ؒ ۔ ادارۂ مجددیہ ۔ ۱۹۸۱ء صفحہ نمبر۱۸
- ↑ عمدۃ السلوک ۔ زوّار حسین شاہ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ ۱۹۸۲ء ۔ صفحہ نمبر ۲۱۳ ، ۲۱۴
- ↑ القرآن:۲۵/۷۵
- ↑ القرآن:۱۱/۱۱
- ↑ القرآن:۳۲/ ۲۴
- ↑ القرآن:۲/۱۵۳
- ↑ القرآن : ۶۸:۴
- ↑ القرآن:۹۱/۹، ۱۰
- ↑ القرآن:۵/۵۴
- ↑ القرآن:۸/۱۷
- ↑ القرآن:۴۸/۱۰
- ↑ صحیح البخاری ۔ محمد بن اسمٰعیل البخاری ۔ دار ابن کثیر ۔ الیمامۃ ۔ بیروت۔ ۱۹۸۷ء ۔ جلد: ۵ صفحہ: ۲۳۸۴ رقم حدیث:۶۱۳۷
- ↑ کشف الخفاء۔اسمٰعیل بن محمد الجراحی۔دار الحیاء التثرات العربی ۔جلد:۲ صفحہ : ۶۴ رقم حدیث :۱۷۴۴
- ↑ مبداء معاد ۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ کراچی۔ ۱۹۸۴ء۔ صفحہ نمبر ۷۵
- ↑ القرآن:۵/۳۵
- ↑ القرآن: ۵/۵۶
- ↑ عمدۃ السلوک ۔ مولانا زوّار حسین شاہ ؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ ۱۹۸۲ء۔ صفحہ نمبر ۲۶۰
- ↑ ایضاً،صفحہ نمبر۲۶۳
- ↑ ایضاً،صفحہ نمبر۲۶۵
- ↑ مبداء معاد ۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ کراچی۔ ۱۹۸۴ء۔ صفحہ نمبر ۵۶
- ↑ ایضاً،صفحہ نمبر۱۰۶
- ↑ عمدۃ السلوک ۔ مولانا زوّار حسین شاہ ؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ ۱۹۸۲۔ صفحہ نمبر ۱۷۵ ، ۱۷۴
- ↑ ایضاً،صفحہ نمبر ۲۹۳
- ↑ ایضاً،صفحہ نمبر ۱۲۰ ، ۱۱۸
- ↑ ایضاً،صفحہ نمبر ۲۹۴
- ↑ القرآن:۴۸/۷
- ↑ القرآن:۶/ ۱۶۵
- ↑ عمدۃ السلوک ۔ مولانا زوّار حسین شاہ ؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ ۱۹۸۲ء۔ صفحہ نمبر ۳۱۰
- ↑ مبداء معاد ۔ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ کراچی۔ ۱۹۸۴ء۔ صفحہ نمبر ۲۸
- ↑ معارفِ لدنیہ ۔ مجدّد الف ثانیؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ صفحہ نمبر ۱۶۸، ۱۶۷
- ↑ معارفِ لدنیہ ۔ مجدّد الف ثانیؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ صفحہ نمبر ۱۶۸ ، ۱۶۷
- ↑ مبداء معاد ۔ حضرت مجدّد الف ثانیؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔ کراچی۔ ۱۹۸۴۔ صفحہ نمبر ۱۰۰
- ↑ معارفِ لدنیہ ۔ مجدّد الف ثانیؒ ۔ ادارۂ مجدّدیہ ۔صفحہ نمبر۱۶۸،۱۶۷
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔