ANTI-ADBLOCK JS SYNC سوال:۔کفیات کا وہ علم جس کو آپ برکات نبوتﷺ کی اصطلاح دی ہے یا عرف عام میں جسکو تصوف کہا جاتا ہے،آپ کا یہ کہنا کہ کہ علم کفیات کی شکل میں بغیر الفاظ و حروف کے ہے،اس پر شرعی دلیل درکار ہے،جواب مفصل دیجئے گا۔؟ ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

سوال:۔کفیات کا وہ علم جس کو آپ برکات نبوتﷺ کی اصطلاح دی ہے یا عرف عام میں جسکو تصوف کہا جاتا ہے،آپ کا یہ کہنا کہ کہ علم کفیات کی شکل میں بغیر الفاظ و حروف کے ہے،اس پر شرعی دلیل درکار ہے،جواب مفصل دیجئے گا۔؟


سوال:۔کفیات کا وہ علم جس کو آپ برکات نبوتﷺ کی اصطلاح دی ہے یا عرف عام میں جسکو تصوف کہا جاتا ہے،آپ کا یہ کہنا کہ کہ علم کفیات کی شکل میں بغیر الفاظ و حروف کے ہے،اس پر شرعی دلیل درکار ہے،جواب مفصل دیجئے گا۔؟
محترم عموماً جو لوگ تصوف و احسان پر معترض ہیں ،محض خشک مزاجی کی وجہ سے انکاری ہیں۔اور اکثر منکرین تصوف اپنا تعلق مسلک اہلحدیث سے ظاہر کرتے ہیں،جبکہ اکابرین اہلحدیث اکثر وبیشتر صوفی گزرے ہیں ،مگر "بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے" کے مترادف آج یہی تصوف کے سب سے بڑے منکر ہیں۔میں یہاں پر بجائے کہ اپنے الفاظ میں جواب دوں مولا نا ابرہیم میر ؒسیالکوٹی مسلک اہلحدیث کے جید علماء میں سے تھے،انکی کتاب سراجاًمنیرا سے چند مذکورہ موضوع پر اقتباس پیش کرتا ہوں،مزید رہنمائی کے لئے "سرجا منیراً " کا یہاں سے مکمل مطالعہ فرمائیں۔ مولانا میر ؒ فرماتے ہیں:۔

تمید نمبر1۔حق تعالیٰ نے جہاں ذات اقدسْ حضور اکرمﷺ کو سارے عالم اور عالمیاں کے لیے رحمت بنایا ہے۔ وہاں آپﷺ کوسراجاً منیرا (آفتاب عالمتاب) بھی فرمایا ہے کہ دنیا جہان کے لوگ آپﷺ سے نور قلبی حاصل کریں۔ رحمۃ للعلمین ہونے کی شان دنیا و عاقبت ہر دو جہاں کے ہے اور سراجاً منیرا کی صفت امور عاقبت کے لیے ہے کہ جو آپﷺ سے عقیدت و محبت رکھتا ہے۔ وہ عاقبت میں درجات عالیہ پاتا ہے اور دنیا میں بھی جو فیض و برکت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا انجام بھی ثواب آخرت ہے۔ لیکن آپﷺ کا رحمۃ للعلمین ہونا سو سب جہان کے لئے موجب امن و امان ہے۔ مومنوں کے لئے بھی اور کافروں کے لئے بھی مطیعون فرمانبرداروں کے لئے بھی اور عاصی گنہگاروں کے لئے بھی اور دیگر جانداروں اور غیر ذی روح اشیاء کے لئے بھی آپ بالواسطہ رحمت ہیں کیونکہ عالمین کے لفظ میں اللہ تعالیٰ کے سوائے سب موجودات آ جاتی ہیں۔ اور سراجاً منیرا صرف مومنین متبعین سنت کے لئے ہے۔
قرآن شریف میں سراج کا لفظ صرف دو ہستیوں کے لئے وارد ہوا ہے۔ آفتاب عالمتاب کے لئے جیسے کہ فرمایا
ترجمہ۔ "یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا۔ " (نوح
۲۹)
نیز فرمایا :۔ " (فرقان
۱۹ پ) یعنی بہت بلند شان والا ہے، اللہ جس نے بنائے آسمان میں ستارے اور بنایا اس میں چراغ (سورج) اور (بنایا) چاند روشنی والا۔ "
اسی طرح سورت نباء میں فرماتا ہے :۔
" یعنی اور (بنایا) ہم نے چراغ (سورج) چمکتا۔ "
توضیح:۔ عربی زبان میں منیرا لازم ہے اور متعدی بھی، لازم کا مفاد یہ ہے کہ وہ روشن ہے اور متعدی کا حاصل یہ ہے کہ دوسرے کو روشنی دینے والا اور آفتاب کی بھی یہی شان ہے کہ وہ اپنے آپ میں بھی روشن ہے اور دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔ یعنی ستاروں کو چاند کو اور زمین کو۔
اسی طرح حق تعالیٰ نے ذات اقدس آنحضورﷺ کی نسبت بھی فرمایا :۔
"یعنی اے بزرگ شان والے نبی! ہم نے آپ کو (اپنی توحید کا) شاہد کر کے اور (جنت کی) خوشخبری دینے والا کر کے اور (دوزخ سے) ڈرانے والا کر کے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے اذن سے بلانے والا کر کے اور روشنی دینے والا آفتاب کر کے بھیجا ہے" (احزاب)
تفسیر معالم میں اس آیات کے ذیل میں کہا ہے :۔
"حق تعالیٰ نے آپ کا نام سراج فرمایا ہے کیونکہ آپﷺ سے ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ مانند چراغ کے کہ اس سے اندھیرے میں روشنی حاصل ہوتی ہے۔ "
اسی طرح تفسیر کشاف وغیرہ میں کہا ہے :۔
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی ذات سے شرک کے اندھیروں کو آشکار کر دیا اور ہدایت پائی آپﷺ سے گمراہوں نے جس طرح کہ رات کے اندھیرے آشکار ہوتے ہیں روشن چراغ سے اور راہ دکھائی دیتا ہے اس سے۔
"یا یہ کہ امداد دی اللہ نے آپﷺ کے نور نبوت سے باطنی بصیرتوں کی روشنی کو، جس طرح کہ چراغ کی روشنی سے ظاہر ی آنکھوں کو امداد پہنچتی ہے۔ "
الغرض حق تعالیٰ نے آپﷺ کے نور نبوت اور فیض و برکت کو روشن چراغ سے یا آفتاب عالمتاب سے تشبیہ دی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح جسمانیات و مادیات پر روشن چراغ یا آفتاب کی روشنی پڑتی ہے اور ان پر سے ظلمت کے پردے چاک ہو جاتے ہیں اور چیزوں کی اصلیت و حقیقت بغیر کسی قسم کے اشتباہ کے نمایاں ہو جاتی ہیں اور دماغ انسانی وحشت و تردد کی حیرانی وسرگردانی سے آرام پاتا ہے اسی طرح آنحضرتﷺ کے نور نبوت سے شرک و کفر، بدعت و ضلالت، رسوم جاہلیت و توہمات اور نفسانی خواہشات کی کدورتیں اور ظلمتیں دور ہو گئیں اور حق و باطل کی حقیت غیر مشتبہ طور پر نمایاں ہو گئی اور ہدایت و ضلالت میں واضح طور پر امتیاز ہو گیا۔ جیسا کہ فرمایا :۔
"یعنی دین میں جبر کرنے (کی ضرورت) نہیں کیونکہ ہدایت (بھلائی) گمراہی (و بد راہی) سے بلا شبہ متمیز ہو چکی ہے۔ " (البقرہ
۳ پ)
چونکہ آنحضرتﷺ حاتم النبیین ہیں اور اللہ اس کے فرشتوں کی طرف سے آپﷺ کے خدا یاد امتیوں پر صلوات و برکات نازل ہوتے رہنے کی خبر ہے جس سے واضح ہے کہ آپؐ کے امتیوں میں اصحاب صلاحیت اور ارباب یمن و برکت ہمیشہ قائم رہیں گے۔ جو آنحضرتﷺ کے انوارقدسیہ سے حسب استعداد بہر اندوز ہوتے رہیں گے، پس آپؐ کا فیض مثل چشمہ جاری کے تا قیامت جاری رہے گا اور ا س پر انقطاع و بندش وارد نہیں ہو گی اور چونکہ انبیائے سابقین کی امتوں میں بوجہ ان کے کفر و شرک اور بدعت و ضلالت اور رسوم جاہلیت و توہمات کی ظلمتوں میں پھنس جانے کے ان انبیاء کے انوار حاصل کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رہی نیز ان کی شریعتیں ایک حد تک تو منسوخ اور ایک حد تک محرف و مبدل اور ایک حد تک مختلط و مشتہر ہو کر اصلی حالت پر قائم نہیں رہیں اور ان کی حالت مثل چشمہ غیر صافی و مکدر کے ہو گئی ہے اور وہ لوگ اپنے طریق زندگی میں سنن انبیاء سے منحرف ہو کر مثل ان لو گوں کے ہو گئے ہیں جن کے پاس کوئی کتاب الٰہی یا شریعت نہیں ہے۔ اس لئے ان پر ان انبیاء کے انوار منعکس نہیں ہو سکتے۔ اسی امر کے ایک پہلو میں آنحضرتﷺ نے حضرت عمرؓ کے سامنے توراۃ کا مطالعہ کرنے پر فرمایا تھا۔
"قسم ہے اس ذات کی جس کے دست (قدرت) میں محمدﷺ کی جان ہے اگر تمہارے سامنے موسی ؑ ظاہر ہو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے ہو جاؤ۔ تو تم (اللہ کی) سیدھی راہ سے بہک جاؤ گے اور وہ زندہ ہوں اور میری نبوت پالیں۔ تو ضرور ضرور میرے پیچھے چلیں۔ "
تمہید
جس طرح جسمانی جنم کے بعد جسمانی پرورش کی نگہداشت اور کفالت مہربان ماں باپ کرتے ہیں۔ اسی طرح روحانی جنم یعنی بیعت کے بعد روحانی پرورش و اصلاح کی نگہداشت مرشد مشفق کرتا ہے۔ پس جس طرح بچہ جسمانی پرورش کے زمانہ میں ماں باپ پر اعتماد کر کے جوانی کی عمر کو پہنچتا ہے۔ اسی طرح مرید کو بھی چاہیے کہ وہ روحانی تربیت کے زمانہ میں یعنی جبکہ وہ مرشد کی زیر نگرانی روحانی عملیات مسنونہ کی مشق کرتا ہو۔ اپنے مرشد سے خلوص و عقیدت رکھے اور اس کی تعلیم کردہ ہدایتوں پر عمل کرتا رہے تاکہ اپنی قسمت و کو شش کی مقدر منزلت کو حاصل کر سکے۔
دل کی صفائی کیسے ہو گئی مولانا میرؒ برکات درود شریف میں لکھتے ہیں:۔
ظاہر ی اور حسی طہارت و صفائی کے بعد اپنے دل کو حسد و بعض اور کبر و عجب اور نخوت و خود نمائی اور ریاکاری اور مخلوق کی لجاجت اور مطلب پرستی اور خود غرضی اور لالچ کی تیرگی سے صاف رکھے کیونکہ یہ سب باطنی عیوب ہیں اور ان سے دل کا آئینہ مکدروسیاہ ہو جاتا ہے اور آئینہ کی صفائی نہایت ضروری ہے تاکہ اس پر سراجاً منیر ا کا عکس جلوہ ریز ہوسکے اور اس آئینہ نورانی جمال محمدیﷺ کی سعادت حاصل کر سکے۔
 تمثیل
اس امر کو آپ بجلی کی تمثیل سے بآسانی سمجھ سکیں گے۔ بجلی کی روشنی کے لئے چند چیزوں کی ضرورت ہے۔
اول : خزانہ روشنی یعنی پاورہاؤس مع انجن واسباب ضروریہ۔
دوم: اس خزانہ روشنی سے گھر کے بلب تک وائرنگ کے ذریعے کنکشن۔
سوم : بلب کے اندر کی تار جو بجلی سے متکیف ہوتی ہے۔
چہارم : اس تار کے گرد بلب کا زجاجی خولاگر ان میں سے کسی شے کی بھی کمی ہو۔ تو روشنی کا حصول ناممکن، یعنی اگر خزانہ روشنی کا انجن کام نہ کرتا ہو۔ یا وائرنگ درست نہ ہو۔ یا بلب کی تار فیوز شدہ ہو۔ یا اس تار کے باہر کا زجاجی خول نہ ہو۔ تو روشنی نہیں مل سکتی۔
توضیح تمثیل
اسی طرح ذات با برکات آں سرورکائناتﷺ تو سراجاً منیرا ہونے کی وجہ سے خزانہ روشنی ہیں اور وائرنگ مرشدو شیخ یا پیراستاد ہے۔ جس کی ایک جانب تو ذات گرامی صفات آنحضرتﷺ ہے اور دوسری طرف بلب ہے۔ جو اپنا۔ یا فیض کے طالب مرید کا دل ہے۔
اوصاف شیخ یا مرید :۔ پس اس مرشد کا متبع سنت۔ صحیح العقیدہ اور صالح العمل ہونا ضروریات سے ہے اور یہ بھی کہ کفر و شرک الحاد و بدعت، فسق و فجور اور اعمال سئیہ کی آلودگیوں سے پاک ہوا اور یہ بھی کہ وہ فرائض و سنن اور مستجات کا ادا کرنے والا محرمات اور مکروہات اور مشتبہات سے پرہیز کرنے والا ہو۔ پس ایسا پاکباز متبع سنت شیخ آنحضرتﷺ (خزانہ روشنی) سے قلبی تعلق رکھتے ہوئے آنحضرتﷺ سے نو ر حاصل کرے اور اس کی انعکاسی شعاعیں مرید کے آئینہ صافی پر ڈالے۔
۲۔ بلب کے اندر کی تار :۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بلب کا خالی خول وائرنگ سے روشنی نہیں حاصل کرتا بلکہ اس کے اندر ایک باریک سی تار ہوتی ہے اور بجلی کی کیفیت سے متکیف ہوتی ہے تو پھر جا کر روشنی لیتی ہے۔ پس دل کا زندہ ہونا بھی ضروری ہے۔
۳۔ دل سے مراد :۔ دل دو معنی پر بولا جاتا ہے ایک تو صنبوبری شکل کا گوشت کا ٹکڑا ہے اس کی بیماری کا سمجھنا اور علاج کرنا اطباء کے متعلق ہے۔ دوم دل اس لطیفہ غیبی اور نور ربانی پر بولا جاتا ہے۔ جو خالق حکیم نے اس گوشت کے ٹکڑے میں رکھا ہے، یہ دل ربانی لوگوں کا مقصود ہوتا ہے۔ پس اس کی زندگی بھی لازمی ہے
باقی رہا بلب کا خول۔ سودہ ظاہر شرع کے احکام ہیں۔ جو اس نور ربانی کے حامل ہیں۔ پس اگر دل میں جو انوار ربانی کا محل ہے۔ ایمان و خلوص نیت اور اللہ کی اطاعت و محبت ہے۔ تو وہ زندہ اور تندرست ہے اور اگر اس میں ایمان نہیں ہے تو وہ مردہ ہے اور اگر خلوص و اطاعت نہیں ہے تو وہ بیمار ہے والذین فی قلوبھم مرض اور اس قسم کی دیگر آیات میں ایسے ہی امراض کا ذکر ہے۔
درجہ استکمال و تکمیل :۔ شرائط مذکور ہ بالا کو پورا کرنے والا بلب ایک روشن اور چمکتا ہوا چراغ ہے کہ جس کہ کمرے میں موجود ہو۔ ۔ اس کمرے کو بھی اور جو لوگ اس کمرے میں موجود ہوں اور ان کی آنکھیں اس بلب کے سامنے ہوں۔ روشن کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ دل جو شرائط مذکورہ بالا سے صحیح کنکشن کے ذریعے نور حاصل کرتا ہے۔ خود بھی روشن ہوتا ہے اور اپنے پاس بیٹھنے والوں کو بھی روشنی بخشتا ہے۔
بلب کے اندر اور باہر :۔ پھر آپ نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ باورچی خانے کے بلب عموماً دھوئیں اور مکھیوں کی وجہ سے باہر کی طرف سے گندے ہو جاتے ہیں، وہ بلب جملہ شرائط مذکورہ بالا کے پورا ہونے پر بھی دھندلی سی روشنی دیتا ہے۔ اس معلوم ہوا کہ جس طرح بلب کے خول کی اندرونی سطح کا صاف و بے داغ ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کی بیرونی سطح کی صفائی بھی بہت ضروری ہے اسی طرح بعض دل بذات خود تو روشن ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی انعکاسی شعاعیں دوسروں پر نہیں پڑسکتیں کیونکہ بہت سی نفسانی کدورتیں اور حجاب ہیں کہ انہوں نے دل کو گندہ کر دیا ہوتا ہے۔ پس وہ دل باوجود روشن ہونے کے روشنی بخش نہیں ہو سکتا۔ پس کمال اسی دل میں ہے۔ جو بشرائط مذکورہ بالا خزانہ روشنی لیتا ہے اور ظاہر و باطن یعنی شریعت و طریقت کی باتباع سنت پابندی کر کے کامل طرح کی صفائی حاصل کر کے استکمال کے بعد تکمیل ناقصین بھی کرتا ہے۔ اللھم اجعلنی ھادیامھدیا۔ فیض سینہ بسینہ
مسلمانوں کی زبان سے ایک لفظ سینہ بسینہ اکثر سنا جاتا ہے جو ان معنوں میں بولا اور سمجھا جاتا ہے کہ کوئی علم ایسا بھی ہے۔ جو آنحضرتﷺ نے الفاظ میں نہیں بیان کیا۔ اس لئے وہ احادیث میں منقول نہیں ہوا۔ بلکہ وہ آپﷺ خاص اوقات میں شاہ ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہ اور ان جیسے بعض دیگر صحابہ کے سینہ پر القا کیا۔ جس سے وہ منور ہو گئے۔ انہی کے فیض و برکت سے سلسلہ بسلسلہ وہ علم مشائخ طریقت میں چلا آیا اور اب بھی وہ علم اسی طرح سے ا۔ ب۔ ت حروف تہجی والے الفاظ کے بغیر ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ان سے ایسے امور بھی واقع ہو جاتے ہیں جو اہل ظاہر کی نظر میں خلاف شریعت ہوتے ہیں۔
محبان طریقت تو اسے تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے طریق کی بنا ہی اس پر سمجھتے ہیں لیکن پیروان، شریعت اس کا انکار کرتے ہیں کہ کوئی ایسا علم جو قرآن و حدیث میں صریحاً یا اشارۃً مذکور نہ ہو۔ آنحضرتﷺ کی طرف منسوب ہو سکے کیونکہ حق جل و علا نے ذات قدسی کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان اپنا رسول اور سفیر بنایا اور اپنی خصوصی وحی سے آپﷺ کو علم دیا۔ اپنا پاک کلام آپﷺ پر اتارا اور ان پیغامات و احکام کی تبلیغ آپﷺ کا فرض قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا۔
یا یھاالرسول بلغ ما انزصل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالۃ (مائدہ پ
۶)
یعنی اے ( میرے عظیم الشان) رسولﷺ جو کچھ آپﷺ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے۔ وہ (سب کا سب) پہنچا دیں۔ یعنی اس کی تبلیغ (بندوں کو) کر دیں۔ اور اگر آپﷺ نے ایسانہ کیا۔ یعنی اگر تبلیغ نہ کی۔ تو آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی۔ ‘‘
یعنی اس کے پیغامات اس کے بندوں تک پہنچا دینے کے منصب کو سر انجام نہ دیا۔ اور اپنا منصب تبلیغ رسالت پورا نہ کیا۔
اسی وجہ سے آنحضرتﷺ نے حجۃ الوداع میں سب حاضرین سے جن کی تعداد (کم و بیش) ایک لاکھ یا سوالاکھ تھی۔ بطور شہادت لینے کے پوچھا۔ ھل بلغت یعنی کیا میں نے تم کو تبلیغ کر دی! تو صحابہؓ نے جواب میں کہا کہ ہاں حضور !آپ نے دین الہی پہنچا دیا اور کامل خیر خواہی سے پہنچایا۔ (صحیح بخاری ؒ وغیرہ)
پس صحابہؓ نے جن میں حضرت علیؓ بھی موجود تھے۔ اسی وصیت کی رو سے دین کی تبلیغ کی اور انہی کی تبلیغی روایات کا نام حدیث ہے جن کی باقاعدہ تدوین خلیفہ عمر بن عبد العزیزؒ نے حکم سے شروع ہوئی اور آج وہ ہمارے پاس موطا امام مالک ؒ اور صحیح بخاری ؒ اور صحیح مسلم ؒ وغیرہ کتابوں کی صورت میں موجود ہیں۔ پس کوئی ایسا علم جو قرآن و حدیث میں مذکور نہیں یا اس سے ماخوذ نہیں ذات اقدس ﷺ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔ لہذا بغیر زبان کی گویائی اور کان کی شنوائی کے آنحضرتﷺ سے کوئی علم منقول نہیں۔
فیض سینہ بسینہ کا صحیح مفہوم :۔ ہاں آپﷺ کے سینہ فیض گنجینہ کے انوار جو دوسرے قابل دلوں پر منعکس ہوتے تھے اور ان میں ایک باطنی کیف پیدا کر کے اسے منور کر دیتے تھے۔ ان سے انکار نہیں ہو سکتا اور ہم فیض سینہ بسینہ کے ان معنوں میں ہونے اور سلسلہ بسلسلہ بزرگان دین میں برابر چلے آنے کو برابر مانتے ہیں اور اسی کے ثابت کرنے اور سمجھانے کے لئے ہم نے عنوان کو مقرر کیا ہے۔ واللہ الھادی!
طریقت اور شریعت میں مخالفت نہیں ہو سکتی :۔
شریعت و طریقت میں مخالفت کا ہونا گو کبھی ہو۔ یہ امر بھی باطل ہے کیونکہ جس امر کو خدا تعالیٰ نے بواسطہ اپنے رسولوں کے علی الاعلان الفاظ میں ظاہر کیا اور اس کی فرمانبرداری بندوں پر لازم کر دی اوراس کی نا فرمانی سے اپنی ناراضی صاف و صریح الفاظ میں ذکر کر دی۔ اس کی خلاف ورزی اس کو کس طرح پسند آسکتی ہے۔ پس اگر طریقت خدا رسی کے طریق کا نام ہے۔ تو اس کا شریعت کے مطابق و موافق ہونا لازمی ہے۔ اسی لئے اہل طریقت بزرگوں کا (اللہ تعالی ان سے راضی ہو) متفقہ قول کہ طریقت بغیر شریعت کے زندقہ و بے دینی ہے۔
یہ بات اتنی مسلم اور مشہور ہے کہ ہم کو اس کے لئے ان اقوال کے نقل کرنے اور کتابوں کے حوالے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ مولا نا روم صاحبؒ نے مثنوی شریف میں اور خواجہ علی ہجویری ؒ لاہوری نے کشف المحجوب میں اور سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے غنیۃالطالبین اور فتوخ الغیب میں اور حضرت مجدد صاحبؒ نے اپنے مکتوبات میں نہایت صفائی سے اسے بیان کیا ہے۔
محاکمہ
یہ ذرہ بے مقدار (بد نام کنندۂ نکو نامے چند) متبع سنت ہو کر اہل طریقت سے بھی عقیدت و محبت رکھتا ہے۔ ان دونوں فریقوں کی نزاع کو یوں مٹانا چاہتا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس آنحضرت ﷺ کی تبلیغ صرف قرآن و حدیث کی صورت میں ہے اور ان ہر دو سے باہر ہم کسی چیز کو آنحضرتﷺ کی طرح منسوب نہیں کرسکتے۔
کیونکہ جب ہر دو منجانب اللہ ہیں اور ہر دو اللہ کے پاس پہنچنے کی سبلییں ہیں تو ان میں مخالفت کیوں ہو گی ؟ اگر کسی کو نظر آتی ہے تو ہر دو (اہل شریعت و اہل طریقت) میں سے کسی طرف کی غلط فہمی ہے اگر ہر دومقام صحت پر کھڑے ہوں تو دونوں مخالف نہیں ہو سکتی لیکن یہ کہنا یا سمجھنا کہ ایک سینہ سے دوسرے سینہ سے سینہ میں بغیر حرفوں کی تعلیم کے کچھ آ نہیں سکتا۔ یہ خشکی اور بے ذوقی ہے
قدر ایں بادہ ندانی بخدا تا نچشی
کا معاملہ ہے کیونکہ کیفیات و وجدانیات کا احساس صاحب کیفیت اور صاحب وجدان کے سوا کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہ وہ حقیقت ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب ؒ جو عالم عامل اور ولی کا مل تھے
بیان توجہ میں فرماتے ہیں :۔
ومن لم یزق لم یدر۔ یعنی جس نے چکھا ہی نہیں وہ کیا جانے اور کیا سمجھے ؟اسی اصول پر اللہ تعالیٰ نے منکرین نبوت محمدیہﷺ کو یوں خطاب کیا ہے۔ افتمارونہ عل مایری (النجم پ 27) ’’یعنی تو کیا تم اس نبیﷺ سے ایسے امر میں جھگڑا کرتے ہو۔ جسے وہ ( عیاناً سامنے) دیکھ رہا ہے ‘‘
اب اس امر کو اسی علم (معقول و منقول) سے سمجھئے۔ جس سے آپ مانوس ہیں کہ علم دو طرح پر ہوتا ہے۔ حروف سے اور قلب سے کتابی علم حرفوں کے ذریعے اہل علم استاد سے حاصل ہوتا ہے اور قلبی علم اہل دل مرشد سے قلبی مناسبت پیدا کرنے اور زہ د و عبادت اور مجاہدہ و ریاضت سے ملتا ہے اور ان سب میں آداب شرعیہ کی رعایت اور اتباع سنت اس حد سے بڑھ کر کرنی پڑتی ہے جس حد تک آپ اپنی نماز وغیرہ عبادت کی صحت کے لئے کا فی جانتے ہیں۔ یہ تو خلاصہ مطلب ہے۔ اب معقولاً و منقولاً اس کی تشریح کی مطالعہ فرمایئے:
جس طرح اس مادی عالم میں ایک شے موثر بھی ہے کہ دیگر شے اثر ڈالتی ہے اور کسی دوسری چیز کا اثر قبول بھی کرتی ہے۔ اسی طرح ایک قلب و روح انسانی دوسرے دل پر اثر ڈالتا بھی ہے اور دوسرے قلب سے اثر کو قبول کرتا ہے۔ اصل چیز تاثیر و تاثر کے لئے یہی دل ہے۔ باقی سب اعضااس کے تابع ہیں کہ بلا تردد و تامل اور بلا وقفہ و مہلت اور بلا انکار و کراہت اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس خاکدان دنیا میں ایسی اطاعت کسی اور جگہ نہیں ملے گی۔ بس یہی سمجھ لیجئے کہ خالق حکیم نے لشکر اعضا کی فطرت میں اپنے سلطان یعنی قلب کی نافرمانی رکھی ہی نہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں۔ القلب سلطان البدن یعنی ’’دل بدن کے باقی اعضا کا بادشاہ ہے۔ ‘‘ پس اعضا پر جو بھی اثر ہوتا ہے، وہ سب اسی کی و ساطت سے ہوتا ہے اور اگر وہ بھی کسی دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں تو اسی کے فیض سے ڈالتے ہیں۔
زبان کی تاثیر مسلم ہے۔ اس کی افسون گری دل پر ایسا قبضہ جما لیتی ہے کہ اسے کسی اور اپنے کے مطلب کا نہیں رہنے دیتی سرورکائنات ﷺ خود افصح العرب تھے۔ کسی شاعر کی تقریر سن کر فرمانے لگے۔ ان من البیان لسحرا۔ یعنی بیان میں بھی جادو کا اثر ہوتا ہے۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امر تسری (مدظلہٗ) نے امرتسرمیں اس عاجزی کی سب سے پہلی تقریر سن کر فرمایا تھا۔
اثر لبھانے کا پیارے ! تیرے بیان میں ہے
کسی کی آنکھ میں جادو تیری زبان میں ہے
لیکن جب اس کے بولے ہوئے الفا ظ میں بولنے والے کی قلبی کیفیت بھی بسی ہوئی ہو۔ تو اس کا جذب لوہے کی زنجیر سے طاقتور ہو جاتا ہے، اسی معنی میں کہا گیا ہے۔
سخنے کہ از دل بیروں آید در دل جامی گیرد۔ ’’ یعنی جو بات دل سے نکلتی ہے۔ وہ دل میں جگہ پکڑتی ہے ‘‘
اسی طرح آنکھ کی مقناطیسی کشش سے کون انکار کر سکتا ہے۔ جو ایک نظارے سے تڑپا دے اور ایک اشارے سے گھائل اور آسیب زدہ کی طرح حیران و ششدر کر کے کھڑا دے۔ زمین پر ٹپکا دے۔
اب سوال یہ ہے کہ زبان اور آنکھ محض اپنے گوشت اور جسم مادی سے اثر ڈالتے ہیں یا دل کی کیفیت سے متکیف ہو کر اپنا جادو چلاتے ہیں۔ اگر پہلی صورت ہے یعنی بغیر دل کے خود بخود موثر ہیں۔ تو یہ تاثیر ہر وقت کیوں نہیں اور اگر دوسری صورت ہے۔ جو واقعی ہے تو سلسلہ اسباب میں اصل موثر دل ہو اور دل آنکھ زبان وغیرہ اس کے آلات تاثیر ہوئے۔ وھذاھوالمراد۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ تمام اعضا دل کے فرمانبردار اور تحت ہیں اور وہ اسی سے اثر پذیر ہو کر حرکت کرتے اور اپنے فعل انجام دیتے ہیں۔ تو اب سمجھناچاہیے کہ سینہ، آنکھ اور کان کی نسبت دل کے بہت قریب ہے بلکہ جملہ اعضائے بدن سے نزدیک ہے کیونکہ سینہ ظرف اور دل مظروف چنانچہ خالق اکبر فرماتا ہے :۔ فانھالا تعمی الابصارولکن تعمی القلوب التی فی الصدور۔ ’’یعنی (ان بصیرتوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں۔ بلکہ دل اندھے ہیں۔ جو سینوں کے اندر ہیں ‘‘
اور ظاہر ہے کہ ظرف و مظروف میں جو قرب و اتصال ہوتا ہے۔ دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ پس سینہ دل کے جذبات کوائف سے نسبت دیگر اعضا کے بہت جلد اور بہت زیادہ متکیف ہو جاتا ہے اور چونکہ سینہ میں نہ تو زبان کی طرح گویائی ہے کہ بول کر اثر ڈالے اور نہ آنکھ کی مثل بینائی ہے کہ دیکھ کر اور آنکھ سے آنکھ ملا کر کسی کو کھینچ سکے۔ اس لئے یہ کلام اور نظرسے اثرانداز نہیں ہوتا۔ بلکہ خالق حکیم نے اس میں دو دیگر قوتیں ودیعت کی ہیں۔ جن سے اپنے اعضائے بدن کے علاوہ بیرونی اشیاء (اجسام و قلوب) کو بھی مسخر کے ان پر حکومت جما لیتا ہے اور ا ن کو اپنی کیفیت سے متکیف کر دیتا ہے۔
پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اعصاب حاسہ (حس والے پٹھوں) میں قلبی کیفیات کو جذب کرنے کی دیگر سب اعصاب سے زیادہ رکھی ہے۔ اس لئے یہ قوت لا مسہ کے ذریعے بھی اثر ڈالتا ہے۔ یعنی اگر عامل اپنے معمول کے سینے کو اپنے سینے سے لگا دے اور پوری توجہ سے دبا دے۔ تو عامل کے دل کی کیفیتیں معمول کے دل میں منعکس ہو جاتی ہیں۔ بشرطیکہ ان میں جذب و انجذاب کی قابلیت ہو۔ دوسری یہ کہ خدائے جبار نے اس میں ایک ایسا و صف بھی رکھا ہے کہ جب یہ خود نور و محبت الہی سے بھر جاتا ہے تو اس کے اندر ایک انبعاث (ابھار) پیدا ہوتا ہے۔ جو کبھی رقت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور صاحب دل زور زور سے رونے اور گڑگڑانے لگتا ہے اور کبھی جو ش کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور یہ اس کی جلالی حالت ہوتی ہے ایسی حالت میں اس سے نور کی شعاعیں نکلتی ہیں۔ جو فیض کی خواہش اور قابلیت رکھنے والے دل پر اس کے سینہ کے گوشت اور ہڈیوں کو چیرتی ہوئی منعکس ہو جاتی ہیں۔ ایسی حالت میں لمس اور مس۔ یعنی سینے سے لگانے یا چھونے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس ایک جلالی توجہ ہی کام کر جاتی ہے۔ بلکہ ایسی حالت میں شیخ کے سامنے ہونے کی بھی حاجت نہیں۔ بلکہ مسافت بعیدہ سے بھی اثر ہو سکات ہے
وجر بت ذلک مرار والحمداللہ۔ یشھدبذلک من وقع علیہ ھذاالحال من مخلص ھذا العبدالائیم
اگر مرشد کے دل کی کیفیتیں اور اس کے جذبات پاک ہیں اور وہ انوار قدسیہ سے منور ہے اور مرید کا دل بھی کدورت نفسانیہ سے پاک ہوتے ہوئے انوارقدسیہ کا طالب و خواہشمند اور اس کے فیض کے حاصل کرنے کے قابل ہے۔ تو اس میں بھی اس کی رسائی بھر نور بھر جاتا ہے۔ چنانچہ یہ مضمون اہل طریقت و اشارات کے طریق پر اس آیت سے سمجھاجا سکتا ہے۔
انزل من السماء ماء فسالت اودیتہ بقدرھا۔ (رعد پ 13 )
’’یعنی حق تعالیٰ آسمان کی طرف سے بارش اتارتا ہے۔ تو وادیوں میں بقدر ان کی وسعت کے پانی بہہ پڑتا ہے۔
اس اثر کو اہل طریقت کے ہاں تصرف کرنا یا فیض و برکت بخشنا کہتے ہیں اور آئندہ ہم اسے اسی نام سے ذکر کریں گے انشاء اللہ۔
تنبیہ :۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے والد ماجد شاہ عبدالرحیم صاحب ارشادات رحیمیہ ‘‘ میں فرماتے ہیں:۔ طریقہ توجہ خواجگان (قدس اللہ اسرار ہم و آں توجہ را تصرف نامند بریں وجہ است کہ بدل متوجہ دل طالب شوند و ازراہ گذران ارتباط اتصال و اتحاد سے میان دل ایشاں و باطن آں طالب واقع می شود، و بطریق انعکاس ازول ایشاں پر تو بر باطن دے می تابداویں صفتے است کہ ناشی از استعداد ایشاں ست، کہ بطریق انکاس درآئینہ استعداد آں طالب ظاہر شدہ، اگر ایں ارتباط متصل شود آنچہ بطریق انعکاس حاصل شدہ بعد صفت دوام پذیر د، وتبین شرائط تصرف دوقائق آں و تفصیل روش آں بگفتن مرشد تعلق دارد۔ ومنقول است از حضرت خواجہ محمدیحیٰ پسر حضرت خواجہ عبیداللہ احرار (قدس تعالیٰ اسرار ھما) کہ ارباب تصرف بر انواع اند، بعضے ماذون و مختارکہ باذن حق سبحانہ و تعالیٰ و باخیتار خود ہر گاہ کہ خواہندہ تصرف کنندہ واور ابمقام فنا بیخودی رسانند و بعضے دیگر ازاں قبیل اند کہ با جود قوت تصرف جزبامر غیبی تصرف نکتند۔ تا از پیشگاہ مامور نشوند بکسے توجہ نکتندو بعضے دیگر آنچناں کہ گاہ گاہ صفتے و حالتے بر ایشاں غالب شود ودرغلبہ آں حال درباطن مرید تصرف کنندہ واز حال خود ایشاں رامتاثر سازند۔ پس کسے کہ نہ مختار بو دونہ ماذون ونہ مغلوب، ازوچشم تصرف نبایدادشت (ارشادات رحیمہ)
(ترجمہ) توجہ خواجگان کا طریقہ (اللہ تعالیٰ ان کے بھیدوں کو پاک کر دے) اور وہ اس توجہ کا نام تصرف رکھتے ہیں۔ یہ ہے کہ اپنے سارے دل سے طالب کے دل کی طرف متوجہ ہونے ہیں اور ارتباط کی وجہ سے ان کے دل میں اور طالب کے دل میں اتصال و اتحاد پیدا ہو جاتا ہے۔ اور بطریق انعکاس ان کے دل سے اس (طلب) کے باطن پر پر تو پڑتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جو ان (بزرگوں) کی استعداد کے آئینہ میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ اگر یہ ارتباط متصل ہو جائے۔ تو جو کچھ بطریق انعکاس حاصل ہوا تھا وہ دوام کی صفت پکڑتا لیتا ہے اور شرائط تصرف اور اس کی باریکیوں کا بیان اور اس کے طریقہ کی تفصیل مرشد کے بتانے کے متعلق ہے۔ اور حضرت خواجہ محمد یحیٰ بن حضرت عبیداللہ (قدس اللہ اسراراھما) سے منقول ہے کہ اصحاب تصرف کئی قسم پر ہیں۔ بعضے ماذون و مختار ہیں کہ حق سبحانہ و تعالیٰ کے اذن اور اپنے اختیار سے جب چاہتے ہیں تصرف کرتے ہیں اور اس (طالب) کو مقام فنا اور بیخودی پر پہنچا دیتے ہیں اور بعض دوسرے اس قسم کے ہیں کی باوجود قوت تصرف کے سوائے امر غیبی کے تصرف نہیں کرتے۔ جب تک درگاہ الہی سے مامور نہ ہوں کسی کو توجہ نہیں دیتے اور بعض دیگر اس طرح کے ہیں کہ ان پر کبھی کبھی کوئی صفت یا کوئی حالت غالب ہو جاتی ہے۔ تو اس غلبہ حال کے وقت مرید کے باطن میں تصرف کرتے ہیں اور انکو اپنے حال سے متاثر کر دیتے ہیں۔ جو شخص نہ مختار ہو اور نہ ماذون ہو اور نہ مغلوب ہو اس سے تصرف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ‘‘
تنبیہہ:۔ اس فیض و برکت کا ذکر کتب سابقہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی نسل کے انبیائے بنی اسرائیل کے حالات میں بھی ملتا ہے اور اسے انگریزی میں (تو گو بلیسنگس)
To Give Blessings کہتے ہیں۔ یعنی کسی کو فیض و برکت بخشنا۔
تقریب مقصد

گذشتہ تمہید اور تفہیم کے بعد ہم اپنے مقصود کو احادیث صحیحہ اور واردات نبویہ سے ثابت کرتے ہیں :۔
حدیث اول
( صحیح بخاری کتاب الوحی و کتاب التفسیر) غار حرا میں جب آنحضرت سرورانبیاءﷺ کو خلعت نبوت سے نوازگیا حضرت جبرائیل ؑ نے آپ سے کہا۔ اقراء۔ یعنی پڑھئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ماانابقاریء۔ ’’یعنی میں پڑھا ہوا نہیں۔ ‘‘ اس پر جبرائیل ؑ نے آپﷺ کو تین دفعہ (یکے بعد دیگرے) اپنے سینے سے لگایا اور زور سے دبایا۔ اس طرح تین بار کرنے کے بعد اقراء باسم ربک الخ یعنی سورت علق کی پانچ ابتدائی آیتیں پڑھائیں عطائے نبوت پر یہ سب سے پہلی وحی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ اس سینے سے لگانے اور دبانے کے متعلق سورت علق کی تفسیر میں فرماتے ہیں :۔
(نکتہ) دوم آنکہ تاثیر حضرت جبرئیل ؑ در روح ایشاں بواسطہ افشرون در گر فتن نہایت مرتبہ کمال ثابت وراسخ کردند۔ (ص 245)
(ترجمہ) دوسرا (نکتہ) یہ ہے کہ حضرت جبرئیل فرشتہ کی تاثیر آنرض تﷺ کی روح پاک میں جھنجھوڑنے اور بغل میں لینے کے ذریعے کمال کے آخر ی مرتبہ میں جائے گیر و پختہ کر دی۔ (245)
اس کے بعد تاثیر و توجہ کے اقسام اربعہ باتفصیل بیان کرتے ہیں کہ وہ چار ہیں۔
اول دوم سوم چہارم
القائی اصلاحی اتحادی

پھر اس قسم چہارم یعنی اتحادی کی تفصیل میں فرماتے ہیں۔ چہارم تاثیر اتحادی کہ شیخ روح خود دراکہ حامل کمالست باروح مستفید بقوت تمام سازد۔ تاکمال روح شیخ باروح مستفید انتقال نماید، وایں مرتبہ اقویٰ ترین انواع تاثیراست چہ ظاہر است کہ بحکم اتحاد روحین ہر چہ درروح شیخ بروح تلمیذمیر سد۔ وباربارحاجت استقادہ نمی ماند ودر اولیاء اللہ ایں قسم تاثیر بہ ندرت واقع شدہ۔ (صفحہ 245)
(ترجمہ) چوتھی قسم تاثیر اتحادی ہے کہ شیخ (پیر حقانی) اپنی روح کو جو کمال کی حامل ہے، فیض حاصل کرنے والے (مرید) کی روح کے ساتھ پوری قوت سے متحد کر دینا ہے۔ تاکہ شیخ کی روح کا کمال مستفیدکی روح میں منتقل ہو جائے اور یہ مرتبہ تاثیر کی اقسام میں سے سب سے زیادہ قوی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ ہر دو روحوں کے اتحاد سے جو کمال کے شیخ کی روح میں ہے وہ تلمیذ ( مرید با صفا و شاگرد رشید) کی روح میں پہنچ جاتا ہے اور بارباراستفادہ کی حاجت نہیں رہتی اور اس قسم کی تاثیر اولیاء اللہ میں بھی گا ہے بگاہے واقع ہو جاتی ہے‘‘
حضرت مجدد صاحب رحمۃاللہ علیہ کے مرشد کامل حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ کا ایسا ہی ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :۔
’’بالجملہ تا ثیر حضرت جبرئیل ؑ دریں افشردن تاثیر اتحادی بو کہ روح لطیف خود را از راہ مسام بدن درون آنحضرتﷺ داخل فرمودہ باروع مبارک متحدسا خنتندوچوں شیر و شکر بہم آمخیتندو حالت عجیب درمیان بشریت و ملکیت پیدا شد نمی آید۔ (صفحہ 245,246)
(ترجمہ) غرضیکہ اس جھنجھوڑنے میں حضرت جبرائیل ؑ کی تاثیر اتحادی تھی کہ انہوں نے اپنی لطیف روح کو آنحضرتﷺ کے بدن مبارک میں مساموں کے رستے آپﷺ کی روح مبارک کے ساتھ متحد کر دیا ہے اور ان کو شیر و شکر کی طرح ملا دیا اور بشریت و ملکیت کے درمیان ایک ایسی عجیب حالت پیدا ہو گئی جو زبان قال میں نہیں آسکتی۔ ‘
بس اسے وہی دل سمجھ سکتا ہے جس پر وہ حالت طاری ہوتی ہے کیونکہ زبان کوائف سے ناآشنا ہے۔ خدا تعالیٰ نے وجدان کے لئے دل پیدا کیا ہے۔ نہ زبان۔
حضرت شاہ عبد العزیز صاحب ؒ کے جد امجد شاہ عبدالرحیم صاحب ؒ ارشادات رحیمیہ صفحہ
۲۲ میں فرماتے ہیں :۔
ومن لم یذق لم یدر
یعنی جس نے چکھا ہی نہیں وہ نہیں جان سکتا؟
زبان محسوسات کا مزہ چکھنے کے لئے ہے۔ دماغ معقولات کے سمجھنے کے لئے ہے اور وجدانیات و کوائف روحانیہ و لطائف قلبیہ کے لئے خالق اکبر نے دل پیدا کیا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہر عضو کا فعل الگ الگ رکھا ہے۔ ایک کو دوسرے کے فعل سے کوئی واسطہ نہیں۔
اللھم اذقنا من حلا وۃ افضالک وافض علینا من برکا تک و اشرح صدورنا و نو ر قلوبنا بانو ارک
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم !
چنانکہ حرف عصاگفت مو سیٰ اندر طور
حدیث دوم
چشمہ فیض و برکت رسول کریمﷺ کے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں :۔
ضمنی النبی صلے اللہ علیہ وسلم الی صدرہ وقال اللھم علمہ الحکمۃ ومن طریق ابی معمراللھم علمہ الکتاب
’’یعنی مجھ کو (مصدر فیض و کرم) حضرت نبی کریمﷺ نے اپنے سینے مبارک سے لگایا۔ اور یہ دعا دی۔ باری تعالیٰ ! اسے حکمت (سمجھ کی درستی) عطا کر اور ابو معمر کی روایت میں یوں ہے کہ اسے اپنی کتاب (قرآن مجید) کی سمجھ عطا کر۔ ‘‘
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ قرآن شریف کے فہم میں صحابہؓ میں ممتاز تھے۔ یہ سب کچھ آنحضرتﷺ کے سینہ مبارک سے لگنے اور آپﷺ کی دعا کی برکت تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مجہتدین صحابہؓ میں سے ہیں۔ ان کا قول فتح الباری میں منقول ہے۔
’’نعم ترجمان القران ابن عباسؓ’’ یعنی حضرت ابن عباسؓ بہت اچھے ترجمان قرآن ہیں۔
الغرض یہ احادیث اور ان جیسی دیگر احادیث ہمارے مقصد صدری کے ثابت و واضح کرنے میں بالکل صاف ہیں۔ اس کے بعد ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کا سینہ مبارک تو تھا ہی مصدر فیض و کرم۔ آپ کی یہ فیض گستری تو اتنی زبر دست اور موثر تھی کہ آپﷺ ایک ایک جزو بدن اطہر حتی کہ آپ کا بال بال بلکہ آپﷺ کے جسد مبارک کے عوارض و متعلقات و فضلات بھی موجب فیض و برکت تھے
یہاں پر مولانا میرؒ نے لعاب مبارک،پسینہ مبارک دست مبارک پر روشنی ڈالی ہے ،مگر میں اپنے عنوان پر رہتے ہوئے مزید اقتباس پیش کرتا ہوں
حضور انور ﷺسراپا برکت تھے اور سب انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی وحی کے سبب ہر امر میں ایمن و برکت والے ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ کی زبانی نقل کیا کہ انہوں نے آغوش مادر میں کہا۔ وجعلنی مبارکا اینماکنت۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو صاحب برکت بنایا ہے۔ جہاں کہیں میں ہوں۔ (زمین پر یا آسمان پر۔ سفر میں یا حضر میں) اور حضرت ابراہیم و اسحاق (علیہاالسلام) کے حق میں فرمایا :۔ وبارکنا علیہ وعلے اسحق۔ (صافات پ 23) یعنی ’’ ہم نے برکت رکھی اس پر یعنی ابراہیم ؑ پر اور اسحاق پر (بھی) ‘‘۔
اور اہل صلاحیت کے دم قدم کی برکت سے بیماریوں اور آفتوں کا دور ہونا اور بارشوں کا بوقت ضرورت برسنا اور رزق و مال میں افزائش احادیث صحیحہ مرفوعہ اور آثار صحابہ اور دیگر بزرگان دین کے واقعات سے ثابت ہے اور یہ متواترات کی جنس سے ہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ ھذا واللہ الھادی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن مجید کی نسبت فرمایا:۔
کتاب انزلنہ الیک مبارک۔ (ص پ
۲۳) یعنی (اے پیغمبرﷺ!) ہم نے (یہ) برکت والی کتاب آپ کی طر ف اتاری ہے۔ ‘‘
نیز فرمایا:۔ وھذا ذکر مبارک انزلنہ (انبیا پ 17) یعنی یہ برکت والا ذکر (نصحت نامہ) ہے، جسے ہم نے مقام عظمت سے) اتارا ہے۔ ‘‘
نیز فرمایا:۔ و ھذا کتاب انزل مبارک۔ (انعام پے
۷) یعنی یہ کتاب برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے (مقام عظمت سے) نازل کیا ہے۔
۔ الغرض یہ برکت والی کتاب حضورﷺ کے قلب پاک پر اتاری گئی جیسا کہ فرمایا۔
فانہ نذلہ علے فلبک باذن اللہ (بقرہ پ)
’’یعنی حضرت جبرئیلؑ تو یہ قرآن آپﷺ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے لے کر آئے ہیں (پھر ان کی دشمنی کے کیا معنی ؟)
نیز فرمایا :۔ نزل بہ الروح الامین علے قلبک (الشعرا پ 19) یعنی ’’اے پیغمبر !) آپﷺ کے قلب پر اس قرآن کو الروح الامین لیکر آئے ہیں۔ ‘‘
ان آیات سے واضح ہو گیا کہ حضورﷺ کا قلب فیوض و برکات رحمانیہ کا خزینہ اور انوار واسرار رہاانیہ کا گنجینہ ہے۔ جس کسی کو عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ کی طرح اس سے اتصال و انضمام نصیب ہو گیا۔ اس کا سینہ نور و سکینہ سے بھر گیا اور جس کی کسی پر آپﷺ کی نظر کرم پڑ گئی۔ اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو گیا۔
چنانچہ تفسیر سراج منیر میں خطیب شربیتی ؒ آیت ویزکبھم ( جمعہ پ 28) کے ضمن میں فرماتے ہیں :۔
ویذکیھم’ یعنی یہ نبی امیﷺ پاک کرتا ہے۔ ان کو شرک اور رذیلے اخلاق اور ٹیڑھے عقائد سے اور آنحضرتﷺ کا یہ تزکیہ اپنی حیات طیبہ میں ان لو گوں کی طرف نظر (کرم) کرنے اور ان کو علم دین کے سکھانے اور ان پر قرآن شریف کے تلاوت کرنے سے تھا۔ پس کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپﷺ کسی انسان کی طرف نظر محبت سے دیکھتے تو اللہ تعالیٰ اس کی قابلیتوں کے موافق اور ان امور کے مطابق جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے عالم قضا و قدر میں مقرر رکھا ہے۔ ‘‘کہ وہ عالم اسباب میں مہیا ہوں۔ اس شخص کا تزکیہ کر دیتا۔ پس وہ شخص آپﷺ کا نہایت درجے کا عاشق (صادق) اور آپﷺ کی اتباع (پیروی) کو اچھی طرح سے لازم پکڑنے والا اور اللہ کی کتاب اور آپﷺ کی سنت میں نہایت درجہ کا راسخ و پختہ ہو جاتا۔ (انتہی مترجما)
یہ اثر بالمشافہ ان ارباب عقیدہ پر تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی پاک صحبت کے لئے منتخب کر لیا تھا اور اب بعد وفات شریف کے آپﷺ کے انوار کی برکت کے لئے اللہ کی کتاب تو وہی ہے اور آپﷺ کے نفس طیبہ کی بجائے آپﷺ کے انفاس طیبہ ہیں۔ جو آپﷺ کے علمی اور تعلیمی فیوض و برکات کے حامل ہیں اور اسفار حدیث قلب کو پاک صاف کرنا نزول برکات موجب ہے اور جو لوگ شب و روز آپﷺ کے آثار و احادیث طیبہ کا شغل و ذکر کر رکھتے ہیں۔ ان کو آپﷺ کی معنوی صحبت کا رتبہ ملتا ہے۔ چنانچہ اسی معنی میں کہا گیا ہے۔
اھل الحدیث ھمواھل النبی وان
لم یضحبوا نفسہ انفا سہ صحبوا
یعنی اہل حدیث۔ نبی کریمﷺ کے اہل ہیں۔ اگر چہ انہوں نے آپﷺ کی ذات گرامی کی صحبت کا شرف نہیں پایا۔ لیکن آپﷺ کے انفاس طیبہ کی صحبت تو حاصل ہے۔ ‘‘
حضرت شاہ عبداللہ مجدوی ؒ المعروف شاہ غلام علی صاحب ؒ مقامات مظہری میں بضمن ذکر حاجی محمد افضل صاحب سیالکوٹی حضرت مرزا مظہر جانجاناں شہید کا قول نقل فرماتے ہیں۔
حضرت (مرزا جانجاناں ؒ) صاحب فرماتے تھے کہ اگرچہ میں نے حضرت (حاجی محمد افضل) صاحبؒ سے بظاہر (سلوک فقر) کا حضرت (حاجی) صاحب کاستفادہ نہیں کیا۔ لیکن حدیث شریف کے سبق کے ضمن میں آپ کے باطن شریف سے فیوض فائض ہوتے تھے اور عرض نسبت میں قوت پہنچی تھی۔ حضرت (حاجی) صاحب کو حدیث شریف کے بیان میں رسو ل اللہﷺ کی نسبت میں استغرق ہو جاتا ہے تھا اور بہت سے انوار و برکات ظاہر ہوتے تھے گویا کہ معنوی طور پر پیغمبر خداﷺ کی صحبت حاصل کی صحبت حاصل ہو جاتی تھی۔ الخ ( مقامات مظہری)
الغرض حضور اکرمﷺ چشمہ فیض کے و برکت ہیں اور آپﷺ کا فیض بوجہ آپﷺ کے خاتم النبین ہونے کے تا قیام دنیا جاری ہے اور ان فیوض کے حصول کے ذرائع قرآن و حدیث کی اتباع اور محدثین عظام کی صحبت ہے قرآن و حدیث تو اصل منبع و مخزن شریعت ہیں اور محدثین و اولیاء اللہ آنحضرتﷺ کے علوم و اعمال کے محافظ و رہنما ہیں۔ بس ان کی رہنمائی میں سیدھے چلے جاؤ اور دائیں بائیں نہ دیکھو۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی محبت بھر ثمرہ پا لو گے۔ حضرت مرزا مظہر جانجاناں فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ طبیعت مرا رد رغایت اعتدال آفرید ہ است، و در طینت من رغبت اتباع سنت نبویﷺ ودیعت نہادہ۔ (مقامات مظہری صفحہ
۱۶)
روحانی استعداد میں ترقی:۔ روحانی ترقی کی صورت یہ ہے کہ روح میں جذب الی اللہ کی صفت حاصل ہو جائے اور یہ بات دائمی توجہ الی اللہ اور کثرت ذکر سے حاصل ہوتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب حقیقت نسبت کے بیان میں فرماتے ہیں۔
اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب بندہ طاعات اور طہارت اور اذکار پر ہمیشگی کرتا ہے تو اس کو ایک صفت حاصل ہوتی ہے جس کا قیام نفس ناطقہ میں ہوتا ہے اور اس توجہ کا ملکہ راسخہ پیدا ہو جا تا ہے۔ (انتہی مترجماً القول الجمیل)
پھر حضرت شاہ صاحب اس شبہ کا حل کہ متاخرین صوفیہ ؒ کا طریق ذکر صحابہ و تابعین سے منقول نہیں ہے یوں کرتے ہیں :۔
میرے نزدیک ظن غالب یہ ہے کہ حضرات صحابہ اور تابعین سکینہ یعنی نسبت کو اور ہی طریقوں سے حاصل کرتے تھے۔ سو منجملہ ان کے مواظبت (ہمیشگی) ہے۔ صلوات اورتسبیحات پر خلوت میں خشوع اور خضوع کی شرط کے ساتھ اور منجملہ ان کے مواظبت ہے طہارت پر اور لذتوں کی تو ڑ نے والی (موت) کی یاد پر، اور (یاد کرنا) اس کو جو حق تعالیٰ نے مطیعوں کے واسطے ثواب تیار کر رکھا ہے نیز (یاد کرنا اس کو جو نافرمانوں (گنہگاروں) کے لئے عذاب معین کر رکھا ہے تو اس مواظبت اور یادسے لذات حسیہ سے جدائی اور انقطاع ہو جاتا ہے اور منجملہ ان کے مواظبت ہے قرآن مجید کی تلاوت پراور اس کے معانی میں تدبر کرنے پر اور واعظین کی پند و عظت سننے پر اور ان حدیث کے سننے سمجھنے پر جن سے دل نرم ہو جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ (صحابہؓ اور تابعین) اشیائے مذکورہ پر مدت دراز تک (پختگی سے) مواظبت کرتے تھے۔ پس ان کو اس سے ملکہ سے راسخہ اور ہیات نفسانیہ حاصل ہو جاتی تھی۔ پھر باقی تمام عمر تک اس کی محافظت کرتے تھے۔ (کہ متاع بے بہا کہیں ضائع نہ ہو جائے) اور یہ معنی متوارث ہے رسول کریمﷺ سے ہمارے مشائخ کے طریق سے، اس میں کسی قسم کا شک نہیں رہتا ہے اگر چہ رنگ مختلف ہیں اور حاصل کرنے کے طریقے جدا جدا ہیں۔
ّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّمولانا خرم علی صاحب القول الجمیل کے ترجمہ شفاء العلمین میں اس عبارت کے ترجمہ کے بعد فرماتے ہیں:۔
خلاصہ جواب یہ ہے کہ جس امر کے واسطے اولیائے طریقت رضی اللہ عنہم نے یہ اشغال مقرر کئے ہیں۔ وہ زبان رسالت سے اب تک برابر چلا آیا ہے۔ گو یا طریق اس کی تحصیل کے مختلف ہیں۔ تو فی الواقع اولیائے طریقت مجتہدین شریعت کے مانند ہوئے۔
 




Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو