آن لائن پیسے کمانے والے پاکستانی نوجوان: مہنگی تعلیم کے بغیر بھی انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کمائے جاسکتے ہیں!
- عمیر سلیمی
زاہد رحیم نے جب نوشہرہ سے اسلام آباد آکر بطور آفس بوائے کام کیا تو اس دوران انھوں نے دیکھا کہ ان سے بہتر پوسٹ پر کام کرنے والے افراد نسبتاً کم کام کرتے ہیں اور زیادہ پیسے کماتے ہیں۔
ان کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد اپنی تنخواہ کے بل پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا مشکل تھا تو انھوں نے اس کی جگہ آئی ٹی کے شعبے میں ہنر سیکھنے کے لیے شارٹ کورسز کر لیے۔
آج 26 سالہ زاہد ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں اپنے بقول ایک ایسی نوکری کر رہے ہیں جس میں عزت اور پیسے زیادہ ہیں لیکن یومیہ کام کا دورانیہ کم۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم ہر گزرتے سال کے ساتھ مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور ملک میں بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ خیال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کئی لوگ زاہد کی طرح، بذریعہ انٹرنیٹ یا شارٹ کورسز، ہنر سیکھ کر پیسے کمانے کے ’ڈیجیٹل راستے‘ تلاش کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مواد پر جائیں
زاہد اپنے تجربے سے یہ بات بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ مہنگی ڈگری یا کم تعلیم کے باوجود پاکستان میں لوگ آئی ٹی کے ہنر سیکھ کر آن لائن کام کے ذریعے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ 'میں نے دیکھا کہ اس تنخواہ پر میں آگے نہیں پڑھ سکوں گا۔ اس لیے میں نے پڑھائی چھوڑ دی اور اُسی جگہ ریسیپشنسٹ کی نوکری جاری رکھی۔
'میں نے سیکھنا چاہا کہ مجھ سے بہتر پوسٹوں پر لوگوں کے پاس کیا ہنر ہیں تو مجھے لگا کہ اگر میں یہ ہنر سیکھ لوں تو میرے لیے (کم) تعلیم کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
'میں نے ہنر سیکھنے کا فیصلہ کیا اور نیشنل ٹریننگ بیورو سے ویب اینڈ گرافک ڈیزائننگ کا شارٹ کورس کیا۔ اس سے میرے امتحان کے دن ہی مجھے نوکری مل گئی۔'
زاہد کا کہنا ہے کہ اس ہنر کی بدولت کسی بھی سافٹ ویئر ہاؤس میں اُن کی قدر اور عزت بڑھ گئی۔
'میں نے پھر مائیکرو سافٹ کے مزید سافٹ ویئر سیکھ کر اپنے ہنر بڑھانے کی کوشش کی۔۔۔ چیزیں بدلتی رہیں۔ میں اچھے پیسے کمانے کے لیے اپنے ہنر بڑھاتا رہا۔'
جب وہ انٹر پاس تھے تب وہ ہفتے میں چھ دن آٹھ گھنٹے نوکری کرنے کے بعد بھی بہت کم ہی پیسے کما پاتے تھے۔ لیکن اب ان صلاحیتوں کی بنیاد پر انھیں کم گھنٹے کام کرنے کے باوجود نسبتاً زیادہ پیسے ملتے ہیں۔
آفس بوائے کی نوکری کے بعد زاہد اب مصنوعی ذہانت کے شعبے سے منسلک ہیں اور ڈیٹا لیبلنگ ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈیٹا لیبلنگ کا کام پاکستان میں عام نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس کی نوکری کر رہے ہیں کیونکہ عالمی سطح پر اس ہنر کی قدر ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے مقامی لوگوں کو اچھے پیسے کمانے کا موقع مل جاتا ہے۔
'مارکیٹ میں صرف ہنر یا سکل کام آتی ہے۔ جتنی تیزی سے دنیا بدل رہی ہے، اگر میں اسی ہنر تک محدود رہا اور روزانہ کی بنیاد پر خود کو اپ ڈیٹ نہ کیا تو شاید تین سال بعد میں مارکیٹ سے غائب ہو جاؤں۔'
وہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کی ڈگری ضروری ہے لیکن پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں لوگ اس کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے اور یہ ایسے لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوسکتی ہے جو ریسرچ کرنا چاہتے ہوں یا کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔
'اگر کوئی صرف نوکری کے لیے پڑھ رہا ہے تو میں کہوں گا کہ آپ اس کے ساتھ ایسے منفرد ہنر ضرور سیکھیں۔۔۔ ڈگری میں بھی لوگ ہنر ہی سیکھتے ہیں تاکہ پیسے کما سکیں۔ اگر آپ ڈگری میں کوئی ہنر نہیں سیکھتے تو یہ صرف ایک کاغذ کا ٹکرا ہے۔'
اب تک انھوں نے ویب ڈیزائننگ اور ای کامرس کے علاوہ کئی شعبوں کے ہنر سیکھے ہیں تاکہ کسی بھی سافٹ ویئر کمپنی میں یہ کام کر سکیں۔
زاہد کی انہی صلاحیتوں کی بدولت ایک مرتبہ وہ 'نوکری سے نکالے جانے سے بچ گئے تھے۔'
وہ کہتے ہیں کہ ایک دفتر میں ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ 'دو، تین گھنٹے بعد میری نوکری ختم ہو رہی تھی۔ اسی دوران میرے باس کو ایک کام پڑ گیا جو کسی کو نہیں آ رہا تھا اور خوش قسمتی سے صرف مجھے آتا تھا۔
'میں اپنے باس کے پاس گیا، وہ کام کیا اور اس کے بعد مزید دو سال وہاں نوکری کی۔'
ہنر سیکھ کر خود کے لیے کام کرنے کا فیصلہ
ایک وقت تھا جب لائبہ اظہر سمجھتی تھیں کہ آن لائن پیسے کمانا ’شاید کوئی جعلی سکیم ہوتی ہے۔‘ لیکن اب وہ پچھلے پانچ برسوں سے خود فری لانسر ہیں اور اپنی ویب ڈیزائننگ کی کمپنی سے لاکھوں روپے ماہانہ کما لیتی ہیں۔
23 سالہ لائبہ بھی انھی لوگوں میں سے ہیں۔ انھوں نے فری لانسنگ میں اس وقت دلچسپی لینا شروع کی جب یونیورسٹی میں انھوں نے اپنے اردگرد لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کماتے دیکھا۔
یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینیئرنگ کے چوتھے سمسٹر کے دوران انھوں نے فری لانسنگ کے ذریعے اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرنے کا فیصلہ کیا۔
لائبہ فری لانسنگ کرنے کے لیے ویب سائٹ ڈیزائننگ سیکھنا چاہتی تھیں کیونکہ یہ ان کی ڈگری کا حصہ نہیں تھا۔ اس کے لیے انھوں نے گوگل اور یوٹیوب کو اپنا استاد بنا لیا۔
'مجھے اپنے ساتھیوں سے پتا چلا کہ فائیور (فری لانسنگ پلیٹ فارم) پر اکاؤنٹ بنا کر آن لائن کام کیا جاسکتا ہے۔'
اکثر فری لانسرز کی طرح انھوں نے ڈگری میں جو کچھ پڑھا، فری لانسنگ میں اس سے مختلف کام کیا۔
'ہم یہ نہیں کہتے کہ ڈگری چھوڑ دیں۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے ہنر سیکھیں جن کی مدد سے آپ (نوکری کے علاوہ) آن لائن پیسے کما سکتے ہیں۔'
'اپنے پہلے آرڈر میں مجھے ورڈ پریس کی ویب سائٹ بنانا تھی جو 25 ڈالر (قریب چار ہزار روپے) کا پراجیکٹ تھا۔ میرے لیے اس وقت وہ بہت بڑی بات تھی۔
'لیکن اب میری کمپنی کی آمدن پانچ سے چھ لاکھ روپے ہے۔'
وہ کہتی ہیں کہ فری لانسنگ کی پہلی شرط کوئی ہنر سیکھنا ہے، جیسے ایس سی او، ڈیجیٹل مارکٹنگ، گرافک ڈیزائننگ اور ویب ڈیزائننگ۔
'آج کل ہر بندے کو اپنی ویب سائٹ اور برانڈنگ چاہیے تاکہ اپنی حریف کمپنی سے بہتر کارکردگی کر سکیں۔۔۔ لوگ اپنی دلچسپی کے تحت کوئی ہنر سیکھ کر فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔'
وہ کہتی ہیں کہ فائیور، اپ ورک اور فری لانسر ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹس پر لوگ اپنے ہنر کے مطابق کام اور کلائنٹس ڈھونڈ سکتے ہیں۔
لائبہ کے مطابق لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پراجیکٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ شروعات میں انھیں اپنا پورٹ فولیو بنانا ہوتا ہے تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ انھیں کام آتا ہے۔ ان کے مطابق اگر کلائنٹ کو آپ کا کام پسند آئے گا تو وہ ضرور آپ کو کام دے گا۔
وہ اپنے کام کے ساتھ ہر عمر کے لوگوں کو فری لانسنگ سکھاتی بھی ہیں۔ ان سے اکثر ایسے لوگ رابطہ کرتے ہیں جنھیں لگتا ہے کہ گھر بیٹھ کر پیسے کمانا آسان ہے۔ یا ایسے لوگ جن کے پاس نوکریاں نہیں ہیں۔
'میری کافی دوستوں نے انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے لیکن ان کے پاس نوکری نہیں۔ اس کی وجہ سے وہ فری لانسنگ سے ہی اپنا گھر چلا رہی ہیں۔
'جیسے ہی لوگ گریجویٹ (فارغ التحصیل) ہوتے ہیں تو انھیں فوری طور پر پیسے کمانا ہوتے ہیں تاکہ اپنی فیملی کی مالی مدد کر سکیں۔ ایسے میں فری لانسنگ سے وہ جلد اس قابل ہوجاتے ہیں کہ پیسے کما سکیں۔'
ان کے مطابق آن لائن پیسے کمانے کے لیے ہنر سیکھنے کا شوق اور صبر ضروری ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے 2016 میں فری لانسنگ شروع کی اور 'صرف 11 ماہ میں 20 ہزار ڈالر (یعنی 20 لاکھ روپے سے زیادہ) کما لیے تھے۔'
اس وقت ان کے مطابق دنیا میں فری لانسنگ کے اعتبار سے مقابلہ کم تھا لیکن اب یہاں بھیڑ بڑھ گئی ہے اور اتنا کام ڈھونڈا آسان نہیں۔ لیکن قسمت کبھی کبھار آپ کو حیران بھی کر سکتی ہے۔
'میں نے ایک مرتبہ صرف 24 گھنٹوں میں 1800 ڈالر (یعنی ڈھائی لاکھ روپے کے قریب) کمائے تھے۔'
اب وہ اپنے کام میں اس قدر ماہر ہوچکی ہیں کہ بعض اوقات ان کے پاس اتنا آن لائن کام بُک ہوتا ہے کہ انھیں یہ چھوڑ کر کسی اور کو دینا پڑتا ہے۔ 'جیسے کل ہی مجھے 500 ڈالر (قریب 80 ہزار روپے) کا کام مل رہا تھا لیکن میرے پاس اتنا کام پہلے سے تھا کہ میں یہ نہیں کرسکتی تھی۔'
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ روز اتنے پیسے کما سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فری لانسنگ کا سیزن ہوتا ہے۔ 'ہوسکتا ہے آپ کو کسی دن بہت زیادہ کام کر لیں اور کسی دن آپ کو کوئی کام نہ ملے۔'
لائبہ کا کہنا ہے کہ ڈگری کے بعد کسی نوکری کے مقابلے فری لانسنگ میں آپ کی آمدن بدلتی رہتی ہیں۔ یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کتنا کام کرتے ہیں اور آپ کو گھنٹوں کے حساب سے کتنے پیسے ملتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ فری لانسنگ کے کئی فوائد ہیں لیکن کچھ نقصان بھی ہیں، جیسے بعض لوگ جھانسہ دے کر کام کے بدلے پیسے نہیں دیتے۔ تاہم اکثر اچھے پلیٹ فارمز پر ادائیگیوں کا نظام بہتر ہوتا ہے اور آپ کو ان کی فیس ادا کرنے کے بعد اپنے کام کے بدلے پیسے ضرور مل جاتے ہیں۔
ان کے مطابق خواتین کے لیے گھر بیٹھ کر پیسے کمانا یعنی ورک فرام ہوم آمدن کا اچھا ذریعہ ہوسکتا ہے۔
'ہمارے معاشرے میں اکثر لڑکیوں کو باہر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے وہ اس میں گھر بیٹھ کر پیسے کما سکتی ہیں۔۔۔ اس کے لیے ہنر کے ساتھ آپ کو گھر میں لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ چاہیے ہوتا ہے۔'
وہ خود ورک فرام ہوم سے متعلق اپنی مثال دیتی ہیں کہ 'ہاؤس وائف ہوتے ہوئے میرا ایک پاؤں کچن میں ہوتا ہے، اور دوسرا دفتر کے کاموں میں۔' ان کے مطابق وہ گھر سے کام کرنے کی بدولت دونوں میں توازن برقرار رکھ پاتی ہیں۔
’لاکھوں روپے آن لائن کمانے پر بھی لوگ بے روزگار سمجھتے رہے‘
ذاکر احمد شاہ آن لائن ٹریننگ پروگرام ڈیجی سکلز میں ورڈ پریس سکھاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سرکاری منصوبے کے ذریعے 120 ممالک میں موجود لوگ انٹرنیٹ سے متعلق آن لائن کورسز کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
29 سالہ ذاکر نے بتایا ہے کہ ان کے پاس فری لانسنگ اور آئی ٹی سے متعلق دوسرے ہنر سیکھنے کے لیے ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں سے لے کر 60 یا 65 سال کے ریٹائرڈ افراد آتے ہیں۔
وہ فری لانسر کیسے بنے، اس پر ان کا کہنا تھا کہ 'یونیورسٹی میں میرے دوستوں نے مجھے ویب سائٹس کے لنک دیے (جہاں فری لانسنگ کا کام ملتا تھا)۔ میں نے ویسے ہی اکاؤنٹ بنایا اور مجھے پانچ ڈالر فی گھنٹے کے حساب سے کام مل گیا۔
'مجھے اس میں ویب سائٹ کی سٹائلنگ کرنی تھی۔ لیکن مجھے تو یہ نہیں آتا تھا۔۔۔ وہاں ایک انڈین مینیجر نے مجھے سمجھایا کہ یہ کام ایسے ہوگا۔ میں نے یونیورسٹی میں اس سے متعلق سیکھا تھا تو میں نے یہ کام کر دیا۔
'میں نے چار گھنٹے میں اس کا کام کردیا اور مجھے 20 ڈالر ملے جو کہ اس وقت کافی زیادہ تھے۔ وہاں سے میرا سفر شروع ہوا۔
'اب میری ماہانہ آمدن چھ، سات لاکھ روپے ہوجاتی ہے۔ کچھ ایسے بھی مہینے آتے ہیں جن میں میری ایک مہینے میں آمدن 20 لاکھ روپے یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔۔۔ فری لانسنگ کے علاوہ اب بھی ڈیجیٹل مارکیٹنگ، کنسلٹنسی اور اس طرح کی دوسری سروسز فراہم کر رہا ہوں۔'
ذاکر بتاتے ہیں کہ ان کی یونیورسٹی کی ڈگری سے زیادہ انھیں ایسے ہنر سیکھنے سے فائدہ پہنچا جن کی اس دوران طلب رہی اور آن لائن اچھے پیسے ملتے رہے۔
روزگار کمانے کا یہ طریقہ شاید بہت سے لوگوں کے لیے غیر معمولی ہوتا ہے۔ اسی لیے انھیں اس طرز عمل میں رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
'میں 2012 سے فری لانسر کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ کافی پیسے بھی کما لیتا ہوں۔ لیکن گھر والے اور دیگر لوگ مجھے اس کے باوجود کہتے رہے کہ نوکری ڈھونڈ لو۔
'وہ مجھے بے روزگار سمجھتے تھے۔ انھیں لگتا تھا کہ اس کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور یہ کمپیوٹر پر بیٹھ کر صرف وقت ضائع کر رہا ہے۔ ان کے لیے یہ ناقابل یقین تھا کہ کوئی گھر بیٹھ کر بھی کام کرسکتا ہے۔'
وہ زیر تعلیم نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کو بھی آن لائن آمدن کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔
'لوگ ٹک ٹاک یا سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کی جگہ انھیں سیکھ کر بھی ان سے پیسے کما سکتے ہیں۔۔۔ آپ ویڈیوز بنا سکتے ہیں، لوگوں کی ویڈیوز یا یوٹیوب اور فیس بُک پر ان کی پروفائل مینج کر سکتے ہیں، ٹک ٹاک پر کوئی تشہیری مہم چلا سکتے ہیں۔'
ان کے مطابق 'دو طرح کے ہنر ہوتے ہیں۔ ایک جو ایک کا کچن چلائے اور دوسرا جو آپ شوق کے لیے کریں۔ جب تک کچن نہ چل رہا ہو، آپ شوق کو نہیں اپنا سکتے۔'
وہ اپنے طلبہ کو سکل بیسڈ لرننگ یعنی ہنر سکھاتے ہیں تاکہ وہ روزگار کما سکیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی انھیں اکثر کال کر کے بتاتے ہیں کہ انھیں بھی فری لانسنگ یا دوسرے ہنر سیکھنے ہیں۔
'ایک مرتبہ ہمیں سندھ سے ایک ٹرینی لڑکی نے فون کر کے بتایا کہ ان کے والد 20 ہزار روپے تنخواہ پر پوسٹ ماسٹر کی نوکری کرتے ہیں اور اب میں نے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد 30 ہزار روپے کمائے ہیں۔
'وہ گھر کے اخراجات میں والد کا ہاتھ بٹا کر کافی خوش تھیں۔'
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کئی لوگوں کے پاس ایسے وسائل نہیں کہ وہ لاکھوں روپے کی ڈگریاں کر سکیں۔
'ڈگری اگر آپ کر سکتے ہو تو یہ کافی اچھی چیز ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس ڈگری نہیں ہے تو کوئی بات نہیں۔ آپ ایسے ہنر سیکھ سکتے ہیں کہ اپنا گھر چلا سکیں۔‘
ذاکر زور دیتے ہیں کہ نوجوان یوڈیمی، ڈیجی سکلز، یوٹیوب یا گوگل جیسے پلیٹ فارمز سے ایسی سکلز حاصل کر سکتے ہیں جس سے وہ اپنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔