تعارف
مولانا نور اللہ رشیدی صاحب
(خلیفہ
مجاز حضرت نثار احمد خان فتحی مدظلہ)
حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب سے میرا تعارف تو کافی عرصہ
سے ہے، لیکن ان سے دوستانہ مراسم تین چار سال سے ہیں۔ میں نے ان کی تقریبا ساری
کتابیں پڑھی ہیں اور ان کی نگرانی میں دور جدید کے سارے مفکروں کو یکے بعد دیگرے
پڑھ رہا ہوں۔ ان کی کتابیں میری ذہنی نشو ونما میں بہت معاون ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی
تحریر سے دل کو ایک قسم کی راحت ملتی ہے، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ انہوں نے
زندگی بھر مطالعہ کیا ہے اور فکر کی دنیا میں ڈوب کر جدید وقدیم فکر سے جوہر اپنے
ساتھ لائے ہیں۔ اس کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ اصلاح نفس کے سلسلہ میں اللہ نے
انہیں طویل عرصہ تک چلایا ہے اور انہیں نفس کی وسیع دنیا کی سیر کرنے کی سعادت
بخشی ہے۔
موصوف ۱۷
سال تک حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خان ؒ کی صحبت میں رہے۔ ان کی خصوصی توجہ سے وہ راہ
سلوک میں چلتے رہے۔ انہیں بارہ تیرہ سال تک حضرت ڈاکٹر صاحب کی تقریبا روزانہ صحبت
حاصل رہی۔ اس سے پہلے وہ چار سال تک نقشبندی سلسلہ کے ایک اور بزرگ سے وابستہ رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے انہیں نقشبندی سلسلہ کے سارے اسباق طے کرائے، لیکن اس کے باوجود
انہیں تشنگی رہی اور موصوف ڈاکٹر صاحب کے خلیفہ مجاز حضرت مفتی مظہر بقا صاحب سے
وابستہ ہوئے، مفتی صاحب کا بھی جلد وصال ہوا، اس کے معا بعد ان کے دل کو قرار آیا۔
اور وہ حالت سکر سے حالت صحو میں آئے۔
بعد ازاں حضرت ڈاکٹر صاحب کے دو خلفا حضرت محمد رفیق
صاحب اور حضرت سلیم صاحب نے انہیں دوسروں کی تربیت کرنے کے لئے فرمایا۔ اور ذکر
وحلقہ کی اجازت دی۔ حضرت سلیم صاحب نے بعد میں انہیں تحریری صورت میں بھی اجازت
دی۔
حضرت نثار احمد فتحی صاحب سے ان کا عرصہ سے محبت کا
تعلق تھا، انہیں اگست ۲۰۰۹ء
میں ان کی طرف سے بھی چاروں سلسلوں میں بیعت کی اجازت دی گئی اور ۲۰۱۰ء میں موصوف صوبہ سرحد کے
ممتاز بزرگ حضرت مولانا عبدالحی صاحب مدظلہ کی صحبت اور ان سے فیض کے لئے راولپنڈی
گئے۔ مولانا احسان الحق صاحب جو حضرت مولانا عبدالحی صاحب سے کے خلیفہ مجاز ہیں،
ان کی خانقاہ میں بھٹو صاحب پانچ چھ دن رہے۔ حضرت مولانا عبدالحی صاحب نے بھی
انہیں خلافت عطا کی۔
حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب کا کہنا ہے کہ بزرگوں کی طرف
سے دوسروں کی تربیت کی اجازت دینا، بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ موجودہ دور میں فرد کی
قابل ذکر حد تک اپنی اصلاح ہوجائے تو اس سے بڑھکر دوسری سعادت کیا ہو سکتی ہے۔
بھٹو صاحب کی کتابیں اللہ کی محبت اور اس محبت کی طرف
بلانے کے دردوسوز سے سرشار ہیں۔
مراقبہ کے موضوع پر انہوں نے یہ کتاب ہماری درخواست پر
لکھی ہے۔ اس لئے کہ اسلامی مراقبہ اور اسم ذات کے موضوع پر مارکیٹ میں کوئی کتاب
دستیاب نہیں، اگرچہ کتاب مختصر ہے، تاہم اس میں بنیادی مباحث شامل ہیں۔ اللہ
تعالیٰ اس کتاب کو ہم سب کے لئے نافع بنا دے۔ (آمین)
مقدمہ
ذکر ومراقبہ جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہے اور جس کا تسلسل امت میں صحابہ کرام کے دور سے جاری ہے۔ اور امت کے لاکھوں اولیائے کرام نے اسم ذات کے اس ذکر کے ذریعہ ہر دور کے افراد معاشرہ کو اسلام پر قائم رکھنے اور ان کی اصلاح کا ذریعہ بنایا ہے۔ اسم ذات کے اس مراقبہ کی اہمیت، خصوصیات اور زندگی کو بدلنے کے سلسلہ میں اس کے کردار کے موضوع پر کوئی کتاب موجود نہیں۔ بزرگوں کے مواعظ اور ملفوظات میں تو کافی مواد پھیلا ہوا موجود ہے، لیکن جدید دور کے انسان کو ان کی ذہنی سطح کے مطابق مراقبہ کی تفہیم کے نقطہ نگاہ سے کتاب دستیاب نہیں، البتہ انگریزی میں جدید نوعیت کے مراقبوں کے حوالے سے کافی مواد موجود ہے، جو ہمارے نقطہ نگاہ سے غیراہم ہے۔
دوستوں کا اصرار تھا کہ اس موضوع پر ایسی مختصر کتاب
لکھی جائے، جس میں اسم ذات کے مراقبہ اور مادی نوعیت کے مراقبوں کے درمیاں فرق بھی
واضح ہو سکے تو اسم ذات کے مراقبہ کے، زندگی پر پڑنے والے فیصلہ کن اثرات کا ادراک
بھی حاصل ہو سکے، اور مسلم معاشرے کے جدید تعلیم یافتہ افراد پر یہ نکتہ واضح
ہوسکے کہ اسم ذات کے ذکر سے اعراض اور دوری اختیار کرکے، ہم نے اپنی زندگی کو کتنا
زہرناک بنایا ہے اور معاشرہ کو کس قدر فساد سے بھر دیا ہے۔
راقم الحروف نے اس موضوع پرلکھنے کی کوشش کی۔ دوتین
ہفتوں کی کوششوں سے یہ مختصر کتاب تیار ہوئی ہے۔ کئی مباحث تھے، جو کتاب میں شامل
کرنے سے رہ گئے۔ اگر موقعہ ملا تو ان شاء اللہ کتاب کی دوسری ایڈیشن میں اضافہ کیا
جائے گا۔
یہ عاجز پڑھنے والوں سے مستدعی ہے کہ وہ ان سطور کے
راقم کے لئے اخلاص اور ایمان بالخیر کے خاتمہ کے دعا کے ساتھ ضرور یاد فرمائیں۔
۱۲ دسمبر ۲۰۱۲ محمد موسیٰ
بھٹو
باب اول
نفس انسانی میں شر کی اتھاہ قوتمولانا رومی کی نظر میں
ذکر و فکر و معرفت (بذریعہ صحبت اہل اللہ) دراصل نفس کو
مہذب بنانے کی راہ ہے، انسانی جوہروں سے بہرہ وری کی راہ ہے۔ مادی مفادات سے دستبرداری
کی راہ ہے۔ محبوب حقیقی کے لئے اس کی مخلوق سے محبت کرنے کی راہ ہے۔ اپنی شخصیت کے
بت سے دستبرداری کی راہ ہے۔ اپنی شخصیت کو محبوب کے عطر سے معطر کرنے کی راہ ہے۔
آج انسانیت سے جو غلطی ہوئی ہے جن کی وہ سزا بھگت رہی
ہے کہ انسانیت بڑے پیمانہ پر پامال ہو رہی ہے۔ اور انسانیت کا سبق سکھانے اور
انسانی حقوق کا درس دینے والی قیادت درندوں کی طرح انسانوں کو چیر پھاڑ ہی ہے اور
کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ ساری صورتحال انسانی نفس کی نوعیت اور اس کی قوت اور
اس کی ساخت کو نہ سمجھنے اور تعلیم وتربیت کے جملہ اداروں سے اس قوت کو سمجھکر،
اسے مہذب بنانے سے انکار کی روش کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی ہے، جس کا یہ نتیجہ ظاہر
ہو رہا ہے کہ عالمی سطح سے لیکر شہر کی سطح تک کے جدید تعلیمی اداروں سے نکلنے
والے فنی وتعلیمی ماہرین اور ڈگریوں کے حامل افراد زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے
جنون سے بے قابو ہوکر، غریب و بے کس انسانوں پر حملہ آور ہوکر، ان کے جسم سے خون
نچوڑنے کو اپنا مقصد زندگی قرار دے چکے ہیں۔ چند سکوں کی خاطر انسانیت کی اس
پامالی کا نام سائنسی، ٹیکنالوجی اور علمی ترقی رکھنا شرمناک بات ہے۔ عقل اور سمجھ
سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
انسانیت نے جدید تہذیب کے حامل انسان سے بہت دکھ سہے
ہیں۔ اب سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلی چیز نفس کی غیرمعمولی قوت کو
سمجھنا ہے تاکہ اسے مہذب بنانے کی فکر پیدا ہوسکے، اس سلسلہ میں ہم یہاں امت کے
بڑے دانا وحکیم مولانا رومی کا نفس کے سلسلہ میں تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ جو مثنوی
رومی کے اشعار سے ماخوذ ہے۔ سب سے پہلے اشعار دیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد ان کا ترجمہ
پیش کیا گیا ہے اور کچھ تشریح بھی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آتست راہیزم فرعون نیست
ورنہ چوں فرعون او شعلہ ز نیست
تیری (نفسانی خواہشوں کی) آگ کے لئے فرعونی ایندھن موجود
نہیں، ورنہ وہ فرعونی آگ کی طرح بھڑک رہی ہیں یعنی تیرے پاس وسائل واقتدار کی قوت
موجود نہیں ہے۔ اگر یہ وسائل موجود ہوتے تو تم فرعون کی طرح دعوائے الوہیت سے باز
ہرگز نہ آتے، اور اﷲ کی مخلوق کو غلام بنانے سے ہرگز نہ چوکتے۔
نفست اژدہا ست او کے مردہ ست
از غمِ بے آلتی افسردہ ست
تیرا نفس اژدھا ہے، وہ مردہ کہاں ہے، ذرائع نہ ہونے کے
غم میں وہ ٹھٹھرا ہوا ہے۔ یعنی نفس کی قوت اژدھے کی قوت سے کم نہیں ہے۔
اپنے نفس کے اژدھے کو مردہ یا بے جان سمجھنا بے وقوفی
ہے۔ اگر یہ نفس فی الوقت اژدھے کی طرح لوگوں کو ڈنک مارنے اور اپنے زہر کی منتقلی
کے ذریعہ لوگوں کی جان لینے کی کاوشوں میں مصروف و متحرک نہیں، تو اس کا سبب یہ ہے
کہ سخت سردی کی وجہ سے وہ ٹھٹھرا ہوا ہے
یعنی قوت و وسائل کی کمی کی وجہ سے اس میں وہ سکت موجود نہیں۔ وہ اس انتظار میں ہے
کہ اسے قوت حاصل ہو تو وہ اپنے فاسد زہر
کے ذریعہ لاشوں کے ڈھیر لگادے۔
گر بیاید آلتِ فرعون اُو
راہ صد موسیٰ وصد ہارون زند
اگر وہ فرعون کے ذرائع پالے تو سینکڑوں موسیٰ علیہ
السلام اور ہارون علیہ السلام جیسی شخصیتوں کی راہ زنی کرنے سے باز نہ آئے۔ یعنی
نفس کی ’’خاصیت‘‘ یہ ہے کہ اسے اقتدار اور دولت مل جانے کے بعد اس کا نشئہ فرعونیت
تیز ہوجاتا ہے اور دعوائے انانیت، اس کے ہوش و حواس کو سلب کردیتی ہے۔ اس کے بعد
یہ نفس داعیان حق کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھکر، ان کی راہ زنی کے لئے ہر طرح کی
سازشوں اور کاوشوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔
می کش اُو را درجہاد و در قتال
مردوار، اللہ یجزیک الوصال
نفس کی اس سرکشانہ جبلت کی وجہ سے) اسے جہاد و قتال میں
کھینچ لا (مردانہ وار ہوکر) اللہ تعالیٰ اس جہاد کے بدلہ میںتجھے اپنے وصال کی
دولت عظمیٰ عطا فرمائے گا۔ ’’وجاھدو فینا لنھدینھم سبلنا‘‘ (جو ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم
ان کے لئے ضرور راستے نکالتے ہیں) اللہ کا یہ وعدہ ہے، اللہ انسان کی جدوجہد کو
بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، حدیث قدسی ہے کہ تم چل کر میرے پاس آئو تو میں دوڑ
کر تمہارے پاس آئوں۔ اللہ کی اس عطا کو دیکھتے ہوئے راہ حق کے مجاہدوں کو مضطربانہ
طور پر اور والہانہ انداز سے نفس مطمئنہ کے سفر کو طے کرنے کے لئے چلنا چاہئے۔
تو طمع داری کہ اورا بے جفا
بستہ داری در وقار ودر وفا
ہر حسے را این تمنا کے رسد
موسیٰ باید کہ اژدھا کشد
تم یہ سمجھتے ہو کہ نفس کو سختی (یعنی غیر معمولی
مجاہدوں) کے بغیر وقار اور وفا کے رشتہ میں باندھ لوگے۔ ہر کمینہ کی یہ تمنا کہاں
پوری ہوتی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا سا ایمان اور ایمانی قوت چاہیے۔ نفس کے اژدھے
کو مارنے کے لئے۔
ان اشعار میں مولانا یہ نکتہ بیان فرماتے ہیں کہ نفس کی
’’خصوصیت‘‘ یہ ہے کہ وہ ذکر و فکر کے مجاہدوں کے بغیر مضمحل نہیں ہوتا، جو شخص یہ
امید رکھتا ہے کہ نفس کو مخلصانہ عبادت اور انوار ذکر کی کثرت کے بغیر وہ اسے مہذب
بنالے گا اور مطیع کریگا تو وہ سب سے زیادہ حقیقت ناشناس شخص ہے، اس لئے کہ نفس کی
حیوانیت میں، کثرت ذکر اور کثرت عبادت کے بغیر تبدیلی ہو ہی نہیں سکتی۔
چوں سزائے آں بت نفس اور نداند
از بت نفس بتے دیگر بزاد
چونکہ اس نے نفس کے بت کو سزا نہ دی تھی (یعنی اسے توڑا
نہ تھا) اس لئے اس کے نفس کے بت سے دوسرا بت پیدا ہوگیا۔
یہاں مولانا نے یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نفس
کی خواہشات،جو معبود کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر اس کی ایک خواہش پر قدغن لگاکر اسے
تابع نہیں بنایا جائے گا تو کہ اس ایک خواہش کے لازمی نتیجہ کے طور پر دوسری خواہش
طاقتور معبود کی صورت میں سامنے آئے گی، اس طرح نئی نئی خواہشات سے نئے نئے بت
سامنے آتے رہیں گے، جن کی پرورش ہوتی رہے گی۔ قرآن نے خود نفس کی خواہشوں کو معبود
قرار دیا ہے۔
مادر بہتا بت نفس شما ست
زانکہ آں بت مارواین بت اژدھا ست
(تمہارا
نفس سارے بتوں کی ماں ہے۔ کیونکہ وہ بت سانپ ہے تو یہ بت اژدھا ہے۔
یعنی بتوں کی پرستش کی اصل بنیاد نفس اور نفس کی قوتیں
ہیں۔ دنیا میں جن چیزوں کی بھی پوجا کی جاتی ہے، اس پوجا کا مرکز نفس ہی ہے۔ خارجی
بتوں کی پرستش سے زیادہ داخلی بتوںکی پرستش افراد کو انسانیت کے لئے قاتل اور
خونخوار بنا دیتی ہے۔ جس طرح اژدھا بیک وقت بہت سارے افراد کی ہلاکت کا سبب بنتا
ہے۔ جب کہ سانپ کا زہر اژدھا کے زہر کے مقابلہ میں معمولی ہے۔)
بت شکستن سہل باشد نیک سہل
سہل دیدن نفس را جہل ست جہل
بت توڑنا آسان ہے۔ بہت آسان، جبکہ نفسی قوتوں کو مفتوح
کرنے کے کام کو آسان سمجھنا نادانی ہے، نادانی۔ یعنی ہاتھوں کے تراشے ہوئے بتوں کو
توڑنا، زیادہ مشکل کام نہیں۔ لیکن نفس کے بتوں کی پرستش سے دستبردار ہونا، سخت
مشکل کام ہے۔ ایسا مشکل کام کہ زندگی بھر کی ریاضتوں سے بھی اگر نفسی قوت مفتوح
ہوجائے، مہذب ہوجائے تو آسان سودا ہے)۔
صورت نفس از بجوئی اے پسر
قصہ دوزخ بخواہ با ہفت در
اے بیٹا، اگر تجھے نفس کی تصویر کی جستجو ہے تو تمہیں
جہنم کے سات دروازوں کا قصہ پڑھنا چاہئے۔
یعنی نفس کی حقیقت کی رسائی کے لئے یہ قصہ پڑھنا کافی
ہے، جس میں دوزخ کے ساتوں دروازوں سے داخل ہونے والے افراد وہی ہوں گے، جنہوں نے
اپنے نفسوں کو معبود کی حیثیت دے کر، ساری زندگی آخری حد تک نفس کی پرستش میں بسر
کی ہوگی۔ یعنی دوزخ کے ساتوں دروازے نفس کی پرستش کرنے والوں کے لئے ہیں۔ بتوں کی
پوجا ہے تو وہ بھی نفس کی تسکین کی خاطر ہے۔
ہر نفس مکرے و در ہر مکر زاں
غرق صد فرعون بافرعونیاں
نفس کی ہر سانس میں ایک مکر و فریب پوشیدہ ہے اور اس کے
ہر مکر سے سو فرعون وابستہ ہیں۔ جو فرعونوں کے ساتھ غرق ہونے کی راہ پر گامزن ہیں۔
یہاں مولانا نے نفس کی طغیانیوں، اس کی بے لاگ خواہشات اور ان خواہشات کی شہ زوری
اور اس کے ہولناک نتائج سے واقف کیا ہے، فرماتے ہیں۔ نفس کے اندر سیکڑوں خواہشیں
ہیں۔ ہر خواہش اتنی طاقور ہے کہ اس سے سو فرعون پیدا ہوسکتے ہیں۔ اور نفس کے یہ
فرعون اپنے ساتھ اپنے ہزاروں دوستوں اور اپنے ہمنوائوں کو جہنم میں غرق کرنے کی
راہ پر گامزن ہیں۔
در خدائے موسیٰ و موسیٰ گریز
آب ایمان را ز فرعونی مریز
(اگر
نفس کی سرکش موجوں و طغیانیوں سے بچنا چاہتے ہو) تو موسیٰ علیہ السلام کے خدا اور
موسیٰ کی طرف بھاگ۔ فرعونیت سے اپنے ایمان کی آب ریزی نہ کر۔ یعنی فرعونِ نفس جو
تمہیں ہر وقت باطل اور طاغوت کی سرکش موجوں اور طغیانیوں میں لے جاکر، تیری کشتی
کو غرق کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ اس سے بچنے کی راہ ایک ہی ہے اور وہ ہے موسیٰ اور
ہم سب کے خدا اور خدا کے رسول کی معیت اختیار کرنی ہے۔ اس راستے کے علاوہ باقی
سارے راستے وہ ہیں، جہاں فرعونِ نفس کے حملوں سے بچائو اور ان سے ایمان کے تحفظ کی
کوئی صورت موجود نہیں۔
دست را احد واحمد بزن
اے برادروارہ از بوجھل تن
احد اور احمد سے تعلق پیدا کر، اے بھائی، جسم کے ابوجھل
سے چھٹکارا حاصل کر۔ احد اور احمد یعنی اللہ اور اس کے آخری رسول سے تعلق کے
استحکام کی صورت پیدا کر، اللہ اور اس کے رسول سے والہانہ محبت اور آتش عشق کے
ذریعہ نفسی قوتوں کو جلادے۔ نفسی قوتوں سے گلو خاصی کی یہی صورت ہے۔ احد اور احمد
سے دل کا رشتہ مستحکم ہونے کے نتیجہ میں نفسی بتوں کی پرستش از خود کاالعدم ہوجائے
گی۔
نفس سو فسطائی آمد می زنش
کش زدن سازو نہ صحت گفتنش
نفس سو فسطائی ہے، اس کی سرنش کر، کیونکہ مارنا ہی اس
کے لائق ہے۔ نہ کہ اس سے دلیل بیان کرنا۔ یہاں مولانا نے نفس کو سو فسطائیوں کے اس
گروہ سے تشبیہ دی ہے، جو حق وصداقت اور حقیقت انسان اور کائنات کی توجیہ وتشریح کے
لئے مادی عقل ہی کو حرف آخر سمجھتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ خود بھی گمراہ ہوئے
تواپنے جیسے بہت سارے لوگوں کو بھی گمراہی سے دوچار کیا، مولانا فرماتے ہیں کہ جب
نفس پر سراپا حیوانیت غالب ہو اور خواہشات کا غلبہ طاقتور ہو تو ایسی صورت میں نفس
کو استدلال پر استدلال دیتے رہنا، اس کی گمراہی میں اضافہ کرنے کے برابر ہے۔ اس
لئے کہ نفسی قوتوں کا علاج استدلال نہیں ہے، بلکہ اسے مجاہدوں میں لاکر، تجلیات
الٰہی سے اسے مزکیٰ و مصطفیٰ بنانا ہے۔ ذکر و فکر کے میدان میں لائے بغیر اسے
استدلال اور قیل و قال کی جتنی بھی غذا دی جائے گی، اس سے عقل کی منطقی صلاحیت میں
تو اضافہ ہوتا جائے گا، لیکن اس سے نفس کی
حقیقی استعداد و تاثیر پذیری اور دل اور روح کے اثرات قبول کرنے کی اس کی صلاحیت
غیر معمولی طور پر متاثر ہوگی۔استدلال،قیل وقال اور لچھے دار گفتگو،انوار ذکر اور
مخلصانہ عبادت کے مجاہدوں کے مقابلہ میںکوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے، ہاں جب انوار
ذکر کا کچھ حصہ عقل کو بھی ملنے لگتا ہے تو عقل سلیم بننے لگتی ہے اور سلیم عقل
نفس کو مفتوح بناکر، اللہ و رسول کی اطاعت میں دینے کے لئے دل کی معاون بن جاتی
ہے۔
لیکن ہر کس مور بیند مار خویش
توز صاحب دل کن استفسار خویش
لیکن ہر شخص کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے (نفس کے) سانپ کو
چیونٹی سمجھتا ہے۔ تو اپنے (نفس کی قوت) کے بارے میں صاحب دل سے معلومات حاصل کر
(کہ تیرا نفس کس حالت میں ہے
خود بینی اور خود فراموشی کے عمومی مرض کی وجہ سے عام
طور پر ہر فرد کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو پاک پوتر سمجھنے لگتا ہے۔ اسے اپنی
ذات، اپنے نفس اور اپنے اندر کوئی خامی و کوتاہی نظر نہیں آتی، البتہ اس کی نظر
میں سارے عیب دوسروں میں موجود ہیں۔ اس نفسیات کے غلبہ کی وجہ سے تہذیب نفس اور
اصلاح نفس کی راہیں مسدود ہوگئی ہے، معاشرہ اور ریاست، افراد کی اس نفسی سرکشی کی
وجہ سے سراپا مسموم ہوگیا ہے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ اگر تیرے ضمیر کی حس زندہ ہے تو
تجھے اپنے نفس کے بارے میں صاحب دل شخصیت سے معلوم کرنا چاہئے، توُ نفسی اعتبار سے
کس حالت میں ہے، اس لئے کہ صاحب دل اور عرفان کی حامل شخصیت طویل عرصہ تک نفس سے
حالت جنگ میں رہ کر، اسے بڑی حد تک مطیع بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اپنے تجربات
ومشاہدات کی روشنی میں اسے دوسروں کے نفس کے حالات کے مشاہدہ کی صلاحیت سے بہرہ ور
کیا جاتا ہے۔ اور اسے فراست مومنہ عطا کی جاتی ہے۔
معزہ بیند فروزد در آں زماں
بعد ازاں گوید خیالے بود آں
(نفس
کی حالت یہ ہے کہ) وہ جب معجزہ دیکھتا ہے تو اس وقت وہ وقتی طور پر خیرہ ہوجاتا
ہے، لیکن اس کے بعد وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ تو ایک خیال و وسوسہ تھا۔
یہاں مولانا نے نفس کی ایک اور ’’خصوصیت‘‘ بیان کی ہے
کہ وہ کرامتوں کے دیکھنے کے وقت تو انگشت بدنداں ہوکر اپنی زبان کو سی لیتا ہے،
لیکن تھوڑی دیر بعد جب وہ اس فضا سے باہر آتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ سب نظروں کا
دھوکہ تھا، معجزہ، کرامت، انوار الٰہی وغیرہ کوئی چیز نہیں ہوتے، جو کچھ بھی ہے،
بس وہ یہ مادی دنیا ہی ہے۔ مادی دنیا سے ماوریٰ کسی چیز کا وجود نہیں۔
نفس کی ان پر فریب خصوصیات کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت
اس کی طاقتور خواہشات کے سامنے مطیع ہوکر دین و دنیا کے خسران سے دوچار ہوجاتی ہے۔
مار شہوت را بکش در ابتدا
ورنہ اینک گشتہ مارت اژدھا
نفسانی خواہش کے سانپ کو ابتدا ہی میں کچل دے، ورنہ
تیرا یہ سانپ اژدھا بن جائے گا (یہاں مولانا نے یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ تہذیب
نفس کے کام کی فکر مندی اور اس کے لئے کوششیں شروع سے ہونی چاہئے، ورنہ جب نفسانی
خواہشیں طاقتور صورت اختیار کرکے عادت کا حصہ بن جائیں گی تو ان کی اصلاح دشوار تر
ہوجائے گی۔ آخری عمر میں تو فرد کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ موت کو سامنے دیکھتا ہوا
محسوس کرتا ہے۔ لیکن زندگی کے پرانے فاسد رنگ ڈھنگ کو بدلنے کے حوصلے اور ہمت سے
محروم ہوجاتا ہے۔ نیکی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس کے لئے مزید فاسد راہ پر
دھکیلنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ بعض خوش
نصیب افراد کو اس عمر میں بھی نیکی کی راہ پر واپس آنے کی سعادت حاصل ہو ہی جاتی
ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر افراد، زندگی بھر کی فاسد راہ پر ہی گامزن رہتے ہیں۔
کسب فانی خواہدت ایں نفس خس
چند کسیب خس کنی بگذارو بس
تیرا یہ کمینہ نفس فنا ہوجانے والی کمائی چاہتا ہے، آخر
تو کب تک یہ کمینی کمائی کرے گا، چھوڑ اب، بس کر۔
یعنی نفس کی سب سے بڑی ’’خصوصیت‘‘ یہ ہے کہ وہ دنیا اور
سامان دنیا پر مجنونانہ طور پر ٹوٹ پڑتا ہے، دنیا کے سلسلہ میں اس کی ہوس نئے جوش
و خروش کے ساتھ اٹھتی اور بھڑکتی رہتی ہے، فرد، اپنی ساری توانائیاں مادی دنیا کے
حصول میں ہی صرف کرنے لگتا ہے۔ اس طرح نفس، فرد وافراد کو قدرت کی طرف سے ملنے
والی مہلت عمر کو مٹی کے ڈھیر جمع کرنے میں صرف کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مولانا
فرماتے ہیں، آخر یہ جھوٹے اور مصنوعی سکے (جو دائمی زندگی میں کوئی کام نہ دے سکیں
گے) کب تک جمع کرتے رہوگے، اب بس کرو، اب بہت ہوچکا، اب تو فانی سکوں کو دل میں
جگہ دینے کی بجائے دل کو اﷲ کی محبت سے سرشار کرو۔
نفس حس گر جویدت کسب شریف
حیلہ ومکرے بُود آں را ردیف
حسی نفس اگر تجھ سے اچھی کمائی کا مطالبہ کرے تو اس کی
اس خواہش کے پس پشت کوئی حیلہ اور مکر ہی کارفرما ہوگا۔ یہاں مولانا نے یہ نکتہ
بیان کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ نفس جب، نفس امارہ کے مرحلہ میں ہوتا ہے تو وہ
قابل اعتماد ہرگز نہیں ہوتا۔ وہ حق وصداقت اور خیر کے نام پر بھی ایسے کاموں پر
اکستا رہتا ہے، جس میں خدا پرستی اور تقویٰ کے بجائے نفس پرستی کے جذبات شامل ہوتے
ہیں، جس میں شہرت اور دکھائے کے کاموں میں زیادہ دلچسپی رکھنا وغیرہ شامل ہے۔ اس
لئے نفس کے مکر و فریب کو سمجھنے کے لئے ہر وقت چوکس رہنا چاہئے۔
برکنی دندانِ پُر ز مرے ز مار
تا دہد مار از بلائے سنگسار
سانپ کے زہریلے دانت اکھاڑ دے، تاکہ سانپ سنگساری کی
مصیبت سے بچ جائے۔ نفس کا سانپ ہر وقت
دوسروں کو ڈنک مارنے اور اذیت پہنچانے کی تاک میں رہتا ہے۔ اس کی یہ جبلت اسے نئی
نئی کروٹیں لینے پر مجبور کرتی ہے، نفس کی اس جبلت کو ذکر و فکر کے مجاہدوں سے بدل
دے، اس کے اندر موجود زہر کے اثرات کو ختم کردے، تاکہ یہ اس دنیا میں بھی لوگوں کی
سزا سے بچ سکے تو آخرت کی دائمی زندگی میں بھی عذاب الیم سے سلامت ہوجائے۔
ہیچ نکُشد نفس را ظل پیر
دامنِ آں نفس کُش را سخت گیر
نفس کو شیخ کے سایہ اور صحبت کے بغیر کوئی چیز نہیں
مارتی۔ اس نفس کو مارنے والے کا دامن مضبوطی سے پکڑلو۔
چوں بگیری سخت آں توفیق ہوست
در تو ہر قوت کہ آید جذب اوست
جب تو اس کا دامن مضبوط پکڑے گا تو یہ اللہ کی توفیق
ہوگی اور تجھ میں جو قوت آئے گی یہ اس کی کشش شمار ہوگی۔
ان اشعار میں مولانا نے اللہ کی یہ سنت بیان کی ہے کہ
دنیا میں ہر علم و فن کے سیکھنے کا طریقہ بذریعہ استاد کے ہے، استاد کی صحبت ومعیت
کے بغیر کوئی بھی علم وفن سیکھا نہیں جاسکتا، استاد جو اپنے فن میں مہارت حاصل
کرنے کے لئے زندگی کا بڑا حصہ خرچ کر چکا ہوتا ہے۔ وہ متعلقہ علم و فن کی باریکیاں
اس مہارت سے سمجھاتا رہتا ہے کہ بات دل و دماغ کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔
اور مشکل سے مشکل علم و فن کے اسرار و رموز کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی صویت معرفت
نفس اور تہذیب نفس کے کام کے بارے میں ہے۔ شیخ اور عارف عرصہ تک ممتاز عارف کی
معیت میں اصلاح نفس کے مراحل طے کرنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔طویل عرصہ تک مسلسل
ریاضتوں کے ذریعہ وہ نفس کو بڑی حد تک مطیع کر چکا ہوتا ہے۔ اب اس کا دل، انوار
ذکر کے خزانہ سے سرشار ہوتا ہے۔ اپنا دل عارف کے حوالے کرنے سے دل کی گہرائیوں میں
فیض کا نزول ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس سے طالب کی ایمان ویقین اور محبت خداوندی کی
نئی زندگی شروع ہونے لگتی ہے۔ جوں جوں صحبت کادورانیہ بڑھنے لگتا ہے، اسی حساب سے
طالب کی روحانی ومعنوی زندگی میں ارتقا ہونے لگتی ہے اور اﷲ کے ساتھ والہانہ عشق
نئی نئی کروٹیں لینے لگتا ہے۔ آتش عشق میں مسلسل جلتے رہنے سے ہی تہذیب نفس کا عمل
آگے بڑھنے لگتا ہے۔ اور نفسی قوتیں آتش عشق میں جلنے لگتی ہیں۔
یہ سب کچھ اللہ کا فضل خاص ہے۔ بزرگ، فیض کا ذریعہ ہوتا
ہے۔ ورنہ فیض کا مرکز ومنبع اﷲ کی ہستی ہوتی ہے۔ یہ فیض، طالب کی طلب کی بنا پر ہی
بزرگ کے ذریعہ سے عطا ہوتا ہے۔
من ز مکر نفس دیدم چیزہا
کو برد از مکر خود تمیزہا
میں نے نفس کے مکر میں بہت ساری چیزیں مشاہدہ کی ہیں،
وہ اپنے مکر کے ذریعہ اچھے اور بُرے کی تمیز ختم کردیتا ہے۔ نفس کی سب سے خطرناک
ادا یہ ہے کہ وہ فرد کو خراب عادتوں کی زنجیر میں کستا رہتا ہے۔ شروع میں وہ یہ
سجھاتا ہے کہ نیکی، حق و صداقت اور فرائض و واجبات کی ادائیگی کے لئے زندگی پڑی
ہے۔ یہ سارے کام ہوتے رہیں گے، جلدی ہی کیا ہے۔ چنانچہ اعمال صالحہ میں تغافل شروع
ہوجاتا ہے۔ یہ تغافل مستقل عادت کی صورت اختیار کر جاتا ہے، بدی کی عادت کی پختگی
کا لازمی نتیجہ نیکی کے ادراک کا سلب ہوجانا ہے اور بُرے اعمال کی برائی کا احساس
تلف ہوجانا ہے، یہ نفس کا سب سے بڑا فریب ہے، جس میںانسانوں کی اکثریت مبتلا
ہوجاتی ہے۔
وعدہا بدہد ترا تازہ بدست
کو ہزاراں بار آنہارا شکست
(نفس
تیرے ہاتھ میں تازہ تازہ وعدہ دیتا ہے جن کو اس نے ہزاروں بار توڑا ہے)۔
عمر اگر صد سال خود مہلت دہد
اوت ہر روزے بہانہ نونہد
اگر سو سال کی عمر بھی میسر ہو تو وہ تمہیں ہر روز نیا
بہانہ سکھاتا رہے گا۔ ایک بار نفس پرستی کی راہ پر لگ جانے کے بعد اگر دل کے
انتباہات کو نظر انداز کر دیا گیا تو نفس، دل، روح اور عقل پر غالب آنے لگتا ہے
اور وہ فرد کو روزانہ مادی دنیا اور مادی حسن کی دلفریبیوںکی نئی نئی راہیں سجھاتا
رہتا ہے، فرد کو اگر سو سال کی زندگی بھی نصیب ہو تو زندگی میں نئے نئے نقش اور
رنگ بھرنے کے اس کے فریب ختم ہی نہیں ہوتے۔
گرم گوید وعدہائے سرد را
جادوے مردمی بہ بندد مرد را
وہ غلط وعدوں کو درست بتائے گا اور قوت مردمی کا جادو
مردمی کو ختم کردیتا ہے۔
ان اشعار میں مولانا نے نفس کی اس ’’خصوصیت‘‘ کا ذکر کیا ہے کہ وہ مادی
دنیا پر فریفتہ اور فدا ہوکر اس کے حصول کی راہ پر اس تیزی سے گامزن ہے کہ راہ
راست پر آنے کے ہزارہا وعدے وعید کرنے کے باوجود وہ اس طرف آنے کے لئے تیار نہیں،
آخر میں آکر فرد کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ نفسی قوتوں کی پرستش کے کام کو برا
سمجھنے کے احساس سے ہی عاری ہوجاتا ہے۔
یہ وہ آخری سزا ہے، جو نفسی خواہشات کی مسلسل پیروی کے
نتیجہ میں خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
دوزخے افروخت ہردے دم فسوں
اے دم تو از دم دریا فزوں
اس نفس نے دوزخ کی آگ بھڑکا دی ہے۔ اس پر پھونک دے۔ اے
وہ کہ تیری پھونک دریا کی ہمت سے بڑھ کر ہے۔
اس شعر میں مبتدی طالب کہتا ہے کہ نفسی قوتوں نے تو
میری زندگی اجیرن کردی ہے، فاسد جذبات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، جو ہر
وقت اندر سے ابلتا رہتا ہے، اور فاسد خیالات کی لہریں ہیں، جو اندر میں مسلسل
موجزن ہیں، ان نفسی جذبات و خواہشات نے تو میرے اندر جہنم کی آگ برپا کردی ہے۔ ذکر
و فکر سے منجمد جذبات تھمنے کی بجائے اور زیادہ شدت سے ابھرنے لگتے ہیں۔ ان نفسی
قوتوں نے تو میری دنیا و آخرت کی زندگی کو خطرات میں ڈال دیا ہے۔ میں جہنم کے
بڑھتے ہوئے انگارے اندر سے اٹھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اے وہ ہستی، جس نے پاکیزہ
جذباتِ محبت سے جہنم کے ان انگاروں کو سراپا ٹھنڈک میں تبدیل کردیا ہے، میری چارہ
جوئی کرکے میرے دل کو بھی انوار سے بھردے۔
سحر مکار ست وبنمودہ تفے
دوزخ ست از مکر بنمودہ تفے
یہ مکار نفس سمندر ہے، جھاگ دکھائی دیتا ہے، دوزخ ہے،
مکر سے معمولی دکھائی دیتا ہے۔
یہاں مولانا نے نفس کی حیرت انگیز قوتوں کے بارے میں
ایک اور اہم حقیقت بیان کی ہے، فرماتے ہیں، یہ نفسی قوت بظاہر سیدھی سادی، معمولی
اور غیر مضر نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ نفس سمندر کی طرح بہت گہرا اور وسیع
ہے۔ جس طرح سمندر میں بے شمار مخلوق رہتی ہے، سمندر اس ساری مخلوق سے بے نیاز
ہوکر، اپنی ساری طغیانیوں کے ساتھ رواں دواں ہے، اسی طرح نفس کی اندرونی سطح سے
ہزارہا دنیائیں وابستہ ہیں۔ جذبات کے طوفان ہیں، جو اندر سے اٹھتے رہتے ہیں، حرص
وہوس کی طغیانیاں ہیں، جو اندر سے اٹھکرزندگی کو زیر وزبر کردیتی ہیں۔ غیظ و غضب
کے نہ تھمنے والے طوفان ہیں، جو انسانیت کے لئے سم قاتل ہیں، حب جاہ وحب مال کی
لہریں ہیں، جو اﷲ کی مخلوق کے لئے تباہی کا پیشہ خیمہ بنتی ہیں۔
فرماتے ہیں، ہر انسان کا نفس جو بظاہر معمولی نظر آتا
ہے، اس میں شرارت کا اتنا بڑا مادہ موجود ہے کہ یہ اپنے مفادات اور جذبات فاسد کی
بنا پر دنیا کو جہنم کا منظر بنا سکتا اور بنا لیتا ہے۔
ہر انسان کے نفس میں یہ ’’خاصیت‘‘ موجود ہے کہ وہ قیامت
سے پہلے قیامت برپا کر سکتا ہے اور اپنے جیسے انسانوں کو جانوروں کی سطح پر لاکر،
ان سے غلامی کے آداب بجا لاسکتا ہے۔ دولت کے ڈھیر جمع کرنے کے حرص کی وجہ سے
بنیادی ضرورت کا سامان روک کر، مہنگائی میں اضافہ کرکے، کروڑہا غریب انسانوں کے
لئے موت کے و زندگی کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ دولت کے ارتکاز کے ذریعہ نان شبینہ
کے محتاج افراد کو خودکشی پر مجبور کرسکتا ہے۔ اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا مال
کھپانے اور نت نئی ٹیکنالوجی کی فروخت کے لئے قوموں کو ایک دوسرے سے متصادم کرکے
جنگ برپا کرکے عالمی امن کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے۔ عالمی سرمائیدار عرصہ سے یہ
ساری کار گزاریاں سر انجام دے رہا ہے۔ عالمی سرمائیدار کے تتبع میں ملکوں و قوموں
کے حکمران، افسران، صنعتکار اور تاجر وغیرہ بھی سنگ دلی کا آخری حد تک مظاہرہ
کرکے، اپنے ہی عوام کا آخری قطرہ نچوڑ کر انہیں بھوکوں مارنے کی شرمناک کاوشیں کر
رہے ہیں۔ اور ضمیر کی کوئی قوت انہیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی، حکمرانوں، افسروں
اور سیاستدانوں کے پاس بینکوں میں اتنی رقم موجود ہے کہ اگر اس رقم کا ملک میں
صحیح استعمال ہو تو ملک کا ہر فرد خوشحالی سے زندگی گزار سکے، لیکن بڑے لوگوں کا
نفس انہیں ایسا کرنے نہیں دے رہا ہے۔ دولت ا نہیں اتنی عزیز ہے کہ اس کے تحفظ کی
خاطر قوم کی تباہی اور ملک کی بربادی بھی قابل قبول ہے۔ یہ ہے اس نفس کی قوت، جس
کا مظاہرہ عالمی سطح سے لیکر مقامی سطح تک ہو رہا ہے۔
عام لوگوں کے پاس قوت اور وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے
اپنے دائروں میں ان کے نفس کی کارستانیاں جاری ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو عزت و
وقار کا مسئلہ بنا کر گھروں، خاندانوں اور دوستوں کے درمیان ٹوٹ پھوٹ اور تصادم،
غیظ و غضب اور اشتعال میں آکر، قبیلوں اور برادریوں کے درمیاں قتل کے بڑھتے ہوئے
واقعات، برداشت کے فقدان کی وجہ سے اداروں، تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان باہمی
رساکشی وغیرہ۔ یہ ساری چیزیں نفس کی کارستانیوں کے مظاہر ہیں۔
نفسی قوتوں کو مہذب بنائے بغیر نفس کی یہ ’’خصوصیات‘‘
اور یہ کارستانیاں موجود رہیں گی اور معاشرہ کو فساد سے دوچار کرتی رہیں گی، اور
بے اعتمادی کا بحران پیدا کرتی رہیں گی۔
نفس نمرو ست عقل وجان خلیل
روح در عین ست ونفس اندر دلیل
نفس نمرود ہے اور عقل وجان خلیل ہے، روح مشاہدہ ذات میں
مصروف ہے اور نفس دلیل میں۔
یہاں مولانا نے نفس کو نمرود سے تشبیہ دی ہے، جس نے
اللہ کے رسول حضرت ابراہیم خلیل کو مادی عقل کے پیمانہ سے پرکھا اور اسے عام انسان
سمجھکر، اس سے مقابلہ کیا، مولانا فرماتے ہیں، ہر انسان کا نفس عام طور پر نمرود
کی ’’خاصیت‘‘ رکھتا ہے کہ وہ مادی عقل اور مادی حسوں سے بلند ہوکر، دیکھنے اور
سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر ہوتا ہے۔ مولانا اس عقل کو جو دل کا فیض یافتہ ہے، اسے
خلیل سے مشابہت دیتے ہیں اور روح کی اس
صفت کا بیان فرماتے ہیں کہ وہ مشاہدہ حق میں مصروف ہے۔ روح کی تو اصل غذا ہی محبوب حقیقی کے انوار حسن کا مشاہدہ
ہے۔ روح، جب مشاہدہ سے سرشار ہوتی ہے تو چونکہ دل اس کا سب سے قریبی اور طاقتور
جزو ہے، اس لئے روح کے اس مشاہدہ حق سے دل بھی منور ہوجاتا ہے۔ روح اور دل پھر
اپنے ان انوار کو عقل کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ جس سے عقل کی استعداد میں غیر معمولی
اضافہ ہوجاتا ہے۔
دل، عقل اور روح کا ذکر کرنے کے بعد مولانا نفس کا ذکر
کرتے ہیں کہ نفس کی حالت یہ ہے کہ وہ مشاہدہ حق سے محروم ہونے کی وجہ سے ساری
زندگی استدلال اور استدلال کا طالب رہتا ہے۔ ہر نئے استدلال سے اس کی استدلال کی
بھوک میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ وہ استدلال کے سراب میں مسلسل دوڑتا رہتا ہے۔
لیکن اس کی تشفی نہیں ہونے پاتی۔ سبب یہ ہے کہ نفس روح، دل اور عقل کو یرغمال
بناکر انہیں مادی کثافتوں سے بھر چکا ہے۔ اور مادہ کے غلیظ پردوں نے ان سب کی
صلاحیتوں کو مفلوج کردیا ہے۔ ان نفس کی مادہ سے پرواز بلند ہو تو کیسے ہو؟ اس لئے
وہ زندگی بھر مادی استدلال پر ہی قناعت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ مادی استدلال سے نہ
تو نفس کی حیوانیت و دورنگی میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے اور نہ ہی حقیقی سکون
وسکینت کے اجزاء حاصل ہو پاتے ہیں، یہ نہ صرف بڑے غور و فکر کی بات ہے، بلکہ مضطرب
ہوکرنفس کے پھیلائے ہوئے جالوں سے پوری قوت سے نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے کی
ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے خون کے آنسو بہا کر بارگاہ ایزدی سے ملتجی ہونا چاہئے
کہ وہ ہمیں اس دلدل سے نکال دے۔
باب دوم
مراقبہ
اور زندگی کو بدلنے میں اس کا کردار
مادیت سے بیزار جدید انسان کو دعوت فکر
موجودہ مادیت پرستی اور دنیاداری کی ہماہمی اور بڑھتی
ہوئی مادی سرگرمیوں میں انسانیت کا جو سب سے بڑا نقصان ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے
اس کا اصل جوہر اور رازِ حیات سلب کر دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مالدار ہو یا
غریب، حکمران ہو یا آفیسر، عالم ہو یا جاہل، دانشور ہو یا غیر اہل دانش، سب شدید
ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور ساری، علمی، سائنسی اور مادی ترقی، خوشحالی اور سامان
تعیش ولذت کے ڈھیر ہونے کے باوجود انسانیت مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہے اور عالمی
سطح سے لے کر شہر اور محلہ کی سطح تک باہمی تصادم اور ٹکراء کی فضا ہے، اہل سیاست
ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ صنعت کار، صنعت کار سے حالت ٹکراء میں ہے، دانشور،
دانشور سے شاکی ہے۔ مولوی، مولوی سے بیزار اور صف آرا ہے۔
انسانی معاشرہ کا جانوروں سے بدتر منظر پیش کرنانفسانفسی، حرص وہوس اور چھینا جھپٹی کی ایسی فضا پیدا
ہوگئی ہے کہ انسانوں کی دنیا جانوروں بلکہ درندوں سے بدتر منظر پیش کررہی ہے۔
قیامت سے پہلے قیامت کا منظر برپا ہے۔ سکون ایسا رخصت ہوگیا ہے کہ نہ تو گھروں میں
سکون ہے، نہ بازار، دفتر، سکول وکالج، تجربہ گاہوں اور لیبارٹیوں میں۔
انسانیت کی یہ حالت ایسی ہے جو قابل رحم ہے، جس پر
کائنات کی ہر چیز ماتم کناں ہے، اس لئے کہ ساری کائنات انسان کے استفادہ کے لئے ہی
بنائی گئی تھی اور انسان کی تخلیق کسی بلند وبرتر اور پاکیزہ واعلیٰ وارفع مقصد کے
لئے تھی۔
انسانیت سے اس کے اصل جو ہرکی سلبی
جدید دور کا سب سے بڑا المیہ (جس سے انسانیت کی یہ حالت
زار ہوئی ہے) وہ یہ ہے کہ انسان کو خالص مادی مخلوق بلکہ ترقی یافتہ جانور سمجھکر
سارے علوم وفنون اور سارے ریاستی نظام اور ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کے ذریعہ
انسان کے ان مادی، حیوانی وجبلی جذبات کو مشتعل کرنے اور انہیں آخری حد تک ابھارنے
اور اس کی شہوانیت کو برانگیختہ کرنے اور ایک دوسرے کو پامال کرکے زندگی کی دوڑ
میں آگے بڑھنے کی روح پھونکی جارہی ہے اور اس کی تربیت دی جارہی ہے، تعلیم وتربیت
اور ذہن سازی کے سارے ادارے شب وروز یہی کام سرانجام دے رہے ہیں۔
انسانیت سے اس کا اصل جوہر (جو معنوی اور حقیقی روحانی
زندگی سے عبارت ہے) سلب کرنے کے بعد انسانیت کا حشر اس کے علاوہ دوسرا ہو بھی کیا
سکتا ہے۔
جب سے دنیا کی سیاست وامامت انسان کی اصلیت اور اس کی
حقیقت کو نہ سمجھنے والے مادی انسانوں کے حوالے ہوئی ہے، تب سے انسان اس حالت زار
سے دوچار ہے۔ تعلیم وتربیت کے تیز ذرائع، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی
غیرمعمولی ترقی اور ہر فرد کی، اس تک رسائی کی وجہ سے مادیت پرستی کی طوفان خیز
لہروں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اب تقریبا معاشرے کے ہر فرد کا ہدف مادی
دنیا کی ترقی وخوشحالی بن کر رہ گیا ہے، اور افراد کی تقریبا ساری سرگرمیاں اس
مادی ہدف کی نذر ہورہی ہیں۔
اللہ کی دھرتی کو مادی مقاصد کے لئے انسانوں کے خون سے
لبریز کرنے، انسانوں کو ذلیل وپامال کرنے، انسانوں کی بڑی اکثریت کے خون پسینے کی
محنت سے عیاشی کے محل تعمیر کرنے اور دولت کے ڈھیر جمع کرنے اور قدرت کے وسائل اور
اس کے خزانوں کو قدرت ہی کے مقاصد کے خلاف استعمال کرنے کی کاوشیں ایسی ہیں، جس کے
نتائج نہایت خوفناک ہیں۔
معاشروں اور افراد کو اس بحران سے نکالنے کے سلسلہ میں
محبوب حقیقی کا ذکر، اس کی یاد اور ا س
کا مراقبہ جو کردار ادا کر سکتا ہے۔ وہ نہایت فیصلہ کن کردار ہے۔ ذکر ومراقبہ کی
اس اہمیت اور انسانوں کی تبدیلی کے سلسلہ میں اس کے اس کردار کو نہ سمجھنے کی وجہ
سے انسانیت مادیت پرست قوتوں سے پامال ہو کر خسران سے دوچار ہے۔ ہمارا زیر نظر مقالہ
ذکر ومراقبہ کے افادیت کے موضوع پر ایک اہم کاوش ہے۔ اللہ کرے اسے پڑھنے اور اس سے
استفادہ کی صورت پیدا ہو۔
مراقبہ سے ہمارا مقصود
جب ہم مراقبہ کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہمارا مقصود نہ
تو بدھ مت کا مراقبہ ہوتا ہے نہ عیسائیت، ہندو مت اور جدید طرز کا مغربی مراقبہ
اور نہ ہی روشنی کے تصور کا مراقبہ۔ ہمارا مقصود رسول اللہ ﷺ کا مراقبہ ہوتا ہے،
جس کی شروعات آپ نے غار حرا سے کی تھی۔ اس مراقبہ کے آخر میں آپ پر وحی کا نزول
ہوا تھا، اور وحی کے ذریعہ عقائد وایمانیات کے ساتھ ساتھ ساری اسلامی شریعت نازل
ہوئی۔
مراقبہ سے ہمارا مقصود اللہ ورسول اور آخرت جیسے عقائد
کی تصدیق کرکے، اسلامی شریعت کو ہدف بنا کر راہ محبت وراہ سلوک کے ذریعہ نفسی
قوتوں کو پامال کرکے، انہیں اللہ ورسول کے تابع کرنا ہے۔ اور ہر طاغوت کی نفی
کرکے، مادیت پرستی کے بتوں کو توڑ کر توحید خالص اور صبغتہ اللہ (اللہ کے رنگ کو)
مستحکم کرنا ہے، نیز مزاج اور ذہنیت کی تشکیل اس طرح کرنی ہے کہ اللہ کے کنبہ یعنی
اس کی مخلوق کی بھلائی وبہتری عزیز تربن جائے اور سالک، اللہ کی مخلوق کی حالت زار
پر سوزودرد اور تحرک سے سراپا سرشار ہوجائے۔
جدید مادی نوعیت کے مراقبوں کی نوعیت
موجودہ دور میں عالمی سرمائیداروں نے سارے ممالک کے
مقامی سرمائیداروں اور حکمرانوں کے اشتراک سے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے، جس میں اﷲ
کی ساری مخلوق ان کے لئے دولت کمانے کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ دنیا بھر کے اربہا
انسان سارا دن سخت محنت کرکے گھروں کو اس طرح واپس لوٹتے ہیں کہ ایک تو
سرمائیداروں کی نئی نئی ایجاد کردہ اشیاء کی حرص، ھل من مزید ہوجاتی ہے۔ دوم یہ کہ
معاش کے لئے شدید محنت سے اعصاب، نفسیات اور ذہن تھکاوٹ سے شل ہوجاتا ہے۔
سرمائیداری نے لوگوں سے سچی مذہبیت اور اس کا روح تو پہلے ہی سلب کر لیا تھا۔ اس
طرح کے حالات میں دنیا بھر کے انسان بے پناہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوکر معاشی
سرگرمیوں کے معاملہ میں پست حالی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
مادیت کے بڑھتے ہوئے اس ماحول میں مادیت پسند نفسیاتی
ماہروں نے انسانی نفسیات پر تحقیق کرکے، اس کا جو حل نکالا ہے، وہ مراقبہ ہے، لیکن
ان کے مراقبہ کے تجزیہ و تحلیل سے معلوم ہوگا کہ اس مراقبہ کی نوعیت خالص مادی
نوعیت کی ہے۔ اس کا مقصد مادی مقاصد کے لئے فکری توانائیوں کو جمع کرتا ہے اور ذہن
کا کسی بھی مادی چیز پر ارتکاز کرکے، اسے ایک مرکزی نکتہ پر لانا ہے، تاکہ مادی
جدوجہد سے تھک کر چور ہونے والے انسان اور بے پناہ مادی مسائل کے شکار انسان کے
فکری انتشار اور ذہنی دبائو سے بچائو کی صورت پیدا ہوسکے اور وہ سرمائیدار کے لئے
اشیاء کی از سر نو تیاری اور ان کی اشیاء کی خریداری کے لئے پوری توانائی کے ساتھ
متحرک ہوسکے۔
مادی نوعیت کے اس مراقبہ سے روحانیت حاصل ہوسکے، روحانی
قوتیں ابھر سکیں، دنیا کی حرص و ہوس کم ہوسکے، کردار میں انسانیت کی شان پیدا
ہوسکے۔ فرد و افراد، مادی مقاصد سے بلند ہوکر پاکیزہ اخلاقی قدروں سے بہرہ ور
ہوسکیں، ممکن نہیں۔ اس لئے جدید نوعیت کا مراقبہ افراد کے لئے ہر پھر کر دنیا اور
مادی جدوجہد ہی کے راستے کھولنے اور مادی مقاصد کے لئے توانائیوں کے استحکام ہی کا
ذریعہ بنتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی مغرب کی
نقالی میں نفسیاتی ڈاکٹروں کی طرف سے ذہنی اور نفسیاتی بیماروں سے ہزاروں روپے فیس
لیکر، ان سے مادی نوعیت کے اس مراقبہ کی مشقتیں کرائی جاتی ہیں۔ ہمیں اس بات پر
اعتراض نہیں ہے کہ مریضوں کا علاج کیوں کیا جاتا ہے۔ ہمارا تو کہنا یہ ہے کہ کاش
کہ ہمارے یہ مسلمان ڈاکٹر اسم ذات کا ذکر جو مسلمانوں کی میراث ہے، جس سے فرد و
افراد ذہنی دبائو کے ساتھ ساتھ بے پناہ روحانی مسرت کے احساسات سے بھی سرشار ہونے
لگتے ہیں، جس سے مادہ پرستی اور حرص و ہوس کے بت ٹوٹنے لگتے ہیں، اس میں مہارت
حاصل کرکے، اس کے تحت نفسیاتی مریضوں کا کامیاب اور دیرپا اثرات کا حامل طریق علاج
اختیار کریں۔ انٹرنیٹ پر ہزارہا ویب سائیٹس مراقبہ کی تفصیلات سے بھری ہوئی ہیں۔
ان سب کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مراقبہ کی ان ساری مشقوں کا حاصل یہ ہے کہ
انسان کے ذہنی دبائو کو کم سے کم تر کیا جائے اور اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ
زیادہ بہتر طور پر اور زیادہ ذہنی توانائی کے ساتھ مادی جدوجہد میں مصروف ہوسکے
اور دنیا کے ثمرات سے بہرہ ور ہوسکے۔
مراقبہ کا یہ استعمال دور جدید کے اس المیہ اور بحران
کو ظاہر کرتا ہے کہ جدید انسان کی پرواز مادی دنیا سے بلند ہوکر، انسانیت کی اصلیت
او اس کی خود شعور ہستی یعنی روح اور اس کی تسکین کی طرف آنے کے لئے ہی تیار نہیں۔
انسانیت کے اس المیہ پر خون کے آنسو ہی بہائے جاسکتے ہیں۔
بدھ مت والوں کا مراقبہ
بدھ مت مذہب ایسا ہے، جس کی بنیاد ہی مراقبہ پر ہے۔
ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود ان کے ہاں مراقبہ کا اہتمام اب تک موجود ہے۔ دنیا
کے مختلف ممالک میں پھیل جانے کی وجہ سے مختلف ممالک میں ان کے مراکز ہیں۔ جہاں
باقاعدہ مراقبہ کے پروگرام ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نیپال، اور یورپ کے
مختلف ممالک میں ہر ماہ کے ابتدائی اور آخری عشرہ میں اس طرح کے بڑے پیمانہ پر
پروگرام ہوتے ہیں۔ جہاں مراقبہ کا ذوق رکھنے والے افراد قیام کرتے ہیں، ان کی
رہائش اور طعام کا بھی انتظام ہے اور ۲۴
گھنٹوں میں نیند آرام اور چائے کے وقفہ کے علاوہ باقی سارے اوقات مراقبہ میں صرف
ہوتے ہیں۔ یومیہ کے اس مراقبہ کا دورانیہ بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے۔
ان کے ان پروگراموں کی تفصیل انٹرنیٹ کی ویب سائیٹ میں
موجود ہے۔
ہمارے ایک دوست کے قریبی عزیز جو لاہور میں کسی ٹیکنیکل
کالج کے پرنسپال ہیں۔ انہیں بدھ مت کے مراقبہ کے پروگرام میں شریک ہونے کا اشتیاق ہوا۔ انہوں نے بتایا
کہ نیپال میں جہاں بدھ مت والوں کا غلبہ ہے، وہاں بدھ مت کی مذہبی تنظیم کی طرف سے
ہر ماہ کے پہلے اور آخری عشرہ میں دس دس دن کے مراقبہ کا مستقل پروگرام ہوتا ہے۔
اس ادارہ کی طرف سے یہی پروگرام مغربی ممالک کے تقریبا ہر دارالحکومت میں بھی
باقائدگی سے ہوتا ہے۔اس سال نیپال کے ابتدائی عشرہ کے پروگرام میں وہ بھی شریک
ہوا۔ مراقبہ کی نشست ایک بڑے ہال میں تھی۔ وہاں ایک طرف خواتین کے لئے بیٹھنے کا
انتظام تھا تو دوسری طرف مردوں کا۔ یومیہ مراقبہ کا دورانیہ تقریباً ۱۲ گھنٹہ کا تھا۔ ہر دو
دھائی گھنٹہ کے بعد وقفہ ملتا تھا، تاکہ ذہنی تھکاوٹ کی دوری کی صورت پدا ہو۔ یہ
وقفہ، چائے، کھانے، آرام وغیرہ کا بھی ذریعہ بن جاتا تھا۔ میرے سوال کے جواب میں
موصوف نے بتایا کہ مراقبہ میں شریک ہونے والے افراد کو جن چیزوں کی سختی سے ہدایت
کی گئی تھی، ان میں یہ چیزیں شامل ہیں۔ ایک دوسرے سے رابطہ نہ رکھیں، گفتگو نہ
کریں، نہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں، نہ ہی چٹ کی صورت میں کسی کو پیغام بھیجیں،
اپنے کام سے کام رکھیں، جس مقصد کے لئے آئے ہیں، اس کے لئے مکمل طور پر یکسو
ہوجائیں۔
میرے دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مراقبہ
میں خدا کے تصور یا اللہ کے نام کے ذکر کے بجائے بس آنکھیں بند کرکے بیٹھنا ہوتا
تھا۔ شروع کے دو چار دن شدید فکری انتشار کے نذر ہوگئے۔ لیکن آخری پانچ سات دن میں
خیال میں یکسانیت پیدا ہونے میں مدد ملی، جس سے دوسروں کی طرح مجھے بھی کافی فائدہ
ہوا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ خدا کے تصور یا اسم ذات کے مراقبہ کے بغیر خالی
مراقبہ سے تمہیں جو فائدہ حاصل ہوا، کیا تم اس کی نوعیت بتا سکو گے؟ اس کا کہنا
تھا کہ ذہن میں خیالات کے دبائو میں کمی واقع ہوئی اور مسرت کا احساس غالب ہوا۔
میں نے ان سے عرض کیا کہ جن لوگوں کے ہاں خدا، رسالت اور آخرت کا عقیدہ نہ ہو، ان
کے مراقبہ میں شرکت سے فائدہ اٹھاکر، محض مسرت کی خاطر تم نے اپنے ایمانی عقائد کا
جو نقصان کیا، کیا تمہیں اس کا کچھ احساس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایمانی عقائد
کی اہمیت کا علم نہیں، میں تو سمجھتا ہوں کہ اصل چیز اندر کا سکون ہے، جو وہاں
جاکر مجھے کسی حد تک حاصل ہوا۔
مسلمان کی حیثیت سے ہمارا بنیادی سرمایہ خدا، رسول اور
آخرت پر ایمان ہے اور اسلامی شریعت کے احکامات ہیں، جو قرآن و سنت میں محفوظ ہیں۔
تیسری بنیادی چیز تہذیب نفس اور باطنی بیماریوں کی اصلاح ہے۔ ہمارے مراقبہ کا اصل
ہدف ایمانی عقائد کو مستحکم سے مستحکم کرنا، اللہ کی ہستی پر بے پناہ اعتماد کا
پیدا ہونا اور اسلامی شریعت پر اخلاص واستقامت سے چلنے کی استعداد اور قوت کا پیدا
ہونا ہے۔ جس مراقبہ میں یہ بنیادی اہداف موجود نہ ہوں، وہ مراقبہ، ذہنی سکون،
ارتکاز قوت اور مادی کاموں کو خوش اسلوبی سے سرانجام دینے میں کتنا ہی معاون و
مفید ثابت کیوں نہ ہو، لیکن وہ مراقبہ بے غرضی، للھیت، بے نفسی، اﷲ سے محبت کے
استحکام، اللہ کی رضا کی خاطر زندگی گزارنے اور آخرت میں اﷲ سے ملاقات کی تیاری
جیسے بنیادی مقاصد میں معاون ثابت نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اس طرح کے مراقبہ میں سرے
سے یہ مقاصد شامل ہی نہیں۔
بدھ مت کے مراقبہ میں تو پھر بھی مذہب کے اجزاء کسی نہ
کسی حد تک موجود ہیں۔ لیکن اہل مغرب کی کا جدید نوعیت کا مراقبہ تو خالص مادی
نوعیت کا ہے اور مادی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی
شخصیت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے نبی تھے۔ اﷲ کے رسول یا نبی
کے علاوہ کسی دوسری شخصیت کو اتنا دوام حاصل ہونا ممکن نہیں کہ ہزاروں برس گزر
جانے کے باوجود اس کے پیروکار لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہوں۔ یہ مغربی
محققوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے اللہ کی اتنی برگزیدہ شخصیت کی اس حیثیت کا سرے
سے انکار کیا ہے، جس طرح عیسائیت کے ہاں، تین خدائوں کا تصور عام ہوگیا، حالانکہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام خالص توحید کا پیغام لے کر آئے تھے۔
یہ بھی المیہ ہے کہ وقت گزنے کے ساتھ ان کی اصل تعلیمات
مسخ ہوگئیں اور ان کی تعلیمات سے خدا کا تصور تک غائب ہوگیا۔ فرانس کے مشہور مورخ
موسیو لیبان نے اپنی کتاب ’تمدن ہند‘‘ میں گوتم بدھ کے بارے میں مغربی محققوں کی
تحقیق کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری نظر میں ان کا موقف صحیح ہے۔
روشنیوں کا مراقبہ
جدید مغربی مراقبہ سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں ایک شخصیت
کی طرف سے اسم ذات کے مراقبہ کی بجائے روشینوں کے مراقبہ کا سلسلہ شروع کیا گیا
ہے، اگرچہ روشنیوں کے تصور کے استحضار سے خیالات ایک مرکزی نکتہ پر آنے لگتے ہیں
اور فرد وافراد اپنے آپ کو روشنیوں سے سرشار محسوس کرنے لگتے ہیں، اس طرح کی
روشنیوں کے مراقبہ سے کچھ بہتر خواب اور کشف بھی ہونے لگتا ہے۔ اور افراد اپنے آپ
کو ہلکا پھلکا اور مسائل کی دلدل سے نکلتا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ روشنیوں کے مراقبہ
والی شخصیت کی طرف سے متعدد مقامات پر مراقبہ ہال بھی بنائے گئے ہیں۔ خواتین و مرد
حضرات کا ان شخصیت کی طرف رجوع بھی ہے، موصوف نے ’’مراقبہ‘‘ کے نام سے کتاب بھی
لکھی ہے۔ لیکن یہ ساری کتاب روشنیوں کے مراقبہ کے تصور، اس کی تفصیل اور اثرات کے
ذکر پر مشتمل ہے۔
معاشرہ کی موجودہ اخلاقی زبوں حالی اور بڑھتے ہوئے ذہنی
دبائو کی حالت میں افراد معاشرہ کو جس شخصیت کی طرف سے بھی سکون اور خوشی فراہم
کرنے کی کاوش ہو، وہ قابل قدر ہے۔ اس پر وہ شخصیت تحسین کی مستحق ہے۔ لیکن ان
شخصیت کی طرف سے سلف صالحین کے ورثہ اسم ذات کے ’’مراقبہ‘‘ کی صورت کو بگاڑ کر اسے
روشنی کے مراقبہ تک محدود کیا گیا ہے،پھر مراقبہ سے اسلامی شریعت اور افراد معاشرہ
کی اسلامی بنیادوں پر تربیت کے کام کو جس طرح نذر انداز کیا گیا ہے یا اسے ثانوی
حیثیت دی گئی ہے، اس نے علمی حلقوں میں سرے سے مراقبہ ہی کو متنازعہ بنا دیا ہے۔
موصوف کی طرف سے ہونے والے مراقبوں میں عورتوں اور
مردوں کی مخلوط مجلس کا اہتمام ہوتا ہے۔ پردے کا نہ صرف اہتمام نہیں ہے۔ بلکہ اس
کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ نماز کے بارے میں یہ تصور ہے کہ مراقبہ خود ہی نماز ہے۔
اس لئے نماز قضا ہوتی ہے تو کوئی ہرج نہیں ہے، البتہ روزانہ کا مراقبہ قضا نہ ہونے
پائے۔ یقیناً نماز کا انکار نہیں ہے لیکن نماز کی اہمیت بھی موجود نہیں۔ تیسرا بڑا
نقص جو روشنیوں کے مراقبہ کی اس شخصیت کے حلقہ میں موجود ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے
حلقہ سے وابستہ افراد کا ذہنی مزاج، اسلامی مزاج شریعت سے ہم آہنگ مزاج اور حقیقی
بزرگوں کے پید اکردہ مزاج سے عدم مناسبت رکھنے والا مزاج ہوتا ہے۔
جہاں پردہ نہ ہو، داڑھی جیسی سنت کا اہتمام سرے سے نہ
ہو۔ قرآن وسنت کی تعلیم اور اسلامی احکامات کا ذکر نہ ہو۔ ساری فکر کا مرکز
روشنیوں کے مراقبہ اور اس کے فوائد و اثرات پر مشتمل ہو، وہاں افراد کی دینی
بنیادوں پر تربیت ہو توکیسے ہو۔
مراقبہ کے نام پر ہونے والے ان سارے نقائص کا بنیادی
سبب یہ ہے کہ صاحب موصوف دینی علوم، قرآن وسنت کے علوم اور سلف صالحین کے علوم سے
آشنا ہی نہیں۔ اگر وہ سلف کے قرآن و سنت اور روحانیت پر مشتمل علوم سے واقف ہوتے
تو وہ مراقبہ سے اسم ذات کے تصور کو نکالنے اور اپنے مریدوں کی غلط تربیت کرنے کی
حماقت کے مرتکب ہرگز نہ ہوتے۔
صاحب موصوف کے برادر بزرگ مولانا محمد ادریس صاحب حضرت
مولانا عبدالغفور مدنی ؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ ہمارے بھائی نے جو سلسلہ شروع کیا ہے، وہ اسلامی
شریعت سے متصادم ہے اور ہماری کوششوں کے باوجود وہ اس غلط راہ سے باز آنے کے لئے
تیار نہیں۔
اوشو کا مراقبہ
بیسویں صدی کی آخری دو تین دہانیوں میں مراقبہ کے نام
پر جس شخصیت نے تہلکہ مچایا تھا اور مغرب کے ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں افراد کو
اپنی طرف متوجہ کیا تھا، وہ گرورجنش کی شخصیت تھی۔ گرورجنش سکھ تھے، اور بھارت کے
تھے، وہ فلسفیانہ ذہن کے حامل تھے، مراقبہ پر انہوں نے غیرمعمولی محنت کرکے اپنی
شخصیت میں ایسی مقناطیسی کشش پیدا کر لی تھی کہ اس کی آشرم میں ہر وقت ہزاروں
افراد رہتے تھے۔ حد یہ ہے کہ ان سے متاثر ہونے والے افراد کی اکثریت مغربی ممالک
کے جدید تعلیم یافتہ افراد کی تھی، جو سکون کے متلاشی تھے۔
گرورجنش نے امریکہ میں بہت بڑا سینٹر قائم کیا تھا،
جہاں مراقبہ کا مستقل پروگرام ہوتا تھا، اس موضوع کے سارے پہلوؤں پر ان کی تقاریر
ہوتی تھی۔ مراقبہ کو انہوں نے دولت کمانے کا بہت بڑا ذریعہ بنا لیا تھا، مراقبہ
میں شریک ہونے والوں سے بھاری فیس لی جاتی تھی، وہ ارب پتی بن گئے تھے، ان کے اپنے
جہاز تھے۔
گرورجنش جسے ان کے پیروکار اوشو کے نام سے موسوم کرتے
تھے۔ اوشو ملحد قسم کا آدمی تھا، خدا کے وجود کا قائل نہیں تھا۔ اوشو فکری طور پر
فرائیڈ کے فکر سے متاثر تھا، اس کا کہنا تھا کہ انسان دنیا میں عریاں حالت میں آیا
ہے، اس لئے اسے لباس پہنانے کی ضرورت نہیں۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی جنسی بیماریوں کا
واحد علاج یہی ہے کہ مردوعورت کو عریاں حالت میں رکھا جائے اور اور ایک دوسرے سے
جنسی لذت حاصل کرنے کی مکمل آزادی دی جائے۔
ان نظریات کی حامل شخصیت کا مراقبہ جس نوعیت کا ہو سکتا
تھا،اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ خالص مادی نوعیت کا مراقبہ تھا یعنی کسی
بھی مادی چیز تصور جما کر ذہن کے سارے خیالات کو اس مرکزی خیال کے کنٹرول میں دیا
جائے، اس طرح کے مراقبہ کی مشقوں سے فکری انتشار اور خلفشار سے بچنے کی صورت پیدا
ہوتی ہے۔ مادیت سے بیزار افراد کے لئے اوشو کا یہ مراقبہ سکون کا بہت بڑا ذریعہ
تھا، جس کی وجہ سے اہل مغرب نے ان پر دولت نچھاور کر دی تھی۔
اوشو کی آشرم میں مرد وعورتیں مخلوط رہتی تھی اور انہیں
آپس میں جنسی عمل کی مکمل آزادی حاصل تھی۔
اوشو چونکہ فلسفیانہ صلاحیتوں کا حامل تھا اور فن خطابت
کا ماہر تھا، اس لئے اسے اپنے فلسفہ کو مؤثر طور پر پیش کرنے اور جدید مغربی ذہن
کو متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیت حاصل تھی۔ اوشو نے اپنے آشرم میں اپنے مریدوں کے
سامنے ہزارہا تقاریر کی،یہ تقاریر چار سو کے لگ بھگ کتابوں کی صورت میں چھپ چکی
ہیں۔ جو انگریزی میں ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے بھی چھپ رہے ہیں،
ہماری سندھی زبان میں ان کی آٹھ دس کتابوں کے ترجمے چھپ چکے ہیں۔
امریکہ میں نوجوان مردوں اور عورتوں کا جس بڑے پیمانہ
پر اوشو کی طرف رجوع ہوا، اس کی وجہ سے امریکی حکومت پریشان ہوگئی اور اس نے اسے
کسی بہانے گرفتار کیا اور جیل میں انجکشن یا کھانے میں ایسا زہر ملا دیا، جس سے وہ
بیماری کا شکار ہوگئے اور ان کی صحت بتدریج خراب ہوتی گئی اور وہ چند سالوں کے
اندر انتقال کرگئے، بھارت میں کئی منزلوں پر مشتمل اس کی آشرم اب تک موجود ہے۔
اوشو جیسے ملحد اور فرائیڈ کے پیروکار فرد کو مراقبہ کے
نام پر ہزاروں سے زائد افراد کا ملنا اور مراقبہ کے ذریعہ ارب پتی بن جانا، یہ
ظاہر کرتا ہے کہ انسانیت سکون کی متلاشی ہے، اسے جہاں سے بھی سکون ملے گا، وہ اسے
دولت دے کر بھی حاصل کرے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں استدلال سے قائل کیا جائے کہ
ان کی ذہنی اور وجدانی تسکین کا ان کے پاس مکمل سامان موجود ہے۔
مراقبہ کے نام سے اوشو کی ضخیم کتاب بھی موجود ہے،جو
ہمارے نقط نگاہ سے کسی اہمیت کی حامل نہیں۔
مراقبہ کے نام پر اسلامی شریعتسے دوری کی روش
معاشرے میں ایسے بہت سارے صوفیائے خام موجود ہیں، جو
اسلامی شریعت کے علم سے ناآشنا ہیں، البتہ مراقبہ کی کسی حد تک مشقیں موجود ہیں۔
اور دوسروں سے مراقبہ کرانے کا فن بھی جانتے ہیں۔ کچھ وظائف کی پابندی کی وجہ سے
ان میں کسی حد تک دلوں کی تسخیر یعنی وقتی طور پر دلوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت
بھی موجود ہے۔ چونکہ شریعت پر عمل کرنا اور اسلامی شریعت کے مطابق زندگی گذارنا
دشوار تر کام ہے۔ خاص طور پر نماز کی ادائیگی اور اس کا اہتمام تو نہایت ہی مشکل
کام ہے۔ اس لئے صوفیائے خام نماز کو غیراہم قرار دے کر، مراقبہ وذکر ہی کو اصل
عبادت سمجھتے اور اپنے مریدوں کو نماز سے دور کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
اگر معاشرہ کا جائزہ لیں گے تو آپ کو ایسے کافی افراد
نظر آئیں گے، جو نماز کے پابند تھے۔ لیکن اس طرح کے صوفیائے خام کی صحبت اختیار
کرنے اور ان سے مراقبہ لینے کے بعد انہوں نے نماز چھوڑ دی، یہ صوفیائے خام، شیطانی
اغویٰ کی وجہ سے اپنے مریدوں کو یہ نکتہ سجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نماز عام
لوگوں کی عبادت ہے۔ جب کہ مراقبہ خاص لوگوں کی عبادت ہے۔ یہ مرید بھی ایسے جاہل ہیں
کہ وہ ان کی بات کو صحیح سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مراقبہ سے
چونکہ ذہنی طور پر یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور ذہنی یکسوئی سے خوشی وسرورحاصل ہوتا ہے
اور مراقبہ کا اثر کسی حد تک داخل کی دنیا پر بھی پڑتا ہے اور داخلی دنیا میں
طمانیت پیدا ہونے لگتی ہے، اس لئے جاہل مرید نماز جیسے بنیادی فرض کو چھوڑ کر
مراقبہ ہی کو مقصود سمجھنے لگتے ہیں۔
راقم الحروف ایسے متعدد افراد کو جانتا ہے، جو نماز کے
عادی تھے، لیکن صوفیائے خام سے تعلق کی وجہ سے اب وہ کہتے ہیں کہ ہم عام لوگوں کی
عبادت سے خاص لوگوں کی عبادت کی طرف آگئے ہیں، اب ہمیں نماز کی کوئی ضرورت نہیں۔
نماز جیسی بہت ساری عبادتیں ہم مراقبہ کے ذریعہ دن میں متعدد بار ادا کرتے رہتے
ہیں۔ ایسے جاہل صوفیا اور ان کے جاہل مرید دراصل اغوائے شیطانی کا شکار ہیں۔ نماز
جب انبیاء کرام کو معاف نہ ہوئی پھر نماز بڑے بڑے اولیائے کرام شعار رہا ہے مراقبہ
کے نام پر لوگوں کو اسلامی شریعت سے دور کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ یہ جرم بزرگی کے نام
پر کیا جائے تو اس جرم کی سنگینی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ تصوف، بزرگی اور مراقبہ کو
متنازعہ بنانے میں اس طرح کے صوفیائے خام اور جاہل مریدوں نے بنیادی کردار ادا کیا
ہے۔ بزرگوں کی تصریحات کے مطابق ذکر ومراقبہ کا تو مقصود ہی یہ ہے کہ فرد کی نفس
کی قوت کو کمزور کرکے، اللہ سے اس کے تعلق کو مستحکم کیا جائے اور فرد میں اسلامی
شریعت پر عمل کرنے کی قوت واستعداد پیدا کی جائے۔
انسانی ذہن کے کرشمے
دنیا میں نئے نئے فلسفوں اور نظریات کا ارتقا اور مادی
طور پر ہونے والی ساری ترقی ذہن کو ایک مرکزی نکتے پر جمانے اور فکری قوت کے
ارتکاز ہی کا نتیجہ ہے۔ بعض بڑے سائنسدانوں کے ذکر میں آتا ہے کہ وہ اپنی تحقیق
میں ذہنی طور پر اتنے مستغرق رہتے تھے کہ انہیں اپنے نام اور اپنے بچوں کے نام بھی
یاد نہ رہتے تھے۔ اس ذہنی استغراق کا نتیجہ تھا کہ انہیں اشیائے کائنات کی خصوصیات
کا علم حاصل ہوا اور نئی سائنسی اور ٹیکنالوجی ترقی کی صورت پیدا ہوئی۔ نامور
سائنسدان، نامور ماہرین نفسیات، نامور مفکرین وغیرہ وہ سب اعلیٰ ذہنی ارتکاز کا
حاصل و نتیجہ تھے۔
لیکن مادی چیزوں پر ذہنی ارتکاز کے نتیجہ میں جو چیز
حاصل ہوسکتی ہے، وہ مادی نوعیت کی چیز ہے اور اس سے مادی نفع ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
جس طرح سائنسدان اور نفسیات کا ماہر ذہنی طور پر ایک چیز پر مستغرق ہونے کی وجہ سے
وہ خیالات کی بھٹکاوٹ اور فکری انتشار سے محفوظ ہوتا ہے، اس لئے کہ اس کا ذہن ایک
مرکزی خیال کے علاوہ دوسرے خیالات کو ذہن میں لانے کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا۔ اس سے
اس کی مہارت متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح مادی نوعیت کے مراقبوں سے وہ چاہے روشنیوں کا
مراقبہ ہو، یا کسی بھی مادی چیز کا تصور ہو اس سے فکری انتشار سے بچائو کی تو صورت
پیدا ہوتی ہے اور مادی سرگرمیوں میں تحرک کی استعداد بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس
طرح کے مراقبوں سے نفس کی قوت پامال ہوکر، تہذیب نفس اور ضبط نفس کی استعداد پیدا
ہوسکے، مادی مفادات سے دستبردار ہوکر اللہ کے لئے زندہ رہنے اور انسانیت کی بہتری
و بھلائی کا سلیقہ پیدا ہوسکے، ممکن نہیں۔
مادی نوعیت کے ان نقائص کی وجہ سے بندہ مومن جس کا
مقصود ہر صورت میں اللہ ہی ہوتا ہے۔ وہ ان مراقبوں کو اسم ذات کے مراقبہ کے مقابلے
میں ہیچ سمجھنے لگتا ہے، وہ انہیں خالص ذہنی قوت کا کرشمہ سمجھنے لگتا ہے۔
سلف کے مراقبہ کی نوعیت و اہمیت
سلف صالحین کا مراقبہ دراصل ذکر کی ایک اعلیٰ صورت ہے،
جس میں دل اور ذہن کی ساری توانائیاں ذکر میں شامل ہوجاتی ہیں۔ اور اسم ذات کے
تصور کے مسلسل استحضار سے دل اور ذہن کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں محبوب حقیقی
کی معیت میں دے دیا جاتا ہے۔ اس مراقبہ پر مداومت کے نتیجہ میں ہوتا یہ ہے کہ
محبوبِ حقیقی کی چاہت کے علاوہ دوسرے سارے خیالات پہلے مرحلہ پر مدھم ہونے لگتے
ہیں، آخری مرحلہ پر دل اور ذہن سے جذبات و خواہشات اور خیالات کی اس دنیا کا سحر
ٹوٹ جاتا ہے اور فرد وافراد کے لئے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے اور
حق و صداقت اور خیر کی ساری باتیں فطرت کا
حصہ بن کر، ان پر عمل پیرا ہونے کے بارے میں فرد کی حساسیت غیر معمولی طور پر بڑھ
جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن نے صحابہ کرام کے ایمان کی جو حالت بیان کی ہے، صحابہ
کرام کے تتبع میں اللہ کی محبت کے رازدانوں میں ایمان کی یہی خصوصیات پیدا ہونے
لگتی ہیں۔ ’’حبب الیکم وزینہ فی قلوبکم
وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان۔ (اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایمان کو
محبوب بنا دیاہے۔ اور دلوں میں اس کو مزین کردیا ہے اور کفر اور فسق اور گناہوں سے
تمہارے اندر کراہت (بیزاری) پیدا کردی ہے)۔
اصلاح نفس اور تزکیہ کے سلسلہ میں اسم ذات کا ذکر جو
کردار ادا کرتا ہے، وہی کردار لا الٰہ الااللہ کا ذکر بھی ادا کرتا ہے۔ اس لئے
حدیث میں افضل الذکر لا الٰہ الااللہ فرمایا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے مستند بزرگوں
کے مستند سلسلوں سے وابستگی ضروری ہے۔ اس کے بغیر اپنے طور پر یہ اذکار شروع کرنا
اول تو دشوار ہیں۔ دوم یہ کہ ابتدا میں ایک عرصہ تک اذکار کے نتیجہ میں نفس کی
وسیع دنیا سے جو قوتیں ابھر کر انتشار فکری پیدا کریں گی، اس سے بچنے کی صورت پیدا
نہ ہوسکی گی اور فرد جلد ہی مایوس ہوکر ذکر کی لائین چھوڑ دیتا ہے۔
ذکر و فکر کے لئے شخصیت کا دامن پکڑنا، اس لئے ضروری ہے
کہ انسان دنیا میں سارے علوم و فنون، تجربہ کار اور ماہر شخصیتوں کی صحبت سے
سیکھتا ہے۔ ویسے بھی انسانی معاشرہ میں ہمیشہ شخصیتوں کو فیصلہ کن اہمیت حاصل رہی
ہے۔ فکری و نظریاتی شخصیت ہو یا خالص علمی نوعیت کی شخصیت، مذہبی شخصیت ہو یا
روحانی۔ سنت یہی ہے کہ ان شخصیات کے گرد جمع ہوکر ان سے سیکھ کر، فکر و نظر، علم،
مذہبیت اور روحانیت سے بہرہ ور ہوا جاتا ہے۔ ممتاز علمی، نظریاتی، فکری، مذہبی،
روحانی اور خود سیاسی شخصیات کے گرد لوگوں کے جمع ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے اور
یہی اصول ہے کہ عام لوگ صلاحیتوں کی حامل شخصیتوں کے پیچھے چلتے ہیں، ان میں اتنی
صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ علم و فن یا مذہب و روحانیت میں اپنے طور پر راہیں نکال
سکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔