غزوةُ الہند
ادائیگی حج کے لئے حضرت جؒی 19 دسمبر 1970ء کو کراچی پہنچے جہاں سے
بذریعہ ہوائی جہاز دہران کے لئے روانگی تھی لیکن 24جنوری 1971ء تک فلائٹ نہ مل سکی۔ اس طرح کراچی
میں آپؒ نے ایک ماہ سے زائد عرصہ احباب کی تربیت میں گزارا۔ اس وقت ماڑی پور ایئربیس
میں بھی حلقہ ذکر قائم ہو چکا تھا۔ فضائیہ کے ساتھیوں کی دعوت پر آپؒ ان کے ہاں
تشریف لے گئے تو وہاں ماڑی پور میں واقع حضرت عبداللہ شاہؒ کے مزار کا تذکرہ ہوا
جن کے متعلق عام روایت ہے کہ وہ صحابی تھے۔
حضرت
جؒی ان کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا کہ وہ صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں اور ساتھ ہی یہ
بھی فرمایا کہ وہ آنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔حضرت جؒی کا یہ معمول رہا کہ مشائخ یا
ان اہل اللہ کے سوا جو راہِ سلوک میں آپؒ کے ساتھ رہے، کسی مزار پر نہ جاتے لیکن
ماڑی پور والے حضرت عبداللہ شاہؒ وہ ہستی ہیں جن کی طرف سے دعوت ملی تو احباب کے
ہمراہ ان کے مزار پر تشریف لے گئے۔ آپؒ نے ان کی غیر معمولی طویل قبر کے اس حصہ کی
نشاندہی کی جہاں حضرت عبداللہ شاہؒ مدفون ہیں اور فرمایا کہ ان کا قد معمول سے
قدرے طویل ہے لیکن سر کی سمت قبر کو بلاجواز طول دے دیا گیا ہے ۔ حضرت جؒی نے حضرت
عبداللہ شاہؒ سے دریافت کیا:
‘‘حضرت!
یہاں کیوں تشریف لائے ۔’’
فرمانے لگے:
‘‘غزوةُ الہند کا سنا تو چلا آیا کہ کہیں گزر
نہ جائے۔
یہاں
پہنچا تو آخری وقت آگیا۔ جنازے میں صرف چار آدمی تھے۔’’
‘‘غزوۃ
الہند’’ کے متعلق صحاح ستہ میں آقائے نامدارﷺ کی متعدد احادیث کو نقل کیا گیا ہے۔
ان میں سے حضرت ابوہریرہ t اور حضرت ثوبانt کی روایات کو
محدثین نے ‘صحیح’ کا درجہ دیا ہے اور بعض محدثین انہیں ‘حسن’ قرار دیتے ہیں۔
نبیﷺ
کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانt روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:
عَنْ ثَوبَانَ مَوْلٰی رَسُولِ اللّٰہِﷺ عَنِ النَّبِیِّﷺ
عِصَابَتَانِ مِنْ اُمَّتِیْ حَرَّرَھُمَا
اللّٰہُ مِنَ النَّارِ عِصَابَۃٌ تَغْزُوْ الْہِنْدَ وَ عِصَابَۃٌ تَکُوْنُ مَعَ
عِیْسٰی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْھِمَا السَّلاَمُ۔
‘‘میری امت کے دو لشکر ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ کو حرام
کر دیا، ایک وہ لشکر جو ہندوستان پر حملہ کرے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریم
علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔’’ (صفحہ 52، نسائی شریف۔باب
‘‘غزوۃ الہند’’)
اسی
بارے میں ایک روایت حضرت ابوہریرہt سے بھی
مروی ہے جو مسند میں امام احمد بن حنبلؒ نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَة قَالَ وَعَدَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ غَزْوَةَ الْھِنْدِ فَاِنْ اُدْرِکْتُھَا اُنْفِقُ فِیْہَا نَفْسِیْ
وَمَالِیْ وَاِنْ اُقْتَلُ کُنْتُ مِنْ اَفْضَلُ الشُّہَدَاءِ وَاِنْ اُرْجِعُ
فَاَنَا اَبُوْھُرَیْرَةَ الْمُحَرَّرُ۔
حضرت
ابوہریرہt فرماتے ہیں کہ
رسول اللہﷺ نے ہم سے ‘‘غزوةُ الہند’’ کا وعدہ فرمایا ۔ اگر مجھے یہ نصیب ہوا تو اپنی جان اور مال اس میں کھپا
دوں گا اور اگر میں اس میں مارا گیا تو میں افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا اور اگر
زندہ واپس لوٹا تو میں (ابوہریرہt) آگ سے نجات یافتہ ہوں گا۔ (مسنداحمد، ج۔12،ص:28)
امام بخاریؒ کے استاذ نعیم بن حمادؒ نے اسی روایت کو نقل
کرتے ہوئے وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ
کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
حضرت عبداللہ شاہؒ
تک جب ‘‘غزوةُ الہند’’ کی حدیث مبارک پہنچی تو انہوں نے بلاتوقف وطن چھوڑا اور اس
زمانے کی معروف سلطنت ِہند کی جانب روانہ ہوئے کہ مبادا اِس غزوہ میں شرکت کے
اعزاز سے محروم رہ جائیں جس پر آقائے نامدارﷺ نے بلاحساب جنت میں
داخلے کی بشارت دی تھی۔ اس نوع کی بشارت یا تو حضورﷺ کے مقدس دور میں آپﷺ کے خوش قسمت
صحابہ کرامy کے حصہ میں آئی جیسے عشرہ مبشرہy ، اہل بدر،
بیعت رضوان میں شریک صحابہ کرامy اور اب یہ اعزاز ‘‘غزوةُ الہند’’ میں شریک ہونے
والوں کے حصہ میں آئے گا۔ ان مجاہدین کی خوش بختی کا کیا کہنا جنہیں ‘‘غزوةُ الہند’’
میں عملاً شرکت نصیب ہو گی لیکن ہر دور میں وہ گلیم پوش جن کے دن گھوڑوں کی پیٹھ
پر اور راتیں سجدوں میں گزرتی تھیں، سب کے سب غزوةُ الہند کی آرزو کرتے رہے۔
غزوہ
اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں حضورﷺ بنفس نفیس شریک ہوں۔ عجیب بات یہ
ہے کہ اس غزوہ کو رسول اللہﷺ کے بعد وقوع پذیر ہونا ہے اور عجیب تر
یہ کہ شریک ہونے والوں کو حساب کتاب کے بغیر جنت کی بشارت ہے اور ایک حدیث پاک میں
آنجنابﷺ کا یہ ارشاد بھی مذکور ہے کہ
ہند کے ساحلوں سے آپﷺ کو ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت امیرالمکرم کی موجودگی میں ایک عالمی شہرت یافتہ
عالم نے یہ کہہ دیا کہ ‘‘غزوةُ الہند’’ کے متعلق احادیث میں لفظ ‘‘غزوة’’
صرف اصطلاحاً استعمال ہوا ہے۔ حضرت امیرالمکرم نے اس پر گرفت فرمائی کہ آقائے
نامدارﷺ جو الفاظ مبارک
استعمال فرماتے ہیں وہ محض اصطلاحاً نہیں ہوتے
بلکہ حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔
حضرت
عبداللہ شاہؒ کو ایک لحاظ سے غزوةُ الہند میں شرکت کرنے والے عالمِ اسلام کے جیوش
کا سرخیل قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسی تمنا میں وطن چھوڑا اور آج ماڑی پور
کے ساحل ِسمندر پر آرام فرما ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت جؒی نے ان کا خصوصی اکرام
فرمایا اور جب انہوں نے دعوت دی تو ان کے مزار پر حاضری دی۔ ‘‘غزوۃ الہند’’ کے تذکرہ کے دوران حضرت جؒی سے احباب نے غزوةُ الہند کے
متعلق سوال کیا کہ یہ کب پیش آئے گا؟ آپؒ نے فرمایا، دیکھ لو۔ بعض اوقات اہل اللہ
کی نگاہِ بصیرت کے سامنے اللہ تعالیٰ ایسے واقعات منکشف فرما دیتے ہیں جن کا تعلق
مستقبل سے ہوتا ہے۔ احباب کے اس سوال پر یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت پیش آئی۔ حضرت
جیؒ کے فرمانے پر کہ دیکھ لو، صاحب کشف
احباب نے مشاہدہ کیا کہ اس غزوہ میں شرکت کرنے والے جیوش کا تعلق مختلف اقوامِ
عالم سے ہے۔ان کے لباس مختلف، نسلیں اور حلیٔے مختلف ہیں لیکن سب میں ایک قدر
مشترک ہے کہ وہ غزوةُالہند کے بارے میں آقائے نامدارﷺ کے فرمان کے پیش
ِنظر جذبہ ٔشہادت سے سرشار بلاامتیاز ِملک و قوم اس میں شریک ہیں۔
حضرت عبداللہ شاہؒ کے حوالے سے اوائل 1971ء میں ‘‘غزوۃ
الہند’’ کے متعلق حضرت جؒی کی زبان مبارک سے یہ پہلا تذکرہ تھا۔ اب اس غزوہ کے
آثار ہویدا ہو رہے ہیں تو اس موضوع پر بات چل نکلی ہے لیکن کم و بیش نصف صدی قبل ‘‘غزوۃ
الہند’’ کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ جہاد کے موضوع پر جو
معروف کتب لکھی گئیں، ان میں ‘‘غزوۃ الہند’’ کا تذکرہ ندارد!
1972ء
میں روسی بحریہ کا ایک ٹرالر کراچی کے ساحل سے کچھ فاصلہ پر کھلے سمندر میں
پراسرار طور پر لنگر انداز تھا۔ یہ بات زبان زدِ عام
تھی کہ یہ ٹرالر ایک گمشدہ روسی آبدوز کی تلاش میں ہے جو 1971ء کی جنگ میں دشمن کی معاونت کے
لئے آئی لیکن یہاں غرقاب ہو گئی۔ روسی جہاز کی پاکستانی سمندروں میں موجودگی کی
وجہ سے کراچی کے عوام میں خاصی سراسیمگی پائی جاتی تھی اور 1971ء کی جنگ کی بازگشت کے طور پر
لوگ ایک اور جنگ کی توقع کر رہے تھے۔ انہی دنوں حضرت جؒی معمول کے تربیتی دورہ پر
کراچی تشریف لائے تو احباب نے یہاں کے حالات بیان کرتے ہوئے آپؒ کی خدمت میں ایک
اور جنگ کے خدشہ کا اظہار کیا۔اس پر آپؒ نے فرمایا:
‘‘1971ء
کی جنگ کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے مابین اب کوئی بڑی جنگ نہیں ہوگی سوائے
غزوةُ الہند کے جس میں فتح ہماری ہوگی۔’’
حضرت
جؒی کو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ذرہ بھر شائبہ نہ تھا کہ ‘‘غزوةُ الہند’’ سے
قبل اس پر کوئی بڑی جنگ مسلط نہ کی جا سکے گی، جس کا آپؒ نے بارہا اظہار فرمایا۔
حضرت جؒی کے اس فرمان کے بعد اب نصف
صدی بیتنے کو ہے لیکن اس کی حقانیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
1980ء کے سالانہ اجتماع میں احباب حضرت جؒی کی خدمت میں
حاضر تھے۔ اس سے قبل 1979ء میں افغانستان پر روس
کا بڑا حملہ بھی ہو چکا تھا۔ جس کے حوالے سے کرنل گلزار نے پاکستان کے متعلق خدشات
کا ذکر کیا تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘مراقبہ کی حالت میں دیکھا کہ منبر ِرسولﷺ
کے دائیں اور بائیں سے مسلح گھڑ سوار تیزی سے پاکستان کی طرف بڑھے۔ پاکستان اور
افغانستان کے درمیان پہاڑ کی طرح دیوار حائل ہو گئی۔ روسی ٹینک آتے اور ٹکرا
کرواپس چلے جاتے۔’’
حضرت جؒی نے یہ مشاہدہ بیان کرنے کے بعد فرمایا:
‘‘روس پاکستان پر کبھی حملہ نہ کرے گا۔’’
اسی موقعہ پر آپؒ نے مزید فرمایا:
‘‘پاکستان کی حدیں وسیع ہو جائیں گی، ہندوستان
کے ساتھ بڑی جنگ ہو گی، کشمیر فتح ہو جائے گا، دہلی فتح ہو گی۔ فاتح جنرل اپنا
ساتھی ہوگا۔ اس موقع پر اس قدر خوش ہو گا کہ دل پھٹ جائے گا اور اپنی فتح کو دیکھ
نہ پائے گا۔’’
حضرت
جؒی کے اس ارشاد کے مطابق کہ اب غزوةُ الہند سے قبل پاکستان کی ہندوستان سے کوئی بڑی
جنگ نہ ہوگی، فتح کی یہ نوید ‘‘غزوةُ الہند’’ ہی کے متعلق ہو سکتی ہے۔ غزوہ ہونے کی
نسبت سے اس میں حضورﷺ کی شرکت کس طرح ہو گی؟
اہل ِطریقت کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ ہو گا کہ عالم برزخ میں تشریف فرما ہونے کے
باوجود کثرتِ توجہ ذاتی معیت کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے، واللہ اعلم۔
حضرت عبداللہ شاہؒ بھی منتظر ہیں کہ ‘‘غزوةُ الہند’’ کا آغاز ہو اور وہ اس میں روحانی طور پر شریک ہوسکیں۔
ان کے مزار پر حاضری کا موقع ملا تو ان کا یہ کلام سمجھ میں آیا،
‘‘وہ
غزوةُ الہند میں شریک ہوں گے اور حضرت ابوہریرہt بھی۔’’
اس وقت تک اس غزوہ کے بارے میں
حضرت ابوہریرہt کی روایت علم میں نہ تھی۔ جب یہ روایت ملی کہ انہوں نے بھی ‘‘غزوةُ
الہند’’ میں شرکت کی شدید خواہش کا اظہار فرمایا تھا تو معلوم ہوا کہ ہر وہ شخص جو ‘‘غزوةُ
الہند’’ میں شرکت کی تمنا لئے دنیا سے
رخصت ہوا، وہ بھی اس غزوہ میں شریک ہو گا لیکن روحانی طور پر۔ شرکت کی صورت جو بھی
ہو، بلاحساب جنت میں داخلہ کی سند تو مل چکی لیکن اصل خوش نصیبی یہ ہے کہ غزوہ
ہونے کی نسبت سے اس کے شرکاء کو آقائے نامدارﷺ کی معیت بھی نصیب ہو گی۔
مرورِزمانہ پر نگاہ رکھنے والے علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘‘غزوۃ
الہند’’ کا آغاز سیدنا عمرفاروقtکے عہد میں بت کدہ ہند پر سب سے پہلی
یلغار سے ہوا ،اور حضرت محمدبن قاسؒم کی سندھ اور موجودہ پنجاب کے بعض علاقوں کی
فتوحات بھی اسی غزوہ کا تسلسل ہے جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بلادِ ہند کو شرک
سے مکمل طور پر پاک کرنے کے بعد اسلام کا گہوارہ نہیں بنا دیا جاتا۔
ماضی میں
‘‘غزوۃ الہند’’ کے متعلق بہت کم تذکرہ ملتا ہے اور بعض علماء نے تو اس موضوع پر
احادیث کی صحت کے متعلق تحفظات کا اظہار کیا ہے۔سلسلۂ عالیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے
کہ حضرت جؒی نے احادیث نبویﷺ کی روشنی میں اس غزوہ کے بارے میں کھل کر بات کی اور
وہ حقائق بیان فرمائے، وقت جن کی توثیق کر چکا ہے۔ اب
‘‘غزوۃ الہند’’ حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کا مستقل موضوع ہے اور وہ اس کے بارے
میں اس اعتماد سے بات کرتے ہیں گویا اسے وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔ اب
نہ صرف یہ موضوع عام ہو چکا ہے بلکہ ‘‘غزوۃ الہند’’ کے آثار اس تیزی سے ہویدا ہو
رہے ہیں جوامت مسلمہ میں صرف تیقن ہی نہیں بلکہ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کا بھی
ذریعہ ہیں۔ آج یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ ہو رہا ہے تو بعض احادیث کی روشنی میں اس کا
تدارک بھی مجاہدین ہند اور مجاہدین فلسطین ہی کریں گے، اِنْ شَاءَ اللّٰہ!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔