ANTI-ADBLOCK JS SYNC خدایا ایں کرم بارِ دِگرکُن ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

خدایا ایں کرم بارِ دِگرکُن

خدایا ایں کرم بارِ دِگرکُن

            اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں کا ادراک نصیب ہو تو احساسِ تشکر کے ساتھ ساتھ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں یہ آرزو بھی مچلنے لگتی ہے کہ عطاؤں کا یہ سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو اور جودو سخا کی بارش اسی طرح برستی رہے۔ اس عالم میں زبان پر بے ساختہ یہ دعا جاری ہو جاتی ہے:
‘‘خدا یا ایں کرم بار ِدِگر کُن’’
            ذکرِ الٰہی کی محافل میں بارہا یہ کیفیت دیکھنے میں آئی کہ حضرت جؒی کی زبان مبارک پر یہ مصرع جاری ہو جاتا اور پھر اس قدر تکرار فرماتے گویا آپؒ نے دامانِ رحمت کو تھام رکھا ہو اور اس وقت تک مانگتے چلے جائیں گے جب تک قبولیت کا پروانہ عطا نہ ہو جائے۔ کچھ دیر بعد آپؒ کی آواز سسکیوں میں ڈوب جاتی اور پھر دیر تک رقت کی حالت طاری رہتی۔ حضرت جؒی مستجاب الدعوات تھے اور اس پر مانگنے کا یہ عالم! قبولیت کے نتیجے میں یہ کرم بارِدِگر ہی نہیں بلکہ آپؒ کی مبارک زندگی میں مسلسل اور روز افزوں نظر آتاہے۔اس باب میں ‘‘بارِ دِگرکُن’’ کے حوالے سے حضرت جؒی کے حجِ ثانی کا تذکرہ ہے۔
            حضرت جؒی نے 13 اگست 1972ء کے ایک مکتوب میں منارہ کے سالانہ اجتماع کے متعلق فرمایا:
‘‘اس سال جو انعام کی بارش رفقاء پر ہوئی وہ اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔تمام مناصب سلسلوں سے منتقل ہو کر ہمارے سلسلہ میں آگئے۔ رسول اکرمﷺ فِداہُ اُمی و اَبی نے پھر فرمایا کہ عرب آئیں اور حسبِ فرمان تیاری ہے۔’’
  ساتھیوں کو جب اطلاع ہوئی کہ حضرت جؒی عمرہ کی تیاری فرما رہے ہیں تو آپؒ کی معیت میں عمرہ کے لئے کئی احباب نے تیاری شروع کر دی۔ ان میں سے اکثر وہ لوگ تھے جو حضرت جؒی کے پہلے سفرِ حرمین کے احوال سے متأثر ہو کر اس مرتبہ آپؒ کے ہمراہ فیوض و برکات سے مستفید ہونے کی خواہش رکھتے تھے وگرنہ فریضہ ٔحج ادا کرنا چاہتے تھے نہ آپؒ کے بغیر عمرہ کے لئے تیار۔ حضرت جؒی نے یہ احوال دیکھ کر عمرہ کا ارادہ ترک فرما دیا اور  7جولائی 1973ء کے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
‘‘میں نے عمرہ کا ارادہ اس لئے ترک کر دیا ہے کہ من جانب اللہ سخت غائبانہ تنبیہ ہوئی کہ جو آدمی آپ کے ہمراہ عمرہ پر جا رہے ہیں، یہ محض آپ کی صحبت چاہتے ہیں۔ کبھی آپ حج پر نہ جا سکیں تو یہ حج کو بھی ترک کر دیں گے۔ جن پر عمرہ ہے، ان پر حج بھی فرض ہے۔ نتیجتاًیہ تارکِ فرضیت بن جائیں گے۔’’
            اہم شخصیات کی معیت میں قافلوں کی صورت میں اور جہاز بھر کر حج و عمرہ پر جانے کا موجودہ رجحان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری اور روضۂِ اطہرﷺ کی زیارت کے جذبۂ صادق سے میل نہیں رکھتا۔سفرِحرمین اگر شیخ کی معیت میں ہو تو یہ خوش قسمتی ہو گی لیکن اس صورت میں بھی حج اور عمرہ کی نیت خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہونی چاہئے نہ کہ شیخ کے ساتھ مشروط کہ اگر وہ نہ جا سکیں تو خود بھی نہ جائیں گے ۔ اب یہ مقامِ فخر بن چکا ہے کہ کون کس کے ساتھ عمرہ پر گیا اور کن صاحب کے ساتھ کتنا بڑا قافلہ شریکِ سفر تھا لیکن حضرت جؒی نے عمرہ کا پروگرام ختم کرتے ہوئے اس رجحان کی حوصلہ شکنی فرمائی۔
            حضرت جؒی کی معیت میں عمرہ کے لئے ایک طرف تو ایسے احباب تیار ہو گئے تھے جن کی وجہ سے آپؒ کو عمرہ کا پروگرام تبدیل کرنا پڑا لیکن کچھ ایسے خوش نصیب بھی تھے جن کے ذاتی مسائل اگرچہ سدِّ راہ تھے لیکن آپؒ نے انہیں ساتھ چلنے کی تاکید فرمائی۔ حضرت امیر المکرم کے نام آپؒ نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
‘‘حج کی پوری تیاری کر لیں۔ تمہاری نیت میں تردُّد معلوم ہوتا ہے۔ اس تردُّد کو دور کریں۔’’
ایک اور مکتوب میں تحریر فرمایا:
‘‘آپ کواللہ و رسولﷺاور مشائخ کی طرف سے زنجیر ڈال کر حج پر لے جایا جا رہا ہے، سوچیں! آپ کو غالباً بلکہ یقیناً آسمان و زمین کا ستونی منصب ملنے والا ہے۔اس امر کو دل میں رکھیں، کسی سے اظہار نہ کرنا۔ میں نے کافی عرصہ سے اس منصب کے بارہ میں آپ کا نامِ نامی پیش کیا، یہ منصب، اطاعت ِ اللہ و رسولﷺ کی وساطت سے اور مشائخ کے جوتوں کی دھوڑ (خاک) کو سُرمہ بنانے سے ملتا ہے اور خود ذاتِ           ربّ العالمین اس بندہ کو اِستعداد بھی ودیعت فرماتے ہیں۔’’
            حضرت جؒی کے سفر ِحرمین سے بعض ایسے باطنی معاملات بھی وابستہ ہوتے جن کے لئے           دربارِ نبویﷺ  میں روحانی حاضری کے علاوہ جسم و جان کے ساتھ حاضری بھی لازم تھی۔ آپؒ کے مکتوبات سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ اس سفرِحرمین سے قبل آپؒ کو دربارِ نبویﷺ میں حاضری کے لئے طلب فرمایا گیا اور جب ظاہری اسباب سدِّراہ بنے تو ہدایت فرمائی گئی کہ ان کا خیال چھوڑ دیں۔ وہاں عطا ہونے والے انعام و اکرام میں مناصب کی ترقی بھی شامل تھی جس کی طرف حضرت جؒی نے اپنے اس مکتوب میں اشارہ فرمایا ہے۔ زمین و آسمان کے ستونی منصب کا تعلق اگر آپؒ کے شاگرد رشید            حضرت امیر المکرم سے تھا تو خود آپؒ کا معاملہ کیا ہوگا!
            پہلے حج کے موقعہ پرہوائی جہاز میں نشستیں محفوظ نہ کرانے کی وجہ سے خاصی زحمت ہوئی تھی۔ اس مرتبہ آپؒ نے حضرت امیرُ المکرم کو ہدایت فرمائی:
‘‘سیٹیں کنفرم کرالیں۔ ذی الحجّہ کا چاند لاہور نظر آئے، دوسرے دن سوار ہو جائیں۔ جدہ اتر کر فوری مکہ ٔ مکرمہ، چھ سات دن حج کے اوّل کافی ہیں لیکن عمرے بھی ہو سکتے ہیں۔ 12 ذی الحجہ کو مکہ ٔ مکرمہ سے فارغ ہو کر سیدھا مدینہ طیبہ، آٹھ دن مسلسل چالیس نمازیں مسجد نبویﷺ میں ہو جائیں۔ یہ حساب خود کر لینا۔ نویں دن مدینہ سے واپس جائیں مگر واپسی کی سیٹ اوّل کنفرم کرائیں جدہ سے کراچی کی۔ جدہ سے کراچی کی سیٹ میں واپسی پر سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اوّل لاہور، کراچی سے کرالیں۔ 12 تا 13 ذی الحجہ کو مکہ ٔمکرمہ سے روانگی مدینہ ٔ طیبہ کی، آٹھ دن مدینہ ٔطیبہ کافی ہیں۔ سو یہ انتظام کر لیں تو سارے بیس یا پچیس دن آنے جانے پر خرچ ہو ں گے۔ ایک ماہ کے اندر واپس آ سکتے ہیں۔’’
            قرعہ اندازی کے تکلف میں پڑنے کی بجائے نیروبی ایئرلائن سے جدہ کے ٹکٹ حاصل کئے تواسی ایئر لائن کی وساطت سے سعودی عرب کا ویزہ بھی مل گیا۔حسب ِ سابق حضرت جؒی نے احباب کے ہمراہ لاہور سے کراچی کا سفر بذریعہ عوامی ایکسپریس کیا۔ آپؒ کے ساتھ 15 احباب کی خوش قسمت جماعت میں دو خواتین بھی تھیں۔کراچی میں مختصر قیام کے بعد جدہ روانگی ہوئی اور وہاں سے حسبِ پروگرام مکہ ٔمکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کیا۔مکہ ٔمکرمہ میں رہائش کے لئے جو مکان ملا وہ محلہ جیاد میں تھا۔عجیب بات ہوئی کہ یہاں بے قراری کے عالم میں پہلو بدلتے ہوئے رات گزری حالانکہ دن بھرسفر اور عمرہ کی تھکاوٹ بھی تھی۔ علی الصبح حضرت امیر المکرم نے رات کی کیفیت بیان کی تو حضرت جؒی نے فرمایا:
‘‘یہ مکان اس جگہ تعمیر ہے جہاں ابوجہل نے آلِ یاسرy  پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے جس کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔’’
          یکم جنوری 1974ء یومُ التَروِیہ یعنی آٹھ ذی الحجہ تھا۔ مناسکِ حج کا آغاز احرام باندھنے سے ہوا۔ شرعی رخصت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طواف کے ساتھ سعی بھی کر لی گئی تاکہ واپسی پر جب تھکاوٹ اور ہجوم کی وجہ سے سعی کرنا مشکل ہو تو صرف طوافِ زیارت پر ہی اکتفا کیا جا سکے۔ طواف اور سعی کے بعد منیٰ کے لئے پیدل روانگی ہوئی۔ ظہر کے وقت مسجدِ خیف کے قریب پہنچے تو ایک ساتھی کو معلّم اور خیمہ کی تلاش میں بھیجا۔ وہ کچھ دیر بعد واپس آیا اور قیام گاہ تک رہنمائی کی لیکن احباب کی زیادہ تعداد کی وجہ سے دو خیموں میں قیام ممکن ہوا۔
            اگلے روز بس کے ذریعے وقوفِ عرفات کے لئے روانگی ہوئی۔ چونکہ یہاں تمام انتظامات معلّم کے ذمہ تھے، اسی کے خیمہ میں ڈیرہ ڈالا اور اس کی روایتی مہمان نوازی سے استفادہ کیا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو حضرت جؒی نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ یہاں آپؒ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ اگر مسجد ِنمرہ میں امام کی اقتداء میں نماز ادا کی جائے تو ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر پڑھی جائیں لیکن نماز الگ سے ادا کرنی ہو تو ظہر اور عصر کو اپنے اپنے وقت پر ادا کیا جائے۔ نمازِ عصر کے بعد ذکر و اذکار اور دعاؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو مغرب سے کچھ عرصہ قبل حضرت جؒی کے ہمراہ اجتماعی دعا پر تمام ہوا۔
            میدانِ عرفات سے بذریعہ ٹیکسی مزدلفہ پہنچے اور یہاں کے مناسک کے تحت نما زِمغرب مؤخر کرتے ہوئے عشاء کے ساتھ ادا کی۔ کھلے آسمان تلے ذکر و اذکار اور دعاؤں میں رات بسر ہوئی، صبح رمی کے لئے کنکریاں اکٹھی کیں اور منیٰ پہنچے۔ رمی اور قربانی کے بعد حلق کی شرط ادا کی اور احرام کھول دیا جس کے ساتھ ہی فریضہ حج کی تکمیل ہوئی۔ اگلے روز تینوں جمرات کو رمی کی، حرم شریف جا کر طوافِ زیارت کیا اور واپس منیٰ آگئے۔ تیسرے روز جمرات کو آخری رمی کی گئی اور بعد از نمازِ ظہر مکہ ٔمکرمہ کے لئے روانگی ہوئی۔
            مکہ ٔمکرمہ میں چار روز گزارنے کے بعد رات طوافِ وداع کیا اور 10جنوری کو نمازِ فجر کے بعد پندرہ سیٹوں والی ٹیکسی کے ذریعے مدینہ ٔمنورہ کے لئے روانگی ہوئی۔ بدر کے مقام پر ظہرانہ اور شہدائے بدر کی خدمت میں حاضری کے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا۔ مدینہ طیبہ پہنچے تو نمازِ عصر مسجدِ علی میں ادا کرنے کے بعد مکان کی تلاش شروع ہوئی۔ یہ مرحلہ بآسانی طے ہوا اور حسب ِخواہش جلد ہی تسلی بخش مکان مل گیا۔
            11 جنوری1974ء کادن سیّد الایام تھا اور علی الصبح دربارِ رسالتﷺ میں حاضری کا بھی پروگرام تھا۔ حضرت جؒی نے ہدایت فرمائی کہ تمام احباب حضورﷺ کا پسندیدہ سفید لباس پہنیں اور خوشبو لگائیں۔ آپؒ کی معیت میں احباب، بابُ السلام سے مسجد ِنبویﷺ میں داخل ہوئے اور روضۂ اطہرﷺ کے سامنے مواجہ شریف میں کھڑے ہو کر دست بستہ سلام پیش کیا۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیقt اور سیدنا حضرت عمرt کی خدمت میں سلام عرض کیا اور باہر آگئے۔
             قدمین مبارک کی سمت بیرونی دیوار میں کھڑکی سے متصل ایک چھوٹا سا باغیچہ ہوا کرتا تھا۔حضرت جؒی احباب کے ہمراہ یہاں قبلہ رو بیٹھ گئے اورذکر کے بعد پہلے تین ساتھیوں کو دربارِ نبویﷺ میں پیش کیا جن کی تجدید ِ بیعت ہوئی اور انعامات عطا ہوئے۔ یہ ساتھی حضرت امیر المکرم، حافظ عبدالرزاقؒ اور مولوی سلیمان تھے۔ حضرت جؒی کے منصب میں ترقی ہوئی اور اسی موقع پر حضرت امیرالمکرم کو روحانی طور پر نئے منصب کے ساتھ خصوصی سند بھی عطا ہوئی۔ان احباب کے بعد باقی ساتھیوں کی تجدید ِبیعت ہوئی اور حضورﷺ کے صدقے وہ انعام و اکرام عطا ہوئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اس طرح جن خصوصی انعامات کا ذکر حضرت جؒی نے منارہ کے اجتماع میں کیا تھا ان کی توثیق ہوگئی۔ اس موقع پر بعض ایسے ساتھی بھی نوازے گئے جو اس سفر حج میں حضرت جؒی کے ہمراہ نہ تھے۔ آپؒ نے مدینہ طیبہ سے ان کے نام مکتوب تحریر فرمائے۔ ایک ساتھی کے نام تحریر فرمایا:
آج دربارِ نبویﷺ سے آپ کو دو انعام عطا ہوئے۔
 حضورﷺ نے فرمایا:
‘‘اسے میرا سلام پہنچا دو اور اسے اس بات کی بشارت دے دو کہ ہم تم سے خوش ہیں۔’’
میری طرف سے آپ کو انعامات ملنے کی مبارک ہو۔
تمام جماعت کی جب غائبانہ بیعت ہوئی تو 15آدمی حضورﷺ نے خود منتخب فرمائے۔ ان پندرہ سے چار آدمی آگے آئے اور ان کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا گیا۔
                       
اللہ یار خان۔ مدینہ طیبہ 16/1/74
          12 جنوری سنیچر کادن تھا۔ حضورﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ اس روز قبا تشریف لے جاتے۔ اسی سنّتِ مبارکہ کی اتباع میں قبا جانے کا پروگرام بنا۔ پہلے جنت البقیع گئے اور آقائے نامدارﷺ کے آسودۂ خاک اہل ِخانہ اور صحابہ کرام] کی خدمت میں سلام عرض کیا اور دعا کی درخواست کی۔ ان کی طرف سے شکوہ ہوا کہ کل جمعہ کے روز یہاں آنا چاہئے تھا کیونکہ یہ بھی ایک سنت نبویﷺ تھی جو رہ گئی۔ قبا پہنچے تو سب سے پہلے مسجد ِشمس میں نوافل ادا کئے جس کے بعد مسجد ِقبا میں حاضری دی اور یہاں بھی نوافل ادا کئے۔ پاس ہی وہ چبوترہ بھی دیکھا جہاں بنی نجّار کی بچیوں نے حضورﷺ کا استقبال ان شعروں سے کیا تھا۔
طلع البدر علینا

من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا

ما دَعَا للہ داع
            ظہر کی نماز واپس آکر مسجد ِنبویﷺ میں ادا کی۔ اتوار کی شب خوب بارش ہوئی جو صبح تک جاری رہی۔حضرت امیرالمکرم مسجد ِنبویﷺ پہنچے اور بابِ جبریل کے قریب پرنالے کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ گنبد ِ خضرا سے مس کرتا ہوا بارش کا پانی بھی اسی پرنالے سے بہہ رہا تھا۔ خوب شرابور ہوئے اور کچھ پانی ساتھ بھی لائے۔بچپن میں ایک مرتبہ درآمد شدہ مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے جلد کی سوزش لاحق ہوگئی تھی جس کے اثرات طویل علاج کے باوجود ابھی تک باقی تھے۔ اس مقدّس پانی سے شرابور ہوئے تو یہ دیرینہ مرض جاتا رہا۔
            مدینہ ٔمنورہ قیام کے دوران روزانہ کا معمول رہا کہ مواجہ شریف کی حاضری اور سلام کے بعد قدمین مبارک کی جانب مسجد ِنبویﷺ سے متصل باہر چمن میں مغرب کی نماز کے بعد ذکر اور مراقبات کی نشست ہوتی۔ قیام گاہ پر دوبارہ بھرپور ذکر ہوتا اور اسی طرح قیام گاہ پرہی تہجد کے وقت بھی اجتماعی ذکر کیا جاتا۔ اسی دوران سیّدنا امیرحمزہt کے مزار پر حاضری کے علاوہ غزوۂ اُحد کے میدان کی زیارت کی، جبکہ کچھ ساتھی اس غار کی زیارت کیلئے بھی گئے جہاں حضورﷺ نے زخمی حالت میں قیام فرمایا تھا۔
             مدینہ ٔمنورہ میں قیام کا عرصہ مکمل ہوا تو عصر کے وقت دربارِ رسالتﷺ سے واپسی کی اجازت لی اور بذریعہ بس جدہ پہنچے ۔اگرچہ سیٹیں کنفرم تھیں لیکن یہاںمزید دو  روز ر کنا پڑا۔ نیروبی ایئر لائن اور    پی آئی اے میں باہم سیٹوں کا تبادلہ ہوا تو حضرت جؒی،ملک خدا بخشؒ کے ہمراہ پہلی فلائٹ سے کراچی پہنچے جبکہ حضرت امیرالمکرم کے ساتھ باقی احباب کو مزید چند روز جدّہ میں قیام کرنا پڑا۔
سلسلۂ عالیہ میں مناصب کی منتقلی
            حج سے واپسی پر حضرت جؒی نے کراچی میں چند روز قیام فرمایا۔ اس دوران پاکستان نیوی کے چند بنگالی ساتھی بنگلہ دیش منتقل ہونے سے پہلے الوداعی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ حضرت جؒی نے احباب کی اس محفل میں فرمایا :
‘‘عمرہ[1] پر حضورﷺ نے خصوصی طور پر طلب فرمایا تھا۔ جس کی وجہ تین صد مناصب بشمول نجباء، نقباء، اوتاد وغیرہ خالی پڑے تھے۔ ان مناصب کو سلسلہ میں تفویض فرمایا گیا۔ میں اب چکڑالہ جاؤں گا اور اطمینان سے اہل ساتھیوں کو ان مناصب پر فائز کروں گا۔’’
ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
‘‘اِنْ شَاءَ اللّٰه جو منصب بھی خالی ہوتا چلا جائے گا، وہ سلسلۂ عالیہ میں منتقل ہوگا۔’’
            اس سے قبل سفر حج کے باب میں یہ تذکرہ گزر چکا ہے کہ روضۂ اطہرﷺ پر حاضری کے موقعہ پر چار احباب کے نام ملفوف عطا ہوئے تھے جن کی تعبیر کرتے ہوئے حضرت جؒی نے بتایا کہ قطبیت کے چاروں مناصب سلسلۂ عالیہ میں منتقل ہوگئے ہیں۔ سلسلۂ عالیہ میں مناصب کی منتقلی کا یہ عمل کچھ عرصہ سے مسلسل جاری تھا۔ یہاں اقطاب کے مناصب کی بات ہو رہی ہے لیکن ابدالوں کے بارے میں  حضرت امیر المکرم کے ایک خط میں تذکرہ ملتا ہے جو انہوں نے 20 مارچ 1971ء کو حضرت جؒی کی خدمت میں تحریر کیا تھا۔ اس خط میں انہوں نے اپنے ایک مشاہدہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا:
‘‘بارگاہِ رسالت پناہیﷺ سے طلبی ہوئی..... بندہ جب حاضر ہوا تو مسئلہ ابدالوں کا پیش تھا، جماعت ابدالوں کی بھی حاضر تھی اور خیال یہ ہے کہ دو ابدال کل اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے ان کی جگہ نئے آدمیوں کا تقرر ہونا تھا۔ بندہ نے آپ (حضرت جؒی) کا اشارہ پا کر دو صاحبان (نام تحریر کئے گئے لیکن یہاں عمداً ظاہر نہیں کیے جا رہے) کو پیش کیا جنہیں منظور فرما لیا گیا۔ ایک صاحب کو تسبیح اور قرآن کریم عطا ہوا اور دوسرے صاحب کو ایک رومال    اور قرآنِ حکیم عطا ہوا۔ بندہ نے تیسرے صاحب کو پیش کرنا چاہا مگر اسے مؤخر کر دیا گیا۔ علی الصبح تمام مشاہدہ پیش خدمت ہے۔ امید ہے اس کی تعبیر سے سرفراز فرمائیں گے۔ نیز جو چیزیں عطا ہوئی ہیں ان کی تعبیر سے بھی سرفراز فرما دیں......’’
حضرت جؒی نے اس مشاہدہ کی تعبیر میں تحریر فرمایا:
‘‘...... دو ابدالوں کا فوت ہونا ٹھیک ہے اور ان تین آدمیوں کا وہاں دیکھنا بھی ٹھیک ہے .... اور آپ کا پیش کرنا بھی ٹھیک ہے۔ منصب کا ان کو ملنا، اس میں آپ کو اور ان کو غلطی لگی ہے۔ ....... (ایک صاحب کا نام تحریر فرمایا) کو تسبیح اور قرآن کا ملنا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کو نیکی کی طرف رغبت دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ فی الحال آپ میں اس منصب کی اہلیت نہیں. ...... (دوسرے صاحب کا نام تحریر فرمایا) کو رومال ملنا، یہ اعزاز کی دلیل ہے اور قرآن، عمل صالح کی رغبت کے لئے ہے۔ آپ کو یہ بتایا گیا ہے کہ دو آدمیوں کی جگہ خالی ہے اور یہ جگہ چھ ماہ کے اندر پُر ہو گی اور ہماری جماعت سے ہو گی.......’’
            جدہ سے باقی احباب کی آمد پر حضرت جؒی بذریعہ عوامی ایکسپریس کراچی سے روانہ ہوئے اور جہلم سے بذریعہ کار چکڑالہ مراجعت بخیر ہوئی۔
          حضرت جؒی نے حجِ اوّل کے دوران پیش آنے والے اہم واقعات اور روحانی واردات کو خود قلمبند کروا دیا تھا جن کا تذکرہ ‘‘اسرار الحرمین’’ میں موجودہے۔ اسی طرح 1977ء میں آپؒ کے عمرہ کے سفر کی روداد بھی حضرت امیر المکرم کے قلم سے ‘‘دیارِ حبیب میں چند روز’’ اور حافظ عبدالرزاقؒ کی تحریر  ‘‘خدایا ایں کرم بارِدِگر کُن’’ میں محفوظ ہے لیکن حجِ ثانی کے واقعات کتابی شکل میں شائع ہوئے نہ محفوظ کئے جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر یہ چند اوراق تشنگی کا شکار نظر آئیں گے۔



[1]ـ ابتداً عمرہ کا پروگرام تھا’ جو حج ثانی میں تبدیل ہؤا۔

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو