بیرونِ ملک ترویجِ
سلسلۂ عالیہ
بیرونِ ملک سلسلۂ عالیہ کی ترویج کا آغاز 1972ء
میں ہوا جب چین کے سرحدی صوبے کاشغر میں گلگت کے احباب کے ذریعے سلسلۂ عالیہ کی
دعوت پہنچی۔ یہاں سے کچھ لوگ منارہ کے سالانہ اجتماع میں شریک بھی ہوئے جس کا
تذکرہ حضرت جؒی نے اپنے مکتوبات میں فرمایا ہے۔ اسی سال بنگلہ دیش کا قیام عمل میں
آیا تو وہ احباب جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، بشمول میجر زین العابدین اور
پاکستان نیوی کے جناب مزمل حق (صاحب مجاز)، حضرت جؒی سے الوداعی ملاقات کے بعد
بنگلہ دیش چلے گئے۔ ان احباب کے ذریعے بنگلہ دیش میں بھی سلسلہ ٔعالیہ کی ترویج کا
عمل شروع ہوا۔
عرب ممالک میں ترویج ِسلسلۂ عالیہ کی سعادت صوفی محمدافضل
خانؒ اور مولوی فضل حسیؒن کے حصہ میں آئی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انہیں یہ
کام بطورِ خاص تفویض فرمایا گیا۔ ان دونوں حضرات کو مدینہ ٔ منورہ میں قیام
کے دوران آقائے نامدارﷺ کی جانب سے پاکستان جانے
کا حکم ملا۔ مولوی فضل حسیؒن تک یہ فرمان
مولانا عبدالغفور مدنیؒ کے واسطے سے پہنچا اور راقم سے اس کا تذکرہ مولانا فضل حسیؒن
کے صاحبزادے حافظ عبدالرحمٰن نے کیا جبکہ صوفی محمد افضل خانؒ کو خواب میں آقائے
نامدارﷺ کی طرف سے پاکستان جانے کے لئے فرمایا
گیا۔ ایک کیسٹ میں حضرت جؒی نے صوفی محمد افضل خان کے سلسلۂ عالیہ میں شامل ہونے
کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا ہے:
‘‘الحاسہ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ میں قریباً
آٹھ دس سال تک ایک ترک بزرگ کے پاس جاتا رہا۔ آخر ایک روز ان سے کہا کہ مجھے طریقۂ
سلوک کی تعلیم فرمائیے۔ وہ خاموش ہو گئے۔ دوسرے روز فرمایا تمہیں پاکستان میں ایک
کامل اکمل عارف باللہ ملے گا جو براہِ راست رسول اللہﷺ
کے دستِ اقدس پر بیعت کرائے گا۔
کہتا ہے پھر میں مدینہ ٔمنورہ رہا جہاں ایک عارف
باللہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے
فرمایا اگر علمِ سلوک کی
محبت ہے تو پھر پاکستان جاؤ۔ وہاں تم کو خدا کا بندہ مل جائے گا۔ اسی اثناء میں
رسولِ اکرمﷺ نے خواب میں
فرمایا کہ پاکستان جاؤ وہاں تمہیں عارف مل جائے گا۔
وہ کراچی آیا، بڑا پھرتا رہا۔ سجادہ نشینوں کو، علماء کو،
بزرگوں کو ملا لیکن کسی نے قلب تک نہ بتایا۔ تنگ آکر لاہور آگیا۔ لاہور میں بھی
کافی عرصہ تلاش کرتا رہا۔ آخرایک ساتھی سے سمن آباد میں ملاقات ہوئی۔ وہ لے کر
مسجد میں آیا اور حلقہ میں داخل کیا۔ غضب کے مشاہدات رکھتا ہے میں نے منازل ِبالا
طے کراکے اجازت دے کر روانہ کر دیا۔ اِنْ شَاءَ اللّٰه
جوہر بنے گا۔’’
یہ
صوفی محمد افضل خانؒ تھے جن کا تعلق لاہور سے تھا لیکن کئی سالوں سے الحاسہ میں
سعودی عرب کی مشہور کمپنی آرامکو میں تعینات تھے۔ سلسلۂ قادریہ کے ایک ترک بزرگ
سے ملاقات ہوئی تو قریباً ایک عشرہ ان کے زیرِ تربیت رہے۔ علومِ ظاہری کی تکمیل
ہوئی اور ان سے خلافت ملی لیکن جب باطنی تربیت کی درخواست کی تو شیخ نے پاکستان
جانے کے لئے کہا۔ یہی پیغام انہیں مدینہ منورہ میں ایک عارف بااللہ نے بھی دیا لیکن
جب خواب میں آقائے نامدارﷺ کی طرف سے بھی پاکستان
جانے کے لئے فرمایا گیا تو اس کے بعد مزید توقف کی گنجائش نہ تھی۔ ایک سال کی چھٹی
لے کر پاکستان چلے آئے۔ یہاں ایک طویل عرصہ شیخ کی تلاش جاری رہی لیکن جب ہر کوشش
ناکام ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے احبابِ سلسلۂ عالیہ تک پہنچا دیا۔ کچھ عرصہ ان کے ساتھ ذکر کرتے رہے جس کے دوران اللہ تعالیٰ نے
نگاہِ بصیرت بھی عطا کر دی۔
انہوں نے حضرت جؒی کی خدمت میں اپنے باطنی احوال تحریر
کرتے ہوئے حاضری کی اجازت چاہی تو آپؒ نے انہیں چکوال کے حلقۂ ذکر میں ایک ہفتہ گزارنے
کے بعد چکڑالہ آنے کی ہدایت فرمائی۔ حسب ِارشاد چکوال میں ہفتہ بھر محنت کے بعد حضرت
جؒی کی خدمت میں چکڑالہ حاضر ہوئے تو یہاں تین روز مختصر قیام کے بعد نہ صرف آقائے
نامدارﷺ کے دست ِاقدس پر
روحانی بیعت کی سعادت ملی بلکہ آپؒ نے انہیں مقامات بالا میں
بھی چلا دیا۔
صوفی
محمد افضل خانؒ نے کم و بیش دس سال سلسلہ قادریہ کے ترک شیخ کے زیرتربیت صرف باطنی
زمین کی تیاری میں لگا یا تھا۔ حضرت جؒی کے الفاظ کے مطابق، یہ شخص میرے پاس سوکھی
لکڑی کی مانند آیا جسے صرف ماچس دکھانے کی ضرورت تھی ۔ اس کے باوجود حضرت جؒی کی
تیز توجہ برداشت کرنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ ان پر سکتہ کی سی کیفیت طاری ہو
گئی اور حواس جاتے رہے۔ حضرت جؒی نے کمال شفقت سے تین روز تک خود ان کی دیکھ بھال کی اور جب طبیعت
بحال ہوئی تو واپسی کی اجازت دی۔
صوفی
صاحؒب کی پاکستان آمد کا مقصد پورا ہو چکا تھا، حضرت جؒی نے انہیں اپنا مجاز مقرر
فرمایا جس کے بعد وہ سعودی عرب واپس لوٹے جہاں ان کے ذریعے ایک مضبوط جماعت کا قیام
عمل میں آیا۔
حضرت
جؒی نے 1974ء کے ایک مکتوب میں صوفی
محمد افضل خانؒ کے نام سعودی عرب کے ساتھیوں کے بارے میں تحریر فرمایا:
‘‘جس ساتھی میں ورع و تقویٰ پائیں اور متبع شریعت
اور سنت ِ خیرالانامﷺ ہو، اس میں استعداد
بھی ہو توسالکُ المجذوبی طے کرادیا کرنا، منازلِ بالا نہ کرانا، نہ ہی بیعت کرانا۔’’
(مراد آقائے نامدارﷺ کے
دستِ مبارک پر روحانی بیعت کیونکہ اس وقت تک ظاہری بیعت کا آغاز نہ ہوا تھا)
ایک اور مکتوب میں صوفی صاحب کے بارے میں تحریر فرمایا
:
‘‘اِنْ شَاءَ اللّٰه جلد بقائے دائمی شروع
ہو جائے گا، اس کی علامات اب شروع ہو گئی ہیں۔آپ
کو ایک منصب بھی عنایت ہوگا۔ اِنْ شَاءَ
اللّٰه!’’
صوفی محمد افضل، حضرت جؒی کے معتمد علیہ، صاحب ِبصیرت شاگرد
تھے۔ 1976ء
میں حضرت جؒی کی صحبت میں حضرت امیر المکرم کے ڈیرہ نوری پیڑا (موجودہ دارالعرفان)
میں حاضر تھے۔ اس وقت حضرت جؒی کی خدمت میں چند فوجی افسران بشمول کرنل ہدایت اللہ
نیازی اور میجر محمد جمیل بھی موجود تھے۔ کرنل نیازی نے حضرت جؒی کی توجہ بگڑتے
ہوئے ملکی حالات کی طرف مبذول کراتے ہوئے دریافت کیا کہ اب ملک کا کیا بنے گا؟
حضرت جؒی نے صوفی محمد افضلؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، میرے قلب پر خیال کریں۔ اس کے ساتھ ہی ان کے
سامنے حالات کچھ اس طرح سے منکشف ہونے لگے کہ انہوں نے فوجی انقلاب کے ذریعہ بھٹو
کی حکومت کے خاتمے اور بالآخر بھٹو کے انجام کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کرنا شروع
کردیئے جو بعد میں حرف بحرف پورے ہوئے۔
متحدہ عرب امارات میں
سلسلۂ عالیہ کی ترویج مولانا فضل حسؒین کے ذریعے عمل میں آئی۔ سلسلۂ
عالیہ سے وابستگی کے بعد لاہور میں ان کا پیر خانہ ختم ہوا تومعاشی مصائب نے
آن گھیرا۔ ان حالات میں کئی مرتبہ حضرت جؒی سے ابوظہبی جانے کی اجازت چاہی لیکن آپؒ نے انہیں پاکستان ہی میں رہتے ہوئے دین کا کام
کرنے کی ہدایت فرمائی جس کے نتیجہ میں لاہور میں وسیع حلقۂ ذکر قائم ہوا۔ 1973ء
میں ابوظہبی جانے کی اجازت ملی تو مولانا فضل حسؒین نے متحدہ عرب امارات میں
سلسلۂ عالیہ کی ترویج کا کام شروع کیا۔ آغاز اگرچہ ابوظہبی سے ہوا لیکن کچھ ہی
عرصہ بعد سلسلۂ ذکر دیگر عرب ریاستوں بشمول عمان، قطر اور مسقط تک وسعت اختیار کر
گیا۔
1978ء میں مولانا فضل حسیؒن کی شدید بیماری کے دوران
مولانا خان محمد ایرانی ذکر کرانے پر مامور ہوئے۔ مولانا خان محمد کا تعلق ایران
کے صوبہ مکران سے تھا۔ علومِ ظاہری کی تکمیل کے بعد سلسلۂ مجددیہ میں سلوک کا
آغاز کیا۔ ہفتہ میں ایک روز وہ سلسلۂ مجددیہ کے احباب کو ان کے طریقہ کے مطابق
ذکر کرایا کرتے تھے جبکہ باقی ایام میں سلسلۂ اویسیہ کا ذکر ہوتا۔
مولانا فضل حسیؒن کے انتقال کے بعد احباب اکٹھے
ہوئے تو اس موقعہ پر یہ سوال پیدا ہوا کہ ذکر اویسی طریقے کے مطابق کرایا جائے یا
مجددیہ طریق پر۔ تذبذب کی اس حالت میں ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ برزخ میں مولانا
فضل حسؒین سے روحانی طور پر رابطہ کریں اور یہ سوال ان کے سامنے رکھیں۔ مولانا خان
محمد ایرانی نے مراقبہ کیا تو مولا نا فضل حسینؒ نے فرمایا:
‘‘جو میرے شیخ(حضرت جؒی) فرمائیں وہی کرو، اب
سلسلۂ اویسیہ کا ہی ذکر کراؤ۔’’
اب
مزید کسی ہدایت کی ضرورت نہ رہی اور اعلان کر دیا گیا کہ آئندہ سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ
کے طریقہ کے مطابق ذکرِ پاسِ انفاس ہو گا۔
مولانا
خان محمد ایرانی چند روز بعد حضرت جؒی کی خدمت میں پاکستان آئے اور دو ہفتے آپؒ کے زیرِ تربیت رہے۔ اس دوران آپؒ نے انہیں مراقبات
کرائے، سالک المجذوبی تک اسباق دیئے اور ذکر کرانے کی اجازت دے کر واپس ابوظہبی
روانہ کیا۔
مولانا خان محمد ایرانی نے قریباً دو سال تک ابوظہبی میں رہتے
ہوئے عرب امارات میں سلسلۂ عالیہ کی ترویج کے لئے کام کیا۔ اس دوران انہوں نے کئی
مرتبہ حضرت جؒی کی خدمت میں بھی حاضری دی۔ 1980ء میں جب ملازمت ختم ہوئی تو
کچھ مدت آپؒ کی خدمت میں چکڑالہ مقیم رہے۔ آپؒ نے ان کی تربیت کی اور اپنا مجاز
مقرر فرمایا جس کے بعد وہ ایران چلے گئے اور وہاںسلسلۂ عالیہ کی ترویج کا ذریعہ
بنے۔
ابوظہبی میں مولانا خان محمد ایرانی کے بعد حافظ محمد سعیدؒ
امیر مقرر ہوئے ۔ یہ خوش قسمت ساتھی 1982ء
کے سالانہ اجتماع میں حضرت جؒی کی خدمت میں حاضر ہوئے، رات روحانی بیعت کی سعادت
نصیب ہوئی اور اگلی صبح واپسی پر ایک حادثہ میں شہادت پائی۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے
دامنِ رحمت میں خصوصی مقام عطا فرمائے، آمین!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔