عہد رسالت اور صحابہ کرام کے دور میں جس طرح دین کے دوسرے شعبوں تفسیر،
اصول، فقہ، کلام وغیرہ کے نام اور اصلاحات وضع نہ ہوئی تھیں. ہر چند کہ ان
کے اصولیات و کلیات موجود تھے اور ان عنوانات کے تحت یہ شعبے بعد میں مدون
ہوۓ اسی طرح دین کا یہ اہم شعبہ بھی موجود تھا. کیونکہ تزکیہ باطن خود
پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں شامل تھا. صحابہ کی زندگی بھی اسی
کا نمونہ تھی لیکن اس کی تدوین بھی دوسرے شعبوں کی طرح بعد میں ہوئی.
صحابیت کے شرف اور لقب کی موجودگی میں کسی علیحدہ اصطلاح کی ضرورت نہیں
تھی. یہی وجہ ہے کی صحابہ کے لۓ متکلم، مفسر، محدث، فقیہہ اور صوفی کےالقاب
استعمال نہیں کیے گۓ. اس کے بعد جن لوگوں نے دین کے اس شعبے کی خدمت کی
اور اس کے حامل اور مختصص قرار پاۓ گۓ، ان کی زندگیاں زہدواتقاء اور خلوص و
سادگی کا عمدہ نطونہ تھیں. ان کی غذا بھی سادہ اور لباس بھی موٹا جھوٹا
اکثر صوف وغیرہ کا ہوتا تھا. اس وجہ سے وہ لوگوں میں صوفی کے لقب سے یاد
کیے گۓ اور اس نسبت سے ان سے متعلقہ شعبہ دین کو بعد میں تصوف کا نام دیا
گیا. قرآن حکیم میں اسے تقوی، تزکیہ اور خشیتہ اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے
اور حدیث شریف میں اسے “احسان” سے موسوم کیا گیا ہے اور اسے دین کا ماحصل
قرار دیا گیا ہے. اس کی تفصیل حدیث جبرائل میں موجود ہے. مختصر یہ کہ تصوف،
احسان، سلوک اور اخلاص ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔(دلائل السلوک)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔