ANTI-ADBLOCK JS SYNC 18 جنوری خاموشی سے گزر گیا۔ ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

18 جنوری خاموشی سے گزر گیا۔


18 جنوری خاموشی سے گزر گیا۔
اردو کی ادبی و تنقیدی دنیا میں تقریبا 40 برس تک ہنگامے اٹھاتے آئے روز نت نئے مسائل چھیڑتے قوموں اور تہذیبوں کے ضمیر میں اتر جانے لائق موضوعات پر لکھتے، اپنے ایک ایک جملے سے اشخاص و افراد ہی نہیں بڑی بڑی تحریکوں کو جھنجھوڑتے آخر ایک دن 1978 کی جنوری میں آج ہی کے دن ہی صبح کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
صبح وہ حسب معمول کالج کے لئے گھر سے نکلے مگر کالج کے قریب اچانک دل کا دورہ پڑا اور چلتی سڑک پر گر گئے۔ ٹیکسی پر انہیں گھر پہنچایا گیا۔ اس وقت ہوش میں تھے۔ شیروانی کی جیب سے خود کرایہ نکا ل کر ٹیکسی والے کو دیا۔ زینے چڑھ کے اپنے کمرے میں گئے ، چپ چاپ پلنگ پر لیٹے اور ڈاکٹر کے آنے سے پہلے صبح آٹھ نو بجے کے قریب دوسرا دورہ پڑا اور وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ باتیں کرتے کرتے اچانک گھڑی دیکھتے اور اٹھ کھڑے ہوتے۔ یاروں سے کہتے، لو تم یہ رسالہ دیکھو، میں ابھی آیا اور نماز پڑھنے چلے جاتے۔ جتنی جلدی اور اچانک انہوں نے رخت سفر باندھا اتنی تیزی سے ہی تو وہ نماز پڑھنے ہی جاتے تھے۔
وہ رخصت ہو گئے مگر ان کی تحریریں رخصت نہیں ہوئیں۔ انہوں نے جتنی گمنامی کی خواہش کی ان کی تحریریں اتنی ہی چمکیں۔ کوئی چار پانچ سال کا عرصہ ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ نئے سرے سے زیر بحث نہ آجاتے ہوں۔
ادبی تہذیبی اور تنقیدی مسائل کے علاوہ شخصی زندگی اور ذاتی حالات کے نام پر ان کے خطوط میں اول روز سے جس شے کا تواتر سے ذکر ملتا ہے وہ ہے ان کی صحت کا مسئلہ۔ یوں لگتا ہے کہ کامل جسمانی صحت کے ساتھ انہوں نے کوئی زمانہ نہیں گزارا ہر دوسرے تیسرے خط میں خرابی صحت کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں، جو زیادہ تر گلے ، کھانسی ، زکام ، معدے کی جلن اور انہضام کے مسائل کے حوالے سے ہے۔ دہلی اور کراچی دونوں جگہ انہیں اس طرح کے مسائل گھیرے رہے ۔اس کے مقابلے میں لاہور کی آب وہوا ان کے ادبی مزاج کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت کو بھی بڑی راس آتی تھی۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بارے میں لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کی صحت کے بارے میں کبھی کوئی اشارہ نہیں کیا اور نہ ہی ان کے ملنے والوں اور شاگردوں نے کبھی ذکر کیا
ان کے پہلے افسانے کا عنوان'' کالج سے گھر تک'' ہے جس کے مرکزی کردار کی ساری خارجی زندگی کا اظہار اس کی داخلی سوچوں ہی سے ہوتا ہے۔ افسانے کے اس کردار سے لے کر اس کے عنوان تک کی ان کی زندگی سے حیرت انگیز مماثلت ہے۔ اگرچہ بعد میں ان کے بہت سے رجحانات تبدیل ہو گئے۔ مگر داخلیت اور دروں بینی ان کے مزاج کا جزو لاینفک رہی۔ شریک محفل ہو کر بھی بظاہر بےگانہئ محفل رہنا لیکن اپنے زمانے کی زندگی اور اجتماعی شخصیت کی روح تک اترتے جانا اور اپنی تحریروں سے وقت کے ساکت و خاموش سمندر میں تلاطم برپا کئے رکھنا ان کا طرز حیات تھا۔ اس پر ان کی خارجی زندگی کی تگ و تاز کا میدان اگر دیکھئے تو صرف '' گھر سے کالج اور کالج سے گھر ''تک تھا ۔ انتظار حسین نے اسی لئے ان کے انتقال پر لکھے جانے والے اپنے خاکے کا عنوان اُن کے اِسی افسانے سے مستعار لیا تھا کہ اس فقرے میں وہ ان کی ساری زندگی کو دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد اس افسانے کے کردار کے رنگ ڈھنگ کے بارے میں ان کا یہ کہنا کہ اس کی ''وضع قطع اور چال ڈھال پر مت جائیے یہ کو ئی اور آدمی ہے عسکری صاحب نہیں ''، محض آشنائی زدائی کے سوا کچھ نہیں۔ کسی افسانے کے'' میں ''کو لازماً مصنف کا مثیل سمجھنا ضروری نہ سہی ، مگر'' کالج سے گھر تک ''کے'' میں'' کے اطوار دیکھ کر بے ساختہ میرؔ کا یہ مصرع یاد آتا ہے
ع طور یہ اس جو ان سے نکلا
پڑھنے والے اب تک یہ اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ یہ تذکرہ محمد حسن عسکری کا ہے جن کا انتقال 1978 کی جنوری کی اج ہی کی تاریخ کو ہوا تھا۔
معروف صحافی اور صاحب طرز خاکہ نگارنصراللہ خان نے عسکری کے ایک خاکے میں لکھا ہے کہ
'' ایک مرتبہ جب پاکستان اور امریکہ میں مثالی دوستی قائم تھی تو امریکی سفارت خانے کے ایک افسر نے مجھ سے کہا: 'تم عسکری صاحب کو امریکہ کے سفر پر مائل کر دو، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں فیلو شپ پر امریکہ جانے کی دعوت دی جائے '۔ میں نے عسکری صاحب سے تذکرہ کیا، سنتے رہے اور پھر مسکرائے اور فرمایا: 'میں نے تو پیر الٰہی بخش کالونی ہی پوری طرح نہیں دیکھی ہے تو امریکہ جا کر کیا کروں گا ۔ انسان پہلے اپنا ملک تو دیکھ لے' ''۔
کیا یہ بات عجیب نہیں کہ جو شخص میرٹھ کے ایک چھوٹے سے قصبے سراوہ میں پیدا ہوا الہ اباد یونیورسٹی میں پڑھا دہلی لاہور اور کراچی کے علاوہ زندگی بھر جو کہیں اور نہ گیا میرٹھ سے لے کر کراچی تک جس کی ساری زندگی صرف گھر سے کالج تک اور کالج سے گھر تک کی راہ میں گزری، اس کی تحریروں نے ایک دور میں نہ صرف پورے بر صغیر پاک و ہند کے چاروں کھونٹ ہنگامے اٹھائے بلکہ وہ فرانس تک کے علمی حلقوں میں زیر بحث رہا!
اردو تنقید و ادب میں
زندگی سے بھرپور نثر لکھنے،
ادب کو صدیوں پر محیط تہذیب کے روحانی تجربے کے طور پر پڑھنے،
نشاۃ ثانیہ کے بعد کے مغربی ادب پر ناقدانہ نظر رکھنے،
مشرق و مغرب کی ہر للکار سے آنکھیں چار کرکے اسے اپنی ما بعد الطبیعی اقدار کی روشنی میں پرکھنے،
زندگی کے گہرے، پیچیدہ اور تقدیری مسائل سے نبرد آزما ہوکر
انہیں پاکستان کی ثقافتی روح میں سموتے ہوئے
اردو زبان و ادب کو

ایک جمال آفریں تجربہ بنانے کا خواب دیکھنے والا یہ منفرد افسانہ نگار اور نقاد کوئی اور نہیں صرف محمد حسن عسکری تھا جس کا اج 45 واں یومِ وفات خاموشی سے گزر گیا! 

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو