عتیق احمد شاہ کی وال سے
جو لوگ انگریزی کو علمی زبان سمجھتے ہیں وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ انگریزی کی کل علم دانی کا انحصار جرمن ، سپینش ، لاطینی عربی اور فارسی ، کے تراجم پر ہے ۔ ہیگل ، کانٹ ، نیٹشے ، گوئٹے ، اور مارکس وغیرہ کا سب کام جرمن میں ہے ۔ انگریزی میں علوم کی مںتقلی اور پھیلائو کا سفر صرف گزشتہ دو سو سال میں ہوا ۔ والٹئیر فرنچ تھا ۔
اگر علم تک رسائی کے لیئے جرمن پڑھنے کی تلقین کریں تو بھی جواز پیدا ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ علمی کام جرمن میں ہوا ہے۔
یہ غلط فہمی دور کر لیجیئے کہ انگریزی علم کی زبان ہے ۔
ہر گز نہیں ! دنیا کے جتنے علوم ہمیں انگریزی میں ملتے ہیں وہ سب تراجم ہیں ۔ انگریزی کا اپنا حصہ اس میں گزشتہ دو سو سال پہلے تک صفر فیصد تھا ۔ اردو میں صرف ایک شبلی نعمانی (متوفی 1914) کا کام پوری انگریزی میں اس وقت موجود نہ تھا ۔ اٹھارویں صدی عیسوی تک انگریزی کی تاریخ میں سازشیں رقابتیں ، دوسروں کو محکوم بنانا ، استحصال اور لوٹ مار تھا ۔ آج یوٹیوبی نسل یہ سمجھتی ہے کہ انگریزی کوئی علمی زبان ہے ۔
علامہ اقبال نے 1908 میں اپنا پی ایچ ڈی تھیسس سب مٹ کیا ۔ میونخ یونیورسٹی انگریزی کا تھیسس قبول نہیں کر رہی تھی علامہ نے جرمن سیکھ کر اپنا تھیسس جرمن میں لکھا ۔ یہ اوقات تھی سو سال پہلے انگریز اور انگریزی کی ۔ وہ بھی یورپ میں ۔ زیادہ انگریزی بولنے والوں کو ٹھڈے مار کر یونیورسٹیز سے نکال دیا جاتا تھا ۔ مگر آج انگریزی کے سامنے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ الاماں ۔
جتںا علمی کام صرف فارسی میں ہوا ہے اتنا شائد اگلے ایک ہزار سال میں بھی انگریزی میں نہ ہو سکے ۔
انگریزی کو اہمیت نوبل انعام کے ذریعے 1915 کے بعد حاصل ہوئی ۔ جب رابندر ناتھ ٹیگور کو ادب کا نوبل انعام اس کے انگریزی ترجمے پر ملا ۔ اسی طرح یہاں سے آگے انگریزی کا غلغلہ بلند ہوا ۔
انگریزی کے وکیل مجھے دسویں صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی تک کے آٹھ سو سال میں دس ایسے انگریز علماء کے نام بتائیں جنہوں نے علم کی وسعت اور پھیلائو میں اپنا کردار ادا کیا ہو۔
نیوٹن اور ڈارون کو انگریز سمجھنے والے پہلے اس بات کی تحقیق کر کیا کریں کہ علوم کو وسعت دینے میں کس زبان کا کتنا کردار ہے ۔
قبل از مسیح کے یونانی علماء فیثا غورث سے سقراط ، افلاطون، ارسطو ، بقراط ، جالینوس ، ارشمیدس اور ایپی کیورس تک کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ دنیا کے انگریزی نام کی بھی کوئی زبان دنیا میں کہیں موجود ہے ۔ مگر آج تک انہیں علماء کا امام تصور کیا جاتا ہے ۔ مغرب میں علوم کا احیاء عربی کی علمی تحریک کا نتیجہ تھا۔ گیلیلیو اطالوی تھا مگر تعلیم قرطبہ سے حاصل کی تھی ۔ عربی میں انگریزوں نے مہارت حاصل کی تو مستشرقین پیدا ہوئے جنہیں یہاں علم کی دنیا کے امام سمجھ کر ہم انگریزی کو علمی زبان سمجھ بیٹھے ہیں ۔
جابر بن حیان کی الکیمیا ہو یا ابن سینا کی طب و جراحت یا خوارزمی کی الجبر والمقابلہ ۔ سب عربی تصانیف ہیں ۔
مگر ہمارے ذہنی غلام علم کو انگریز کی میراث سمجھ رہے ہیں۔ یہ ان کی اپنی جہالت کا نتیجہ ہے کہ وہ انگریزی کو علمی زبان فرض کیئے بیٹھے ہیں ۔
صرف ایک مائیکرو سافٹ کی بدولت ۔
سرسید احمد خان انگریزی کے بہت بڑے حمایتی ہونے کے باوجود اپنا رسالہ تہذیب الاخلاق اردو میں جاری کرتے تھے ۔ ان حقائق سے بے بہرہ لوگ ہی انگریزی فوبیئے میں مبتلا ہوتے ہیں
اور آخری بات
قائد اعظم محمد علی جناح سے زیادہ انگریزی موجودہ دور میں شائد ہی کوئی جانتا ہو گا ۔
ان کی انگریزی سمجھنے کے لیئے خود انگریزوں کو بھی ڈکشنریاں دیکھنا پڑتی تھیں ۔ مگر جب قومی زبان کا سوال آیا تو انہوں نے اردو کو قومی زبان کے طور پر منتخب کیا ۔ درآنحالیکہ کہ وہ اردو میں درست تلفظ تک ادا نہ کر سکتے تھے ۔
مگر انگریزی سے مرعوبیت ان کے ہاں بالکل بھی نہ تھی۔
عتیق احمد شاہ
نقل وترسیل فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔