غیر مسلموں کے لئے مدینہ منورہ میں داخل ہونے کا شرعی حکم
✍ ابو احمد کلیم الدین یوسف
(جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ)
•─════﷽════─•
✺ چند دنوں قبل ہندوستان کی وزیر برائے اقلیتی امور اسمرتی ایرانی سعودی عرب کے دورے پر تھیں، مدینہ منورہ میں بھی ان کی آمد ہوئی اور انہوں نے مسجد قبا اور مسجد نبوی کے اردگرد وزٹ کیا جس کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
اور اس پر ہر آدمی اپنے اپنے حساب سے فتوی جاری کر رہا ہے.
☜ یوں تو ہر مسئلہ کو کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھنا چاہیے، لیکن شرعی مسائل کو بالخصوص جذبات کے بجائے کتاب و سنت اور اقوال علماء کی روشنی میں ہی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنے نزاع اور آپسی اختلاف کے حل کیلئے کتاب و سنت کو ہی فیصل ماننا چاہیے، وہاں سے جو فیصلہ ملے بسر چشم اسے قبول کرنا چاہیے..
⦿ اصل مسئلہ کی وضاحت سے قبل چند چیزوں کا جان لینا بہت ضروری ہے تاکہ تحریر پڑھتے وقت کسی قسم کی الجھن کا شکار ہونے سے بچا جا سکے.
◈ أ - جب لفظ حجاز بولا جاتا ہے تو اس میں مدینہ منورہ داخل ہوتا ہے.
◈ ب - مکہ، مدینہ بلکہ حجاز کے پورے علاقے میں غیر مسلموں کو رہائش اختیار کرنے کی اجازت دینا بالاتفاق درست نہیں ہے الا یہ کہ کوئی خاص مصلحت ہو، لیکن دائمی قیام کہ اجازت درست نہیں.
◈ ج - ﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِنَّمَا ٱلۡمُشۡرِكُونَ نَجَسࣱ فَلَا یَقۡرَبُوا۟ ٱلۡمَسۡجِدَ ٱلۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِهِمۡ هَـٰذَاۚ وَإِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَةࣰ فَسَوۡفَ یُغۡنِیكُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦۤ إِن شَاۤءَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ﴾ [التوبة ٢٨].
اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی نجس ہیں، وه اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں، اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے اللہ علم وحکمت واﻻ ہے.
یہ آیت صرف حرم مکی کیلئے خاص ہے جس کی تفصیل ذیل کی سطور میں آئے گی ان شاء اللہ..
◈ د - حرم مکی اور حرم مدنی کے احکام میں علمائے کرام نے تفریق کی ہے.
◈ ھ - ہم اس تحریر میں دو مسئلے کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں.
پہلا مسئلہ: غیر مسلموں کے مدینہ منورہ میں داخل ہونے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
دوسرا مسئلہ: غیر مسلموں کے مسجد نبوی میں داخل ہونے کا کیا حکم ہے؟
◙ پہلا مسئلہ:
بغرض مصلحت غیر مسلموں کے مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے جواز پر فقہائے کرام کا اتفاق ہے. [الموسوعة الفقهية الكويتية: ١٧؍۲۰۵]
❍ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"علمائے کرام فرماتے ہیں: غیر مسلم حجاز کے علاقے میں سفر کر سکتے ہیں، انہیں روکا نہیں جائے گا، تاہم انہیں وہاں تین دن سے زیادہ ٹھہرنے نہیں دیا جائے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان سے اتفاق رکھنے والے کہتے ہیں، البتہ حرم مکی کے حدود میں غیر مسلموں کو کسی بھی صورت میں داخل ہونے کی اجازت دینا جائز نہیں..."
[المنهاج: ١١؍ ۹٤]
❍ امام ابو محمد الحسين بن مسعود بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: غیر مسلموں کیلئے اسلامی ممالک میں داخل ہونے کے تئیں تین قسم کے احکام ہیں:
❶ حرم مکی: اس کے حدود میں غیر مسلموں کو کسی بھی صورت میں داخل ہونے کی اجازت دینا جائز نہیں گرچہ وہ غیر مسلم ذمی ہی کیوں نہ ہو.
❐ کیونکہ اللہ رب العالمین نے فرمایا:
﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِنَّمَا ٱلۡمُشۡرِكُونَ نَجَسࣱ فَلَا یَقۡرَبُوا۟ ٱلۡمَسۡجِدَ ٱلۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِهِمۡ هَـٰذَاۚ وَإِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَةࣰ فَسَوۡفَ یُغۡنِیكُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦۤ إِن شَاۤءَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ﴾ [التوبة ٢٨].
اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی نجس ہیں، وه اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں، اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے اللہ علم وحکمت واﻻ ہے.
☜ اگر دار الکفر سے کوئی حکومتی قاصد حرم مکی کے حاکم سے ملنے آئے تو اسے بھی داخل ہونے نہ دیا جائے، بلکہ امام وقت حدود حرم سے باہر نکل کر اس سے گفتگو کرے، یا اپنے کسی نائب کو بھیجے.
❷ حجاز کا علاقہ (اس میں مدینہ منورہ بھی داخل ہے): حاکم وقت کی اجازت سے کافر وہاں جا سکتے ہیں، لیکن سفر کی مدت سے زیادہ وہاں وہ قیام نہیں کر سکتے، کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں جلا وطن کیا تھا تو اس کے بعد انہیں بغرض تجارت وغیرہ آنے کی اجازت دیتے تھے.
❸ حرم مکی اور حجاز کے علاوہ دیگر مسلم ممالک میں ذمی کی حیثیت سے غیر مسلمین جاکر قیام کر سکتے ہیں.
[شرح السنة: ١١؍۱۸۳]
❍ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ولید بن عبد الملک کے دور حکومت میں مسجد نبوی کی تعمیر و ترمیم کیلئے نصرانی مزدور کو اجرت پر رکھا تھا".
[فتح الباري: ٣؍۲۹۷]
❍ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"غیر مسلمین کو حجاز کے علاقے میں بسنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، تاہم انہیں داخل ہونے کی اجازت دینا درست ہے، کیوں کہ وہ لوگ امیر المومنین عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اور ان کے بعد کے خلفا کے زمانے میں وہاں جایا کرتے تھے، ہاں بلا اجازت داخل نہیں ہو سکتے، حجاز میں ان مشرکین کا داخل ہونا مسلمانوں کی ضرورت و مصلحت کی خاطر ہے، اور یہ حاکم وقت کی رائے پر موقوف ہے کہ انہیں وہاں داخل ہونے کی اجازت دے یا نہ دے، اجازت ملنے کے بعد جب وہ حجاز کے علاقے میں داخل ہو تو تین دن سے زیادہ نہ رکے، اس کی دلیل یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے غیر مسلمین تاجروں کو تین دن کیلئے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی.."
[الكافي في فقه الإمام أحمد: ٤؍۱۸۰]
❍ ابن قدامہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
"غیر مسلموں کیلئے بغرض تجارت وغیرہ سرزمین حجاز میں داخل ہونا جائز ہے، عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نصاریٰ مدینہ منورہ میں بغرض تجارت آیا کرتے تھے....."
[المغني: ٩؍ ۳۵۹]
❍ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
"غیر مسلموں کو مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا جائے گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران سے آنے والے نصاریٰ کے وفد کو اپنی مسجد میں ٹھہرایا تھا، اور جس آیت میں مسجد حرام میں مشرکوں کے داخل ہونے کی ممانعت ہے اس میں مدینہ منورہ شامل نہیں ہے".
[أحكام أهل الذمة: ١؍۳۹۷]
❍ مزید فرماتے ہیں:
"جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو یہود خیبر میں اور اس کے ارد گرد رہتے تھے، انہیں مدینہ منورہ میں آنے سے نہیں روکا جاتا تھا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری ایام تک ان سے معاملات کرتے رہے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو چند صاع غلہ کے عوض آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی تھی..
نجران سے آنے والے نصاریٰ اور قبیلہ ثقیف کے مشرکین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مسجد میں ٹھہرایا تھا. (اور نبی کریم کی صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں ٹھہرنے کیلئے مدینہ میں داخل ہونا ضروری ہے)".
[أحكام أهل الذمة: ١؍٤٠٢]
❍ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"آیت بالا سے غیر مسلمین کے مدینہ منورہ میں داخل ہونے کی حرمت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ نجران کے نصاریٰ اور قبیلہ ثقیف کا مشرک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملنے کیلئے مدینہ میں داخل ہوا تھا، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حرم مدنی کا حکم حرم مکی جیسا نہیں ہے.."
❍ شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"حرم مکی میں مشرکین داخل نہیں ہو سکتے جب کہ مدینہ منورہ میں داخل ہو سکتے ہیں".
[مجموع فتاوى ورسائل العثيمين: ٢٢؍٢٤٠]
❍ شيخ صالح الفوزان حفظه الله فرماتے ہیں:
"مدینہ مکہ طرح نہیں ہے کہ اس میں کفار داخل نہیں ہو سکتے، گرچہ مدینہ بھی مکہ کی طرح حرم ہے، لیکن کفار مدینہ منورہ میں داخل ہو سکتے ہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے آخری ایام میں نجران کے نصاریٰ اور بعض مشرکین مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تھے..." [آڈیو]
◙ دوسرا مسئلہ:
اور رہی بات کہ کفار و مشرکین مسجد نبوی میں داخل ہوسکتے ہیں یا نہیں؟
☜ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ضرورت و مصلحت کی غرض سے غیر مسلمین مسجد نبوی میں داخل ہو سکتے ہیں جس کی بعض دلیلیں سطور بالا میں گذریں، مزید دلیل ملاحظہ فرمائیں:
❍ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے کھمبے سے باندھ دیا تھا.
[صحیح بخاری: ٤٣٧٢]
❍ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ جب حالت شرک میں تھے تو مغرب کی نماز کے وقت مسجد نبوی میں داخل ہوئے تھے.
[مسند احمد: ١٦٩٦٦]
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے [الثمر المستطاب: ٢؍ ۷۷۲]
❍ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"آیت بالا میں خصوصیت کے ساتھ مسجد حرام کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسجد حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں کفار و مشرکین داخل ہو سکتے ہیں، جس کی تائید مذکورہ بالا احادیث سے ہوتی ہے".
[الثمر المستطاب: ٢؍ ۷۷۲]
✺ سعودی عرب کے خلاف برصغیر کے ایران نواز شیعہ و روافض خاص طور پر، اور ایسے ہی بعض متعصب دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی اور ان کے افکار سے متاثر لوگ عام طور پر سب سے زیادہ بولتے ہیں، افواہیں پھیلاتے اور غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں، اور کسی مسئلہ کا شرعی حکم جانے بغیر سعودی عرب پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں، شیعہ کو چھوڑ کر باقی تینوں مکاتب فکر کا تعلق فقہ حنفی سے ہے، اور فقہ حنفی کے مطابق تو مدینہ منورہ کے ساتھ ساتھ مکہ مکرمہ میں بھی غیر مسلمین جا سکتے ہیں، جب کہ جمہور علمائے کرام نے حرم مکی میں غیر مسلمین کے دخول کو کسی بھی حالت میں جائز قرار نہیں دیا ہے.
اگر یہ افراد کسی مسئلہ میں سعودی عرب کے خلاف بولنے سے قبل اس کا شرعی حکم جان لیتے، اپنے علما سے دریافت کرلیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اور زبان و قلم کا وقار بھی مجروح نہیں ہوتا.
☜ خلاصہ کلام یہ کہ:
بغرض مصلحت و ضرورت حاکم وقت کی اجازت سے غیر مسلمین مدینہ منورہ میں داخل ہو سکتے ہیں، اس بات پر علمائے کرام کا اتفاق ہے.
واللہ اعلم
┈┉┅━━━❁━━━┅┉┈
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔