جمہوریت بمقابلہ اسلام!
1۔جمہوریت: سب کا ووٹ برابر ہے!
قرآن:- علم والے اور جاہل برابر نہیں۔[زمر:9]
2۔جمہوریت:- حاکمیت عوام کی ہے!
قرآن:- حاکمیت اللہ کی ہے! [انعام:57]
قرآن:- اکثریت بھٹکے ہوئے لوگوں کی ہے! [انعام:116]
4۔جمہوریت:- کوئی بھی حاکم بن سکتا ہے!
قرآن:- حاکم بننے کے اہل لوگ وہ ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں! [حج:39]
5۔جمہوریت:- حکومت مانگنی پڑتی ہے!
حدیث:- جو حکومت طلب کریں وہ اس کے اہل نہیں! [بخاری:6923]
6۔جمہوریت:- عورت بھی حکمران بن سکتی ہے!
حدیث:- جس قوم کی حکمران عورت بن گئی وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی! [بخاری]
جمہوریت اور خلافت میں فرق!
اول:- خلیفہ کے چناؤ میں عام پبلک حصہ نہیں لیتی، بلکہ بااثر لوگ یعنی علماء، اپنے اپنے علاقوں کے، صاحب رائے، بااثر افراد وغیرہ وغیرہ حصہ لیتے ہیں، ( بااثر افراد کون ہوں اور ان میںکیا صفات ہوں، ان پر قرآن وسنت سے رہنمائی لے کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر نیت اور ارادے درست ہوں ) اور جب وہ خلیفہ کا انتخاب کر لیتے ہیں تو عام پبلک صرف بیعت کرتی ہے!
جبکہ جمہوریت میں ان پڑھ ، جاہل ، ڈاکو ، چور اور نیک لوگ سب شریک ہوتے ہیں اور سب کا ووٹ برابر ہے!
دوم:- خلافت میں ملک کا قانون خود بخود قرآن وسنت قرار پاتا ہے، اللہ کے قانون کو لاگو ہونے کے لئے اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی، اور نہ ہی وہ اسمبلی کے اراکان کے پاس ( منظوری ) کا محتاج ہوتا ہے، مثلا اسلام میں سود حرام ہے، اب اس کو لاگو کرنے کرنے کے لیئے اگر اسمبلی کا محتاج کر دیا جائے گا، تو یہ اللہ کے فیصلے کی توہین ہے، اور اسی کو شرک کہتے ہیں، جبکہ آج عملی طور پر جمہوریت میں یہی چیز ہو رہی ہے!
سوم:- خلافت میں اکثریت کی رائے کو ہر وقت قبول نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی اسے اُصول بنایا جاتا ہے، بلکہ کسی فیصلے کی بنیاد دلیل پر ہوتی ہے، جبکہ جمہوریت میں اول و اخر اکثریت کو ہی فیصلہ کن مانا جاتا ہے!
چہارم:- جمہوریت میں انسان کو قانون بنانے کی اجازت ہوتی ہے، اور اس پر عمل درآمد کس حد تک ہو، اس کا فیصلہ بھی اسمبلی کے ممبران کرتے ہیں، جبکہ خلافت میں انسان کوئی قانون نہیں بنا سکتا، کیونکہ قانون بنانا اللہ کا کام ہے، قرآن قانون کی کتاب موجود ہے!
جو قرآن وسنت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے!
ہاں اس کے نفاذ کے لئے عملی اقدامات تجویز کرنا یہ اہل شورٰی کی مدد سے کیا جاتا ہے، اور اللہ کا قانون سب پر یکساں نافذ ہوتا ہے!
پنجم:- اسلام میں جو ایک دفعہ خلیفہ بن جائے منتخب ہو یا غیر منتخب اس کا ہٹانا جائز نہیں، الا یہ کہ وہ کفر کا ارتکاب کرے، ایک خلیفہ کی وفات کے بعد ہی دوسرا خلیفہ بن سکتا ہے!
جمہوریت کا بدصورت چہرہ!
ششم:- جمہوریت میں مذہب سے آزادی ہے، ہر کوئی جو چاہے مذہب رکھے، کوئی پابندی نہیں، جس طرح چاہے مذہب بدلے، کوئی رکاوٹ نہیں، کوئی سزا نہیں، اس لئے جمہوریت میں لوگ پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں! لوٹا کریسی کھلے عام ہے!
باطل کو مٹانا اسلام کا فرض ہے، اور یہی جہاد ہے، جو قیامت تک فرض ہے، جمہوریت میں باطل سے جہاد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جمہوریت جہاد کو ختم کرتی ہے!
ہفتم:- اسلام میں عورت حاکم نہیں ہو سکتی، سربراہ مملکت ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جمہوریت میں عورت بھی سربراہ مملکت ہو سکتی ہے، کوئی پابندی نہیں!
ہشتم:- اسلام میں طاقت کا سرچشمہ اللہ ہے، جمہورت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں! یہ شرک ہے!
نہم:- اسلام میں نہ حزب اقتدار کا تصور ہے، نہ حزب اختلاف کا، اسلام پارٹیوں کے سخت خلاف ہے، خاص طور پر سیاسی پارٹیوں کی تو قطعاً اجازت نہیں، کیونکہ یہ سیاسی فرقہ بندیوں کو پیدا کرتا ہے!
جمہوریت پارٹیاں بنانا سکھاتی ہے، اور پارٹیوں کے بل بوتے پر چلتی ہے، پارٹیوں کے بغیر جمہوریت چل ہی نہیں سکتی، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا ہونا لازمی ہے، اور یہی وہ جواز پیدا کرتی ہے جو سیاسی فرقے بناتی ہے!
دہم:- جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام ہے، الیکشن میںحصہ لینے والی جماعت کو اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں، جو بعد میں وہ آپ کی بڑی نکال کر بیچ کھاتے ہیں، تب بھی ان کا پیٹ نا بھرے تو IMF سے سود پر قرضے لیکر آپ کی نسلیں مقروض کر کے، اپنا پیٹ اور شوق پالتے ہیں، اور جو جتنا زیادہ پیسہ لگاتا ہے، کامیاب ہوتا ہے غریب، ایماندار اور شریف بندے کی اس میں کوئی قدر نہیں، کوئی چانس نہیں اقتدار میں آنے کا، بس ذندہ باد مردہ کرسکتے ہیں، لاشیں گروا سکتے ہیں، جبکہ خلافت میں ان سب دھندوںکی کوئی ضرورت نہیں ہے!
سورہ المائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے!
جو اللہ کی اتاری ہوئی وحی کیمطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو ظالم ہیں، وہی تو فاسق و فاجر ہیں، وہی تو کافر ہیں!
لہذا اس جمہوریت کو سر کے بل گرا دو اور اسلامی آئین و قوانین کیساتھ اسلامی نظام لاگو کرے
اسے لاگو کروانے کیلئے عوام ایک دوسرے کی ذہن سازی کرو اور پھر ایک مقررہ وقت پر گراؤنڈ پر نکل کر ڈیمانڈ کرو کہ ہمیں اسلامی نظام چاہیئے بس!
یہی وہ نرم انقلاب ہوگا جسکی جنرل حمید گل مرحوم بات کیا کرتے تھے، یہ کام فوج کے کرنے کا نہیں قوم کے کرنے کا ہے، اور سیاستدانوں سے ہر گز امید مت رکھنا، تحریک نظریہ پاکستان اس کام کیلئے ایک غیر سیاسی تحریک آپ کیلئے چلائی گئی ہے، اسے سپورٹ کریں، یہی تحریک آپ کو نیا نظام لانے میں مدد کرے گی! ان شاءاللہ تعالیٰ!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔