ANTI-ADBLOCK JS SYNC بات سے بات: جنوبی ہند میں اسلام کے اولین نقوش تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل ) ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

بات سے بات: جنوبی ہند میں اسلام کے اولین نقوش تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )

 بات سے بات: جنوبی ہند میں اسلام کے اولین نقوش

تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )

آج علم وکتاب گروپ پر ملبار اور معبر میں صحابہ کرامؓ  کی آمد، اور یہاں کے ایک راجہ  کے واقعہ شق القمر کو دیکھ کر مسلمان ہونے کی مشہور روایت کا تذکرہ ہوا ہے۔

یہ بحث سنجیدگی اور تحمل کی متقاضی ہے، اس موضوع پر ہمارے پاس کافی علمی مواد موجود ہے، اور بڑے عرصے سے دل میں یہ خواہش دبی ہوئی ہے کہ اس سلسلے میں ایک سنجیدہ، علمی تحقیق پیش کی جائے۔ یہ کالم اس قسم کی طویل اور خشک بحث کا متحمل نہیں ہوسکتا، لیکن احباب کی فرمائش ہے، جس کا خیال رکھنا  بھی ضروری ہے، اس مناسبت سے اشارۃ چند باتیں پیش خدمت کئے دیتے ہیں۔ 

تاریخ میں ملبار اس کے پڑوس میں واقع معبر کے علاقے  کو جو اہمیت رہی ہے، آج ان کی وہ اہمیت  باقی نہیں رہی ہے، لہذا ان علاقوں سے وابستہ بہت سی روایتیں  آج کے دور میں بڑی عجیب سی لگتی ہیں، تاریخ میں ملبار کی اہمیت بتانے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ۱۴۹۸ء میں واسکوڈا گاما نے کالیکٹ (کوژی کوڈ ) کے کاپاٹ ساحل پر جب اپنا جہاز لنگر کیا تو تلاش ہند کے اس واقعہ کو انکشافات کی تاریخ  میں بر اعظم امریکہ کی تلاش سے بھی عظیم تر دن قرار دیا گیا تھا، اور اسے  یورپ کے سامراجی دور اور دنیا پر غلبہ کا نقطہ آغاز مانا گیا تھا۔ ایسی اہمیت  کبھی سندھ اور گجرات کونہیں دی گئی۔اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد مسلمانوں کو سب سے بڑی مار یہیں پڑی تھی،اس کی مار اتنی گہری تھی کہ مغلوں اور عثمانیوں کی عظیم سلطنتیں بھی اس کا مداوا نہ کرسکیں،علاقے کی اس  اہمیت کو مد نظر رکھ کر ہی  یہاں پر پڑنے  والی اسلام کی اولین کرنوں کا تجزیہ ہونا چاہئے۔

ملبار میں ایک بندرگاہ رہی ہے، جو اس وقت نامانوس سی ہے، لیکن اس کی اہمیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے تینوں مذاہب یہودیوں، عیسائیوں او رمسلمانوں کے لئے یکساں رہی ہے،آزادی کے بعد جوریاست کیرالا تشکیل پائی ہے وہ  ملبار اور ٹراونکورکی ریاستوں  پر مشتمل ہے ، تقسیم ہند کے وقت یہ الگ الگ ریاستیں تھیں ، لیکن قدیم زمانے میں یہ آج کے کیرالا کے علاقے پر محیط تھی، اس کے حاکم خاندان چیرا (کیرا ) کی نسبت سے اس نو تشکیل شدہ ریاست کا نام کیرالا رکھا گیا ہے، ملبار اس ریاست کا شمالی حصہ ہے جس میں کوژیکود ، ملپورم وغیرہ مسلمانوں کی کثیرآبادی والے علاقے  آتےہیں۔اس  بندرگاہ کا نام ہے کوڈنگلور Kodungallur ۔ یہ بندرگاہ چیرا سلطنت کا صدرمقام ہوا کرتی تھی، حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے یہاں پر بحری آمد ورفت کا سراغ ملتا ہے، ایک قدیم روایت کے مطابق ایران کے بادشاہ کیخسرو نے جب یہودیوں کو ایران سے ملک بدر کردیا تھا تواسی بندرگاہ کے راستے وہ کوچین میں آکر آباد ہوئے تھے، اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۳۶۹ء عیسوی میں یہودیوں کا ایک گروہ جو سات ہزار افراد پر مشتمل تھا اندلس کے جزیرہ میورقہ سے آکر یہاں آباد ہوا تھا۔ کوچین میں اب بھی یہودی آبادی اور ان کی عبادت گاہیں اور اوقاف پائے جاتے ہیں۔  

مورخین کے مطابق چودھویں صدی عیسوی سے قبل ہندوستان میں کیتھولک عیسائی فرقہ کا وجود نہیں تھا، یہاں پر سیرین چرچ کے ماننے والے یعقوبی عیسائی آباد تھے، یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری سینتٹ تھامس کو مانتے ہیں، جن کا مزار میلاپور (چنئی ) میں منسوب ہے۔ ان کے بھی اسی بندرگاہ سے ہندوستان آنے کی بات کی جاتی ہے۔ چنئی کے قصبے میلاپور میں واقع ایک مزار کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ان حواری مسیح کا ہے۔ سیرین چرچ کو ماننے والے یعقوبی عیسائیوں کے گرجا گھر اب بھی جنوبی ہند میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں، عربی زبان میں سینٹ تھامس کو مار توما کہا جاتا ہے، شامی عیسائی اور مارونی فرقے کے لوگ انہیں مانتے ہیں۔ لہذا ملبار میں عہد صحابہ وتابعین میں اسلام کے داخل ہونے کی جو بات کی جاتی ہے، قرائن وشواہد  سے ان کا مکمل انکار ممکن نہیں۔ البتہ نام لے کر چنئی کے ساحل کولم میں تمیم الداری کی قبر، اور کائل پٹم میں پانچ صحابہ کی آمد کی بات  کو ثابت کرنے کے لئے تاریخی شواہدناکافی ہیں۔ 

رہی بات ملبار کے راجہ چیرمن پارومل کے واقعہ شق القمر کو دیکھنے، یا پھر مالک بن دینار سے ان کی ملاقات کی بات تو، تحقیق کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ان کے ثبوتوں کو قبول کرنا مشکل ہے ۔ کیونکہ ان روایتوں کے اولین مستند ترین راوی دسویں صدی ہجری کے مورخ   مخدوم شیخ زین الدین المعبری الملیباری  ( وفات ۹۸۷ھ)۔  دسویں صدی ہجری کے بزرگ ہیں،اور انہوں اسے عادل شاہی سلطنت کے حکمران کے سامنے پیش کردہ کتاب تحفۃ المجاہدین میں اس کا ذکر کیا ہے، مورخ ہند حکیم شید شمس اللہ قادری کے مطابق یہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا دور سلطنت  بھی ہے، یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب واقعہ کے نو سو سال بعد لکھی گئی ہے،  اور اتنے طویل وقفہ کے بعد  کسی کتاب میں اس قسم کے واقعہ کا ذکر ہو تو  اسے کہاں تک قبول کیا جاسکتا ہے؟، بیان کرنے کی چندان ضرورت نہیں۔ بہر حال اس نکتہ کے علاوہ تحفۃ المجاہدین کی اپنی ایک تاریخی اہمیت  اس لحاظ سے ہے کہ ملبار کی تاریخ کے سلسلے میں یہ ابتک دستیاب شدہ اولین کتاب ہے، قارئین کی دلچسپی کے لئے واقعہ کی تفصیل  اسی کتاب سے پیش کرتے ہیں،  ترجمانی عظیم مورخ ہند حکیم  سید شمس اللہ قادری حیدرآبادی مرحوم کی ہے۔ 

 " یہود و نصاری کی ایک جماعت مدت سے کدن کلور میں آباد تھی، یہ شہر ملیبار کا  دارالحکومت تھا اور اسی جگہ راجہ رہا کرتا تھا ۔ یہ لوگ ایک عظیم الشان کشتی میں بیٹھ کر اپنے عیال و اطفال کے ساتھ ملیبار میں آئے اور یہاں کے راجہ سے سکونت کے لیے زمینوں مکانوں، باغوں کو طلب کیا اور اس مالک کو اپنا وطن بنا لیا ۔

 اس کے مدت دراز بعد فقراء اسلام کی ایک جماعت اسی شہر میں وارد ہوئی ۔ یہ لوگ سیلان کوجا رہے تھے تاکہ حضرت آدم علیہ اسلام کے قدم کی زیارت کریں بادشا کو جب ان کی آمد کا حال معلوم ہوا تو اُن کو اپنے یہاں بلایا اور اُن سے جناب پیغمبر علیہ الصلوة  والسلام  کا حال دریافت کیا۔ اس جماعت میں ایک معمر آدمی تھا اُس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات، دین اسلام کی حقیقت، معجزہ شق القمر کی کیفیت بیان کی۔ جب ان باتوں کو راجہ نےسماعت کیا تو پیغمبر اسلام کی صداقت کو قبول کر لیا اس کے دل  میں نبی اکرم صلی الہ علیہ سلم کی محبت جاگزیں ہوگئی اور اس نے صدق دل سے اسلام کو قبول کر لیا ۔

راجہ نے فقراء سے کہا کہ جب تم قدم مبارک کی زیارت سے واپس آنا تو میں بھی تمھارے ہمراہ چلوں گا تا کہ نبی اکرم کی زیارت کروں اور تاکید کی کہ یہ واقعہ ملیبار میں کسی سے بیان نہ کرنا۔ فقراء جب سیلان سے واپس آئے تو راجہ نے بوڑھے سے ایک کشتی کے مہیا کرنے کی فرمائش کی تاکہ راجہ اور اس کے ہمرا ہی بلا تکلیف سفر کر سکیں۔ بندر پر بہت سے اجنبی تاجروں کی کشتیاں موجود تھیں ایک کشتی والے سے معاملہ ہو گیا۔ راجہ نے جب سفر کی تیاری کرلی تو اپنے اہل خاندان اور وزرا ، سلطنت کو بلا کر کہا کہ میں عبادت الہی میں مصروف ہو نا چاہتا ہوں اس لیے ایک ہفتہ تک کسی آدمی سے نہیں ملوں گا ۔ اس کے بعد ملک کا انتظام مختلف آدمیوں کے تفویض کیا اور ہر ایک کے نام حکم دیا کہ آپس میں ایک دوسرے کے مقبوضات ہے کوئی تعرض نہ کرے ۔ اہل ملیبار میں یہ واقعہ اسی طرح مشہور ہے۔ راجہ کی عملداری شمال میں کنجر کوٹ سے شروع ہو کر جنوب میں کمھری  تک پھیلی ہوئی تھی۔

اس کے بعد راجہ فقراء کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگیا۔ کشتی پہلے فندرینہ میں  پہونچی۔ مسافروں نے اس جگہ ایک رات دن بسر کیا۔ پھر یہاں سے در مفتن پہونچے جہاں تین روز گزارے ۔ یہاں سے روانہ ہو کر شحر میں اوترے ۔ وہاں عرصہ دراز تک سکونت پذیر رہے۔ ایک جماعت اپنے رفیقوں کی مہیا کی۔ ان سبھوں نے یہ ارادہ کیا کہ ملیار جائیں اور وہاں دین اسلام کو رواج دیں۔ عبادت کے لیے مساجد تعمیر کریں۔ اسی اثنا میں راجہ بیمار ہوگیا اور اُسے زندہ رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو اپنے رفیقوں کو وصیت کی کہ سفر ہند کے ارادے پر ثابت قدم رہیں۔

حسب ذیل آدمی راجہ کے رفیق تھے۔ شرف بن مالک ان کا بھائی مالک بن دینار اور ان کا بھتیجا مالک بن حبیب بن مالک وغیرہ ۔ انھوں نے راجہ سے کہا کہ ہم نہ تو تمھارے ملک کو جانتے ہیں اور نہ اس کے حدود سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ ارادہ محض تمھارے ساتھ ہونے کے باعث کیا تھا۔ راجہ نے ان کی گفتگو پر دیر تک غور کیا

اور انھیں ملیباری زبان میں ایک خط لکھدیا  جس میں اُس نے اپنے عزیز و اقارب اور حکام وعمال کے پتے بتائے اور ہدایت کی کہ کدن کلور، درمفتن، فندرینہ یا کولم میں  اتریں یہ بھی کہاکہ ملیبار میں کسی سے میرے بیمار ہونے اور مرنے کا حال بیان نہ کرنا ۔ یہاں تک کہ راجہ کا انتقال ہو گیا ۔ اس کے دو سال بعد شرف بن مالک

مالک بن دنیا ر ، مالک بن حبیب ۔ ان کی بیوی قمریہ اور تمام آل و اولاد ملیبار کی طرف   روانہ ہوئے ۔ جب کدنکلور میں پہونچے تو راجہ کا خط وہاں کے حاکم کے حوالہ کیا اس نے خط پڑھا اور تحریر کے مطابق عمل کیا ان لوگوں کو زمینیں اور باغات عنایت کئے۔

مالک بن دینار اور ان کے بھتیجے مالک بن حبیب نے کہ کدنکلور کی سکونت اختیار کی اور وہاں ایک مسجد بنائی ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مالک بن حبیب اپنی بیوی بچے اور مال و دولت ساتھ لے کر کولم کی جانب روانہ ہوا ۔ وہاں ایک مسجد تعمیر کی اپنے بیوی بچوں کو اس جگہ چھوڑ دیا ۔ یہاں سے پہلی مارا وی میں پہونچا۔ وہاں بھی ایک مسجد تعمیر کی ۔ یہاں سے نکل کر با کنور ، منجلور اور کنجرکوٹ تک سفر کیا۔ ان مقامات پر بھی مساجد بنا ئیں اس کے بعدہیلی ماراوی میں واپس آیا ۔ اس جگہ تین مہینے قیام کیا  ،پھر شالیات، جرفتن اور در فتن کوچلا گیا ۔ وہاں بھی مسجدیں تعمیر کیں، کچھ روز ان شہروں میں سفر کرتا رہا۔ پھرکدن کلور میں واپس آیا ۔ اپنے چچا مالک بن دینار کو ساتھ لے کر ان مسجدوں کا معائنہ کیا۔ ہرمسجد میں نماز پڑھی ۔ پھر کدن گلور میں دونوں واپس چلے آئے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کہ دین اسلام نے ایسے ملک میں رواج پایا۔ کفر و ضلالت سے معمور تھا۔ پھر مالک بن دینار اور مالک بن حبیب کود نکلور سے نکلے۔ کہ دوستوں اور غلاموں کو ساتھ لے کر کولم کی جانب روانہ ہوئے ۔ اور اس شہر میں آکرسکونت اختیار کی ۔ ایک مدت گزرنے کے بعد مالک بن دنیا ر، مالک بن حبیب اور اُن کے بعض فیقوں نے شحر کی طرف کوچ کیا۔ وہاں پہونچ کر متوفی راجہ کے مزار کی زیارت کی۔ اس کے بعد مالک بن دینار خراسان کی جانب روانہ ہوئے اور اسی علاقہ میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ مالک بن حبیب ملیبار  واپس آئے۔ کولم میں اپنے بعض لڑکوں کو چھوڑ دیا۔ بیوی کو ساتھ لے کر کدنکلور  میں سکونت اختیار کی اور اسی جگہ ان کا اور ان کی بیوی کا انتقال ہوا ۔ یہ ہے سرگزشت ملیبار میں دین اسلام کے رواج پانے کی۔ اس واقعہ کی تاریخ کا معین کرنا ہمارے لیے دشوار ہے ۔ گمان غالب ہے کہ یہ واقعہ ہجرت نبوی کے دو سو سال بعد واقع ہوا ہے۔ لیکن مسلمانان ملیبار کے یہاں مشہور ہے کہ جس راجہ نے اسلام قبول کیا وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاصر تھا، اور جب ایک رات کو چاند کا دوٹکڑے ہونا دیکھا تو مکہ کا سفراختیار کیا تا کہ نبی اکرم  کی ملاقات سے بہرہ ور ہو۔ جب راجہ اور اس کے رفیق ملیبار سے نکلے اور شحر میں پہنچے تو اس جگہ راجہ کا انتقال ہو گیا۔ اس زمانہ میں مشہور ہے کہ یہ راجہ شحر میں نہیں بلکہ ظفار میں مدفون ہے اور اس جگہ اس کی قبر خاص و عام کی زیارت بنی ہوئی ہے اور یہاں کے باشند ے اس کو سامری کی قبر بیان کرتے ہیں ہے۔"(تحفۃ المجاہدین)"

ملبار کے راجہ کو زین الدین ملباری نے سامری لکھا ہے، یہ سمدری  کی تحریف شدہ شکل ہے، سمدر  samudrکے معنی سمندر  کے ہے، اور یہ اسی نسبت سے ہے۔  راجہ سامری یا سامدری کی طرف منسوب قبر سلطنت عمان کے قصبے صلالہ میں پائی جاتی ہے، ہمیں اس کی زیارت کا موقعہ ملا ہے۔ ملباری حضرات یہاں خاص طور پر قافلوں میں زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ 

مخدوم صاحب فقہ شافعی کے ایک مستند فقیہ اور مرجع ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ وہ اچھے مورخ بھی ہوں، مالک بن دینار کے سلسلے میں آپ نے جو روایت بیان کی ہے ، تاریخ  سے اسے ثابت کرنا بہت مشکل ہے، مالک بن دینار  تاریخ کی غیر معروف شخصیت نہیں ہے، ان کے تذکرے سے کتابیں بھری پڑی ہیں، لیکن یہ واقعہ ان کتابوں میں دستیاب نہیں۔ہندوستان میں لکھی گئی بعض  کتابوں میں اس واقعہ کی اور بھی تفصیلات موجود ہیں ، جن میں تضادات بھی بہت ہیں۔ اس کا تذکرہ ان شاء اللہ آئندہ کسی تفصیلی بحث کے لئے چھوڑتے ہیں۔

ہندوستان کے جنوبی آخری کنارہ کنیا کماری  کے پڑوس میں مسلمانوں کی قدیم  تاریخی بستی ہے کایل پٹنم، سراندیپ یا سری لنکا کے بالمقابل ہونے کی وجہ سے یہ وہاں جانے والوں کے لئے اہم پڑاؤ ہوا کرتا تھا، یہاں مصر سے بھی قافلے آتے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس کا نام قاہرہ کی طرف منسوب ہو کر قاہرہ فتن  بنا تھا،  یہ ایک مسلم اکثریتی قصبہ ہے، اور قدیم مسلم روایات کا حامل ۔ یہاں پر بھی مورخین صحابہ کی آمد کا تذکرہ کرتے ہیں، لیکن معاملہ علمی تحقیق کی کسوٹی پر اترتا نظر نہیں آتا۔ یہ قصبہ بھی ایسا ہے کہ اس کا بھی تذکرہ ہو، ہمارا یہاں جانا ہوا ہے ، اس پر کچھ لکھنے کا ارادہ سینے میں دبا ہوا ہے، بھٹکل میں یہاں کے ایک بزرگ کا مزار واقع ہے، جس کے سامنے حافظ منزل میں اس عاجز نے آنکھیں کھولی تھیں ۔

یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ زین الدین ملیباری نے مالک بن دینار سے منسوب جن مساجد کا تذکرہ کیا ہے، ان جگہوں پر آپ کی طرف منسوب یہ  مساجد اب بھی پائی جاتی ہیں، لیکن ملبار کے پاس مسلمانان ہند کی رابطے کی زبان اردو نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بارے میں لوگوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں،ان میں سے کئی ایک مساجد کی زیارت کا اس ناچیز کو موقعہ ملا ہے، دیکھا جائے تو  صرف کوژی کوڈ میں اتنی تاریخی مساجد ہیں  کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ لیکن وہاں کوئی جاننے والے اور بتانے والا نہیں ملتے، اور جو بتانے والے ہیں وہ خوش عقیدہ ادھر ادھر کی غیر مصدقہ باتیں کہنےوالے۔  

ان مساجد میں ایک مسجد فاکنور کی ہے،گزشتہ چند سالوں سےبعض لوگ فاکنور کو قدیم بھٹکل ثابت کرنے پر تلے  ہوئے ہیں، یہ درست نہیں ہے، مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ اڈپی کےقریب واقع قدیم جینی ریاست کا دارالسلطنت بارکور ہے۔  ابن بطوطہ نے اس کا جو محل وقوع بیان کیا ہے، اس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے،  تاریخ اپنی بات ثابت کرنے کے لئے نہیں ہوا کرتی ، بھٹکل کے نوائط کی اپنی ایک شناخت اور تاریخ ہے، اسے ثابت کرنے کے لئے ان مصنوعی حوالوں کی ضرورت نہیں، ابن بطوطہ کے مطابق فاکنور سے قدیم ملیبار کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اور ملبار کے ماپلا مسلمانوں کے سلسلے میں مورخین کا اتفاق ہے کہ ان میں عربی النسل خاندان پائے جاتے ہیں، لیکن  یہ سبھی عربی النسل نہیں ہیں، ان کی اکثریت بعد میں اسلام میں داخل ہوئی ہے، ۱۵۰۲ء میں ملبار کی سیاحت کرنےو الے پرتگالی سیاح دوارت بربوسا نے لکھا ہے کہ اگر  پرتگالی ملبار نہ پہنچتے تو پورا ملبار مسلمان ہوگیا ہوتا۔ نوائط  برادری نے جس طرح نکاح ، عائلی و معاشرتی نظام کی صدیوں تک پابندی کی ہے، اور جس طرح وہ ایک اجتماعی نظام سے وابستہ رہے ہیں، اس سے ملباری ماپلا اور نوائط کی تہذیب وثقافت میں بین فرق محسوس ہوتا ہے۔ بربوسا کی کتاب سے محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں بھٹکل کی اہمیت کوژی کوڈ (کالیکٹ) سے زیادہ تھی۔ بات درمیان میں آگئی، یہ بھی ایک مستقل بحث کا متقاضی ہے۔ 

۔ بارکور میں ندی کنارے اب بھی مالک بن دینار کی طرف منسوب مسجد پائی جاتی ہے، اسے ہمارے مرحوم دوست مظفر کولا صاحب نے از سر نو تعمیر کیا تھا۔اس مسجد میں اب بھی کچھ قدیم آثار پائے جاتے ہیں، لیکن انہیں سمجھنے والے اب نہیں رہے ہیں، اس مسجد کا پہلے ہم لوگوں کو علم نہیں تھا،، ورنہ اس قدیم مسجد کی عمارت کے تاریخی ورثہ کی حیثیت سے حفاظت پر شاید توجہ دلائی جاسکتی تھی۔ اللہ کی ذات بڑی حکیم ودانا ہے۔    

2024-01-03

https://telegram.me/ilmokitab

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو