فیضِ باطنی
فیض
کا نزول ہمیشہ منصب والی ہستی پر ہوتا ہے، پھر زیریں پر آتا ہے۔ ماتحت مناصب والے
کی مخالفت، منصب بالا سے مانع فیض، بلکہ قاطع فیض ہے جیسا صدر یا وزیر اعظم کی
مخالفت کر کے حکومت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
حضرت جؒی نے ایک موقع پر اس اصول کی
مزید وضاحت کرتے ہوئےفرمایا:
‘‘سب
سے بڑا پاور ہاؤس، بڑا ہیڈ کوارٹر جو ہے، وہ دربار ِ نبویﷺ ہے۔ ہمیں جو کچھ ملتا
ہے مسلمانوں کو، جو انوار و تجلیات باری تعالیٰ
کی طرف سے آقائے نامدارمحمد رسول اللہﷺ پر اترتے ہیں، ان میں بعض بہت باریک باریک ہوتے ہیں۔ بال تو موٹے
ہیں، بالوں سے بھی باریک انوار، بالکل باریک۔ ہر مسلمان کے قلب کے پاس پہنچتے ہیں
جن کی صورت قلب میں جو روشنی ایمانی پیدا ہوتی ہے اس کی، اس میں تیل ڈالنے والی،
روغن ڈالنے والی، وہ محمد رسول اللہﷺ کے سینہ مبارک سے نکلنے والے انوارات ہیں۔ اگر یہ کٹ جائیں،
ایمان لے کر دنیا سے نہیں جائے گا، ایمان ختم ہو جائے گا۔
دوسری قسم کے انوار نکلتے ہیں جو اولیاء
اللہ میں سب سے بڑی ہستی ہوتی ہے مثلاً قربِ عبدیت۔ پہلے انوار حضورﷺ سے نکل کر اسی پر جاتے ہیں، اس سے پھر نیچے، اس طرح چلتے چلتے دنیا
میں پہنچتے ہیں۔ ’’
اللہ کریم اگر بصیرت عطا فرما دیں تو
ہر دل جڑا ہوا نظر آتا ہے، ان نور اور روشی کی تاروں سے جو قطب اطہر سے نکل کر
کائنات میں پھیلتی ہیں۔ ہر اطاعت، ہر اتباع سنت کا قدم اس تار میں تاریں بڑھاتا
رہتا ہے۔اس راستے کو مضبوط اور کھلا کرتا رہتا ہے۔ ہر دفعہ اللہ کا نام، ہر دفعہ
کی نیکی اسے بڑھاتی رہتی ہے اور رشتہ مضبوط ہوتا رہتا ہے۔ ہر گناہ اسے کمزور کرتا
رہتا ہے۔ ہر لقمۂ حرام، ہر جھوٹ، ہر رشوت، ہر برائی اسے کمزور کرتی ہے۔ آپ نے
دیکھا ہوگا کہ گناہ کرتے کرتے کچھ لو گ اسلام چھوڑ کر گمراہ عقائد اختیار کر لیتے
ہیں اس لئے کہ وہ اطاعت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک بہت بڑے نیک پارسا کی اولاد گمراہ
ہو جاتی ہے۔ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے وہ رشتہ جب ٹوٹ جاتا ہے تو بندہ آوارہ ہو جاتا
ہے جس کی مرضی اسے اچک لے۔
l;l;
دوامِ فیض کے لوازم
فیض کے قیام و بقاء و ہمیشگی
کے لئے چند امور ضروری ہیں:
یہ کہ شیخ فیض دہندہ زندہ
ہو جس کے ذریعے فیض حاصل کرتا رہے، یا کسی روحِ ولی کامل سے ربط ہو جس کو ربطِ
بالشیخ کہا جاتا ہے تاکہ اس سے فیض حاصل کرتا رہے، یا براہِ راست بذریعہ مشائخ
رسول اللہﷺ سے فیض اخذ کرے، یا خود ذات باری تعالیٰ سے فیض حاصل کرے باتباع اپنے پیغمبر
کے یعنی واسطہ حصول فیض باری کا اپنا رسول ہوتا ہے۔ اگر فنا و بقاء بھی حاصل ہو
جائے اور شیخ فوت ہو گیا، اس سے ربط قائم نہ ہوسکا تو کچھ مدت کے بعد خود بخود طبیعت
سرد ہو کر ہر چیز چلی جاتی ہے۔ ہاں، لطائف قائم رہتے ہیں اِلاماشاء اللہ، جس پر اللہ
تعالیٰ کا فضل رہے ورنہ مشکل ہے۔
اخذِ فیض کا طریقہ
رسول
اکرمﷺ سے براہِ راست فیض لینا، ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ باقی رہا یہ فیض کس طرح
حاصل کرتے ہیں، ذات سے یا اہل قبور سے؟ اس کے متعلق گزارش ہے کہ یہ وہ پیالہ نہیں
کہ بغیر نوش کئے اس کا ذائقہ حاصل ہو۔ جس کو نوش کر کے ذائقہ یا لذت حاصل کرنی
مقصود ہو وہ کسی کامل و اکمل کا دامن مضبوطی سے پکڑے اور کچھ وقت لگائے، شرائط
سلوک کے مطابق عمل کرے پھر خود ظاہر ہو جائے گا۔ اگر اس راہ سے ناواقف آدمی اس سے
انکار کر دے تو اس انکار سے اس حقیقت کی نفی نہ ہوگی۔ وہ معذور ہے کہ نورِ بصیرت
سے محروم ہے۔ اگر اندھا روشنی کا اور طلوع آفتاب کا انکار کرے تو وہ معذور ہے۔ اسی
طرح نورِ بصیرت کا اندھا بھی معذور ہے۔
اخذ
فیض کے لئے طلب اور طلب صادق پہلا قدم ہے۔ مگر صرف طلب کافی نہیں بلکہ اس خاص
استعداد کے پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے جو ان کیفیات کو جذب کر سکے۔ اسی غرض سے تیزی سے اور قوت سے سانس
کے ذریعہ ذکر کرایا جاتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ذہن پراگندہ نہیں ہوتا، طرح
طرح کے خیال نہیں آنے پاتے۔ پھر جب ادھر پوری توجہ ہوجاتی ہے تو اس توجہ کا تعلق
سانس سے نہیں بلکہ اسم ذات سے ہو جاتا ہے۔ اگر روح میں قبولت کی استعداد اور قوت
پیدا نہ ہو تو طالب کا قلب شیخ کی توجہ کے انوارات کو پٹک دیتا ہے۔ آپ نے دیکھا
نہیں کہ مکہ کے رہنے والے بعض افراد آقائے نامدارﷺ کے ساتھ اس قدر مادی قرب میسر
آنے کے باوجود قربِِ حقیقی کی دولت سے محروم ہی رہے۔
حضورِ
اکرمﷺ کے قلبِ اطہر میں اتنی قوت ہےکہ آپ پوری کائنات میں فیضان باری کو تقسیم
کرنے والے ہیں۔ فرشتے ہوں یا انبیاء جن ہوں یا انسان، کائنات بسیط کا ایک ایک ذرہ
تجلیات باری کو اخذ کرنے میں محمد رسول اللہﷺ کا محتاج ہے۔ آپﷺ کی ذات نور کا وہ
مینار ہے جو ساری کائنات کو نور تقسیم کرتا ہے۔ پھر حیرت ہے کہ اتنا بڑا خزینہ جن
لوگوں کے پاس ان کی مادی زندگی میں موجود رہا، وہ اس خزینہ سے اخذ فیض کرنے سے
محروم ہی رہے!
کیا
ان لوگوں کی محرومی کی وجہ یہ تھی کہ حضور
اکرمﷺ بعض لوگوں کے لئے توجہ فرماتے تھے اور بعض کے لئے نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو رحمت اللعٰلمین بنا کے بھیجا تھا، لہٰذا تقسیم
فیضان میں حضورﷺ نے کبھی کمی نہیں کی۔ اگر فرق تھا تو اخذ فیض میں۔ جن لوگوں نے
اپنے قلوب میں اخذ فیض کی استعداد پیدا نہ کی، اس کا ارادہ نہ کیا، انہوں نے خود
توجہ نہ کی، وہ محروم ہی رہے اور جو متوجہ ہوئے وہ نہال ہو گئے
۔اگر اخذ فیض میں کوتاہی اور کمی کی وجہ سے دورِ نبویﷺ
میں بھی محرومی ہو سکتی ہے تو کسی ولی کی صحبت میں رہ کر اس کے فیض سے محروم رہنا
کون سی تعجب کی بات ہے!
اخذ فیض کے لئے طالب کا صرف متوجہ ہونا کافی نہیں بلکہ
اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ اعمال کے ذریعہ اپنے اعضاء میں، جوارح میں، اپنے وجود
میں اخذ فیض کی استعداد بھی پیدا کرے۔ اعضاء و جوارح سے اعمال صالحہ کے لئے اکل
حلال شرط ہے اور طیب غذا بھی درکار ہے تاکہ اس سے خون صالح پیدا ہو جو جسم کو
اعمال صالحہ کی تحریک کرے۔
l;l;
انکار فیضِ باطنی
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًاط
بے شک بے اصل
خیالات حق سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کر سکتے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔ (سورۃ یونسـ36)
ایسے لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ
نے خوب فرمایا:
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ
عِلْمٌط
لیکن جس بات کا تمہیں علم ہی نہیں تو اس میں جھگڑا کیوں کرتے ہو۔(سورۃ آل
عمرانـ66)
ظن، حق سے مستغنیٰ نہ کرے گا، پھر وہ ظن جو کسی
شرعی دلیل سے ماخوذ بھی نہ ہو، نہ ہی شرعی دلائل کی طرف منسوب ہو۔
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
بَلْ کَذَّبُوْا بِمَالَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ۔
بلکہ جس چیز کے علم پر یہ قابو نہیں پا سکے اس کا انکار کر دیا(سورۃ یونس ـ 39)
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
وَلَاتَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌط
اور (اے بندے!) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ (الاسراء ـ 36)
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
اَکَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَلَمْ تُحِیْطُوْا بِھَا
عِلْمًا۔
کیا تم نے میری آیات کو جھٹلایا تھا
اور تم ان کو اپنے احاطۂ علمی میں ہی نہیں لائے۔ (سورۃ النمل ـ 84)
اس وجہ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِی ہرَیرَۃ
عَنِ النَّبِی ﷺ أنہ قال : كَفٰى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ یحَدِّثَ بِكُلِّ
مَا سَمِعَ
جھوٹے کے جھوٹ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو سنے بیان کر دے اور حقیقت تک نہ
پہنچے۔ (صحیح مسلم)
انتباہ
میں
وثوق سے کہتا ہوں کہ علماء ظواہر، علم باطنی جس کو تصوف و سلوک کہا جاتا ہے اور وہ
صوفیاء کرام سے مخصوص ہے، اس کی سمجھ سے کوسوں دور ہیں اور اس کی واضح و روشن دلیل
ہے قصہ حضرت موسیٰ
اور حضرت خضر
کا۔ اسی وجہ سے حضرت خضر
نے حضرت موسیٰ
سے شرط لگائی تھی اور فرمایا:
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی
مَالَمْ تُحِطْ بِ خُبْرًا ہٖ
اور جس بات کی آپ کو خبر ہی نہ ہو اس پر آپ کیسے صبر کر سکتے ہیں۔ (سورۃ
الکہف ـ 68)۔
جب حضرت موسیٰ
جیسے جلیل القدر رسول، اولوالعزم پیغمبر
نہ سمجھ سکے تو دوسرا کون ہے!
آخری مختتم بات
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:
اَفَتُمٰرُ
وْنَہٗ عَلٰی مَایَرٰی۔
تو کیا ان سے ان کی دیکھی ہوئی چیز میں جھگڑا کرتے ہو؟ (سورۃ النجمـ12)
بھلا اندھوں کی بات کو کس
طرح تسلیم کر لیں جن میں نورِ بصیرت ہی نہیں۔ قطب، غوث ان کی پیشانی پر لکھا تو
ہوتا نہیں۔ نورِ بصیرت سے اندھے قلوبِ منورہ کو کہاں سے دیکھیں! ان برگزیدہ ہستیوں
کا دنیوی مقام یہ ہے کہ کوئی ان میں سے تاجر
ہے، کوئی حداد ہے، کوئی سبزی فروش ہے۔ ان گڈڑیوں میں یہ لعل صاحبِ بصیرت جوہری کے
بغیر کیسے پہچانے جائیں!
‘‘الیواقیت و الجواہر’’ جلد دوم، صفحہ 81 ۔ ‘‘المبحث الخامس فی بیان ان اکبر الاولیاء بعد الصحابۃ
القطب الخ’’ پر ہے۔
وَمِنْ شَأْنِہٖ اَلْخِفَاءُ فَتَارَۃً یَکُوْنُ
حَدَّادًا وَتَارَۃً تَاجِرًا وَتَارَۃً یَبِیْعُ الْبَقُوْلَ وَاللّٰہُ
اَعْلَمُ
|
اور اس کی شان سے خفاء ہے وہ غوث، کبھی لوہار کا کام کرتا ہے، کبھی تاجر ہوتا ہے،
کبھی سبزی فروش وغیرہ۔ ذالک
|
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔