دلائل و ثبوت اولیاء اللہ
‘‘الموضوعات
الکبریٰ’’ صفحہ491 پر ملّا علی قاریؒ نے علامہ ابن تیمیہ
کا قول نقل کیا ہے کہ وہ قطب، غوث کا نام سن کر اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا جواب
ملّا علی قاریؒ نے یوں دیا۔
قُلْتُ
قَدْ وَرَدَتِ الْاَحَادِیثُ وَالْآثَارُ مَرْفُوعَۃ وَمَوْقُوفَۃ عَلٰى
الصَّحَابَۃ الْاَبْرَارِ وَالتَّابِعِینَ الْاَخْیارِ جَمَعَہا السُّیوطِی فِی
رِسَالَۃ مُسْتَقِلَّۃ سَمَّاہا الْخَبَرُ الدَّالُ عَلٰى وُجُودِ الْقُطُبِ
وَالْاَوْتَادِ وَالنُّجَبَاءِ وَالْاَبْدَالِ
(الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ المعروف بالموضوعات
الکبریٰ، صفحہ492)
میں کہتا ہوں تحقیق وارد ہوچکی ہیں حدیثیں
اور آثار صحابہ کرام
سے، مرفوع بھی اور
موقوف بھی صحابہ کرام پر اور تابعین اخیار پر۔ جمع کیا ان تمام احادیث و آثار کو
حافظ سیوطیؒ نے رسالہ میں جس کا نام رکھا، ‘‘الخبر
الدال علی وجود القطب والاوتاد و النجباء
والابدال’’
اس رسالہ میں حافظ سیوطیؒ
نے تقریباً 52 احادیث آثار ضعیف، مرفوع و موقوف قوی پیش کئے ہیں۔ یہ
رسالہ‘‘الخبر
الدال’’ علامہ سیوطیؒ کے فتاویٰ کے مجموعہ ‘‘الحاوی للفتاویٰ’’ جلد دوم میں موجود ہے جس کے صفحہ 17 اور ‘‘الحاوی للتفاویٰ’’ کے صفحہ 437،جلد
دوم پر یوں تحریر کیا ہے:
وَقَالَ بَعْضُ الْعَارِفِیْنَ: وَالْقُطْبُ
ھُوَالْوَاحِدُ الْمَذْکُوْرُ فِی حَدِیْثِ ابْنِ مَسْعُوْدِ
اَنَّہٗ عَلٰی قَلْبِ اِسْرَافِیْلَ وَمَکَانُہٗ مِنَ
الْاَوْلِیَاءِ کَالنُّقْطَۃِ فِی الْدَّائِرَۃِ اللَّتِیْ ھِیَ مَرْکَزُھَا، بِہٖ
یَقَعُ صَلَاحُ الْعَالَمِ
اصلاح جہان سے یہاں قطب ارشاد کا تاثر
ملتا ہے، کیا یہ تأثر درست ہے؟ رہنمائی فرمائی جائے۔
بعض عارفین نے
فرمایا کہ قطب ایک ہے جو مذکور ہو چکا ہے حدیث عبداللہ بن مسعود
میں
اور اسرافیل فرشتہ کے دل پر ہے یعنی قطب کا قلب اسرافیل فرشتہ کے قلب پر ہے۔ اس قطب کا مکان اولیاء اللہ میں مثل نقطہ
کے ہے جو دائرہ میں ہوتا ہے، وہ دائرہ جواس کا مرکز ہے۔ اس قطب کے سبب اصلاح جہان
کی ہوتی ہے۔
اصولِ حدیث میں یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ فضائل اعمال میں
ضعیف حدیث مقبول ہے اور فضائل رجال میں تو اس سے ضعیف تر بھی مقبول ہے۔ اس اصول کا
اطلاق اقطاب و ابدال وغیرہ کے وجود کے اثبات میں کیوں نہ کیا جائے تاکہ اعتراض کی
گنجائش نہ رہے۔ اس سلسلے میں ہم کچھ دلائل پیش کرتے ہیں۔
قُلْتُ
قَدْ وَرَدَتِ الْاَحَادِیثُ وَالْآثَارُ مَرْفُوعَۃ وَمَوْقُوفَۃ عَلٰى
الصَّحَابَۃ الْاَبْرَارِ وَالتَّابِعِینَ الْاَخْیارِ جَمَعَہا السُّیوطِی فِی
رِسَالَۃ مُسْتَقِلَّۃ سَمَّاہا الْخَبَرُ الدَّالُ عَلٰى وُجُودِ الْقُطُبِ
وَالْاَوْتَادِ وَالنُّجَبَاءِ وَالْاَبْدَالِ
(الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ المعروف بالموضوعات
الکبریٰ، صفحہ492)
|
|
میں کہتا ہوں تحقیق وارد ہوچکی ہیں حدیثیں
اور آثار صحابہ کرام
|
وَقَالَ بَعْضُ الْعَارِفِیْنَ: وَالْقُطْبُ
ھُوَالْوَاحِدُ الْمَذْکُوْرُ فِی حَدِیْثِ ابْنِ مَسْعُوْدِ
|
|
|
آقائے نامدارﷺ کی بعثت کے بعد امت مرحومہ کے
اولیائے کرام کا انبیائے سابقون کے نقش قدم پر چلنے سے کیا مراد ہے؟ رہنمائی فرمائی
جائے۔
|
اِنَّ عَلٰی قَدَمِ کُلِّ نَبِیٍّ وَلِیّاً وَارِثًالَہٗ
فَمازَادَ فَلَابُدَّ اَنْ یَّکُوْنَ فِیْ کُلِّ عَصْرٍمِأَتُہ اَلْفٍ وَ اَرْبَعَۃُ
وَعِشْرُوْنَ وَلِیًّا عَلٰی عَدَادِ الْاَنْبِیَاء
|
|
ہر نبی کا وارث
ایک ولی ہوتا ہے جو اس نبی کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ہر زمانہ
میں انبیاء
|
حسب ارشاد باری تعالیٰ
انبیاء
کو ایک دوسرے
پر فضیلت عطا ہوئی ہے۔ اسی طرح ان اولیاء اللہ میں پانچ سو (۵۰۰) اولیاء اعلیٰ شان
والے ہوتے ہیں۔ پھر ان میں سے بااعتبار مراتب منتخب اور مختلف ہوتے ہیں۔
عَنْ اِبْنِ عُمَرَ
قَالُوا: یَارَسُوْلَ اللہِﷺ دُلَّنَاعَلیٰ اَعْمَالِھِمْ، قَالَ: یَعْفُوْنَ عَمَّنْ
ظَلَمَھُمْ وَیُحْسِنُوْنُ اِلٰی مَنْ أَسَاءَ اِلَیْھِمْ وَیَتَوَاسَوْنَ
فِیْمَا اٰتٰھُمُ اللہُ، اخرجہ ابو نعیم وغیرہ۔
(مجموعہ رسائل ابن عابدین، صفحہ 270، جلد دوم، رسالہ ‘‘اجابۃ الغوث ببیان حال النقباء والنجباء والابدال والاوتاد والغوث’’
|
|
حضور اکرمﷺ نے
فرمایا کہ میری امت میں ہر زمانہ میں ہر حالت میں مختار شدہ پانچ سو آدمی ہوں گے،
ان میں چالیس ابدال ہوں گے، اس تعداد میں کمی نہ ہوگی۔ جب کوئی ابدال فوت ہو گیا
تو ان پانچ سو میں سے اللہ تعالیٰ کسی کو ابدال بنا دے گا اور ان چالیس میں داخل
کر دے گا[1]۔
صحابہ کرام
|
پھر
ان پانچ سو میں سے تین سو اولیاء غیر صاحب منصب ہوتے ہیں، بقایا صاحب منصب ہوتے
ہیں۔
وَحَکَی اَبُوْبَکْرٍ اَلْمُطَوَّعِی عَمَّنْ رَأَی الْخِضَرَ علیہ السلام وَتَکَلَّمَ مَعَہٗ
وَقَالَ لَہٗ: اِعْلَمْ اَنَّ
رَسُوْلَ اللہِﷺ لَمَّا قُبِضَ بَکَتِ الْاَرْضُ وَقَالَتْ
اِلٰھِی وَسَیِّدِی بَقِیْتُ
لَایَمْشِیْ عَلَیَّ نَبِیٌّ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْحَی اللہُ تَعَالیٰ
اِلَیْھَا اَجْعَلُ عَلٰی ظَھْرِکِ مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ مَنْ قُلُوْبُھُمْ
عَلٰی قُلُوْبِ الْاَنْبِیَاءِ علیھم الصلاۃ والسلام لَااُخَلِّیْکَ مِنْھُمْ
اَلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ قَالَتْ لَھٗ وَکَمْ ھٰؤُلَاءِ قَالَ ثَلٰثُمِائَۃٍ
وَھُمُ الْاَوْلِیَاءُ وَسَبْعُوْنَ وَھُمُ النُّجَبَاءُ وَاَرْبَعُوْنَ وَھُمُ
الْاَوْتَادُ وَعَشَرَۃٌ وَھُمُ النُّقَبَاءُ وَسَبْعَۃٌ وَھُمُ الْعُرَفَاءُ
وَثَلَاثَۃٌ وَھُمُ الْمُخْتَارُوْنَ وَوَاحِدٌ وَھُوَ الْغَوْثُ فَاِذَا مَاتَ نَقَلَ مِنَ الثَّلَاثَۃِ وَاحِدٌ وَجَعَلَ
الْغَوْثَ مَکَانَہٗ وَنَقَلَ مِنَ السَّبْعَۃِ اِلٰی الثَّلَاثَۃِ وَمِنَ
الْعَشَرَۃِ اِلٰی السَّبْعَۃِ وَمِنَ الْاَرْبَعِیْنَ اِلٰی الْعَشَرَۃِ وَمِنَ
السَّبْعِیْنَ اِلٰی الْاَرْبَعِیْنَ وَمِنَ الثَّلَاثِمِائَۃٍ اَلٰی السَّبْعِیْنَ
وَمِنْ سَائِرِ الْخَلْقِ اَلٰی الثَّلاثِمِائَۃٍ ھٰکَذَا اِلٰی یَوْمٍ یُنْفَخُ
فِی الصُّوْرِ
(مجموعہ رسائل ابن عابدین، صفحہ 269، جلد
دوم، رسالہ ‘‘اجابۃ الغوث ببیان
حال النقباء والنجباء والابدال والاوتاد والغوث’’
|
|
ابوبکر المطوعی
نے بیان کیا ہے اس شخص کے بارے میں جس نے حضرت خضرؑ کی زیارت کی اور ان سے
ہمکلام ہوا۔ حضرت خضرؑ نے اس سے فرمایا، جان لو! کہ بیشک جب رسول اللہﷺ کا وصال
ہوا تو اس پر زمین روئی اور اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا، اے میرے اللہ اور میرے
آقا! اب میں اس حالت میں ہو گئی ہوں کہ قیامت تک میرے اوپر کوئی نبی نہیں چلے گا،
تو اللہ تعالیٰ نے زمین سے فرمایا: میں تمہاری پشت پر اس امت میں سے ایسے لوگ
باقی رکھوں گا جن کے قلوب انبیاء
|
یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق
حضور اکرمﷺ نے مختلف احادیث میں فرمایا کہ:
بِھِمْ یُنْصَرُوْنَ،
بِھِمْ تُمْطَرُوْنَ،
بِھِمْ تُرْزَقُوْنَ،
بِھِمْ یُدْفَعُ
عَنْکُمُ الْبَلَایَا
|
|
ان
کی ذریعے تمہاری مدد کی جائے گی،
ان
کے ذریعے سے تمہیں بارش دی جائے گی اور ان ہی کے ذریعے تمہیں رزق دیا
جائے گا اور
ان ہی کے ذریعے تم سے مصیبتوں کو دور کیا جائے گا۔
|
حضرت جؒی نے صاحب منصب اولیائے کرام کے بارے میں مندرجہ
بالا جملے ان احادیث سے ہیں:
(۱) سمعت رسول اللہﷺ یقول: فیہم الأبدال
و بہم ینصرون و بہم ترزقون ۔
(۲) الأبدال فی أہل الشام و بہم ینصرون و بہم یرزقون .تخریج
السیوطی ( طب ) عن عوف بن مالك
(۳) حدثنا أحمد بن عبد اللہ: لا یزال فیكم سبعۃ بہم تمطرون وبہم ترزقون وبہم
تنصرون ، حتى یأتی أمر اللہ
(۴) عن ثوبانَ رفعَہ قالَ: لا یزالُ فیكمُ سبعۃ بِہم
تُمطَرونَ وبِہم تُرزَقونَ وبِہم تُنصَرونَ، حتى یأتی أمرُ اللہ
(۵) لن
تخلو الأرض من ثلاثین مثل إبراہیم خلیل الرحمن بہم تغاثون و بہم ترزقون و بہم
تمطرون ۔ عن أبی ہریرۃ
(۶) بہم تنصرون وبہم تمطرون - قال : وحسبت أنہ قال : وبہم یدفع
عنكم
[1] حضرت امیر محمد اکرم مدظلہ العالی نے 20مارچ 1979ء کے
ایک خط میں حضرت جؒی کی خدمت میں تحریر کیا تھا: ‘‘بارگاہِ رسالت پناہیﷺ سے طلبی ہوئی..... بندہ جب
حاضر ہوا تو مسئلہ ابدالوں کا پیش تھا، جماعت ابدالوں کی بھی حاضر تھی اور خیال یہ
ہے کہ دو ابدال کل اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے، ان کی جگہ نئے آدمیوں کا تقرر ہونا
تھا۔’’ حضرت جؒی نے جواباً تحریر فرمایا: ‘‘......
دو ابدالوں کا فوت ہونا ٹھیک ہے اور ان تین آدمیوں کا وہاں دیکھنا بھی ٹھیک ہے
.... اور آپ کا پیش کرنا بھی ٹھیک ہے۔......... آپ کو یہ بتایا گیا ہے کہ دو آدمیوں
کی جگہ خالی ہے اور یہ جگہ چھ ماہ کے اندر پر ہو گی اور ہماری جماعت سے ہو گی.......’’
[1] حضرت امیر محمد اکرم مدظلہ العالی نے 20مارچ 1979ء کے
ایک خط میں حضرت جؒی کی خدمت میں تحریر کیا تھا: ‘‘بارگاہِ رسالت پناہیﷺ سے طلبی ہوئی..... بندہ جب
حاضر ہوا تو مسئلہ ابدالوں کا پیش تھا، جماعت ابدالوں کی بھی حاضر تھی اور خیال یہ
ہے کہ دو ابدال کل اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے، ان کی جگہ نئے آدمیوں کا تقرر ہونا
تھا۔’’ حضرت جؒی نے جواباً تحریر فرمایا: ‘‘......
دو ابدالوں کا فوت ہونا ٹھیک ہے اور ان تین آدمیوں کا وہاں دیکھنا بھی ٹھیک ہے
.... اور آپ کا پیش کرنا بھی ٹھیک ہے۔......... آپ کو یہ بتایا گیا ہے کہ دو آدمیوں
کی جگہ خالی ہے اور یہ جگہ چھ ماہ کے اندر پر ہو گی اور ہماری جماعت سے ہو گی.......’’
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔