ANTI-ADBLOCK JS SYNC سرودِ رفتہ بازآید کہ ناید ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

سرودِ رفتہ بازآید کہ ناید

سرودِ رفتہ بازآید کہ ناید

          ڈاکٹر خالد علویؒ مشہور محقق اور سکالر تھے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین رہے اور دعوة اکیڈمی، اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل۔ انہوں نے حضرت جؒی کو نوجوانی میں بطور ایک جید عالم دیکھا اور ایک طالب علم کی حیثیت سے مذاہب باطلہ کے موضوع پر ان سے استفادہ کیا۔ نصف صدی بعد حضرت امیرالمکرم مدظلہ العالی کی دعوت پر بعثت رحمت عالمﷺ کانفرنس  میں شرکت کے لئے دارالعرفان آئے تو اسرارالتنزیل اور حضرت مدظلہ العالی کی دیگر کتب کے ساتھ ‘‘حیاتِ طیبہ’’ کا تحفہ ملا۔ اس طرح یہ سوانح ڈاکٹر خالد علویؒ کے لئے حضرت جؒی کی شخصیت کے روحانی پہلو سے تعارف کا ذریعہ بنی تو ان کے جذبات قلم سے ٹپک پڑے کہ وہ آپؒ کے اس پہلو سے استفادہ کرنے سے کیوں محروم رہے! ڈاکٹرخالد علویؒ  کا یہ تبصرہ دعوۃ اکیڈمی کے علمی و ادبی مجلہ ‘‘ماہنامہ دعوة’’ مارچ 2006ء میں شائع ہوا جو عنوان بالا کی صدائے بازگشت نظر آتا ہے۔
            دوسری رائے میاں عبدالرشیدؒ کی ہے جو عمر بھر شعبۂ نشر و اشاعت سے وابستہ رہے اور متعدد کتب کے مطالعہ کا موقعہ ملا۔ ان کا یہ تبصرہ نہ صرف حسن طباعت پر ایک صاحب فن کی طرف سے سند کا درجہ رکھتا ہے بلکہ سوانح نگاری کے متعلق ایک بے لاگ تجزیہ بھی ہے۔ حضرت جؒی کی ملاقات سے محروم رہنے پر انہوں نے جس طرح اظہارِ جذبات کیا ہے، وہ ہر ایسے قاری کے تاثرات کی عکاسی کرتا ہے جو اس سوانح کے مطالعہ کے بعد اسی احساس محرومی میں دل گرفتہ ہوگا۔
٭٭٭
ڈاکٹر خالد علوی
ماہنامہ دعوة۔ مارچ 2006ء
          یہ پچاس کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے کہ ناچیز تعلیم القرآن راولپنڈی میں دورۂ قرآن کے لئے موجود تھا۔ایک شام اعلان ہوا کہ ردِ رفض و قادیانیت کے لئے خصوصی لیکچرز کا انتظام کیا گیا ہے۔ اگلے روز ایک مقرر ہمارے درمیان تھا۔
          دھندلا سا نقشہ ذہن میں ہے۔ شلوار، لمبا کُرتا اور پگڑی میں ملبوس ایک متاثر کن شخصیت ہمارے سامنے تھی۔ لہجے میں اعتماد، الفاظ کے انتخاب کا سلیقہ، استدلال میں بے پناہ قوت اور بیان کی شیرینی و تاثیر نے دلوں اور ذہنوں کو کنٹرول کر لیا تو علمی تبحر، منطقی تجزیہ اور دلیل کی قوت نے دلوں کو مسخر کر لیا۔ میانوالی کا پہناوا  اور میانوالی ہی کا لہجہ، اظہار میں قوت اور اعتماد، دونوں کا حصہ وافر تھا۔ میں اس لہجے سے پہلے ہی مانوس تھا اس لئے کشش محسوس کی۔ میں نے ان کی تقریروں کے نوٹس لیے اور اب بھی میرے کاغذوں میں کہیں موجود ہوں گے۔ مجھے ان کی سادگی، بے ساختگی، معلومات و مطالعہ کی وسعت اور اپنے موضوع پر گرفت کا تاثر اب تک محسوس ہوتا ہے۔ یہ تھے مناظرِ اسلام مولانا اللہ یار خان :!
          علمی سفر مجھے مدرسہ سے کالج اور یونیورسٹی لے گیا۔ تقریباً دس پندرہ برس بعد لاہور میں        ماسٹر حفظ الرحمٰن صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے شیخ مولانا اللہ یار خانؒ کا تذکرہ کیا اور       سلسلہ اویسیہ کی بات کی۔ میں نے تعجب اور دلچسپی سے سنا، میرا ذہن مناظر اسلام کے اسلوب بیان اور   طرزِ استدلال کے نقوش تازہ کر رہا تھا۔ بعض شاگردوں سے کبھی کبھار تذکرہ سنتا لیکن یہ میری محرومی ہے کہ میں اپنے استاد کی شخصیت کے اس پہلو کی طرف متوجہ نہ ہوا اور ان سے سلوک و تربیت کا استفادہ نہ کر سکا۔ گذشتہ برس دارالعرفان منارہ میں سیرت کے جلسہ میں مدعو کیا گیا۔ اس دوران مجھے          امیرالمکرم مولانا محمد اکرم اعوان کی سحر انگیز شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور استاد مکرم کے فیض تربیت کے جلووں کو دیکھا تو اپنی محرومی اور شومئی قسمت کا احساس شدید تر ہو گیا۔ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جس سے محروم رہا۔
          غالباً دارالعرفان میں حاضری کی مناسبت سے مجھے اہل عرفان نے ایک کتاب عنایت فرمائی۔ کتاب نے میری یادیں تازہ کرنے کے ساتھ میرے محرومیوں کے زخم بھی تازہ کر دیئے ہیں۔ بقول شاعر
شمار شوق نہ دانستہ ام کہ تا چند است
جز ایں قدر کہ دلم سخت آرزو مند است

            کتاب کا نام ‘‘حیات طیبہ’’ ہے اور استاد مکرم شیخ طریقت مولانا اللہ یار خانؒ کے سوانحی احوال پر مبنی ہے۔ کتاب کیا ہے شیخ کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ سلسلہ کے موجودہ شیخ امیر المکرم مولانا محمد اکرم اعوان مدظلہ کی نگرانی میں جناب ابوالاحمدین نے اسے مرتب کیا ہے۔ سوانحی خاکہ میں ابتدائی زندگی، حصول تعلیم، مکتب طریقت اور مناظرانہ دور پر مستند معلومات مہیا کی ہیں۔ کتاب کے بقیہ حصہ میں حیات شیخ اور    سلسلہ ترویج باہم دگر اس طرح مربوط ہیں کہ شیخ کی ذات میں سلسلہ نظر آتا ہے اور سلسلہ کی تصویر میں شیخ کا عکس نمایاں ہے۔ سلسلہ کے موجودہ شیخ امیر المکرم مولانا محمد اکرم مدظلہ کی رہنمائی کی کرامت ہے یا ابوالاحمدین کی روحانی تربیت کا فیض کہ کتاب پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ انسان سلسلہ کے روحانی ہالہ میں ہے اور شیخ طریقت کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ حیات شیخ کے بارے میں کیسا بیان ہے!
دو جہاں ساتھ ساتھ چلتے ہیں
جب وہ محشر خرام چلتا ہے
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
          ابوالاحمدین نے ایک محقق کی حیثیت سے مسالہ اکٹھا کیا ہے اور ایک کامیاب مؤلف کی طرح اسے مرتّب کیا ہے۔ زبان شستہ و پاکیزہ، اسلوب روحانی، الفاظ و تراکیب کا در و بست خوب اور حکایت لذیز تر ہے۔ تصوف کی دنیا کا دلچسپ اور حیران کن تجربہ ہے جسے الفاظ و عبارت کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ سلسلہ چونکہ حیات برزخیہ پر زیادہ توجہ دیتا ہے اور عالم امر سے زیادہ متعلق ہے اس لئے یہ فطری بات ہے کہ سالک برزخی تجربات و مشاہدات میں گم ہو جائے لیکن شیخ طریقت کا کمال ہے کہ وہ عالم خلق سے پوری طرح وابستہ و پیوستہ رہے۔ ردِ پرویزیت اور نفاذِ شریعت کے ابواب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں استحکام اسلام انہیں کتنا عزیز تھا اور غزوةُ الہند کی بات پاکستان کی محبت اور اس کی سالمیت کی شہادت ہے۔ مؤلف لکھتے ہیں:
حضرت جؒی کو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ذرہ بھر شائبہ نہ تھا کہ غزوةُ الہند سے قبل اس پر کوئی بڑی جنگ مسلط نہ کی جا سکے گی، جس کا اظہار آپؒ نے بار بار فرمایا۔
          میں نے کتاب کو دوبار پڑھا ہے اور جی ابھی بھرا نہیں۔ سرہانے رکھی ہے۔ جب فرصت ملتی ہے چند صفحے پڑھ لیتا ہوں۔ خوبصورت کمپوزنگ، عمدہ کاغذ اور شاندار طباعت۔ امیرالمکرم، مؤلف کتاب اور متوسلین سلسلہ سب مبارک کے مستحق ہیں۔ چونکہ کتاب شیخ طریقت اور سلسلہ کے بارے میں حوالہ کی حیثیت اختیار کرے گی اس لئے مناسب ہوتا کہ عام قاری کو سلسلہ سے متعارف کرانے کے لئے سلسلہ کے اسباق تربیت بھی شامل کئے جاتے لیکن یہ کوئی ضروری امر بھی نہیں اور پھر ‘‘صاحب البیت ادری مافیہ’’ کے تحت جو کچھ ہے وہ کافی ہے۔
            اللہ تعالیٰ مؤلف، نگرانی کنندہ اور معاونین کو اجر عظیم سے نوازے۔
                                                                                    آمین!
٭٭٭
 قابل احترام جناب ابوالاحمدین صاحب دامت برکاتہ
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
            اللہ سبحانہ وتعالیٰ دارین میں خوشیوں سے نوازے۔ آخرت میں آقائے دوجہاںﷺ کی معیت نصیب فرمائے۔ آمین
            دور سے کتاب کے ٹائٹل پر نظر پڑی تو ایسے لگا کہ آقائے دوجہاںﷺ کی سیرتِ مبارک ہے۔ جب کتاب ہاتھ میں آئی، قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آقائے دوجہاںﷺ کی حیات طیبہ نہیں بلکہ         آقائے دوجہاںﷺ کے ایک خادم کی حیات طیبہ ہے۔ واقعی آقائے دوجہاںﷺ کے دین کی خدمت کی ہوئی نظر آتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین!
          ظاہری خوبیوں سے آراستہ، چار رنگ خوبصورت ٹائٹل، مضبوط جلد، سب سے مہنگا بہترین 115 گرام آرٹ پیپر، اعلیٰ کمپوزنگ جو پڑھنے اور دیکھنے میں دیدہ زیب!
            کتاب پڑھنی شروع کی تو ایسی چمٹی کہ ختم ہو کر ہاتھ سے چھٹی۔ چھاپنے والے نے تو کمال کیا ہی تھا لکھنے والے نے شیخ کا، استاد کا، ایک ولی کامل کا ایسا حق ادا کیا کہ جیسے جیسے پڑھتا گیا، لکھنے والے کے لئے ایک ایک بال سے دعائیں نکلتی رہیں۔
            35 تا غالباً 40 سال پہلے خانہ کعبہ میں حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحؒب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی ایک تقریر سنی جس کا عنوان تھا :
‘‘کعبۃ اللہ، کتاب اللہ، رسول اللہﷺ’’
            دو گھنٹے تقریر کا دورانیہ تھا لیکن تمام سننے والوں پر ایک سکتہ سا طاری تھا۔ قاری صاحب ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے مضمون سے نہیں ہٹے اور گھوم پھر کر ان ہی تین لفظوں میں رہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے پاس علم ہے جو لوگوں میں تقسیم فرما رہے ہیں۔
            کتاب پڑھی تو قاری صاحؒب یاد آئے۔ دل میں خیال آیا کہ آج بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے مضمون سے سات سو صفحے لکھنے کے بعد بھی نہیں ہٹتے۔ عنوان کا نام ہے حیات طیبہ۔ ہر صفحہ بلکہ ہر لائن پر حیات طیبہ موجود ہے۔ اگر کسی مضمون یا اکابر کا نام آیا بھی تو وہ بھی ضمنی آیا، حضرت جؒی کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آیا۔
          ایسے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والا طائرانہ نظر سے نہیں بلکہ طائر کی طرح اپنے محبوب کے اوپر منڈلاتا رہا، اپنے محبوب کی حرکات و سکنات نوٹ کرتا رہا اور ایسے تسلسل کے ساتھ قلمبند کرتا رہا اور ان کو اوراق پر ایسے منتقل کیا جو کسی کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ بچپن سے لے کر سفر آخر تک ایسی معلومات فراہم کیں کہ مجھ جیسا جاہل مطلق ایسا لطف اندوز ہو رہا تھا اور حسرت کر رہا تھا کہ میں کتنا بدقسمت آدمی ہوں جو اتنے بڑے انسان، عالم، صوفی، درویش، ولی اللہ، مجدّد وقت کی زیارت نہ کر سکاجبکہ میں لاہور میں رہتا تھا! اب دل چاہتا ہے کہ ان سے پیار کرنے والے ہر فرد کی زیارت کروں جو اپنے پیچھے اتنے انسان چھوڑ کر گئے، پیار کرنے کے لئے!
دعا گو اور دعاؤں کا محتاج
 
38،  محمدی پارک، راجگڑھ، لاہور
٭٭٭

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو