ANTI-ADBLOCK JS SYNC کراچی ،سائیں احمد علی کی یاد میں’’ مذاکرہ و مشاعرہ‘‘ کا انعقاد ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

کراچی ،سائیں احمد علی کی یاد میں’’ مذاکرہ و مشاعرہ‘‘ کا انعقاد

کراچی ،سائیں احمد علی کی یاد میں’’ مذاکرہ و مشاعرہ‘‘ کا انعقاد کراچی( اسٹاف رپورٹر) اکادمی ادبیا ت پاکستان کے زیراہتمام ہندکوزبان کے سب سے بڑے شاعر علامہ اقبال کے ہم عصر سائیں احمد علی کی یاد میں’’ مذاکرہ و مشاعرہ‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت معروف دانشور شاعر سعید الظفرصدیقی نے کی، مہمان خصوصی شگفتہ شفیق تھے ۔ اعزازی مہمان ڈاکٹر لبنیٰ عکس ، محسن سلیم تھے ۔اس موقع پر سائیں احمد علی فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے سعید الظفر صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب میں خصوصی لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ سائیں احمد علی ہندکو زبان کے ممتاز صوفی شاعر کی حیثیت سے بہت نمایاں شناخت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اردو فارسی میں بھی جو شعر کہے جو زمانے کے دوست بدست برد سے نہ بچے سکے مگر ہندکو کلام ان کے مداحوں کی یاداشت میں محفوظ رہا ۔ کہا جاتارہا ہے کہ سائیں احمد علی اپنا کلام شایع کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔یہی سبب ہے کہ ان کا تمام کلام محفوظ نہیں ہوسکا تاہم جو کلام دستیاب ہے اس کے مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائیں احمد علی قادر الکلام شاعر تھے انہوں نے علوم و معارف کے اسرار سے پردہ کشائی کرتے ہوئے عوام و خواص میں یکساں مقبولیت حاصل کی انہیں ہندکو کے مقبول ترین شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔اس موقع پرمہمان شفگتہ شفیق نے کہاکہ سائیں احمد علی ہندکو کے غالب ہونے کا خطاب حاصل کرچکے تھے یہ خطاب ان کو ان کی شاعری کے کمال اور ذہن و تخیل کی عظمت ورفعت کی وجہ سے ہی دیا گیا مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ غالب کی زبان پر بھی عربی فارسی کا گہرا اثر پایاجاتاہے۔ اور کچھ یہ ہی حال سائیں کی ہندکو شاعری کا بھی ہے جس میں فارسی تراکیب اور عربی الفاظ کی ایسی بھرمار ہے کہ ہندکو اسلوب کا ٹکسالی پن محروم ہوتادکھای دیتا ہے ۔ سائیں کی سوچ آفاقی اور مزاح قلندرانہ تھا انہوں نے اپنے باطنی حال کو ملامتی رنگ میں چھپایا ہوا تھا وہ بے نیاز قسم کے انسان تھے۔ سائیں کے فکری عمق میں اتر کر معلوم ہوتاہے کہ سائیں ایک راز تھا جو کسی پر کھلا اور کسی پر نہیں کھلا۔قادربخش سومرو ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ سائیں احمد علی پشاور میں ۱۴۸۱ ؁ء میں پیداہوئے اور انتقال ۰۳۹۱ ؁ سائیں نے اپنا تخلیق سائیں رکھا تھا اس پر بھی اظہار خیال ہوتا ہے عام خیال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عجزو اتکسار اور خاکساری کی وجہ سے تخلیق اختیار کیا سائیں قلندر درویش اور صوفی و عاشق شخص تھا بلکہ اس کی درویشی میں جمالی سے زیادہ جلالی کیفیت زیادہ پائی جاتی تھی انکی مختصر سوانح کے جو حالات دستیاب ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر عالم فیض و جنون میں آکر ہر جلالی انداز میں محافل شعروسخن میں نمودار ہوتے تھے ۔ ان کی آواز میں کڑک اور قوت تھی اور وہ اپنے سامنے بڑے سے بڑے استاد کا چراغ نہیں جلنے دیتے تھے۔ آخر میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔جس میں پاکستان کے نامور شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔ ان میں سعید الظفر صدیقی، شفگتہ شفیق، ڈاکٹر لبنیٰ عکس، محسن سلیم، اقبال سہیوانی، عارف شیخ عارف، تاج علی رعنا، دلشاد احمد دہلوی، تنویر حسن سخن، سجاد احمد سجاد، محمد رفیق مغل، سید مہتاب شاھ، الطاف احمد ، صدیق راز ایڈوکیٹ، سجاع الزمان خان، محمد شاہد، ڈاکٹر رحیم ہمراز، الحاج نجمی، شاید الیاس شامی، قمر جہاں قمر، جمیل ادیب سید، فرح کلثوم، محمد علی زیدی نے اپنا کلام سُنا کر سائیں احمد علی کی عظمت کوخراج تحیسن پیش کیا۔ قادربخش سومرو ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نے آخر میں اکادمی ادبیا ت پاکستان کے جانب سے شکریہ ادا کیا۔
Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

خبردار یہاں کلک نہیں کرنا

https://bookpostponemoreover.com/ecdzu4k4?key=838c9bda32013cb5d570dc64b3fd3a82

آپکا شکریا

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو