ANTI-ADBLOCK JS SYNC مفکر پوٹھوہار محمد انور فراق قریشیؒ ~ کنوز دل

قارہین! تصوف کے موضوع پر آپ کتابوں کی فرمائش کر سکتے ہیں

مفکر پوٹھوہار محمد انور فراق قریشیؒ

ادب ہمیشہ فقر کے زیر اثر پروان چڑھتا ہے یہ فقرہ کسی بڑے ادیب یا فقیر کا نہیں بلکہ مجھ بندہ حقیر کا ہے جس کے ضمن میں آج ایک تحریر لکھ رہا ہوں امید ہے کہ قارئین اس تحریر کو اس جملے کے مطابق پائیں گے۔تحصیل کہوٹہ وتحصیل کلرسیداں کے آخری گاؤں نوتھیہ کو ولی کامل حضرت بابا غلام بادشاہ ؒ کے حوالہ سے پوٹھوہار بشمول پہاڑ میں ایک خاص حیثیت و مقام حاصل ہے۔پوٹھوہار کے خانقاہی نظام میں نوتھیہ شریف کو ایک معتبر اور مستند حوالہ مانا جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی موضع نوتھیہ شریف کو پوٹھوہاری ادب کے حوالے سے ایک الگ اور منفرد ترین حیثیت حاصل ہے اور وہ میانہ موہڑہ شریف کی علمی و ادبی و فکری شخصیت مفکر پوٹھوہار عالم باعمل اور شاعر بے بدل جنابِ محمد انور فراق قریشی ؒ کی وجہ سے ہے۔انور فراق قریشی رح 1925ء میں مولانا مفتی عبدالعزیز ؒ کے گھر میں تولد ہوئے خاندانی حوالے سے آپ ہاشمی قریشی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں آپ کے تین بھائی اور ایک ہمشیرہ تھیں آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد محترم اور والد محترم کے دوست مفتی علامہ فضل کریم ؒ سکنہ ڈیرہ خالصہ سے حاصل کی جبکہ مڈل کلاس تک سرکاری سکول سے تعلیم بھی حاصل کی فطری طور پر آپ کا گھرانہ دینی معلمین کا گھرانہ تھا اس لیے آپ کا میلان بھی دین کی طرف ہی تھا جو کہ آپ کو 1942ء میں محض سترہ سال کی عمر میں شاعری میں لے آیا اولین طور پر آپ نے اردو شاعری کی چونکہ صرف و نحو اور عروض کے قواعد و ضوابط ازبر تھے اس لیے آپ کی اردو شاعری غزل اور قطعات دہلی سے شائع ہونے والے ادبی رسالہ”شمع” میں چھپتے رہے ہیں جو کہ آپ نے پاکستان بننے سے پہلے جالندھر ہندوستان میں کچھ وقت نوکری کی جبکہ پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا جس کے بارے میں آپکی شاعری بھی آپکی مطبوعہ کتاب گوہرِ فراق میں موجود ہے آپ کے ایک شعر کا مصرع ہمیشہ مجھے یاد رہتا ہے۔
نہ آؤ ڈیرہ نہ ڈیرے نیں سکھ انور
خالی بوہڑ مدرسہ نشانی رہ گئی۔
شاعری کے حوالے سے آپ کا میلان مذہبی اور معاشرتی و سماجی تھا جس پر آپ نے کمال فکر کو آنیوالی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ کیا ہے۔ استاد کے بارے میں آپ کے فرزند محمد زبیر قریشی کا کہنا ہے کہ آپ نے باقاعدہ طور پر کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا بہرحال صوبیدار اشرف مرحوم کے حوالے سے ایک روایت ملتی ہے کہ آپ نے قاضی محبوب عظمت سکنہ گاڑ سے کچھ اصلاح لی تھی (واللہ اعلم)آپکی شادی قریشی ہاشمی خاندان میں درکالی شیر شاہی میں ہوئی جس سے آپ کے ہاں چار بیٹیاں اور دو بیٹے تولد ہوئے جن میں بڑے بیٹے بچپن میں ہی انتقال کر گئے جبکہ محمد زبیر قریشی جو خود بھی اہل علم و ادب شعرخوان ہیں بقیدِ حیات ہیں آپ کے بھتیجے محمد کلیم اوائل جوانی میں فوت ہوئے جس کا فراقؒ نے کافی اثر لیا اور بے شمار سوز و گداز میں ڈوبا ہوا کلام لکھا جو آج بھی زبان زد عام ہے۔آپ نے اپنی زندگی میں اپنی شاعری کاایک چھوٹا کتابچہ”اشک فراق” کے نام سے 1961ء میں چھپوایا جس میں آخری صفحات پر راولپنڈی کے شاعر فردوسی مرحوم و مغفور کے کچھ چوبرگے اور رباعیات بھی شامل تھیں۔آپ کا آبائی شہر چوکپنڈوری بنتا تھا جہاں آپ نے کافی وقت گزارا چونکہ آپ کے دوستوں میں ہیڈ ماسٹر راجہ محمد اکرم مرحوم سکنہ بھکڑال صوبیدار راجہ محمد اشرف مرحوم سکنہ جبہ داخلی گنگوٹھی ماسٹر اصغر مرحوم سکنہ چھپر ظہیر عالم سکنہ مہیرہ سنگال شامل تھے جن کا بھی تعلق چوکپنڈوری شہر ہی سے بنتا تھا۔اس کے علاؤہ راجہ اسماعیل مرحوم و راجہ شفیع مرحوم ساکنائے کھڑکن سوہاوہ اور اردو زبان کے مایہ ناز شاعر جنابِ سید رئیس امروہوی ؒ بھی آپ کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے جبکہ سید رئیس امروہوی ؒ کا فراق قریشی ؒ کی وفات پر لکھا گیا مرثیہ آپ کی تربت کے کتبے پر کندہ ہے۔آپ نے 1963ء تا 1966ء نوتھیہ میں پرچون کی دکان ڈالے رکھی جبکہ 1967ء میں حیدرآباد بسلسلہ روزگار مقیم ہوگئے آپ سگنل میں وائرلیس آپریٹر بھرتی ہوئے اور 1968ء تا 1970 ء کوئٹہ نوکری کی جہاں اس وقت کے ثقہ راویوں کے مطابق وہاں پوٹھوہار کی ادبی اشرافیہ قیام پذیر تھی۔ وہی آپ کو عارضہ جگر کے لاحق ہونے کا انکشاف ہوا اور آپ واپس پوٹھوہار تشریف لے آئے جہاں 14جون 1971ء بوقت سحر محض 45 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے اور یوں پوٹھوہار کے مفکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔سائیں احمد علی ایرانی پشوری پوٹھوہاریؒ کے بعد انکی فکر رسا کو بام عروج پر پہچانے والی شخصیت بلا شک و شبہ حضرت محمد انور فراق قریشی ؒ ہی تھے آپ کے تلامذہ کے بارے میں بھی بقول محمد زبیر قریشی کے کوئی مستند حوالہ نہیں ہے البتہ عوام الناس سردار خداداد دکھیا ؒ غضنفر دکھی مرحوم اور حبیب شاہ بخاری کو آپکے تلامذہ میں شامل کرتے ہیں (واللہ اعلم) جبکہ آپ کی شاعری اور شخصیت سے متاثر ہو کر بابائے پوٹھوہار باوا محمد جمیل قلندر ؒ اور جنابِ سائیں محمد فیاض ویران مدظلہ العالی نے شاعری کا آغاز کیا۔آپکی برسی کی تقریبات بہت سال منائی جاتی رہی ہیں جہاں ملک اور پوٹھوہاری ادب کے شہرہ آفاق کلام لکھنے والے شعراء و ادباء تشریف لاتے رہے جن میں فخر ایشیا جنابِ اللہ دتہ جوگی جہلمی ؒ بھی شامل ہیں۔ آپکی دو عدد کتب کی اشاعت ہو چکی ہے جن میں ایک ”سخن فراق” 2004ء اور ”گوہرِ فراق” 2012ء جسکی تقریز اردو اور پنجابی کے صف اول کے شاعر جنابِ پروفیسر انور مسعود نے لکھی اور اپنے بے الفاظ سے مفکر پوٹھوہار محمد انور فراق قریشی رح کی ادبی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا شامل ہے جو تشنگانِ علم و ادب کے لیے ایک عظیم تحفہ ہیں محمد زبیر قریشی باقی ماندہ کلام کو بھی یکجا کر کے اشاعت کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔محمد انور فراق قریشی ؒ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے آپ بیک وقت ایک عالم دین، صوفی شاعر، ادیب اور مفکر تھے۔ فراق ؒ مشاعروں میں کم ہی شرکت فرماتے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نے مشاعرہ سنایا ہی نہیں بہت سے مشاعروں میں شرکت فرما کر آپ نے اپنے سخن سے سامعین عوام و خواص کو نئی سوچ سے آگاہی حاصل کرنے کی جستجو میں مدد فرمائی۔ آپ پوٹھوہار اور پوٹھوہاری ادب کے لیے ایک عظیم الشان حوالہ ہیں جن کے نام نامی کے بغیر پوٹھوہاری ادب نامکمل ہے۔پوٹھوہار میں فکر سائیں رح کے علمبرداروں میں آپ کا کلام سب سے اعلیٰ و معیاری مقام رکھتا ہے۔آخر میں آپ رح کی مدح میں ایک سخن خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اجازت طلب کرتا ہوں۔
مفکر،مدبر، ادیب، شاعر،
عجب طرہ سیاق و سباق انور
میری مٹی خمیر دے نال رشتہ،
ادبوں قرب و جوار دا ساق انور

فن و ادب وچ اوج کمال رکھدا،
شاہ سوار اے سخن براق انور
فخر ادب پوٹھوہار حقیر کہندا،

جس دا نام قریشی فراق انور 

Share:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا۔

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

لائیک کے بٹن پر کلک کریں

تازہ ترین اشاعتیں

بلاگ آرکائیو

بلاگ آرکائیو