خطہ پوٹھوہار و کشمیر کی سرزمیں جہاں دیگر فنون کے ماہرین کا مرکز ہے وہاں شعراء کے مسکن کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ایسے شعراء کہ جن کا کلام عقل انسانی کو فطرت کی رعنائیوں کی جانب کھینچتا چلا جاتا ہے۔ انہی شعراء میں سے ایک منفرد و ممتاز نام جناب انور فراق قریشی صاحب کا ہے آپ 28 مئی 1925ء کو میانہ موہڑہ نزد شاہ باغ پیدا ہوئے شعر کہنے اور سننے کی کیفیات کیساتھ بچپن ہی سے فطرتی لگاؤ تھا
جو رفتہ رفتہ ٹھوس حقائق کی صورت اختیار کر گیا اور اس قدر مقبول ہوا کہ امید قوی ہے سخن شناس تا قیام قیامت انور فراق قریشی صاحب کے افکار پڑھ کر اصلاح و تسکین قلب کا سامان کرتے رہیں گے۔آپ کسب حلال کی خاطر فوج اور اسکے علاوہ بہت سے شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ رہے اور خودداری کے پیکر بن کر جہان رنگ و بو میں حیات جاودانی کے ایام بسر کرتے رہے۔
سینکڑوں مضامین پر مشتمل ہزاروں اشعار سپرد قلم کر کے ثقافت پوٹھوہار پر احسان عظیم فرمایا یقیناً آپ کی اس قربانی کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔آپ کے کلام کو تقریباً ہر شعر خوان نے پڑھا ہوگا مگر جس تواتر و تسلسل کیساتھ شہباز پوٹھوہار راجہ ساجد محمود صاحب نے آپ کے کلام کا پرچار کیا راقم الحروف کی نظر میں چوہدری صاحب اور آپ کے صاحبزادے کے بعد کوئی دوسری شخصیت نہیں۔شہباز پوٹھوہار کی شاید ہی کوئی محفل ہو جو قریشی صاحب کے کلام سے خالی نظر آئے اگر راجہ صاحب کو”محافظ کلام قریشی“ کہا جائے تو بے
جا نہ ہوگا کیونکہ قریشی صاحب نے بالخصوص اصلاح معاشرہ کے حوالے جو کلام لکھا اس کو جابجا محافل میں پیش کرنے کا اعزاز آپ ہی کو حاصل ہے اور فی زمانہ کہ جب لوگ ناچ کود اور گانوں پر رقص کو ترجیح دیتے ہوں پوری جرأت کیساتھ اصلاح معاشرہ کے موضوع پر مسلسل کلام پیش کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔قریشی صاحب کی روح یقیناً راجہ صاحب کی اس کاوش پر بہت خوش ہو گی کیونکہ آپ کے کلام و پیغام کو عام کرنے میں راجہ صاحب کا کردار نمایاں ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب کریم انور فراق قریشی صاحب کی بخشش فرمائے اور راجہ صاحب کو صحت و سلامتی کیساتھ عمر دراز سے نوازے
محمد انور قریشی شعر کی کتاب چاے
جواب دیںحذف کریںپھٹوری شعر
جواب دیںحذف کریںجی
جواب دیںحذف کریںپھٹوری کتاب
جواب دیںحذف کریں