اسلامی
تصوف کی حقیقت
تصوف کیا ہے:۔لغت کے اعتبار سے تصوف کی اصل خواہ
صوف ہو اورحقیقت کے اعتبار سے اسکا رشتہ چاہے صفا سے جا ملے ،اس میں شک نہیں کہ یہ
دین کاایک اہم شعبہ ہے جسکی حساس خلوص فی العمل اور خلوص فی النیت پر ہے اور جس کی
غایت تعلق معاللہ اور حصول رضائے الٰہی ہے۔قرآن و حدیث کے مطالعہ ،نبی کریم ﷺ کے
اسوہ حسنہ سے حقیقت کا ثبوت ملتا ہے۔
عہد رسالت اور صحابہ
اکرام کے دور میں جس طرح دین کے دوسرے شعبوں تفسیر،اصول ،فقہ کلام وغیرہ کے نام
اور اصطلاحات وضع نہ ہوئیں تھیں،ہر چند کے
انکے اصول کلیات موجود تھے،اور ان عنوانات کے تحت یہ شعبے بعد میں مدون ہوئے،اسی
طرح یہ دین کا ہم شعبہ بھی موجود تھا،کیونکہ تزکیہ باطن خود پیغمبرﷺکے فرائض میں
شامل تھا،صحابہ کی زندگی بھی اسی کا نمونہ تھی ،لین اسکی تدوین بھی دوسرے شعبوں
کیطرح بعد میں ہوئی ،صحابیت کے شرف اور لقب کی موجودگی میں کسی علحیدہ اصطلاح کی
ضرورت نہیں تھی،یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے لئے متکلم،مفسر،محدث،فقہیہ اور صوفی کے
القاب استعمال نہیں کئے گئے،اسکے بعد جن لوگوں نے دین کے اس شعبہ کی خدمت کیاور
اسکے حامل اور متخصص قرر پائے گئے،انکی زندگیاں زہد و القاء اور خلوص وسادگی کا
عمدہ نمونہ تھی ،ان کی غذا بھی سادہ اور لباس بھی موٹا جھوٹا اکثر صوف وغیرہ کا ہوتا تھا،اس وجہ
سے وہ لوگوں میں صوفی میں صوفی کے لقب سے یاد کئے گئے،اور ان کی نسبت سے ان سے
متعلق شعبہ دین کو بعد میں تصوف کا نام دیا گیا۔
قران حکیم میں
اسے تقوٰی ،تزکیہ او خشیۃ اللہ سے تعبیر
کیا گیا ہے،اور حدیث میں اسے "احسان "سے موسوم کیا گیا ہے،اور اسے دین
کا ماحصل قرار دیا گیا ہے،اسکی تفصیل حدیث جبرائیل علیہ السلام میں موجودہے،مختصر یہ کہ تصوف
،احسان ،سلوک اور اخلاص ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔
نبوت کے دوپہلو
ہیں ،اور دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں،کما قال تعالیٰ۔
لقد من الله
على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من
أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة
حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا
احسان کیا ہے،جب کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا،جو ان کو اسکی آیتیں پڑھ کر
سناتا ہے،اور انہیں پاک صاف کرتا ہے ،اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے
نبوت کے ظاہری پہلو کا تعلق تلاوت آیات اور تعلیم و تشریح
کتاب سے ہے،اور اسکے باطنی پہلو کا تعلق تزکیہ باطن سے ہے۔جن نفوس قدسیہ کو نبوت
کے صرف ظاہری پہلو سے حصہ وافر ملا ،وہ مفسر ،محدث ،فقیہ اور مبلغ کے ناموں سے
موسوم ہوئے ،اور جنہیں اسکے ساتھ ہی نبوت کے باطنی پہلو سے بھی سرفراز فرمایا گیا،ان
میں سے بعض غوثیت ،قطبیت،ابدالیت اور
قیومیت وغیرہ کے مناصب پر فائز ہوئے،مگر
ان سب کا سر چشمہ کتاب وسنت ہے،اللہ اور بندے کے درمیان علاقہ قائم رکھنے والی چیز
اعتصام بالکتاب والسنہ ہے،یہی مدار نجات ہے،قبر سے حشر تک اتباع ِ کتاب وسنت کا
عالم ہونا لازم قرارقرار دیا ہے ۔اگر کوئی شخص ہوا میں اڑتا آئے مگر اسکی عملی
زندگی کتاب وسنت کے خلاف ہے،تو وہ ولی اللہ نہیں بلکہ جھوٹا ہے ،شعبدہ باز ہے
کیونکہ تعلق مع اللہ کے لئے اتباع سنت لازمی ہے۔
کما قال تعالیٰ قُلْ إِن كُنتُمْ
تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے کہ اگر تم
اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو،خدا تعالیٰ تم سے محبت
کرنے لگیں گے۔
اتباع سنت کا پورا پورا حق ان اللہ والوں نے ادا کیا
،جنہوں نے نبوت کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلووں کی اہمیت کو محسوس کیا اور ہمیشہ
پیش نظر رکھا،اور تبلیغ واشاعت ِ دین کو تزکیہ نفس سے کھبی جدا نہ ہونے دیا۔تمام
کمالات اور سارے منصب صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع کی بدولت ہی حاصل ہوتے ہیں ،اور
تصوف کا اصل سرمایہ اتباع سنت ہے۔
درست فرمایا۔ اللہ اجر دے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جواب دیںحذف کریںاچھی تحریر لکھی اپ نے
جواب دیںحذف کریںخلیفہ شوکت حیات